حضرت مصلح موعودؓ کی شخصیت

جماعت احمدیہ بیلجئم کے ماہنامہ ’’السلام‘‘ جنوری و فروری 2006ء میں حضرت مصلح موعودؓ کی شخصیت سے متعلق مکرم میاں اعجاز احمد صاحب کے قلم سے ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔
محترمہ سراج بی بی صاحبہ انچارج دفتر لجنہ نے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضور جب شملہ تشریف فرما تھے تو جمعہ کا دن تھا۔ دھوبی وقت پر کپڑے نہ لایا اور گھر سے بھی کوئی دھلی ہوئی پگڑی نہ نکلی تو حضورؓ خود اپنی پگڑی دھونے بیٹھ گئے۔ حضرت سیدہ ام طاہرؓ نے بہت اصرار کیا کہ لائیں میں دھو دوں۔ لیکن حضورؓ نے فرمایا کہ میں کسی ناراضگی کی وجہ سے یہ کام نہیں کر رہا بلکہ اس لئے دھو رہا ہوں کہ ہمارے پیارے آقا حضرت رسول کریمﷺ بھی خود اپنے ہاتھ سے اس قسم کے کام کیا کرتے تھے۔
محترم شیخ محمد اسماعیل صاحب پانی پتی حضورؓ کی اپنے خدام کی دلجوئی سے متعلق چند واقعات بیان کرتے ہیں:
٭ 1924ء کا ذکر ہے کہ میں اپنے فرزند محمد احمد کو مدرسہ احمدیہ میں داخل کرنے کے لئے قادیان لایا۔ مغرب کی نماز حضور کی اقتداء میں پڑھی۔ نماز کے بعد حضورؓ واپس تشریف لے جانے لگے تو احبابِ جماعت حضور سے مصافحہ کرنے کے لئے راستہ کے دونوں طرف کھڑے ہوگئے اور حضورؓ ان کے درمیان میں سے گزرنے لگے۔ میں بھی وہاں کھڑا ہوگیا۔ مگر جس وقت میں نے مصافحہ کیلئے ہاتھ بڑھایا تو فوراً ایک اور صاحب مصافحہ کرنے کے شوق میں آگے بڑھے اور میں ان کے دھکے سے پیچھے ہٹ گیا اور حضرت صاحب آگے بڑھ گئے اور میں دیکھتا رہ گیا۔ مگر تین چار قدم آگے جانے کے بعد معاً حضرت صاحب واپس لوٹے کیونکہ آپ کو محسوس ہوگیا تھا کہ کسی شخص نے ہاتھ آگے بڑھایا تھا مگر وہ مصافحہ نہیں کرسکا۔ پس حضورؓ نے واپس ہو کر مجھ سے مصافحہ کیا میری خیریت پوچھی اور قادیان آنے کی وجہ دریافت فرمائی اور پھر تشریف لے گئے۔
٭ 1947ء میں جب حضور قادیان سے ہجرت فرما کر پاکستان تشریف لائے اور لاہور کے رتن باغ میں قیام فرمایا تو ابتدا میں بہت سے لوگ ایک انتظام کے ماتحت بسوں میں قادیان جاتے اور واپس آیا کرتے تھے۔ ایک روز شام کے وقت ایک کارکن نے لاؤڈ سپیکر کے ذریعے اعلان کیا کہ کل صبح سویرے جو قافلہ قادیان کے لئے روانہ ہورہا ہے اس میں جو آدمی شامل ہو کر جانا چاہیں وہ نماز مغرب کے فوراً بعد یہاں حاضر ہو کر اپنے نام لکھوادیں۔ چونکہ یہ اعلان لاؤڈ سپیکر کے ذریعہ کیا گیا تھا لہٰذا حضرت صاحب نے بھی اپنے کمرہ میں سنا اور فوراً ایک صاحب کے ہاتھ کہلا بھیجا کہ ابھی ابھی جو اعلان ہوا ہے وہ بالکل غلط ہے۔ میری طرف سے یہ اعلان کر دیا جائے کہ جو حضرات کل صبح قادیان تشریف لے جانے کا ارادہ رکھتے ہوں وہ نماز مغرب کے بعد ازراہ کرم دفتر میں تشریف لے آئیں تا کہ ان کے اسم گرامی نوٹ کر لئے جائیں اور سفر کیلئے جو ضروری ہدایات ہوں وہ ان کو سمجھا دی جائیں۔ حضورؓ کے اعلیٰ اور شریفانہ تخاطب کا یہ واقعہ کتنا اچھا نمونہ ہے۔
٭ ایک دعوت میں منتظمین نے حضرت صاحب کے بیٹھنے کے لئے خاص الخاص اہتمام کیا۔ دری پر ایک قالین بچھائی اور ایک بڑا تکیہ لگایا۔ کھانے کی پلیٹیں آپ کے آگے دسترخوان پر قرینے سے لا کر رکھیں۔ جب حضرت صاحب تشریف لائے تو آپؓ نے اس سازو سامان اور خاص انتظام و انصرام کو دیکھ کر فرمایا: ’’یہ تکیہ خاص طور پر میرے لئے کیوں لگایا ہے اور یہ قالین خاص میرے لئے کیوں بچھائی گئی ہے۔ اٹھاؤ ان دونوں چیزوں کو، جس طرح اور تمام احباب بیٹھے ہوئے ہیں میں بھی سب کے ساتھ اسی طرح بیٹھوں گا‘‘۔ حکم کی تعمیل میں دونوں چیزیں فوراً اٹھا دی گئیں اور حضورؓ سب لوگوں کے ساتھ دری پر بیٹھ گئے اور بیٹھتے ہی اپنے دائیں بائیں بیٹھنے والے اصحاب سے فرمایا کہ آپ صاحبان اتنے الگ الگ اور دُور دُور کیوں بیٹھے ہیں اور پھر فرمایا کہ یہ چار پانچ پلیٹیں میرے سامنے کیوں رکھی گئی ہیں جبکہ تمام حاضرین کے سامنے ایک پلیٹ ہے، یہ سب اٹھاؤ اور صرف ایک پلیٹ رہنے دو۔ میں کوئی دیو تو نہیں جو چار پانچ پلیٹیں بھر کر کھاؤں گا۔ اس کے بعد جب منتظمین نے کھانا تمام مہمانوں کے آگے رکھ دیا تو حضور بلند آواز سے فرمایا کہ کھانا سب دوستوں کے پاس پہنچ گیا ہے؟ اس پر ایک صاحب نے کھڑے ہو کر کہا کہ حضور میرے سامنے کھانا نہیں آیا۔ اس پر منتظمین کو ہدایت کی ان صاحب کو فوراً کھانا پہنچاؤ۔ ایک دو منٹ کے بعد حضورؓ نے پھر ان صاحب کو مخاطب کر کے بلند آواز سے پوچھا کہ کیا آپ کو کھانا پہنچ گیا ہے؟ جب اُن صاحب نے کہا: ہاں حضور پہنچ گیا ہے تب حضور نے فرمایا کہ کھانا شروع فرمائیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں