حضرت مصلح موعودؓ کی چند یادیں

ماہنامہ ’’مصباح‘‘ ربوہ فروری 2009ء میں حضرت مصلح موعودؓ کی یادوں کے حوالہ سے حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کی ایک نادر تحریرشائع ہوئی ہے۔ اسی حوالہ سے حضرت سیدہؓ کا ایک مضمون قبل ازیں ’’الفضل انٹرنیشنل‘‘ 18؍فروری 2005ء کے اسی کالم میں شامل اشاعت ہوچکا ہے۔
حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ بیان فرماتی ہیں کہ حضورؓ نے تمام عمر مجھ سے محبت کی بلکہ سب بہن بھائیوں سے بڑھ کر اپنے پیار سے مجھے شرف بخشا۔ ایک اُن کا احسان جس کی بابت جب میں سوچتی ہوں تو دل آج تک شکر گزاری کے جذبات سے بھر جاتا ہے وہ یہ ہے کہ جس وقت حضرت مسیح موعودؑ کا وصال ہوا۔ اس وقت باوجود اس کے کہ سب دوسرے لوگ بھی موجود تھے، مَیں دروازہ کھول کر اندر کی جانب کھڑی ہوگئی ۔ آنکھ سے آنسو نہ نکلتا تھا۔ معلوم ہوتا تھا کہ دنیا اندھیر ہو گئی ہے اور زمین قدموں تلے سے نکلی جا رہی ہے۔ اس وقت وہ خود رو رہے تھے اور دعائیں کر رہے تھے۔ پلٹ کر مجھے دیکھا اور میرے گلے میں ہاتھ ڈال کر قریب لے گئے۔ روتے روتے میرا سر جھکایا اور کہا کہ لو پیشانی پر بوسہ دو۔ اگر اُن کا سہارا نہ ہوتا اور اگر وہ میرا خیا ل نہ کرتے تو شاید میں جھجکتی رہ جاتی اور عمر بھر پچھتاتی۔ آج وہ مبارک لب خاموش تھے جن کا اپنی پیشانی پر بوسہ دینا مجھے یاد تھا۔ آج اسی بھائی کے طفیل میں اُن کی پیشانی پر بوسہ دے رہی تھی۔
بچپن میں انہوں نے مجھ سے خاص محبت کی۔ ہمیشہ میرا خیال رکھا۔کئی آڑے وقتوں میں میری مدد کی۔ یہ تو تمام عمر کے آخر تک کے محبت کے مظاہرے ہیں جن کو میں ہر وقت یاد کرتی ہوں۔ بچپن میں تو غلطیاں بھی ہوتی ہیں۔ کبھی بڑے بھائی بہنوں کو جھڑک بھی لیتے ہوں گے۔ مگر یہاں تو محض پیار اور ناز برداری ہی تھی۔ ایک دفعہ بھی کبھی ٹیڑھی نظر سے نہ دیکھا۔ میرا بھی حال تھا کہ ہر بات پر شکایت یا ’’ابا سے‘‘ یا بڑے ’’ بھائی‘‘ سے۔
ایک دفعہ پیر منظور محمد صاحبؓ میرے استاد مرزا افضل بیگ صاحب سے گراموفون مانگ لائے اور ریکارڈ چلانے لگے۔ میں چھوٹی تھی اور وہ عجیب سے اشعار میرے لئے نئی چیز تھے ۔میں نے کہا پیر جی میری کاپی پر یہ شعر لکھ دو ۔انھوں نے بے خیالی میں لکھ دیا ۔
ایک مصرعہ یاد ہے ؎

ستم سے باز آ ظالم قیامت آنے والی ہے

میں فوراََ بھاگی اور آکر ’’بڑے بھائی‘‘ کو دکھایا کہ یہ پیر جی سے لکھواکر لائی ہوں ۔میرے ہاتھ سے کاپی لی اور وہیں کھڑے کھڑے کاپی پر لکھ دیا ؎

اگر لایا کئے ایسی گھروں کو کاپیاں بچے
تو حضرت آپ کی اک روز شامت آنے والی ہے

اور کہا اب جا کر پیر جی کو یہ دکھا دو۔ اُن دنوں وہ گول کمرہ میں ہمارے ہاں ہی رہتے تھے ۔میں نے جاکر دکھا دیا۔ پیر جی نے کہا: توبہ توبہ لاحول ولا قوۃ الّا باللہ، مجھ سے بڑی غلطی ہوگئی۔ اور چاک کرنے لگے۔ میں نے اُن کو کہا: اپنے شعر کو پھاڑ دو، بڑے بھائی کا شعر میں نہیں پھاڑنے دوں گی ۔ اس واقعہ کا بھی ہم آپس میں اکثر ذکر کرتے اور ہنسی ہوتی۔
اپنے اشعار ضرور پہلے مجھے سناتے ۔دو تین بار مصرعہ مَیں نے لگا دیا۔ اُس کو پسند کیا اور شامل کر لیا۔ شادی کے بعد جب میں آتی ۔ میری آواز سن کر یا معلوم کر کے کہ میں آئی ہوں فوراً تشریف لے آتے۔خوشبو پسند تھی خود بھی وقتِ فرصت تیار کرتے۔ مجھے ضرور لگاتے اور پسند کرواتے۔ جو بات نئی میری غیر حاضری میں ہوتی مجھے ضرور سناتے۔
جب مجموعہ ’’کلام محمود‘‘ شائع ہوا۔ مجھ سے پوچھا: ٹھیک ٹھیک تم بتائو تم کو میرا کون سا شعر سب سے زیادہ پسند ہے۔میں نے کہا ؎

حقیقی عشق گر ہوتا تو سچی جستجو ہوتی
تلاش یار ہر ہردِہ میں ہوتی کُو بہ کُو ہوتی

فرمایا: تم نے اچھا انتخاب کیا ہے۔
مَیں بہت چھوٹی تھی۔ آپ باہر ڈھاب میں کشتی چلانے گئے ہوئے تھے۔ دو لڑکے آئے اور کہا کہ میاں ٹب مانگ رہے ہیں ۔ٹب دیدیا گیا اور میں نے اس وقت اپنی زندگی کا پہلا شعر کہا ۔جب آئے تو خوشی سے لپٹ کر کہا: بڑے بھا ئی میں نے تمہارے لیے شعر بنایا ہے ( اس عمر میں ہم شعر کہتے نہیں تھے بلکہ بناتے تھے) فرمایا: بتاؤ کیا ؟ میں نے بڑے فخر سے سنایا کہ

ٹب لینا تھا ٹب لے گئے
کشتی چلانی تھی کشتی چلا گئے

اس کو بھی یاد کر کے اب تک ہنسا کرتے تھے ۔آہ! وہ کشتیٔ اسلام کا ناخدا کشتی چلاکر رخصت ہوگیا۔ خدا تعالیٰ ہمارے تمام بیڑے پا ر لگائے اور یہ کشتیا ں تمام دنیا میں دولت ایمان تقسیم کرتی پھریں۔ آمین۔
حضرت مسیح موعودؑ کو بھی علم تھا کہ مَیں ان سے اور وہ مجھ سے بہت مانوس اور بے تکلّف ہیں۔ آپ اب بڑے ہوچکے تھے اور حضرت مسیح موعودؑ سے بچپن کی بے تکلّفی سے کچھ طلب نہ کرتے تھے۔ ویسے بھی سوال کرنا آپ کو ناپسند تھا۔ مگر وہاں تو ادب کا بھی حجاب تھا۔ چند با ر مجھے ہی حضرت مسیح موعودؑ نے کہا کہ محمود کچھ خاموش اور اداس ہے تم کو بتائے گا۔تم بھائی سے پوچھو کسی چیز کی ضرورت ہے ؟۔ دو تین بار کا تو مجھے یاد ہے، ایک دفعہ میرے پوچھنے پر کہا: ’’بخاری منگادیں‘‘۔ پھر کئی جلدوں میں بہت سے پارے بخاری شریف کے آئے تھے۔ ایک بار کہا: ’’سول اخبار میرے نام جاری کرادیں ‘‘۔ وہ بھی ہوگیا۔
ایک بار حضورؑ نے بھائی جان کو جن کی نئی نئی شادی ہوئی تھی لاہور سے واپس بلا لینے کو کہا اور ساتھ ہی کہا کہ ان کا زیادہ لاہور رہنا مَیں پسند نہیں کرتا۔
حضرت مسیح موعودؑ کو آپؓ سے واضح طور پر محبت اور آپؓ کی قدر تھی۔ کم عمری میں بھی مجھ پر یہ اثر تھا کہ مبارک چھوٹا ہے، میں لڑکی ہوں اس لئے زیادہ خیال میرا رکھتے اور مبارک سے زیادہ پیار کرتے ہیں مگر اصل میں سب سے زیادہ میرے ابا کو پیارے میرے بڑے بھائی ہیں۔ ایک بار آپؓ لاہور گئے ہوئے تھے کہ کوئی شخص ترینیاں لایا۔ ایک لمبوترہ خربوزہ جس کو ترینی کہتے ہیں۔ ہماری طرف پیدا نہیں ہوتا تھا کہیں دُور سے آیا تھا۔ بہت شیریں تھا۔ حضرت مسیح موعودؑ ایک ترینی ہاتھ میں لے کر دیکھ رہے تھے اور فرمایا: میرا دل چاہتا ہے کہ اِس وقت یہ لے جا سکتا اور محمود کو دیتا۔
حضرت امّاں جانؓ سے حضرت بڑے بھائی کو بہت محبت تھی۔ایک خط میں حضرت مسیح موعودؑ نے تحریر فرمایا کہ محمود اپنی والدہ سے بہت مانوس ہے وغیرہ وغیرہ (خط میرے میاں مرحوم کے نام ہے)۔
حضرت اماّں جانؓ ایک با ر بیمار ہوئیں۔ ہم سب پریشان تھے۔ آپؓ مجھے الگ لے گئے اور کہا: اماں جان کے لئے بہت دعا کرو مگر ایک دعا میں کرتا ہوں تم بھی کیا کرو کہ ہماری اماں جان کو خدا تعالیٰ بڑی عمر دے، اُن کا سایہ ہمارے سروں پر قائم رکھے۔ لیکن ’’اب ہم پانچوں میں سے کسی کا غم اماں جان نہ دیکھیں‘‘۔ یہ دعا کبھی نہ بھولنا ۔
حضرت اماں جانؓ کی وفات ہوئی۔ میں آپ کی چھاتی سے لگ گئی۔ میرے آنسو بہنے لگے۔ مجھے سینہ سے لگا کر فرمایا: بالکل نہ رونا صبر !صبر!۔ اور آپ کی اپنی آواز بھرّا رہی تھی۔ حضرت اماں جانؓ کا سارا گھر کا سامان اور جو زیور کپڑا تھا، سب میرے سپرد کردیا اور مجھے کہا: یہ میں نے سب تم کو دیدیا ہے، میرے خیال میں یہ تمہارا حق ہے۔ میں نے کہا: میں نے آخر سب کو دینا ہے۔ یہ تبرکات ہیں۔ اماں جا نؓ میں سب کا حق ہے۔ کہنے لگے: میں نے تم کو اختیار دیا، میں نے تم کو دیا ہے چاہے دو چاہے نہ دو۔ حتی کہ جب میں نے چیزیں بانٹیں تو سب کو دیں۔ آپؓ کے حصّہ میں دو تین زیورات آئے۔ مَیں نے پیش کردئے تو جب بھی یہی کہا میں تو تم کو دے چکا ہوں۔ میں نے ان کی بچیوں کو اور ناصر احمد کو تینوں چیزیں تقسیم کردیں۔ ناصر احمد کو اس لئے کہ دراصل اماں جانؓ فرماتی تھیں کہ اب یہ چیزیں جو میری ہیں یہ سب ناصر احمد کی ہیں اور خود حضرت بھائی صاحب کو بھی اماں جان کے اس خیال کا ایک حد تک علم تھا۔
مَیں نے ایک دن کہا کہ حضرت اماں جانؓ کے کپڑوں کا تبرک بہت لوگ مجھ سے مانگتے ہیں، وہ اپنی زندگی کے آخری سال میں خود بہت تقسیم کرچکی ہیں۔ کپڑے کم ہیں اب اتنے لوگوں میں کس طرح تقسیم کروں۔ آخر ہم سب نے بھی اُن کا تبرک نشانی رکھنا ہے۔ فرمایا: اماں جان کو بھی خدا تعالیٰ نے خاص برکت دی تھی۔ اُن کا ایک رومال بھی تبرک ہے۔بیشک کرتہ کی آستین ہو یا پاجامہ کا پائنچہ ٹکڑے کر کرکے تقسیم کردو۔ برکت سے غرض ہے۔
آخری وقت بیماری اور ضعف کے زیادہ بڑھ جانے کے ایام میں بھی جبکہ آواز بھی مشکل سے نکلتی تھی جب میں جاتی مجھے دیکھ کر ہمیشہ بلا ناغہ (درّثمین کا) یہ شعر میری آمین کا پڑھتے رہے۔ ؎

ہوا اِک خواب میں یہ مجھ پہ اظہر
کہ اس کو بھی ملے گا بخت برتر

ایک د ن میں نے کہا آپ روزانہ یہ شعر پڑھتے ہیں، اچھا ہے میرے لئے دوہری دعا ہورہی ہے۔
میری دونوں بھاوجیں شب و روز خدمت میں تھیں۔ اُن کی خدمت سے خوش تھے اور ظاہر تھا کہ اُن کی قدر آپ کے دل میں بڑھ رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو اجر عظیم دے۔آمین۔ مگر یہ بہن بھائی کا لاڈ تھا کہ جب میں جاتی اکثر کہتے ’’دیکھو یہ مجھے ستاتی ہے‘‘۔ وہ کہتیں بس بہن کو دیکھا اور شکایت ہماری شروع کردی۔پھر اُن کی دلداری کرتے۔ مگر یہ شکایت بڑے ناز سے ضرور ہی ہوتی تھی۔
سیدہ مہر آپا کا ایک احسان ان کی بے خبری میں ہی مجھ پر ہوگیا جو میرے دل میں نقش ہے۔ چار پانچ روز قبل یہ حالت تھی کہ آپؓ کے لبوں سے کان لگا کر میں پوچھتی کہ کیسی طبیعت ہے اور بمشکل ہلکی سی آواز ہونٹوں سے نکلتی: ’اچھا ہوں‘۔ اس آخری مہینے میں ’اچھا ہوں‘ ہی کہتے تھے ورنہ مجھے تو ہمیشہ کہتے بیمار ہوں دعا کرو بڑی تکلیف ہے، قادیان یاد آتا ہے وغیرہ مگر اب صرف یہی کلمہ ’اچھا ہوں‘ کہتے تھے۔اچھا ہونے کا وقت جو آچکا تھا ۔ خیر میں اب آواز کو ترس گئی تھی۔ دل چاہتا تھا کہ پھر ایک بار میرا نام لے کر پکاریں، پھر ایک بار وہ شعر پڑھ دیں کہ ایک دن جب میری دونوں بھاوجیں کھانا کھلانے کی کوشش کر رہی تھیں۔ اب حالت یہ تھی کہ ایک چمچہ بھی خوشی سے منہ کھول کر نہ لیتے تھے۔ غذا قریباً بند تھی۔ منتیں کر کے منہ میں چمچہ دیتی تھیں کہ ایک لے لیں اور لے لیں۔ اُس وقت مہر آپا کھلا رہی تھیں۔ میں بھی ساتھ تھی۔ میں بھی کہہ رہی تھی ایک چمچہ تو لے لیں کہ مہر آپا نے کہا دیکھیں تو آپ کی بہن کہہ رہی ہے اب تو کھالیں۔ بھلا کس کے پیارے بھائی ہیں؟فوراََ کافی بلند صاف آواز سے کہا: ’’مبارکہ کا‘‘۔ میرا دل شاد شاد ہو گیا ۔ میری جان اس محبت بھری آواز پر قربان ۔اب کہاں سے سنوں گی۔ خدا مہر آپا پر سارے فضل فرمائے۔ اگر وہ نہ کہتی تو میرا دل پھڑکتا رہ جاتا۔ دل اُن کی فرقت میں اب دن بدن زیادہ سے زیادہ بے چین ہے۔مگر اب وہ یہاں تو مل نہیں سکتے۔

’’جنت کے مسافر سے ہمیں جا کے ملیں گے‘‘

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں