حضرت مصلح موعود ؓ کی سیاسی بصیرت

ماہنامہ’’احمدیہ گزٹ‘‘ کینیڈا فروری 2005ء میں مکرم مولانا دوست محمد شاہد صاحب کا ایک مضمون شامل اشاعت ہے جس میں حضرت مصلح موعودؓ کی سیاسی بصیرت سے متعلق چند واقعات درج ہیں۔
پیشگوئی مصلح موعود میں یہ بھی بیان تھا کہ’’وہ سخت ذہین و فہیم ہوگا‘‘۔ باوجود یکہ آپ ایک خالص مذہبی و روحانی جماعت کے پیشوا تھے مگر زمانہ حاضرکے چوٹی کے مسلم زعماء کو حضرت مصلح موعود ؓ کی ذہانت و فراست کا لوہا ماننا پڑا۔
= حضرت مصلح موعودؓ نے 16؍اکتوبر 1947ء کو ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ: ’’پاکستان یا ہندوستان میں ریاست ہائے کشمیر وحیدر آباد کی شمولیت کا فیصلہ بیک وقت ہونا چاہئے۔ خواہ حکمران یا خواہ عوام کو شمولیت کے فیصلہ کا مجاز قرار دیا جائے لیکن دونوں ریاستوں کے فیصلہ کا معیار ایک ہی ہونا چاہئے۔ کشمیرکا پاکستان میں شامل ہونا اشد ضروری ہے کیونکہ اگر کشمیر ہندوستان میں شامل ہوگیا تو پاکستان کی سرحد پانچ سو میل لمبی ہوجائے گی اور حملے کا خطرہ بڑھ جائے گا۔‘‘
حضورؓ نے الفضل (19؍اکتوبر 1947ء) میں ’’کشمیر اور حیدرآباد‘‘ کے زیر عنوان ایک مفصّل مضمون بھی رقم فرمایا جس میں حکومت پاکستان کو زبردست انتباہ فرمایا کہ حیدر آباد اور کشمیر کی ریاستوں کے سوال متوازی ہیں جبکہ ہندوستانی گورنمنٹ جلد از جلد ایسے حالات پیدا کر رہی ہے کہ شاید دونوں ریاستیں ہی ہندوستان میں شامل ہوجائیں۔ پس حکومت پاکستان کو اعلیٰ سطح پر ان دونوں ریاستوں کے متعلق فوری طور پر بیک وقت ایک اصول منوا لینا چاہئے کہ وہ دو اصولوں میں سے کس کے مطابق فیصلہ چاہتی ہے۔ آیا والیء ریاست کی مرضی کے مطابق یا آبادی کی کثرت رائے کے مطابق۔ فرمایا: ’’اس اصل پر فیصلہ ہو سکتا ہے کہ ملک کی اکثریت جس امرکا فیصلہ کرے اس طرف ریاست جاسکتی ہے۔ اگر اس اصل کو تسلیم کر لیا جائے تو کشمیر پاکستان کے ساتھ ملنے پر مجبور ہوگا اور حیدرآباد ہندوستان کے ساتھ ملنے پر مجبور ہوگا۔ اگر ایسا ہوا تو پاکستان کو یہ فائدہ حاصل ہوگا کہ بتیس لاکھ مسلمان آبادی اس کی آبادی میں اور شامل ہوجائے گی، لکڑی کا بڑا ذخیرہ اس کو مل جائے گا، بجلی کی پیداوار کے لئے آبشاروں سے مدد حاصل ہوجائے گی اور روس کے ساتھ اس سرحد مل جانے کی وجہ سے اسے سیاسی طور پر بڑی فوقیت حاصل ہوجائے گی۔
پس ملک کے ہر اخبار، ہر انجمن، ہر سیاسی ادارے اور ہر ذمہ دار آدمی کو پاکستان کی حکومت پر زور دینا چاہئے کہ حیدر آباد کے فیصلہ سے پہلے کشمیر کا فیصلہ کروالیا جائے ورنہ حیدر آباد کے ہندوستان یونین سے مل جانے کے بعد کوئی دلیل ہمارے پاس کشمیر کو اپنے ساتھ شامل کرنے کے لئے باقی نہیں رہے گی سوائے اس کے کہ کشمیر کے لوگ خود بغاوت کر کے آزادی حاصل کریں۔ لیکن یہ کام بہت لمبا اور مشکل ہے۔ اور اگر کشمیر گورنمنٹ ہندوستان یونین میں شامل ہوگی تو یہ کام خطرناک بھی ہوجائے گا کیونکہ ہندوستان یونین اس صورت میں اپنی فوجیں کشمیر میں بھیج دے گی اور کشمیر کو فتح کرنے کا صرف یہی ذریعہ ہوگا کہ پاکستان اور ہندوستان یونین آپس میں جنگ کریں۔‘‘
افسوس مسلم لیگی ہائی کمان نے مصلح موعودؓ کے اس بر وقت انتباہ کو یکسر نظر انداز کر دیا۔ چنانچہ بعد کے حالات نے ثابت کردیا کہ حضورؓ کا اندازہ بالکل ٹھیک تھا اور وہی ہوا جس کا اشارہ حضورؓ نے فرمایا تھا۔
= سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے 2دسمبر1947ء سے 17جنوری 1948ء تک لاہور میں پاکستان کے مستقبل کے اہم موضوع پر چھ نہایت معلومات افروز لیکچر دئیے جن میں بالترتیب جسٹس محمد منیر، ملک فیروز خان نون، ملک عمر حیات وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی، میاں فضل حسین صاحب وزیر تعلیم اور شیخ سر عبدالقادر نے صدارت کے فرائض سرانجام دئیے۔ ان لیکچروں کو علمی طبقہ میں نہایت قدر عظمت سے سنایا گیا اور پاکستانی پریس نے اس کے اہم نکات شائع کئے۔
ایک لیکچر میں حضورؓ نے فرمایا کہ ’’مادری زبان میں تعلیم دی جائے۔ اس سلسلہ میں مشرقی پاکستان پر زور نہ دیا جائے کہ وہ ضرور اردو کو ذریعہ تعلیم بنائے ورنہ وہ پاکستان سے علیحدہ ہوجائے گا کیونکہ وہاں کے باشندوں کو بنگالی زبان سے ایک قسم کا عشق ہے۔‘‘
اگر تاریخ کا مطالعہ کریں تو علم ہوگا کہ بنگالی اردو لسانی تنازعہ ہی وہ بنیادی امر تھا جو بالآخر سقوط ڈھاکہ پر منتج ہوا۔
= حضرت مصلح موعودؓ نے اپنے ایک لیکچر میں ’’امریکہ اور پاکستان‘‘ کے عنوان سے اُس چھ ارب ڈالر کے قرضہ کے خلاف آواز اٹھائی جو پاکستان امریکہ سے لینا چاہتا تھا۔ حضورؓ کا خیال تھا کہ اس طرح پاکستان اقتصادی اور سیاسی طور پر امریکہ کا غلام بن جائے گا۔ بعد میں حالات نے ثابت کردیا کہ حضورؓ کایہ خیال کس طرح ہولناک حقیقت کا روپ دھار گیا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں