حضرت ملک غلام فرید صاحبؓ

حضرت ملک غلام فرید صاحبؓ 1896ء میں کنجاہ ضلع گجرات میں حضرت ملک نورالدین صاحبؓ کے ہاں پیدا ہوئے۔ 1908ء میں آپؓ کو حضرت مسیح موعودؑ کی زیارت کی سعادت عطا ہوئی اور 1909ء میں قادیان میں تعلیم کا آغاز کرتے ہوئے مدرسہ احمدیہ میں داخل ہوئے۔ میٹرک کے بعد اسلامیہ کالج لاہور میں داخلہ لیا۔ مختلف کالجوں کے احمدی طلبہ نے جب احمدیہ انٹر کالجیٹ ایسوسی ایشن قائم کی تو آپؓ اُس کے پہلے صدر بنائے گئے۔ 1916ء میں آپؓ نے اپنی زندگی وقف کردی اور ایم۔اے انگریزی کرکے قادیان آگئے۔ سر میاں فضل حسین صاحب نے (جو وائسرائے ہند کی کونسل کے ایجوکیشن ممبر تھے) آپؓ کو سرکاری ملازمت میں لینے کے لئے اپنا آدمی حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں بھجوایا۔ حضورؓ نے جواباً فرمایا ’’ملک صاحب میرے کام کے آدمی ہیں، آپ فلاں شخص کو لے جائیں‘‘۔
26؍نومبر 1923ء کو حضرت مصلح موعودؓ نے آپؓ کو دعاؤں کے ساتھ بطور مبلغ، جرمنی کے لئے روانہ فرمایا۔ حضورؓ نے اس موقع پر آپؓ کو مخلوق خدا کی ہمدردی اور دعائیں کرنے کی نصیحت فرمائی۔
جب جرمنی میں احمدیہ مشن بند کردیا گیا تو حضرت ملک صاحبؓ کا تبادلہ انگلستان ہوگیا جہاں آپؓ نے مسجد فضل لندن کے افتتاح کے سلسلے میں خدمت سرانجام دی۔ 8؍جولائی 1928ء کو آپؓ واپس قادیان آگئے اور پندرہ روزہ انگریزی اخبار ’’سن رائز‘‘ کے ایڈیٹر مقرر ہوئے ۔ یہ اخبار 1930ء میں ہفت روزہ کردیا گیا اور مارچ 1932ء میں لاہور منتقل ہوگیا۔ آپؓ انگریزی ماہنامہ ’’ریویو آف ریلجنز‘‘ کے ایڈیٹر بھی رہے۔ 1939ء میں آپؓ کو نصرت سکول کے مینجر کی حیثیت سے بھی خدمت کی توفیق ملی، تدریس کے فرائض بھی سرانجام دیتے رہے۔ آپؓ وقت کے بہت پابند تھے۔
آپؓ کی ایک شاندار خدمت قرآن کریم کے ترجمہ و تفسیر انگریزی کا کام ہے۔ مئی 1942ء میں حضرت مصلح موعودؓ نے ایک بورڈ مقرر کیا جس میں حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ، حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ اور حضرت ملک غلام فرید صاحبؓ شامل تھے۔ اس بورڈ نے نہایت محنت سے کام کیا اور پہلے دس پاروں پر مشتمل پہلی جلد 1948ء میں شائع کردی۔ حضرت مولانا شیر علی صاحبؓ کی وفات اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی مصروفیات کی وجہ سے حضرت ملک صاحبؓ کو تنہا یہ کام بڑھانا پڑا اور 1963ء تک پانچ جلدوں میں تین حصے شائع کئے گئے۔ پھر آپؓ نے انتہائی محنت سے ایک مختصر جلد تیار کی جو انڈیکس سمیت قریباً ڈیڑھ ہزار صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ جلد 1969ء میں شائع ہوئی۔

حضرت ملک صاحبؓ کی وفات بعمر 79 سال 7؍جنوری 1977ء کو لاہور میں ہوئی۔
حضرت ملک صاحبؓ کا حافظہ اتنا عمدہ تھا کہ آپؓ کو اپنی نوعمری کے زمانہ کی باتیں بھی اچھی طرح یاد تھیں۔ آپؓ بہت پُراثر کلام کرتے تھے۔ ایک بار کسی نے اعتراض کیا کہ حضرت مسیح موعودؑ نے انگریزوں کی کیوں تعریف کی۔ آپؓ نے جواباً فرمایا کہ ’’ذرا تصور کریں کہ آپ مع والدہ، بیوی، بہنوں، باپ، بیٹیوں اور بھائی کے جنگل میں ہوں۔ ڈاکوؤں کا ایک ٹولہ وہاں پہنچے اور وہ آپ کے سبھی مردوں کو تو مار ڈالے اور عورتوں کو اٹھا لے جانے کو ہو۔ عین اسی گھڑی فرنگی آ پہنچے اور وہ ڈاکوؤں سے آپ کے کنبہ کو بچالے۔ تو ظاہر ہے کہ آپ کے دل میں فرنگی کے لئے بے اختیار جذبہ تشکر اچھلے گا۔ حضرت مرزا صاحب ایسے شخص تھے کہ تمام جسمانی علائق سے زیادہ اُنہیں اسلام عزیز تھا۔ سکھوں کا وجود اسلام کے لئے آفت بنا ہوا تھا۔ انگریز کے آنے سے مسلمانوں کو جو عافیت اور امن حاصل ہوا، اسلام کی تقدیس بحال ہوئی تو انگریز کے اس احسان کا تشکر تھا جو مرزا صاحب علیہ السلام کے دل میں پیدا ہوا اور آپؑ نے اسی احسان کے جذبہ سے انگریز کی تعریف کی۔ نہ کہ انگریز کی طرف سے کسی جاگیر، کسی خطاب اور انعام ملنے کی بنا پر‘‘۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں