حضرت منشی اروڑے خان صاحبؓ

(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل 14 اگست 2020ء)

ماہنامہ’’تشحیذالاذہان‘‘ربوہ ستمبر 2013ء میں حضرت منشی اروڑے خان صاحبؓ کا ذکرخیر شائع ہوا ہے جو مکرم شفاقت احمد صاحب کے قلم سے مکرم نصراللہ خان ناصر صاحب کی سیرت اصحاب احمد ؑپر محرّرہ ایک کتاب سے منقول ہے۔قبل ازیں آپؓ کا ذکرخیر الفضل انٹرنیشنل 29؍ستمبر 1995ء، 18؍اپریل 1997ء اور 4؍جون 2004ء کے شماروں میں بھی کالم’’الفضل ڈائجسٹ‘‘کی زینت بن چکا ہے۔
حضرت منشی صاحبؓ 1839ء میں محلہ قصاباں کپورتھلہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد محترم محمد جیون کا انتقال آپؓ کے بچپن میں ہی ہوگیا جس کی وجہ سے آپؓ کو تعلیم چھوڑ کر کچہری میں ملازمت اختیار کرنی پڑی۔
’’براہین احمدیہ‘‘کے ذریعے آپؓ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے تعارف ہوا اور اس کتاب کو پڑھتے ہوئے آپؓ کے دل میں حضورؑ کی محبت گھر کرگئی۔ 1884ء میں آپؓ نے بٹالہ کے مقام پر حضورؑ کی زیارت کی۔ آپؓ بیعت اولیٰ میں شامل ہوئے اور رجسٹر بیعت اولیٰ میں آپ کا نام 36ویں نمبر پر درج ہے۔ آپؓ اُس وقت نقشہ نویس تھے۔
آپؓ کی ملازمت میں ترقی تدریجی تھی۔ آپؓ چپڑاسی بھرتی ہوئے تھے اور نائب تحصیل دار کے طور پر 1914ء میں ریٹائر ہوئے۔ ریاست کی طرف سے آپؓ کو خان صاحب کا خطاب ملا۔ آپؓ فرمایا کرتے تھے کہ حضرت مسیح موعودؑ نے مجھے سچائی کے کاموں میں بہادر قرار دیا تھا۔ بہادر پٹھان ہوتے ہیں جبکہ مَیں چھنبہ ذات ہوں۔ مگر حضورؑ کی بات کو سچا کرنے کے لیے خدا نے مجھے خان صاحب کا خطاب دلوایا۔
آپؓ پیسے جمع کرتے رہتے اور جب قادیان جانے کے لیے کافی ہوجاتے تو قادیان کا سفر کرتے۔ جن دنوں آپؓ سیشن جج کے دفتر میں ملازم تھے تو آپؓ نے قادیان جانے کے لیے چھٹی مانگی۔ مجسٹریٹ نے کہا کہ کام بہت ہے چھٹی نہیں دی جاسکتی۔ منشی صاحبؓ نے کہا کہ مَیں تو آج ہی دعا میں لگ جاتا ہوں۔ آخر مجسٹریٹ کو کوئی ایسا نقصان ہوا کہ وہ ہر ہفتے کے دن خود ہی حکم دیتا کہ چونکہ منشی صاحب نے قادیان جانا ہوتا ہے اس لیے کام جلدی بند کردیا جائے۔
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام اپنی کتاب ’’ازالۂ اوہام‘‘ میں آپؓ کے بارے میں فرماتے ہیں:
’’منشی صاحب محبت اور خلوص اور ارادت میں زندہ دل آدمی ہیں، سچائی کے عاشق اور سچائی کو بہت جلد سمجھ جاتے ہیں … ان کو اس عاجز سے نسبت عشق ہے۔‘‘
پنشن پانے کے بعد حضرت منشی صاحبؓ قادیان آگئے اور یہیں 25؍اکتوبر 1919ء کو وفات پائی۔ حضرت مصلح موعودؓ نے جنازہ کو کندھا دیا اور تدفین بہشتی مقبرہ میں ہوئی۔ آپؓ نے پسماندگان میں ایک بیٹی چھوڑی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں