حضرت منشی امام الدین صاحبؓ پٹواری اور حضرت کریم بی بی صاحبہؓ

(مطبوعہ انصارالدین یوکے مئی و جون 2022ء)

انور احمد رشید صاحب

حضرت منشی امام الدین صاحبؓ ریٹائرڈ پٹواری ولد میاں حکم الدین صاحب کا آبائی مسکن قلعہ درشن سنگھ تحصیل بٹالہ ضلع گورداسپور تھا جہاں آپ 1863ء میں پیدا ہوئے۔ یہ گاؤں بٹالہ سے قریباً چار میل دُور گورداسپور جانے والی سڑک پر واقع ہے۔ آپ ؓ نے ابتدائی تعلیم موضع دیال گڑھ ضلع گورداسپور میں پائی اور پرائمری کا امتحان پاس کرکے مزید تعلیم کے لیے گورداسپور بھجوائے گئے۔ تعلیم سے فراغت کے بعد محکمانہ امتحان پاس کرکے بطور پٹواری ملازم ہوگئے اور قریباً پینتیس سال تک بہت نیک نامی کے ساتھ یہ ملازمت کرنے کے بعد سبکدوش ہوئے۔
آپؓ نے 1888ء میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت کی اور 1894ء میں بیعت کرکے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے۔ ملازمت سے ریٹائرڈ ہونے کے بعد 1926ء میں باقاعدہ ہجرت کر کے قادیان آگئے اور محلہ دارالرحمت میں مستقل رہائش اختیار کر لی۔ کئی خاندان آپ کی تبلیغ سے احمدیت میں داخل ہوئے۔ تین جگہوں پر آپ کی کوششوں سے جماعتیں قائم ہوئیں۔ یعنی تلونڈی جھنگلاں، قلعہ گلانوالی،لوہ چپ۔آپ کو خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ خاص محبت تھی۔ حضرت اماں جانؓ، حضرت مصلح موعودؓ (خلیفہ ہونے سے قبل) اور دیگر افراد خاندان اقدس گاؤں میں آپ کے ہاں تشریف لے جاتے رہے۔ آپؓ کی بیان کردہ روایات رجسٹر روایات جلد 11 سے درج ذیل ہیں:
٭ حضرت منشی صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ مَیں نے1894ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دستِ مبارک پر بیعت کی۔ شام کی نماز کا وقت تھا۔ اخویم منشی عبدالعزیز صاحب اوجلوی اور بھائی جمال الدین صاحب سیکھوانی مرحوم بھی میرے ساتھ تھے۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد منشی صاحب موصوف نے میری طرف اشارہ کر کے عرض کیا: حضور ان کی بیعت لے لیں۔ حضورؑ نے فرمایا: اندر ہی آجائیں۔ جب مَیں بیت الفکر کے اندر گیا تو حضورؑ چارپائی کی پائنتی کی طرف بیٹھ گئے اور مجھے چارپائی کے سرھانے بیٹھنے کا ارشاد فرمایا۔ پہلے تو مَیں جھجکا مگر حضورؑ نے بیعت لے لی۔ حضورؑ کا یہ برتاؤ دیکھ کر مَیں حیران رہ گیاکہ کہاں وہ پِیر جن کے برابر کوئی بیٹھ نہیں سکتا اور کہاں یہ پِیر جسے اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود بنا کر بھیجا، اپنے ناچیز خادم کو چارپائی کے سرھانے بٹھاتا ہے اور خود پائنتی پر بیٹھتا ہے۔
٭ ایک دفعہ فجر کی نماز کے بعد حضرت مسیح موعودعلیہ السلام مسجد مبارک میں تشریف فرما تھے اور بعض احباب بھی حلقہ نشین تھے۔ اُس وقت میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ حضرت اقدسؑ کا دعویٰ تو مسیح موعود ہونے کا ہے، مگر مہدی جو اس زمانہ میں آنا تھا کیا وہ کوئی علیحدہ شخص ہوگا؟ اسی وقت حضور علیہ السلام نے تقریر شروع فرما دی اور بیان فرمایا کہ مَیں مسلمانوں کے لیے مہدی یعنی آنحضرت ﷺ کا بروز ہوں اور عیسائیوں کے لیے مسیح موعودیعنی حضرت مسیح ناصرؑی کا مثیل بن کر آیا ہوں۔ حضورؑ نے لمبی تقریر فرمائی جس سے میری پوری تسلی ہو گئی۔ اسی طرح اکثر دیکھا ہے کہ اگر کسی کو کوئی اعتراض پیدا ہوتا تو حضورؑ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کا علم دیا جاتا تھا اور حضور علیہ السلام اسے بذریعہ تقریر ردّ فرما دیا کرتے تھے۔
خاکسار (حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ) عرض کرتا ہے کہ انبیاء کو علمِ غیب نہیں ہوتا۔ پس ایسی روایتوں کا مطلب صرف اس قدر ہے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مامورین سے اصلاح کا کام لینا ہوتا ہے اس لیے اُنہیں بسا اوقات دوسروں کے خیالات کا علم دیا جاتا ہے یا بغیر علم دینے کے ویسے ہی اُن کی زبان کو ایسے راستہ پر چلا دیا جاتا ہے جو سامعین کے شکوک کے ازالہ کا باعث ہوتا ہے۔
٭ حضرت منشی صاحبؓ حضرت چوہدری ظہور احمدصاحب سابق ناظر دیوان کے والد ماجد تھے۔ آپؓ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ کی وفات سے چند ماہ پہلے جب میرے لڑکے عزیز ظہور احمد کی پیدائش ہوئی تو مَیں موضع لوہ چپ سے، جہاں مَیں ملازمت کے سلسلہ میں رہتا تھا،قادیان آیا تا کہ بچہ کا نام رکھاؤں۔ نماز کے بعد حضرت اقدس جلد ہی اندر تشریف لے گئے۔ مَیں نے شیخ حامد علی صاحب مرحوم سے کہا کہ مَیں اس غرض سے آیا ہوں۔ انہوں نے فرمایا مَیں ابھی حضور کو اطلاع کرتا ہوں۔ چنانچہ انہوں نے حضور کو اطلاع کر دی۔ اس اثنا ء میں مَیں نے دل میں خیال کیا کہ حضرت اقدسؑ عام طور پر باپ کے نام پر بچہ کا نام رکھتے ہیں، کیا ہی اچھا ہو کہ حضور اس بچہ کا نام میرے بڑے لڑکے نثار احمد کے نام پر تجویز فرماویں۔ مَیں اس خیال میں تھا اور اس کا ذکر دوستوں سے بھی کیا مگر انہوں نے بھی یہی کہا کہ حضور باپ کے نام پر لڑکے کا نام رکھتے ہیں۔ حافظ حامد علی صاحب نے حضور کو اطلاع دی۔ حضور مسکراتے ہوئے باہر تشریف لائے اور مجھے لڑکے کی مبارکباد دی۔ مَیں نے پانچ روپے بطور نذرانہ پیش کیے۔ حضور نے فرمایا بچہ کا نام ظہور احمد رکھیں۔ مجھے اس سے بہت خوشی ہوئی اور خیال کیا کہ کس طرح اہل اللہ کے دلوں کو اللہ تعالیٰ نے صاف بنا یا ہے کہ لوگوں کے دلوں کے خیالات ان پر ظاہر ہوجاتے ہیں۔
٭ ایک دفعہ کا ذکر ہے جب مرزا نظام الدین اور مرزا امام الدین نے مسجد مبارک کے نیچے دیوار کھینچ کر راستہ بند کر دیا تو احمدیوں کو اس سے بہت تکلیف پیدا ہو گئی۔ جس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عدالت میں چارہ جوئی کا ارشاد فرمایا۔ اس موقع پر مجھے اور اخویم منشی عبدالعزیز صاحب اوجلوی کو بھی ارشاد فرمایا کہ تم اپنے حلقوں میں سے ایسے ذی عزت لوگوں کی شہادتیں دلواؤ جو دیوار کے گزرنے سے پہلے اس راستہ سے گزرتے ہوں۔ چنانچہ مَیں اپنے حلقہ سے فقیر نمبردار لوہ چپ کو قادیان لایاکیونکہ یہاں ہی جیوری آئی ہوئی تھی۔ چنانچہ اس نے شہادت دی کہ بندوبست کے دنوں میں ہم یہاں آتے رہے ہیں اور اس راستہ سے گزرتے رہے ہیں،بعض دفعہ گھوڑوں پر سوار ہوا کرتے تھے۔مرزا نظام الدین نے اس سے شہادت سے پہلے دریافت کیا کہ تم شہادت کے لیے آئے ہو؟ فقیر نمبردار نے جواب دیا ہاں۔ اس پر مرزا نظام الدین نے اس سے سخت کلامی کی جس کے جواب میں فقیر نے کہا کہ مرزا صاحب! اگر آپ مجھے گالیاں دیں گے تو جب آپ ہمارے علاقہ میں شکار کے لیے نکلیں گے تو ہم اس سے بھی زیادہ سختی آپ سے کریں گے۔ اس پر وہ خاموش ہو گئے۔ اس واقعہ کے بعد مرزا نظام الدین جو کہ میرے پہلے سے واقف تھے، بوجہ ناراضگی ایک سال تک نہ بولے۔ ایک سال کے بعد مَیں اتفاقاً گورداسپور گیا ہوا تھا اور عدالت کے باہر ایک عرضی نویس کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ وہاں مرزا نظام الدین بھی آگئے اور کہنے لگے: منشی صاحب آپ مجھ سے ناراض کیوں ہیں اور بولتے کیوں نہیں؟ مَیں نے کہا: مَیں آپ کے ساتھ اگر بات کروں اور آپ ہمارے آقا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شان میں سخت کلامی کریں تو مجھے تکلیف ہو گی۔ کہنے لگے مَیں ان کو بزرگ سمجھتا ہوں۔ ان کی وجہ سے مجھے بہت فائدہ پہنچا ہے۔ مَیں نے اپنے باغ کی لکڑی ہزاروں روپے میں فروخت کی ہے اور اب سبزی سے ہزاروں روپے کی آمد ہوتی ہے۔ ان کے یہ بھی الفاظ تھے کہ اب مجھے ولایت کی طرح آمد ہوتی ہے۔ مَیں نے کہا اگر آپ حضرت مسیح موعودؑ کو بزرگ سمجھیں تو کب ناراضگی ہو سکتی ہے!
٭ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف ایک مقدمہ زیر دفعہ 107 چلایا گیا۔ اس کی پیشی دھاریوال میں D.C کی عدالت میں تھی۔ حضورؑ کا قیام کھنڈا متصل دھاریوال میں تھا جہاں نمبردارنی ایشور کَور کی درخواست پر حضور ان کے ہاں مہمان تھے۔ مَیں وہاں پہنچا تو حضورؑ نے فرمایا: میاں امام الدین! آپ آگئے، اچھا کھانا کھا لیں۔ مَیں نے عرض کی حضور مَیں روزہ سے ہوں۔ حضورؑ نے ارشاد فرمایا:سفر میں روزہ جائز نہیں، روزہ کھول دیں۔ چنانچہ مَیں نے اسی وقت روزہ کھول دیا۔
٭ اس مقدمے کی پیشی کے بعد جب حضورؑ واپس قادیان تشریف لانے لگے تو حضورؑ نے سیٹھ عبدالرحمن صاحبؓ مدراسی کو ارشاد فرمایا کہ آپ پالکی میں سوار ہوجائیں۔ انہوں نے عرض کی: حضور! مَیں یکہ میں جاؤں گا، حضور پالکی میں تشریف لے جائیں۔ اس پر دوبارہ حضورؑ نے فرمایا: سیٹھ صاحب! آپ کو تکلیف ہوگی، آپ پالکی میں سوار ہو جائیں مگر سیٹھ صاحب نے پھر وہی جواب دیا۔ حضورؑ کے تیسری بار ارشاد فرمانے پر سیٹھ صاحب نے پھر عرض کی کہ حضور مجھے بالکل تکلیف نہ ہو گی، حضور ہی پالکی میں تشریف لے جائیں۔حضورؑ پالکی میں سوار ہوگئے۔ مَیں حضورؑ کی پالکی کے ہمراہ تھا اور حضورؑ سے گفتگو کا شرف حاصل کر رہا تھا۔ مَیں نے عرض کی حضور! میاں محمد بخش تھانیدار (جس کے ایما اور رپورٹ پر مقدمہ چلا تھا) کہتا ہے کہ مرزا اب میرا ہاتھ دیکھے گا۔ حضورؑ نے فرمایا: امام الدین! اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا۔ اس واقعہ کے کچھ عرصہ بعد جبکہ مجھے حضور کی اس گفتگو کا خیال بھی نہ رہا تھا۔ موضع بھاگی ننگل میں ایک احمدی دوست کے ہاں چوری ہو گئی وہ میرے پاس آئے تا کہ پولیس کی معرفت چوری کا سراغ لگایا جائے۔ چنانچہ مَیں وڈالہ گرنتھیاں جہاں محمد بخش تھانیدار آیا ہوا تھا، گیا۔ وہاں مَیں نے دیکھا کہ چند آدمی لوہا گرم کر کر کے پانی میں ٹھنڈا کر رہے ہیں۔ مَیں نے دریافت کیا کہ یہ کیا کیا جا رہا ہے؟ محمد بخش صاحب نے جواب دیا کہ منشی صاحب میرے ہاتھ میں سخت درد ہو رہا ہے گو بظاہر زخم وغیرہ کوئی نہیں، کسی نے کہا ہے کہ اگر ایسا پانی پیو گے تو آرام آجائے گا۔ ان کی یہ تکلیف اس قدر بڑھی کہ ان کو موت تک لے گئی۔یہ واقعہ مَیں نے ان کے فرزند ارجمند سے، جو خدا کے فضل سے مخلص احمدی ہیں اور جن کو حضرت مسیح موعودؑ کا صحابی ہونے کا فخر حاصل ہے، بیان کیا تو انہوں نے فرمایا کہ جب ان کے والد کی تکلیف بہت بڑھ گئی تو ڈاکٹروں نے مشورہ دیا تھا کہ ان کا ہاتھ کٹوا دیا جائے۔ مگر مَیں نے اس کی مخالفت کی۔ اگر مجھے اس بات کا علم ہوتا تو مَیں ضرور ان کا ہاتھ کٹوا دیتا اور شاید وہ اس صورت میں بچ بھی جاتے۔
٭ مجھے بیعت کئے ہوئے تقریباً ایک سال ہی ہوا تھا کہ اخویم منشی عبدالعزیز صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سامنے کسی نے کہا کہ محکمہ پولیس اور محکمہ مال کے تمام ملازمین بہت برے ہوتے ہیں، یعنی پبلک کو تنگ کرتے رہتے ہیں۔ حضورؑ نے فرمایا: ایسا نہیں کہنا چاہیے۔ سارے کے سارے نہ ملازمینِ پولیس ایسے ہوتے ہیں نہ ملازمینِ مال۔ آخر میاں عبد العزیز، میاں امام الدین اور میاں محمد الدین بھی محکمہ مال میں ہیں اور چوہدری رستم علی اور ایک اور دوست کا نام لیا، وہ محکمہ پولیس میں ہیں۔
٭ ایک دفعہ مَیں نے حضرت مسیح مو عودؑ کی خدمت میں ایک بکرا چوکیدار کو دیکر بھیجا۔ اُس نے لا کر خادم کے سپرد کر دیا اور وہ حضرت اقدس کے پاس لے گیا۔ چوکیدار خادم کے حوالہ کر کے بازار میں آبیٹھا۔ حضرت صاحب کے حضور جب بکرا پہنچایا گیا تو حضورؑ نے دریافت فرمایا: کون شخص لایا ہے اور کس کی طرف سے؟ خادم نے کہا: لانے والا شخص تو جا چکا ہے۔ حضورؑ نے فرمایا: اسے تلاش کرو۔ خادم تلاش کر کے چوکیدار کو حضرت صاحب کے پاس لے گیا۔ حضرت صاحب نے دریافت فرمایا تو چوکیدار نے کہا لوہ چپ کے پٹواری صاحب نے بکرا بھیجا ہے۔ حضورؑ نے یہ معلوم کرکے فرمایا: ہاں ہم انہیں خوب جانتے ہیں، بکرا رکھ لیا جائے۔
٭ مَیں عموماً گھر میں ایک دو بھینسیں ضرور رکھا کرتا تھا اور جب وہ دودھ دینا شروع کرتی تھیں تو پہلے چند دنوں کا گھی جمع کر کے برکت کے لیے قادیان لا کر حضورؑ کی خدمت میں پیش کیا کرتا تھا۔ ایک دفعہ زلزلہ کے دنوں میں، جب حضورؑ باغ میں تشریف رکھتے تھے، مَیں گھی لے کر آیا۔حضورؑ نے دریافت فرمایا: کون لایا ہے؟ عرض کیا گیا منشی امام الدین لائے ہیں۔ حضورؑ نے فرمایا ہم انہیں خوب جانتے ہیں۔ گھی ایک مٹی کے برتن میں تھا۔ حضرت امّ المومنین نے کہلا بھیجا کہ منشی امام الدین کو کہو کہ یہ برتن ہمیں پسند ہے اور ہم نے رکھ لیا ہے۔
٭ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا جنازہ اس مکان میں جو بڑے باغ میں ہے رکھا گیا تھا۔ وہاں حضور کا شبیہ مبارک بھی دکھایا گیا۔ ایک دروازہ سے لوگ آتے اور دوسرے دروازہ سے گزرتے تھے۔ حضور کا جنازہ حضرت خلیفۃ المسیح اوّل ؓ نے بڑے باغ میں پڑھایا۔
……………………………
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے منشی امام الدین صاحبؓ کو حضرت مولوی عبدالمغنی خان صاحبؓ کا نائب مقرر فرمایا اورمنشی صاحب کئی ماہ تک سارا سارا دن پیدل سفر کر کے تندہی سے کام کرتے رہے۔ (اصحاب احمد جلد اوّل)
حضرت منشی صاحبؓ جسمانی لحاظ سے خوب توانا اور مضبوط تھے۔ تمام دانت محفوظ تھے۔عینک صرف پڑھتے وقت استعمال کرتے تھے۔ کئی کئی میل تک پیدل سفر کرلیتے تھے۔ آخر وقت تک باوجود بڑھاپے کے رمضان المبارک کے روزوں کے علاوہ نفلی روزے بھی رکھتے رہے۔ چنانچہ آپؓ نے اپنی زندگی کے آخری رمضان المبارک کے روزے بھی رکھے۔ وفات سے تین سال قبل آپ کو پیٹھ پر بڑا خطرناک کاربنکل ہوا۔ آپریشن ہونا تھا۔ آپ نے اس امر کو پسند کیا کہ بغیر کلوروفارم کے آپریشن کردیا جائے۔ چنانچہ بڑی ہمت سے بغیر کلوروفارم کے آپریشن کرایا اور بیماری کا اچھی طرح سے مقابلہ کیا۔ آپ اس بیماری سے تو صحت یاب ہوگئے، لیکن اس کے بعد عام صحت اچھی نہ رہی۔
وفات سے قبل اکثر لوگ عیادت کے لیے آتے۔ ہر ایک سے یہی کہتے کہ اب کوئی خواہش نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تمام خوشیاں دکھائیں۔ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ خاتمہ بالخیر کرے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے انجام بخیر کیا۔ پہلے عام قطعہ صحابہ میں دفن کرنے کی تجویز تھی۔ قبر تیار تھی اور میت کو قبر میں اُتارا جارہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک پرانے صحابی مکرم بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانیؓ (درویش) کے دل میں تحریک پیدا کی کہ چونکہ منشی صاحب قدیم صحابہ میں سے ہیں اس لیے قطعہ خاص میں جگہ ملنی چاہیے۔ چنانچہ بھائی جی کے ذکر کرنے پر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے بعض اَور پرانے صحابہ ؓ سے بھی شہادتیں لے کر پوری تحقیق کرنے کے بعد حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں دھرمسالہ تار دلوایا اور منظوری آنے پر آپ قطعۂ خاص صحابہ میں دفن کیے گئے۔ جنازہ میں تقریباً تمام بزرگانِ سلسلہ جو قادیان میں موجود تھے، شامل ہوئے۔ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے میّت کو کندھا دیا اور تدفین کے بعد دُعا بھی کرائی۔
حضرت منشی صاحب کی شادی حضرت کریم بی بی صاحبہؓ بنت میاں امام الدین صاحب قوم ارائیں سکنہ اوجلہ (ضلع گورداسپور) سے ہوئی تھی جنہوں نے اپنے خاوند کی تبلیغ سے ان کے چھ سات ماہ بعد 1894ء میں ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کرلی تھی۔
حضرت کریم بی بی صاحبہؓ کی زندگی کا بڑا حصہ دیہات میں ہی گذرا،اس وجہ سے آپ نے بہت سادہ طبیعت پائی تھی۔ لیکن دو خوبیاں بہت نمایاں تھیں ایک صفائی کا خیال اور دوسرے مہمان نوازی۔ آپ گھر بار کی صفائی کا بہت خیال رکھتیں۔ گاؤں کی مستورات بوجہ احترام روزانہ گھر کا کام کاج کرجاتیں۔ لیکن اس کے باوجود آپ گھر کی صفائی بسا اوقات اپنے ہاتھ سے بھی کرتیں۔ گھر کی تمام چیزیں ایک قرینہ سے رکھی ہوتیں۔ برتن خوب صاف کرکے اور چمکا کر لائنوں میں قرینہ سے رکھے جاتے اور دوسرا سامان بھی مقررہ جگہوں پر ہوتا۔
مہمان بڑی کثرت سے آتے رہتے تھے اور ان کے شایان شان خاطر و مدارات کرتیں۔ عموماً گھر میں بھینس رکھی ہوتی تھی۔ دودھ اور گھی ہر وقت موجود رہتا تھا۔ گھر میں مرغیاں بھی پالی جاتیں، اس طرح انڈے اور مرغ بھی موجود ہوتے اور آنے والے مہمانوں کی حسبِ حیثیت انہی چیزوں سے خاطر مدارات کی جاتی اور مہمانوں کے وقت بے وقت آنے سے نہ کبھی گھبراہٹ ہوتی اور نہ غیر معمولی خرچ کرنا پڑتا۔ دیہات میں یہ طریق رائج ہے کہ مہمان اپنا بستر ساتھ نہیں لے جاتے۔ صاحبِ خانہ کا فرض ہوتا ہے کہ تمام مہمانوں کے لیے حسبِ حیثیت بستر مہیا کرے۔ اس لیے تمام دیہاتی شرفاء اس کا اہتمام رکھتے ہیں۔ آپ کے ہاں بھی بڑی تعداد میں زائد بستر موجود رہتے تھے جن میں اضافہ ہوتا رہتا۔ سارا سال آپ اور دیگر گھر میں آنے والی دیہاتی مستورات گھر میں چرخے پر سُوت کات کرکپڑا تیار کرکے ان سے لحاف اور توشک کا کپڑا، دو تہیاں اور کھیس تیار کرتی رہتیں اور اس طرح بغیر کسی زیادہ خرچ کے نئے بستر تیار ہوتے رہتے۔ اور شادیوں وغیرہ کے مواقع پر یہی چیزیں تحائف کے طور پر بھی استعمال میں لائی جاتیں۔
منشی صاحب اور آپ کے اہلِ بیت دونوں کو خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بہت محبت اور اخلاص تھا اور اس خاندان کی طرف سے بھی ان پر نوازشات ہوتی تھیں۔ چنانچہ لوہ چپ، جہاں دورانِ ملازمت آپ کا قیام رہا، ایک معمولی گمنام گاؤں ہے۔ خوش قسمتی دیکھیے کہ ان کو یہ شرف حاصل ہوا کہ محض انہیں ملنے کے لیے مختلف اوقات میں حضرت امّ المومنینؓ، حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحبؓ (قبل از خلافت)، حضرت امّاں جی حرم حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ، حضرت سیّدہ امّ ناصرؓ اور خاندانِ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض دیگر افراد اور بزرگانِ سلسلہ ان کے گھر تشریف لائے۔
حضرت منشی صاحب اورحضرت مولوی رحیم بخش صاحب رضی اللہ عنہما کی کوششوں سے تلونڈی جھُنگلاں میں ایک احمدیہ پرائمری سکول جاری ہوا۔ منشی صاحب اس سکول کے مینیجر تھے۔ خلافتِ اولیٰ کے زمانہ میں حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحبؓ سکول کے معائنہ کے لیے تشریف لے گئے۔ واپسی پر حضوؓر نے یہ پسند نہ فرمایا کہ راستہ میں ان کا ایک خادم رہتا ہو اور حضوؓر اُسے اپنی تشریف آوری سے نہ نوازیں۔ چنانچہ حضوؓر موضع لوہ چپ میں منشی صاحب کے مکان پر بھی تشریف لے گئے۔ چونکہ حضوؓر کی تشریف آوری کا علم نہ تھا اس لیے منشی صاحب گھر پر موجود نہ تھے۔ آپؓ کی اہلیہ کہتی ہیں کہ مَیں نے حضوؓر کو کچھ نذرانہ پیش کرنا چاہا لیکن اتفاقاً گھر میں کوئی نقدی موجود نہ تھی۔ مَیں نے گوارا نہ کیا کہ حضوؓر اپنے خادم کے گھر تشریف لائیں اور وہ اپنی محبت اور اخلاص کا ثبوت نہ دے۔ ہمارے گھر میں چاندی کے زیور اور چیزیں موجود تھیں۔ مَیں نے اُن میں سے ایک چیز چاندی کی حضوؓر کو پیش کردی اور حضوؓر نے اُسے قبول فرمالیا۔
حضرت امّاں جانؓ بھی حضرت کریم بی بی صاحبہؓ کو جلدی جلدی قادیان آنے کی تاکید فرماتیں۔ چنانچہ آپؓ اس کی تعمیل کرتیں۔ جب قادیان جاتیں حضرت امّاں جانؓ بڑی محبت اور شفقت سے گلے لگا کر ملتیں۔ قیام و طعام کا انتظام بھی اَلدَّار میں ہی ہوتا۔ آپؓ بیان کرتی تھیں کہ ایک دفعہ مَیں قادیان گئی تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام صحن میں ایک چارپائی پر بیٹھے تصنیف میں مصروف تھے۔ میرا بیٹا نثار احمد اس وقت بالکل چھوٹا تھا اور پاس ہی فرش پر کھیل رہا تھا۔ اسی اثناء میں حضورؑ کے لیے کھانا لایا گیا۔ حضورؑ نے نہایت شفقت سے اُسے بُلا کر اپنے پاس بٹھالیا، اور اپنے ہاتھ سے اپنے کھانے میں سے اُسے بھی کھانا دیا۔
آپؓ کا یہ طریق تھا کہ کچھ گھی صاف تیار کرکے اُسے مٹی کے برتن میں ڈال کر حضرت اقدسؑ کے لیے بطور تحفہ لے جاتیں۔ اسی طرح کبھی مرغیاں اور بادام پستہ وغیرہ ڈالا ہوا گُڑ بھی لے جاتیں۔ حضورؑ اُسے بڑی خوشی سے قبول فرماتے۔ قیمت کے لحاظ سے یہ چیزیں کوئی حقیقت نہیں رکھتیں، لیکن جس اخلاص اور محبت سے ان کا اہتمام کیا جاتا اس کا اندازہ ہر شخص نہیں کرسکتا۔
حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کی شادی کے موقعہ پر حضرت ام المومنینؓ نے حضرت کریم بی بی صاحبہ کو دعوت نامہ بھجوایا کہ بچوں سمیت شادی میں شریک ہوں۔ چنانچہ آپ کو اس شادی میں شامل ہونے کا شرف حاصل ہوا۔
آپؓ کے اندر خدمتِ خلق کا جذبہ بہت نمایاں تھا۔ دیہات کی محتاج عورتوں اور غریب بچوں کی ہمیشہ امداد کرتی تھیں۔ گھر میں ایک چھوٹا سا ہسپتال کھول رکھا تھا جس کی کل کائنات صرف چند دوائیں تھیں۔ انہیں سے عورتوں اور بچوں کے امراض کا علاج کرتیں۔ آنکھوں میں ڈالنے کا لوشن، ٹنکچر آیوڈین، امرت دھارا کی قسم کی ایک دوائی، سرکہ، اجوائن، کونین کی گولیاں اور میگ سلفاس اور ایک آدھ دوائی ممکن ہے اَور بھی ہوتی ہو۔ صبح سویرے ہی دیہات کی عورتیں اپنے بچوں وغیرہ کو لے کر آنا شروع ہوجاتیں اور یہ شغل ایک دو گھنٹے جاری رہتا۔ عام عورتیں تو جانتی ہی تھیں کہ وہ یہ سب کچھ خدمت خلق کے جذبہ کے ماتحت کرتی ہیں،لیکن اگر کوئی ناواقف عورت کبھی دوائی کی قیمت پیش کرتی تو آپ اُسے بہت ناپسند کرتیں۔
گھر میں چھوٹا سا مدرسہ بھی جاری تھا جس میں بچے اوربعض مستورات بھی قرآن مجید پڑھنے کے لیے آتیں۔ پہلے انہیں قاعدہ اور پھر قرآن مجید پڑھایا جاتا۔ یہ قاعدے اور قرآن مجید منشی صاحب کی طرف سے بلا قیمت مہیا کئے جاتے۔ لیکن جب کوئی قرآن مجید ختم کرتا، تو اُسے تاکید کی جاتی کہ قادیان سے قیمتاً قرآن مجید منگوا کر گھر میں رکھے اور پڑھتا رہے۔ آپؓ ہر وقت کچھ نقدی کسی رومال میں باندھ کر اپنے پاس رکھتی تھیں۔ جمعہ کی نماز کے لیے جاتیں تو اس میں سے دو پیسے نکال کر مسجد کی ضروریات کے لیے رکھی گئی صندوقچی میں ڈال دیتیں۔ اگر صندوقچی کا انتظام نہ ہوتا تو پھر بھی اپنے دو پیسے کارکنات لجنہ اماء اللہ کو ادا کر آتیں۔
جس وقت حضرت مصلح موعودؓ نے مسجد لنڈن کے لیے مستورات میں چندہ کی تحریک فرمائی، تو آپؓ کے پاس کافی زیور موجود تھے۔ آپؓ نے غالباً صرف ایک زیور اپنی والدہ مرحومہ کی نشانی کے طور پر رکھ کر بقیہ سارا زیور اپنی خوشی سے پیش کردیا جو سیروں میں تھا۔
آپ موصیہ تھیں اور وصیت کے تمام چندوں کا حساب بہت اہتمام سے کرکے اپنی زندگی میں ہی ادا کردیا تھا۔ حصہ جائیداد کی رقم ایک دفعہ ادا کی لیکن دفتر کی غلطی سے ساری رقم کسی اور مدّمیں داخل ہوگئی۔ ایک عرصہ کے بعد اس غلطی کا پتہ چلا۔ اس کاازالہ کاغذات میں درستی کے ذریعہ بآسانی ہوسکتا تھا لیکن آپؓ نے اِسے پسند نہ کیا بلکہ دوبارہ وصیت کا چندہ داخل کردیا۔
دیگر صحابہ اور صحابیات کی طرح آپ کو بھی قادیان سے ہجرت کا بہت صدمہ تھا۔ اور باوجودیکہ آپ کی ساری اولاد کوشاں تھی کہ آپ کو ہر طرح سے آرام پہنچے آپ کی صحت دن بدن گرتی گئی۔ حالانکہ آپ کے دو داماد اور ایک نواسہ ڈاکٹر ہونے کی وجہ سے آپ کو ساری طبی سہولتیں میسر تھیں لیکن ہجرت کے صدمہ کی وجہ سے آپ کی کمزوری بڑھتی ہی گئی۔ جب ربوہ کا مرکز 1948ء میں قائم ہوا تو آپ کو یہ معلوم کرکے بہت خوشی ہوئی کہ آپ کے بیٹے چوہدری ظہور احمد صاحب کو بوجہ کارکن صدر انجمن احمدیہ ہونے کے وہاں رہائش رکھنے کا موقع ملا ہے۔ اور جب آپ کو یہ معلوم ہوا کہ موصیوں کے لیے ایک خاص قبرستان بنایا جا رہا ہے تو آپ 1948ء میں ہی اصرار کرکے ربوہ چلی گئیں حالانکہ وہاں آپ کو وہ سہولتیں میسر ہونے کا امکان نہ تھا جو دوسری جگہ حاصل تھیں۔ اور وہیں 7 ؍نومبر 1948ء کی صبح قریباً اسّی سال کی عمر میں وفات پائی۔
آپ کی خواہش تھی کہ آپؓ کا جنازہ حضرت مصلح موعودؓ پڑھائیں۔ آپ کی اس خواہش کو بھی اللہ تعالیٰ نے عجیب رنگ میں پورا کیا۔ حضرت مصلحِ موعودؓ اس وقت لاہور میں قیام فرما تھے۔ خدا تعالیٰ کی رحمت کا خاص تصرف یہ ہوا اور عین اس وقت جب کہ آپ کا جنازہ قبرستان کے قریب پہنچا تو حضوؓر ربوہ تشریف لے آئے۔ حضوؓر ربوہ پہنچتے ہی پہلے قبرستان تشریف لے گئے اور مرحومہ کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں