حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلویؓ

آپ 1280ھ میں باغیت ضلع میرٹھ میں پیدا ہوئے۔ مکتبی تعلیم میں فارسی زبان کے علاوہ درسی کتب کا بھی مطالعہ کیا۔ سترہ سال کی عمر میں تعلیم سے فارغ ہوئے ۔ انہی ایام میں کسی مقدمہ کے سلسلہ میں تحصیلدار کی کچہری میں گئے جہاں ایک تحریر جو خط طغریٰ میں لکھی گئی تھی اور کسی سے پڑھی نہ جاتی تھی، آپ نے پڑھ دی۔ اس پر تحصیلدار نے آپ کو سررشتہ داری کی ملازمت پیش کی لیکن آپ نے والدہ کی اجازت نہ ملنے پر اسے قبول نہ کیا۔ بعدازاں ریاست کپورتھلہ میں کسبِ معاش کا آغاز کیا اور عدالت میں اپیل نویس مقرر ہوگئے۔ اُس زمانہ میں صرف ایک ہی شخص کو اپیل نویسی کی اجازت ہوتی تھی اس لئے آمدنی بہت معقول تھی۔ چونکہ آپ تحریر میں بہت مشاق تھے اس لئے مجسٹریٹ آپ سے سررشتہ داری کا کام بھی لیتے تھے اور آپ کی بجائے ایک دوسرا شخص اپیل نویس کا کام کرتا تھا۔ یہ طریق آپ کے لئے اس لئے مفید تھا کہ ملازمت والی پابندی نہ تھی اور آپؓ زیادہ سے زیادہ وقت حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں گزار سکتے تھے۔
حضرت مسیح موعودؑ نے براہین احمدیہ چھپنے پر اس کا ایک نسخہ حاجی ولی اللہ صاحب کو بھیجا جو کپورتھلہ میں مہتمم بندوبست تھے۔ یہ نسخہ جو لوگ پڑھ کر حاجی صاحب کو سنواتے اُن میں حضرت منشی ظفر احمد صاحبؓ بھی شامل تھے۔ کتاب سننے اور سنانے والے سب کو ہی حضور علیہ السلام سے محبت ہوگئی تھی اور وہ اس کتاب کی فصاحت و بلاغت پر عش عش کراٹھتے تھے۔ 1884ء کے لگ بھگ حضرت منشی صاحب کی آمد و رفت قادیان شروع ہوگئی۔ آپ نے کئی بار بیعت لینے کے لئے حضورؑ کی خدمت میں عرض کیا لیکن حضورؑ نے یہی فرمایا کہ مجھے حکم نہیں۔ جب اذن الٰہی ہوا تو حضورؑ نے ایک خط آپ کو اور بعض دیگر اصحاب کو تحریر فرمایا چنانچہ آپؓ نے دیگر دوستوں کے ہمراہ لدھیانہ پہنچ کر بیعت کی توفیق پائی۔
حضرت منشی صاحبؓ کا خط بہت پاکیزہ تھا اور زودنویسی کا ملکہ بھی حاصل تھا۔ جب آپؓ قادیان میں ہوتے تو حضورؑ کے خطوط کے جوابات لکھتے، بہت دفعہ حضورؑ اشتہارات و مضامین بول کر آپؓ کو لکھواتے۔ جنگ مقدس یعنی مباحثہ آتھم بھی آپؓ اور خلیفہ نورالدین صاحب جمونی کا لکھا ہوا ہے۔ حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ نے ایک بار حضرت منشی صاحبؓ سے فرمایا کہ مجھے آپؓ پر رشک آتا ہے کیونکہ آپؓ کا زودنویس ہونا بھی حضرت صاحب سے قرب کا موجب ہے۔
حضرت منشی صاحبؓ ؓ 20؍اگست 1941ء کی صبح وفات پاگئے۔ جنازہ قادیان لایا گیا اور حضور علیہ السلام کے مزار کے قریب ترین حصہ میں تدفین عمل میں آئی۔ آپؓ کی وفات پر حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے خطبہ جمعہ کے دوران فرمایا: ’’منشی ظفر احمد صاحبؓ اُن آدمیوں میں سے آخری آدمی تھے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ ابتدائی ایام میں اکٹھے رہے اور یہ ایک عجیب بات ہے کہ یہ رتبہ پنجاب کی دو ریاستوں کو ہی حاصل ہوا ہے۔ پٹیالہ میں میاں عبداللہ صاحب سنوریؓ کو خدا تعالیٰ یہ رتبہ دیا اور کپورتھلہ میں منشی اروڑے خانصاحبؓ، عبدالمجید خانصاحب کے والد منشی محمد خان صاحبؓ اور منشی ظفر احمد خانصاحبؓ کو یہ رتبہ ملا۔ یہ چار آدمی تھے جن کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ دعویٰ ماموریت اور بیعت سے بھی پہلے کے تعلقات تھے کہ ایک منٹ کے لئے بھی دُور رہنا برداشت نہیں کرسکتے تھے۔ کپورتھلہ کی جماعت کو ایک خصوصیت یہ بھی حاصل ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اسی جماعت کو یہ لکھ کر بھیجا تھا کہ مجھے یقین ہے کہ جس طرح خدا نے ہمیں اس دنیا میں اکٹھا رکھا ہے، اسی طرح اگلے جہاں میں بھی کپورتھلہ کی جماعت کو میرے ساتھ رکھے گا … یہ لوگ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہزاروں نشانوں کا چلتا پھرتا ریکارڈ تھے۔‘‘
حضرت منشی صاحبؓ سے بہت سی روایات مندرج ہیں۔ ایک واقعہ بیعت اولیٰ سے پہلے کا ہے جب بٹالہ کے عیسائیوں نے کہا کہ ہم ایک مضمون لفافے میں بند میز پر رکھ دیتے ہیں اور حضورؑ وہ مضمون بتادیں۔ حضورؑ نے جواباً یہ شرط پیش کی کہ اگر ہم وہ مضمون بتادیں تو مسلمان ہونا ہوگا۔
اسی طرح ایک طالبعلم محمد حیات کو طاعون ہوگئی اور اُسے باغ میں بھیج دیا گیا۔ اُس کی حالت ایسی تھی کہ چھ گلٹیاں تھیں، بخار تھا اور پیشاب میں خون آرہا تھا۔ حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ نے اُس کی حالت دیکھ کر کہا کہ رات کو اس کا مر جانا اغلب ہے۔ اس پر حضرت منشی صاحبؓ سمیت چند احباب حضور علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دعا کے لئے عرض کی۔ آپؓ بیان کرتے ہیں کہ جب حضورؑ نے فرمایا میں دعا کرتا ہوں تو مَیں نے روتے روتے عرض کی کہ حضورؑ! دعا کا وقت نہیں، سفارش فرمائیں۔ میری طرف مُڑ کر دیکھا اور فرمایا: بہت اچھا۔ رات دو بجے حضورؑ مسجد کی چھت پر دوبارہ تشریف لائے اور ہم سے محمد حیات کا پوچھ کر آنے کو کہا۔ ہم نے جاکر دیکھا تو وہ قرآن شریف پڑھتا تھا اور اُس کو بالکل آرام آچکا تھا۔
حضرت منشی صاحبؓ کا ذکرخیر ماہنامہ ’’خالد‘‘ دسمبر 2000ء میں مکرم احمد طاہر مرزا صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں