حضرت منشی فیاض علی صاحبؓ

(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل 31 جولائی 2020ء)

ماہنامہ ’’تشحیذالاذہان‘‘ ربوہ نومبر2012ء میں حضرت منشی فیاض علی صاحبؓ کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔
حضرت منشی صاحبؓ 1841ء میں محلہ قریشیاں سراوہ، کپورتھلہ، ضلع میرٹھ میں پیدا ہوئے۔ قوم قریشی ہاشمی تھی۔ والد کا نام رسول بخش تھا۔ جدّامجد زاہد علی قریشی تھے جو جہانگیر بادشاہ کے دَور میں عرب سے ہندوستان آئے اور حضرت مجدّد الف ثانیؒ کی بیعت کی۔ انہوں نے اپنی اولاد کو یہ وصیت بھی فرمائی کہ جو بھی امام مہدی کو پائے وہ اُن کی بیعت کرے۔
حضرت منشی عبدالرحمٰن صاحبؓ نے منشی فیاض علی صاحب کو سراوہ سے بلاکر کپورتھلہ کی فوج میں بھرتی کروادیا تھا اور اپنے مکان میں رہائش کا انتظام بھی کردیا تھا۔ وہ ’’براہین احمدیہ‘‘ کی اشاعت کے وقت سے ہی آپ کو ترغیب دے رہے تھے کہ قادیان جاکر بیعت کرلو۔ بالآخر 21؍اگست 1889ء کو آپ نے قادیان جاکر حضور علیہ السلام کی دستی بیعت کا شرف حاصل کرلیا۔ بعدازاں آپؓ کے اخلاق سے متأثر ہوکر آپ کی اہلیہ اور ہمشیرہ نے بھی 21؍فروری 1892ء کو بیعت کرلی۔ آپؓ 1892ء کے جلسہ سالانہ میں بھی شریک ہوئے۔
آپؓ حضورعلیہ السلام کے اُن بارہ حواریوں میں شامل تھے جو سفرِ دہلی میں حضورؑ کے ساتھ تھے۔
حضرت منشی صاحبؓ حقّہ نوشی کے عادی تھے۔ جالندھر میں حضورؑ نے وعظ فرماتے ہوئے حقّہ نوشی کی مذمّت کی تو آپؓ نے عرض کی کہ حقّہ چھوڑنا مشکل ہے، دعا فرمائیں تو چھوٹ جائے گا۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا: ابھی دعا کرلیتے ہیں۔ چنانچہ دعا کروائی گئی۔ اس کے بعد آپؓ نے خواب میں دیکھا کہ آپؓ کے سامنے ایک نہایت نفیس حقّہ لاکر رکھا گیا ہے۔ آپؓ نے حقّہ سے منہ لگانا چاہا تو وہ سانپ بن کر لہرانے لگا۔ اس سے دل میں خوف پیدا ہوا اور آپؓ نے وہ سانپ مار دیا۔ اس کے بعد آپؓ کو حقّے سے نفرت ہوگئی۔
احمدیہ مسجد کپورتھلہ کا مقدمہ سات سال سے چل رہا تھا۔ ایک دن اتفاقاً حضرت منشی صاحبؓ نے حضور علیہ السلام سے دعا کے لیے عرض کی تو حضورؑ نے بڑے جلال سے فرمایا: اگر مَیں سچا ہوں اور میرا سلسلہ سچا ہے تو یہ مسجد تمہیں ہی ملے گی۔ چنانچہ آپؓ نے واپس آکر سب کو یہ خبر بتادی اور ایک غیراحمدی ڈاکٹر سے شرط بھی لگالی۔ بالآخر احمدیوں کے حق میں مسجد کا فیصلہ ہوگیا۔
آپؓ کا ایک افسر کرنل حوالہ سنگھ آپؓ کو بہت ستاتا تھا۔ آپؓ نے حضورعلیہ السلام کو دعا کے لیے لکھا تو حضورؑ نے فرمایا کہ ہر نماز کے بعد دو سو دفعہ لاحول پڑھا کرو خدا نجات دے گا۔ نتیجے کے طور پر چند دن بعد ہی خدا نے اُس کی ریٹائرمنٹ مقدّر کردی اور اُس کی جگہ اُس کا بیٹا آگیا جو آپؓ پر مہربان تھا۔
حضرت منشی صاحبؓ نے 16؍اکتوبر 1935ء کو دہلی میں وفات پائی اور بہشتی مقبرہ قادیان کے قطعہ صحابہ میں مدفون ہوئے۔ آپؓ کے تین بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں