حضرت منشی مولا بخش صاحبؓ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 8 دسمبر 2011ء میں مکرم نصراللہ خاں ناصر صاحب کے قلم سے حضرت منشی مولا بخش صاحبؓ کا تفصیلی ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔
حضرت منشی مولا بخش صاحبؓ آدم پور لدھیانہ کے رہنے والے تھے اور حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ کے چچا تھے۔ حضرت مسیح موعودؑ کے ساتھ آپ کے والد کا تعلق قیامِ کشمیر کے زمانہ سے تھا جب آپ کے والد اُسی صیغۂ فوج میں ملازم تھے جہاں حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب ایک آفیسر تھے۔ حضرت مسیح موعودؑ کے متعلق آپ کو واقفیت زمانہ تالیف ’’براہین احمدیہ‘‘ کو لدھیانہ میں ہوئی۔
حضرت منشی صاحب کی تعلیم کا ابتدائی حصہ آدم پور میں گزرا اور اس کی تکمیل لدھیانہ کے مشن ہائی سکول میں ہوئی۔ جہاں آپ نے پنجاب اور کلکتہ دونوں یونیورسٹیوں میں انٹرنس کا امتحان پاس کیا۔ لیکن پھر کالج جانے کی خواہش کے باوجود طبیعت میں انکساری اور قناعت کی وجہ سے مزید تعلیم حاصل نہ کرسکے۔ تعلیم میں رکاوٹ کی دوسری وجہ یہ ہوئی کہ سکول سے فارغ ہوتے ہی آپ کی قابلیت دیکھ کر لدھیانہ مشن سکول نے آپ کو ملازمت کی پیشکش کردی۔ چنانچہ آپ نے لدھیانہ مشن سکول میں ہی کام شروع کردیا۔ بعدازاں لدھیانہ مشن سکول کی طرف سے شکارپور (سندھ) میں متعیّن ہوئے۔ شکارپور میں مختلف قسم کی تحریکیں ایسی تھیں جو انسان کو اعتدال اور اخلاق کے مقام سے گرا سکتی تھیں مگر خداتعالیٰ نے آپ کو محفوظ رکھا۔ لیکن 1886ء میں آپ نے مدرسی کا سلسلہ پسند نہ آنے پر اسے ترک کردیا اور لاہور آگئے۔
لاہور پہنچ کر آپ نے میڈیکل کالج میں داخلہ لیا۔ مگر چونکہ یہاں چیرپھاڑ کے طبّی عمل کو برداشت نہ کر سکے اس لئے دوبارہ ملازمت کا خیال پیدا ہوا اور ریلوے ایگزامینر آفس میں کلرک ہوگئے۔ پھر ملازمت کا طویل زمانہ اسی دفتر میں گزار دیا۔ آپ کا کردار نہایت اعلیٰ تھا۔ اپنے صیغہ کے ڈپٹی ہیڈ ہوکر ریٹائرڈ ہوئے۔ ماتحتوں سے برادرانہ برتاؤ کرتے تھے اور منصبی فرائض نہایت عمدگی سے بجالاتے تھے۔ اپنے سیکشن میں کبھی مذہبی تفریق نہیں ہونے دی۔ اپنی نیکی اور مذہبی فرائض کی پابندی کے لئے وہ دفتر میں بھی مشہور تھے اور نمازوں کو بھی بروقت ادا کیا کرتے تھے۔
حضرت منشی مولا بخش صاحبؓ نے حضرت مسیح موعودؑ کی تحریری بیعت 1891ء اور دستی بیعت 1892ء میں لاہور میں کی۔ آپؓ 313؍اصحاب میں شامل تھے۔ ’’ضمیمہ انجام آتھم‘‘ میں آپؓ کا نام 216 نمبر پر درج ہے۔
قبول احمدیت کے بعد 1892ء کے جلسہ سالانہ قادیان میں آپؓ شامل ہوئے اور پھر 1897ء میں مستقل قادیان آگئے۔ 1902ء اور1903ء میں آپ ایک سال کی رخصت لے کر قادیان آئے اور ادارہ الحکم میں انتظامی فرائض سر انجام دیتے رہے۔ اس وقت آپ کا یہی منشاء تھا کہ اگر ادارہ الحکم آپ کامتکفل ہو تو وہ ملازمت کو خیرآباد کہہ دیں ۔ 1909ء میں انکار خلافت کا فتنہ پیدا ہوا تو آپؓ اس سے الگ رہے اور 1914ء میں بھی خلافت ثانیہ کے ساتھ آپ کا تعلق قائم رہا۔
آپ کے عرصۂ ملازمت میں دفتر کے بعض آریہ احباب نے ایک اخبار ’’ہمدرد ہند‘‘ کے نام سے نکالا۔ اس میں آپ کے بعض مضامین شائع ہوتے رہے۔ انارکلی (لاہور) میں شام کو ہونے والی مذہبی مناظرہ کی مجالس میں بھی آپؓ شریک ہوتے تھے۔ ایک مرتبہ آپؓ نے مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب کو بھی مباحثہ کا چیلنج دیا لیکن انہوں نے اس مباحثہ کو منظور نہ کیا۔
حضرت منشی مولا بخش صاحبؓ ایک شفیق باپ تھے اپنی اولاد کی تربیت نہایت عمدگی سے کی۔ آپؓ کی پہلی بیوی 1911ء میں فوت ہو گئیں تو آپؓ نے دوسری شادی کی۔ پہلی بیوی سے تین بیٹے اور دوسری بیوی سے دو لڑکیاں اور ایک لڑکا پیدا ہوئے۔ کچھ بچوں کی نوعمری میں وفات کا صدمہ بھی برداشت کیا۔
وفات سے ایک ماہ قبل آپ تپ دق محرقہ سے بیمار ہوئے۔ بعد ازاں صحت تو ہو گئی مگر کمزوری روزبروز بڑھتی چلی گئی اور آخر 14فروری 1928ء کو قریباً 70 سال کی عمر میں آپؓ نے وفات پائی۔ آپؓ موصی تھے۔ اس لئے جنازہ لاہور سے قادیان لایا گیا اور بہشتی مقبرہ کے قطعہ خاص میں تدفین ہوئی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں