حضرت مولانا شیر علی صاحبؓ اور دعا

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 27؍اگست 2005ء میں مختلف احباب کے حوالہ سے حضرت مولانا شیر علی صاحبؓ کے بعض دلکش پہلوؤں کی تصویر کشی کی گئی ہے۔
٭ حضرت قاضی محمد عبد اللہ صاحبؓ تحریر کرتے ہیں کہ ایک روز میں نے حضرت مولوی صاحبؓ کی خدمت میں عرض کی کہ آپ میرے استاد ہیں مجھے کوئی ایسی دعا بتائیں جو میں آپ کے لئے بالالتزام جاری رکھ سکوں۔ چنانچہ آپ نے مجھے یہ دعا سکھائی جس کا ترجمہ ہے: ’’اے خدا! مجھے اور میرے بھائی کے گناہ بخش اور ہمیں اپنے جوار رحمت میں جگہ دے اور تو بے انتہا اور بار بار رحم کرنے والا ہے‘‘۔ حضرت مولوی صاحبؓ نے مجھے دعا محض اپنے لئے نہیں بتائی بلکہ مجھے بھی دعا میں شریک کرلیا۔
٭ مکرم چوہدری ناصرالدین صاحب بیان کرتے ہیں۔ 1939ء کی تعطیلات میں حضرت مولانا شیر علی صاحبؓ نے مجھ سے فرمایا کہ تم ان دنوں فارغ ہو۔ میرے دفتر میں آجایا کرو۔ چنانچہ پندرہ بیس روز تک مجھے آپ کی صحبت سے فیضیاب ہونے کا موقعہ مل گیا۔ ان دنوں آپ کی آنکھیں دکھتی تھیں۔ اس لئے آپ مجھ ہی سے کلام پاک کا ترجمہ انگریزی (ٹائپ شدہ) پڑھواتے اور نوٹ وغیرہ لکھواتے ۔ آپ کی سیرت کے بعض پہلوؤں نے مجھے خاص طور پر متاثر کیا۔ اول یہ کہ آپ ترجمہ کا کام شروع کرنے سے پیشتر وضو کرتے اس کے بعد اس کثرت سے تسبیح، استغفار اور دعا کرتے تھے کہ میں یہ منظر دیکھ کر حیران رہ جاتا اور سوچتا کہ آپ اتنی لمبی دعاؤں کے ساتھ اس عظیم الشان کام کو کس طرح ختم کر سکیں گے۔ آپؓ مجھ ناچیز کو بھی جو اس وقت کم عمر ہونے کے علاوہ محض ایک طالب علم کی حیثیت رکھتا تھا، فرمایا کرتے تھے کہ: ’’دعا کرو خدا تعالیٰ میرے گناہ معاف فرمائے۔ اور ترجمہ کا کام جلد ختم ہوجائے‘‘۔
٭ محترم مولوی محمد احمد جلیل صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ کا یہ عام معمول تھا کہ مختلف پریشان حال دوستوں اور حاجتمندوں کے لئے جن کے آپ کو خط موصول ہوتے۔ یا خود مل کر دعا کی درخواست کرتے، خود بھی دعا کرتے اور دوسرے دوستوں میں بھی دعا کی تحریک فرماتے۔ حتیٰ کے مجھ جیسے ناچیز کو بھی جب اس خدمت سے نوازتے تو میں محجوب سا ہوجاتا۔ یہ دیکھ کر حضرت مولوی صاحب فرماتے کہ: ’’دوسروں کے لئے دعا کرنے سے دعا جلد قبول ہوتی ہے اور زیادہ سے زیادہ دعا کی توفیق ملتی ہے‘‘۔
٭ محترم شیخ عبد القادر مربی سلسلہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ کا یہ معمول تھا کہ جب ڈاک آتی تو لفافہ چاک کرتے وقت یہ دعا پڑھتے جس کا ترجمہ ہے: اے خدا بہتری ہمارے لئے ہو۔ اور برائی ہمارے دشمنوں کے لئے۔
٭ مکرم عبد السلام اختر صاحب ایم اے کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ چند لڑکے گلی ڈنڈا کھیل رہے تھے۔ اسی اثناء میں حضرت مولانا شیر علی صاحبؓ وہاں سے گزرے تو ایک لڑکے نے اس زور سے ڈنڈے سے گلی کو مارا کہ وہ سنسناتی ہوئی سیدھی آپؓ کو آن لگی۔ مَیں نے غصہ کے عالم میں اس لڑکے کو آواز دی ’’ادھر آؤ‘‘۔ حضرت مولوی صاحبؓ نے میری آواز سن کر فوراً پیچھے مڑ کر دیکھا اور فرمایا: ’’بچوں کو مارنا ٹھیک نہیں، صرف سمجھا دیں کہ گزرگاہوں پر نہ کھیلا کریں‘‘۔
٭ مکرم تاج الدین صاحب لائلپوری لکھتے ہیں ایک دفعہ صادق لائبریری میں مطالعہ میں مصروف تھا حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ اپنے تحریری کام میں مشغول تھے۔ تھوڑی دیر کے بعد آپ کسی کام کے لئے باہر جانے لگے تو اپنی چھتری میرے سپرد کرتے ہوئے فرمایا کہ اس کادھیان رکھیں۔ میں بہت اچھا کہہ کر پھر مطالعہ میں محو ہوگیا۔ کچھ دیر کے بعد حضرت مولوی صاحبؓ تشریف لائے اور چھتری کے بارہ میں دریافت فرمایا جو وہاں نہیں تھی۔ مَیں نے عرض کیا کہ مجھے معلوم نہیں کہ کون صاحب چھتری لے گئے ہیں۔ اس پر حضرت مولوی صاحبؓ نے مسکراتے ہوئے فرمایا: ’’دراصل مطالعہ ایسی ہی محویت سے ہونا چاہئے‘‘۔ دوسرے روز حضرت مولوی صاحبؓ کو وہ چھتری تو مل گئی لیکن آپؓ کی اس چشم پوشی اور بردباری کی یاد میرے دل سے فراموش نہ ہوسکی۔
٭ حضرت ماسٹر فقیر اللہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کی وفات کے بعد میں بیعت کئے بغیر لاہور چلا آیا۔ پھر 1920ء میں کسی شادی کی تقریب پر میرا قادیان آنا ہوا تو حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ سے میری ملاقات ہوئی۔ آپؓ نے ازراہ ہمدردی مجھے مخاطب کر کے فرمایا: ’’ماسٹر صاحب! بعض لوگوں کی اللہ تعالیٰ کے نزدیک اتنی خدمات ہوتی ہیں کہ ان میں کوئی کمزوری بھی ہوتو اللہ تعالیٰ معاف کردیتا ہے۔ لیکن ہمیں بڑی احتیاط کرنی چاہئے کہ ہم سے کوئی کوتاہی سرزد نہ ہو۔ آپ کو بیعت کرلینی چاہئے اور مولوی صاحب کی ریس نہیں کرنی چاہئے‘‘۔ میں سمجھ گیا کہ آپؓ کا پہلا اشارہ مولوی محمد علی صاحب کی طرف ہے اور دوسرا میری طرف۔ اس نصیحت نے میرے دل کی گہرائیوں میں ایسا پائیدار اثر چھوڑا کہ بالآخر مجھے خدا کے فضل سے حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی بیعت کی توفیق نصیب ہوگئی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں