حضرت مولوی ابوالحسن صاحب بزدارؓ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 29؍اکتوبر 2008ء میں مکرم عبدالباسط صاحب کے قلم سے حضرت مولوی ابوالحسن صاحب بزدار کی سیرۃ سے متعلق ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔
ضلع ڈیرہ غازیخان میں حضرت مسیح موعودؑ کے دست مبارک پر بیعت کرنے والے اوّلین بزرگ حضرت مولوی ابوالحسن بزدار اور حضرت مولوی محمد شاہ تونسوی ہیں۔ ہر دو 1901ء سے قبل احمدیت قبول کر چکے تھے اور بعد ازاں انہی کی کاوشوں سے کئی جماعتیں قائم ہوئیں۔
حضرت ابو الحسن صاحب بزدار کا اسم گرامی عبدالرؤف اور کنیت ابوالحسن تھی اور اسی کنیت سے ہی آپ معروف ہوئے۔ والد گرامی کا نام مولوی عبدالقادر تھا جو بزدار قبائل کی جلالانی شاخ سے تعلق رکھتے تھے اور ’’گاڑ والا قاضی‘‘ کہلاتے تھے۔ عبدالقادر صاحب تکمیل تعلیم کے لئے اوچ شریف تک پہنچے تھے اور ابوالحسن صاحب نے ابتدائی تعلیم اپنے والد سے ہی حاصل کی۔ آپؓ 1857ء میں پیدا ہوئے۔ سات بھائیوں میں آپ کا نمبر دوسرا یا تیسرا تھا۔ حصول علم کے لئے تونسہ شریف بھی تشریف لے گئے۔ بعد میں ڈیرہ اسمعٰیل خان سے ہوتے ہوئے لکھنؤ پہنچ کر مولانا عبدالحئی فرنگی محل کے آگے زانوئے تلمذ تہہ کیا۔ وہاں سے دہلی جاکر میاں محمد نذیر حسین صاحب دہلوی کے مدرسہ میں علوم حدیث کی تکمیل کی۔ پھر آپ بستی رنداں (ڈیرہ غازی خان) تشریف لائے اور امام الصلوٰۃ مقرر ہوئے۔ اس دوران آپ کو ازالہ اوہام، آئینہ کمالات اسلام جیسی کتب پڑھنے کا موقع ملا جس سے آپ کے تمام شبہات کا ازالہ ہوا اور بذریعہ خط بیعت کرلی۔ 1900ء کے لگ بھگ حضورؑ کی دستی بیعت کا بھی شرف حاصل کیا۔ پھر واپسی بستی رندان تشریف لائے تو امامت کرانے سے جواب دیدیا اور اپنے قبول احمدیت کا بتایا۔ جلد ہی چند افراد کو چھوڑ کر ساری بستی احمدی ہوگئی۔ اسی طرح بستی سہرانی کے کئی گھرانے بھی احمدی ہوگئے اور قریب ہی آباد بھٹی برادری کے جد امجد نے بھی احمدیت قبول کرلی۔
آپؓ کے قبول احمدیت سے پورے علاقے میں ایک طوفان برپا ہو گیا۔ آپؓ کو ایک جھوٹے مقدمہ میں پھنسایا گیا اور کئی پابندیاں عائد کی گئیں۔ لیکن آپؓ نے دعوت الی اللہ جاری رکھی۔ آپؓ حکیم حاذق تھے۔ لمبے عرصہ تک قصبہ منگڑوٹھہ (تونسہ شریف) میں مطب بھی کرتے رہے۔ آپ کی حکمت کے حوالے سے کئی واقعات آج تک زبان زدعام ہیں۔ آپؓ نے تین شادیاں کیں۔ زوجہ اول سے تین لڑکیاں پیدا ہوئیں۔ زوجہ ثانی سے دو بیٹے ہوئے۔ جبکہ زوجہ ثالث سے چار بیٹے اور دو بیٹیاں ہوئیں۔
حضرت مولوی ابوالحسن صاحب نے 1938ء میں وفات پائی تو برادری میں موجود مخالفین نے خاندانی قبرستان میں آپ کی تدفین پر اعتراض کیا۔ بالآخر مفاہمت کی راہ یہ نکالی گئی کہ آپ کو دفن تو خاندانی قبرستان میں ہی کیا گیا مگر قدرے فاصلے پر۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں