حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 13؍اگست 2021ء)

مجلس انصاراللہ برطانیہ کے رسالہ ’’انصارالدین‘‘ لندن ستمبر و اکتوبر 2013ء میں مکرم عطاءالمومن زاہد صاحب مبلغ سلسلہ یوکے کی جلسہ سالانہ یوکے 2013ء کے موقع پر کی جانے والی تقریر شائع ہوئی ہے جس میں نیکی کے مجسمے، تقویٰ و طہارت کے پیکر، انتہائی غریب الطبع اور دل کے حلیم حضرت مولوی شیرعلی صاحبؓ کی سیرت و سوانح بیان کی گئی ہے۔


صوفی منش بزرگ حضرت مولوی شیرعلی صاحبؓ ضلع سرگودھا کے ایک چھوٹے سے گاؤں ادرحمہ میں 24 نومبر 1875ء میں پید اہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد بزرگوار حضرت مولوی نظام الدین صاحب ؓ سے حاصل کی۔ اس کے بعد اپنے بڑے بھائی حضرت حافظ عبد العلی صاحب ؓ کے ساتھ بھیرہ ہائی سکول میں داخل ہوگئے۔ انٹرنس کا امتحان آپ نے راولپنڈی سے اور بی اے، ایف سی کالج لاہور سے پاس کیا۔ اس دَور ِتعلیم میں مختلف امراض کا شکار رہنے کی وجہ سے بہت نحیف الجثہ تھے۔ اور بی اے کے امتحان کے دوران تو آپ کئی دفعہ کمزوری کی وجہ سے لیٹے رہتے اور آپ کے بھائی حضرت حافظ عبد العلی صاحب ؓ آپ کو آپ کی کتابیں پڑھ کر سنایا کرتے۔ اسی حالت میں آپ نے امتحان دیا اور پنجاب بھر میں ساتویں پوزیشن حاصل کی۔
حضرت مولوی شیر علی صاحب ؓ لاہور کی اس طالب علمی کے دَور میں قادیان تشریف لائے اور ہمیشہ کے لیے مسیح کے دَر کے غلام ہوگئے۔ اُن ابتدائی ایّام میں جبکہ ابھی آپ ہنوز لاہور میں طالب علم تھے اور رخصتوں میں کبھی کبھی قادیان آیا کرتے تھے۔ایک روز مولوی صاحب نے سوچا کہ ’’معلوم نہیں حضرت صاحب مجھے بھی پہچانتے ہیں یا نہیں‘‘۔ اتفاق سے اسی وقت حضرت مسیح موعودؑ اندر سے تشریف لائے تو حافظ حامد علی صاحب ؓ نے عرض کی کہ حضور! میں نے آٹا پسوانے جانا ہے، میرے ساتھ کوئی آدمی جائے۔ حضورؑ نے مولوی صاحب کا بازو پکڑ کر کہا ’’میاں شیر علی کوساتھ لے جاؤ‘‘۔ اس پر مولوی صاحب بہت خوش ہوئے اور بار بار فرماتے کہ حضرت صاحب مجھے پہچانتے بھی ہیں اور میرا نام بھی جانتے ہیں۔


1897ء میں حضرت مولوی صاحبؓ بی اے پاس کرنے کے بعد ہمیشہ کے لئے قادیان تشریف لے آئے۔ امتحان میں نمایاں کامیابی کی وجہ سے آپؓ کا انتخاب اعلیٰ سول سروس کے لئے ہو گیا اور قادیان میں آپ کو چٹھی ملی جس میں بطور جج عہدے کی پیشکش کی گئی تھی۔ لیکن آپؓ چونکہ خدمت اسلام کے لئے حضرت مسیح موعوؑد کی خدمت میں خود کو پیش کر چکے تھے اس لئے فوراً اس چٹھی کو پھاڑ کر پھینک دیا کہ مبادا آپ کے والد صاحب کو علم ہواور وہ اس عہدے کو قبول کرنے کے لئے اصرار کریں۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اپنے اس سادہ اور جاں نثار صحابی کے ساتھ بہت شفقت کا سلوک فرمایا اور آپؓ کے والد صاحب سے جواس موقع پر ساتھ تھے فرمایا کہ آپ بے شک چلے جائیں ہم خود ان کا خیال رکھیں گے۔ اور حضرت مولانا سے ارشاد فرمایا کہ ’’شیر علی! دودھ بہت پیا کرو۔‘‘ حضور کا یہ ارشاد آپ نے یوں گرہ سے باندھا کہ بعض اوقات روٹی بھی نہ کھاتے صرف دودھ پی لیاکرتے۔ اور بعض اوقات چوبیس گھنٹے میں سولہ سیر تک دودھ پی لیا کرتے تھے۔ حضورؑ کی توجہ اور دعاؤں سے رفتہ رفتہ صحت بہت اچھی ہو گئی تھی چنانچہ نصف صدی تک آپ کو خدمات دینیہ کی توفیق ملی۔ خدماتِ دین کے اعتبار سے آپؓ کی زندگی کو تین ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ پہلا دَور قادیان آنے کے فوراً بعد کا ہے جب آپؓ کوتعلیم الاسلام ہائی سکول کا ہیڈ ماسٹر مقرر کیا گیا۔ آپؓ کے تلامذہ میں سیدناحضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ، حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓ اور دیگر بہت سے بزرگان کے نام نامی بھی آتے ہیں ۔
حضرت چودھری سر محمد ظفراللہ خان صاحبؓ فرماتے ہیں کہ مجھے اول بار حضرت مولوی شیر علی صاحب کی زیارت کا موقع ستمبر 1905ء میں نصیب ہوا جب مَیں سکول کی تعطیلات میں اپنے والد صاحب کے ہمراہ قادیان حاضر ہو ا۔ ایک دن چوک میں ایک یکّہ کے پہنچنے پر ہر سمت سے مدرسہ کے طلباء جو چوک کے آس پاس کہیں موجود تھے مولوی صاحب، مولوی صاحب پکارتے ہوئے یکّہ کے گرد آجمع ہوئے۔ ان سب کے چہرے خوشی اور شوق سے دمک رہے تھے۔ مجھے محسوس ہوا کہ یکّہ میں آنے والے صاحب کو ئی ایسے بزرگ ہیں جو ان بچوں کو حد درجہ محبوب ہیں۔غرض شوق اور ادب کا ایک دلچسپ مظاہرہ تھا جو میرے دیکھنے میں آیا۔ جب مجھے معلوم ہوا کہ یہ آنے والے بزرگ مدرسہ تعلیم الاسلام کے ہیڈ ماسٹر ہیں اور یہ طالب علم جو پروانوں کی طرح ان کے گرد جمع ہوگئے ہیں ان کے شاگرد ہیں تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی۔ محبت اور شوق کا یہ نظارہ ایک نہایت غیر معمولی بلکہ ایک نادر تجربہ تھا۔
آپؓ کے شاگرد حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ فرماتے ہیں : وہ صرف معلّم ہی نہیں تھے بلکہ مربیّ اور والدین سے بڑھ کر مربیّ۔ اسی تربیت کا میری روح پر اثر ہے کہ میں روزانہ ان کے لئے دعا کرنا ضروری خیال کرتا ہوں۔ حضرت مولوی صاحبؓ ہر ضروری مسئلے پر اپنا ہاتھ میرے کان کی طرف بڑھاتے اور باریک سی چٹکی لے کر فرماتے یاد رکھنا کہ اس مسئلے پر شیرعلی نے کان کھینچے تھے۔
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ فرماتے ہیں:حضرت مولوی صاحبؓ کا ہر شاگرد گویا آپؓ کا عاشق زار تھا کیونکہ ان کے وجود میں طلباء کونہ صرف ایک قابل ترین استاد بلکہ شفیق ترین باپ بھی میسر آگیا تھا۔ مَیں نے اکثر دیکھا ہے کہ ان کے شاگرد جن میں خاکسار بھی شامل ہے بسا اوقات ان کے ذکر پر قلوب میں رقّت اور آنکھوں میں آنسو محسوس کرتے ہیں۔
آپؓ کی خدمات جلیلہ کا دوسرا دَور وہ ہے جب حضرت مولوی صاحبؓ ریویو آف ریلیجنز کے ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ اس وقت آپ کے قلم سے ایسے عظیم الشان مضامین نکلے جو سلسلہ کے لٹریچر میں ایک خاص شان رکھتے ہیں۔ یہ ٹھوس اور عالمانہ مضامین اس قدر بلند پایہ تھے کہ غیر بھی آپ کے علمی مقام کا اعتراف کیے بغیر نہ رہ سکے۔ 1909ء اور 1910ء کے پرچوں میں شائع ہونے والے مضمون ‘اشاعت اسلام’ کو اتنی مقبولیت حاصل ہوئی کہ امرتسر کی ایک مشہور فرم نے اسے کتابی شکل میں وسیع پیمانے پر شائع کیا۔ یہ مضمون ریویو کے قریباً 320 صفحات پر پھیلا ہوا تھا۔
آپ کا ایک اَور عظیم الشان علمی کارنامہ کتاب ’’ینابیع الاسلام‘‘ کا جواب ہے۔ یہ کتاب چرچ مشن سوسائٹی کی طرف سے جلفہ (ایران) میں تعینات پادری W.St.Clair-Tisdall نے فارسی زبان میں لکھی۔ اس کتاب کو مستشرق ولیم میور نے پادری فینڈر (مصنف میزان الحق) کی علمی خدمات کے برابر قرار دیااور خود اس کا انگریزی زبان میں ترجمہ The Sources of Islam کے نام سے کیا۔ حضرت مولوی صاحبؓ نے اس کا ایسا تحقیقی اور مدلّل جواب دیا کہ اس کے تمام تاروپود بکھیر کر رکھ دیے۔ اسی طرح اسلام میں ارتداد کی سزا کے موضوع پر آپؓ کی معرکہ آرا تصنیف آپؓ کی علمی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے 1926ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر حضرت مولوی صاحبؓ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ’’ایک تو ان کی انگریزی کی قابلیت وہ چیز ہے جو اَوروں میں نہیں ۔ اس کے علاوہ یہ قابلیت ان میں ہے کہ وہ مضمون پر حاوی ہو جاتے ہیں ۔ ان کے مضمون پڑھنے والے دوستوں نے دیکھا ہو گا کہ وہ کس طرح مضمون کی باریکیوں تک جا پہنچتے ہیں اور کوئی پہلو اس کا باقی نہیں چھوڑتے۔ پھر جب وہ یہاں ملازم ہوئے ہیں۔ ان کا نام منصفی (سب ججی) میں جا چکا تھااور یہاں وہ بیس روپے میں لگے تھے۔‘‘ (انوارالعلوم جلد 9 صفحہ421)
پھر مختلف ادوار سے گزرتے ہوئے آپؓ کے سپرد قرآن کریم کے انگریزی ترجمہ اور اس کی تفسیر کا کام کیا گیا۔ چنانچہ ایک دوست جن کو 1939ء میں کچھ دن حضرت مولوی صاحبؓ کے ساتھ خدمت کرنے کا موقع ملا بیان کرتے ہیں کہ آپؓ ترجمۃالقرآن کا کام شروع کر نے سے پہلے وضو کرتے اس کے بعد اس کثرت سے تسبیح ،استغفار اور دعا کرتے کہ مَیں حیران رہ جاتا اور سوچتا کہ آپ اتنی لمبی دعاؤں کے ساتھ اس عظیم الشان کام کو کس طرح ختم کر سکیں گے۔
ایک اَور دوست جن کو کچھ عرصہ آپؓ کے دفتر میں ٹائپنگ کا موقع ملا وہ بتاتے ہیں کہ جب حضرت مولوی صاحبؓ کے تحریر کردہ کاغذات ان کو ملتے تو انہیں یہ دیکھ کر بہت حیرت ہوتی کہ کسی جگہ قریبا ً پورا صفحہ یا کبھی اس سے بھی زیادہ بالعموم

اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ رَبِّیْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَ اَتُوْبُ اِلَیْہ

لکھا ہوتا اور اس کے بعد انگریزی کی تحریر دوبارہ شروع ہوجاتی۔ گویاجب بھی اس مقدس کام میں کوئی مشکل پیش آتی تو زبانی اور تحریری استغفار شروع کر کے خدا کے حضور ہمہ تن التجا بن جاتے۔ اور پھر جب وہ مشکل دُور ہو جاتی تو دوبارہ تحریر کا کام شروع کر دیتے۔ ترجمۃ القرآن کے کام کے سلسلے میں آپؓ کو 1936ء میں انگلستان بھی بھجوایا گیا جہاں آپؓ تین سال مقیم رہے اور پھر جنگ کے خطرے کی وجہ سے حسب ارشاد واپس تشریف لے آئے اور قادیان میں یہ کام پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ اس بے نظیر خدمت پر سب سے بڑا خراج تحسین حضرت خلیفۃالمسیح الثانی ؓ کی ’’دیباچہ تفسیر القرآن‘‘ کے آخر میں ’’شکریہ و اعتراف‘‘ کے عنوان کے تحت یہ تحریر ہے کہ ’’میں اس دیباچہ کے آخر میں مولوی شیر علی صاحب کی ان بے نظیر خدمات کا اعتراف کرنا چاہتا ہوں جو انہوں نے باوجود صحت کی خرابی کے قرآن کریم کو انگریزی میں ترجمہ کرنے کے متعلق کی ہیں۔‘‘
ترجمۃالقرآن کا کام ختم ہوا تو قادیان سے ہجرت کا سانحہ پیش آگیا۔ خدا کے پیارے مسیح کی وہ مقدّس بستی جس کی محبت میں آپؓ نے عین جوانی میں بڑی بڑی ملازمتوں کو بھی ٹھکرا دیا تھا اس کی جدائی آپ کے لیے بہت بڑا صدمہ تھی۔ ہجرت کے معاً بعد ہی آپ شدید بیمار ہو گئے اور بالآخر 13 نومبر 1947ء کو

لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ

کا ورد کرتے ہوئے اپنے مولا کے حضور حاضر ہوگئے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے جلسہ سالانہ1947ء کے موقع پرآپؓ کی وفات کا ذکر نہایت افسوس کے ساتھ کرتے ہوئے فرمایا: ‘‘میں سمجھتا ہوں انہیں قادیان سے نکلنے کا جو صدمہ پہنچا تھا اس کو وہ برداشت نہیں کرسکے۔’’
حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ کا وجود وہ مبارک وجود تھا جن کی نیک فطرت کو اُس عالم کا حصہ عطا کیا جاتا ہے۔ ہر دیکھنے والا اس بات کی گواہی دیتا نظر آتا ہے کہ آپؓ کے چہرہ پر عشق الٰہی کا نوربرستا تھا۔ اور یہی تو اولیاء اللہ کی نشانی ہوتی ہے۔

’’عشق الٰہی وسّے منہ تے ولیاں ایہہ نشانی‘‘


محترم ملک غلام فرید صاحب کی روایت ہے کہ حضرت مولوی صاحبؓ کے کیریکٹر میں سب سے بلند مقام آپؓ کے زہد و تعبد کو حاصل تھا۔ جب ہم تفسیر القرآن انگریزی کے سلسلے میں احمدیہ ہوسٹل لاہورمیں مقیم تھے تو بعض دفعہ چودہ پندرہ گھنٹے متواتر کام کرنا پڑتا تھا۔ میرا تو تکان سے یہ حال ہو جاتا کہ بعض اوقات عشاء کی نماز سے پہلے ہی میری آنکھ لگ جاتی اور پھر بارہ ایک بجے رات اُٹھ کر مَیں نماز پڑھتا۔ اُن دنوں جب مَیں رات کے کسی بھی حصہ میں اٹھا مَیں نے حضرت مولوی صاحب کو ہوسٹل کی مسجد میں مصروفِ عبادت دیکھا۔ آپؓ مجھ سے عمر میں بائیس تئیس سال بڑے تھے لیکن اس پیرانہ سالی میں بھی جواں ہمت تھے۔ اور عبادت گزاری میں تو جوان بھی ان کا کہاں مقابلہ کرسکتے تھے…اگر میں لکھوں کہ آپؓ کی ساری زندگی ایک مستقل سجدہ تھی تو یہ بے جا نہ ہوگا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں:
’’پھر حضرت مولوی شیر علی صاحب تھے۔ سادہ سیدھے مزاج کے انسان، فرشتہ صورت،فرشتہ سیرت،کم گو اور جہاں تک نماز کا تعلق ہے بہت مختصر نماز پڑھاتے۔ لیکن اپنی نماز کا یہ حال تھا کہ بعض دفعہ میں نے دیکھا ہے، ساتھ کھڑے ہو کر سنتیں بھی پڑھیں، وتر بھی پڑھے اورحضرت مولوی صاحب ابھی پہلی رکعت میں ہی کھڑے ہیں۔ اور اُن کے رکوع سے پہلے مَیں اپنی ساری نماز ختم کر لیا کرتا تھا۔ اور آپ کے ہلکے ہلکے پڑھنے کی آوازیں کانوں میں آیا کرتی تھیں۔ میں نے دیکھا کہ اکثر وہ

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم

پر اس طرح اٹک جاتے جس طرح ریکارڈ کی سوئی اٹک جائے۔ اتنا پڑھتے تھے اتنا پڑھتے تھے کہ گویا ابھی دل کی تسکین نہیں ہوئی۔ اے اللہ! مَیں صراط مستقیم مانگ رہا ہوں۔ صراط مستقیم مانگ رہا ہوں ۔کہتے چلے جاتے تھے۔‘‘

(نجم الہدیٰ صفحہ 8)
حضرت مولوی صاحبؓ کی شب بیداری، فرائض اور نوافل میں اپنے مولا کے حضور آہ وزاری اور ان میں انقطاع الی اللہ کی مکمل کیفیت۔ یہ وہ نظارے تھے جو قادیان میں رہنے والے ہر بڑے چھوٹے کے مشاہدے میں تھے۔ آپؓ کا دستور تھاکہ آپ ہر روزاپنے محبوب آقا کی یاد میں مسجد مبارک کے اس حصہ میں چاشت کے نوافل ادا کرنے کے لئے تشریف لے جاتے جہاں حضرت مسیح موعودؑ نماز ادا کیا کرتے تھے۔
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ فرماتے ہیں کہ حضرت مولوی شیر علی صاحب میں مَیں نے جو رنگ للّٰہیت کا دیکھا اور جس قسم کی بے نفسی ان کے وجود میں پائی جاتی تھی وہ دوسری جگہ بہت کم نظر آتی ہے۔ دعاؤں میں انتہائی شغف، عبادات میں ایسی لذّت کہ گویا روح ہر وقت آستانہ الٰہی کی طرف شوق سے جھکی جاتی ہے …اس سوز اور درد کے ساتھ دعا کیا کرتے تھے کہ جیسے ایک ہنڈیا چولہے پر ابل رہی ہو۔ اگر مجھ سے کوئی اُن کے متعلق یہ پوچھے کہ اُن کی سب سے نمایاں صفت کیاتھی تو میں یہی کہوں گا کہ دعاؤں اور عبادات میں شغف۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاک وجود سے آپ کی محبت اور عشق آپ کی سیرت کا ایک اور تابناک باب ہے۔ آپ کے دل میں عشق و محبت کا ایک چشمہ ابل رہا تھا اور اخلاص و وفا کا ایک سمندر آپ کے سینے میں ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ حضرت چودھری فتح محمد صاحب سیال ؓ روایت کرتے ہیں کہ حضرت مولوی صاحب کو حضرت مسیح موعودؑ سے ایسی عاشقانہ محبت تھی کہ جب دوسرے گریجوایٹ اور صاحب حیثیت لوگ حضورؑ کی آمد پر بیٹھے رہتے،مولوی شیر علی صاحب عشق و محبت سے معمور دل کے ساتھ آگے بڑھ کر حضوؑر کا جوتا اٹھا لیتے اور نماز سے فراغت کے بعد جب حضوؑر رخصت ہونے لگتے تو حضوؑر کو جوتا پہنانے میں ایک سرور کی کیفیت محسوس کرتے۔
حضرت سید مختاراحمد صاحب شاہجہانپوری ؓ کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضرت مسیح موعوؑد کی مجلس میں حضرت مولوی صاحب تشریف لائے۔ آپؓ عموماً اخیر میں آکر جوتوں کے پاس ہی بیٹھ جایا کرتے تھے۔ چنانچہ آپ وہیں بیٹھے جہاں حضورؑ کی گرگابی پڑی تھی۔ جلد ی سے آپؓ نے اپنا عمامہ اتارا جو دودھ کی طرح سفید تھا اور نہایت محبت سے اس کے پلّو سے حضوؑر کے جوتوں کی گرد صاف کرنے لگے۔ صاف کرنے کا انداز بتا رہا تھا کہ آپ انتہائی ذوق و شوق اور محبت کے بھرپور جذبے سے اس کام کو انجام دے رہے ہیں۔
یہ عشق و وفا کا کیسا عجیب اور منفرد انداز ہے اور کتنا گہرا ادراک ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عالی مقام کا۔ چنانچہ ایک دفعہ آپ نے ایک دوست کو جن کے والد حضرت مسیح موعود ؑ کے صحابی تھے سمجھاتے ہوئے فرمایاکہ کیا آپ کے والد بزگوار کو جو صحابیت کا مقام حاصل تھا اس کے سامنے بادشاہت کی کوئی قیمت ہے؟ (بلاشبہ نہیں)
ایک سچے عاشق کے لئے اپنے محبوب کا قرب دل کے سکون اور خوشی کا باعث ہوتا ہے ۔ حضرت مولوی صاحب ؓ کے الفاظ آپ کی اس دلی کیفیت کے آئینہ دار ہیں۔ فرمایا: حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت اور مجلس میں بیٹھنے سے دل میں خوشی اور بشاشت اور اطمینان پیدا ہو تے تھے اور خواہ انسان کتنا بھی متفکر اور غمگین یا مایوس ہو،آپ کے سامنے جاتے ہی قلب کے اندر مسرّت اور سکون کی ایک لہر دوڑ جاتی تھی۔
حضرت اقدس علیہ السلام کی وفات کے بعد آپؓ کے مبارک دَور کی یاد میں آپؓ اکثر بےقرار ہوجاتے۔ ایک دفعہ آپؓ کو مسجد اقصیٰ کے ایک ستون کا سہارا لئے اشکبار حالت میں دیکھا گیا۔ یو ں معلوم ہوتا تھا کہ کسی گہرے درد سے آنسوؤں کی لڑی بہہ نکلی ہے۔ اگلے دن کسی کے استفسار پر اپنے رونے کی وجہ یوں بتائی کہ ایک دفعہ میں نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو اسی ستون کے ساتھ ٹیک لگائے دیکھا تھا۔ مجھے اس زمانے کی یاد نے تڑپا دیا اور ضبط نہ کر سکا اس لئے آبدیدہ ہوگیا۔
جب ہم اس قسم کی بے غرض محبت کے نظارے دیکھتے ہیں تو ہمارا دل اس یقین سے بھر جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے جو وعدہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کیا تھا کہ

اَلْقیْتُ عَلَیْکَ مَحَبَّۃً مِّنِّی

کہ میں تیری محبت لوگوں کے دلوں میں ڈالوں گا، وہ بڑی شان کے ساتھ پورا ہوا۔ (حضرت اقدس علیہ السلام نے براہین کے زمانے کے اس الہام کے بطور نشان پورا ہونے کا ذکر حقیقۃالوحی میں صفحہ 239 پر فرمایا ہے۔ )
حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی وفات کے بعد جب خداتعالیٰ کے فضل سے خلافت احمدیہ کا ظہور ہوا تو آپؓ نے خلفائے وقت کی محبت اور اطاعت کا وہ نمونہ دکھایا کہ جو ہم سب کے لئے قابل تقلید ہے۔ چنانچہ ایک دفعہ ایک دوست نے اپنی ایک پریشانی میں آپؓ کو دعا کے لئے خط لکھا۔ آپ نے جواب دیتے ہوئے ان کو تسلی بھی دی لیکن ساتھ یہ نصیحت بھی لکھ کر بھیجی: آئندہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں دعا کے لئے لکھا کریں۔ مجھے لکھنے کی ضرورت نہیں۔ ہم لوگ انہی کے فیض یافتہ ہیں۔
آپ اپنی تمام تر نیکی ، تقویٰ اور علمی قابلیت کے باوجود خلیفہ وقت کی رائے کے بالمقابل اپنے خیالات کو کوئی وقعت نہ دیتے اور جوبات امام ِوقت کی زبان مبارک سے نکلتی اسی کو درست جانتے۔ چنانچہ ایک موقع پر آپ نے محترم چودھری شبیر احمد صاحب سے فرمایا: ہمارے نزدیک تو وہی تفسیر یا مطالب قابل قبول ہوں گے جو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ کی تفسیر سے مطابقت رکھتے ہوں گے۔
ایک مرتبہ حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ نے آپؓ سے ایک اردو محاورہ کے درست یا غلط ہونے کے متعلق استفسار کیا۔ اس محاورہ کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ اپنی ایک تحریر میں استعمال فرما چکے تھے۔ آپؓ نے بے ساختہ جواب دیا: جب حضرت صاحب نے یہ محاورہ استعمال کیا ہے تو اگر اردو میں اس سے قبل نہ بھی بولا جاتا ہو تو بھی اب یہ محاورہ بن گیا ہے۔
اسی طرح خلفائے کرام کا بھی آپؓ سے انتہائی پیار اور اعتماد کا تعلق تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ جب کبھی قادیان سے باہر تشریف لے جاتے تو مرکزی مقامی امیر آپ کو ہی مقرر فرماتے۔ 1924ء کے سفر یورپ کے دوران بھی حضوؓر نے آپ کو ہی ہندوستان کا امیر مقرر کیا تھا۔ جب مجلس انصاراللہ کا آغاز ہو اتو آپ ہی کو اس کا پہلا صدر مقرر کیا گیا۔ لیکن آپ اپنی تمام تر دینی اور دنیوی وجاہت کے باوجود اپنے لباس، رفتار و گفتاراور طور طریق میں انتہائی سادہ تھے۔ آپ کی بےپناہ سادگی کا اندازہ تو اس واقعہ سے ہو سکتا ہے کہ وہ دو انگریز افسر جو ریویو آف ریلیجنز کے ایڈیٹر کی علمی قابلیت سے متاثر ہو کر آپ سے ملنے کے لئے قادیان آئے اُن کی آپؓ سے ملاقات اس حالت میں ہوئی کہ آپ انتہائی سادہ دیہاتی لباس میں ملبوس اپنی بھینس چرا رہے تھے۔ وہ دونوں یہ بات دیکھ کر بہت حیران ہوئے اور بے ساختہ اُن کی زبان سے نکلا کہ ہم تو سمجھے تھے ریویو کا ایڈیٹر کو ئی انگریز ہوگا۔
آپ کی عاجزی اور انکساری کا یہ عالم تھا کہ ایک دفعہ ایک دعوت ولیمہ میں تشریف لے گئے جہاں منتظمین مہمانوں کو ان کے مرتبہ کی مناسبت سے نشستوں پر بٹھا رہے تھے۔ حضرت مولوی صاحبؓ نے یہ دیکھا تو منتظمین کو خبر ہونے سے قبل تیزی سے دارالشیوخ کے مساکین کے ساتھ جا کر تشریف فرما ہوگئے۔ گویا معززین کی نشستوں کو چھوڑ کر غرباء اور مساکین کے ساتھ بیٹھنے کو ترجیح دی۔ اور ایسا کیوں نہ ہوتا۔ یہ پیارے بزرگ تو اس برگزیدہ رسولﷺ سے فیض یافتہ تھے جس نے دنیا کی وجاہتوں سے منہ پھیر کر الفقر فخری کا علم بلند کیا تھا۔
آپؓ کے متعلق یہ روایت ملتی ہے کہ انتہائی عاجزی سے مجلس کی جوتیوں میں بیٹھ جایا کرتے۔ ایک مرتبہ آپؓ کے ایک عزیز نے جو کہ ابھی صرف نو دس سال کے تھے آپؓ سے پوچھا کہ چچا جان! لوگ توآگے بڑھ بڑھ کر اپنی جگہ تلاش کرتے ہیں، آپ کیوں جوتیوں میں بیٹھتے ہیں؟ آپؓ نے فرمایا: بیٹا! مَیں نے تو جوتوں میں ہی رہ کر سب کچھ حاصل کیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ آپؓ کا مطمح نظر ہمیشہ یہی رہا کہ ؎


تکبر سے نہیں ملتا وہ دلدار
ملے جو خاک سے اس کو ملے یار
پسند آتی ہے اس کو خاکساری
تذلّل ہے رہِ درگاہِ باری


مخلوق خدا کی ہمدردی اورغرباء پروری بھی آپؓ کی سیرت کا ایک نمایاں وصف تھا۔ خدا نے آپ کو ایک ایسا دل عطا کیا تھا جو غرباء کی امداد اور ان کی ضروریات کی فراہمی میں روحانی حظ اٹھا تا تھا۔ آپؓ کے اس وصف کا اندازہ اس بات سے ہو سکتا ہے کہ جہاں آپ نے اپنے گھر کی دودھ کی ضروریات پوری کرنے کے لئے دو تین بھینسیں رکھی ہوئی تھیں وہاں ایک گائے صرف غرباء کے بچوں کے لئے رکھی ہوئی تھی تاکہ ان کو گائے کا خالص دودھ مہیا کیا جاسکے۔
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ فرماتے ہیں: مولوی صاحب ؓ کی روحانیت حقیقتاً ایک نہایت ہی ارفع اور بلند مقام کی روحانیت تھی جسے ایک طرف خدا تعالیٰ کے ساتھ انتہائی اتصال حاصل تھا اور دوسری طرف مخلوق خدا کی ہمدردی اس کا جزواعظم تھی۔
پہلی جنگ عظیم ختم ہوئی تو انفلوئنزا کی وبا پھیل گئی۔ آپ کے اپنے گھر میں آپ کی بارہ سالہ صاحبزادی اور آپ کے سوا سب صاحب فراش تھے۔ آپؓ کی صاحبزادی نے آپؓ کے ارشاد پر دودھ دوہنا سیکھا اور پھر دودھ کو جوش دے کر آپؓ کے سپرد کرتیں اور آپ وہ دودھ غرباء کے گھروں میں لے جاکر تقسیم کرتے۔
اس کے علاوہ غرباء کے گھروںمیں جا کر انہیں بڑی محبت سے بلاتے کہ میں نے ٹیکے منگوائے ہیں اور ڈاکٹر کو بھی بلایا ہے۔ آپ لوگ آکر ٹیکے لگو الیں۔ اور اس طرح کئی لوگوں نے اس مشکل وقت میں آپؓ کی اس بے لوث خدمت سے فائدہ اٹھایا۔
ایک روز سخت سردی کے ایام میں نماز فجر کے لئے تشریف لائے تواٹلی کا بنا ہوا ایک نیا اور نفیس کمبل زیب تن کیا ہوا تھا۔ نماز ادا کرنے کے بعد سردی میں ٹھٹھرتے ہوئے ایک غریب مسافر کو دیکھا توفوراً وہ کمبل اتار کر اسے پہنا دیا اور خود اس سردی میں بغیر کمبل کے ہی گھر تشریف لے گئے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مقدس وجود روحانی اعتبار سے اس پتھر کی مانند تھا جس کو چھونے والی ہر چیز سونا بن جاتی ہے۔ آپؓ کے حلقہ ارادت میں جو بھی شامل ہوا اس کی دنیا ہی بدل گئی۔ ان شامل ہونے والوں نے حضور کی قوت قدسی کی برکت سے مدارج تقویٰ میں یو ں ترقی کی کہ آخرین ہو کر اوّلین میں شامل قرار پائے اور آسمان روحانیت پر ستاروں کی مانند روشن ہوگئے۔ یہ وہ پاک وجود تھے جنہوں نے بیعت کے بعد اپنے اندر وہ پاک تبدیلیاں پیدا کیں جن کے نمونے ہمیں صرف اور صرف آنحضرت ﷺ کے اصحاب میں نظر آتے ہیں۔ ایسے مطہّر اور مزکّی نفوس عالیہ میں سے ایک حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ تھے۔ آپؓ کا دل محبت الٰہی کے پاک جذبات سے سرشارتھا۔ آپؓ کے تقویٰ و طہارت ،تعلق باللہ ،زہد و تعبد،علم و فضل اور ہمدردی خلائق کی وجہ سے آپ کے چہرہ پر نور اور معصومیت یو ں مرتسم تھی کہ ہر دیکھنے والے کی زبان سے آپ کے لئے فرشتہ کا لفظ جاری ہوجاتا۔ اور اغلباً اس کی وجہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا وہ مبارک کشف تھا جس میں آپؑ نے ایک فرشتہ دیکھا جس کا نام شیر علی تھا۔ (تریاق القلوب ۔ روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 352)
صحابہؓ کے اس پاک گروہ کی سیرت کے واقعات کا جمع کرنا اور بیان کرنا جس نیک مقصد اور نیّت کو لئے ہوئے ہے اس کو بیان کرتے ہوئے حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’یہ تمام واقعات تاریخ میں اس لئے محفوظ کئے گئے ہیں کہ ہمیں توجہ دلاتے رہیں کہ تمہارے بزرگ اپنی اصلاح نفس کرتے رہے ہیں۔ اور اس طرح انہوں نے یہ معیار حاصل کئے ہیں۔ یا بیعت میں آنے کے بعد محبت و اخلاص کے یا وفا کے یہ معیار وہ دکھاتے رہے ہیں۔ تم بھی اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہونے کا دعویٰ کرتے ہوتو اپنے ان بزرگوں کے نقش قدم پر چلوتاکہ یہ آخرین کے اخلاص و وفا کا زمانہ تا قیامت چلتا رہے۔ اور انشاء اللہ یہ چلتا رہنا ہے کیونکہ اسی مسیح محمدی کے ذریعہ اسلام کی شان و شوکت کو قائم رکھنے کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ پس کہیں ہمارے اپنے عمل اس برکت سے ہمیں محروم نہ کر دیں، بےفیض نہ کردیں۔‘‘ (خطبہ جمعہ 13 جنوری 2006ء)
………٭………٭………٭………

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں