حضرت مولوی عبدالسلام صاحبؓ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 30نومبر اور یکم دسمبر 2011ء میں مکرم عبدالسمیع خاں صاحب ریٹائرڈ ہیڈماسٹر کے قلم سے اُن کے دادا حضرت مولوی عبدالسلام صاحبؓ کا تفصیلی ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔
حضرت مولوی عبدالسلام صاحب کاٹھگڑھی کی پیدائش1883ء میں پشاور میں ہوئی جہاں آپ کے والد محترم محمد حسین خان صاحب ملازمت کرتے تھے۔ وہ فرقہ اہلحدیث سے تعلق رکھتے تھے۔
جس وقت حضرت عبدالسلام صاحب لاہور میں زیرتعلیم تھے تو انہی دنوں حضرت مسیح موعودؑ سفر لاہور اور جہلم پر تشریف لے گئے۔ سلسلہ کی کتب پہلے سے آپ کے زیرمطالعہ تھیں ۔ اس سفر میں آپ نے حضرت اقدسؑ سے ملاقات کی اور کچھ دنوں بعد حاضر ہو کر بیعت کی سعادت حاصل کی۔ اس کا علم آپؓ کے والد صاحب کو ہوا تو وہ سخت برہم ہوئے اور آپ کا خرچ بند کر دیا۔ چنانچہ آپؓ اپنی تعلیم کو نامکمل چھوڑ کر قادیان آگئے۔ بعد میں باقی خاندان (بشمول آپؓ کے والد محترم) نے بھی احمدیت قبول کرلی۔ بلکہ کاٹھگڑھ کے امام مسجد بھی جو قبل ازیں سلسلہ کے اشد مخالف تھے آپؓ کی تبلیغ سے صحابہؓ میں شامل ہوگئے۔
حضرت عبدالسلام صاحبؓ کو دعوت الی اللہ کا جنون تھا۔ آپؓ کاٹھگڑھ کے امیر جماعت تھے اور ضلع ہوشیار پور میں تبلیغ کے نائب مہتمم بھی تھے۔اکثر مرکز سے مبلغین بلوایا کرتے۔ کاٹھگڑھ سے گیارہ میل کے فاصلہ پر شہر روپڑؔ تھا جہاں 60 فیصدآبادی مسلمان تھی مگر احمدی کوئی نہیں تھا۔ آپؓ اکثر وہاں تبلیغ کے لئے جاتے لیکن وہاں کے لوگ آپؓ پر پتھر پھینکتے، گالیاں دیتے اور جلسۂ عام نہ ہونے دیتے۔ تاہم آپؓ نے استقلال سے کام لیا اور روپڑ ضلع انبالہ میں بہت کامیاب مناظرے کئے۔ لیکچرز کے لئے کمیٹی کی اجازت نہ ملتی تو کوئی کوٹھی کرایہ پر لے کر وہاں لیکچر کرواتے اور اشیائے خورونوش کاٹھگڑھ سے اپنے ہمراہ لے جاتے۔ ان کوششوں کے نتیجہ میں روپڑؔ میں پچاس ساٹھ افراد پر مشتمل جماعت قائم ہوگئی۔ یہی کیفیت کئی قریبی علاقوں میں دیکھنے میں آتی۔
آپؓ ایک علم دوست انسان تھے۔ خصوصاً لڑکیوں کی تعلیم کے لئے مختلف جگہوں پر سکول کھلوائے۔ کاٹھگڑھ میں سکول آپ کی زمین پر واقع تھا۔ آپؓ نے اس کی حالت درست کروائی اور اس کو مڈل تک ترقی دی۔ باوجود انتہائی تنگی کے زمانہ کے آپ اپنی جیب سے تعلیم اور سکول کی ترقی کے لئے کوشاں رہتے۔ اس خرچ کے نتیجہ میں آپ بہت مقروض بھی ہو گئے۔
3مارچ 1924ء کو حضرت مرزا شریف احمد صاحب نے کاٹھگڑھ میں تشریف لاکر تعلیم الاسلام مڈل سکول کی نئی عمارت کا سنگ بنیاد رکھا اور دعا کروائی۔
حضرت مولوی عبدالسلام صاحب نے بالغان کے لئے بھی ایک سکول جاری کیا ہوا تھا۔ اسی طرح ایک پرائمری نائٹ سکول بھی کھولا ہوا تھا۔ دونوں سکولوں میں خواتین بھی تعلیم حاصل کیا کرتی تھیں ۔ غریب طلباء کو کتابیں مفت مہیا کرتے تھے۔ ایک بورڈنگ ہاؤس بھی قائم کیا تھا جہاں قریبی دیہات کے بچے رہائش پذیر ہو کر تعلیم حاصل کرتے تھے۔ یہ سلسلہ آپؓ کی وفات کے بعد آپؓ کی اولاد نے جاری رکھا۔
رپورٹ مجلس مشاورت1928ء میں لکھا ہے: ’’کاٹھگڑھ کا سکول خدا کے فضل سے جاری ہے اور باوجود سخت درجہ مالی تنگی کے مقامی جماعت اسے چلا رہی ہے۔ دراصل یہ سکول زیادہ تر چوہدری عبدالسلام صاحب کی محنت، توجہ اور مساعی کا نتیجہ ہے۔ چوہدری صاحب موصوف ہر قسم کی تنگی برداشت کرکے اس سکول کو چلا رہے ہیں اور افسوس ہے کہ مالی تنگی کی وجہ سے مرکزی محکمہ ابھی تک اس مدرسہ کی کوئی مالی امداد نہیں کر سکا۔ … نیز کاٹھگڑھ میں نائٹ سکول بھی ہے۔‘‘
حضرت چودھری عبدالسلام صاحبؓ کی خدمات میں اپنی زمین پر ہی ایک زنانہ مسجد کی بنیاد رکھنا بھی شامل ہے۔ نیز احمدیہ مسجد ٹیلے پر واقع ہونے کی وجہ سے وہاں پانی کی بہت تنگی تھی۔ وہاں کنواں بنوانے کا کام بھی آپؓ نے شروع کروایا جو آپؓ کی وفات کے بعد مکمل ہوا۔
جن دنوں آگرہ متھرا کے علاقہ میں آریہ ملکانوں کو شدھ کرنے کی کوشش کر رہے تھے تو آپؓ نے حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی تحریک پر لبّیک کہتے ہوئے پانچ ماہ تک تبلیغی کام کیا۔ آپؓ کو ہندو مذہب سے کافی واقفیت تھی اور ہندی اور سنسکرت بھی جانتے تھے۔ آپؓ وہاں بھی ملکانوں کے بچوں کو پڑھاتے رہے۔ آپؓ پشتو بھی جانتے تھے۔
بعد ازاں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے تحریک شدھی کے خلاف جہاد کے لئے ممبران وفد ثانی کے لئے جن 20؍احباب کے اسماء منتخب فرمائے ان میں آپؓ کانام دوسرے نمبر پر درج ہے۔ نیز حضورؓ نے فرمایا: بھائی عبدالرحیم صاحب آگرہ تک وفد کے امیر ہوں گے اور وہاں جاکر چودھری صاحب کے سپرد کردیں گے۔
آپؓ اکثر غرباء کو عمدہ کھانا کھلایا کرتے تھے اور اُن کے لئے نفیس بستر بچھاتے۔ فرمایا کرتے کہ کبھی غریبوں کو بھی عمدہ بستر پر سلانا چاہئے۔ امیروں کے نزدیک عمدہ کھانوں اور اعلیٰ بستروں کی قدر نہیں ہوتی۔ اصل ثواب تو غریبوں کی خاطر مدارات کرنے کا ہے۔
آپؓ گرمیوں کے دنوں میں جب کبھی ہوشیار پور اور جالندھر جاتے تو کافی برف لاتے اور یتیموں اور غریبوں میں تھوڑی تھوڑی تقسیم کرتے۔
آپؓ کے پاس غریب اور یتیم کثرت سے آتے اور آپ ان کے گزارہ کی کوئی نہ کوئی صورت نکال دیتے۔
ہندو مذہب میں گائے کی قربانی کو جرم سمجھا جاتا ہے۔ لہٰذا آپؑ کے گاؤں میں کوئی مذبح نہیں ہوتا تھا اور بقرعید کے موقع پرجانوروں کو ذبح کرنے کے لئے روپڑؔ جانا پڑتا تھا۔ 1920ء کی بقر عید کے موقع پر گاؤں کے ہندو اکٹھے ہو کر قربا نی کے لئے لی جانی والی گائیں چھین کر لے گئے اور فساد ہو گیا۔ بعد میں پولیس نے موقع پر پہنچ کر بیچ بچاؤ کرایا۔ پولیس نے ان گائیوں کو کاٹھگڑھ میں ہی دوسرے دن ذبح کرایا۔ چنانچہ اس دن سے ہمارے گاؤں میں ہی گائیں ذبح ہونے لگیں اور آپؑ نے ایک رجسٹر بنالیا جس میں گائے ذبح کرنے کے متعلق تفصیلات درج کرتے۔ گاؤں کے نمبردار اس بات پر بہت خفا ہوتے۔ ایک مرتبہ تھانیدار نے اس بارہ میں جواب طلبی کی تو آپؑ نے بتایا کہ ہم قانون کے خلاف کوئی کام نہیں کرتے اور چاردیواری کے اندر ذبح کرتے ہیں ۔ پھر تھانیدار کو اپنا ریکارڈ دکھایا اور بتایا کہ ذبح بقر کی تمام رپورٹیں حکام بالا کو بھیجی جاتی رہی ہیں ۔ چنانچہ آپ کی رپورٹوں کا یہ اثر ہوا کہ کاٹھگڑھ میں ذبح بقر کا دائمی حق قرار دے دیا گیا ۔
1929ء یا 1930ء میں آپؑ کے علاقہ میں اتنا ٹڈّی دَل آ گیا کہ افسروں کو اس کی تلفی کے لئے خاص کوشش کرنا پڑی۔ آپؑ نے بھی اس حوالہ سے خاص خدمت کی توفیق پائی۔
آپؑ بدرسوم مٹانے میں کثرت سے کوشاں رہتے تھے۔ میرے والد اور چچا کی شادی پر آنے والے احمدیوں نے جاتے وقت آپؑ کو نیوتا دینا چاہا تو آپؑ نے منع کرتے ہوئے فرمایا کہ مَیں تو ایسی رسوم کو توڑنا چاہتا ہوں ۔
آپؑ ایسی شادیوں میں شامل نہ ہوا کرتے تھے جن میں باجا، ڈھول، ناچ گانا یا کسی اور قسم کا تماشا ہو۔ احمدی ہونے سے قبل بھی آپؑ لغویات سے اجتناب کرتے تھے۔
آپؓ کے زمانہ میں بیوہ کا نکاح کرنا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ آپؓ احادیث مبارکہ کے مطابق نکاح بیوگان کے لئے کوشش کرتے، بیوگان کے ورثاء کو خطوط لکھتے اور قادیان سے مربی منگوا کر اس موضوع پر جلسے کراتے۔ آپ کی تحریک سے کئی بیوگان کے نکاح بھی ہوئے۔
وسط دسمبر 1908ء میں آپؓ کے دو منزلہ نئے مکان کے افتتاح کے لئے حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحبؓ اور حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ کاٹھگڑھ تشریف لائے۔
آپ خدمت دین میں ہمہ تن مصروف تھے اور روپڑؔ کے تبلیغی دورہ سے واپس آ رہے تھے کہ پاؤں میں کانٹا لگ گیا۔ یہ زخم اتنا بڑھ گیا کہ بالآخر تقدیر مبرم کے سامنے ہار ماننا پڑی اور 19؍ اکتوبر 1931ء کو 48سال کی عمرمیں وفات پاگئے۔ نعش قادیان لائی گئی اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے جنازہ پڑھایا۔ بہشتی مقبرہ میں دفن کیا گیا۔
حضرت زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ نے حضرت چودھری عبدالسلام صاحبؓ کی وفات پر لکھا کہ الفضل میں آپؓ کی تبلیغی کار گزاری کی دو سطریں پڑھ چکا تھا کہ خبر ملی ہے کہ چوہدری صاحب موصوف فوت ہوگئے ہیں ۔ اس اچانک غمناک خبر کا صدمہ میرے دل پر نہایت گہرا ہوا اور میرے آنسو پھوٹ پڑے بوجہ اس تعلق کے جو چوہدری صاحب مرحوم نے دعوت الی اللہ میں کمال اخلاص اور پیدل سفر کی تکلیف برداشت کرکے نظارت ہذا کے ساتھ پیدا کیا تھا۔ بلاریب مَیں اس امر کی شہادت دیتا ہوں کہ مرحوم کو فکر اور اہتمام اس نظارت کے کارکنوں کے کسی طرح بھی کم نہ تھا بلکہ ان کا جوش کچھ اَور بڑھا ہوا تھا۔ پرسوں مجھے اطلاع دیتے ہیں کہ ان کا پاؤں زخمی ہو گیا ہے اور اب وہ لاچار بستر پر پڑے ہیں تین ماہ کے لئے رخصت دی جائے۔ فلاں صاحب ان کے قائم مقام ہوں گے۔ مگر یہ علم نہ تھا کہ وہ ہمیشہ کے لئے ہم سے رخصت ہو رہے ہیں ۔ کیا کاٹھگڑھ کی زمین میں ان کا کوئی جانشین میدانِ تبلیغ میں کھڑا نہ ہو گا! وہ میرے بازو تھے جو نہ معلوم کب ملے۔
حضرت مولانا ابوالعطاء جالندھری بیان کرتے ہیں : ’’مکرم جناب چوہدری عبدالسلام صاحب ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے اس حیات مستعار کو کبھی اپنا نہیں سمجھا۔ بلکہ خداتعالیٰ کی امانت سمجھ کر ہمیشہ برمحل خرچ کرتے رہے۔ چوہدری صاحب موصوف دو آنبہ جالندھر کی ان چند ہستیوں میں سے ایک تھے جو اس علاقہ میں احمدیت کے مستقبل کی شاندار عمارت کے معمار تھے۔ مَیں ان کو اپنے بچپن سے جانتا ہوں وہ ایک فرشتہ سیرت انسان تھے۔ خدا نے علم، سمجھ اور فراست بھی بہت اچھی عطا کی تھی۔ اس لئے اخلاص اور علم نے مل کر ایک خوبصورت شکل اختیار کرلی تھی۔ وہ بہت ہی منکسرالمزاج واقع ہوئے تھے۔ اگر میں یہ کہوں کہ وہ بہت سے مخلصین سے بھی آگے تھے تو اس میں ذرّہ بھر بھی مبالغہ نہیں ۔ ان کی مومنانہ سادگی اور انکسار کو دیکھ کر ناواقف آدمی بھی خیال نہ کر سکتا تھا کہ آپ راجپوت ہیں ۔ کبر،انانیت اور بڑائی کا احساس تک نہ تھا۔ اپنی قوم میں سے بعض خلاف شرع رواجات کے دور کرنے میں نہایت مردانگی سے تکالیف کا مقابلہ کیا۔ خداتعالیٰ ان کو بہترین جزا دے…‘‘۔
’’رئیس آف سٹروعہ‘‘ کے عنوان سے حضرت غلام قادر خاں صاحبؓ نے اپنے مضمون میں لکھا کہ ’’حضرت مولوی عبدالسلام صاحب حضرت مسیح موعود کے پرانے خدام میں سے تھے۔ اس علاقہ میں اور کاٹھگڑھ میں جو خدمت آپ نے سرانجام دی ہمیشہ یاد رہے گی۔ آپ کی ہمدردی کا دائرہ ہر خاص و عام کے لئے وسیع تھا۔ ایک شفاخانہ اسی غرض کے لئے کھولا ہوا تھا۔ آپ کی زندگی ایک مسافر کی مانند درویشانہ تھی۔ آپ نے اس تھوڑی سی زندگی میں عظیم الشان کام کیا۔ جو بعد میں آنے والوں کے لئے ایک نمونہ ہے۔…
حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ نے مضمون نگار کے ایک خط کے جواب میں رقم فرمایا: ’’… آپ کے دادا صاحب کی تحریر بھی مجھے یادہے اور صورت بھی۔ حضرت مسیح موعودؑ کے پاس ان کے خط کثرت سے آتے تھے دعا کے لئے۔ اور میں آپ کی ڈاک چونکہ اکثر پاس بیٹھے دیکھا کرتی تھی تو بار بار دیکھنے کی وجہ سے یاد رہ گیا۔…‘‘
محترم میاں عطاء اللہ صاحب ایڈووکیٹ مرحوم سابق امیر جماعت احمدیہ راولپنڈی لکھتے ہیں : ’’مجھے 1929ء یا 1930ء کے ابتدائی زمانہ کی بات ہے کہ حضرت مولوی عبدالسلام صاحب مرحوم جو ایک بڑے صاحب رسوخ اور اچھی حیثیت کے زمیندار تھے اور ہندو مذہب سے بڑے واقف اور اپنے مذہب سے نہ صرف واقف بلکہ عامل بزرگ تھے انہیں جب میرے متعلق علم ہوا تو اپنے ایک مقدمہ میں پیروی کے لئے مجھے ہوشیارپور لے گئے۔ حالانکہ پہلے ایک اچھا وکیل مقرر کیا ہوا تھا۔ مرحوم کے مدّنظر صرف یہ تھا کہ ایک احمدی وکیل کا تعارف ہو جائے۔ مرحوم اپنے ظاہری لباس سے اس درجہ بے نیاز تھے کہ راستہ میں ایک جگہ کانٹوں سے الجھ کر ان کی شلوار پھٹ گئی تو کیکر کے کانٹوں سے عارضی طور پر اسے جوڑ لیا اس بات سے بالکل بے پرواہ کہ لوگ کیاکہیں گے کام پر چل پڑے‘‘۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ جب کبھی کاٹھ گڑھ کا ذکر آتا تو دادا جان حضرت چوہدری عبدالسلام صاحب کا ذکر ضرور کرتے۔ 1954ء میں سکول میں جماعت دہم کی الوداعی تقریب میں جب میرا تعارف حضورؓ سے کروایا گیا کہ یہ چوہدری عبدالرحیم خان صاحب کاٹھگڑھی کے بیٹے ہیں ۔ تو حضورؓ نے فرمایا کہ اس کے دادا چودھری عبدالسلام صاحبؓ میرے کلاس فیلو تھے اور حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے پاس اکثر خلافت کے منصب پر متمکن ہونے سے قبل پڑھا کرتے تھے۔
اسی طرح خطبہ جمعہ فرمودہ 7نومبر1957ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ ایک واقعہ کے ضمن میں فرماتے ہیں : ’’مجھے یاد ہے کہ میں ابھی بچہ ہی تھا کہ کاٹھگڑھ ضلع ہوشیار پور کے ایک دوست عبدالسلام صاحب میرے ساتھ پڑھا کرتے تھے وہ کاٹھگڑھ واپس گئے تو انہوں نے ایک پرائمری سکول بنایا بعد میں وہ مڈل ہو گیا۔ ان کے دو بیٹے اس وقت ربوہ میں ملازم ہیں ۔…‘‘
حضرت مولوی عبدالسلام صاحبؓ کی وفات پر آپؓ کے کئی شاگردوں نے آپؓ کا ذکرخیر اپنے مضامین اور خطوط میں نہایت احترام سے کیا۔ محترم حکیم دین محمد صاحب نے آپؓ کی یاد میں جو نظم کہی اس میں سے انتخاب درج ذیل ہے:

سُوئے جنت چل دیئے جب چوہدری عبدالسلام
خود فرشتوں نے بتایا ان کو جنت کا مقام
پاک نفس و پاک خُلق ، پاک خصلت ، پاک خُو
تھے مجسّم خُلقِ احمد چوہدری عبدالسلام
سادگی کا عمر بھر ہی وہ درس دیتے رہے
قائل پیہم عمل تھے چوہدری عبدالسلام
وقتِ مہدیؑ جس نے پایا وہ منور ہو گیا
صحبتِ حضرتؑ سے کندن ہو گئے عبدالسلام
فخر قوم راجپوتاں معنوی انداز میں
خدمتِ ملّت سے آخر بن گئے عبدالسلام

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں