حضرت مولوی غلام حسین صاحب

ماہنامہ ’’خالد‘‘ مارچ 2006ء میں حضرت مولوی غلام حسین صاحبؓ کا ذکر خیر شامل اشاعت ہے جو مکرم شفیق احمد ججہ صاحب نے ارسال کیا ہے اور ’’تاریخ احمدیت لاہور‘‘ از محترم مولوی عبدالقادر صاحب سوداگرمل سے منقول ہے۔
حضرت میاں محمد شریف صاحب ریٹائرڈ EAC نے بیان فرمایا کہ حضرت مولوی صاحبؓ دبلے پتلے گورے رنگ کے تھے۔ سر پر عمامہ باندھتے تھے۔ قد درمیانہ تھا۔ کتابوں کے بڑے شوقین تھے۔ قادیان جاتے تو حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کی لائبریری میں داخل ہوجاتے اور کتابیں پڑھنا شروع کردیتے۔ حضورؓ ہی ان کی خوراک وغیرہ کا اہتمام فرمایا کرتے تھے۔ جب کوئی کتاب پڑھنے کے لئے اٹھاتے تو پہلے عزرائیل کو مخاطب کرکے کہتے کہ اے عزرائیل! تو بھی خدا کا بندہ ہے اور میں بھی خدا کا بندہ ہوں۔ میری تم سے درخواست ہے کہ جب تک میں یہ کتاب نہ پڑھ لوں میری جان نہ نکالنا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے مورخہ 13 مئی 1944ء کو حضرت مولوی صاحبؓ کے بارہ میں فرمایا کہ : ’’ہمارے جماعت میں ایک بہت بڑے عالم اور نیک انسان ہوا کرتے تھے مولوی غلام حسین صاحب ان کا نام تھا۔… ان کے اندر بہت ہی علمی شوق تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابہ میں سے حضرت خلیفہ اولؓ اور ایک وہ گویا کتابوں کے کیڑے تھے۔ بلکہ مولوی غلام حسین صاحب کو حضرت خلیفہ اوّل سے بھی زیادہ کتابوں کا شوق تھا۔ ان کی وفات بھی اسی رنگ میں ہوئی کہ وہ کلکتہ کسی کتاب کے لئے گئے اور وہیں سے بیمار ہو کر واپس آئے اور فوت ہوگئے۔
ان کا حافظہ اتنا زبردست تھا کہ حضرت خلیفہ اوّل فرمایا کرتے تھے۔ میں نے انہیں ایک دفعہ ایک کتاب دی کہ اسے پڑھیں۔ انہوں نے میرے سامنے جلدی جلدی اس کے ورق الٹنے شروع کردئیے۔ وہ ایک صفحہ پر نظر ڈالتے اور اسے الٹ دیتے۔ پھر دوسرے پر نظر ڈالتے اور اسے چھوڑ دیتے۔ حضرت خلیفہ اوّلؓ خود بھی بہت جلدی پڑھتے تھے مگر آپؓ فرماتے تھے کہ انہوں نے اس قدر جلدی ورق الٹنے شروع کئے کہ مجھے خیال آیا کہ شاید وہ کتاب پڑھ نہیں رہے۔ چنانچہ میں نے ان سے کہا کہ مولوی صاحب آپ کتاب پڑھیں تو سہی۔ وہ کہنے لگے: مجھ سے اس کتاب میں سے کوئی بات پوچھ لیجئے۔ حضرت خلیفہ اوّل نے کوئی پوچھی تو کہنے لگے:یہ بات اس کتاب کے فلاں صفحہ پر فلاں سطر میں لکھی ہے۔
لاہور میں گمٹی بازار والی مسجد پہلے ہماری ہوا کرتی تھی…اس مسجد میں مولوی غلام حسین صاحب نماز پڑھایا کرتے تھے مگر بہت ہی غریب تھے۔ بعض دفعہ اس قسم کی حالت بھی آجاتی کہ انہیں کئی کئی وقت کا فاقہ ہوجاتا لیکن وہ اس بات کو کہیں ظاہر نہیں ہونے دیتے تھے کہ مجھے سات یا آٹھ وقت کا فاقہ ہوچکا ہے۔ انہوں نے اپنی انتڑیوں کو کچھ اس قسم کی عادت ڈالی ہوئی تھی کہ اتنے دنوں کے فاقہ کے بعد جب انہیں کھانا ملتا تو سات سات آٹھ آٹھ آدمیوں کا کھانا ایک وقت کھا جاتے۔
حضرت خلیفہ اوّل فرمایا کرتے تھے کہ مجھے ایک دن ان کے علم کو دیکھ کر شوق پیدا ہوا کہ میں ان کی کچھ خدمت کروں۔ چنانچہ میں نے ان سے کہا کہ مولوی صاحب! مجھے بھی اپنی خدمت کا موقع دیں۔ اور اگر کوئی خواہش ہوتو بیان فرمائیں تاکہ میں آپ کی اس خواہش کو پورا کروں۔ فرماتے تھے کہ میں نے جب یہ بات کہی تو تھوڑی دیر خاموش رہ کر اور کچھ سوچ کر کہنے لگے: جی چاہتا ہے میرے لئے ایک ایسا مکان بنا دیا جائے جس کی دیواریں کتابوں کی بنی ہوئی ہوں گویا نئی کتابوں کی ایک چاردیواری ہو جس کے اندر مجھے بٹھا دیا جائے پھر کوئی شخص مجھ سے یہ نہ پوچھے کہ تم نے روٹی بھی کھائی ہے یا نہیں۔ بس میں کتابیں پڑھتا جاؤں اور اتارتا جاؤں۔ جب رستہ بن جائے تو باہر نکل جاؤں۔
باوجود اس قدر علم کے ان کا طرز بحث مباحثہ کا نہیں تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک دفعہ مقدمات کے سلسلہ میں گورداسپور میں مقیم تھے کہ آپ کی مجلس میں بحث مباحثہ کا ذکر شروع ہوگیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مولوی غلام حسین صاحب سے پوچھا۔ مولوی صاحب! کیا آپ کو بھی کبھی بحث کرنے کا موقعہ ملا ہے یا نہیں؟ مولوی صاحب فرمانے لگے جب میں نیا نیا پڑھ کر آیا تو لاہور میں میری خوب شہرت ہوئی۔ انہی دنوں امرتسر کے قریب حنفیوں اور وہابیوں کا مناظرہ تجویز ہوگیا۔ میں اس مناظرہ میں وہابیوں کی طرف سے پیش ہوا۔ حنفی مناظر نے کسی موقعہ پر کہہ دیا کہ فلاں امام نے یوں کہا ہے۔ میں نے اسے کہا امام کیا ہوتا ہے۔ جب رسول کریم ﷺ یوں فرماتے ہیں تو پھر کسی امام کا کیا حق ہے کہ اس کے خلاف بات کرے۔ بس میرا یہ کہنا تھا کہ سب نے سونٹے اٹھا لئے اور مجھے مارنے کے لئے دوڑے۔ میں نے بھی جوتیاں اٹھائیں اور وہاں سے بھاگ پڑا اور بیس میل تک برابر چلا گیا یہاں تک کہ شہر میں آکر دم لیا۔ اس کے بعد میں نے توبہ کی کہ اب کبھی بحث نہیں کروں گا۔ غرض بہت ہی مخلص آدمی تھے۔ حضرت مسیح موعودؑ کو ان کی وفات کی نسبت الہام ہوا تھا اور آپ نے ان کا بہت لمبا جنازہ پڑھایا۔
ان کے اندر علم کا اس قدر شوق تھا کہ میں نے کسی میں نہیں دیکھا۔ بڑھاپے میں جبکہ 75 سال ان کی عمر تھی وہ کلرکوں کو پکڑتے تھے اور کہتے تھے کہ اگر تمہیں دین کا شوق ہو تو میں تمہیں پڑھانے کے لئے تیار ہوں۔ ان کے چہرے پر کچھ تردّد کے آثار دیکھتے تو کہتے: میں پیسے نہیں لوں گا، مفت پڑھادوں گا۔ پھر کچھ تردّد دیکھتے تھے تو کہتے: آپ کو تکلیف کرنے کی ضرورت نہیں میں خود آپ کے گھر پر پڑھانے کے لئے آجایا کروں گا۔
مجھے ایک دفعہ چھ مہینے تک بخار رہا۔ ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب نے مشورہ دیا کہ مجھے پہاڑ پر بھجوایا جائے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود ؑ نے مجھے شملہ بھجوادیا۔ اس وقت ان کی عمر پچھتر سال کے قریب تھی۔ ایک غیر احمدی کلرک تھا جس کو انہوں نے پڑھانا شروع کیا تھا۔ اس کی شملہ تبدیلی ہوئی تو مولوی صاحب اپنے خرچ پر ہی شملہ چلے گئے تا کہ اس کی پڑھائی میں حرج واقعہ نہ ہو۔ روٹی اپنے پلّے سے کھاتے اور اسے مفت پڑھاتے رہے۔ ان کے اندر اخلاص بھی اس قدر تھا کہ جب ہم سیر کے لئے نکلتے تو وہ ہمارے ساتھ چل پڑتے۔ ایک لمبا سونٹا ان کے ہاتھ میں ہوا کرتا تھا۔ چونکہ وہ بوڑھے تھے اور پہاڑ کی چڑھائی میں انہیں دقت پیش آتی تھی اس لئے ہم پر یہ سخت گراں گزرتا کہ وہ تکلیف اٹھا کر التزاماً ہمارے ساتھ آتے ہیں۔ ایک دن میں نے خانصاحب منشی برکت علی صاحب اور مولوی عمر دین صاحب شملوی سے کہا کہ یا تو آئندہ گھر میں بیٹھ جاؤں گا اور سیر کے لئے نہیں نکلوں گا یا پھر کوئی ایسی صورت ہونی چاہئے کہ مولوی صاحب کو پتہ نہ لگے کہ ہم کس وقت سیر کے لئے چلے جاتے ہیں۔ انہوں نے باتوں باتوں میں مولوی سے پتہ لگا لیا کہ وہ کس وقت غائب ہوتے ہیں۔ چنانچہ دوسرے دن ہم اسی وقت سیر کے لئے چل پڑے۔ ابھی پندرہ بیس منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ ہم نے دیکھا وہ دُور سے ایک بڑا سا سونٹا اپنے ہاتھ میں پکڑے اور لمبے لمبے ڈگ بھرتے ہوئے ہماری طرف آرہے ہیں اور کہہ رہے ہیں ٹھہرجاؤ، ٹھہر جاؤ، مجھے بھی آلینے دو۔ جب ہمارے پاس پہنچے تو میرے ساتھیوں سے کہنے لگے۔ یہ حضرت صاحب کے لڑکے ہیں اور یہاں سب لوگ دشمن ہیں، ان کو اکیلے نہیں جانے دینا چاہئے۔ آپ لوگ میرا انتظار کر لیا کریں۔
غرض بہت ہی مخلص اور نیک انسان تھے۔ ان کی عادت تھی کہ وہ رومی ٹوپی والوں سے مصافحہ کرنے سے بہت گھبراتے تھے اور اگر کوئی ان کی طرف ہاتھ بڑھاتا تو وہ اپنا ہاتھ پیچھے کر لیتے۔ اور کہتے ’’تسیں مصافحہ نہیں کردے تسیں تے باہواں توڑ دے او‘‘ یعنی آپ لوگ مصافحہ نہیں کرتے آپ تو ہاتھ توڑتے ہیں‘‘۔
حضرت مولوی غلام حسین صاحبؓ کی وفات پر اُن کا جنازہ قادیان لایا گیا۔ حضرت بابو غلام محمد صاحبؓ ریٹائرڈ فورمین فرمایا کرتے تھے کہ ہم چاہتے تھے کہ انہیں بہشتی مقبرہ میں دفن کیا جائے مگر معتمدین نے اعتراض کیا ان کی وصیت نہیں ہے۔ اس اعتراض کا علم جب حضرت مسیح موعود ؑ کو ہوا تو حضورؑ نے فرمایا کہ ان کی وصیت کی کیا ضرورت ہے؟ یہ تو مجسم وصیت ہیں۔
313 صحابہؓ کی فہرست مندرجہ ’’انجام آتھم‘‘ میں حضرت مولوی غلام حسین صاحبؓ کا نام 133ویں نمبر پر ہے۔ رجسٹر روایات صحابہ حصہ چہارم میں لکھا ہے کہ مولوی غلام حسین صاحب لاہوری کا جنازہ حضرت مسیح موعود ؑ نے پڑھایا اور جنازہ کو کندھا دیا۔ حضرت مسیح موعود ؑ مسجد مبارک میں تشریف رکھتے تھے کہ انبیاء کے متبعین کا ذکر چل پڑا۔ حضور نے فرمایا کہ عام طور پر انبیاء کے ماننے والے ان سے کم عمر لوگ ہوتے ہیں۔ بڑے بوڑھے بہت کم مانتے ہیں مگر مولوی غلام حسین صاحب لاہوری اور بابا ہدایت اللہ لاہوری یہ دونوں ایسے ہیں جو بڑے اور بوڑھے ہو کر ایمان لائے ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں