حضرت مولوی فتح الدین صاحبؓ

ماہنامہ ’’انصاراللہ‘‘ ربوہ ستمبر 2004ء میں مکرم غلام مصباح بلوچ صاحب کے قلم سے حضرت مولوی فتح الدین صاحبؓ آف دھرم کوٹ بگہ ضلع گورداسپور کا تفصیلی ذکر خیر شامل اشاعت ہے۔
حضرت مولوی صاحبؓ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اعلان بیعت سے قبل بھی حضورؑ سے تعلق عقیدت رکھتے تھے اور اپنے علاقہ میں ایک خاص اثر رکھتے تھے۔ آپؓ قریباً 1860ء میں پیدا ہوئے۔ عام دستور کے مطابق کسی مکتب میں تعلیم نہیں پائی لیکن علم کے شوق نے پڑھنے کی عادت ڈالی اور قاعدہ پڑھ کر کتاب ’’فتوح الغیب‘‘ پڑھنی شروع کی تو کسی ولی کی صحبت اختیار کرنے کا شوق دامنگیر ہوا جسے پورا کرنے کے لئے درویشوں اور فقیروں کی تلاش میں تھے کہ ایک دن آپ کو یہ خبر ملی کہ قادیان میں ایک شخص حضرت یوسف علیہ السلام کی طرح خوابوں کی تعبیر بتاتے ہیں۔ چنانچہ آپؓ ایک روز چند دوستوں کے ہمراہ قادیان پہنچے۔ یہاں حضورؑ نے آپؓ کو یہ ذکر بتلایا کہ فجر کی نمازکے بعد یہ ذکر چلتے پانی کے کنارے پر پڑھا کرو کہ

یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلَی دِیْنِکَ

اس سفر کے بعد پھر قادیان آنے کا سلسلہ چل پڑا۔
ایک بار آپؓ نے حضورؑ کو اپنے گاؤں آنے کی دعوت دی جو حضورؑ نے منظور فرمالی۔ چنانچہ کچھ عرصہ کے بعد حضرت اقدسؑ اپنے دو خدام کے ساتھ پیدل چل کر دھرم کوٹ بگہ تشریف لائے۔ حضرت مولوی صاحبؓ نے بادام کی گریاں اور مصری پیش کی جو حضورؑ نے قبول فرمائی اور نماز حضرتؑ کے پیچھے پڑھی گئی۔ رات کے وقت ایک سکھ سردار کے ساتھ حضورؑ نے قرآن شریف اور باوا نانک صاحب کے متعلق چند باتیں کیں اور پھر فرمایا کہ سردار تو مسلمان ہوگیا ہے۔ صبح کھانا کھاکر ’’براہین احمدیہ‘‘ کا دوسراحصہ چھپوانے کے لئے حضورؑ یکّہ پر امرتسر تشریف لے گئے تو حضرت مولوی صاحبؓ فرطِ الفت سے بھوکے پیاسے یکّہ کے ساتھ دوڑتے ہوئے بٹالہ تک پہنچ گئے۔ راستہ میں حضورؑ نے فرمایا کہ تم نے ابھی تک کھانا نہیں کھایا۔ آپؓ نے عرض کی ہاں حضور کھانا نہیں کھایا۔ اس پر حضورؑ نے آپؓ کو ایک روپیہ دینے کے لئے ارشاد فرمایا تاکہ آپؓ کھانا کھاسکیں۔
حضورؑ کے دھرم کوٹ بگہ جانے سے متعلق یہ روایت بھی ہے کہ وہاں کے ایک نوجوان سردار فضل حق صاحب مشن سکول بٹالہ میں تعلیم پاتے تھے اور دہریت کے خیالات رکھتے تھے۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار حضرت مولوی صاحبؓ سے کیا جنہوں نے حضورؑ کی خدمت میں یہ باتیں عرض کیں۔ حضورؑ نے مولوی صاحبؓ کے ذریعہ ان باتوں کا جواب دیا۔ اس طرح کچھ عرصہ آپؓ کے ذریعہ تبلیغی پیغام رسانی جاری رہی مگر چونکہ سردار صاحب رئیس زادہ تھے اور مولوی صاحبؓ ادنیٰ رئیس تھے اس لئے یا تو آپؓ حضرت اقدس کے زبانی دلائل کو پہنچا نہ سکتے تھے یا اُن باتوں کا سردار صاحب پر اثر نہ پڑتا تھا۔ آخر میں حضرت اقدسؑ نے مناسب سمجھا کہ سکھ رئیس زادوں کو تبلیغ کرنے کے لئے خود دھرم کوٹ بگہ تشریف لے جائیں۔ چنانچہ حضورؑ دھرم کوٹ تشریف لے گئے اور سردار صاحب اور ان کے بڑے بھائی سردار جیون سنگھ اور ان کے والد صاحب سے ملاقات کی جس میں ہستی باری تعالیٰ کے متعلق ان سکھ نوجوانوں کی اس وقت کی قابلیت کے مطابق دلائل بیان کئے۔ چنانچہ اس ملاقات کے بعد سردار صاحب کو اسلام اور دیگر مذاہب کی تحقیق و تدقیق کا شوق ہو گیا اور حضرت اقدسؑ بذریعہ ترسیل کتب اور خط و کتابت ان کی مدد کرتے رہے۔ آخر سردار صاحب قریباً چالیس برس کی عمر میں 1898ء میں مشرف بہ اسلام ہوئے ۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو احیاء اسلام کے لئے ایک مضطربانہ تڑپ تھی جس کا ایک اظہار حضرت مولوی صاحبؓ نے بھی اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا۔ چنانچہ آپؓ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت اقدسؑ کے حضور اکثر حاضر ہوا کرتا تھا اور کئی مرتبہ حضورؑ کے پاس ہی رات کو بھی قیام کیا کرتا تھا۔ ایک مرتبہ میں نے دیکھا کہ آدھی رات کے قریب حضرت صاحب بہت بے قراری سے تڑپ رہے ہیں اور ایک کونہ کی طرف تڑپتے ہوئے چلے جاتے ہیں۔ جیسے کہ ماہیٔ بے آب تڑپتی ہے یا کوئی مریض شدت درد کی وجہ سے تڑپ رہا ہوتا ہے۔ میں اس حالت کو دیکھ کر سخت ڈر گیا اور بہت فکر مند ہوا اور دل میںکچھ ایسا خوف طاری ہوا کہ اس وقت میں پریشانی میں مبہوت لیٹا رہا یہاں تک کہ آپؓ کی وہ حالت جاتی رہی۔صبح میں نے اس واقعہ کا حضورؑ سے ذکر کیا تو آپؑ نے فرمایا ’’ میاں فتح دین کیا تم اس وقت جاگتے تھے؟ اصل بات یہ ہے کہ جس وقت ہمیں اسلام کی مہم یاد آتی ہے اور جو جو مصیبتیں اِس وقت اُس پر آرہی ہیں ان کا خیال آتا ہے تو ہماری طبیعت سخت بے چین ہوجاتی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ہدایت پر حضرت مولوی صاحبؓ نے تفسیر قرآن اور حدیث کی کتب کا بھی مطالعہ شروع کردیا اور ہر ایک ہفتہ میں حضورؑ کی قدم بوسی کرتے رہے۔ اس اثناء میں حضور علیہ السلام نے دعویٰ مسیح موعود کا کیا تو آپؓ نے بھی حضورؑ کے ہاتھ پر بیعت کرلی۔ پھر آپؓ نے پنجابی زبان میں کئی کتب بھی تصنیف کیں۔
قبول احمدیت کے بعد آپ کا علم تبلیغ میں وقف ہونے لگا۔ دعویٰ کے ثبوت میں قر آن و حدیث سے بیان کرتے۔ اپنی مساعی کا تذکرہ آپ حضورؑ کی خدمت میں بھی کرتے ر ہتے اور حضورؑ سے رہنمائی بھی لیتے رہتے۔ حضورؑ آپ کی کوششوں کو سراہتے ہوئے ضروری ہدایات سے نوازتے۔ چنانچہ اخبار ’’البدر‘‘ 14؍نومبر 1902ء میں لکھا ہے:
’’حضرت اقدس حسب دستور سیر کے لئے نکلے۔ تمام راہ مولوی فتح دین صاحب حضرت اقدس کے مخاطب رہے۔حضرت اقدس بار بار ان کے ذہن نشین یہ امر کراتے رہے کہ مباحثات میں ہمیشہ دیگر طریق استدلال کو چھوڑ کر اس طریق کو اختیار کرنا چاہیے کہ قرآن شریف مقدم ہے اور احادیث ظن کے مرتبہ پر ہیں۔ قرآن شریف سے جو امر ثابت ہو اس کو کوئی حدیث خواہ پچاس کروڑ ہوں، ہرگز ردّ نہیں کرسکتیں۔ چونکہ اس گفتگو میں میاں فتح دین صاحب بھی بعض اوقات احادیث سے اپنے استنباط جو کہ اپنی منظوم کتاب میں درج کئے ہیں مفصل حضرت اقدس کو سناتے رہے اور حضرت اقدس مختلف طور پر ان کو سمجھاتے رہے… پھر مولوی فتح دین صاحب نے کہا کہ ہم لوگ بڑے خطاکار ہیں کئی فاسد خیال آتے رہتے ہیں اور طاعون کا زور ہو رہا ہے۔ حضرت اقدس نے فرمایا کہ میں یقینا جانتاہوں کہ جس دل کو خدا تعالیٰ سے تعلق ہے اسے وہ رسوائی کی موت نہیں دیتا‘‘۔
آپ کی ایک پنجابی نظم ’’ حقیقت نزول مسیح‘‘ کا اشتہار بھی البدر میں شائع ہوا۔ یہ قریباً دوصد صفحات پر مشتمل ہے۔
حضرت مولوی صاحب کو بسا اوقات مخالفت کا بھی سامنا کرنا پڑتا مگر آپ استقلال کے ساتھ تبلیغی کام کو جاری رکھتے۔ بیوی بچوں کے نان نفقہ اور دیگر گھریلو ذمہ داریوں کی وجہ سے آپؓ خانگی امور کی طرف توجہ رکھنے پر بھی مجبور تھے۔ اسی لئے حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ نے ایک دورے کے بعد اپنی رپورٹ (مطبوعہ البدر) میں یہ تجویز پیش کی کہ مولوی صاحبؓ کو اس مقام کے احمدیوں کا لیڈر سمجھنا چاہئے جو ہر وقت تبلیغ میں مصروف رہتے ہیں اور بہت مدلل گفتگو کرتے ہیں۔ اس جگہ کے احمدی اگر ہمت کرکے مولوی صاحب کے واسطے کچھ گزارے کی صورت مقرر کرکے اُن کو خدمات دینی کے واسطے بالخصوص فارغ کردیں اور ایک مدرسہ بنادیویں تو مجھے امید ہے کہ اکثر لوگ حق کی طرف رجوع کرلیں۔
حضرت شیر محمد خانصاحبؓ (بیعت 1897ء) بیان فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ مولوی خدابخش جٹ ساکن مندراں والہ بھامڑی، ایک مجمع کے ساتھ قادیان میں آیا تاکہ حضرت صاحبؑ یا مولوی نورالدین صاحبؓ سے مناظرہ کرے۔ جب حضورؑ کو اس کا علم ہوا تو فرمایا کہ مولوی فتح الدین ہی اس کے لئے کافی ہیں۔ اُن کو جاکر کہہ دو کہ مولوی فتح الدین صاحب سے مناظرہ کرلو۔ لیکن وہ نہ مانا۔
حضرت مولوی صاحبؓ کو حضرت مسیح موعودؑ کی موجودگی میں اپنی نظمیں سنانے کی سعادت بھی عطا ہوتی رہی۔ چنانچہ رجسٹر روایات صحابہ نمبر 13 میں ایسے شعراء کی فہرست میں آپؓ کا نام پانچویں نمبر پر حضرت حکیم دین محمد صاحبؓ راہوں ضلع جالندھر (بیعت 1902ء) نے بیان کیا ہے۔
10؍مارچ1908ء کو حضورؑ نے فرمایا:
’’سلسلہ کے خطوط کو دیکھنے سے پتہ لگ سکتا ہے کہ کس قدر لوگوں کے خط ہر روز بیعت کے واسطے آتے ہیں اور یوں بھی کوئی ہفتہ خالی نہیں جاتا کہ دس بیس آدمی بیعت نہ کرتے ہوں۔ اس طرح سے بیعت کے رجسٹروں کی تعداد میں تو روز افزوں ترقی ہے مگر رجسٹر (یعنی باقاعدہ چند دہندگان کا) اپنی اسی حالت پر ہے، اس میں کوئی نمایاں ترقی نہیں ہوتی۔ اصل وجہ یہی ہے کہ لوگ بذریعہ خطوط بیعت کرتے ہیں یا اس جگہ آکر بیعت کرتے اور چلے جاتے ہیں مگر ان کو ضروریاتِ سلسلہ سے مطلع کرنے کا کوئی کافی ذریعہ نہیں ہے۔ ہمارے خیال میں مولوی فتح دین صاحب بھی اس کام کے واسطے موزوں ہیں۔ آدمی مخلص دیانتدار ہیں اور یوں ان کی کلام بھی مؤثر ہے۔ ان کی پنجابی نظم جو اس ملک کی مادری زبان ہے اور جسے لوگ خوب سمجھتے ہیں وہ بھی اچھی مؤثر ہے۔ہمارے خیال میں ان کے ذریعہ سے دعوت و اشاعت کا کام بھی ہوتا رہے گا اور چند ہ کی وصولی کا بھی باقاعدہ انتظام ہوجاوے گا۔‘‘
حضرت مولوی صاحبؓ نے 27؍جولائی 1920ء کو بعمر ساٹھ سال وفات پائی۔ جنازہ قادیان لایا گیا جہاں بہشتی مقبرہ میں تدفین ہوئی۔
آپؓ کی ایک بیٹی حضرت مختار بیگم صاحبہ کا نکاح حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت حافظ جمال احمد صاحب مبلغ ماریشس کے ساتھ پڑھایا تھا۔ حضرت حافظ صاحب کی وفات ماریشس میں ہی ہوئی اور وہیں تدفین ہوئی۔ البتہ حضرت مختار بیگم صاحبہ بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں