حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحبؓ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 8؍جنوری 2007ء میں حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحبؓ کے بارہ میں ایک مختصر مضمون مکرم غلام مصباح بلوچ صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
حضرت مولوی صاحب بھڈال ضلع سیالکوٹ کے رہنے والے تھے۔ جب آپ جموں میں ملازم تھے تو آپ نے ایک چٹھی رساں کے پاس ’’سبزاشتہار‘‘ دیکھا۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اُن سے ’’سبز اشتہار‘‘ مانگا مگر انہوں نے انکار کیا اور کہا کہ میں تم سے ڈرتا ہوں کہ تم مجھے مارو گے۔ جب میں نے وعدہ کیا کہ میں اُن کو کچھ نہیں کہوں گا تب انہوں نے مجھے وہ اشتہار دیا۔ میں نے اسے پڑھا تو اس کا میرے دل پر اس قدر گہرا اثر ہوا کہ میں اگلی صبح جموں سے پیدل قادیان کو روانہ ہوگیا۔ جب میں سیالکوٹ پہنچا تو سڑک سے دومیل کے فاصلہ پر میرا گاؤں تھا۔ جب میں نے اس کی طرف رخ کیا تو میرے دل نے مجھے ملامت کی کہ جس طرف تونے منہ کیا ہے تجھے پہلے اسی طرف ہی جانا چاہئے۔ تب میں پھرقادیان کی طرف چل پڑا۔ راستہ میں جب مجھے کوئی پوچھتا تو میں اسے سارا حال کہہ سناتا تو وہ بجائے میری مہمان نوازی کرنے کے مجھے لعنت ملامت شروع کرتا اور ساتھ ہی حضرت مسیح موعودؑ کوبھی ناپاک الفاظ سے یاد کرتا۔
بٹالہ میں مولوی محمد حسین بٹالوی کے بعض آدمیوں نے مجھے روکنے کی کوشش کی، دلائل پیش کیے اور بہت سی اِدھر اُدھر کی باتیں کیں مگر میں نہ رُکا۔ قادیان میں اڈہ خانہ پر ایک کشمیری بابا گڈر نے بھی مجھے روکا۔ چونکہ دیر ہوچکی تھی اس لیے رات کومیں اُسی کے پاس رہا۔ اور صبح کی نماز میں حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا، حضور نے میری طرف غور سے دیکھا اور فرمایا کہ آپ کی بیعت ابھی نہیں لی جائے گی، آپ پانچ دن استغفار کریں۔ پانچ دن استغفار کے بعد جب پھر عرض کیا تو فرمایا دس دن درود شریف پڑھیں۔ دس روز درود شریف پڑھنے کے بعد پھر عرض کیا، فرمایا پانچ دن لاحول پڑھو۔ جب وہ پانچ روز ختم ہوئے تو آپ نے بڑی بشاشت کے ساتھ میری بیعت قبول فرمائی اور فرمایا ’’میں چاہتا ہوں کہ آپ اور بھی قادیان میں ٹھہریں اور اگر ضرور جانا ہو تو چلے جائیں مگر قادیان بار بار آتے رہیں، جو لوگ قادیان میں بار بار نہیں آتے ان کے متعلق ہمیں خطرہ ہوتا ہے‘‘۔
جب میں بیعت کرنے کے بعد گھر گیا تو روحانی طور پر میں اپنے اندر بہت بڑا تغیر دیکھتا تھا۔ گھر جاکر میں نے اپنے والد میاں غلام احمد صاحب کو یہ تمام قصہ سنایا تو انہوں نے بھی بیعت کرلی۔ میں نے اپنی بیوی کو بہت تبلیغ کی مگر اس پر کوئی اثرنہ ہوا بلکہ دن بدن مخالف ہوتی گئی۔ آخر اس نے ہم دونوں کے کھانے میں زہر ڈال دی مگر ہمیں کھلانے پر قادر نہ ہوسکی کیونکہ والد صاحب بہت بڑے حکیم تھے اور مجھے بھی ان چیزوں کا خاص تجربہ تھا۔ ہم نے کسی جانور کو وہ کھانا کھلایا وہ فوراً مرگیا۔ تب میں نے اس بیوی کو طلاق دیدی اور کچھ دنوں کے بعد مجھے خدا تعالیٰ نے اس کے بدلہ میں ایک نہایت بااخلاق اور احمدیت پر فدا ہونے والی اور خدمت دین کے لیے اپنی جان اور مال کو قربان کرنے والی بیوی عطا فرمائی جس کا نام ’’راج بی بی‘‘ ہے۔
حضرت راج بی بی صاحبہؓ کے علاوہ آپؓ کی ایک اور شادی حضرت حیات نور صاحبہؓ کے ساتھ ہوئی۔ آپؓ کے والد حضرت غلام احمد صاحبؓ ابتدائی موصیان میں سے تھے ان کا وصیت نمبر 45تھا۔ 6؍مارچ 1906ء کو اُن کی وفات ہوئی۔ میت قادیان تو نہ پہنچ سکی لیکن یاد گاری کتبہ بہشتی مقبرہ میں لگا ہوا ہے۔ اسی طرح حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحبؓ اور آپ کی دونوں بیویاں بھی ابتدائی موصیان میں سے تھے حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحب کا وصیت نمبر 46تھا آپ نے 17جولائی 1928ء کو وفات پائی اور بوجہ موصی ہونے کے بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہوئے۔ آپ کی اہلیہ حضرت راج بی بی صاحبہؓ کا وصیت نمبر 47تھا انہوں نے 8اپریل 1906ء کو وفات پائی اور ان کا یاد گاری کتبہ بھی بہشتی مقبرہ قادیان میں لگا ہوا ہے، آپ کی اہلیہ حضرت حیات نور صاحبہؓ کا وصیت نمبر 179تھا۔ انہوں نے یکم اگست 1960ء کو وفات پائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ قطعہ صحابہ میں دفن ہوئیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں