حضرت میاں فضل دین صاحبؓ

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 24جون 2022ء)
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 18؍جولائی 2013ء میں مکرم نصیر احمد طارق صاحب اپنے والد محترم مولوی نواب الدین صاحب کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ اُن کے والد حضرت میاں فضل دین صاحبؓ آف دھرم کوٹ ضلع گورداسپور نے پندرہ سولہ سال کی عمر میں سنا کہ قادیان میں ایک ولی اللہ رہتے ہیں تو آپ کو اُن ولی اللہ سے ملنے کی خواہش پیدا ہوئی۔ ایک دفعہ جب آپ موضع مسانیاں (جو قادیان سے قریب ہے) اپنی خالہ سے ملنے گئے تو قادیان بھی چلے گئے۔ حضورعلیہ السلام کا پتا پوچھتے ہوئے رہائش گاہ تک پہنچے جہاں ایک کمرے کے باہر ایک دوست بیٹھے ہوئے تھے اور حضورؑ اندر عبادت میں مشغول تھے۔ آپؓ نے اُس دوست سے اپنی خواہش کا اظہار کیا تو انہوں نے بتایا کہ حضورؑ تھوڑی دیر بعد دروازہ کھولیں گے پھر ملاقات کرلینا۔ اسی دوران دو مزید افراد بھی آگئے۔ کچھ دیر بعد دروازہ کھلا اور حضورؑ نے ان سب کو اندر بلالیا۔
حضرت میاں فضل دین صاحبؓ کی روایت ہے کہ سب سے پہلے حضورؑ نے مجھ سے پوچھا کہ کیسے آئے ہو اور کہاں سے آئے ہو؟ مَیں نے سب کچھ بتاکر عرض کی کہ حضور سے ملنے کی خواہش تھی اس لیے حاضر خدمت ہوا ہوں۔ حضورؑ نے کھانے پینے کے لیے پوچھا تو مَیں نے عرض کی کہ خاکسار کو صرف حضورؑ کو دیکھنے کی تمنّا تھی۔ اس کے بعد حضورؑ دوسرے لوگوں سے باتیں کرتے رہے اور مَیں حضورؑ کے چہرۂ مبارک کی طرف دیکھتا رہا۔ خاکسار کو یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے کہ حضورؑ کے سینہ سے نُور نکل رہا ہے اور سارے کمرے میں پھیل رہا ہے۔ اس کے بعد خاکسار واپس اپنے گاؤں آگیا۔ کچھ عرصے بعد حضورؑ ہمارے گاؤں کے ایک صوفی بزرگ حضرت مولوی فتح الدین صاحبؓ (جو پنجابی زبان کے شاعر بھی تھے) کی ازحد خواہش اور دعوت پر ہمارے گاؤں آئے۔ حضورؑ کو ایک دیوان خانہ میں بٹھایا گیا اور کھانا وغیرہ بھی وہیں کھلایا گیا۔ بےشمار احباب ملاقات کے لیے آئے اور احباب کی خواہش پر حضورؑ نے تقریر بھی فرمائی۔ کافی عرصے بعد جب حضورؑ نے دعویٰ فرمایا تو ہمارے گاؤں کے ایک سکھ سردار نے احمدیت قبول کرلی اور اُن کا نام سردار فضل حق رکھا گیا۔
جب حضورؑ گاؤں آئے تو گرمی کا موسم تھا اور سخت خشک سالی تھی کہ جوہڑوں سے پانی بھی خشک ہوچکا تھا۔ لوگوں نے حضورؑ کی خدمت میں بارش برسنے کے لیے دعا کی درخواست کی تو حضورؑ نے اسی وقت لوگوں کو ساتھ ملاکر دعا کی۔ تھوڑی دیر بعد ایک چھوٹا سا بدلی کا ٹکڑا نمودار ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے سارے آسمان پر پھیل گیا۔ پھر اس قدر بارش ہوئی کہ گاؤں کے سارے جوہڑ بھرگئے اور ہرجگہ جل تھل ہوگیا۔
بارش تھم جانے کے بعد حضورؑ نے بٹالہ واپس جانے کے لیے یکّہ منگوایا۔ اُس وقت کچی سڑک پر پھسلن بہت تھی اور یکّہ بہت آہستہ آہستہ چل رہا تھا۔ چونکہ یکے میں صرف دو سواریوں کی جگہ تھی اس لیے مولوی صاحب ساتھ ساتھ پیدل چلتے رہے۔ بٹالہ پہنچ کر حضورؑ نے مولوی صاحب کو چار آنے دیے کہ آپ شہر سے کھانا کھالیں۔
حضرت میاں فضل دین صاحبؓ اگرچہ اَن پڑھ تھے لیکن ایک پُرجوش داعی الی اللہ تھے۔ آپؓ کے والد صاحب نے بھی آپؓ کے سمجھانے پر بیعت کرنے کی سعادت پائی۔ قریبی علاقے میں جہاں بھی احمدیوں کے ساتھ کسی مناظرے کا اعلان ہوتا تو وہاں پہنچ جاتے۔ کئی بار فسادیوں کے حملے کی صورت میں آپؓ نے ڈٹ کر مقابلہ کیا اور فسادیوں کو مار بھگایا۔ آپ پنجوقتہ نمازی اور تہجدگزار تھے۔ ابتدائی موصیان میں بھی شامل تھے اور بہشتی مقبرہ قادیان میں مدفون ہوئے۔ آپ کی نسلیں دنیا کے مختلف ممالک میں آباد ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں