حضرت میاں محمد حیات صاحب ؓ

ماہنامہ ’’انصاراللہ‘‘ ربوہ اکتوبر 2006ء میں مکرم غلام مصباح بلوچ صاحب کے قلم سے حضرت میاں محمد حیات صاحبؓ کا ذکر خیر شامل اشاعت ہے۔
حضرت میاں محمد حیات صاحب ولد نظام الدین صاحب موضع چک جانی ضلع جہلم میں قریباً 1864ء میں پیدا ہوئے۔ تعلیم حاصل کرکے ریلوے پولیس میںملازم ہوگئے۔ 1892-93ء میں آپ بسلسلہ ڈیوٹی ریلوے سٹیشن بھیرہ میں متعین تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک اشتہار پڑھا۔ جس پر آپؑ نے خدمت اقدس میں لکھا کہ میرے پاس تلوار اور ڈھال ہے جہاں حضورؑ حکم کریں، حاضر ہو جاؤں۔ جواباً آپ کو حضور کی طرف سے ایک پوسٹ کارڈ آیا جس کے شروع میں علاوہ بسم اللہ کے کلمہ توحید بھی پورا درج تھا۔ حضور نے فرمایا ہمارا جہاد یہ ہے کہ اپنی جگہ سے تمام دنیا میں حق کی آواز پہنچائیں، درود شریف، لاحول اور استغفار بکثرت پڑھنے کی تاکید کی اور پانچوں نمازوں کی باقاعدہ ادائیگی اور حتی المقدور تہجد پڑھنے کو بھی فرمایا۔ کچھ عرصہ بعد آپؓ ملازمت سے مستعفی ہو کر قادیان آ رہے اورکچھ عرصہ یہیں مقیم رہے۔ حضورعلیہ السلام کو جب معلوم ہوا کہ آپؓ نوکری چھوڑ کر آئے ہیں تو حضورؑ نے دوبارہ ملازمت اختیار کرنے کا ارشاد فرمایا۔ چنانچہ آپؓ ضلعی پولیس میں بھرتی ہو گئے۔
آپؓ کے ساتھی آپؓ کی نیکی اور تقویٰ کے قائل تھے، فرصت کا وقت آپؓ تلاوت قرآن کریم اور کتب بینی میں خرچ کرتے، جب کبھی تفتیش کے لئے باہر جاتے اپنے کھانے کا بندوبست علیحدہ رکھتے یہاں تک کہ گاؤں والوں سے لسی تک لینے سے پرہیز کرتے۔ آپ تبلیغ کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے، جہلم شہر میں بے دھڑک یہ فریضہ سرانجام دیتے۔ دین کے مقابلے میں دنیوی کاموں کو ثانوی حیثیت دیتے۔ جب سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حلقہ غلامی میں آ گئے حضور علیہ السلام کی محبت اور کشش رشتوں پر غالب آ گئی۔ رخصت لیتے تو بجائے وطن جانے کے قادیان چلے جاتے۔ حضرت مسیح موعودؑ جب کرم دین کے مقدمے میں 1903ء میں جہلم تشریف لا رہے تھے تو آپ نے حضور کی خدمت میں دن رات حاضر رہنے کے لئے رخصت حاصل کرلی۔ 1897ء میں حضورؑ نے اپنی کتاب ’’انجام آتھم‘‘ کے ضمیمہ میں اپنے 313 کبا ر صحابہ میں آپؓ کا نام 188ویں نمبر پر درج فرمایا ہے۔
7مارچ1907ء کو حضور علیہ السلام کو الہام ہوا پچیس دن یا یہ کہ پچیس دن تک۔ جس سے یہ تفہیم ہوئی کہ آئندہ پچیس دنوں تک کوئی نیا واقعہ ہونے والا ہے۔ چنانچہ 31 مارچ1907ء کو آسمان سے ایک شہاب ثاقب ٹوٹا جو ملک میں ہر جگہ دیکھا گیا، حضورؑ نے اپنی الہامی پیشگوئی کا ذکر اپنی کتاب ’’ حقیقۃ الوحی‘‘ میں کرتے ہوئے پچاس سے زائد گواہیاں بھی درج فرمائی ہیں جن میں آپؓ کی گواہی بھی درج ہے۔
ملازمت سے فراغت کے بعد 1920ء میں آپ ہجرت کرکے قادیان چلے آئے اور سلسلہ کی اعزازی خدمت کی توفیق پاتے رہے۔ دین کی خدمت کے دوران اپنی ذات کو بالکل فراموش کردیتے۔ پیغامیوں کے فتنہ کا مقابلہ آپؓ نے ہر جگہ کیا۔
آپؓ نے 14 جولائی 1946ء کو وفات پائی اور قطعہ خاص بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن کئے گئے۔
آپؓ کی اہلیہ حضرت رانی بی بی صاحبہؓ نے حضورؑ کے سفر جہلم کے دوران بیعت کا شرف پایا۔ اس بیوی سے حصول اولاد کے لئے حضرت میاں صاحبؓ نے حضورعلیہ السلام کی خدمت میں دعا کی درخواست کی تو حضورؑ کی دعاؤں کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک بیٹا عطا فرمایا۔ یہ بیٹے مکرم صوبیدار میجر محمد عبدالرحمٰن صاحب تھے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں