حضرت میاں وزیر محمد صاحبؓ آف رہتاس

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 15؍مارچ 2007ء میں مکرم غلام مصباح بلوچ صاحب کے قلم سے حضرت میاں وزیر محمد صاحبؓ آف رہتاس (ضلع جہلم) کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔
حضرت میاں وزیر محمد صاحب ولد میاں فضل الٰہی صاحب پہلے شیعہ مسلک سے تعلق رکھتے تھے۔ 1893ء میں احمدیت قبول کی تو بہت مخالفت ہوئی لیکن آپ استقلال کے ساتھ صداقت پر قائم رہے۔ ایک بار آپؓ نے حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں عرض کی کہ حضور مخالفت بہت ہے۔ فرمایا: ’’تم صداقت پر پختگی سے قائم رہنا، کامیابی کا راز اسی میں ہے۔ لیکن اگر تم صداقت سے ہٹ گئے تو ہرگز کامیاب نہ ہو گے‘‘۔ اور یہی جواب حضرت مسیح موعودؑ نے حضرت میاں علی بخش صاحبؓ رہتاسی اور ان کی اہلیہ رانی بیگم صاحبہ کو بھی دیا تھا۔
حضرت میاں وزیرمحمد صاحبؓ نہایت نیک اور پاک سیرت بزرگ تھے۔ دینی کاموں میں بڑی لگن کے ساتھ حصہ لیتے اور خلیفہ وقت کی آواز پر بلا تأمل عمل کرتے۔ 1928ء میں جب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے جماعتوں کو جلسہ سیرت النبی ﷺ منعقد کرنے کی ہدایت فرمائی تو آپؓ نے بھی رہتاس میں جلسہ کا اہتمام فرمایا۔ آپؓ رہتاس جماعت کے سیکرٹری مال بھی تھے۔ 1929ء کی رپورٹ میں اس وقت کے ناظر مال حضرت عبد المغنی صاحب لکھتے ہیں: میاں وزیر محمد صاحب سیکرٹری مال باوجود بڑھاپے اور کمزوری کے چندوں کے لئے جو سعی فرماتے ہیں وہ ان کی وصولی سے ظاہر ہے… سیکرٹری مال کو ایک دُھن ہے کہ وہ مرکز میں چندہ جمع کر کے بروقت داخل کرانے میں مصروف رہتے ہیں۔
جب حضرت بابو وزیر محمد صاحب آف لاہور کی وفات ہوئی تو حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحبؓ (سیکرٹری مجلس کارپرداز) نے حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں رہتاس والے وزیر محمد صاحب کی مسل پیش کردی۔ حضورؓ ؓ نے فرمایا کہ یہ مسل تو کسی پرانے صحابی کی معلوم ہوتی ہے اور ان سے تو میری واقفیت حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے زمانہ میں ہوئی تھی۔ مگر حضرت مولوی صاحبؓ کے یہ عرض کرنے پر کہ حضور میں نے تحقیق کر لی ہے، حضورؓ نے انہیں خاص قطعہ میں دفن کرنے کی اجازت دیدی۔ بعد میں حقیقت کا پتہ چلا۔
حضرت میاں وزیرمحمد صاحبؓ آخری عمر میں کچھ عرصہ قادیان بھی رہے۔ آپؓ نے 7؍اپریل 1939ء کو رہتاس میں بعمر 95 سال وفات پائی۔ جنازہ قادیان لایا گیا۔ حضورؓ نے نماز جنازہ پڑھائی اور بہشتی مقبرہ میں تدفین عمل میں آئی۔
مکرم عبد السلام بھٹی صاحب نے حضرت میاں صاحبؓ کی وفات پر لکھا کہ مَیں بسلسلہ ملازمت رہتاس ضلع جہلم میں متعین ہوا تو وہاں اوّلین صحابہ میں سے دو ایسے بزرگوں سے ملاقات ہوئی جن کی زندگی قابلِ رشک تھی اور جن کی صحبت سے قلب صاف ہوتا تھا۔ اُن میں سے ایک بزرگ حضرت میاں وزیر محمد صاحبؓ تھے۔ آپؓ پہلے شیعہ تھے اور امام باڑہ میں مجالس وغیرہ میں شامل ہوتے تھے۔ پھر اہل السنت والجماعت میں شامل ہوگئے اور جب حضرت مسیح موعودؑ کے دعویٰ کی اطلاع ہوئی تو فوراً احمدیت قبول کر لی۔ عبداللہ آتھم کے ساتھ جو مباحثہ حضرت مسیح موعودؑ کا ہوا اس کے سامعین میں شامل تھے۔ فرمایا کرتے تھے کہ بیعت کرنے کے بعد گھر کے سارے افراد اور سارا خاندان مخالف ہوگیا اور ایذادہی کی کارروائیاں ہونے لگیں لیکن جتنی جتنی مخالفت تیز ہوتی گئی اتنی ہی دل میں لذت پیدا ہوتی گئی اور ایسی لذت پہلے ساری زندگی میں کبھی محسوس نہیں ہوئی تھی۔
قرآن مجید کی تلاوت کا بہت شوق تھا آخری عمر میں نظر بہت کمزور ہوگئی تھی مگر خاص اہتمام قرآن کریم کی تلاوت کے لئے فرماتے۔ حضرت مسیح موعودؑ کے ساتھ عشق تھا اور حضورؑ کے ذکر پر چشم پُرآب ہوجاتے۔ دعوت الی اللہ کا بے حد شوق تھا۔ اپنے عزیزوں کو بارہا سمجھانے کی کوشش کرتے مگر افسوس کہ ان میں سے کسی کو احمدیت نصیب نہ ہوئی۔ چونکہ موصی تھے اس لئے اپنے قریبیوں سے خوف بھی رہتا تھا کہ کہیں یہ قادیان لے جانے میں روک نہ بن جائیں۔ انہوں نے خود اپنے لئے صندوق بنوا کر اور میت کے قادیان پہنچانے کا سب انتظام مکمل کیا ہوا تھا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ خواہش پوری فرمائی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں