حضرت میر خلیل الرحمن صاحب

(مطبوعہ انصارالدین یوکے نومبرودسمبر2022ء)

(اقبال احمد نجم)

حضرت میر خلیل الرحمن صاحب

میرے خالو جان مرحوم حضرت میر محمد خلیل الرحمن صاحب سیوہاروی کا تعارف کچھ اس طرح ہے کہ آپ سیوہارہ ضلع بجنور کے رہنے والے تھے۔ آ پ نے مجھے اپنا بیٹا بنایا تھا اور مَیں آپ کے ہاں رہا کرتا تھا جہاں نانا جان ؓ اور نانی جان بھی رہتے تھے۔

اقبال احمد نجم صاحب

اس روحانی ماحول میں میری پرورش ہوئی۔ میں نے وہاں وہ سب کچھ مشاہدہ کیا جو کچھ دینے کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام دنیا میں تشریف لائے تھے۔ آپؑ نے اس سلسلہ میں کیا خوب فرمایا ہے:

مبارک وہ جو اب ایمان لایا
صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا
وہی مے ان کو ساقی نے پلا دی
فسبحان الذی اخزی الاعادی

میرے خالو جان حضرت میر خلیل الرحمن صاحب سیوہاروی اپنے علاقہ میں ایک مانے ہوئے پیر تھے۔ آپ نے اپنی زندگی مجاہدات، چلہ کشیوں او رعبادات و ذکرِ الٰہی میں گزاری اور تزکیۂ نفس اور عرفانِ الٰہی حاصل کیا۔آپ ایک مستجاب الدعوات بزرگ تھے۔ خلق خدا آپ سے فیضیاب ہوتی تھی۔ آپ نے مجھے بتایا کہ آپ تفسیرِ حقانی کا مطالعہ کررہے تھے تو اس میں ایک جگہ مسئلہ امامت زیرِ بحث تھا اور یہ لکھا تھا کہ مَن مَاتَ بغیر امامٍ مَاتَ میتۃ الجاھلیہ (مسند احمدبن حنبل و ترمذی) اور مَنۡ مات وَلیس علیہ امامٌ وجماعۃٌ فَاِنَّ مَوۡتَہ مََوۡتَۃالجاھلیہ (رواہ الحاکم من حدیث ابن عمروحدیث معاویہ ومن حدیث ابن عباس) کہ جو بغیر امام کے مرگیا یا اس حالت میں مرگیا کہ نہ اس کا امام نہ جماعت تو اس کی موت جہالت کی موت ہے۔
یہ پڑھ کر آپ فکر مند ہوگئے اور دعائوں میں مصروف ہوگئے تاکہ آپ کو سچا امامِ طریقت مل جائے۔ اس اثناء میں آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی اور دیکھا کہ آپ ؐ نے نمازِ فجر کی آپ کو امامت کروائی ہے۔ آپ مطمئن ہوگئے۔ مگر اگلے روز دیکھا کہ ایک اور بزرگ تشریف لائے ہیں اور انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مصلے پر کھڑے ہوکر آپ کو نمازِ فجر کی امامت کروائی ہے۔ اسی طرح اگلے دو روز دو اَور بزرگوں کو اسی مصلے پر نمازِ فجر کی امامت کراتے پایا۔ آپ زیادہ مشوش ہوگئے کہ یہ کیا ماجرا ہے کہ مختلف امام آپ کو امامت کروارہے ہیں۔
ایک دن آپ بالائی منزل پر بعد نمازِ فجر ذکرِ الٰہی میں مشغول تھے تو کشفی حالت طاری ہوگئی اور دیکھا کہ زینے کی کنڈی ہل کر کھل گئی ہے اور ایک فرشتہ ڈاکیے کے لباس میں آیا ہے اور کہتا ہے کہ پیر جی! آپ کے لیے اللہ میاں کا ایک تار آیا ہے۔ آپ نے فرشتے کو جواب میں کہا کہ مجھے تو انگریزی نہیں آتی۔ مجھے پڑھ کر سنائو کہ اللہ میاں نے کیا لکھا ہے۔ فرشتے نے جواب میں بتایا کہ اس میں لکھا ہے کہ ’’At onceامرتسر پہنچو!‘‘ اس کے ساتھ کشفی حالت اپنے اختتام کو پہنچی تو آپ سجدہ ریز ہوگئے اور التجا کرنے لگے کہ اے باری تعالیٰ! امرتسر میں تو سکھوں کا دربار ہے۔ میں وہاں جاکر کیا کروں؟ کیا سکھ ہو جائوں؟ تب تفہیم ہوئی کہ نہیں امرت کے معنی ہیں زندگی اور سر کے معنی ہیں چشمہ۔ ’’ہم نے امرتسر کے قریب اس کے سرپر ایک زندگی کا چشمہ جاری کیا ہے وہاں جاؤ۔‘‘
تب آپ پر کھلا کہ قادیان کے متعلق ارشاد ہوا ہے کیونکہ آپ کو یاد آیا کہ اس سے قبل آپ کے ایک دُور کے عزیز منشی محمد رحیم الدین صاحب بھی قادیان جاکر احمدی ہوچکے ہیں۔ چنانچہ آپ فورًا قادیان پہنچ گئے اوروہاں حضرت میر محمد اسحاق صاحب رضی اللہ عنہ تمام دن آپ سے تبلیغی گفتگو فرماتے رہے۔ شام ہوئی تو انہوں نے فرمایا کہ جائو دارالضیافت میں آرام کرلو۔ باقی کل ان شاء اللہ بات کریں گے۔ اس پر خالو جان نے حضرت منشی محمد رحیم الدین صاحب کے ہاں جانے کی خواہش کا اظہار فرمایا۔ چنانچہ آپ کو ان کے ہاں بھجوا دیا گیا۔ آپ کی ناگہانی آمد پر سب کو بڑی حیرانی ہوئی۔ تاہم خوش آمدید کہا گیا اور بستر بیٹھک میں لگوا دیا گیا جہاں انگیٹھی پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ اور حضرت خلیفۃالمسیح الثانی ؓ کی تصاویر رکھی تھیں۔ یہ تصاویر اُن بزرگوں کی تھیں جن کو آپ نے رؤیا میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یکے بعد دیگرے نمازِ فجر کی امامت کراتے دیکھا تھا۔ آپ پر حقیقت اظہر من الشمس ہوگئی کہ یہ سلسلہ تسلسل میں آنحضرت ﷺ کا ہی سلسلہ ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپ کے بتائے ہوئے مہدیٔ برحق ہیں۔ چنانچہ تمام رات اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے رہے اور فجر کی نماز مسجد مبارک میں جاکر ادا کی اور رؤیا میں آخری دن جو کچھ دیکھا تھا وہ سچا ہوگیا۔ حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انہی آیات کی تلاوت کی جو رؤیا میں کی تھی۔ اس پر آپ نے وہیں بیعت کرلی۔ الحمدللہ کہ آپ کو سچا امام مل گیا تھا جس کے لیے آپ کے قلب صافی میں ایک عرصے سے بے پناہ تڑپ پائی جاتی تھی۔
آپ قبولیتِ احمدیت کے بعد واپس اپنے وطن گئے اور جاتے ہی اعلان کردیا کہ وہ اب پیر سے مرید بن گئے ہیں اور انہوں نے حضرت مہدیٔ آخر الزمان علیہ السلام کے سلسلہ عالیہ احمدیہ کو سچا مان کر بیعت کرلی ہے۔ اس پر آپ کے خانوادے کو جھٹکا سا لگا کیونکہ پیری فقیری سے ایک اچھی آمدنی بھی تھی اور اپنی نرینہ اولاد نہ ہونے کی وجہ سے آپ نے اس آمدنی سے سب جائیداد بھی اپنے والد صاحب کے نام بنائی تھی۔ اسی اثنا ء میں آپ کے ایک بھتیجے مولانا حفظ الرحمن صاحب سیوہاروی نئے نئے مولوی بن کر آئے تھے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے تایا کے خلاف یہ فتویٰ دے دیا کہ وہ کافر ہوگئے ہیں اور آپ کی ازواج کے نکاح منسوخ ہوگئے ہیں۔ پھرآپ کی تینوں ازواج کو اپنے اپنے میکے چلے جانے پر مجبور کیا گیا۔ خالوجان نے انہیں کہا کہ وہ جو کچھ بھی روپیہ پیسہ زیور کپڑے لے جاسکتی ہیں، لے جائیں۔ اس طرح سے وہ سب روتی دھوتی اور نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے خاوند سے جدا کردی گئیں۔
آپ نے احمدیت کی سچائی کی خاطر ہر تکلیف کو برداشت کیا۔ تاہم گھر والوں کی سختی بڑھتی جاتی تھی۔ بالآخر آپ کو عاق کردینے کا فیصلہ کیا گیا اور تمام جائیداد اور وراثت سے محروم کردیا گیا۔یہ سوچ کر شاید کہ آپ ان سختیوں اور تنگیوں سے واپس لَوٹ آئیں او راحمدیت کا انکار کردیں مگر وہ نہیں جانتے تھے کہ

یہ وہ نشہ نہیں جسے ترشی اتاردے

خالوجان نے جب دیکھا کہ اب آپ کا کچھ بھی وہاں نہیں رہا اور اپنے بیگانے ہوگئے ہیں تو آپ نے سچائی کی خاطر اور مولیٰ کی رضا کی خاطر اپنے وطن کو خیرباد کہا اور وہاں سے ہجرت کرکے پانی پت آگئے۔ آپ نے حساب کتاب کے کچھ کورس پاس کیے ہوئے تھے حالانکہ بظاہر ان کی آپ کو کوئی ضرورت نہ تھی لیکن آپ کے مولیٰ کو معلوم تھا کہ ایک دن آپ کو ان کی ضرورت پڑے گی۔ چنانچہ آپ نے انہی کورسز کی بنا پر محکمۂ انہار میں ملازمت کرلی اور گرداور ہوگئے۔
آپ وہاں المشہور ’’کوٹھی لوہاری‘‘ میں فروکش ہوئے۔ ہر جمعہ کو قادیان آکر جمعہ کی ادائیگی فرماتے۔ آنے جانے اور میل ملاپ سے اللہ تعالیٰ نے آپ کی تنہائی کا یہ علاج فرمادیا کہ میری خالہ جان مسعودہ بانو صاحبہ بنت حضرت حشمت اللہ خان ؓ صاحب کے ساتھ آپ کا عقد ہوگیا۔ اگرچہ کئی عزیزوں نے مخالفت کی اور اسے ایک بے جوڑرشتہ قرار دیا اور کئی طرح کی باتیں کیں مگر ہمارے نانا جان نے ایک ہی جواب دیا کہ خلیل الرحمن نے احمدیت کی خاطر جو قربانی دی ہے اس کی وجہ سے میں اپنی بیٹی اس کی خاطر قربان کرسکتا ہوں۔ اس میں تقویٰ ہے اور اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہ اَتْقٰکُمْ (الحجرات) کو سب پر فوقیت ہے۔ چنانچہ میں نے ہوش سنبھالا تو دیکھا کہ یہ سچ مچ قابل رشک جوڑا تھا۔ ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَائُ۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں