حضرت میر ناصر نواب صاحب رضی اللہ عنہ

حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ 1845ء یا 1846ء میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد محترم خواجہ ناصر امیر صاحب خواجہ میر دردؒ کے گدی نشین تھے۔ ابھی آپ بچے ہی تھے کہ آپ کے والد صاحب وفات پا گئے اور دو سال بعد غدر میں آپ کے سارے کنبہ کو دلّی سے نکلنا پڑا۔ آپ کی والدہ نے گھر سے صرف قرآن کریم اٹھایا اور آپ کے ایک ماموں نے جو پانی پت میں ڈپٹی کلکٹر تھے آپ سب کو اپنے پاس بلا لیا۔ پھر یہ خاندان اڑھائی سال بعد واپس دہلی آیا اور آپ کی والدہ نے تعلیم کی خاطر آپ کو ضلع گورداسپور بھجوادیا جہاں جاکر آپ اہلحدیث ہوگئے اور انگریزی پڑھنے سے انکار کر دیا۔
جب آپ واپس دلّی آئے تو آپ کی شادی سادات خاندان میں کردی گئی۔ آپ نے اپنی کتاب ’’حیات ناصر‘‘ میں اپنی زوجہ محترمہ کی بہت تعریف کی ہے۔ شادی کے کچھ عرصہ بعد آپ کی والدہ نے بیکاری کی وجہ سے آپ کو اپنے بھائی کے پاس لاہور بھیج دیا جہاں آپ ایک سال کی تعلیم پا کر امرتسر میں اوورسیئر ہو گئے۔ شادی کے تین سال کے بعد آپ کے ہاں ایک بیٹی پیدا ہوئی جس کا نام ’’نصرت جہاں‘‘ رکھا۔ انہی دنوں آپ کو اپنی خاندانی جائیداد بھی واپس مل گئی۔
پھر آپ کے ہاں پانچ بچے پیدا ہوئے لیکن سب فوت ہوگئے۔ 1881ء میں حضرت میر محمد اسماعیل صاحبؓ کی پیدائش ہوئی اور اس کے بعد اپنی زوجہ محترمہ کے علاج کے سلسلہ میں کچھ عرصہ آپ کا قیام قادیان میں رہا۔ اس دوران آپ نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو جو اکثر ایک کوٹھٹری میں کھڑکی کے پاس قرآن شریف پڑھا کرتے تھے بہت گہری نظر سے دیکھا اور انہیں بہت متقی اور نیک پایا۔
1885ء میں حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے لئے حضرت سیدہ نصرت جہاںؓ صاحبہ کی شادی کی تحریک کی جو قبول کرلی گئی۔ حضرت میر محمد اسماعیل صاحبؓ کے بعد آپ کے ہاں پانچ مزید بچے پیدا ہوئے لیکن سب فوت ہو گئے۔ پھر 1890ء میں حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ پیدا ہوئے۔ اس عرصہ کے دوران حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ مختلف مقامات پر بسلسلہ ملازمت مقیم رہے۔ 1889ء میں جب پہلی بار بیعت ہوئی تو آپ نے نہ صرف بیعت نہیں کی بلکہ قادیان آنا ہی ترک کر دیا۔ 1892ء کے جلسہ سالانہ میں شرکت کیلئے حضرت مسیح موعودؑ کے متعدد دعوتی خطوط موصول ہونے پر آپ قادیان تشریف لے گئے اور پھر وہیں پر بیعت کی سعادت بھی پالی۔ اس کے بعد جلد ہی اپنی ملازمت سے پنشن لے کر قادیان آبسے۔
آپؓ فرماتے ہیں کہ بندہ سرکاری نوکری سے فارغ ہو کر حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں مشغول ہو گیا۔ گویا میں ان کا پرائیوٹ سیکرٹری تھا ، خدمتگار تھا ، مالی تھا ، زمین کا مختار تھا ، معاملہ وصول کیا کرتا تھا۔ ابتداء میں جب حضرت صاحبؑ باہر جاتے تو مجھے گھر کی حفاظت اور قادیان کی خدمت کیلئے چھوڑ جاتے تھے۔ آخر زمانہ میں جب کہیں سفر کرتے تھے اور گھر کے لوگ ہمراہ ہوتے تھے تو بندہ بھی ہمرکاب ہوتا۔
حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ نے مکمل طور پر خود کو حضرت اقدسؑ کی خدمت میں وقف کر دیا ہوا تھا۔ 1898ء میں مدرسہ تعلیم الاسلام کا آغاز ہوا تو آپؓ ناظم مدرسہ مقرر ہوئے۔ کئی تعمیراتی کاموں کی نگرانی کی آپؓ کو توفیق ملی۔ حضرت مسیح موعودؑ کی وفات کے بعد آپؓ خدمت خلق میں مصروف ہوگئے۔ مسجد نور کی تعمیر کروائی، دارالضعفاء تعمیر کروایا اور وہاں ایک کنواں اور مسجد بنوائی، نور ہسپتال تعمیر کروایا۔ مسجد اقصیٰ میں خطبہ کا منبر بنوایا۔ احمدیہ بازار کا فرش پختہ کروایا۔ نیز غریب پروری کے کئی کام کئے۔ افسر بہشتی مقبرہ بھی رہے۔ حضرت مصلح موعودؓ کے دور میں آپؓ نے ایک بڑی رقم سلسلہ کے کاموں کے لئے حضورؓ کی خدمت میں پیش کی۔
19دسمبر 1924ء کو 79 سال کی عمر میں حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ نے وفات پائی۔ آپ ہمیشہ حلال اور طیب رزق کیلئے کوشاں اور مشتبہ رزق سے مجتنب رہے۔ حق کہنے میں کبھی نہ جھجکتے اور خدمت دین کے کسی بھی کام کیلئے کبھی عار نہ محسوس کی۔
حضرت میر صاحبؓ کی سیرت پر ایک مفصل مضمون محترمہ صاحبزادی طیبہ صدیقہ بیگم صاحبہ کے قلم سے روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 23ستمبر کی زینت ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں