حضرت نواب محمد عبدﷲ خان صاحبؓ

(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ 9 نومبر 2018ء)

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 24؍اکتوبر 2012ء میں مکرم خواجہ عبد الغفار ڈار صاحب کے قلم سے حضرت نواب محمد عبداللہ خان صاحبؓ کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔
مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحبؓ خاکسار کے محسن تھے۔ زمانہ طالب علمی کے ایام میں قادیان میں مجھے آپؓ کی وسیع و عریض کوٹھی ’دارالسلام‘ میں پانچ سال سے زائد عرصہ قیام کرنے کی سعادت ملی جس کے دوران آپ کے اخلاق حسنہ اور شفقت سے براہ راست فیض پانے کا شرف حاصل رہا۔
آپؓ حضرت حجۃاللہ نواب محمد علی خان صاحبؓ کی پہلی بیوی محترمہ مہرالنساء بیگم صاحبہ کے بطن سے پیدا ہوئے اور حضرت مسیح موعودؑ کے داماد بننے کا شرف پایا۔ آپؓ کی سیرت و سوانح پر مشتمل ایک ایمان افروزکتاب لجنہ اماء اللہ لاہور نے شائع کی ہے جس کے پیش لفظ میں (بقلم حضرت سیّدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ) لکھا ہے کہ ’’14-15 سال کی عمر سے ہی ان میں احمدیت کی پختگی اور سعادت کو دیکھ کر ان کے والد (نواب صاحب) نے ان کو چن لیا تھا کہ عزیزہ امۃالحفیظ بیگم کے پیغام دینے کو میرا یہی لڑکا مناسب اور موزوں ہے۔ فرماتے تھے (کہ) حضرت مسیح موعودؑ کی دختر کا پیام اسی کے لئے دینے کی جرأت کرسکتا ہوں جس کو ایمان و اخلاص اور احمدیت میں دوسروں سے بڑھ کر پاتا ہوں۔ پھر یہ رشتہ ہوگیا اور مبارک ہوا۔ جو پہلے روحانی طور پر زیادہ نزدیک تھے اور اب جسمانی طور پر بھی آملے۔‘‘
حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ کے عقد میں حضورؑ کی بڑی صاحبزادی حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ اور آپؓ کے بیٹے حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحبؓ کے عقد نکاح میں حضورؑ کی چھوٹی بیٹی دخت کرام صاحبزادی امۃالحفیظ بیگم صاحبہؓ آئیں۔ اس طرح دنیاوی لحاظ سے مالیرکوٹلہ کے رئیسوں کے اس خاندان کو روحانی لحاظ سے بھی چار چاند لگ گئے اور یوں یہ خاندان حضرت مسیح موعودؑ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والی ان خوشخبریوں، بشارات اور روحانی انعامات و برکات کا بھی مورد ٹھہرا جن میں اللہ تعالیٰ نے آپ سے یہ وعدہ فرمایا تھا کہ ’’تیرا گھر برکت سے بھرے گا اور میں اپنی نعمتیں تجھ پر پوری کروں گا اور خواتین مبارکہ سے، جن میں سے تو بعض کو اس کے بعد پائے گا، تیری نسل بہت ہوگی اور میں تیری ذریت کو بڑھاؤں گا اور برکت دوں گا۔‘‘ (تذکرہ صفحہ 111 )
حضرت نواب محمد علی خانصاحبؓ کی ایک بیٹی حضرت بُوز ینب بیگم صاحبہؓ کو خود حضورؑ کی خواہش اور منشاء کے مطابق حضورؑ کی بہو بننے کا شرف حاصل ہوا اور وہ حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ کے عقد میں آئیں۔ یہ رشتہ اگرچہ حضورؑ کی حیات مبارکہ میں طے ہوگیا تھا مگر نکاح حضرت مصلح موعودؓ کے دَورِ خلافت میں 7؍جون 1915ء کو حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ نے مسجد اقصیٰ قادیان میں پڑھایا تھا جنہیں اس غرض کے لئے حضرت مصلح موعودؓ نے خصوصی طور پر لاہور سے بلوایا تھا۔ مذکورہ کتاب میں درج ہے:’’بارگاہ ِ الٰہی میں مقبول یہ نکاح الفضل مورخہ 21جون 1915ء میں شائع ہوا۔ اس کی ایک ایک سطر پڑھنے کے لائق ہے کہ عرش الٰہی سے اس کی مقبولیت کی نوید اس طرح آئی کہ بذریعہ رؤیا حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحب کو حضرت مسیح موعودؑ اور خلیفۃالمسیح الاولؓ نے نکاح کی مبارکباد دی۔‘‘
حضرت نواب محمد عبداللہ خان صاحبؓ بچپن ہی سے نماز باجماعت بلکہ تہجد کے بھی سختی سے پابند تھے اور اللہ تعالیٰ آپ کی دعائوں کو شرف قبولیت بخشتا تھا۔ مشتے از خروارے صرف ایک واقعہ پیش خدمت ہے۔ آپؓ خود فرماتے ہیں: ’’جب میں میٹرک کے امتحان کی تیاری کر رہا تھا مَیں Bronchitis سے بیمار ہو گیا۔ امتحان میں صرف بیس پچیس دن باقی رہ گئے۔ میں پہلے کلاس میں کمزور تھا۔ اس پر اس بیماری کی وجہ سے امتحان کی تیاری کو ترک کرنا پڑا۔ جب مَیں ذرا کچھ اچھا ہوا اور کچھ لکھنے کے قابل ہوگیا تو میرے دل میں فکر پیدا ہوا کہ کہیں امتحان میں رہ نہ جائوں۔ ماسٹر صاحب کو بھی خیال تھا کہ اب مجھے امتحان نہیں دینا ہے۔ میرے چھوٹے بھائی عبدالرحیم خان جو کہ اب بیرسٹر ہیں میرے کلاس فیلو تھے اس سے بھی شرمندگی اور ندامت محسوس ہو رہی تھی کہ چھوٹا بھائی آگے نکل جائے گا، ان سب وجوہ سے میرے قلب میں بے چینی اور اضطراب کا پیدا ہونا لازمی تھا۔ مَیں نماز کا بچپن سے عادی تھا اور دعائوں کا بھی عادی تھا اس لئے ان باتوں سے متأثر ہو کر مَیں اللہ کے آگے جھکا اور عشاء کی نماز کے بعد میں نے ان الفاظ میں دعا کی:’’اے میرے مولا کریم میں اپنی عمر کے لحاظ سے امتحان دیر سے دے رہا ہوں۔ داڑھی نکل رہی ہے بچوں میں بیٹھا شرم محسوس کروں گا۔ اس کے علاوہ میرا چھوٹا بھائی بھی مجھ سے آگے نکل جائے گا۔ تُو اپنا فضل و کرم فرما اور مجھے کامیاب کر دے‘‘۔ میں ایک لمبا عرصہ دعا کرتا رہا۔ میرے مولا کریم نے اپنی ہستی کا ثبوت پہلی دفعہ دیا اور مجھ پر ظاہر کیا کہ وہ سمیع و علیم مجیب خدا بھی ہے۔ مَیں نے رات کو دیکھا کہ کسی نے ایک سلپ میرے سامنے پیش کی ہے اس پر یہ تحریر تھا:’’وَمَا رَمَیْتَ……‘‘ مجھے اس خواب سے تسلی ہوئی چنانچہ مَیں جتنی بھی ان حالات میں تیاری کر سکتا تھا کرنی شروع کر دی۔ آخر وہ دن آگیا کہ ہم بٹالہ امتحان دینے کے لئے گئے۔ امتحان کے دوران میں انگلش B پیپر اور سائنس کے پیپر دونوں خراب ہوئے اور رہی سہی امید بھی جاتی رہی۔ جب امتحان سے واپس آیا تو ہمارے ہیڈ ماسٹر مولوی محمد دین صاحبؓ کامیابی سے اس قدر ناامید اور مایوس تھے کہ فرمانے لگے کہ یونیورسٹی ہال دیکھ آئے ہو؟ مَیں نے ہنس کر کہا کہ ہاں دیکھ آیا ہوں۔ جب میرے پر پھر مایوسی آنے لگی تو میں پھر اپنے مولیٰ کریم کے حضور گرا اور اپنی کامیابی کے لئے دعا کی۔ چنانچہ ایک رات پُرزور آواز میں کوئی کہتا ہے کہ ’’تم ضرور پاس ہوجائوگے۔‘‘ یہ آواز میں نے تین بار سنی۔ چنانچہ میں نے اپنا یہ خواب دوستوں کو بھی سنایا۔ جب نتیجہ نکلا تو وہ طلبا ء جو ساری ساری رات پڑھنے میں گزارتے تھے اور انہوں نے ازحد محنت کی تھی وہ تو فیل ہو جاتے ہیں اور مَیں صرف 13 نمبروں کے فرق سے پاس ہو جاتا ہوں۔ میرا بھائی عبدالرحیم خان جنہوں نے از حد محنت کی تھی وہ بھی فیل ہوجاتے ہیں۔
حجتہ اللہ حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ نے اپنے بیٹے میاں محمد عبداللہ صاحب کو اُن کا رشتہ طَے ہونے پر جو خطوط لکھے ان میں سے چند خطوط مذکورہ کتاب کی زینت ہیں۔ یہ خطوط تربیت اولاد کے سنہری اصول ہونے کے ساتھ ساتھ اس عظیم باپ کے عظیم بیٹے کی حضرت مسیح موعودؑ اور خواتین مبارکہ سے بے پناہ محبت اور عقیدت کی بھی عکاسی کرتے ہیں۔ ایک خط کے مندرجات کچھ اس طرح ہیں: ’’دین کے لحاظ سے یا دنیا کے لحاظ سے جو بڑے ہوں ان سے تعلقات میں بہت مشکلات ہوتی ہیں۔ میری شادی بھی دین کے لحاظ سے ایک بڑے مقدس محبوب الٰہی کی بیٹی سے ہوئی ہے اور اسی کی بیٹی سے تمہاری۔ یہ ایک بڑا مشکل مرحلہ ہے۔ اس کا نبھانا سوائے اللہ تعالیٰ کے فضل کے نہیں ہوسکتا۔ … پس جس طرح مَیں مسیح موعود کی بڑی بیٹی سے سلوک کرتا ہوں اور عزت و ادب کرتا ہوں تم کو مسیح موعودؑ کی چھوٹی بیٹی کا ادب اور حسن سلوک کرنا چاہیے اور اس کو نبھانا چاہیے۔‘‘
حضرت نواب محمد عبداللہ خان صاحب نے اپنے والد گرامی کی اس نصیحت کو عمر بھر پلّے باندھے رکھا۔ آپ کی زندگی میں اپنی اہلیہ محترمہ دخت کرام حضرت صاحبزادی امۃ الحفیظ کی خدمت گزاری اور آپ کے سامنے عاجزی اور انکساری کا مظاہرہ کرنے کے بے شمار واقعات ملتے ہیں۔ مثلاً آ پؓ کی صاحبزادی بیان کرتی ہیں کہ ’’ایک دفعہ ابّا امّی کے ساتھ وہ اور آپا قدسیہ ڈلہوزی میں سیر کے لئے جارہے تھے کہ راستے میں امّی کے جوتے کا تسمہ کھل گیا ابّا نے فوراً جھک کر تسمہ باندھا اور ہم لڑکیوں سے مخاطب ہوکر فرمایا:’’یہ امید اپنے خاوندوں سے نہ لگا بیٹھنا میں تو ان کی عزت حضرت مسیح موعودؑ کی بیٹی سمجھ کر کرتا ہوں۔‘‘
ایک موقع پرآپؓ نے فرمایا: مَیں نے اپنا وجود درمیان سے بالکل ہی مٹا دیا ہے اور بیگم صاحبہ جو کہ حضرت مسیح موعودؑ کی بیٹی ہیں اُن کی وجہ سے جو کچھ میرا تھا وہ اب مٹ چکا ہے۔
اس کتاب میں حضرت نواب محمد عبداللہ خانصاحبؓ کے حوالہ سے تاریخ احمدیت کے کئی پوشیدہ اور گمنام گوشوں کی بھی نشاندہی کی گئی ہے۔ مثلاً 1915میں لاہور میں احمدی طلباء کے لئے ’’احمدیہ ہوسٹل‘‘ کا قیام بھی حضرت نواب صاحب کی کاوشوں اور ذاتی دلچسپی کا مرہون منّت ہے۔ یہ ہوسٹل 1947ء تک قائم رہا پھر 1966ء میں ایک بار پھر قائم ہوگیا۔ رپورٹ مجلس مشاورت 1928ء کے مطابق اس ہوسٹل کے اوّلین مکینوں اور قدیم طلباء کی فہرست میںپہلا نام میاں محمد عبداللہ خانصاحب اور دوسرا آپ کے انتہائی قریبی دوست ملک غلام فرید صاحب کا ہے۔ پھر تقسیم ہند سے قبل سندھ میں صدر انجمن احمدیہ کیلئے اراضی کے حصو ل کے لئے حضرت نواب صاحب نے جس جانفشانی اور قربانی کے جذبہ سے کام کیا وہ تاریخِ احمدیت کا روشن باب ہے۔ اس سلسلہ میں آپ فرماتے ہیں:’’جو محنت مَیں نے اس رقبہ کی تلاش میں کی یہ خدا تعالیٰ کا خاص فضل تھا کہ اس نے مجھے اس قدر محنت کی توفیق دی۔ ورنہ میرے جیسا آرام طلب آدمی اس قدر دُور دراز ملک میں جہاں نہ کوئی آبادی نہ کوئی کھانے پینے کا آرام تھا مَیں سوچتا ہوں تو ورطۂ حیرت میں پڑ جاتا ہوں۔ لیکن خداتعالیٰ نے جب کوئی کام کروانا ہو تو اس کی توفیق دے دیتا ہے اور سامان بھی پیدا کردیتا ہے۔ مَیں چونکہ انجمن کا امین تھا اس لئے میں نے اس کام کے دوران اس قدر اخراجات کم کئے کہ میری حیثیت کے کسی دوسرے کارکن نے نہ کئے ہوں گے۔ میں خود ذاتی طور پر اپنے کاموں میں ریفریشمنٹ روم میں کھانا کھانے کا عادی تھا لیکن اس کام کے دوران میں نے بازار سے کھانا منگوا کر کھایا۔ سات دفعہ اراضیات کے دیکھ بھا ل کے لئے آیا۔ بعض اوقات کئی کئی ماہ بھی سندھ میں رہا لیکن کُل اخراجات جو اِس دوران میں نے کئے وہ بارہ صد روپے تھے۔ پھر رہائش کے لئے جو جگہ بنائی ہوئی تھی وہ دو درختوں کے تنوں پر کھڑی تھی۔ اردگرد چری کے کانے کھڑے کئے ہوئے تھے۔ برتن اور کرسیاں بھی اپنے گھر سے لے گیا تھا۔ پیٹی جس میں برتن بند کر کے رکھے ہوئے تھے وہ میز بنائی گئی تھی۔
یہ بات بھی تاریخ میں ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو چکی ہے کہ پارٹیشن کے نتیجہ میں قادیان سے ہجرت کے بعد موجودہ ربوہ کی اراضی کی خرید کے لئے ابتدائی خط و کتابت بھی آپؓ کے دستخطوں سے ہوئی تھی۔ اس بارہ میں آپ نے بطور ناظر اعلیٰ صدر انجمن احمدیہ رتن باغ لاہور سے ڈپٹی کمشنر جھنگ کے نام خط لکھا تھا۔
حضرت نواب صاحبؓ کی ذاتی ڈائریاں بھی آپ کی نیک فطرت، تقویٰ، پرہیزگاری اور توکل علی اللہ کی اعلیٰ صفات کی مظہر ہیں۔ ایک جگہ لکھتے ہیں:’’قرضوں کی ادائیگی کی کماحقہ ٗ کوئی صورت پیدا نہیں ہورہی ہے معلوم نہیں یہ صورت شامت اعمال کی وجہ سے ہے یا پھر کوئی امتحان مقدّر ہے اس لئے بعد نماز عشاء دو نفل پڑھنے شروع کئے جن میں خیر و برکت کی دعا کرتا ہوں، گناہوں کی معافی چاہتا ہوں۔‘‘
پھر ایک اور جگہ لکھتے ہیں کہ’’میرے ساتھ مولیٰ کا سلوک ہے کہ ذرا سی غلطی ہونے پر مجھے فوراً پکڑتا ہے۔ دوسرے وہی کام کرتے ہیں ان کا کچھ نہیں ہوتا۔یہ بھی اللہ تعالیٰ کا احسان و فضل ہے کہ فوراً بل نکال کر صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق دیتا ہے۔ … ادھر غلطی کی اور اُدھر طمانچہ تیار ہوتا ہے۔ اکثر مجھے شکایت بھی ہوتی ہے کہ اکثر اس قسم کی غلطیاں دوسرے بھی تو کرتے ہیں ان کو کیوں پکڑ نہیں آتی لیکن مجھ پر فوراً گرفت ہوتی ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ اِن نیک اور بابرکت وجودوں کی نیکیاں ہمیشہ زندہ اور تازہ رکھے۔ آمین

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں