حضرت چودھری محمد ظفراللہ خان صاحبؓ

اللہ تعالیٰ نے حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحبؓ کو اعلیٰ روحانی ترقیات کے ساتھ عظیم الشان دنیاوی مراتب پر بھی فائز فرمایا تھا جو بین الاقوامی افق تک ممتد تھے۔ چنانچہ آپ کے انتقال پُرملال پر پاکستان کے علاوہ دنیا بھر سے عظیم شخصیات کی جانب سے بڑی تعداد میں تعزیتی پیغامات موصول ہوئے جن میں آپ کی شخصیت اور عظیم کارناموں اور خدمات کا بڑے اکرام سے تذکرہ کیا گیا۔ پاکستان کے نشریاتی اداروں اور قومی اخبارات میں جگہ پانے والے ایسے پیغامات کو مرتب کرکے مکرم پروفیسر راجا نصر اللہ خان صاحب نے روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 29؍اگست 2007ء میں پیش کیا ہے۔
دوران علالت مزاجی پرسی:
٭ ’’سابق وزیر خارجہ چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان … کی خیریت جاننے اور دعائے صحت کے لئے اندرون وبیرون ملک سے ہزاروں خطوط اور تار موصول ہورہے ہیں۔ اخبارات اور دوسرے خبررساں ادارے آج ان کی صحت کے بارے میں تازہ ترین صورتحال جاننے کے لئے ان کی موجودہ رہائش گاہ پر وقفہ وقفہ سے ٹیلیفون کرتے رہے‘‘۔
٭ حکومت نے علامہ اقبال میڈیکل کالج کے پرنسپل اور پروفیسر آف میڈیسن ڈاکٹر افتخار احمد کی سرکردگی میں ڈاکٹروں کا ایک بورڈ قائم کیا ہے جو سرظفراللہ خان کا علاج کرنے والے ڈاکٹروں کو ضرورت کے وقت مشورے دے گا۔
٭ اردن کے شاہ حسین نے ایک برقیہ میں چودھری ظفر اللہ خان کی گرتی ہوئی صحت کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا ہے اور ان کی صحت کے لئے دعا کی ہے۔
٭ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بھی ایک برقیہ کے ذریعے چودھری ظفر اللہ خان کی صحت کے بارے میں اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے اس سلسلے میں سیکرٹری جنرل کے ایگزیکٹو آفس سے ایک تار موصول ہوا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے اقوام متحدہ میں جو خدمات سرانجام دی ہیں وہ ناقابل فراموش ہیں۔
٭ شاہ حسین نے چودھری صاحب کے داماد مسٹر نصراللہ خان کو تار کے ذریعہ پیغام دیا ہے کہ اگر وہ ان کے کسی کام آسکیں تو انہیں شاہی محل میں اطلاع دیں۔
٭ صدر جنرل محمد ضیاء الحق اتوار کی سہ پہر پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ چودھری ظفر اللہ خان کی عیادت کیلئے ان کی رہائش گاہ پر گئے۔ اس موقع پر گورنر پنجاب لیفٹیننٹ جنرل غلام جیلانی خاں بھی موجود تھے۔
٭ اتوار کو پاکستان میں سعودی عرب کے سفیر شیخ توفیق خالد عالم دار صاحب نے بھی چوہدری ظفراللہ خان کی عیادت کی۔
٭ سابق وزیر خارجہ اور عالمی عدالت انصاف کے جج چوہدری ظفر اللہ خان ابھی تک نیم بے ہوشی کی حالت میں ہیں یہ بات معائنہ کرنے والے ڈاکٹروں لیفٹیننٹ جنرل محمود الحسن، کرنل نوری اور کرنل وسیم نے بتائی- جمعہ کو بیگم ایم ایم اصفہانی اور بیگم وقار النساء نون نے ان کی عیادت کی۔
٭ مراکش کے فرمانروا شاہ حسن ثانی کی جانب سے ایک برقیہ موصول ہوا ہے جس میں ان کی صحت یابی کی دعا کی گئی ہے۔
٭ ملکہ برطانیہ اور امریکہ کے سیکرٹری امور خارجہ جارج شلز نے ان کی خیریت دریافت کی۔
٭ کل سیرالیون کے صدر نے ٹیلی فون کر کے ان کی خیریت دریافت کی تھی۔
٭ صدر جنرل ضیاء الحق لاہور کے دورہ میں جب سر ظفراللہ کی عیادت کیلئے تشریف لے گئے تو وہاں سر ظفراللہ کے داماد حمید نصراللہ نے قرآن مجید بطور تحفہ پیش کیا۔
تعزیتی پیغامات و بیانات
٭ گورنر پنجاب لیفٹیننٹ جنرل غلام جیلانی خاں اور کورکمانڈر لیفٹیننٹ جنرل ایم اسلم شاہ بھی گزشتہ روز96 خورشید عالم روڈ گئے اور سوگوار خاندان سے اظہار تعزیت کیا۔
٭ آج جو اہم شخصیتیں چودھری ظفر اللہ کے آخری دیدار کے لئے گئیں ان میں محمد حنیف رامے، سید افضل حیدر، مسٹر ایس ایم ظفر، چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ ڈاکٹر جاوید اقبال اور بھارتی سفارتخانے کے مسٹر اور مسز ششک شامل ہیں۔
٭ سابق وزیر قانون ایس ایم ظفر نے سر ظفر اللہ خان کی وفات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مرحوم قائد اعظم کے معتمد ساتھی اور ان کے ساتھیوں کی فہرست میں اہم ترین تھے۔ انہوں نے کہا کہ اپنے پیشے میں انہوں نے معیار کی اعلیٰ ترین مثال پیش کی۔ اور اسی بناء پر انہیں بین الاقوامی عدالت انصاف کا جج مقرر کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ سر ظفر اللہ خان کو کشمیر کے مقدمے کے چیمپئن کی حیثیت سے یاد رکھا جائے گا۔
٭ تعزیتی پیغام میں وفاقی محتسب جسٹس (ریٹائرڈ) سردار محمد اقبال نے مرحوم کو قانون کے میدان میں پاکستان کا ایک چمکتا ہوا ستارہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ بہت کم لوگوں کو اس حقیقت کا علم ہے کہ پاکستان کی آزادی سے پہلے ہندوستان کی وفاقی عدالت کے جج کی حیثیت سے انہوں نے بعض ایسے فیصلے دیئے جو آج بھی سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔
٭ اردن کے سفیر اور ان کی اہلیہ شاہ حسین کا خصوصی تعزیتی پیغام لے کر اسلام آباد سے لاہور پہنچے۔ انہوں نے شاہ حسین کا پیغام چودھری ظفر اللہ خاں کے داماد اور بیٹی تک پہنچایا۔
٭ پاکستان کے سابق وزیر خارجہ چودھری ظفر اللہ خان کی نماز جنازہ اسی طرح پڑھائی گئی جس طرح مسلمان کی نماز جنازہ پڑھائی جاتی ہے۔ سینکڑوں افراد نے اس موقع پر اپنے سینوں پر کلمہ طیبہ کے بیج لگا رکھے تھے جبکہ میت پر بھی کلمہ طیبہ لگایا گیا تھا۔ متعدد مسلمان وکلاء اور افراد نے نماز جنازہ پڑھی۔
٭ کالعدم مساوات پارٹی کے چیئرمین محمد حنیف رامے نے تعزیتی کتاب میں لکھا ہے کہ اگرچہ قائد اعظم محمد علی جناح اسلامی مملکت پاکستان کے معمار تھے لیکن پاکستان جیسی اسلامی مملکت کے مرحوم بھی معمار ہیں۔
٭ کالعدم پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر جہانگیر بدر نے لکھا ہے وہ عظیم انسان تھے ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ ایسے لوگ ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔
٭ اردن کے سفیر مقیم پاکستان نے لکھا ہے کہ وہ عظیم انسان تھے عربوں اور فلسطینیوں کے لئے ان کا کاز قابل قدر رہا ہے۔
٭ صدر جنرل محمد ضیاء الحق نے تعزیتی پیغام میں کہا کہ وہ پرانے مدبر تھے اور انہوں نے طویل اور نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔ انہوں نے ایک دکیل کی حیثیت سے اپنے کیرئیر کا آغاز کیا اور اپنی قانونی فراست سے بے پایاں شہرت پائی۔ آزادی سے قبل انہوں نے پہلی گول میز کانفرنس میں شرکت کی اور برطانوی وائسرائے کی انتظامی کونسل کے رکن اور فیڈرل کورٹ آف انڈیا کے جج رہے۔ پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ کی حیثیت سے انہوں نے بہت سی عالمی کانفرنسوں اور اقوام متحدہ میں ملک کی مؤثر طریقے سے نمائندگی کی اقوام متحدہ میں نمایاں کردار انجام دینے کی وجہ سے انہیں جنرل اسمبلی کا صدر بھی چنا گیا۔ ان کی موت سے ملک ایک معزز شہری سے محروم ہوگیا ہے۔
٭ وزیر اعظم محمد خان جونیجو نے کہا کہ چودھری ظفر اللہ خان ایک ممتاز قانون دان تھے۔ جو قیام پاکستان سے قبل بھی اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے پاکستان کے وزیر خارجہ کی حیثیت سے انہوں نے اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر کو اٹھانے کے سلسلہ میں نمایاں کردار ادا کیا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر اور دیگر بین الاقوامی فورموں پر اعلیٰ عہدوں پر فائز ہونا ان کی بین الاقوامی حیثیت کا اعتراف تھا۔
٭ پنجاب کے گورنر لیفٹیننٹ جنرل غلام جیلانی خان نے اپنے پیغام میں کہا کہ مرحوم کی وفات سے ملک ایک اعلیٰ قانون دان اور بین الاقوامی حیثیت کے سفارت کار سے محروم ہوگیا ہے۔ مرحوم کا شمار مسلم لیگ کے بانیوں میں ہوتا ہے اور وہ 1930ء میں اس کے صدر بھی منتخب کئے گئے۔ وہ آزادی کی جدوجہد میں قاعداعظم کے قریبی ساتھی بھی رہے۔
٭ اپوا کی بانی صدر بیگم رعنا لیاقت علی خان نے کہا کہ مرحوم کو پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ ایک ممتاز مقام حاصل رہے گا۔
٭ فیڈریشن آف بزنس اینڈ پروفیشنل ویمن کی صدر بیگم سلیم احمد نے بھی افسوس کا اظہار کیا ہے۔
٭ پاکستان بار کونسل کے رکن سید افضل حیدر نے کہا کہ مرحوم حضرت قائد اعظم کے معتمد خاص اور انتہائی محب وطن پاکستانی تھے انہوں نے پاکستان مسلم لیگ کی طرف سے باؤنڈری کمیشن کیس میں نمائندگی کی جبکہ یو این او میں کشمیر کیس کی پیروی کی۔ وہ واحد شخصیت تھے جو عالمی عدالت انصاف اور جنرل اسمبلی کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں۔ انہوں نے دنیا میں عربوں کے مؤقف کو مجاہدانہ طریقے سے پیش کیا۔ وہ مدبر سیاستدان اور بلندپایۂ قانون دان تھے۔
٭ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور دیگر جج صاحبان نے سرظفر اللہ خان کی وفات پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے مرحوم کی ملکی اور بین الاقوامی خدمات پر انہیں زبردست خراج عقیدت پیش کیاہے۔
٭ لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے اجلاس میں اکثریت رائے سے تعزیتی قرار داد منظور کی گئی جس میں یہ بھی کہا گیا کہ یہ بات فخر کا باعث ہے کہ اس کے ایک معزز رکن سر ظفر اللہ خان مرحوم اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی صدر اور انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس کے سربراہ بنے جبکہ وہ باؤنڈری کمیشن میں مسلم لیگ کے مقدمہ کی پیروی کرنے والے وکلاء کے پینل میں بھی شامل تھے۔
٭ قومی اسمبلی کے سپیکر سید فخر امام نے کہا کہ وہ ایک بزرگ سیاستدان تھے۔ ان کی عوامی زندگی بڑی تابناک اور ممتاز رہی ہے وہ اپنے کارناموں کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔
٭ کابینہ نے پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ چودھری ظفر اللہ خان کی وفات پر گہرے دکھ کا اظہار کیا مرحوم کے اہل خانہ کو تعزیتی پیغام بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ ملک کے پہلے وزیر خارجہ کی حیثیت سے اُن کی گرانقدر خدمات پر کابینہ نے انہیں خراج تحسین پیش کیا۔
٭ پیپلز پارٹی کے رہنما یحییٰ بختیار نے کہا کہ انہوں نے ملک کیلئے ناقابل فراموش خدمات انجام دی تھیں۔
٭ گورنر سندھ لیفٹیننٹ جنرل جہانداد خاں نے کہا کہ ظفر اللہ خاں ایک معروف سکالر اور بین الاقوامی شہرت کے مالک قانون دان تھے جن کے انتقال سے ملک ایک اچھے شہری سے محروم ہوگیا ہے۔
٭ قومی اسمبلی کے سپیکر فخر امام نے کہا کہ پبلک افیئرز میں مرحوم کی گراں قدر خدمات عرصہ دراز تک یاد رکھی جائیں گی۔
٭ اردن کے نائب وزیر اعظم اور شام کے سفیر نے ان کی اقامت گاہ پر آکر شاہ حسن اور حافظ الاسد کی طرف سے اظہار تعزیت کیا۔
٭ تعزیتی پیغامات بھیجنے والی دیگر بین الاقوامی و ملکی شخصیات میں ملکہ برطانیہ، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل پیریزڈی کوئیار، امریکی وزیر خارجہ جارج شلز ، عالمی عدالت انصاف کے صدر نجند سنگھ، چیئرمین سینیٹ غلام اسحق خان، سپیکر قومی اسمبلی فخر امام، محتسب اعلیٰ سردار محمد اقبال، وزیر خارجہ صاحبزادہ یعقوب خاں، وزیر پانی و بجلی میر ظفر اللہ خاں جمالی، وزیر اوقاف پنجاب خدا بخش ٹوانہ، گورنر سندھ لیفٹیننٹ جنرل جہانداد خاں اور بیگم رعنا لیاقت علی شامل ہیں۔
٭ قادیانی جماعت کے لاہور کے دفتر سے جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق اردن کے شاہ حسین، ولیعہد شاہ حسن اور اردن کے عوام کی طرف سے ایک پیغام میں کہا گیا ہے کہ ہم عالم اسلام کے اس عظیم فرزند کی وفات پر دلی رنج وغم اور تعزیت کا اظہار کرتے ہیں۔ پریس ریلیز کے مطابق صدر جمہوریہ عربیہ شام کے صدر حافظ الاسد کی ٹیلیفون پر خصوصی ہدایات کے مطابق شام کے قائم مقام سفیر عیسیٰ سلیمان نے اپنے پیغام میں صدر حافظ الاسد اور حکومت شام کی طرف سے کہا ہے کہ حکومت شام ان کی ان کوششوں کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے، جو انہوں نے عربوں کے حقوق کے دفاع کے لئے اور خاص طور پر قضیہ فلسطین کے سلسلہ میں انجام دیں۔
٭ سوگ میں منگل کے روز اقوام متحدہ کا پرچم سرنگوں رہا۔ اقوام متحدہ کا سیکرٹریٹ ان کی موت کی خبر پہنچتے ہی بند کر دیا گیا تھا اور تین دن کے بعد کام شروع ہوا تو پہلے روز پرچم سرنگوں رکھا گیا۔
٭ چودھری ظفر اللہ خان کی وفات پر دنیا کے مختلف سربراہان مملکت اور دیگر بین الاقوامی شخصیات کے تعزیتی پیغامات برابر موصول ہو رہے ہیں۔ تعزیتی پیغام بھیجنے والوں میں مصر کے صدر حسنی مبارک، شام کے صدر حافظ الاسد، مراکش کے شاہ حسن ثانی، اردن کے شاہ حسین اور ولی عہد شہزادہ، فلسطین کے سفیر احمد عبدالرزاق، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کوئیار، امریکی وزیر خارجہ جارج شلز،عالمی عدالت انصاف کے صدر رنجندر سنگی، صدر جمہوریہ افریقہ سیرالیون اور ملکہ برطانیہ بھی شامل ہیں۔
٭ اسلامی ممالک کے سربراہوں نے اپنے تعزیتی پیغامات میں چودھری محمد ظفر اللہ کی ان خدمات کو خراج عقیدت پیش کیا جو انہوں نے افریقی ممالک کی آزادی کے لئے اقوام متحدہ میں انجام دی تھیں۔
٭ پاکستان کے پہلے وزیرخارجہ چودھری ظفراللہ خان کو ربوہ کے قبرستان بہشتی مقبرہ میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ اور ان کے جنازے کی امامت مرزا غلام احمد قادیانی کے ایک قریبی معاون جناب محمد حسین نے کی جس میں ہزاروں لوگ شریک ہوئے۔ سر ظفراللہ خان کی میت کو … قصر خلافت میں رکھا گیا تھا اس دوران ہزاروں لوگوں نے قطار لگاکر آخری دیدار کیا۔ اس سے قبل سر ظفراللہ کا جنازہ کاروں کے ایک طویل جلوس کی شکل میں لاہور سے ربوہ لایا گیا پولیس کی تین گاڑیاں بھی جلوس کے ساتھ چل رہی تھیں۔ چودھری ظفراللہ کو مرزا بشیرالدین محمود احمد کی قبر سے متصل دفن کیا گیا۔ تدفین کے موقع پر ایس پی جھنگ، اسسٹنٹ کمشنر چنیوٹ اور ریذیڈنٹ مجسٹریٹ ربوہ موجود تھے۔
٭ روزنامہ نوائے وقت (2؍ستمبر 1985ء):
’’اقوام متحدہ کے مستقل مندوب کی حیثیت میں چودھری صاحب نے افریقہ اور عالم اسلام کے ممالک خصوصا مشرق وسطیٰ کے مسلم ممالک کی گراں بہا خدمات انجام دیں اور آپ کی مخلصانہ وکالت کے نتیجہ میں مراکش، الجزائر اور لیبیا کو آزادی و خود مختاری حاصل ہوئی اور پاکستان کو عرب ممالک کے محسن کی حیثیت حاصل ہوگئی۔ تیونس، مراکش اور اردن نے آپ کو اپنے سب سے بڑے نشانات اعزاز سے نوازا۔ اقوام متحدہ (وفد برائے فلسطین) کی واپسی پر آپ کو حضرت قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان کا پہلا وزیر خارجہ مقرر کیا۔ آپ اس عہدے پر سات سال تک فائز رہے۔ انہوں نے اپنے تعلیمی دور میں ہمیشہ اعزاز و امتیاز حاصل کیا۔ پھر یہ امتیاز عمر بھر کیلئے آپ کی زندگی کی پہچان بن گیا۔ چودھری صاحب نے مختلف النوع مناصب سے متعلق فرائض منصبی کی شایان شان انجام دہی کے علاوہ مختلف علمی اور قومی موضوعات پر بیس کے لگ بھگ تصانیف بھی قلم بند کیں‘‘۔
٭ بی بی سی نے پاکستان میں اپنے نمائندہ ڈیوڈ بیچ کے حوالہ سے حضرت چودھری صاحب ؓ کی زندگی پر ایک تعزیتی پروگرام نشر کیا۔ جس میں تفصیلی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے یہ بھی کہا گیا کہ انہوں نے مسلمانوں کے حقوق کی اعلیٰ ترین سطح پر وکالت کی۔ 1935ء سے 1941ء کے عرصہ میں جب وہ وائسرائے کی کونسل کے ممبر تھے انہوں نے متعدد موقعوں پر ہندوستان سے باہر ہندوستان کی نمائندگی کی۔ اس کے بعد جب چین اور ہندوستان کے براہ راست سفارتی تعلقات بحال ہوئے تو وہ چین میں وائسرائے کے ایجنٹ جنرل کی حیثیت سے وہاں گئے … مسٹر جناح ان کے بارے میں کتنے اچھے خیالات رکھتے تھے۔ اس کا اظہار اس بات سے ہوا جب ظفر اللہ کو باؤنڈری کمیشن کے سامنے مسلم لیگ کا کیس پیش کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ … (تفصیل سے اہم خدمات کا تذکرہ کرنے کے بعد کہا) اتنا بڑا انسان ہونے کے باوجود وہ انتہائی منکسرالمزاج اور ملنسار تھے وہ پکے مذہبی اعتقادات رکھنے والے انسان تھے۔… قطع نظر اس بات کے کہ ان کا تعلق قادیانی جماعت سے تھا اپنی طویل زندگی میں ان کی ترقی و عروج اور خدمات و کارکردگی کے اظہار و اعتراف میں تامل و بخل سے کام لینا مناسب نہیں ہوگا انگریزوں کے زمانہ میں وہ پنجاب اسمبلی، وائسرائے کی ایگزیکٹو کونسل اور وفاقی عدالت کے رکن رہے اور قیام پاکستان کے بعد قریباً 7 برس تک وزیر خارجہ رہے اور اس دوران میں انہوں نے اقوام متحدہ میں بھی پاکستان کے مندوب اعلیٰ کے طور پر فرائض ادا کئے وہاں جنرل اسمبلی کی صدارت کا اعزاز بھی حاصل کیا۔ انہوں نے مسئلہ کشمیر کے علاوہ فلسطین اور کئی عرب ملکوں (مراکش، تیونس، لیبیا وغیرہ) کے حق آزادیٔ و خودمختاری کی وکالت میں پاکستان کا نقطہ نظر جس انداز میں پیش کیا اسے عرب ملکوں میں اب تک سراہا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صدر محترم کے علاوہ سعودی سفیر بھی ان کی عیادت کیلئے گئے تھے وزارت خارجہ کی سربراہی سے سبکدوش ہونے کے بعد وہ عالمی عدالت انصاف کے رکن بن گئے اور دوسری میعاد کے لئے منتخب ہونے کے بعد اس کے صدر بھی رہے اس دوران میں وہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر بھی منتخب ہوئے۔ قادیانی ہونے کی نسبت سے پاکستان میں ان کے خلاف اعتراض واحتجاج کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہا۔ لیکن قائداعظم اور پھر لیاقت علی خان مرحوم نے انہیں بہت اہم ذمہ داریاں سپرد کیں… 1953ء کی اینٹی قادیانی تحریک سے قبل اسلامیان ہند کے قومی معاملات میں سر آغا خان کی طرح سر محمد ظفراللہ خان کا حصہ و کردار بھی بہت نمایاں رہا تھا۔ 1930ء میں وہ مسلم لیگ کے صدر بنائے گئے تھے اور 1931ء میں اور بعد کی گول میز کانفرنسوں میں وہ علامہ اقبال ، قائد اعظم اور دوسرے اکابر کے ساتھ مسلمانوں کے نمائندہ کے طور پر شامل ہوتے رہے۔
٭ چودھری صاحب آل انڈیا مسلم لیگ کے بانی اراکین میں سے تھے اور 1930ء میں اس کے صدر بھی رہے۔ انہوں نے راؤنڈ ٹیبل کانفرنس میں بھی شرکت کی۔ وہ غیر منقسم ہندوستان کی فیڈرل کورٹ کے جج بھی رہے۔ وہ اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل سفیر بھی رہے اورجنرل اسمبلی کے صدر بھی رہے۔ وہ مسئلہ کشمیر اور فلسطین کے واسطے سے اپنی وکالت کے لئے شہرت دوام حاصل کر چکے ہیں۔ وہ عالمی عدالت کے جج، اس کے نائب صدر اور صدر بھی رہے۔ انہوں نے ڈیڑھ درجن سے زیادہ اعلیٰ کتابیں تصنیف کیں جن میں اردو اور انگریزی میں ان کی خودنوشت سوانح کے علاوہ بین الاقوامی قانون پر کئی کتابیں شامل ہیں۔ ان کی سیاسی کتابوں میں ان کی تصنیف پاکستان کی اذیت نے خصوصی شہرت حاصل کی ہے۔ جج کی کرسی پر بیٹھ کر جہاں وہ قانونی نکات کو پانی کیا کرتے تھے وہاں اقوام متحدہ میں ملکوں کی آزادی کی حمایت میں خطابت کے دریا بھی بہایا کرتے تھے۔ مسئلہ کشمیر کی وکالت کے دوران اس موضوع پر ان کی طویل ترین تقریر ریکارڈ پر ہے اور اسے آج تک کوئی نہیں توڑ سکا۔ چودھری صاحب کو لسان القانون کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ وہ بہترین وکیل، بہترین جج، بہترین سفیر، بہترین مدبر اور بہترین مصنف تھے۔ وہ جو بھی کام کرتے تھے اس کی آخری حدوں کو چھو لینا ان کی عادت ثانیہ بن چکی تھی پھر بھی وہ خوب سے خوب تر کی تلاش میں رہتے تھے۔ ڈسکہ (ضلع سیالکوٹ) میں 1892ء میں پیدائش کے بعد کرہ ارض کے وسیع ارض پر اپنے قدموں کے نشان ثابت کئے اور ایک بھر پور کامیاب زندگی بسر کرنے کے بعد پاکستان کا یہ قابل فرزند آج ربوہ میں پیوند زمین کیا جا رہا ہے۔ اپنی زندگی اور کارناموں سے چودھری صاحب نے دنیا کو حتی الامکان سنوارنے کی کوشش کی۔ ان کے کارناموں کی یادیں ہماری تاریخ کو تابندہ رکھیں گی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں