حضرت چوہدری نعمت اللہ خانصاحب گوہر ؓ

ماہنامہ ’’انصار اللہ‘‘ فروری 2005ء میں مکرم سلیم احمد خالد صاحب کا مرتب کردہ ایک مضمون شامل اشاعت ہے جس میں حضرت چودھری نعمت اللہ خانصاحب گوہرؔ کے حالات زندگی بیان کئے گئے ہیں۔
آپ 1880ء میں لدھیانہ کے گاؤں پٹھور کے ایک غریب راجپوت خاندان میں محترم حکیم نتھے خانصاحب کے ہاں پیدا ہوئے۔ 1896ء میں میٹرک میں 15؍روپے ماہوار وظیفہ ملا تو منہدرہ کالج پٹیالہ میں داخلہ لے لیا۔ لیکن کسی غلطی کی وجہ سے امتحان دینے پر پابندی لگا دی گئی تو آپ ریاست پٹیالہ کے محکمہ بندوبست میں بطور سپرنٹنڈنٹ ملازم ہوگئے۔ وہاں کسی نے آپ کو مولوی ثناء اللہ صاحب کی کتاب ’’الہامات مرزا‘‘ مطالعہ کے لئے دی۔ اسی محکمہ میں اُن دنوں حضرت منشی محمدعبداللہ صاحب سنوریؓ اور ان کے فرزند منشی رحمت اللہ صاحب پٹواری کے طور پر کام کرتے تھے۔ انہوں نے جب اپنے سپرنٹنڈنٹ صاحب کو مرزا صاحب کے بارہ میں تحقیق کرتے دیکھا تو ان کو حضرت مسیح موعودؑ کے دعاوی کے بارہ میں بتایا اور حضورؑ کی بعض کتب بھی دیں، اخبار الحکم بھی دیا کرتے۔ چونکہ آپ کے دادا محترم حکیم خدا بخش صاحب نے آپ کے ذہن میں ڈالا ہوا تھا کہ مہدی ؑ کا ظہور ہونے والا ہے۔ لہٰذا کتب کے مطالعہ سے آپ کو یقین ہوگیا کہ مہدی ؑ قادیان میں مبعوث ہوچکے ہیں۔ چنانچہ 1905ء میں آپ حضرت منشی صاحبؓ سے مزید معلومات لے کر اپنی اہلیہ صاحبہ کے ہمراہ قادیان گئے اور بیعت کرلی۔ پھر حضرت اقدسؑ کی صحبت سے اتنے متاثر ہوئے کہ ملازمت چھوڑ کر گاؤں آگئے اور پہلے اپنے دونوں چھوٹے بھائیوں کو احمدیت کا پیغام پہنچایا اور اُن کی بیعت کروائی۔ پھر بہن، بہنوئی اور دوسرے رشتہ داروں کو پیغام پہنچایا لیکن اُنہوں نے نہ احمدیت کو قبول کیا اور نہ کوئی مخالفت کی۔ ستمبر 1906ء میں آپ نے اپنے دونوں چھوٹے بھائیوں کو تعلیم حاصل کرنے کے لئے قادیان بھجوادیا ۔
جب آپؓ نے ملازمت چھوڑ دی تو زمین سے واجبی سی آمد سے گزارا مشکل ہوگیا چنانچہ آپ چنیوٹ میںمڈل سکول کے استاد کے طور پر دوبارہ ملازم ہوگئے اور یہاں کی جماعت میں بھی خدمت کی توفیق پانے لگے۔ مگر یہاں شہر کے متعصب لوگوں نے مستعفی ہونے پر مجبور کردیا۔ پھر پہلے آپ چک جھمرہ کے پاس ایک گاؤں میں دو شیعہ لڑکوں کو تعلیم دینے کے لئے وہاں چلے گئے۔ لیکن اکتوبر 1907ء میں قادیان آگئے۔
قادیان میں رہائش کے دوران حضرت حکیم نورالدینؓ نے ایک بار فرمایا کہ تم تعلیم میں ترقی کیوں نہیں کرتے۔ آپؓ نے امتحان پر پابندی کا ذکر کیا اور روپڑے تو انہوں نے حضرت مسیح موعودؑ سے دعا کروانے کے لئے کہا تاکہ پابندی اٹھالی جائے۔ آپؓ نے کہا کہ مجھے شرم آتی ہے، آپ ہی حضورؑ سے میری طرف سے عرض کردیں۔ چنانچہ حضرت مولوی صاحبؓ نے حضور علیہ السلام سے دعا کے لئے عرض کردیا۔ چند دن بعد 26مارچ 1908ء کو حضرت چودھری صاحب نے ’’صدائے فقیر‘‘ کے عنوان سے اپنی ایک نظم حضرت اقدس ؑ کی موجودگی میں مسجد مبارک میں پڑھ کر سنائی۔ اس نظم کا ایک شعر یہ تھا:

کسی طبیب سے جب اپنا دردِ دل نہ تھما
تو آخرش تیرے دارالشفاء میں آئے ہیں

حضرت مولانا حکیم نور الدین صاحب نے سمجھا کہ شاید یہ اُن کی طرف اشارہ ہے۔ چنانچہ آپؓ نے کھڑے ہوکر کہہ دیا: ’’طبیب کو کیوں بیچ میں لپیٹ لیا، طبیب نے تو عرض کردی ہوئی ہے‘‘۔ اس پر حضرت مسیح موعودؑ بھی مسکرادئیے۔ نظم سننے کے بعد حضورؑ نے مولوی محمد علی صاحب کو طلب فرمایا اور حکم دیا کہ یونیورسٹی کو لکھیں کہ ان کو معاف کر دیا جائے۔ مولوی صاحب نے کہا کہ حضور! یہ ناممکن ہے کہ معافی ہوجائے۔ حضور نے فرمایا کہ ’’آپ لکھیں تو سہی، جب خدا آسمان پر معاف کر سکتا ہے تو بندے زمین پر کیوں معاف نہیں کریں گے‘‘۔ چنانچہ انہوں نے لکھا اور اگست 1908ء میں پابندی اٹھانے کی اطلاع آگئی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ؓ نے بھی آپ کے لئے بہت دعا کی تھی تو اُن کو الہام ہوا کہ ’’نعمت اللہ گوہر سے کہہ دو کہ B.A. سے اخلاص ہے تو F.A. کا امتحان دیدے‘‘۔
حضرت نعمت اللہ گوہر صاحب اگرچہ J.A.V کا کورس ٹریننگ کالج لاہور سے پاس کرچکے تھے۔ 1916ء میں جب آپؓ بطور ٹیچر مڈل لاہور میں متعین تھے تو ہیڈماسٹر خیردین برق صاحب کو تبلیغ کیا کرتے تھے جو عیسائیت کی دلدل میں پھنس چکے تھے (اُن کا بیٹا سیموئل مارٹن برق پاکستان کا سفیر بھی رہا ہے)۔ انہوں نے جب دیکھا کہ آپؓ F.A. کا امتحان ریاضی کے ساتھ بغیر تیاری کے دے رہے ہیں تو کہا کہ اگر آپؓ پاس ہوگئے تو وہ احمدی ہوجائیں گے ورنہ آپؓ کو داڑھی منڈوانی ہوگی۔ چونکہ آپؓ کے لئے تو حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کی دعائیں تھیں اور الہام بھی تھا چنانچہ آپ سیکنڈ ڈویژن میں پاس ہوگئے۔ تب برق صاحب نے یہ تو کہا کہ ’’یار من لیا تیرا مرزا سچا اے‘‘ ، لیکن احمدی ہونے پر تیار نہ ہوئے۔
کیونکہ آپؓ اکثر تبلیغ کرتے تھے اس لئے بعض متعصب ہندوؤں نے ایک جھوٹا مقدمہ بنا کر آپؓ کی نوکری لاہور میں ختم کرادی۔ پھر آپؓ کو اسلامیہ مڈل سکول پونچھ ریاست کشمیر میں ہیڈماسٹری مل گئی اور 120؍روپے تنخواہ مقرر ہوئی۔ دو سال وہاں رہے تو 1919ء میں وہاں سے بھی تبلیغ کی وجہ سے نوکری سے جواب مل گیا۔ پھر آپؓ احمدیہ سکول بہلول پور آگئے۔ وہاں سال بھر کے قریب رہے مگر یہ سکول بھی مالی مشکلات کی وجہ سے نہ چل سکا۔ چنانچہ اسلامیہ ہائی سکول لائل پور (فیصل آباد) میں ملازم ہوگئے لیکن یہاں بھی سٹا ف کو تبلیغ کرنے کے جرم میں نوکری سے جواب مل گیا۔ پھر آپؓ ایم بی ہائی سکول گوجرہ میں ملازم ہوگئے جہاں 1921ء سے 1926ء تک کام بھی کیا اور تبلیغ بھی۔ کئی افراد نے آپؓ کے ذریعہ احمدیت قبول کی۔ یہیں آپؓ نے B.A. کے امتحان کی تیاری شروع کردی تو وہاں کے سیکنڈ ہیڈ ماسٹر حشمت خان صاحب نے آپؓ کو انگریزی پڑھانے کی پیشکش کی۔ آپؓ نے جواب دیا کہ میرے متعلق کامیابی کا تو الہاماً بتادیا گیا ہے اس لئے امتحان میں فرشتے میری مدد کریں گے۔ وہ کہنے لگے میں ان باتوں کو نہیں مانتا۔ آپؓ نے کہا کہ آپ کو رزلٹ سے معلوم ہوجائے گا۔
چنانچہ آپؓ نے لاہور جا کر B.A. کا امتحان دیا اور سیکنڈ ڈویژن میں پاس ہوگئے۔ ساتھ ہی SAV (جو بی ٹی کے برابر ہوتا ہے) کا امتحان بھی پاس کرلیا۔
مارچ 1926ء میں شیخ نور الٰہی صاحب انسپکٹر سکولز معائنہ کے لئے آپؓ کے سکول میں آئے۔ وہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے کلاس فیلو تھے اور سلسلہ احمدیہ سے خوب واقف تھے۔ اُن کی آپؓ سے بحث شروع ہوگئی جو رات گئے تک جاری رہی۔ جاتے ہوئے وہ آپؓ کے بارہ میں لکھ گئے کہ آپؓ کو سکول ٹیچر کی بجائے مبلغ ہونا چاہئے۔ ان ریمارکس کے نتیجہ میں آپؓ کو ملازمت سے برخواست کردیا گیا۔
پھر آپؓ ڈیرہ اسماعیل خان میں اسلامیہ ہائی سکول میں بطور سیکنڈ ہیڈ ماسٹر متعین ہوگئے۔ وہاں سے بھی تبدیل کر کے گجرات اسلامیہ ہائی سکول بھجوادئیے گئے یہاں سے بھی تقریباً ایک سال کے بعد فارغ کردئیے گئے تو آپؓ قادیان آگئے۔
کچھ عرصہ کے بعد جب نواب آف جونا گڑھ کے پرائیویٹ سیکرٹری کو اپنے بچوں کے لئے ٹیوٹر کی ضرورت ہوئی تو آپؓ وہاں چلے گئے۔ تنخواہ کے علاوہ کھانا اور رہائش مفت تھی۔ ایک سال وہاں رہے۔ سومنات مندر دیکھا۔ وہ جنگل بھی دیکھا جس کے بارے میں مشہور تھا کہ یہاں حضرت کرشن ؑ سوئے ہوئے تھے کہ کسی نے ہرن سمجھ کر دور سے زہر آلود تیر مارا جس کے اثر سے آپ کا رنگ سانولا ہوگیا تھا۔
جوناگڑھ سے واپسی پر آپؓ جودھ پور میں نواب چوہدری محمد دین صاحب وزیر کے پاس ٹھہرے اور خوب سیر کی۔ پھر دہلی سے ہوتے ہوئے واپس قادیان آگئے۔ اور ضلع ہوشیارپور کے ایک گاؤں میں مڈل سکول کے ہیڈ ماسٹر مقرر ہوئے۔ یہیں آپؓ نے معرکۃالارا کتاب ’’تحفہ ہندویورپ‘‘ لکھی جو دسمبر 1928ء میں شائع ہوئی۔ کئی صحافیوں نے کتاب پر ریویو لکھے مگر تعصب کی وجہ سے بے جا اعتراض بھی کئے۔ جس کے جواب اخبار الفضل میں شائع ہوئے۔
علامہ اقبال نے مشورہ دیا کہ ہمارے نیم بیدار ملک میں اس کتاب کو سمجھنے والے لوگ کم ہیں، آپ اس کا ترجمہ انگریزی میں کر کے لنڈن بھجوادیں۔ چنانچہ ترجمہ لنڈن بھجوایا گیا۔ Luzac & Coنے اس کا معاوضہ 300پاؤنڈ ادا کرنا چاہا مگر آپؓ نے 500پاؤنڈ کا مطالبہ کیا۔ اسی دوران ملکی فسادات شروع ہوگئے اور وہ مسودہ ضائع ہوگیا۔
ہوشیارپور سے آپؓ کا تبادلہ نور پور ضلع کانگڑہ کے ہائی سکول میں ہوگیا۔ وہاں ہندو ہیڈماسٹر کو تبلیغ کے جرم میں آپؓ کا تبادلہ نواب صاحب ممدوٹ (ضلع فیروز پور) کے مڈل سکول میں بطور ہیڈ ماسٹر ہوگیا۔ نواب قدردان تھے۔ اُن کے ساتھ بہت گہرے روابط ہوگئے۔ متعصب نہ تھے۔ لہٰذا اُن کی وساطت سے دعوت الی اللہ کے مواقع بھی ملتے رہے۔
1935ء میں آپ ڈسٹرکٹ بورڈ کی ملازمت سے ریٹائرڈ ہوئے۔ پراویڈنٹ کی قلیل رقم ملی جس سے ایک مکان دارالبرکات قادیان میں بنا کر رہائش اختیار کر لی۔ ملازمت کے دوران تمام آمدنی (معمولی رقم گھر کے لئے رکھ کر) چندہ ادا کرتے یا دعوت الی اللہ میں خرچ کرتے۔ آپ اشتہارات اور پمفلٹس کے ذریعہ بھی پیغام حق لوگوں تک پہنچاتے۔
1939ء میں جنگ عظیم دوئم شروع ہوئی تو آپ بطو رCivilian Teacherفوج میں بھرتی ہوگئے۔ انگریز افسروں کو اُردو پڑھانا ہوتا تھا۔ 300 روپے ماہوار ماہانہ تنخواہ، راشن اور وردی مفت ملتی تھی۔ جالندھر اور فیروز پور چھاؤنیوں میں رہے۔ 1945ء میں جنگ بند ہوئی تو واپس قادیان آگئے۔
تقسیم ہند کے نتیجہ میں گھربار چھوڑ کر آدھی رات کو نکلنا پڑا۔ کتب خانہ (جو عمر بھر کی کمائی تھی) ضائع ہوگیا۔ پاکستان آکر کچھ عرصہ کھاریاں کے ہائی سکول میں ملازمت کی پھر گجرات میں سسرال والوں نے ریلوے اسٹیشن کے قریب نہایت عمدہ وسیع مکان الاٹ کرادیا تو وہاں آگئے۔ مگر وہاں دل نہ لگا اور لاہور آکر سنت نگر میں دیو سماج ہوسٹل کے ایک تنگ و تاریک کمرہ میں رہنے لگے۔ یہاں سے پنجاب لائبریری کوئی دو فرلانگ پر تھی۔ سارا دن وہاں گزراتے اور اپنی علمی ادبی پیاس بجھاتے رہے۔
آخر 11؍جولائی1955ء کو چند روز بیمار رہ کر انتقال کیا اور ساندہ کے قبرستان میں دفن ہوئے۔
آپؓ نے ساری عمر اعزازی مبلغ کے طور پر گزاری۔ اپنی آمدنی اسی کام میں خرچ کی اور خود نہایت سادہ زندگی گزاری۔ پسماندگان کے لئے کوئی دنیاوی سازوسامان نہ چھوڑا۔
آ پ کی پہلی شادی حضرت رحمت بی بی صاحبہؓ سے ہوئی جنہوں نے 1906ء میں حضرت مسیح موعود ؑ کی بیعت کی تھی۔ آپ عبادت گزار، دعا گو اور کثرت سے سچے خواب دیکھنے والی تھیں۔ وفات 28دسمبر 1918ء کو ہوئی۔ دوسری اہلیہ سے ایک بیٹے وسیم احمد ہوئے جو پاکستان نیشنل ہاکی ٹیم کے رُکن بھی رہے۔ پھر ایک کالج میں پروفیسر کے عہدہ سے ریٹائرڈ ہوئے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں