حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ کی دعاؤں کے ذاتی تجربات

حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ کی دعاؤں کے ذاتی تجربات کی کچھ مثالیں روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ یکم ستمبر 1998ء میں شائع ہوئی ہیں-

حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ

آپؓ بیان فرماتے ہیں کہ شفائے امراض کی لائن میں تو مَیں نے اس قدر عجائبات خدا تعالیٰ کے فضلوں اور دعا کی قبولیت کے دیکھے ہیں کہ کوئی شمار نہیں- ایک دفعہ حضرت مولوی عبدالقادر صاحبؓ کی آنکھیں میں نے بنائیں اور چوتھے دن پٹی کھولنے پر دیکھا کہ دونوں آنکھوں کے اندرونی پردوں میں سخت سوزش اور ورم تھا- بیقراری سے حضرت صاحب اور حضرت اماں جانؓ سے دعا کے لئے عرض کیا نیز خود بھی بہت دعا کی- صرف ایک ہفتہ کے اندر آنکھیں بالکل صاف ہوگئیں اور عمومی قاعدہ کے برخلاف مرض کا کوئی نشان یا آثار باقی نہ رہے- … اس بیماری کا کامل طور پر صاف ہوجانا اور دونوں آنکھوں کا بچ جانا میرے علم میں کبھی نہیں آیا، بلکہ لوگوں کو اندھے ہوتے ہی دیکھا ہے-
٭ 1905ء میں مَیں ملازم ہوا تو تین ماہ میں بہت مقروض ہوگیا اور سخت تکلیف اور پریشانی میں دعا کی کہ یا اللہ مجھے کبھی قرض کی بلا میں نہ پھنسائیو- چنانچہ اب تیس سال کے بعد یہ اظہار کرنے میں حرج نہیں سمجھتا کہ پھر کبھی مجھ پر کسی قسم کا قرضہ نہیں چڑھا اور ہر رات قرضے کی طرف سے بے فکری کی نیند ہی سویا ہوں-… بے فکری کی نیند کی ایک اور وجہ بھی ہے جو حضرت خلیفۃالمسیح (الثانیؓ) نے ایک دفعہ بیان کی تھی کہ جب انسان سونے کیلئے لیٹے تو اس وقت تمام لوگوں کے قصور معاف کرکے سوئے- … اور مَیں اس نصیحت پر دل میں ہی نہیں زبان سے بھی عمل کرتا ہوں-
٭ ایک جاڑے کے موسم میں ٹرین کا ساری رات کا سفر درپیش آگیا- برتھ ریزرو نہ ہوسکی- مَیں نے دعا کی، ٹکٹ لیا اور سوار ہوگیا- …سب مسافر برتھوں پر دراز اور ہم ہیں کہ ڈبّہ کے دروازے میں اُس کے فضل کے انتظار میں کھڑے ہیں- روانگی سے 5 منٹ پہلے ایک شخص آیا اور جبریہ ایک مسافر کو اتار کر لے گیا کہ فلاں بڑا ضروری کام رہ گیا ہے کل چلے جانا- اب اُس کا برتھ اوپر کا تھا اور مجھے اوپر تکلیف ہوتی ہے اس لئے نیچے کا برتھ چاہتا تھا- اتنے میں ایک انگریز درمیانے برتھ سے اٹھا اور کہنے لگا ’’اگر آپکو اعتراض نہ ہو تو میں اوپر کے برتھ پر سو جاؤں مجھے یہ نیچے کی جگہ پسند نہیں ‘‘- میں نے کہا اچھا اور بستر بچھا کر لیٹ گیا- مگر نیند کہاں!- اس واقعہ نے میرا دل اپنے رحیم و کریم کے احسان کے شکر میں بالکل پگھلا دیا-
٭ ایک دفعہ میرا تبادلہ شملہ ہوگیا جہاں کے سول سرجن کرنل جوڈوائن کی سخت زبانی اور سخت گیری اتنی مشہور تھی کہ میں نے دعا کی کہ خدایا تو مجھے ہر قسم کی سختی سے بچائیو- جب شملہ پہنچا تو علم ہوا کہ کرنل بیمار اور ہسپتال میں داخل ہیں- قریباً ایک ہفتہ بعد ہی وہ طبّی مشورے سے لمبی چھٹی پر ولایت چلے گئے اور پھر کبھی واپس نہیں آئے- اُن کی جگہ کرنل ہیلیلے آئے جو ایک نیک نہاد افسر تھے اور میرے بڑے محسن ثابت ہوئے-
٭ ایک بار ایسی سخت مصیبت آئی کہ میرا مالی نقصان بھی ہوا،صحت کو سخت دھکا لگا اور کام نے مجھے توڑ کر رکھ دیا- لیکن بعض لوگوں نے ایک بڑے آدمی کی پشت پناہی کی وجہ سے میرے کئی اختیارات سلب کرلئے اور ایک شریف آدمی کی توہین کے سب طریقے اختیار کئے- میں ڈر کے مارے دعا بھی نہیں کرتا تھا کیونکہ میں نے اس مصیبت میں امتحان کا رنگ محسوس کر لیا تھا-… آخر خدا تعالیٰ نے خود ایک شخص کو میرا وکیل بناکر کھڑا کردیا جس نے میرے علم کے بغیرایسا ایڈریس حاکم کے سامنے پیش کیا کہ حاکم نے میرے کام کی تعریف کی اور ایک دوسرے حاکم نے مجھے کہا کہ معاملہ کُھل گیا ہے کہ یہ لوگ پشت کی طرف سے تم پر چھری چلا رہے تھے- چنانچہ سرکار نے مجھے نقصانات کا کچھ معاوضہ دیا اور خطاب بھی- اور وہ لوگ منتشر کردیئے گئے- پھر میں رخصت پر قادیان آگیا … ایک روز سارا صوبہ زلزلہ کی زد میں آگیا اوروہ بڑا آدمی جس کی طاقت پر لوگوں نے ریشہ دوانیاں کی تھیں، دم کے دم میں ختم ہوا- اللہ نے مجھے ایک نہایت عمدہ جگہ پر میری مرضی دریافت کرکے بھیج دیا اور وہاں کام کا بوجھ ہلکا کرکے تنخواہ بہت بڑھادی- اور اس متوفّی کی بیوہ اور بچوں کے شفقت کے ساتھ مفت علاج معالجہ کی مدت دراز تک توفیق دی تاکہ ثابت کردے کہ میرے دل میں اس سے کسی قسم کی عداوت نہ تھی بلکہ وہ الٰہی تقدیر تھی جو براہ راست نازل ہوئی-
٭ غالباً 1925ء میں میرا تبادلہ گوجرہ ہوگیا- میں موٹرسائیکل اور سائیڈ کار پر قادیان ہوتا ہوا بذریعہ نہر کی پٹری آگے چلا- موٹر سائیکل کرایہ کا مستری چلا رہا تھا اور میں سائیڈ کار میں بیٹھا تھا- جب ہم قادیان سے اٹھارہ بیس میل نکل آئے تو موٹرسائیکل یکدم ٹوٹ گیا- جنڈیالہ ریلوے سٹیشن پانچ سات میل دور تھا- مستری میرے کہنے پر ایک ٹوٹا پھوٹا گڈا لے آیا جس پر موٹر سائیکل لاد دی- لیکن مجھے فکرہوا کہ غروب آفتاب کا وقت ہے، جنگل کا راستہ، نہ مستری قابل اعتماد ہے نہ گڈے والے- پھر جیب میں کافی نقدی تھی اور رات کے وقت چلنا بھی مشکل- خدایا تو ہی کوئی انتظام کر-… ابھی روانہ بھی نہ ہوئے تھے کہ پیچھے سے ہارن سنائی دیا اور ایک کار یکدم سامنے آکر کھڑی ہوگئی، اندر حضرت صاحب اور چوہدری ظفراللہ خانصاحب کے چہرے نظر آئے- پہلے تو دھوکہ ہوا کہ یہ یہاں کہاں!- وہم ہے یا خواب- مگر جب وہ بولے تو یقین آیا کہ فرشتے نہیں بلکہ انسان ہیں- چنانچہ اُن کے ہمراہ سیدھا لاہور تک آگیا- اس عجیب اور بروقت آسمانی مدد سے دل شکر کے جذبات سے اتنا لبریز تھا کہ سارے راستے بڑی مصیبت سے اپنے تئیں ضبط کرتا آیا-

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں