حفاظتِ مرکز پر قربان ہونے والے محترم سیّد محبوب عالم صاحب بہاری شہید

ماہنامہ ’’خالد‘‘ ربوہ اگست 2011ء میں مکرم بشارت احمد صاحب نے حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے خطبہ جمعہ کے حوالے سے تین ایسے شہدائے احمدیت کا تذکرہ کیا ہے جو 1947ء کے فسادات کے دوران مرکز احمدیت قادیان اور اس کے قرب و جوار میں شہید کردیے گئے۔
محترم سید محبوب عالم صاحب ایک نیک اور بہت بے نفس بزرگ تھے۔ 19؍ستمبر 1947ء کی صبح نماز کے بعدریلوے لائن کے ساتھ سیر کے لیے گئے تو DB سکول قادیان کے قریب موضع رام پور کے بالمقابل کسی نے انہیں گولی کا نشانہ بنایا۔ دراصل اُس وقت جو گھر پر رہنے کا حکم دیا گیا تھا تو احمدی بزدلی دکھاتے ہوئے گھروں میں نہیں رُکے تھے بلکہ بہادری سیانہوں نے اپنے روزمرّہ معمولات جاری رکھے ہوئے تھے۔ چنانچہ یہ بھی اپنی صبح کی سیر پر گئے اور شہید کردیے گئے۔ شروع میں تو انہیں لا پتہ تصور کیا جاتا رہا مگر اس واقعہ کے تین دن کے بعد ایک مسلمان دیہاتی نے (جو پناہ گزین کے طورپر باہر سے آیا ہواتھا) ان کے داماد کو بتایا کہ میں نے اس حلیہ کے ایک مسلمان کی لاش ریلوے لائن کے قریب دیکھی ہے جس کے گلے میں نیلا کرتہ تھا اور یہ نیلا کرتہ انہوں نے ہی پہنا ہوا تھا۔ پس ان کی نعش کاتین دن بعد پتہ چلا اور ان کو دفنانے کابھی کوئی انتظام نہ ہو سکا۔
آپ مکرمہ شمسہ سفیر صاحبہ (آف لندن)کے نانا تھے۔ وہ بیان کرتی ہیں کہ میرے نانا سید محبوب عالم صاحب اور ان کے بھائی سید محمود عالم صاحب نے جب احمدیت کا پیغام سنا تو بہار سے پیدل چل کرقادیان آئے اور ان کے پائوں سوج گئے تھے۔ غریب خاندان تھا، سفر خرچ نہیں تھا۔ بہت ہی عظیم الشان واقعہ ہے حیرت انگیز قربانی ہے۔ بہار سے چل کر پیدل ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ ننگے پائوں، زخمی پائوں جو ہرروز سوج جایا کرتے تھے زخموںسے، اس کے باوجود حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا پیغام سنا تھا صرف آنکھوں دیکھنا تھا اس حالت میں یہ قادیان آئے تھے۔ پس ان کی شہادت ایک عظیم واقعہ ہے جس کوکبھی نظرانداز نہیں کیاجا سکتا۔ جیسے بہادر پہلے تھے ویسے ہی شہادت کے دوران بھی بہادر ہی ثابت ہوئے۔
مکرم سید محبوب عالم صاحب شہید کی اولاد میں ایک ہی بیٹی سلمیٰ تھیں جن کی شادی پندرہ برس کی عمرمیں سید صادق علی صاحب سے ہوئی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں