خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 29؍ جنوری 2010ء

کسی شخص پر خداکا نور نہیں چمک سکتا جب تک آسمان سے وہ نور نازل نہ ہو ۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کو جہاں آنحضرتﷺ کے روحانی نور سے منور کیا وہاں ظاہری نور بھی عطا فرمایا تا کہ نیک فطرت ہر لحاظ سے اس نور سے فیضیاب ہو سکیں۔
یہ ظاہری نور بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس لئے دیا تھاکہ آپ نور مصطفوی میں ڈوب کر اپنے وجود کو کلیتًا اپنے آقا و مطاع کے جسمانی اورروحانی نور میں فنا کرچکے تھے تاکہ آپ کے نور میں بھی نور محمدیؐ نظر آئے۔
صحابہ حضرت مسیح موعودؑ کی روایات کے حوالہ سے حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے پاک اور نورانی وجود کے نہایت ایمان افروز واقعات کا روح پرور بیان
اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اپنے فضل سے وہ نور عطا فرمائے جو اس کا حقیقی نور ہے۔ جو اس کے پیاروں سے محبت کرنے سے ملتا ہے۔ جس کو حاصل کرنے کے طریقے اس زمانے کے امام نے نور محمدی سے حصہ پا کر ہمیں سکھائے۔
خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ 29؍ جنوری 2010ء بمطابق 29؍ صلح 1389 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح،لندن (برطانیہ)

فہرست مضامین show

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں ۔ چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے خطبہ الہامیہ میں ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
‘’اللہ تعالیٰ نے میری طرف وحی فرمائی اور فرمایا

کُلُّ بَرَکَۃٍ مِنْ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَتَبَارَکَ مَنْ عَلَّمَ وَتَعَلَّم

(تذکرہ صفحہ 194 ایڈیشن چہارم 2004ء مطبوعہ ربوہ)
یعنی نبی کریمﷺ نے تمہیں اپنی روحانیت کی تاثیر کے ذریعہ سکھایا اور اپنی رحمت کا فیض تیرے دل کے برتن میں ڈال دیا تا تجھے اپنے صحابہ میں داخل کریں اور تجھے اپنی برکت میں شریک کریں اور تا اللہ تعالیٰ کی خبر

واٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ

اس کے فضل اور اس کے احسان سے پوری ہو۔
پس اس فیض نے آپؑ کو جہاں روحانی نور سے منور کیا وہاں ظاہری نور بھی عطا فرمایا تاکہ نیک فطرت ہر لحاظ سے اس نور سے فیضیاب ہو سکیں۔ کیونکہ آخرین کا امام ہونے کی وجہ سے صرف عام صحابہ کا نور آپ کو عطا نہیں ہوا تھا بلکہ اس سے بہت بڑھ کر اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو اپنے آقا کے حسن و احسان میں نظیر بنایا تھا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ: ’’جیسا کہ یہ جماعت مسیح موعودؑ کی صحابہ رَضِیَ اللّٰہ عَنْھُمْ کی جماعت سے مشابہ ہے ایسا ہی جو شخص اس جماعت کا امام ہے۔ (یعنی حضرت مسیح موعودؑ) وہ بھی ظلّی طور پر آنحضرتﷺ سے مشابہت رکھتا ہے۔ جیسا کہ خود آنحضرت انے مہدیٔ موعود کی صفت فرمائی کہ وہ آپ سے مشابہ ہو گا‘‘۔ (ایام الصلح روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 307)
پس یہ مشابہت ضروری ہے تاکہ آقا کا جلوہ غلام میں بھی نظر آئے۔
آج مَیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابہ کے حوالے سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حسن اور نور اور آپؑ کے شمائل کا کچھ ذکر کروں گا۔
سب سے پہلے ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابہ آپؑ کے ظاہری حسن اور حُلیے کو کس طرح دیکھتے تھے۔
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ تحریر فرماتے ہیں کہ: ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے کہ آپ(حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام) کے تمام حُلیہ کا خلاصہ ایک فقرہ میں یہ ہو سکتا ہے کہ آپؑ مردانہ حسن کے اعلیٰ نمونہ تھے۔ مگر یہ فقرہ بالکل نامکمل رہے گا اگر اس کے ساتھ دوسرا یہ نہ ہو کہ یہ حسن انسانی ایک روحانی چمک دمک اور انوار اپنے ساتھ لئے ہوئے تھا۔ اور جس طرح آپ جمالی رنگ میں اُمّت کے لئے مبعوث ہوئے تھے اسی طرح آپ کا جمال بھی خدا کی قدرت کا نمونہ تھا اور دیکھنے والے کے دل کو اپنی طرف کھینچتا تھا۔ آپ کے چہرہ پر نورانیت کے ساتھ رعونت، ہیبت اور استکبار نہ تھے بلکہ فروتنی،خاکساری اور محبت کی آمیزش موجود تھی۔ ……آپؑ کا رنگ گندمی اور نہایت اعلیٰ درجہ کا گندمی تھا۔ یعنی اس میں ایک نورانیت اور سرخی جھلک مارتی تھی اور یہ چمک جو آپؑ کے چہرہ کے ساتھ وابستہ تھی عارضی نہ تھی بلکہ دائمی تھی۔ کبھی کسی صدمہ، رنج، ابتلاء مقدمات اور مصائب کے وقت آپؑ کا رنگ زرد ہوتے نہیں دیکھا گیا اور ہمیشہ چہرہ مبارک کندن کی طرح دمکتا رہتا تھا۔ کسی مصیبت اور تکلیف نے اس چمک کو دور نہیں کیا۔ علاوہ اس چمک اور نور کے آپؑ کے چہرہ پر ایک بشاشت اور تبسم ہمیشہ رہتا تھا اور دیکھنے والے کہتے تھے کہ اگر یہ شخص مفتری ہے اور دل میں اپنے تئیں جھوٹا جانتا ہے تو اس کے چہرہ پر یہ بشاشت اور خوشی اور فتح اور طمانیت قلب کے آثار کیونکر ہو سکتے ہیں۔ یہ نیک ظاہر کسی بدباطن کے ساتھ وابستہ نہیں رہ سکتا اور ایمان کا نور بدکار کے چہرہ پر درخشندہ نہیں ہو سکتا‘‘۔
(ماخوذ از سیرت المہدی جلد اوّل روایت نمبر 447 صفحہ 411۔ 410 مطبوعہ ربوہ)
آپؑ کے حسن کا، آپ کے نور کاکیا خوبصورت نقشہ کھینچا ہے لیکن یہ ظاہری نور بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس لئے دیا تھا کہ آپ نور مصطفوی میں ڈوب کر اپنے وجود کو کلیتاً اپنے آقا و مطاع کے جسمانی اور روحانی نور میں فنا کر چکے تھے تاکہ آپ کے نور میں بھی نور محمدؐی نظر آئے۔ اپنے ایک فارسی کلام میں آپ فرماتے ہیں ؎

وارث مصطفی شدم بہ یقیں
شدہ رنگین بہ رنگ یار حسیں

(نزول المسیح روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 477)
کہ مَیں یقیناً مصطفی کا وارث اس حسین یار کے رنگ میں حسین ہو کر بن گیاہوں۔
فرمایا ؎

لیک آئینہ ام، زربّ غنی
از پئے صورت مہِ مدنی

(نزول المسیح روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 478)
لیکن رب غنی کی طرف سے آئینہ کی طرح ہوں اس مدنی چاند کی صورت دکھانے کے لئے۔
پس آپ کا اپنا توکچھ نہ تھا۔ روح و جسم نور محمدی کا آئینہ دار تھا۔ عبادات میں، عادات میں، اخلاق میں غرض ہر چیز میں اپنے آقا و مطاع کے منہ کی طرف دیکھ کر اس کی پیروی کرتے تھے۔ اپنے اس پیارے مسیح و مہدی اور غلام صادق کے بارہ میں، اس کے مقام کے بارہ میں آنحضرتﷺ نے بھی یوں فرمایا تھا کہ میرے اور میرے مہدی کے درمیان کوئی نبی نہیں۔ (سنن ابی داؤد کتاب الملاحم باب خروج الدجال حدیث نمبر 4324)
پس یہ مقام نبوت بھی آپ کو اس فنا کی وجہ سے ملا۔ یہ عشق و محبت کی باتیں ہیں جو حسن و احسان میں اور مقام میں نظیر بناتی ہیں۔ لیکن انسان کامل ایک ہی تھا جو صرف اور صرف آنحضرتﷺ کی ذات ہے۔
حضرت خلیفہ ثانیؓ نے بھی اپنے ایک شعر میں فرمایا ہے کہ ؎

شاگرد نے جو پایا استاد کی دولت ہے
احمد کو محمدؐ سے تم کیسے جدا سمجھے

کوئی احمدی ایک لمحے کے لئے بھی یہ نہیں سوچ سکتا کہ نعوذباللہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا مقام آنحضرتﷺ سے بڑھ کر ہے۔ یہ الزام جماعت پر، احمدیوں پرآئے دن لگتے رہتے ہیں لیکن اصل میں احمدی ہی ہیں جن کو آنحضرتﷺ کے مقام کا،آپؐ کے نور کا صحیح فہم و ادراک ہے۔
آقا و غلام کے تعلق کے بارہ میں حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ ایک روایت میں فرماتے ہیں۔ انہوں نے ایک رؤیا دیکھی۔ کہتے ہیں کہ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے عہد سعادت میں ایک دفعہ مَیں نے رؤیا میں دیکھا کہ سیدالانبیاء حضرت محمد مصطفیﷺ،حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور خاکسار تینوں ایک جگہ کھڑے ہیں۔ آنحضرتﷺ کا چہرہ مبارک سورج کی طرح تاباں ہے(روشن ہے) اور آپؐ مشرق کی طرف منہ کئے ہوئے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا چہرہ مبارک چاند کی طرح روشن ہے۔ اور آپ مغرب کی طرف منہ کئے ہوئے ہیں۔ اور (کہتے ہیں کہ) خاکسار ان دونوں مقدس ہستیوں کے درمیان میں کھڑا ہے۔ ان کے روشن چہروں کو دیکھ رہا ہے اور اپنی خوش بختی اور سعادت پر نازاں ہو کر یہ فقرہ کہہ رہا ہے کہ ’’ہم کس قدر خوش نصیب اور بلند بخت ہیں کہ ہم نے حضرت محمد رسول اللہﷺ کو بھی پایا اور حضرت امام محمد مہدیؑ کو بھی پالیا‘‘۔ (کہتے ہیں کہ) اُس وقت جب مَیں نے ان دونوں مقدسوں کے چہروں کی طرف نگاہ کی تو مجھے ایسا نظر آیا کہ حضرت مسیح موعودؑ کا چہرہ مبارک آنحضرتﷺ کے چہرۂ مبارک کے نور سے منور ہو رہا ہے۔ (پھر کہتے ہیں کہ) اس رؤیا کے بعد جب مَیں دوسری رات سویا تو خواب میں مجھے حضرت شیخ سعدی شیرازی رحمہ اللہ ملے اور فرمایا کہ ’’آپ لوگ کتنے خوش نصیب ہیں کہ آپ نے امام مہدیؑ کا زمانہ پایا ہے‘‘۔ پھر فرمایا کہ ’’میری طرف سے حضرت امام مہدیؑ کے حضور السلام عرض کر دینا‘‘۔ (کہتے ہیں کہ) مَیں اُن دنوں اپنے وطن موضع راجیکی میں مقیم تھا۔ اس وقت جماعت کا نام احمدی نہ رکھا گیا تھا۔ مَیں جب صبح بیدار ہوا تو حضرت شیخ سعدی ؒکی خواہش کے مطابق ایک عریضہ (ایک خط) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں لکھ کر آپ کا تحفۂ سلام (یعنی شیخ سعدی کا سلام) حضورؑ کی خدمت میں عرض کر دیا اور اپنی رؤیا بھی بیان کر دی۔ اس کے چند روز بعد (کہتے ہیں ) مجھے پھر رؤیا میں حضرت شیخ صاحبؒ کی زیارت ہوئی۔ آپ نے سلام پہنچانے پر بہت ہی مسرت کا اظہار کیا اور میرے ہاتھ میں ایک کتاب دے کر فرمایا کہ یہ بطور ہدیہ ہے۔ جب مَیں نے اس رسالہ کو دیکھا تو اس کے سرورق پر نام ’’سراج الاسرار‘‘ لکھا ہوا تھا۔ (حیات قدسی صفحہ 437۔ 436 مطبوعہ ربوہ)
پھر ایک روایت حضرت مرزا بشیر احمد ؓ صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ (ایک خاتون) امۃ الرحمن بنت قاضی ضیاء الدین صاحب مرحوم نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعودؑ کو مرزا فضل احمد صاحب مرحوم کی وفات کی خبر آئی (یہ آپ کے پہلے دو بیٹوں میں سے چھوٹے بیٹے تھے۔) تو مغرب کا وقت تھا اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اس وقت سے لے کر قریباً عشاء کی نماز تک ٹہلتے رہے۔ حضورؑ جب ٹہلتے تو چہرہ مبارک حضور کااس طرح ہوتا کہ گویا بُشرہ مبارک سے چمک ظاہر ہوتی ہے۔
(سیرت المہدی جلد دوم روایت نمبر 1596۔ حصہ پنجم۔ صفحہ 323 مطبوعہ ربوہ)
میاں رحیم بخش صاحب کی ایک روایت ہے کہ ایک دن کا واقعہ ہے کہ ظہر کی نماز کے بعد حضرت صاحب اندر چلے گئے (مسجد سے اپنے گھر چلے گئے) ہم نے پیچھے سنتیں پڑھیں اتنے میں باری کے رستے سے(یعنی کھڑکی کے راستے سے) حضور نے حضرت خلیفۂ اوّل کو بلایا۔ حضور کوئی کتاب لکھ رہے تھے اور حکیم صاحب سے اس کے متعلق کوئی حوالہ پوچھنا تھا یا کوئی بات پوچھنی تھی۔ مَیں نے اس باری(کھڑکی) سے جب حضور کو دیکھا حضور کے سر پر پگڑی نہیں تھی، پٹے رکھے ہوئے تھے۔ اس نظارہ کی مَیں کیفیت بیان نہیں کر سکتا۔ وہ مکان مجھے نور سے بھرا ہوا نظر آتا تھا۔ چہرہ کی وجہ سے مکان منور ہو رہا تھا۔ آہ اس نورانی چہرہ کاجب بھی تصور آتا ہے جی میں عجیب قسم کے خیالات موجزن ہوتے ہیں۔ اس وقت کا نقشہ اب تک میری آنکھوں میں ہے۔ حضورؑ نے حضرت خلیفہ اول ؓ سے کوئی بات دریافت کی۔ وہ باہر آ گئے اور حضورؑ نے پھر اندر سے کنڈا لگا لیا۔
(رجسٹر روایات صحابہ حضرت مسیح موعودؑ غیر مطبوعہ رجسٹرجلد 10 صفحہ 185۔ 184 روایات حضرت میاں رحیم بخش صاحبؓ)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے شمائل کے متعلق ڈاکٹر بشارت احمدصاحب اپنی تصنیف ’’مجدد اعظم‘‘ میں تحریر کرتے ہیں کہ 1906ء میں لمبی رخصت لے کر قادیان گیا ہوا تھا۔ ایک روز حضرت اقدس کی طبیعت ناساز تھی۔ سر میں سخت درد تھا۔ مگر اسی تکلیف میں اپ ظہر کی نماز کے لئے مسجد میں تشریف لے آئے۔ مجھے سامنے سے آتے نظر آئے تو گو سردرد کی وجہ سے چہرہ پر تکلیف کے آثار تھے لیکن پیشانی پر ایک نور کا شعلہ چمکتا نظر آتا تھا۔ جسے دیکھ کر آنکھیں خیرہ ہوتیں اور دل کو سرور آتا تھا۔ آج تک سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ غیر معمولی چمک کس چیز کی تھی۔ یہ تو خاص اوقات کا ذکر مَیں نے کیا جن کا اثر غیر معمولی طورپر دل پر رہ گیا ورنہ آپ کے چہرہ پر تقدس کے آثار ایسے نمایاں تھے اور انوار روحانی کی بارش کا و ہ سماں نظر آتا تھا کہ ممکن نہ تھا کہ کوئی شخص اسے دیکھے اور متاثر نہ ہو۔ …… ہندو تک اس کے مُقرتھے۔ (یعنی اس بات کا اقرار کرتے تھے، اس بات کومانتے تھے)۔ (کہتے ہیں کہ) بٹالہ اور قادیان کے درمیان نہر کے کنارے ایک ہندو دکاندار چھابڑی لگا کر بیٹھا رہا کرتا تھا۔ وہ کہا کرتا تھا کہ ’’مہاراج مَیں تو ہر ایک آنے جانے والے کو دیکھتا ہوں۔ بڑے بڑے پٹھان اور سُورما یہ کہتے ہوئے ادھر سے گزرے ہیں کہ آج مرزا کا فیصلہ کرکے آویں گے لیکن جب واپس گئے تو مرزا کے ہی گن گاتے ہوئے گئے۔ مہاراج مرزا تو کوئی دیوی کا روپ ہے‘‘۔ (یہ ایک ہندو کی تصدیق ہے۔ )
(مجدد اعظم جلد دوم صفحہ 1242۔ بار اول 1940ء شائع کردہ احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور)
پھر ڈاکٹر بشارت صاحب ہی ایک روایت کرتے ہیں کہ وہ آثار تقدس اور انوار آسمانی جو آپ کے چہرہ پر ہر وقت نظر آتے تھے اِن کو نہ قلم بیان کر سکتی ہے نہ فوٹو دکھا سکتا ہے۔ جس وقت آپ ایک چھوٹے سے دروازہ کے ذریعہ گھر میں سے نکل کر مسجد میں تشریف لاتے تو یہ معلوم ہوتا کہ ایک نور کا جھمگٹا سامنے آ کھڑا ہوا۔ سب سے پہلے خاکسار مؤلف نے حضرت اقدسؑ کو سیالکوٹ میں 1891ء میں دیکھا تھا۔ آپؑ حکیم حسام الدین مرحوم کے مکان سے نکلے۔ گلی میں سے گزر کر سامنے کے مکان میں چلے گئے۔ لیکن مجھے ایسا معلوم ہوا کہ ایک نور کا پتلا آنکھوں کے سامنے سے گزر گیا۔ جو مقدس سے مقدس شکل میرا ذہن تجویز کر سکتا تھا وہ اس سے بھی بڑھ کر تھا اور بے اختیار میرے دل نے کہا کہ یہ شکل جھوٹے کی نہیں بلکہ کسی بڑے مقدس انسان کی ہے۔
ایک دفعہ سردیوں کا موسم تھا۔ مَیں قادیان گیا ہوا تھا۔ شام کا وقت اور بارش ہو رہی تھی اور نہایت سرد ہوا چل رہی تھی۔ مسجد مبارک میں جہاں نماز مغرب پڑھی جاتی تھی۔ کچھ اندھیرا سا ہو رہا تھا۔ حضرت اقدس اندر سے تشریف لائے تو موم بتی روشن کی ہوئی آپ کے ہاتھ میں تھی جس کا عکس آپ کے چہرہ مبارک پر پڑرہا تھا۔ اللہ، اللہ جو نور اس وقت آپ کے چہرہ پر مجھے نظر آیا وہ نظارہ آج تک نہیں بھولتا۔ چہرہ آفتاب کی طرح چمک رہا تھا جس کے سامنے وہ شمع بے نور نظر آتی تھی۔
(مجدد اعظم جلد دوم صفحہ 1241۔ 1242۔ بار اول 1940ء شائع کردہ احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور)
حضرت چوہدری برکت علی خان صاحب گڑھ شنکری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ بیعت کی منظوری آنے کے ایک مہینے بعد مَیں نے ڈاکٹر صاحب (یعنی حضرت ڈاکٹر محمداسماعیل صاحب) سے عرض کیا کہ مَیں قادیان جا کر دستی بیعت بھی کرنا چاہتا ہوں مگر مَیں کبھی گڑھ شنکر سے باہر نہیں گیا۔ نہ ریل کبھی دیکھی ہے۔ مجھے قادیان کا راستہ بتا دیں۔ آپ نے کہا یہاں سے بنگہ پہنچو۔ وہاں میاں رحمت اللہ صاحبؓ مرحوم باغانوالہ کی دکان پر جا کر ان سے کہنا کہ پھگواڑہ ریلوے سٹیشن کاراستہ بتا دیں اور پھر وہاں سے بٹالہ چلے جانا، بٹالے رات کو دس بجے پہنچ جاؤ گے اور ٹھہرنے کی کوئی جگہ معین نہیں ہے۔ سٹیشن پر ٹھہر جانا تو بٹالہ سے پھر قادیان کچی سڑک جاتی ہے۔ صبح فجر کے بعد قادیان چلے جانا۔ تو کہتے ہیں انہوں نے راستہ بتا دیا۔ مَیں روانہ ہوا اور جب بٹالہ سٹیشن سے نکلا تو سڑک پر ایک چھوٹی سی مسجد پرنظر پڑی۔ مَیں نے کہا کہ مسجد میں ہی رات گزار لیتے ہیں،صبح قادیان تو چلے جانا ہے۔ کہتے ہیں کہ مسجد میں میں ابھی گیا ہی تھا۔ تھوڑا وقت ہوا تھا تو ایک شخص آیا اور آ کر کہا کہ تم کون ہو۔ مَیں نے کہا مسافر ہوں قادیان جانا ہے۔ اس نے گالی دیتے ہوئے سختی سے کہا کہ خبیث مرزائی آ کر مسجد کو خراب کر جاتے ہیں۔ صبح مسجد دھونی پڑے گی تم یہاں سے نکل جاؤ۔ مَیں نے کہا مَیں تو یہاں آیا ہوں۔ مَیں تو رات گزار وں گا۔ مَیں نے نہیں جانا۔ کس طرح تم مجھے خدا کے گھر سے نکال سکتے ہو؟ تو پھر وہ گالیاں دیتا ہوا چلا گیا۔ کہتے ہیں صبح کی نماز مَیں نے پہلے وقت میں پڑھ لی اور قادیان کی طرف روانہ ہوا۔ مسجدمبارک میں جب مَیں پہنچا تو پہنچنے کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک کھڑکی میں سے مسجد مبارک میں تشریف لائے۔ مَیں نے جب حضور کو دیکھا تو بے اختیار میری زبان سے نکلا کہ یہ تو سراپا نور ہی نور ہے۔ یہ تو سچوں اور راستبازوں کا چہرہ ہے۔ یہ وہی شخص ہے جس کی بابت اخبار الحکم میں کلمات طیبات حضرت امام الزمان پڑھا کرتا تھا اور جس مقدس وجود کی مجھے تلاش تھی۔ (ماخوذ از اصحاب احمد جلد ہفتم صفحہ 202۔ 201 مطبوعہ ربوہ)
پھر حضرت محمد صدیق صاحب آف گوگھیاٹ کی ایک روایت رجسٹر روایات صحابہ ؓ میں ہے۔ کہتے ہیں کہ مجھے نبی اللہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا شرف زیارت بطفیل عمویم جناب مولوی فخر الدین صاحب سابق ہیڈ کلرک کیمل کور حال مہاجر محلہ دارالفضل قادیان غالباً مارچ 1903ء میں ہوا جبکہ آپ مجھے اپنے ہمراہ گھر سے قادیان دارالامان لے گئے۔ میری عمر اس وقت کوئی دس سال کی ہو گی۔ …… ہم بے شمار لوگ بہلی کے ساتھ پیدل قادیان آئے۔ راستے میں سکھ اور غیر لوگ بھاگ بھاگ کربہلی کا پردہ ہٹا ہٹا کر زیارت کرتے۔ (چھوٹی بیل گاڑی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بیٹھے ہوئے تھے۔ کور(Covered) تھی،پردہ تھا۔ اس کا پردہ اٹھا کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت کیا کرتے تھے)۔ اور ترس ترس کر دیکھتے تھے۔ مَیں اگرچہ خداتعالیٰ کے فضل سے پیدائشی احمدی تھا مگر مسجد مبارک میں تین چار دوستوں سمیت حضورؑ کے دست مبارک پر ہاتھ رکھ کربھی بیعت کرنے کا موقعہ نصیب ہو گیا۔ بعد بیعت حضور نے لمبی دعا فرمائی۔ بیعت کے کلمات کہلواتے وقت جو درد اور انکسار حضور کی زبان مبارک اور منور چہرہ سے ہوتا تھا اس کا نقشہ تو کوئی بشر کیا کھینچ سکتا ہے۔
(رجسٹر روایات صحابہ حضرت مسیح موعودؑ غیر مطبوعہ۔ رجسٹر۔ جلد اوّل۔ صفحہ 25۔ 24 روایات حضرت محمد صدیق صاحبؓ آف گھوگیاٹ)
پھر حضرت فضل احمد صاحب پٹواری حلقہ گورداس ننگل، تحصیل گورداسپور روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بعد فراغت مقدمہ مولوی کرم الدین صاحب دارالامان تشریف لائے تو آپ شام کے وقت تشریف لائے اور نمازمغرب میں کچھ دیر ہو گئی۔ حضور جس وقت مسجد میں تشریف لائے تو مسجد میں اجالا ہو گیا۔ وہ روشنی فدوی کی آنکھوں میں اب تک موجزن ہے۔
(رجسٹر روایات صحابہ۔ غیر مطبوعہ جلد اوّل صفحہ 49۔ 48 روایت فضل احمد صاحب پٹواری)
پھر حضرت چوہدری علی محمد صاحب گوندل چک 99شمالی ضلع سرگودھا لکھتے ہیں کہ حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کی وفات سے سات دن پہلے (جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سب سے چھوٹے بیٹے تھے، بچپن میں فوت ہو گئے تھے ان کی وفات سے سات دن پہلے) بہ ہمراہی مولوی غلام حسین والد مولوی محمد یار عارف چک 98شمالی اور دو اَورہمراہی جن کے اب نام یاد نہیں،ہم چاروں بیعت کی غرض سے قادیان گئے۔ اس سے پہلے مَیں نے بذریعہ خط بیعت کی ہوئی تھی۔ ہم چاروں آپ کے مکان پر چلے گئے۔ آواز دینے پر آپ باہر تشریف لائے۔ مکان کے باہر دو چار پائیاں، ایک بڑی اور ایک چھوٹی پڑی ہوئی تھی۔ آپ نے ہماری طرف اشارہ کرکے فرمایا کہ بڑی چارپائی پر بیٹھ جاؤ اور آپ چھوٹی چار پائی پر بیٹھ گئے۔ ہم چونکہ آگے پِیروں سے ڈرے ہوئے تھے۔ ہم نیچے بیٹھنے لگے مگر آپ نے دوبارہ مجبوراً کہا کہ چارپائی پر بیٹھو۔ ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آخر ہمیں مجبوراً چار پائی پر بیٹھنا پڑا۔ اس سے آپ کے اخلاق حسنہ کا پتہ لگتا ہے کہ کس قدر وسیع القلب تھے، کہتے ہیں کہ مَیں چونکہ سب سے چھوٹا تھا اس لئے مَیں سب سے نچلی طرف بیٹھا۔ مولوی غلام حسین جو حضرت مولوی محمد یارعارف صاحب کے والد تھے، مجھ سے بڑی عمر کے تھے اور خوب مولویانہ بالشت بھر چمکدار سیاہ داڑھی تھی اور بیٹھے بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے عین سامنے تھے۔ مَیں نے اپنے دل میں خیال کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مولوی غلام حسین صاحب پر اپنی نظرشفقت فرماویں گے مگر آپ نے میرے اس خیال کے برخلاف کیا اور آپ نے میرے ہی ہاتھ پر دست شفقت رکھا باقی ساتھیوں نے میرے ہاتھ پر ہاتھ رکھے اور آپؑ نے ہماری بیعت لی۔ عین اس وقت جبکہ آپ نے اپنا دست مبارک میرے ہاتھ سے مس کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ آپ کے ہاتھوں سے کوئی چیز بجلی کی طرح میرے تمام جسم میں سرایت کر گئی ہے۔ اس وقت آپ کا جلال اس قدر تھا کہ مَیں سمجھتا تھا کہ اس دنیا میں اس وقت آپ کی شان کا کوئی انسان نہیں ہے۔ اس وقت ہم نے آپ کو نبی سمجھ کر بیعت کی تھی۔ اس بات سے بھی پتہ چلتا ہے کہ آپ کی نظر میں بڑوں کا ہی لحاظ نہ تھا بلکہ چھوٹوں پر بھی دست شفقت تھا۔ آپ کی وفات پر ہمارے چک میں بہت سے لوگوں نے ٹھوکر کھائی اور احمدیت سے منحرف ہونے لگے، مگر باوجود اَن پڑھ ہونے کے مجھ پر اللہ تعالیٰ کے فضل نے اور احمدیت کے جلال نے وہ اثر ڈالا ہوا تھا کہ مَیں نے کہا کہ اگر ساری دنیا بھی احمدیت چھوڑ جائے مگر مَیں احمدیت کو نہ چھوڑوں گا۔
(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ حضرت مسیح موعودؑ (غیر مطبوعہ) جلد نمبر 1 صفحہ 70۔ 69 روایت چوہدری علی محمد صاحبؓ گوندل)
حضرت نظام الدین صاحب پوسٹ ماسٹر نبی پور روایت کرتے ہیں کہ مَیں ایک د فعہ سخت بیمار تھا قریب المرگ ہو گیا۔ مَیں بیہوشی کی حالت میں تھا کہ حضرت مسیح موعودؑ تشریف لائے تو کمرہ فوراً نورٌ علیٰ نور ہو گیا۔ ایک الماری جو بوتلوں سے دوائیوں سے قدرتاً بھری ہوئی تھی۔ اپنے دست مبارک سے کھول کر ایک بوتل کے لیبل پر انگشت مبارک رکھ کر حضور نے ارشاد فرمایا: منشی جی اس سے 20بوندیں پیو۔ اسی وقت سے اللہ تعالیٰ نے مجھے صحت بخش دی۔
(رجسٹر روایات صحابہؓ حضرت مسیح موعودؑ (غیر مطبوعہ) جلد 1 صفحہ 75 روایت نظام الدین صاحب)
پھر حضرت سید میر عنایت علی شاہ صاحب لدھیانہ ایک روایت کرتے ہیں کہ ہماری برادری میں ہی خان بہادرڈپٹی امیر علی شاہ صاحب مرحوم کا مکان تجویز کیا گیا۔ (اس وقت ٹھہرنے کیلئے حضرت مسیح موعودؑ نے وہاں تشریف لے جانی تھی۔ تو ڈپٹی امیر علی شاہ صاحب کا مکان تجویز ہوا کہ وہاں رہائش فرمائیں گے)۔ تو کہتے ہیں چنانچہ ڈپٹی صاحب مرحوم کو کہا گیا کہ اپنے تکلفات کا سامان اٹھا لیجئے۔ قالین، صوفے وغیرہ جو پڑے ہیں وہاں سے اٹھا لیں۔ کیونکہ حضرت مرزا صاحب کی آمد پر غرباء نے بھی آنا ہے اور یہ ایک للّہی محفل ہو گی آپ کو بعد میں کوئی شکایت نہ ہو۔ لیکن ڈپٹی صاحب مذکور کے مختار نے بتلایا کہ ہمارے قالین، گاؤ تکیے ایک بزرگ انسان کے قدموں سے برکت حاصل کریں گے۔ اس میں ہی ہماری خوشی ہے۔ چنانچہ حسب تحریر جب حضور لدھیانہ کے لئے روانہ ہوئے۔ شہرمیں ایک شور پڑ گیا اور پبلک سٹیشن پر پہنچی۔ (بہت سے لوگ اکٹھے ہو گئے سٹیشن پر)۔ بعض پلیٹ فارموں سے اندر اور بعض باہر کھڑے رہے۔ سوائے میر عباس علی شاہ کے کوئی حضور پُر نور کے چہرے سے واقف نہ تھا۔ مَیں بھی مین گیٹ یعنی صدر دروازے پر کھڑا تھا۔ میر صاحب اندر گئے،مَیں ٹکٹ کلکٹر کے پاس اکیلا ہی کھڑا تھا۔ گاڑی کی آمد پر میر صاحب مذکور اندر گاڑیوں میں تلاش کرنے لگے۔ حضرت صاحب اگلی گاڑی سے یکایک اتر کر بنفس نفیس صدر دروازے پر تشریف لے آئے۔ اس وقت حضرت صاحب کے ہمراہ تین آدمی تھے۔ مَیں گو پہچانتا نہ تھا۔ مَیں نے مسافروں کے چہرے پر نظر دوڑائی۔ حضرت اقدس کی سادگی اور نورانی چہرے سے مَیں نے معاً دل میں خیال کیا کہ یہی حضور والا صفات ہوں گے اور مَیں نے مصافحہ کر لیا اور ہاتھوں کو بوسہ دیا۔ تین آدمی جو ہمراہ تھے وہ یہ تھے مولوی جان محمد صاحب والد میاں بگا صاحب مرحوم، حافظ حامد علی صاحب مرحوم اور لالہ ملاوا مل صاحب۔ (رجسٹر روایات صحابہ حضرت مسیح موعودؑ (غیر مطبوعہ) رجسٹر نمبر 1 صفحہ 109۔ 108 روایات سید میر عنایت علی شاہ صاحب لدھیانوی)
پھر ایک روایت میاں فیروز الدین صاحب ولد میاں گلاب دین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ساکن سیالکوٹ کی ہے۔ کہتے ہیں جب حضورؑ نے مسیحیت کا دعویٰ کیا تو میرے دادا صاحب نے کچھ عرصہ کے بعد حضورؑ کی بیعت کر لی اور سارے خاندان کو کہا کہ مَیں ان کا اس زمانے سے واقف ہوں جبکہ حضور یہاں ملازم تھے اس لئے آپ لوگ میرے سامنے بیعت کریں۔ یہ مونہہ جھوٹوں کا نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ 1892ء میں ہمارے سارے خاندان نے بیعت کر لی۔ (رجسٹر روایات صحابہ حضرت مسیح موعودؑ ۔ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر10 صفحہ 128۔ 127۔ روایات میاں فیروز الدین صاحب ولد میاں گلاب دین صاحب ؓ)
پھر ایک روایت ڈاکٹر عبدالمجید خان صاحب ابن مکرم قدرت اللہ خان صاحب مہاجر شاہجہانپوری کی ہے۔ کہتے ہیں کہ گرمی کا موسم تھا۔ قریب ایک بجے دن آپ جلدی جلدی چھت پر سے اتر کر باہر تشریف لے گئے۔ مَیں آہستہ آہستہ دبے پاؤں حضور کے پیچھے چلا کہ دیکھوں حضور اس وقت دوپہرمیں کہاں تشریف لے جاتے ہیں۔ جبکہ ایک بوڑھ کے درخت کے پاس جو زنانہ جلسہ گاہ ہے تشریف لے گئے۔ تو اچانک پھر کر دیکھا تو مجھ کو کہا کہ تم میرے پیچھے مت آؤ۔ چنانچہ مَیں اس درخت کے پیچھے ٹھہر گیا۔ آپ اس درخت کے قریب دو فرلانگ جا کر ایک چھوٹے سے درخت کے سائے میں بیٹھ گئے۔ اور میرا خیال ہے کہ قریب 10منٹ وہاں بیٹھے رہے (یا کچھ عرصہ) چونکہ فاصلہ زیادہ تھا۔ مَیں نہ معلوم کر سکا کہ آپ دعا کر رہے ہیں یا کیا۔ اس وقت مجھ کو خیال آیا کہ کیونکہ حضور نے مجھے اپنے ساتھ آنے سے منع کیا تھا۔ مَیں واپس آ گیا اور اپنی والدہ مرحومہ کو اس واقعہ کا ذکر کیا۔ اس وقت ظہر کی اذان ہوئی تو حضور بھی تشر یف لے آئے۔ وہاں مَیں نے دیکھا کہ حضور کا چہرہ چمک رہا تھا۔ (یقیناً اللہ تعالیٰ کی طرف سے کچھ خوشخبری ملی ہو گی)۔
(رجسٹر روایات صحابہ حضرت مسیح موعودؑ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر 12صفحہ89۔ 88)
پھر ایک روایت مولوی فضل الٰہی صاحب قادیان کی ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ کا واقعہ مجھے یاد آ گیا کہ بعد نماز مغرب حضور شہ نشین پر مشرق کی طرف ر خ فرمائے تشریف فرما تھے اور چاند کی تاریخ پندرہ یا سولہ الباً تھی۔ اندھیرے میں جب مشرق سے چاند طلوع ہوا تو یہ عاجز مغرب کی طرف (حضور کے چہرہ مبارک کی طرف) منہ کرکے بیٹھا ہوا تھا۔ مجھے نظر آیا کہ حضور کے چہرہ مبارک سے شعاعیں نکلتی ہیں اور چاند کی شعاعوں سے ٹکراتی نظر آتی ہیں۔ (رجسٹر روایات صحابہ حضرت مسیح موعودؑ غیر مطبوعہ رجسٹرنمبر 12 صفحہ 326 روایات مولوی فضل الٰہی صاحب ؓ)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’1904ء میں جب حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام لاہور تشریف لے گئے تو وہاں ایک جلسہ میں آپ نے تقریر فرمائی۔ ایک غیر احمدی دوست شیخ رحمت اللہ صاحب وکیل بھی اس تقریر میں موجود تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ دوران تقریرمیں مَیں نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعودؑکے سر سے نور کا ایک ستون نکل کر آسمان کی طرف جا رہا تھا۔ اس وقت میرے ساتھ ایک اور دوست بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ مَیں نے انہیں کہا۔ دیکھو وہ کیا چیز ہے۔ انہوں نے دیکھا تو فوراً کہا کہ یہ تو نور کا ستون ہے جو حضرت مرزا صاحب کے سر سے نکل کر آسمان تک پہنچا ہوا ہے۔ اس نظارہ کا شیخ رحمت اللہ صاحب پر ایسا اثر ہوا کہ انہوں نے اسی دن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کر لی‘‘۔ (تفسیر کبیر جلد ہفتم صفحہ 121 مطبوعہ ربوہ)
حضرت میاں غلام محمد صاحب ارائیں پھیروچچی ضلع گورداسپور روایت کرتے ہیں کہ… مَیں نے 1907ء میں بیعت کی اور متواتر ہم اسی طرح جمعہ پڑھنے جاتے رہے۔ بعد میں حضور لاہور گئے اور ہمیں معلوم ہوا کہ حضور اسہال کی بیماری کی وجہ سے وفات پا گئے اور مخالفین نے مشہور کیا کہ اب یہ سلسلہ ختم ہو گیا اور وفات کے بعد حضور کا چہرہ سیاہ ہو گیا (نعوذ باللہ)۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں اپنے لڑکوں ابراہیم و جان محمد کو ساتھ لے جایا کرتا تھا اور ان کو کہتا تھا کہ یہ حضرت مسیح موعودؑ ہیں۔ تو یہ دونوں لڑکے حضور کے پاؤں کو چمٹ جاتے تھے اور حضور بڑے خوش ہوتے تھے اور جب حضور وفات پا گئے مَیں مع جماعت اور مع اپنے ان بچوں کے قادیان پہنچا اور لڑکوں کو بھی حضور کا چہرہ دکھایا اور آپ بھی دیکھا اور لڑکے بار بار مجھے کہتے۔ اے لالہ! ہمیں میاں کاچہرہ دکھا اور سخت روتے کہ جب ہم آتے تو حضور کو لپٹ جاتے۔ اب ہم کس کے ساتھ لپٹیں گے۔ اس طرح کوئی چار دفعہ حضور کا چہرہ ان کو دکھایا۔ (کہتے ہیں کہ) جس طرح ہم سنا کرتے تھے کہ آنحضرت رسول کریمﷺ کا حلیہ مبارک ہے ویسا ہی ان کا نورانی چہرہ ہے۔ اس سے پہلے نہ کوئی ایسا ہوا اور نہ آئندہ۔ گویا کہ رسول کریمﷺ تو اصل تھے یہ ان کے عکس ہیں۔ (یعنی وہ جونعوذ باللہ دشمنوں نے مشہور کیا ہوا تھاکہ چہرہ سیاہ ہو گیا اور یہ ہو گیا۔ ہم تو سنا کرتے تھے آنحضرت اکے بارہ میں کہ آپ کا چہرہ مبارک نورانی تھا تو یہاں بھی ہمیں نور نظر آیا کیونکہ وہ ظل تھے رسول کریمﷺ کے)۔ اورپھر حضرت مولوی نورالدین صاحب کی بیعت کی اور حضرت مسیح موعودؑ کو اپنے ہاتھوں سے دفنایا۔ اس کے بعد ہم گھر واپس آ گئے اور پھر کہتے ہیں ہم نے حضرت مسیح موعودؑ کے معجزات بیان کرکے تبلیغ کرنی شروع کی۔ (رجسٹر روایات صحابہ حضرت مسیح موعودؑ غیر مطبوعہ۔ جلداوّل۔ صفحہ82 تا86 روایات حضرت میاں غلام محمد صاحب ارائیں ؓ)
مَیں نے یہ رجسٹر روایات صحابہ میں سے کچھ واقعات لئے تھے۔ ویسے تو بے شمار واقعات ہیں۔ کبھی موقع ہوا تو انشاء اللہ آئندہ بھی بیان ہوتے رہیں گے۔ اب مَیں بعض ایسی روایات بیان کروں گا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابہ کے روحانی معیاروں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نور سے حصہ پانے کی وجہ سے اعلیٰ مقام کی نشاندہی کرتی ہیں۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کے انتخاب خلافت کے وقت بعض دنیاداروں پر ابتلا آیا اور جماعت سے علیحدہ بھی ہو گئے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اکثریت کو محفوظ رکھا اور بعض کی فوری راہنمائی بھی فرمائی۔ ایک واقعہ کا ذکر کرتا ہوں۔ حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ بیان کرتے ہیں کہ ’’ایک دن مَیں مسجد احمدیہ پشاور میں بیٹھا ہوا تھا۔ میرے پاس مکرمی میاں شمس الدین صاحب امیر جماعت احمدیہ پشاور بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ مجھ پر اچانک کشفی حالت طاری ہو گئی۔ مَیں نے دیکھا کہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ ……تشریف لائے ہیں۔ آپ کا دل مجھے سامنے نظر آ رہا ہے۔ جس میں کئی روشن سورج چمک رہے ہیں۔ جن کی چمک اور روشنی بڑے زور کے ساتھ ہمارے اوپر پڑ رہی ہے۔ آپ کے دل کے سامنے میرا دل ہے جس میں بلب کی روشنی کے برابر روشنی نظر آتی ہے۔ (حیات قدسی صفحہ 295 مطبوعہ ربوہ)
جو بزرگ تھے نیک فطرت تھے، سعید فطرت تھے باوجود اس کے کہ وہ بیعت میں فوراً شامل ہو گئے تھے پھر بھی اللہ تعالیٰ مزید مضبوطی پیدا کرنے کے لئے بعض کشوف اور رؤیا دکھاتا ہے۔
ایک روایت مکرم سوہنے خان صاحب آف سٹھیانہ ہوشیار پور کی ہے۔ کہتے ہیں اب مَیں صداقت حضرت خلیفۃالمسیح الثانی ؓ بیان کرتا ہوں کہ جو میرے پر ظاہر ہوئی۔ جس وقت احرار کا زور تھا اور مستریان نے حضور ؓ پر تہمت لگائی تھی۔ (یہ ایک اور واقعہ ہوا جب احرار نے شور مچایا اور اندرونی فتنہ بھی اٹھا اور بیرونی فتنہ بھی اٹھا تو اس وقت کہتے ہیں کہ)مَیں نے دعا کرنی شروع کر دی کہ اے اللہ! میرے پیر کی عزت رکھ۔ وہ تو میرے مسیح کا بیٹا ہے۔ بہت دعا کی اور بہت درود شریف اور الحمد شریف پڑھا اور دعا کرتا رہا (تو کہتے ہیں ) خواب عالم شہود میں ایک شخص میرے پاس آیا۔ اس نے بیان کیا (کہ) مشرق کی طرف بڑہ گاؤں میں مولوی آئے ہوئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ احمدیوں کو ہم نے جڑ سے اکھیڑ دینا ہے اور بندہ اور برکت علی احمدی اور فتح علی احمدی کو ساتھ لے کر خواب ہی میں ان کی طرف روانہ ہوئے۔ (یعنی وہ ان کو لے کے تین آدمیوں کے ساتھ روانہ ہوئے۔ کہتے ہیں کہ) ہم موضع پنڈوری قد میں پہنچے اس وقت نماز عصر کا (وقت) ہو گیا اور مَیں (نے) امام بن کر ہر دو احمدی کو نماز پڑھانی شروع کر دی۔ اتنے میں خرد خان اور غلام غوث احمدی پھگلانہ بھی آ گئے۔ مَیں نے آسمان کی طرف دیکھا آسمان پر دو چاند ہیں ایک چاند بہت روشن ہے دوسرا چاند مربع شکل اس کے ساتھ لگا ہوا ہے وہ بے نور ہے۔ روشنی نہیں ہے۔ میرے دیکھتے دیکھتے اس میں روشنی ہونے لگ گئی۔ غرضیکہ وہ چاند دوسرے چاند کے برابر روشن ہو گیا۔ مَیں نے دعا کی۔ یہ دونوں ایک قسم کے روشن ہو گئے ہیں۔ اس وقت مجھے ندا ہوئی (آواز آئی) کہ پہلا چاند مرزا صاحب یعنی مسیح موعودؑ ہیں اور یہ دوسرا چاند جو اب روشن ہوا ہے یہ میاں بشیرالدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانیؓ ہیں۔
(رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ رجسٹر12 صفحہ 200۔ 199 روایات میاں سوہنے خان صاحبؓ)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی حضرت مسیح موعودؑ کے وہ موعود بیٹے تھے جن کے بارہ میں بے شمار پیشگوئیاں پیدائش سے پہلے تھیں۔ مصلح موعود کی پیشگوئی سب سے مشہور ہے اور ہر احمدی جانتا ہے۔ آپ کے دور خلافت میں باوجود انتہائی نامساعد حالات کے تبلیغ اسلام اور انوار محمدی پھیلانے کا بہت وسیع کام ہوا ہے۔ اس وقت بھی فتنے اٹھتے تھے اور اب بھی وقتاً فوقتاً بعض فتنے اٹھ جاتے ہیں اور عموماً یہ دیکھا گیا ہے کہ حضرت مصلح موعودؓ کے نام پر اٹھتے ہیں۔ جماعت میں کوئی بے چارہ مجذوب جس کا دماغ ہل جائے تو اور اس کو کچھ سوجھے نہ سوجھے وہ کم از کم مصلح موعود ہونے کا دعویٰ ضرورکرتا ہے۔ لیکن اصل خطرناک بات یہ ہے کہ وہ بے چارے اس وقت تو مجبور ہیں، دماغی حالت ایسی ہوتی ہے لیکن اس کو بھڑکانے والے، اس فتنے میں شامل ہونے والے بعض ایسے لوگ جو جماعت میں رہ کر اس فتنے کی پشت پناہی کررہے ہوتے ہیں وہ یقیناً منافق ہوتے ہیں۔ یا ایسے لوگ ہیں جو پھر جماعت کو بھی چھوڑتے ہیں اور اس کی پشت پناہی صرف اس لئے کرتے ہیں کہ فساد پیدا کیا جائے اور جماعت میں رخنہ ڈالا جائے۔ باقی جہاں تک مصلح موعود ہونے کا سوال ہے تو اس کی ایسی واضح دلیلیں ہیں کہ کوئی بے وقوف ہی ہو جو اس پر یقین نہ کرے۔
حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک اور روایت ہے۔ کہتے ہیں کہ خاکسار نے ایک د فعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ …کی خدمت میں تحریر کیا کہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی بیعت کے بعد حضور کے فیضان سے مجھے غسل دماغ نصیب ہوا ہے۔ …… اب اگر قلبی غسل اور اِنارت کا افاضہ حضور کے طفیل ہو جائے تو دماغ کے ساتھ قلب بھی منور ہو جائے گا۔ (یعنی جو باطنی نور ہے وہ بھی مجھ میں پیدا ہو جائے اور اللہ تعالیٰ اپنی جناب سے عطا فرمادے۔ تو کہتے ہیں ) اس کے کچھ عرصہ بعد حضور… نے قادیان کی مسجد مبارک میں مجلس علم و عرفان میں تقریر کرتے ہوئے ہدایت فرمائی کہ نوجوانوں کو چاہئے کہ وہ ہر نماز کے فرضوں کے بعد بارہ دفعہ

سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْم

اور بارہ دفعہ درود شریف پڑھا کریں۔ یہ ہدایت زیادہ تر ممبران خدام الاحمدیہ کو تھی لیکن خاکسار نے اسی دن سے اس پر باقاعدہ عمل شروع کر دیا اور آج تک بالالتزام اس ہدایت پر عمل پیرا ہے۔ (کہتے ہیں کہ) اس عمل سے بفضلہ تعالیٰ مجھے بہت سے فوائد حاصل ہوئے جن میں سے ایک بڑا فائدہ ہوا کہ مجھے تزکیۂ قلب (یعنی دل کی پاکیزگی) اور تجلیۂ روح (یعنی روح کی روشنی) کے ذریعہ ایک عجیب قسم کی اِنارت (محسوس ہوئی۔ ایک عجیب قسم کی روشنی) محسوس ہونے لگی اور جس طرح آفتاب و مہتاب کی روشنی کو آنکھ محسوس کرتی ہے اسی طرح میرا قلب دعا کے وقت اکثر کبھی بجلی کے قمقمے کی طرح اور کبھی گیس لیمپ کی طرح منور ہو جاتا ہے اور کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میرا وجود سر سے پاؤں تک باطنی طور پر نورانی ہو گیا ہے اور جب سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی… کی اقتداء میں نماز ادا کرنے کی توفیق ملے یا صحابہؓ حضرت اقدس مسیح موعودؑ میں سے کسی مقدس وجود کی اقتداء کا موقع نصیب ہو اور نما زبہ قراء ت جہر ہو رہی ہوتو بعض دفعہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ قرآن کریم کے ہر ہر لفظ سے نور کی شعاعیں نکل نکل کر میرے قلب پر مستولی رہی ہیں اور اس وقت ایک عجیب نورانی اور سرور بخش منظر محسوس ہوتا ہے۔ (حیات قدسی صفحہ 593۔ 592 مطبوعہ ربوہ)
اور یہ

سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْم

ایک ایسی دعا ہے جس کے بارہ میں حدیث میں بھی آتا ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ

کَلِمَتَانِ خَفِیْفَتَانِ عَلَی اللِّسَانِ، ثَقِیْلَتَانِ فِی الْمِیْزَانِ، حَبِیْبَتَانِ اِلَی الرَّحْمٰنِ۔ سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْم۔

(صحیح بخاری کتاب الدعوات باب فضل التسبیح حدیث نمبر 6406)
کہ ایسے کلمات جو زبان سے کہنے پہ بہت ہلکے ہیں لیکن ان کا وزن ان کے لحاظ سے بہت بھاری ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل کو کھینچنے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہیں اور یہ وہی ہیں کہ

سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْم۔

حضرت مسیح موعودؑ کی جوایک الہامی دعا ہے وہ بھی ہے،

سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْم۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّاٰلِ مُحَمَّدٍ۔

(تذکرہ صفحہ 25 ایڈیشن چہارم 2004ء مطبوعہ ربوہ)
جس میں د رود بھی آ جاتا ہے۔ تو بہرحال یہ تو ہم پڑھتے ہیں اور اس کو پڑھتے رہنا چاہئے۔ مَیں نے جوبلی کی دعاؤں میں جو شامل کروائی تھیں اس میں ایک درُود یہ بھی تھا۔ اس کو بند نہیں ہونا چاہئے، ہمیشہ جاری رہنا چاہئے کیونکہ درود شریف اور یہ جودعا ہے، اللہ تعالیٰ کی جو تحمید اور تسبیح ہے یہ دل کی پاکیزگی کے لئے بہت ضروری ہے اور اللہ تعالیٰ کی محبت کو حاصل کرنے کے لئے بہت ضروری ہے۔ اور اس زمانے میں جو لہو ولعب کا زمانہ ہے ہمیں بہت زیادہ دعاؤں کی ضرورت ہے تا کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مشن کو جاری رکھنے والے بن سکیں۔ اور وہ اسی وقت ہو گا جب ہمارے دل بھی اس نور سے منور ہوں گے۔ اور اسی سے پھر اللہ تعالیٰ کے فضل کو ہم جذب کرنے والے ہوں گے۔ پس درُود اور عبادات سے ہمیں اپنی زندگیوں کو سجانا چاہئے۔
پھر آپؑ کے ماننے والوں کے نورانی ہونے کے بارہ میں اللہ تعالیٰ غیروں کو کس طرح بتاتا ہے۔ لیکن بعض بد قسمت ایسے ہیں کہ باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ اطلاع دے دے پھر بھی اس سے فیض نہیں پا سکتے۔
حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ فرماتے ہیں کہ میری برادری میں سے میرا ایک چچا زاد بھائی میاں غلام احمد تھے ان کی کچھ جائیداد موضوع لنگہ ضلع گجرات میں بھی تھی۔ ایک مرتبہ انہوں نے مجھے ایک تحریر کے کام کے لئے فرمائش کی جس کی تعمیل کے لئے میں ان کے ہمراہ موضع لنگہ چلا آیا۔ گرمیوں کا موسم تھا اس لئے مَیں دوپہر کا وقت اکثر ان کے دالان کے پیچھے ایک کوٹھڑی میں گزارا کرتا تھا۔ ایک دن حسب معمول میں دوپہر کو اس کوٹھڑی میں سو رہا تھا میری آنکھ کھلی تو مَیں نے سنا کہ غلام احمد کی خالہ اور والدہ کہہ رہی تھیں کہ اس رسولے (یعنی حضرت مولوی غلام رسول صاحب) کا ہمیں بڑا افسوس ہے کہ گاؤں گاؤں اور گھر گھر میں لوگ اس کی برائی کرتے ہیں۔ اس نے تو مرزائی ہو کر ہمارے خاندان کی ناک کاٹ دی ہے۔ اتفاق کی بات ہے کہ اس رو ز برابر کی کوٹھڑی میں بھائی غلام احمد بھی سویا ہوا تھا۔ اس نے بیدار ہوتے ہی ان کی یہ مغلظات سنیں تو کہنے لگا تم کیا بکواس کر رہی ہو۔ مَیں نے تو ابھی ابھی خواب میں دیکھا ہے کہ غلام رسول پرآسمان سے اتنا نور برس رہا ہے کہ اس نے چاروں طرف سے اس کو گھیر لیا ہے۔ تمہیں کیا معلوم ہے کہ تم جسے برا سمجھتی ہو وہ خدا کے نزدیک برا نہ ہو۔ اتنے میں مَیں بھی کوٹھڑی سے باہر نکل آیا اور ان کو احمدیت کے متعلق سمجھاتا رہا مگر ان پر کوئی اثر نہ ہوا۔ بلکہ یہی میاں غلام احمد جس پر اللہ تعالیٰ نے رؤیاکے ذریعہ سے اتمام حجت کر دی تھی، میرا اتنا مخالف اور دشمن ہو گیا کہ علماء کو بلاکر بھی احمدیت پر حملے کراتا اور مجھے ذلیل کرنے کی کوشش میں لگا رہتا تھا۔ آخر میرے مولاکریم نے میری نصرت کے لئے موضع راجیکی میں طاعون کا عذاب مسلط کیا اور غلام احمد اور اس کے ہمنواؤں کا صفایا کر دیا۔ (ماخوذ از حیات قدسی جلد اول صفحہ 39 مطبوعہ ربوہ)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
‘’آپ یاد رکھیں اور ہمارا مذہب یہی ہے کہ کسی شخص پر خدا کا نور نہیں چمک سکتا، جب تک آسمان سے وہ نور نازل نہ ہو۔ یہ سچی بات ہے کہ فضل آسمان سے آتا ہے۔ جب تک خدا خود اپنی روشنی اپنے طلبگار پر ظاہر نہ کرے اس کی رفتار ایک کیڑے کی مانند ہوتی ہے اور ہونی چاہئے، کیونکہ وہ قسم قسم کی ظلمتوں اور تاریکیوں اور راستہ کی مشکلات میں پھنسا ہوا ہوتا ہے، لیکن جب اس کی روشنی اس پر چمکتی ہے، تو اس کا دل و دماغ روشن ہو جاتا ہے اور وہ نور سے معمور ہو کر برق کی رفتار سے خدا کی طرف چلتا ہے‘‘۔
(ملفوظات جلد اول صفحہ 464 جدید ایڈیشن)
پس اللہ تعالیٰ کا نور اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے پیاروں سے محبت کرنے سے آتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اپنے فضل سے وہ نور عطا فرمائے جو اس کا حقیقی نور ہے۔ جو اس کے پیاروں سے محبت کرنے سے ملتا ہے۔ جس کو حاصل کرنے کے طریقے اس زمانے کے امام نے نور محمدی سے حصہ پا کر ہمیں سکھائے۔ ہم دنیا کی لغویات میں پڑنے کی بجائے اپنے خدا سے اس نور کے ہمیشہ طلبگار رہیں اور ان لوگوں میں شمار ہوں جو ہمیشہ یہ دعا کرتے رہے ہیں کہ

رَبَّنَااَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَاوَاغْفِرْلَنَا۔ اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْء قَدِیْرٌ (التحریم:9)

کہ اے ہمارے ربّ! ہمارے لئے ہمارے نور کو مکمل کر دے اور ہمیں بخش دے۔ یقیناً تو ہر چیز پرجسے تو چاہے دائمی قدرت رکھتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اس دنیا میں بھی اس دعا کے اثرات دکھائے اور مرنے کے بعد بھی ہمارے لئے یہ نور دائمی بن کر ہمارے ساتھ رہے۔ آمین

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں