خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 12؍ فروری 2010ء

صحابہ حضرت مسیح موعود ؑ کے ایمان افروز واقعات
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 12؍ فروری 2010ء بمقام مسجد بیت الفتوح، لند ن (برطانیہ)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں ۔ چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

آج مَیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے بعض صحابہؓ کے ایسے ایمان افروز واقعات آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں جس سے پتہ لگتا ہے کہ کس طرح وہ یقین پر قائم تھے، اللہ تعالیٰ کی ذات پر ان کو یقین تھا۔ اور کیسا ان کا توکّل تھا اور کیسی اللہ تعالیٰ کے ساتھ ان کی محبت تھی اور پھر اللہ تعالیٰ بھی ان کے لئے غیرت کے کیسے عجیب نمونے دکھاتا رہا ،ان کا اظہار فرماتا رہا۔
پہلا واقعہ تویہ ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ بیان فرماتے ہیں کہ وہاں ( یعنی کشمیر میں) ایک بوڑھے آدمی تھے انہوں نے بہت سے علوم و فنون کی حدود یعنی تعریفیں یاد کر رکھی تھیں۔ اور بڑے بڑے عالموں سے کسی علم کی تعریف دریافت کرتے۔ وہ جو کچھ بھی بیان کرتے یہ جو عالم صاحب تھے ،یہ اس میں کوئی نہ کوئی نقص نکال دیتے۔ کیونکہ ان کو ہر چیز کی تعریف کے پختہ الفاظ یاد تھے۔ اس طرح ہر شخص پر اپنا رعب بٹھانے کی کوشش کرتے تھے ۔حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ فرماتے ہیں کہ ایک دن سرِدربار مجھ سے دریافت کیا (راجہ کے دربار میں) کہ مولوی صاحب! حکمت کس کو کہتے ہیں؟ اس نے اپنی طرف سے ایساسوال کیا کہ کوئی تعریف بتائیں گے تو مَیں غلطی نکالوں گا۔ تو حضرت خلیفہ اولؓ کہتے ہیں کہ مَیں نے کہا کہ شرک سے لے کر عام بداخلاقی سے بچنے کا نام حکمت ہے۔ وہ حیرت سے دریافت کرنے لگے کہ یہ تعریف حکمت کی کہاں لکھی ہے؟ تو خلیفہ اوّلؓ فرماتے ہیں کہ میرے پاس دہلی کے حکیم تھے جو حافظ بھی تھے، بیٹھے ہوئے تھے۔ مَیں نے انہیں کہا کہ ان کو سورة بنی اسرائیل کے چوتھے رکوع کا ترجمہ سنا دوجس میں آتا ہے کہ ذٰلِکَ مِمَّاۤ اَوۡحٰۤی اِلَیۡکَ رَبُّکَ مِنَ الۡحِکۡمَۃِ (بنی اسرائیل:40) پھر تو وہ بہت حیرت زدہ ہوئے۔(ماخوذاز حیات نورباب سوم ۔ صفحہ 174) (ماخوذ از مرقاة الیقین صفحہ 253,254مطبوعہ ربوہ)
یہ چوتھا رکوع 32 آیت سے لے کر41آیت تک ہے۔ اس میں مختلف باتیں بیان کرکے اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ یہ سب برائیاں ہیں اور ان سے بچنا حکمت ہے۔ یہ تو علماء کو چیلنج کیا کرتے تھے لیکن اس قسم کے علماء ہر زمانے میں پائے جاتے ہیں جن کا مقصد علم پھیلانا نہیں ہوتا بلکہ اپنی علمیت کا رعب ڈالنا ہوتا ہے۔ تقویٰ سے عاری ہوتے ہیں۔ آجکل کے علماء کا بھی یہ حال ہے۔ اُس زمانہ میں بھی تھا کہ دوسروں پر اپنا علمیت کا رعب ڈالا جائے۔
آج کل مختلف ٹی وی چینلز آتے ہیں۔ اور ان میں یہ لوگ نظر آتے ہیں ۔ اس حوالہ سے مَیں سب احمدیوں سے اور خاص طور پر نوجوانوں سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آج کل جو مختلف ٹی وی پروگرام آرہے ہیں ان کے حوالوں سے متأثر نہ ہو جایا کریں۔ مثلاً پچھلے دنوں میں پاکستان میں ایک ٹی وی چینل پرایک عالم نے نوجوانوں کو اپنے ساتھ لگانے کے لئے ،اپنی طرف کھینچنے کے لئے ایک یہ شوشہ چھوڑا کہ قرآن کریم میں کہیں نہیں لکھا ہوا کہ عورتوں کے لئے پردہ ضروری ہے، یہ تو صرف نبی کی بیویوں کے لئے تھا۔ حالانکہ قرآن کریم میں سورة احزاب میں جہاں نبی کی بیویوں کے لئے حکم ہے وہاں عام مومنوں کے لئے بھی حکم ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ قُلۡ لِّاَزۡوَاجِکَ وَ بَنٰتِکَ وَ نِسَآءِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ یُدۡنِیۡنَ عَلَیۡہِنَّ مِنۡ جَلَابِیۡبِہِنَّ (الاحزاب:60) کہ اے نبی اپنی بیویوں اور اپنی بیٹیوں اور مومنوں کی بیویوں سے کہہ دے کہ جب وہ باہر نکلا کریں تو اپنی چادر سروں پر گھسیٹ کر اپنے سینوں تک لے آیا کریں۔ اب اس میں بھی بعض لوگوں نے تاویلیں نکالنی شروع کر دی ہیں کہ چادر سروں سے گھسیٹ کر سینوں پہ لانے کا مطلب یہ ہے کہ اگر سر ننگا بھی ہو جائے تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اور اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ عموماً مسلمان ملکوں میں اب نہ سر کا پردہ رہا ہے نہ ہی باقی جسم کا پردہ رہا ہے ۔ اس کی وجہ سے یہاں یورپ میں تو ایک ردّعمل ہے جو پردہ کے خلاف بعض جگہ مہم کی صورت میں ظاہر ہوتاہے ۔اور یہی عالم صاحب جو ہیں ،مَیں نے خود تو ان کا پروگرام نہیں سنا لیکن مَیں نے سنا ہے کہ انہوں نے ایک یہ بھی شوشہ چھوڑا ہے کہ قرآن کریم سے کہیں ثابت نہیں ہوتا کہ اب خلافت کی ضرورت ہے یا یہ کہ خلافت قائم رہے گی۔ ہاں بلاشبہ ان لوگوں کے لئے تو نہیں ہے کیونکہ جو لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کو ماننے والے نہیں ہیں، زمانہ کے امام کو ماننے والے نہیں ہیں، نہ ان میں خلافت قائم ہو سکتی ہے اور نہ ہی ان کو وہ برکات حاصل ہو سکتی ہیں جو اس سے وابستہ ہیں۔بہرحال یہ تو ضمناً ایک ذکر آ گیا۔
اگلا واقعہ بھی حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کا ہی ہے ۔عبدالقادر صاحب سابق سودا گر مل نے بیان کیا ہے کہ ایک مرتبہ آپ کہیں لاہور تشریف لائے۔ (یہ پہلے کی بات ہے) ڈاکٹر محمد اقبال صاحب ان دنوں گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھتے تھے۔ کالج کے پروفیسر مسٹر آرنلڈ صاحب نے کہا کہ تثلیث کا مسئلہ کسی ایشیائی دماغ میں آہی نہیں سکتا۔( یعنی یہ عیسائیوں کا مسئلہ ہے یہ تو کسی ایشیائی دماغ میں نہیں آ سکتا)۔ تو ڈاکٹر صاحب موصوف جوعلامہ اقبال کہلائے ، وہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی خدمت میں آئے اور پروفیسر کی یہ بات بتائی۔ اورعرض کی کہ مَیں اس کا جواب کیا دوں؟ تو آپؓ نے فرمایا کہ پروفیسر صاحب کو جا کر کہیں کہ اگر آپ کا یہ دعویٰ صحیح ہے تو حضرت مسیحؑ اور آپ کے حواری بھی اس مسئلے کو نہیں سمجھے ہوں گے کیونکہ وہ بھی ایشیائی تھے۔ یہ جواب سن کر پروفیسر صاحب ایسے خاموش ہوئے کہ گویا انہوں نے کبھی یہ دعویٰ کیا ہی نہیں ۔ پھر آگے لکھا ہے کہ سنا گیاہے کہ یورپ میں بھی ایک کانفرنس میں انہوں نے یہ اعتراض پیش کیا مگر وہاں سے بھی انہیں کوئی تسلی بخش جواب نہیں ملا۔ (حیات نور از عبدالقادر (سابق سوداگر مل) صفحہ 107-106)
پھر ایک واقعہ حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا حضرت مسیح موعودؑ کے عہد مبارک میں جبکہ پنجاب کے مختلف علاقوں میں طاعون کے حملے ہو رہے تھے مَیں تبلیغ کی غرض سے موضع گوٹریالہ تحصیل کھاریاں ضلع گجرات گیا اور وہاں ایک مخلص احمدی چوہدری سلطان عالم صاحب کے پاس چند دن رہا۔دوران قیام میں ہر رات مَیں ان کے مکان کی چھت پر چڑھ کر تقریریں کرتا رہا اور لوگوں کو احمدیت کے متعلق سمجھاتا رہا۔ چونکہ ان تقریروں میں اُن لوگوں کو طاعون وغیرہ کے عذابوں سے بھی ڈراتا رہا۔ اس لئے ایک دن صبح کے وقت اس گاؤں کے کچھ افراد میرے پاس آئے اور کہنے لگے آپ نے اپنی تقریروں میں مرزا صاحب کے نہ ماننے والوں کو طاعون وغیرہ سے بہت ڈرایا ہے۔ مگر آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ موضع گوٹریالہ بہت بلندی پر واقع ہے اور پھر اس کی فضا اور آب و ہوا اتنی عمدہ ہے کہ یہاں وبائی جراثیم پہنچ ہی نہیں سکتے۔ تو مولوی صاحب کہتے ہیں مَیں نے ان کو کہا کہ یہ تو بالکل درست ہے ۔مگر آپ لوگ یہ بتائیں کہ مجھ سے پہلے کبھی کوئی احمدی مبلغ اس گاؤں میں آیا ہے جس نے آپ کو سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی تبلیغ کی ہو؟۔ گاؤں والوں نے کہا نہیں پہلے تو کوئی نہیں آیا۔ تو مولوی صاحب کہتے ہیں مَیں نے کہا یہی وجہ ہے کہ آپ کا گاؤں ابھی تک محفوظ ہے۔ اب میری تبلیغ اور آپ لوگوں کے انکار کے بعد بھی اگر یہ گاؤں خداتعالیٰ کے عذاب سے محفوظ رہا تو پھر مَیں سمجھوں گا کہ واقعی اس گاؤں کی عمدہ فضا خداتعالیٰ کے ارشاد وَ مَا کُنَّا مُعَذِّبِیۡنَ حَتّٰی نَبۡعَثَ رَسُوۡلًا (بنی اسرائیل:16) کی وعید کو روک سکتی ہے۔ (یعنی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم ہرگزعذاب نہیں بھیجتے جب تک کسی بستی میں رسول نہ بھیج دیں)۔ تو کہتے ہیں کہ خداتعالیٰ کی حکمت ہے کہ مَیں تو ان لوگوں کو یہ بات کہہ کر چلا آیا لیکن چند دن بعد ہی اس گاؤں میں چوہے مرنے شروع ہو گئے۔ پھر طاعون نے ایسا شدید حملہ کیا کہ اس گاؤں کے اکثر محلّے موت نے خالی کر دئیے اور کئی لوگ بھاگ کر دوسرے دیہات میں چلے گئے۔ (ماخوذ ازحیات قدسی از حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی صفحہ 136)
تو اللہ تعالیٰ کے عذاب کے بھی مختلف طریقے ہیں۔ طاعون تو ایک ایسا عذاب تھا جس کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے پہلے خبر دی تھی ۔ پھر آپ نے اپنا ایک نشان زلزلوں کا بھی بتایا۔ آج بھی دنیا میں مختلف شکلوں میں عذاب آ رہے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی نہ پہچان کرنا چاہتے ہیں، نہ زمانہ کے امام کی پہچان کرنا چاہتے ہیں۔ نہ دنیا حضرت محمد رسول اللہﷺ کی پہچان کرنا چاہتی ہے بلکہ حسّ ہی مر گئی ہے۔دنیا میں ہر جگہ تباہی پر تباہی آ رہی ہے۔ لیکن بالکل اس بارہ میں سوچنے کی طرف توجہ ہی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی ہے جو ان کو عقل دے اور دنیا کو ہر قسم کی آفات سے محفوظ رکھے۔
پھر ملک صلاح الدین صاحب مولانا بقا پوری صاحب جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے صحابی تھے کے بارہ میں اپنی روایت میں لکھتے ہیں کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے سندھ کے علاقہ میں تبلیغی مشن قائم فرمایا۔ مولانا بقا پوری صاحب کو اس علاقہ میں امیر التبلیغ مقرر فرمایا۔ اس وقت سنجوگی قوم میں جو سندھ میں ایک لاکھ کے قریب ہے آریہ قوم نے ملکانوں کی طرح ارتداد کا جال پھیلا دیا تھا۔ مولانا صاحب محنت کرکے چند ماہ میں سندھی کی چند کتابیں پڑھ کر تقریر کرنے کے قابل ہو گئے۔ (اب یہ بھی اس زمانہ میں ان لوگوں کی بڑی ہمت اور محنت اور شوق تھا کہ چند مہینے میں سندھی زبان بھی سیکھ لی اور تقریر کرنے کے قابل بھی ہو گئے۔) اور اولاً سب علاقہ میں آریہ سماجیوں کاکامیابی سے مقابلہ کیا۔ جس جگہ یہ لوگ سادہ لوح سندھیوں کوورغلا کر ارتداد پر آمادہ کرتے مولانا صاحب وہاں پہنچ کر انہیں اسلام پر پختہ کرتے۔ اس طرح شب و روز کی ایک لمبی جدوجہد کا نتیجہ یہ ہوا کہ سات آٹھ ماہ میں ہی سنجوگی قوم جو تھی اس سے آریہ سماج مایوس ہو گئے اور ارتداد کی یہ آگ بھی سرد ہو گئی۔
لیکن پھر دوسرے سال یہ واقعہ ہوا کہ 1924ء میں علماء،امراء، فقراء یہ تینوں مل کر مولوی صاحب کے مقابلے پر کھڑے ہو گئے اور جا بجا مباحثات شرو ع ہو گئے اور مولانا بقاپوری صاحب اکیلے ہوتے تھے اور غیر احمدی علماء کافی تعداد میں آتے تھے۔ بعض دفعہ کہتے ہیں کہ درجن تک ہو جاتے تھے مگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیشہ آپ ہی کو غلبہ ہوتا۔ نتیجتاً احمدیت کی طرف لوگوں کی توجہ اور بڑھتی گئی۔…… اس وجہ سے سندھ میں بعض مقامات پر جماعتیں بھی قائم ہو گئیں۔ پھر مزید لوگ باتیں سننے لگے۔ دلچسپی پیدا ہوئی تو علماء پر بھی رعب پڑ گیا اور مولوی بقا پوری کا نام لے کر کہتے تھے کہ ہم ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے اور اس سے جوشریف لوگ تھے ان کی مزید توجہ پیدا ہوئی۔ بہت سے افراد کو اللہ تعالیٰ نے احمدیت قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ 1928ء میں (باوجود علالت کے وہ مختلف شہروں میں جا کے تبلیغ کر رہے تھے تو اس وقت سندھی احمدیوں کی صرف ایک جماعت تھی جودو چار خاندانوں پر مشتمل تھی لیکن اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے 50جماعتیں وہاں قائم ہو گئیں۔) مولانا بشارت بشیر صاحب بھی لکھتے ہیں کہ سنجوگی قوم نے قبول اسلام کے بعد غیر مسلم اقارب سے رشتے ناطے جاری رکھے اور یہی وجہ ان کے ایمان کی کمزوری کی ہو ئی۔ بعد میں پھر آہستہ آہستہ وہ احمدیت سے بھی اور اسلام سے بھی دور ہٹتے چلے گئے۔
پس آج بھی احمدیوں کویہ یاد رکھنا چاہئے کہ بعض لوگ بے احتیاطی کرتے ہیں، جذباتی فیصلے ہو رہے ہوتے ہیں۔ غیروں میں شادیاں ہو رہی ہوتی ہیں جس سے پھر آئندہ نسلیں تباہ ہو رہی ہوتی ہیں اور آہستہ آہستہ پورا خاندان دین سے ہٹ جاتا ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ مولانا صاحب کو علم ہوا کہ لاڑکانہ کے قریب ایک شہر میں شدھی ہونے والی ہے۔ تو آپ وہاں پہنچے اور مسلمان حافظ گوکل چند نامی کو جو رئیس اور وہاں کے مسلمان نمبر دار تھے ،انہیں سمجھایا ۔کہنے لگے مولویوں نے ہماری مدد نہیں کی ۔ اب ہندوؤں سے عہد ہو چکا ہے پرسوں سارا شہر جو ہے وہ ہندو ہو جائے گا۔ پھر انہوں نے مولوی صاحب کو کھانے کے لئے کہا تو آپ نے کھانے سے انکار کر دیا اور کہا مَیں تمہاری روٹی ہرگز نہیں کھاؤں گا اور ساتھ ہی زار زار رونا شروع کر دیا۔ اس سے لوگ بہت متاثر ہوئے۔ پھر باتیں کرنے لگے۔ آپ کو کھانا کھانے کو کہا آپ نے پھر انکار کر دیا اور آنسو جاری رہے۔ تو رئیس نے کہا کہ عہد توڑنا تو جرم ہے، گناہ ہے ۔مولوی صاحب نے کہا کہ ایمان سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہو سکتی۔ تو یہ بات اس کی سمجھ میں آ گئی اور اس نے کہا کہ ہم ہرگز شدھ نہیں ہوں گے اور ہم خط بھجوا دیتے ہیں کہ وہ ہرگز نہ آئیں۔ مولوی صاحب نے کہا کہ پہلے آپ خط لکھیں۔ پھر مَیں کھانا کھاؤں گا۔ چنانچہ آپ نے خط لکھوایا کہ اسلام ایک زندہ مذہب ہے اور ہم تمہیں بھی اس کے قبول کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ ہم میں سے کوئی بھی اپنا مذہب نہیں چھوڑے گا اور اگر کسی نے دوبارہ آنے کی کوشش کی تو بہت ذلیل ہو گا ۔اس کے بعد پھرآپ نے کھانا کھایا اور آریہ وہاں بھی ناکام ہوئے اور بڑے تلملائے۔ (ماخوذ از اصحاب احمد جلد 10صفحہ234تا236)
سید سرور شاہ صاحبؓ کے بارہ میں ایک روایت ہے کہ حضرت مولوی صاحب کا علم جس اعلیٰ پایہ کا تھا اور علماء ہم عصر پر جو اثر تھا وہ ذیل کے واقعہ سے ظاہر ہوتا ہے۔ (حضرت سرور شاہ صاحبؓ بڑے لمبے عرصہ تک مفتی سلسلہ بھی رہے ہیں۔) سید صاحب علاج کے لئے ہری پور میں مقیم تھے کہ ہسپتال کے قریب ایک پہلوان سے آپ نے دریافت کیا کہ یہ سامنے مولوی صاحب کون ہیں۔(آپ کو کوئی مولوی صاحب نظر آئے ہوں گے)۔ اس نے کہا کہ کوٹ نجیب اللہ کے مولوی منہاج الدین ہیں جو اپنے آپ کو رئیس المناظرین کہتے ہیں اور آپ سے مباحثہ کرنا چاہتے ہیں۔( انہوں نے سنا کہ مولوی صاحب یہاں آئے ہوئے ہیں اور بڑے عالم ہیں تو انہوں نے غیر احمدی مولوی سے کہا کہ اچھا مَیں تو بہت بڑا مناظر ہوں۔ تو مَیں مباحثہ کروں گا۔) آپ کے دریافت کرنے پر اس نے کہا کہ نئی بات جو آپ نے اختیار کر لی ہے اس کے متعلق یعنی احمدیت کے بارہ میں کل اس مقام پر اسی وقت 10بجے مباحثہ ہو گا۔ چنانچہ آپ اگلے روز انتظار کرتے رہے اور مخالف مولوی نہ آئے۔ (یہ بھی بڑا دلچسپ واقعہ ہے۔) ہری پور بازار کے آخری سرے کے آگے کچھ حصہ خالی ہے۔ پھر سکندر پور بازار شروع ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں ہری پور بازار کی طرف آپ روانہ ہوئے اور وسط میں پہنچ کر دیکھا کہ مولوی صاحب اور اس کے ساتھی آ رہے ہیں لیکن آپ کو دیکھتے ہی واپس مڑے اور بھاگنا شروع کر دیا ۔یعنی اس غیر احمدی مولوی نے بھاگنا شروع کر دیا۔تو مولوی صاحب بیان کرتے ہیں کہ مَیں بھی ان کے پیچھے دوڑا۔ میرا خیال تھا کہ جامعہ مسجد میں پہنچے ہوں گے لیکن وہاں سے پتہ لگا کہ وہ ادھر نہیں آئے۔ چنانچہ مَیں دوسری طرف گیا تو دیکھا کہ مولوی صاحب ایک کیچڑ والے نالے میں سے گزر کر پار باغ کی طرف جا رہے ہیں۔ وہ پہلوان جو تھا وہ اس کنارے پر کھڑا بڑے زور سے ہنس رہا تھا۔ اتنا ہنس رہا تھا کہ ہنس ہنس کے اس کی آنکھوں سے آنسو آ گئے۔ تو اس نے بتایا کہ یہ مولوی منہاج الدین صاحب کل فلاں مولوی صاحب کے پاس سکندر پور گئے اور ان سے کتابیں لے کر مباحثہ کے لئے تیاری کرنے لگے اور ساری رات کتابیں پڑھتے رہے۔ صبح مولوی صاحب ( یعنی جودوسرے غیر احمدی مولوی صاحب تھے) فجر کے لئے آئے تو دریافت کیا کہ آپ کیا کر رہے ہیں کہ آپ ساری رات نہیں سوئے۔ انہو ں نے کہا مولوی سرور شاہ صاحب کے ساتھ مباحثہ کرنے کے لئے حوالے تلاش کر تا رہا ہوں۔ لیکن جس تفسیر کو دیکھتا ہوں اس میں حضرت عیسیٰؑ کی زندگی اور وفات دونوں کا ذکر پایا جاتا ہے۔ اس لئے کوئی قاطع دلیل (کوئی اچھی دلیل جو منہ بند کرانے والی ہو) وہ نہیں مل رہی۔ تو سکندرپور والے مولوی صاحب استاذ الکُل تھے انہوں نے مباحثہ کے لئے تیاری کرنے والے مولوی کو کہا کہ مولوی سرور شاہ صاحب کے احمدی ہونے کی وجہ سے مجھے آپ سے زیادہ صدمہ ہوا ہے اور مجھے بھی ان لوگوں نے ان کے ساتھ مباحثہ کرنے کے لئے آمادہ کیا ہے لیکن مَیں نے اس امر سے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے اس لئے کہ مولوی صاحب سارے ضلع کو آگے لگا لینے والے ہیں ان سے مباحثہ کرنے کا نتیجہ یہ ہو گا کہ تمام ضلع کے علماء ان کے آگے آگے بھاگنے لگیں گے اور ان سے جتنی زیادہ باتیں کی جائیں گی اتنا ہی زیادہ نقصان ہو گا اور علماء کی مٹی پلید ہو گی۔ سو پہلوان نے کہا کہ اسی وجہ سے مولوی صاحب مباحثہ کے لئے آپ کے پاس نہیں آئے اور اب آپ کو دیکھ کر بھاگ گئے ہیں۔ (ماخوذ از اصحاب احمد جلد پنجم صفحہ 45-44)
آج بھی علماء کایہی حال ہے۔ دعوے بڑے کرتے ہیں۔ ٹی وی پر بھی آتے ہیں لیکن جب پیغام بھیجو کہ ٹھیک ہے ہمارے سے اپنے ٹی وی چینل پہ یا ہمارے پہ ایک مناظرہ کر لو تو کوئی جواب ہی نہیں دیا جاتا۔ یہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کا جوالہام ہے۔ نُصِرْتَ بِالرُّعْبِ (تذکرہ صفحہ 53 ایڈیشن چہارم 2004ء مطبوعہ ربوہ) اس کا اللہ تعالیٰ آپ کے ماننے والوں کے ذریعہ بھی لوگوں پر اثر دکھارہا ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ حضرت حافظ ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحب کے بارہ میں فرماتے ہیں کہ قادیان میں ایک دفعہ پادری زویمر آیا۔ یہ دنیا کا مشہور ترین پادری اور امریکہ کا رہنے والا تھا۔ وہ وہاں کہیں بہت بڑے تبلیغی رسالہ کا ایڈیٹر تھا اور یوں بھی ساری دنیا کی عیسائی تبلیغی سوسائٹیوں میں ایک نمایاں مقام رکھتا تھا۔ اس نے قادیان کا بھی ذکر سنا ہوا تھا۔ جب وہ ہندوستان میں آیا تو اور مقامات دیکھنے کے بعد وہ قادیان آیا۔ اس کے ساتھ ایک اور پادری گارڈن (یا گورڈن) نامی بھی تھا۔ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحب مرحوم اس وقت زندہ تھے۔ انہوں نے اسےقادیان کے تمام مقامات دکھائے مگر پادری آخر پادری ہوتے ہیں وہ بھی طنزیہ بات کرنے سے نہیں رہ سکا۔ ان دنوں قادیان میں ابھی ٹاؤن کمیٹی وغیرہ نہیں تھی اور ویسے بھی ہمارے ہندو پاکستان کے چھوٹے گاؤں اور قصبے جو ہیں وہاں گلیوں میں بعض دفعہ بلکہ اکثر گندنظر آتا ہے۔ یعنی گلیوں میں بہت گند پڑا رہتا تھا۔ پادری زویمر باتوں باتوں میں ہنس کر کہنے لگا کہ ہم نے قادیان بھی دیکھ لیا اور نئے مسیح کے گاؤں کی صفائی بھی دیکھ لی۔ ڈاکٹر خلیفہ رشیدا لدین صاحب اسے ہنس کے کہنے لگے پادری صاحب! ابھی پہلے مسیح کی ہی ہندوستان پر حکومت ہے اور یہ اس کی صفائی کا نمونہ ہے۔ نئے مسیح کی حکومت ابھی قائم نہیں ہوئی ۔اس پر وہ بہت شرمندہ ہوا۔ (ماخوذ از تفسیر کبیر جلد ہفتم صفحہ 89مطبوعہ ربوہ)
پیرسراج الحق صاحبؓ نعمانی حضرت منشی ظفر احمدؓ صاحب کپورتھلوی کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ منشی ظفر احمد صاحب ساکن کپور تھلہ اور ایک شاگرد یا مرید مولوی رشیداحمد گنگوہی میں حضرت مسیح ابن مریم علیہ السلام کی وفات و حیات کے متعلق گفتگو ہوئی۔ اس گفتگو میں تو مولوی صاحب کا مرید ناکام رہا کہ حیات مسیح علیہ السلام ثابت کر سکے۔ مگر گفتگو اس پرآٹھہری کہ اتنی لمبی عمر کسی انسان کی پہلے ہوئی ہے؟ یعنی 120 سال۔ اور اب ہو سکتی ہے کہ نہیں۔ اس میں بھی وہ لاجواب رہا۔ انہوں نے دلیلیں دیں ۔ آخر کار اس نے ایک خط مولوی رشید احمدصاحب کو لکھا۔ مولوی صاحب نے اس کے جواب میں لکھا کہ ہاں اتنی لمبی عمر ،120سال ہی نہیں بلکہ اس سے زیادہ عمر بھی ہو سکتی ہے۔ بلکہ عیسیٰ تو دوہزار سال سے آسمان پر بیٹھے ہیں ۔( مولوی صاحب کی دلیل ذرا سنیں کہ) دیکھو حضرت آدم کے وقت سے شیطان اب تک زندہ چلا آ تا ہے اور کتنے ہزار برس ہو گئے۔ اس کے جواب میں منشی ظفر احمدصاحب نے فرمایا کہ ذکر تو انسانوں کی عمر کا تھا نہ کہ شیطان کا۔ کیا نعوذ باللہ حضرت مسیح شیطانوں میں سے تھے جو شیطانوں کی عمر کی مثال دی ہے اور یہ بھی ایک دعویٰ ہے۔ یہ تمہارا دعویٰ ہے۔ مولوی رشید احمد صاحب دعویٰ اور دلیل میں فرق نہیں سمجھتے تھے۔(ایک د عویٰ ہوتا ہے ایک د عویٰ کے بعد اس کی سچائی کے لئے دلیل دی جاتی ہے۔) تو دعویٰ اور دلیل میں فرق ہے۔ کہتے ہیں مولوی صاحب دعویٰ اور دلیل کا فرق نہیں سمجھتے تھے کہ اس پر کیا دلیل دی ہے کہ وہی شیطان آدم والا اب تک زندہ ہے اور اس کی اتنی بڑی لمبی عمر ہے۔ منشی صاحب موصوف کے اس جواب کو سن کرمولوی رشید صاحب کو ان کے مرید نے پھر ایک خط لکھا کہ مولوی صاحب یعنی منشی ظفر احمد صاحب یہ جواب دے رہے ہیں۔ تو مولوی رشید صاحب نے ان کو (اپنے مرید کو) جواب دیا کہ تمہارا مقابل مرزائی ہے اس سے کہہ دو کہ ہم مرزائی سے کلام نہیں کرتے اور تم بھی مت ملو۔ (ماخوذ از اصحاب احمد جلد چہارم صفحہ 50 ۔ مطبوعہ قادیان)
تو یہ توہے نام نہاد علماء کا قصہ۔ آج بھی پہلے بھی اورکل بھی رہے گا ۔
حافظ ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحبؓ کے متعلق بیان کیا جاتا ہے۔روایت ہے کہ ڈاکٹر صاحب رام پور کے دربار میں داخل ہو کر بلند آواز سے السلام علیکم کہتے جو کہ آداب دربار کے خلاف تھا کہ اتنی اونچی آواز میں السلام علیکم کہا جائے۔ اس طرح آپ نواب صاحب کے آگے تعظیم کے لئے جھکتے بھی نہیں تھے۔ درباری لوگوں کا یہ رواج تھا کہ جب کوئی دربار میں داخل ہوتو بڑے ادب سے داخل ہو اورآگے بڑا جھک کے اور بڑی آہستگی سے سلام کرو۔ جب ڈاکٹر صاحب کو تو جہ دلائی گئی تو انہوں نے فرمایا کہ مَیں سوائے خدا کے اور کسی کے سامنے نہیں جھکتا۔ نواب صاحب نے تبدیلی اور سخت اقدامات کی دھمکی دی کہ آپ کو تبدیل کر دوں گا اور بھی سخت اقدامات کروں گا۔ یہ ڈاکٹر تھے۔ سرکاری ملازم تھے۔ تو آپ نے فرمایا کہ میرے خدا کے ہاتھ میں آپ کی گردن ہے۔ جب چاہے آپ کو اس منصب سے ہٹا سکتا ہے اور نواب صاحب کے دربار میں اس کو چیلنج کر دیا اور تاریخ شاہد ہے کہ ایسا ہی ہوا۔ حضرت ڈاکٹر صاحب نے حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت اقدس میں دعا کے لئے عریضہ لکھا جس کے جواب میں حضرت اقدس نے تحریر فرمایا ’’محبی عزیزی ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحب سلمہ السلام علیکم ورحمة اللہ۔ آپ کا کارڈ پہنچا ۔مَیں انشاء اللہ آپ کے لئے دعا کروں گا۔ مگر آپ نہایت استقامت سے اپنے تئیں رکھیں۔ کم دلی ظاہر نہ ہو۔ خداتعالیٰ کا فضل ہر جگہ پر درکار ہے۔ مسافرت اور غربت میں دعا اور تضرع سے بہت کام لینا چاہئے‘‘۔ اور پھر اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰة والسلام کی دعا نے وہ اثر دکھایا کہ نواب رام پور کو انگریزی ریذیڈنٹ کی سفارش پر حکومت ہند نے دماغی مریض ثابت ہونے پر نااہل قرار دے دیا اور معزول کر دیا۔ جو شخص ڈاکٹر صاحب کی تبدیلی اور فراغت کی دھمکیاں دے رہا تھا باوجود صاحب اقتدار ہونے کے خود ہی بیچارہ معزول ہو گیا۔ ( ماخوذ از سیرت و سوانح حضرت حافظ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحبؓ مصنفہ حنیف احمد محمود صفحہ 70)
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک زمانہ میں مَیں لاہور کے سٹیشن پر شام کو اترا۔ بعض اسباب ایسے تھے کہ چینیاں والی مسجد میں گیا تو شام کی نماز کے لئے وضو کر رہا تھا کہ مولوی محمد حسین بٹالوی کے بھائی میاں علی محمد نے مجھ سے کہا کہ جب عمل قرآن مجید اور حدیث پر ہوتا ہے تو ناسخ و منسوخ کیا بات ہے۔
(غیر احمدیوں کا نظریہ ہے ناں کہ کچھ آیتیں منسوخ ہیں)۔ تو مَیں نے ان کو کہا یہ کچھ نہیں ہیں۔ وہ پڑھے ہوئے نہیں تھے گو میر ناصر کے استاد تھے۔ ان کا دینی علم ز یادہ نہیں تھا۔ انہوں نے اپنے بھائی سے ذکر کیا ہو گا۔ مولوی محمد حسین بٹالوی یہ ان دنوں جوان تھے اور بڑا جوش تھا۔ یہ خلیفہ اوّل کی بیعت سے پہلے کی بات ہے ۔تو کہتے ہیں مَیں نماز پڑھ رہا تھا اور وہ مولوی صاحب جوش سے ادھر ادھر ٹہل رہے تھے ۔جب مَیں نماز سے فارغ ہوا تو انہوں نے کہا ادھر آؤ تم نے میرے بھائی کو کہہ دیا کہ قرآن میں ناسخ و منسوخ نہیں ہیں۔ مَیں نے کہا ہاں نہیں ہیں۔ تب بڑے جوش سے کہا کہ تم نے ابو مسلم اصفہانی کی کتاب پڑھی ہے؟ وہ احمق بھی قائل نہ تھا۔ حضرت خلیفہ اوّلؓ کہتے ہیں مَیں نے کہا پھر تم ہم دو ہو گئے۔ پھر اس نے کہا کہ سید احمد کو جانتے ہو ؟ مراد آباد میں صدر الصدور ہے۔ مَیں نے جواب دیا کہ مَیں رام پور لکھنو اور بھوپال کے عالموں کو جانتا ہوں ان کو نہیں جانتا۔ اس پر کہا کہ وہ بھی قائل نہیں۔ تب مَیں نے کہا کہ بہت اچھا پھر ہم اب تین ہو گئے۔ پھر مولوی صاحب کہنے لگے کہ یہ سب بدعتی ہیں۔ امام شوکانی رحمة اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ جو نسخ کا قائل نہیں وہ بدعتی ہے۔ تو مَیں نے کہا تم دو ہو گئے۔ مَیں ناسخ و منسوخ کا ایک آسان فیصلہ آپ کو بتاتا ہوں،تم کوئی آیت پڑھ دو جو منسوخ ہو۔ اس کے ساتھ ہی میرے دل میں خیال آیا کہ اگر یہ ان پانچ آیتوں میں سے پڑھ دے تو کیا جواب دوں گا۔ خداتعالیٰ ہی سمجھائے تو بات بنے۔ فکر پیدا ہوئی ۔ (حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام سے ملنے سے پہلے کا قصہ ہے)۔ اس نے ایک آیت پڑھی مَیں نے کہا کہ فلاں کتاب میں جس کے تم بھی قائل ہو اس کا جواب دیا ہے۔ کہنے لگا ہاں۔ پھر مَیں نے کہا اور پڑھو تو خاموش ہی ہو گیا ۔علماء کو یہ وہم رہتا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ ہتک ہو۔ اس لئے اس نے یہی غنیمت سمجھا کہ چپ رہے۔ (ماخوذ ازمرقاة الیقین فی حیات نور الدین۔ مرتبہ ا کبر شاہ خان نجیب آبادی ۔صفحہ 126-125)
لیکن آج کل کے بیچارے علماء کا یہ حال نہیں۔ ڈھٹائی کی انتہا ہو ئی ہوتی ہے۔ ویسے بعد میں تو ان کا بھی یہی حال تھا۔ انہی مولوی محمد حسین بٹالوی کی آگے جاگ چل رہی ہے ۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ فرماتے ہیں کہ میرا خدا ہمیشہ میرا خزانچی رہا ہے۔ یہ توکّل کی بھی ایک مثال ہے کیونکہ میرا توکّل ہمیشہ خدا پر رہا ہے اور وہی قادر ہر وقت میری مدد کرتا رہا ہے۔ چنانچہ ایک وقت مدینہ میں میرے پاس کچھ نہ تھا حتیٰ کہ رات کو کھانے کے لئے بھی کچھ نہ تھا۔ جب نماز عشاء کے لئے وضو کرکے مسجد کو چلا۔ تو راستے میں ایک سپاہی نے مجھ سے کہا کہ ہمارا افسر آپ کو بلاتا ہے۔ مَیں نے نماز کا عذر کیا ،پر اس نے کہا مَیں نہیں جانتا مَیں تو سپاہی ہوں۔ حکم پر کام کرتا ہوں۔ آپ چلیں ورنہ مجھے مجبوراً لے جانا ہو گا۔ ناچار مَیں اس کے ہمراہ ہو گیا۔ وہ ایک مکان پر مجھے لے گیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک امیر افسر سامنے جلیبیوں کی بھری ہوئی رکابی رکھ کے بیٹھا ہے۔ اس نے مجھ سے پوچھا کہ اسے کیا کہتے ہیں ۔ مَیں نے کہا کہ ہمارے ملک میں اسے جلیبی کہتے ہیں۔ کہا کہ ایک ہندوستانی سے سن کر مَیں نے یہ بنوائی ہیں۔ خیال کیا کہ اس کو پہلے کسی ہندوستانی کو ہی کھلاؤں گا۔ چنانچہ مجھے آپ کا خیال آ گیا ۔اس لئے مَیں نے آپ کو بلوایا اب آپ آگے بڑھیں اور کھائیں۔مَیں نے کہا نماز کے لئے اذان ہو گئی ہے۔ فرصت سے نماز کے بعد کھاؤں گا۔ کہا مضائقہ نہیں۔ ہم ایک آدمی کو مسجد بھیج دیں گے کہ تکبیر ہوتے ہی آکر کہہ دے۔ خیر کھا کرمیرا پیٹ بھر گیا تو ملازم نے اطلاع دی کہ نماز تیار ہے اور تکبیر ہوچکی ہے ۔ تو اس طرح اللہ تعالیٰ نے کھانے کا انتظام کیا۔
پھر فرماتے ہیں کہ دوسری صبح ہی جب مَیں اپنا بستہ صاف کر رہا تھا اور اپنی کتابیں الٹ پلٹ کر رہا تھا تو ناگہاں ایک پاؤنڈ مل گیا ۔چونکہ مَیں نے کبھی کسی کا مال نہیں اٹھایا اور نہ کبھی مجھے کسی کا روپیہ دکھلائی دیا اورمَیں یہ خوب جانتا تھا کہ اس مقام پر مدت سے میرے سوا کوئی اور آدمی نہیں رہا اور نہ کوئی آیا۔ لہٰذا مَیں نے اسے خدائی عطیہ سمجھ کر لے لیا اور شکر کیا کہ بہت دنوں کے لئے یہ کام د ے گا۔ (ماخوذ از حیات نور صفحہ 516-515 ۔ جدید ایڈیشن ۔مطبوعہ ربوہ)
حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ فرماتے ہیں کہ ایک دن مَیں نے ابھی کھانا نہیں کھایا تھا۔ سبق کے انتظار میں بیٹھے بیٹھے کھانے کا وقت گزر گیا۔ (اس فکر میں تھے کہ کہیں میں چلا گیا توحضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کی کلاس نہ شروع ہو جائے ،آپ پڑھایا کرتے تھے)۔ حتیٰ کہ ہمارے حدیث کا سبق شروع ہو گیا۔ مَیں اپنی بھوک کی پرواہ نہ کرکے سبق میں مصروف ہو گیا اور کہتے ہیں کہ مَیں ابھی سبق پڑھنے والے طالب علم کی آواز سن رہا تھا اور سب کچھ دیکھ بھی رہا تھا کہ یکایک سبق کی آواز جو تھی مدھم ہو گئی اور میرے کان اور آنکھیں باوجود بیداری کے سننے اور دیکھنے سے رہ گئے۔ اس حالت میں میرے سامنے کسی نے تازہ بتازہ تیار ہوا ہوا کھانا رکھ دیا۔ گھی میں تلے ہوئے پراٹھے اور بھنا ہو ا گوشت تھا۔ مَیں نے خوب مزہ لے لے کر کھاناکھایا ۔جب مَیں سیر ہو گیا، پیٹ بھر گیا تو پھر میری یہ حالت منتقل ہو گئی۔ واپس اسی پہلی حالت میں آگیا اور مجھے پھر سبق کی آواز سنائی دینے لگی۔ مگر اس وقت بھی میرے منہ میں کھانے کی لذت موجود تھی اور میرے پیٹ میں سیری کی طرح کھانا کھانے کے بعد جو بوجھل پن ہوتا ہے وہ بھی تھا۔ اور اسی طرح لگ رہا تھا کہ یہ کھانا کھانے سے مجھے بالکل تازگی ہو گئی ہے جیسی کہ عموماً ظاہری کھانا کھانے سے ہوتی ہے۔ جبکہ مَیں کہیں گیا بھی نہیں تھا اور نہ کسی نے مجھے کھانا کھاتے دیکھا ہے۔ <( ماخوذ از حیات نور صفحہ 290-289) تو یہ بھی ایک نظارہ تھا اورحضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی ایک جگہ اسی حوالے سے اس نظارے کو بیان فرمایا ہے۔
حضرت منشی ظفر احمد صاحبؓ نے بیان کیا کہ میری موجودگی کا واقعہ ہے کہ گورداسپور میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام ایک مقدمہ کے تعلق میں قیام فرما تھے۔(بہت سارے لوگ آتے تھے اور کھانابھی پکایا جاتا تھا) تو باورچی نے دیکھا۔ جتنے دوست موجود تھے ان کی تعداد کے مطابق کھانے کا انتظام کیا گیا۔ لیکن پھر اور مہمان آ گئے، اندازے سے زیادہ مہمان آ گئے اور کھانا پھر بھی کفایت کر گیا (پور اہو گیا)۔ تو اس نے صبح کے کھانے کے متعلق یہ ماجرا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی خدمت میں عرض کرکے کہ کیا اتنا ہی کھانا کَل بھی پکانا ہے جتنا آج پکایا تھا یا زیادہ پکاؤں (کیونکہ مہمان زیادہ آ گئے تھے۔) تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے فرمایا کیا تم خداتعالیٰ کا امتحان کرنا چاہتے ہو؟ (ماخوذ از اصحاب احمد جلد چہارم صفحہ 228-227 مطبوعہ قادیان) اللہ تعالیٰ نے اس وقت عزت رکھ لی اب تم زیادہ کھانا تیار کرو۔ تو یہ بھی جو اللہ تعالیٰ کی مدد آئی اس کامطلب یہ نہیں ہے کہ جان بوجھ کر اللہ تعالیٰ کو آزمایا جائے۔
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کے بارہ میں مختار احمد صاحب ہاشمی ذکر کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ مجھے ہدایت فرمائی کہ اگر آپ کی نظر میں کوئی امداد کا مستحق ہو اور وہ خود سوال کرنے میں حجاب محسوس کرتا ہو تو ایسے افراد کا نام آپ اپنی طرف سے پیش کر دیا کریں۔ مگر یہ خیال رہے کہ وہ واقعی امدادکا مستحق ہے۔ چنانچہ مَیں اس عرصہ میں ہر موقع پر مستحق افراد کے نام پیش کرکے انہیں امداد دلواتا رہا ہوں۔ ایک دفعہ حضرت میاں صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے چند غرباء کو رقم بطور امدادادا کرنے کی مجھے ہدایت فرمائی۔ مگرمَیں خاموش ہو رہا اس پر حضرت میاں صاحبؓ نے میری طرف دیکھتے ہوئے میری خاموشی کی وجہ دریافت فرمائی۔ مَیں نے عرض کیا کہ امدادی فنڈ ختم ہو چکا ہے اور کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔ آپ نے مشفقانہ نگاہوں سے میرے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے فرمایا کہ گھبرائیں نہیں۔ رقم اوورڈرا (Overdraw) کروا لیں اور ان لوگوں کوادا کر دیں۔ اللہ تعالیٰ بہت روپیہ دے گا چنانچہ اگلے چند دنوں میں ہی اس مد میں سینکڑوں روپے آگئے۔ (ماخوذ ازحیات بشیر مصنفہ عبدالقادر سابق سوداگر مل صفحہ 271 مطبوعہ۔ ضیاء الاسلام پریس ربوہ)
صباح الدین صاحب کی حضرت مرزا شریف احمد صاحب کے بارہ میں ایک روایت ہے۔ کہتے ہیں مَیں نے ان سے خود سنا ہے جب آپ انگلستان تشریف لائے تو اس دوران مختلف سفر بھی ہو رہے تھے۔ ایک کارخانہ بھی قادیان میں لگنا تھا شاید اس کے لئے کچھ چیزیں بھی خرید رہے تھے۔ یا اور معلومات لے رہے ہوں گے۔ بہرحال سفر کے دوران آپ نے اپنے ساتھ مدد کے لئے ایک انگریزبھی رکھا ہوا تھا۔ اس نے بتایا کہ سفر خرچ کا جو فنڈ ہے وہ ختم ہو رہا ہے اور اب سفر جاری رکھنا مشکل ہے۔ تو آپ نے فرمایا: فکر نہ کرو۔ انشاء اللہ انتظام ہو جائے گا۔ تو وہ شخص جو انگریز تھا۔ بہت حیران ہوا کہ اس ملک میں آپ اجنبی ہیں اور پھر یہاں رقم کا کیسے انتظام ہو سکے گا۔ حضرت میاں صاحب فرماتے ہیں کہ مَیں نے خدا سے دعا کی کہ خدا تو ہی اس پردیس میں ہماری مدد فرما۔ فرماتے ہیں کہ اگلے ہی روز ہم بازار سے جا رہے تھے کہ ایک شخص نے آپ کو روک لیا اور سینٹ سینٹ (Saint,Saint) پکارنے لگا۔ جس کے معنی ہیں ولی۔ اور ایک بڑی رقم کا چیک آپ کی خدمت میں پیش کرکے آپ سے دعا کی د رخواست کی۔ تو وہ شخص جوآپ کا مدد گار تھا اس واقعہ سے بڑا حیران ہوا اور کہنے لگا کہ واقعی آپ لوگوں کا خدا نرالا ہے۔ (ماخوذ از سیرت حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ صفحہ 86-85 مطبوعہ ربوہ)
حضرت شیخ فضل احمد صاحب بٹالوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ سفر ڈلہوزی میں میرے ہمراہ میری اہلیہ اوّل، ان کے بھائی اکبر علی صاحب اور میرے بھائی امیراحمد صاحب سفر کر رہے تھے۔ ہم ایک سرکاری پردہ دار بَیلوں والے ٹانگہ میں تھے۔ تین چار ٹانگے ہندو کلرکوں کے بھی تھے۔ اس زمانہ میں وہی ذریعہ آمد و رفت تھا، لمبا سرکاری سفر تھا۔ تو ہم شام کے وقت‘دُنیرا’کے پڑاؤ پر پہنچے۔ وہاں کے ہندو سٹور کیپروں نے اپنے ہندو بھائیوں کو خیمے دے دئیے جن میں ان کے اہل وعیال اُترپڑے اور مَیں کھڑا رہ گیا۔ ہر چند اِدھر اُدھر مکانات اور خیموں کی تلاش کی مگر بے سود۔ اکبر علی صاحب نے گھبرا کر مجھے کہا کہ رات سر پر آ گئی ہے اب کیا ہو گا؟ مَیں نے کہا خدا داری چہ غم داری۔ (کہ جوخداپر بھروسہ کرے اسے کیا غم ہے۔) خدا ضرور کوئی سامان کر دے گا۔ اتنے میں ایک گھوڑ سور آیا اور اس نے مجھ سے محبت سے سلام کیا اور کہا: ہیں ! آپ کہاں؟ مَیں نے قصہ سنایا۔ کہنے لگا آپ ذرا ٹھہریں مَیں ابھی آتا ہوں۔ تھوڑی دیر میں وہ ایک خیمہ اور گھاس لایا اور چند سپاہی بھی۔ جن کے ذریعہ اس نے خیمہ لگوایا اور گھاس اس میں بچھا کر کہا اپنے گھر والوں کو اس میں اتار دیں۔ پھر ایک اور خیمہ بطور بیت الخلاء کے لگوا دیا۔ پھر کہا کہ مَیں آپ کے لئے کھانا لاتا ہوں مگر کچھ دیر ہو جائے گی آپ معاف کریں۔ چنانچہ ضروری سامان پانی وغیرہ بھجوا کر خود قریباً گیارہ بجے رات کے کھانا زردہ، دال روٹی وغیرہ لایا اور معذرت کرنے لگا کہ چونکہ دیر ہو گئی تھی اس لئے گوشت نہیں مل سکا۔ دال ہی مل سکی ہے آپ یہی قبول فرمائیں۔ پھر پوچھنے پر کہنے لگا آپ مجھے نہیں جانتے۔ مَیں نے کہا معاف کریں۔ مجھے آپ سے ایک دفعہ کی ملاقات کا شبہ پڑتا ہے وہ بھی کچھ یاد نہیں کہاں ہوئی تھی۔ تو اس نے کہا آپ نے میری درخواست لکھی تھی جس پر مجھے دفعداری مل گئی تھی۔ (سرکاری نوکری کی پروموشن ہو گئی تھی)۔ اس لئے مَیں آپ کا شکر گزار ہوں۔ اور کہا اب رات بہت ہو گئی ہے مَیں جاتا ہوں اور چند آدمی چھوڑ گیا جو رات کو پہرہ دینے والے تھے تاکہ وہاں کوئی سامان وغیرہ چوری نہ ہو۔ اور کہتے ہیں اس کے بعد مَیں نے سجدات شکر ادا کئے اور اللہ تعالیٰ کی اس بندہ نوازی نے میرے ایمان میں بڑی ترقی بخشی۔ (ماخوذ از اصحاب احمد جلد سوم صفحہ 79-80۔ جدید ایڈیشن۔ مطبوعہ قادیان)
حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ مہاراجہ کشمیر نے مجھ سے کہا کہ کیوں مولوی جی تم ہم کو تو کہتے ہو کہ تم سوٴر کھاتے ہو اس لئے بے جا حملہ کر بیٹھتے ہو۔ (مہاراجہ کشمیر کے سامنے اس کو یہ کہتے تھے کہ آپ لوگ صرف سوٴر کھاتے ہیں اور کوئی گوشت نہیں کھاتے۔ اس لئے غصّہ میں ذرا سخت ہیں۔) بھلا یہ تو بتاؤ کہ انگریز بھی تو سوٴر کھاتے ہیں۔ وہ کیوں اس طرح ناعاقبت اندیشی سے حملہ نہیں کرتے؟ مَیں نے کہا کہ وہ ساتھ ہی گائے کا گوشت بھی کھاتے رہتے ہیں اس سے اصلاح ہو جاتی ہے۔ سن کر خاموش ہو گئے اور پھر دو برس تک مجھ سے کوئی مذہبی مباحثہ نہیں کیا۔ (مرقاة الیقین فی حیات نور الدین مرتبہ اکبر شاہ خان نجیب آبادی صفحہ 252 مطبوعہ ربوہ)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’وہ (اللہ تعالیٰ) قرآن شریف میں اس تعلیم کو پیش کرتا ہے۔ جس کے ذریعہ سے اور جس پر عمل کرنے سے اسی دنیا میں دیدار الٰہی میسر آسکتا ہے۔ جیسا کہ وہ فرماتا ہےمَنۡ کَانَ یَرۡجُوۡا لِقَآءَ رَبِّہٖ فَلۡیَعۡمَلۡ عَمَلًا صَالِحًا وَّ لَا یُشۡرِکۡ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖۤ اَحَدًا (الکہف: 111) یعنی جو شخص چاہتا ہے کہ اسی دنیا میں اُس خدا کا دیدار نصیب ہو جائے جو حقیقی خدا اور پیدا کنندہ ہے۔ پس چاہئے کہ وہ ایسے نیک عمل کرے جن میں کسی قسم کا فسادنہ ہو۔ یعنی عمل اس کے نہ لوگوں کے دکھلانے کے لئے ہوں نہ ان کیوجہ سے دل میں تکبرپیدا ہو کہ مَیں ایسا ہوں اور ایسا ہوں۔ اور نہ وہ عمل ناقص اور ناتمام ہوں۔ اور نہ ان میں کوئی ایسی بدبو ہو جو محبتِ ذاتی کے بر خلاف ہو بلکہ چاہئے کہ صدق اور وفاداری سے بھرے ہوئے ہوں اور ساتھ اس کے یہ بھی چاہئے کہ ہر ایک قسم کے شرک سے پرہیز ہو۔ نہ سورج نہ چاندنہ آسمان کے ستارے، نہ ہوا، نہ آگ، نہ پانی نہ کوئی اور زمین کی چیز معبود ٹھہرائی جائے۔ اور نہ دنیا کے اسباب کو ایسی عزت دی جائے اور ایسا ان پر بھروسہ کیا جائے کہ گویا وہ خدا کے شریک ہیں۔ اور نہ اپنی ہمت اور کوشش کو کچھ چیز سمجھا جائے کہ یہ بھی شرک کے قسموں میں سے ایک قسم ہے۔ بلکہ سب کچھ کرکے یہ سمجھا جائے کہ ہم نے کچھ نہیں کیا۔ اور نہ اپنے علم پر کوئی غرور کیا جائے اور نہ اپنے عمل پر کوئی ناز، بلکہ اپنے تئیں فی الحقیقت جاہل سمجھیں اور کاہل سمجھیں اور خداتعالیٰ کے آستانہ پر ہر ایک وقت روح گری رہے اور دعاؤں کے ساتھ اس کے فیض کو اپنی طرف کھینچا جائے۔ اور اس شخص کی طرح ہو جائیں کہ جو سخت پیاسا اور بے دست وپا بھی ہے اور اس کے سامنے ایک چشمہ نمودار ہوا ہے نہایت صافی اور شیریں۔ پس اس نے افتاں و خیزاں بہرحال اپنے تئیں اس چشمہ تک پہنچا دیا‘‘۔ (گرتے پڑتے اس تک پہنچ گئے) ’’اور اپنی لبوں کو اس چشمہ پر رکھ دیا اور علیحدہ نہ ہوا جب تک سیراب نہ ہوا‘‘۔ (لیکچر لاہور۔ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 154 مطبوعہ ربوہ)
اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو عاجزی میں بڑھاتے ہوئے، توکّل میں بڑھاتے ہوئے، اپنے ایمان میں ترقی دینے کی توفیق عطا فرمائے۔ خداتعالیٰ کی تائید و نصرت کے نظارے ہم اپنے ساتھ بھی دیکھیں اور علم و عمل میں ترقی کرنے والے ہوں اور اس (نظارے) کو بھی اللہ تعالیٰ کے انعامات میں سے انعام سمجھیں۔ ہم ہمیشہ تکبر اور دنیا داری سے بچتے رہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے صحابہ سے اپنی مدد اور نصرت کاجو سلوک رکھا ہمیں بھی ایسے عمل کی توفیق دے کہ ہم اس میں سے حصہ لیتے رہیں اور ہم اللہ تعالیٰ کے حضور ہمیشہ جھکنے والے رہیں اور ہمیشہ اس چشمے سے سیراب ہونے کی کوشش کرتے رہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں