خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 03؍اپریل 2009ء

ہمارا خدا وہ پیارا خداہے جو ہماری بے شمار خطاؤں اور غلطیوں کو ڈھانپتاہے، ان سے صرفِ نظر کرتاہے۔
حقیقی مومن وہی ہے جو خداتعالیٰ سے اس کی ستاری طلب کرے اپنی برائیوں کا احساس ہونے کے بعد ان سے دور ہٹنے کی کوشش کرے، ان کو ختم کرنے کی کوشش کرے۔ غلطیوں کی صورت میں توبہ و استغفار کی طرف متوجہ ہو
پردہ پوشی بھی اس وقت ہوتی ہے جب غصّہ پرقابوہو اور یہ اس وقت ہوگا جب خداتعالیٰ کا خوف ہوگا۔
ہر احمدی عورت اور مرد سے مَیں یہ کہتا ہوں کہ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے بہترین لباس وہ ہے جو تقویٰ کا لباس ہے۔ اُسے پہننے کی کوشش کریں تاکہ اللہ تعالیٰ کی ستّاری ہمیشہ ہمیش ڈھانکے رکھے
(اللہ تعالیٰ کی صف ستّارکے حوالہ سے احباب جماعت کو ایک دوسرے کی پردہ پوشی کرنے اور اپنے لباس میں بھی حیا کو اختیار کرنے کی تاکیدی نصائح)
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ مورخہ 03؍اپریل 2009ء بمطابق03؍شہادت 1388 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لند ن (برطانیہ)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

قرآن کریم میں متعدد جگہ پر اس بات کا ذکر ملتا ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی غلطیوں کو معاف فرماتا ہے، ان سے صرف نظر فرماتا ہے اور صرفِ نظر فرماتے ہوئے ستاری کا سلوک فرماتا ہے۔ ستاری کیا ہے؟ سَتَرَ کے معنی ہیں کسی چیز کو ڈھانپنے اور اس کی حفاظت کرنے کے۔ پس ہمارا خدا وہ پیارا خدا ہے جو ہماری بے شمار خطاؤں کو اور غلطیوں کو ڈھانپتا ہے، اُن سے صرفِ نظر فرماتا ہے۔ فوری طور پر کسی غلطی پر پکڑتا نہیں بلکہ موقع عطا فرماتا ہے کہ انسان، ایک حقیقی مومن، اللہ تعالیٰ کے اس سلوک سے فائدہ اٹھا ئے اور جو اس نے غلطیاں اور کوتاہیاں کی ہوں ان کا احساس کرتے ہوئے اپنی اصلاح کی کوشش کرے۔ نہ کہ اُن کا اعادہ کرتے ہوئے ان پر دلیر ہو جائے۔ پس جب اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی خطاؤں اور غلطیوں کو ڈھانپتا ہے تو بندے کا بھی کام ہے کہ اپنی اصلاح کی طرف توجہ دیتے ہوئے اس کی حفاظت کے حصار میں آجائے، جہاں پر وہ اللہ تعالیٰ کی ستاری کے نئے سے نئے جلوے دیکھے گا۔
اِس وقت مَیں چند آیات آپ کے سامنے رکھوں گا جن میں اللہ تعالیٰ کی اس صفت سے حصہ لینے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں بعض امور کی طرف توجہ دلائی ہے۔
اللہ تعالیٰ سورۃ عنبکوت میں فرماتا ہے کہ

وَالَّذِیْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ لَنُکَفِّرَنَّ عَنْہُمْ سَیِّاٰتِہِمْ وَلَنَجْزِیَنَّہُمْ اَحْسَنَ الَّذِیْ کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ (العنکبوت:8)

اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے ہم لازماً ان کی بدیاں ان سے دور کر دیں گے اورضرور انہیں ان کے بہترین اعمال کے مطابق جزا دیں گے جو وہ کیا کرتے تھے۔
یہاں اللہ تعالیٰ نے ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کے بارے میں فرمایا کہ ان کی بدیاں دور کر دیں گے لَنُکَفِّرَنَّ عَنْہُمْ سَیِّاٰتِہِمْ۔ لغات میں کَفَرَ کا مطلب لکھا ہے کہ پردے میں کر دینا، کسی چیز کو ڈھانک دینا اور مکمل طور پر ختم کر دینا۔ یعنی ایسے لوگ جو بُرائی کرتے ہیں ان کے ساتھ ایسا سلوک کرنا جس طرح کہ انہوں نے کوئی برائی کی نہ ہو۔ پس اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بڑا مہربان ہے۔ بندہ برائی کرتا ہے تو فو راً نہ تو اسے پکڑتا ہے، نہ ہی اس کی پردہ دری کرتا ہے کہ انسان اپنے معاشرے میں منہ دکھانے کے قابل نہ رہے۔ کئی قسم کی برائیاں انسان سے سرزد ہو جاتی ہیں۔ کئی قسم کی غلطیوں کا انسان مرتکب ہو جاتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی صفتِ ستار اسے ڈھانکے رکھتی ہے۔ اور پھرجو لوگ اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا احساس رکھتے ہوئے اصلاح کی طرف مائل ہوتے ہیں، اپنے ایمان میں مضبوطی پیدا کرتے ہیں، نیک اعمال بجالانے کی طرف توجہ کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اُس بدی اور اُس کے اثرات تک کو اس طرح اس بندے سے دور کر دیتا ہے گویا کہ وہ برائی اس نے کی ہی نہیں تھی۔ نہ تو اس گناہ کی سزا دیتا ہے اور نہ ہی اُس کی شہرت ہوتی ہے۔ اگر معاشرے میں کہیں بات نکل بھی جائے تو اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے والے پر توجہ فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ اس بات کو پھیلنے سے بھی روک دیتا ہے جس سے اس شخص کی بدنامی ہو رہی ہو۔ اور پھر یہ خدا جو سَتَّار بھی ہے، مَالِک بھی ہے، جو بندے کے توجہ کرنے پر نہ صرف یکسر اس کی برائیوں کو ڈھانپ دیتا ہے بلکہ ان کو نیک کاموں کی بہترین جزا دیتا ہے۔ جب برائیوں کے بعد نیک کام کرتے ہیں تو اس کی جزا بھی بہترین ہوتی ہے۔ نیکیوں کی جزا کئی گنا کرکے دیتا ہے اور برائیوں کے دور میں بھی جو چھوٹی چھوٹی نیکیاں ایک انسان نے کی ہوتی ہیں ان کی جزا بھی جمع کرکے دے دیتا ہے اور اس طرح نیکیوں کی تعداد اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ برائیاں کہیں نظرہی نہیں آتیں۔ پس حقیقی مومن وہی ہے جو خداتعالیٰ سے اس کی ستاری طلب کرے۔ اپنی برائیوں کا احساس ہونے کے بعد ان سے دور ہٹنے کی کوشش کرے، ان کو ختم کرنے کی کوشش کرے۔ غلطیوں کی صورت میں توبہ و استغفار کی طرف متوجہ ہو تو اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق وہ اس کی رضا حاصل کرنے والا بنتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
‘’انسان اپنی فطرت میں نہایت کمزور ہے اور خداتعالیٰ کے صد ہا احکام کا اس پر بوجھ ڈالا گیا ہے۔ پس اس کی فطرت میں یہ داخل ہے (یعنی انسان کی فطرت میں یہ داخل ہے) کہ وہ اپنی کمزوری کی وجہ سے بعض احکام کے ادا کرنے سے قاصر رہ سکتا ہے اور کبھی نفس امّارہ کی بعض خواہشیں اس پر غالب آجاتی ہیں۔ پس وہ اپنی کمزور فطرت کی رو سے حق رکھتا ہے کہ کسی لغزش کے وقت اگر وہ توبہ استغفار کرے تو خدا کی رحمت اس کو ہلاک کرنے سے بچا لے‘‘۔ (چشمۂ معرفت۔ روحانی خزائن جلد 23 صفحہ190-189)
یہ ہے وہ حقیقی فہم و ادراک اللہ تعالیٰ کی صفات کا جو خداتعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو عطا فرمایا اور آپؑ نے پھر ہمیں بتایا۔ ورنہ آج دیکھیں دین کے بعض ٹھیکیدار جو ہیں، بڑے بڑے علماء، جبہ پوش انہوں نے تو خداتعالیٰ کے تصور کو اس طرح بنا دیا ہے، ایسا خوفناک سختی کرنے والا اور سزا دینے والا خدا پیش کرتے ہیں کہ جس طرح اس میں کوئی نرمی ہے ہی نہیں اور اسی وجہ سے عیسائیوں اور لامذہبوں کو بھی جہاں موقع ملتا ہے وہ اسلام کے خلاف غلط تصور پیش کرتے ہیں۔ حالانکہ اسلام کا خدا سَتَّار اور رَحِیْم خدا ہے اور نہ صرف خود بلکہ خداتعالیٰ نے مومنوں کو بھی یہ کہا ہے کہ میری صفات اپنی اپنی استعداد کے مطابق اپنانے کی کوشش کرو اور جب یہ ہو گا تو پھر کس قدر ستاری اور درگزر اور رحم کے نظارے معاشرے میں نظر آئیں گے۔ جب اس کا تصور کیا جائے تو بے اختیار اللہ تعالیٰ کی تسبیح کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے اور پھر آنحضرت ﷺ پر درُود بھی ایک مومن بھیجتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کامل دین کو آپ ﷺ پر اتار کر ایک احسان عظیم ہم پر فرمایا ہے۔
ایک موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایاکہ:
‘’قرآن شریف میں خدا نے جو یہ فرمایا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اے بندو! مجھ سے ناامیدمت ہو۔ مَیں رَحِیْم، کَرِیْم اور ستّار اور غَفَّار ہوں اور سب سے زیادہ تم پر رحم کرنے والا ہوں اور اس طرح کوئی بھی تم پر رحم نہیں کرے گا جو مَیں کرتا ہوں۔ اپنے باپوں سے زیادہ میرے ساتھ محبت کرو کہ درحقیقت مَیں محبت میں ان سے زیادہ ہوں۔ اگر تم میری طرف آؤ تو مَیں سارے گناہ بخش دوں گا۔ اور اگر تم توبہ کرو تو میں قبول کروں گا اور اگر تم میری طرف آہستہ قدم سے بھی آؤ تو مَیں دوڑ کر آؤ ں گا۔ جو شخص مجھے ڈھونڈے گا وہ مجھے پائے گا اور جو شخص میری طرف رجوع کرے گا وہ بھی میرے دروازہ کو کھلا پائے گا۔ مَیں توبہ کرنے والے کے گناہ بخشتا ہوں خواہ پہاڑوں سے زیادہ گناہ ہوں۔ میرا رحم تم پر بہت زیادہ ہے اور غضب کم ہے کیونکہ تم میری مخلوق ہو۔ مَیں نے تمہیں پیدا کیا اس لئے میرا رحم تم سب پر محیط ہے‘‘۔
پس اللہ تعالیٰ کی طرف آنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہی وہ راستے سکھائے ہیں کہ جن سے اس کی طرف بڑھا جا سکتا ہے۔ ایمان میں کامل بننے کی کوشش کرو۔ اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرو۔ بندوں کے حقوق ادا کرو۔ اعمال صالحہ بجا لاؤ اور ان اعمال صالحہ کا اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ذکر بھی فرما دیا کہ کون کون سے اعمال ہیں جو تمہیں بجا لانے چاہئیں۔ کون سے ایسے اعمال ہیں جن کواللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے۔ کون سے اعمال ہیں جن کو اللہ تعالیٰ ناپسند فرماتا ہے۔ پس ان تمام اوامر کے کرنے اور نواہی سے بچنے کی مومن کو کوشش کرنی چاہئے جن کا اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے تاکہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی ستّاری اور رحم سے حصہ لینے والے بنتے رہیں۔
گزشتہ خطبہ میں مَیں نے میاں بیوی کے تعلقات کا بھی مختصراً ذکر کیا تھا کہ بعض حالات میں کس طرح آپس کے اختلافات کی صورت میں ایک دوسرے پر گند اچھالنے سے بھی دونوں فریق باز نہیں رہتے اور یہ بات خداتعالیٰ کو سخت ناپسند ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دونوں کو، میاں کو بھی اور بیوی کو بھی، کس طرح ایک دوسرے کی ذمہ داریوں کی ادائیگی کا احساس دلایا ہے۔ فرماتا ہے

ہُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّہُنَّ (البقرۃ :188)

یعنی وہ تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا لباس ہو۔ یعنی آپس کے تعلقات کی پردہ پوشی جو ہے وہ دونوں کی ذمہ داری ہے۔ قرآن کریم میں ہی خداتعالیٰ نے جو لباس کے مقاصد بیان فرمائے ہیں وہ یہ ہیں کہ لباس ننگ کو ڈھانکتا ہے، دوسرے یہ کہ لباس زینت کا باعث بنتا ہے، خوبصورتی کا باعث بنتا ہے، تیسرے یہ کہ سردی گرمی سے انسان کو محفوظ رکھتا ہے۔
پس اس طرح جب ایک دفعہ ایک معاہدے کے تحت آپس میں ایک ہونے کا فیصلہ جب ایک مرد اور عورت کر لیتے ہیں تو حتی المقدو ر یہ کوشش کرنی چاہئے کہ ایک دوسرے کو برداشت بھی کرنا ہے اور ایک دوسرے کے عیب بھی چھپانے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر نہ مردوں کو بھڑکنا چاہئے اور نہ ہی عورتوں کو۔ بلکہ ایسے تعلقات ایک احمدی جوڑے میں ہونے چاہئیں جو اس جوڑے کی خوبصورتی کو دو چند کرنے والے ہوں۔ ایسی زینت ہر احمدی جوڑے میں نظر آئے کہ دوسروں کے لئے ایک نمونہ بن جائیں۔
بعض دفعہ جو لڑکیوں کی طرف سے یا لڑکوں کی طرف سے ایسے سوال اٹھ رہے ہوتے ہیں کہ ہمارے دل نہیں ملے۔ اگر تحقیق کی جائے تو صاف نظر آرہا ہوتا ہے کہ دونوں نے ایک دوسرے کے تعلق کو سنجیدگی سے سمجھا ہی نہیں۔ اُس مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی جس کے تحت اللہ تعالیٰ نے شادی کرنے کا حکم دیا ہے۔ بعض دفعہ تو لگتا ہے کہ شادی صرف ایک کھیل کے لئے کی گئی تھی۔ برداشت بالکل نہیں ہوتی۔ ذرا ذرا سی بات پر رائی کا پہاڑبن رہا ہوتا ہے اور عجیب تکلیف دہ صورتحال سامنے آتی ہے۔ پس بجائے ضدّوں اور اناؤں کے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کو اگر سامنے رکھیں تو کبھی مسائل کھڑے نہیں ہو سکتے۔ اگر یہ عہد کریں کہ ہر حال میں ہم خداتعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ایک دوسرے کے لئے تسکین کا باعث بنتے رہیں گے تو کبھی خرابیاں پیدا نہ ہوں۔
جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی فرمایا ہے کہ یہ سب پردے اس وقت چاک ہوتے ہیں جب جوش اور غیظ و غضب میں انسان بڑھ جاتا ہے۔ اس لئے اسے دبانے کی ضرورت ہے۔ غصّہ کو دبانا وہ عمل ہے جو خداتعالیٰ نے پسند فرمایا ہے اور اسے نہ کرنے کا حکم دیا ہے۔
پس ہر احمدی جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کرکے یہ عہد باندھا ہے کہ مَیں اپنی حالت میں پاک تبدیلی پیدا کروں گا، اپنے گھریلو تعلقات میں بہتری پیدا کرنے کی کوشش کروں گاتو اُس کو اس عہد کو پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
مجھے جب ایسے جھگڑوں کا پتہ لگتا ہے اور چھوٹی چھوٹی رنجشوں کے اظہار کرکے گھروں کے ٹوٹنے کی باتیں ہو رہی ہوتی ہیں۔ تو ہمیشہ ایک بچی کا واقعہ یاد آجاتا ہے۔ جس نے ایک جوڑے کو بڑا اچھا سبق دیا تھا۔ اُس کے سامنے ایک جوڑا لڑائی کرنے لگا یا بحث کرنے لگے یا غصّہ میں اونچی بولنے لگے تو وہ بچی حیرت سے ان کو دیکھتی چلی جا رہی تھی۔ خیر اُن کو احساس ہوا، انہوں نے اس سے پوچھا کہ تمہارے امّاں ابّا کبھی نہیں لڑے؟ ان کو غصہ کبھی نہیں آتا؟ اس نے کہا ہاں ان کو غصّہ تو آتا ہے لیکن جب امی کو غصّہ آتا ہے تو ابّاخاموش ہو جاتے ہیں اور جب میرے باپ کو غصّہ آتا ہے تو میری ماں خاموش ہو جاتی ہے۔
تو یہ برداشت جو ہے اسے پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ بعض دفعہ تو ان چھوٹی چھوٹی باتوں سے ابتداء میں ہی گھر ٹوٹنے شروع ہو جاتے ہیں۔ چند دن شادی کو ہوئے ہوتے ہیں اور فیصلہ یہ ہوتا ہے کہ ہمارے دل نہیں مل سکتے۔ حالانکہ رشتے کئی کئی سال قائم ہوتے ہیں اس کے بعد شادی ہوئی ہوتی ہے۔ اور پھر اصل بات یہ ہے کہ یہ جب ایک دوسرے کے راز نہیں رکھتے، باتیں جب باہر نکالی جاتی ہیں تو باہر کے لوگ بھی جو ہیں مشورہ دینے والے بھی جو ہیں وہ اپنے مزے لینے کے لئے یا ان کو عادتاً غلط مشورے دینے کی عادت ہوتی ہے وہ پھر ایسے مشورے دیتے ہیں کہ جن سے گھر ٹوٹ رہے ہوتے ہیں۔ اس لئے مشورہ بھی ایک امانت ہے۔ جب ایسے لوگ، ایسے جوڑے، مرد ہوں یا عورت، لڑکا ہو یا لڑکی، کسی کے پاس آئیں تو ایک احمدی کا فرض ہے کہ ان کو ایسے مشورے دیں جن سے ان کے گھر جڑیں، نہ کہ ٹوٹیں۔
پس مرد اور عورت کو پھر مَیں یہ کہتا ہوں کہ پردہ پوشی بھی اس وقت ہوتی ہے جب غصّہ پر قابو ہو اور یہ اس وقت ہو گا جب خداتعالیٰ کا خوف ہو گا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ایک جگہ لباسِ تقویٰ کی طرف بھی توجہ دلائی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے سورۃ اعراف میں کہ

یٰبَنِیٓ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْکُمْ لِبَاسًا یُّوَارِیْ سَوْاٰ تِکُمْ وَرِیْشًا۔ وَلِبَاسُ التَّقْوٰی ذٰلِکَ خَیْرٌ۔ ذٰلِکَ مِنْ اٰیٰتِ اللّٰہِ لَعَلَّھُمْ یَذَّکَّرُوْنَ (سورۃ الاعراف 27)

کہ اے بنی آدم یقینا ہم نے تم پر لباس اتارا ہے جو تمہاری کمزوریوں کو ڈھانپتا ہے اور زینت کے طور پر ہے اور رہا تقویٰ کا لباس تو وہ سب سے بہتر ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی آیات میں سے کچھ ہیں تاکہ وہ نصیحت پکڑیں۔
یہاں پھر اس بات کا ذکر ہے جو مَیں پہلے بھی کر چکا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں لباس دیا ہے۔ تمہارا ننگ ڈھانپنے کے لئے اور تمہاری خوبصورتی کے سامان کے لئے۔ یہ تو ظاہری سامان ہے جو ایک تو اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر فرمایا۔ انسان کو دوسری مخلوق سے ممتاز کرنے کے لئے ایک لباس دیا ہے جس سے اس کی زینت بھی ظاہر ہو اور اس کا ننگ بھی ڈھانپے۔ لیکن ساتھ ہی فرمایا کہ اصل لباس، لباسِ تقویٰ ہے۔
یہاں مَیں ایک اور بات کی بھی وضاحت کر دوں کہ ایک مومن کے اور ایک غیر مومن کے لباس کی زینت کا معیار مختلف ہوتا ہے اور کسی بھی شریف آدمی کے لباس کا، جو زینت کا معیار ہے وہ مختلف ہے۔ آج کل مغرب میں اور مشرق میں بھی فیشن ایبل (Fashionable) اور دنیا دار طبقے میں لباس کی زینت اُس کو سمجھا جاتا ہے بلکہ مغرب میں تو ہر طبقہ میں سمجھا جاتا ہے جس میں لباس میں سے ننگ ظاہر ہو رہا ہو اور جسم کی نمائش ہو رہی ہو۔ مرد کے لئے تو کہتے ہیں کہ ڈھکا ہوا لباس زینت ہے۔ لیکن مرد ہی یہ بھی خواہش رکھ رہے ہوتے ہیں کہ عورت کا لباس ڈھکا ہوا نہ ہو۔ اور عورت جو ہے، اکثر جگہ عورت بھی یہی چاہتی ہے۔ وہ عورت جسے اللہ تعالیٰ کا خوف نہیں ہوتا، اس کے پاس لباس تقویٰ نہیں ہے۔ اور ایسے مرد بھی یہی چاہتے ہیں۔ ایک طبقہ جو ہے مردوں کا وہ یہ چاہتا ہے کہ عورت جدید لباس سے آراستہ ہو بلکہ اپنی بیویوں کے لئے بھی وہی پسند کرتے ہیں تاکہ سوسائٹی میں ان کو اعلیٰ اور فیشن ایبل سمجھا جائے۔ چاہے اس لباس سے ننگ ڈھک رہا ہو یا نہ ڈھک رہاہو۔ لیکن ایک مومن اور وہ جسے اللہ تعالیٰ کا خوف ہے۔ چاہے مرد ہو یا عورت وہ یہی چاہیں گے کہ خدا کی رضا حاصل کرنے کے لئے وہ لباس پہنیں جو خد اکی رضا کے حصول کا ذریعہ بھی بنے اور وہ لباس اس وقت ہو گا جب تقویٰ کے لباس کی تلاش ہو گی۔ جب ایک خاص احتیاط کے ساتھ اپنے ظاہری لباسوں کا بھی خیال رکھا جا رہا ہو گا اور جب تقویٰ کے ساتھ میاں بیوی کا جو ایک دوسرے کا لباس ہیں اس کا بھی خیال رکھا جائے گا اور اسی طرح معاشرے میں ایک دوسرے کی عیب پوشی کرنے کے لئے آپس کے تعلقات میں بھی کسی اونچ نیچ کی صورت میں تقویٰ کو مدنظر رکھا جائے گا۔ اسی طرح معاشرے میں رہنے والے کی زندگی میں، ایک د وسرے کے تعلقات میں کئی نشیب وفراز آتے ہیں۔ رنجشیں بھی ہوتی ہیں، دوستیاں بھی ہوتی ہیں لیکن ایک مومن رنجشوں کی صورت میں اچھے وقتوں کی دوستیوں کے دور کی باتوں کو جو دوسرے دوست کی راز کی صورت میں معلوم ہوں دنیا کے سامنے بتاتا نہیں پھرتا۔ اور نہ ہی میاں بیوی، جن کے دلوں میں تقویٰ ہو ایک دوسرے کے راز کو بتاتے پھرتے ہیں۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہمیشہ پردہ پوشی کرتا ہے۔ پس یہ تقویٰ کا لباس ہے جو ظاہری لباس کے معیار بھی قائم کرتا ہے اور ایک دوسرے کی پردہ پوشی کے معیار بھی قائم کرتا ہے اور اس کا حصول اللہ تعالیٰ کی طرف جھکے بغیر نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ شیطان ہر وقت تاک میں ہوتا ہے کہ کس طرح موقع ملے اور میں بندوں سے اس تقویٰ کے لباس کوا تار دوں۔
اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے بلکہ جو مَیں نے آیت پڑھی اس کی اگلی آیت میں کہ

یَا بَنِیْ آدَمَ لاَ یَفْتِنَنَّکُمُ الشَّیْطَانُ کَمَآ اَخْرَجَ اَبَوَیْکُمْ مِنَ الْجَنَّۃِ یَنْزِعُ عَنْہُمَا لِبَاسَہُمَا لِیُرِیَہُمَا سَوْاٰتِہِمَا۔ اِنَّہٗ یَرَاکُمْ ہُوَ وَقَبِیْلُہُ مِنْ حَیْثُ لَا تَرَوْنَہُمْ۔ اِنَّا جَعَلْنَا الشَّیٰطِیْنَ اَوْلِیَآءلِلَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُونَ (الاعراف:28)

کہ اے بنی آدم! شیطان ہرگز تمہیں فتنہ میں نہ ڈالے جیسے اس نے تمہارے ماں باپ کو جنت سے نکلوا دیا تھا۔ اس نے ان سے اُن کے لباس چھین لئے تھے تاکہ اُن کی برائیاں ان کو دکھائے یقینا وہ اوراس کے غول تمہیں دیکھ رہے ہیں۔ جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھ سکتے۔ یقینا ہم نے شیطانوں کو ان لوگوں کا دوست بنا دیا ہے جو ایمان نہیں لاتے۔
پس جو ظاہری لباس کے ننگ کی مَیں نے بات کی ہے۔ ایک مومن کبھی ایسا لباس نہیں پہن سکتا جو خود زینت بننے کی بجائے جسم کی نمائش کر رہا ہو۔ یہاں بھی اور پاکستان میں بھی بعض رپورٹس آتی ہیں کہ دنیا کی دیکھا دیکھی بعض احمدی بچیاں بھی نہ صرف پردہ اتارتی ہیں بلکہ لباس بھی نامناسب ہوتے ہیں اور یہ حرکت صرف وہی کر سکتا ہے جو تقویٰ کے لباس سے عاری ہو۔
پس ہر احمدی عورت اور مرد سے مَیں یہ کہتا ہوں کہ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے بہترین لباس وہ ہے جو تقویٰ کا لباس ہے۔ اُسے پہننے کی کوشش کریں تاکہ اللہ تعالیٰ کی ستّاری ہمیشہ ہمیش ڈھانکے رکھے اور شیطان جو پردے اتارنے کی کوشش کر رہا ہے جو انسان کو ننگا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو مومن نہیں ہے شیطان ان کا دوست ہے۔ اگر تو ایمان ہے اور زمانہ کے امام کو بھی مانا ہے تو پھر ہمیں ایک خاص کوشش سے شیطان سے بچنے کی کوشش کرنی ہو گی اور اپنے آپ کو ہمیشہ اس لباس سے ڈھانکنا ہو گا جو تقویٰ کا لباس ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔
جیسا کہ مَیں نے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کے بعد ہم پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم اپنی حالتوں کے بدلنے کی ہر ممکن کوشش کریں اور زمانے کے بہاؤ میں بہنے والے نہ بنیں۔ بلکہ ہر روز ہمارا تعلق خداتعالیٰ سے مضبوط سے مضبوط تر ہو تا چلاجائے اور ہمیشہ لباس تقویٰ کی حقیقت کو ہم سمجھنے والے ہوں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
‘’ممکن ہے گزشتہ زندگی میں وہ کوئی صغائر یا کبائر رکھتا ہو۔ (یعنی کوئی بھی انسان چھوٹے بڑے گناہ کرتا ہو) لیکن جب اللہ تعالیٰ سے اس کا سچا تعلق ہو جاوے تو وہ کُل خطائیں بخش دیتا ہے اور پھر اس کو کبھی شرمندہ نہیں کرتا۔ نہ اس دنیا میں اور نہ آخرت میں۔ یہ کس قدر احسان اللہ تعالیٰ کا ہے کہ جب وہ ایک دفعہ درگزر کرتا اور عفو فرماتا ہے پھر اس کا کبھی ذکر ہی نہیں کرتا۔ اس کی پردہ پوشی فرماتا ہے۔ پھر باوجود ایسے احسانوں اور فضلوں کے بھی اگر وہ منافقانہ زندگی بسر کرے تو پھر سخت بدقسمتی اور شامت ہے‘‘۔
(ملفوظات جلد سوم صفحہ 596۔ جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے۔ اگر انسان برائیوں اور بدیوں پر دلیری اختیار نہ کرے اور اُن سے بچنے کی کوشش کرتا رہے اور لباسِ تقویٰ کی تلاش میں رہے تو اللہ تعالیٰ اپنی ستّاری کی چادر میں ایسا لپیٹتا ہے کہ گناہوں کی یادیں اور نام و نشان مٹ جاتے ہیں اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا اس کو کبھی شرمندہ نہیں کرتا نہ اس دنیا میں نہ آخرت میں۔ اور جب اللہ تعالیٰ کسی سے راضی ہوتا ہے تو شرمندہ ہونے کا سوال کیا ہے اپنے بے انتہا انعامات سے نوازتا ہے۔
اس بارے میں خداتعالیٰ سورۃ نساء میں فرماتا ہے کہ

اِنْ تَجْتَنِبُوْا کَبَآئِرَ مَا تُنْہَوْنَ عَنْہُ نُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ وَنُدْخِلْکُمْ مُّدْخَلاً کَرِیْماً (النساء 32:)

اگر تم ان بڑے گناہوں سے بچتے رہو جن سے تمہیں روکا گیا ہے تو ہم تم سے تمہاری بدیاں دُور کردیں گے اور تمہیں ایک بڑی عزت کے مقام میں داخل کریں گے۔
اب یہاں فرمایا کہ بڑے گناہوں سے بچتے رہو تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بڑے گناہوں کی تلاش کی جائے، یا یہ دیکھا جائے کہ کون کون سے بڑے گناہ ہیں جن سے بچنا ہے۔ ایک حقیقی مومن وہ ہے جو ہر قسم کے گناہوں سے بچتا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ستّاری تو ہر قسم کے گناہوں کے لئے ہے۔ اس لئے یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ بڑے گناہوں سے بچا جائے اور چھوٹے چھوٹے گناہ اگر کر بھی لئے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا کہ بڑے گناہوں سے بچو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر قسم کے گناہوں سے بچو کیونکہ قرآن کریم میں بڑے گناہوں اور چھوٹے گناہوں کی کوئی فہرست نہیں ہے، کوئی تخصیص نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ہر وہ چیز جس کے نہ کرنے کا خداتعالیٰ نے حکم دیا ہے اور سختی سے پابند کیا ہے کہ ایک مومن نہ کرے، اس کو کرنا گناہ ہے۔ پس ہر وہ غلط کام جس کے نہ کرنے کا خداتعالیٰ نے حکم دیا ہے اس کو چھوڑنے میں اگر کسی کو کوئی دقت پیش آرہی ہے چاہے وہ چھوٹی سی بات ہے یا بڑی بات ہے تو وہ اس شخص کے لئے بڑا گناہ ہے۔ پس جب ایک مشکل چیزکو کر لو گے، اس پر قابو پا لو گے تو ایسی برائیاں جن کو چھوڑنا نسبتاً آسان ہے وہ بھی خود بخود چھُٹ جائیں گی۔
بعض مفسرین نے یہ بھی کہا ہے کہ کسی بھی گناہ کی انتہا جو ہے وہ کبیرہ میں شمار ہوتی ہے۔ پس اگر اس انتہا ء پر پہنچنے سے پہلے اپنی اصلاح کی طرف مائل ہو جاؤ تو اللہ تعالیٰ نے جو اَب تک پردہ پوشی فرمائی ہے وہ پردہ پوشی فرمائے گا۔ اس کی شکر گزاری کرتے ہوئے نیکیوں کی طرف توجہ کر لو تو اللہ تعالیٰ کے ہاں اجر ہے۔ پھروہ برائیاں ظاہر نہیں ہوں گی اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے پھر جوصغائر یا کبائرہیں ان کا ذکر بھی نہیں فرماتا۔
ایک دوسری جگہ خداتعالیٰ نے قرآن کریم میں کبائر کو بعض دوسرے گناہوں سے ملاکر یہ بھی کھول دیا کہ ہر گناہ جو ہے وہ کبیرہ بن سکتا ہے جیسا کہ سورۃ شوریٰ میں فرماتا ہے

وَالَّذِیْنَ یَجْتَنِبُوْنَ کَبَائِرَ الْاِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ وَاِذَا مَاغَضِبُوْا ھُمْ یَغْفِرُوْن (الشوریٰ :38)

اور جو بڑے گناہوں اور بے حیائی کی باتوں سے اجتنا ب کرتے ہیں اور جب وہ غضبناک ہوں تو بخشش سے کام لیتے ہیں۔ یعنی مومنوں کی یہ نشانی بتائی گئی ہے۔ تو یہاں مومنوں کے ذکرمیں فرمایا کہ وہ بڑے گناہوں سے بچتے ہیں، بے حیائی کی باتوں سے بچتے ہیں۔ اب یہاں دونوں چیزیں اکٹھی ہیں۔ اور غصے سے بچتے ہیں، بلکہ تینوں چیزیں اکٹھی ہیں۔
یہاں ایک بات غور کرنے والی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے۔ حیا بھی ایمان کا حصہ ہے۔ ان لوگوں کے لئے بڑے غور اور فکر کا مقام ہے جو فیشن اور دنیاری کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اور اپنے لباسوں کو اتنا بے حیا کر لیا ہے کہ ننگ نظر آتا ہے اور حیا کو بالکل چھوڑ دیتے ہیں، کہ اللہ تعالیٰ تو ستّاری اور بخشش کرنا چاہتا ہے اور جیسا کہ مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا اقتباس پڑھا، وہ توبندے کی طرف دوڑ کر آتا ہے اگر بندہ اس کی طرف جائے۔ لیکن بندہ اس سے پھر بھی فائدہ نہ اٹھائے تو کتنی بدقسمتی ہے۔
پھر اس آیت میں جیسا کہ مَیں پہلے بھی ذکر کر چکا ہوں، غضبناک ہونے اور غصے اور طیش میں آنے کو بھی اللہ تعالیٰ نے بڑے گناہوں اور بے حیائی کی باتوں کے ساتھ جوڑا ہے۔ کیونکہ غضبناک ہونا بھی ایمان کو کمزور کرتا ہے اور بہت سے گناہ غصّہ کی پیداوار ہیں۔ معاشرے کا امن و سکون غصّہ کی وجہ سے برباد ہوتا ہے۔ انسان اگر سوچے کہ انسان کتنے گناہ اور زیادتیاں اللہ تعالیٰ کی تعلیم کے خلاف عمل کرکے کر جاتا ہے اور ان کا خیال بھی نہیں آتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ پھر بھی انسان کی پردہ پوشی فرماتا رہتا ہے۔ باوجود سزا دینے کی طاقت کے، ذُوْانْتِقَام ہونے کے معاف کر دیتا ہے لیکن بندہ ذرا ذرا سی بات پر غیظ و غضب سے بھر کر فساد کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ پس حقیقی مومن بننے کے لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اپنے غصّہ کو بھی قابو میں رکھو کیونکہ اسی سے پھر پردہ پوشی بھی ہو گی۔ غصّہ کی حالت میں بہت ساری ایسی باتیں نکلتی ہیں جو دوسرے کی پردہ دری کر رہی ہوتی ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
‘’ہماری جماعت کو سرسبزی نہیں آئے گی جب تک وہ آپس میں سچی ہمدردی نہ کریں۔ جس کو پوری طاقت دی گئی ہے وہ کمزور سے محبت کرے۔ مَیں جو یہ سنتا ہوں کہ کوئی اگر کسی کی لغزش دیکھتا ہے تو وہ اس سے اخلاق سے پیش نہیں آتا بلکہ نفرت اور کراہت سے پیش آتا ہے۔ حالانکہ چاہئے تو یہ کہ اُس کے لئے دعا کرے، محبت کرے اور اسے نرمی اور اخلاق سے سمجھائے۔ مگر بجائے اس کے کینہ میں زیادہ ہوتا ہے۔ اگر عفو نہ کیا جائے، ہمدردی نہ کی جاوے اس طرح پر بگڑتے بگڑتے انجام بد ہو جاتا ہے۔ خداتعالیٰ کو یہ منظور نہیں۔ جماعت تب بنتی ہے کہ بعض بعض کی ہمدردی کرے، پردہ پوشی کی جاوے۔ جب یہ حالت پیدا ہو تب ایک وجود ہو کر ایک دوسرے کے جوارح ہو جاتے ہیں اور اپنے تئیں حقیقی بھائی سے بڑھ کر سمجھتے ہیں ‘‘۔
(ملفوظات جلد دوم صفحہ 265-264 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
اس طرح ایک دوسرے کا اعضاء بن جانا چاہئے۔
پس ہم جو اس زمانہ میں آنحضرت ﷺ کے عاشق صادق کی جماعت میں شامل ہیں۔ ہم جنہوں نے آنحضرت ﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق اس زمانہ کے منادی کو بھی قبول کیا ہے۔ ہم جو یہ اعلان کرتے ہیں کہ اس غلام صادق اور امام الزمان کو مانے بغیر اب ایمان کے اعلیٰ معیار حاصل نہیں ہو سکتے۔ ہم جو یہ اعلان کرتے ہیں کہ خداتعالیٰ کی رضا اسی میں ہے کہ اِس مسیح و مہدی پر ایمان لایا جائے۔ ہم جو یہ اعلان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کی تعلیم کو اب مسیح محمدی کے ذریعہ سے دنیا میں رائج ہونا ہے تو پھر ہمیں اپنی عبادتوں پر بھی نظر رکھنی ہو گی، اپنے اعمال پر بھی نظر رکھنی ہو گی، ان تمام گناہوں پر بھی نظر رکھنی ہو گی جن کی اللہ تعالیٰ نے نشاندہی فرمائی ہے۔ اپنی حیاؤں کے معیار بھی بلند کرنے ہوں گے۔ اپنے غیظ و غضب کو بھی گھٹانا ہو گا تاکہ جہاں اللہ تعالیٰ کی ستّاری سے حصہ لینے والے بنیں وہاں دنیا کے لئے بھی ایک نمونہ بن جائیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اس قرآنی دعا کا وارث بنائے جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

رَبَّنَا فَاغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا وَ کَفِّرْعَنَّا سَیِّاٰ تِنَا وَ تَوَفَّنَا مَعَ الْاَبْرَارِ(آل عمران:194)

کہ اے ہمارے ربّ ہمارے گناہ بخش اور ہم سے برائیاں دور کر دے۔ ہماری ساری برائیوں کو اس طرح ڈھانپ دے جیسا ہم نے کبھی کی ہی نہیں تھیں۔

وَ تَوَفَّنَا مَعَ الْاَبْرَارَ

اور ہمیں نیکوں کے ساتھ موت دے۔ ہمیں ان میں شمار کر جن پر تیرے پیار کی نظر پڑتی ہے اور ہم تیرا پیار حاصل کرنے والے بنیں اور ہم ہمیشہ تیری ستّاری سے حصہ پاتے چلے جانے والے ہوں۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں