خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 19؍جون 2009ء

اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ایک نام رَافِعْ ہے۔ یعنی وہ ذات جو مومن کو بلند مقام عطا فرماتی ہے۔
اللہ تعالیٰ رافع ہے لیکن ساتھ ہی قادر بھی ہے۔ وہ جس طرح چاہے کسی کو بلند مقام عطا فرما سکتاہے یا انعام سے نوازسکتاہے۔ لیکن اس نے عمومی طور پر یہ اصول مقرر فرما دیا کہ
وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُہٗ
اور نیک عمل بلندی کی طرف لے جاتاہے۔
آنحضرت ﷺ کا کامل نور تھا جو اللّٰہ تعالیٰ کے نُور کا پَر تو تھا اور اب تاقیامت یہی نو ر ہے جس نے دنیا کو فیض پہنچانا ہے
اس زمانہ میں اس نُور سے سب سے زیادہ حصہ آنحضرتﷺ کے عاشق صادق حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے لیا تاکہ دنیا میں اس نُور کو پھیلا ئیں
آج مسیح محمدیؐ کے غلاموں کی یہی کوشش ہونی چاہئے کہ اپنے اعمال کی بلندی کے لئے جس حد تک بھی نیک عمل بجا لانے کی کوشش ہو سکتی ہو، کی جائے۔
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ مورخہ 19؍جون 2009ء بمطابق19؍احسان 1388 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لند ن (برطانیہ)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ایک نام رَافِعْ ہے۔ یعنی وہ ذات جو مومن کو بلند مقام عطا فرماتی ہے۔ اوربلند مقام کس طرح ملتا ہے؟ یہ ایک مومن کو اس کے نیک اعمال بجا لانے اور اس کے لئے کوشش اور جدوجہد کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے ملتا ہے۔ اور بعض اوقات اللہ محض اور محض اپنے فضل سے انسان کو بلند مقام عطا فرما دیتا ہے اور اس طرح فضل فرماتا ہے کہ جس کے بارے میں انسان بعض دفعہ تصور بھی نہیں کر سکتا اور جو اس کے اولیاء اور خاص بندے ہوتے ہیں ان کو مزید اپنے قریب کرکے ایک خاص قرب کا مقام دے کر مزید بلندیاں عطا فرماتا ہے اور بعض کو انبیاء کا درجہ دے کر اپنی خاص تعلیم کے ذریعہ سے بلند مقام عطا فرماتا ہے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

اِلَیْہِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُہٗ (فاطر:11)

اسی کی طرف پاک کلمہ بلند ہوتا ہے اور نیک عمل اسے بلندی کی طرف لے جاتا ہے۔
یہ آیت جس کا مَیں نے تھوڑا سا حصہ ہی پڑھا ہے، اس آیت کے اس حصہ کہ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُہٗ کے ضمن میں لین(Lane) جولغت کی ایک کتاب ہے جس نے بہت سی لغات سے مطالب اکٹھے کئے ہوئے ہیں، اس نے لکھا ہے کہ نیک اعمال کو وہ قبول کرے گا یا اس کا یہ مطلب ہو سکتا ہے کہ نیک عمل تعریف کا موجب بنتے ہیں یا نیک عمل ہی اعلیٰ مقام کے حصول کا ذریعہ ہے اور نیک عمل کے بغیر انسان کی بات قبول نہیں کی جائے گی۔
پس اللہ تعالیٰ رَافِعْ ہے لیکن ساتھ ہی قادر بھی ہے وہ جس طرح چاہے کسی کو بلند مقام عطا فرما سکتا ہے یا انعام سے نواز سکتا ہے۔ لیکن اس نے عمومی طورپر یہ اصول مقرر فرما دیا کہ

وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُہٗ

اور نیک عمل بلندی کی طرف لے جاتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس ضمن میں فرماتے ہیں کہ: ’’اعمال صالحہ کی طاقت سے ان کا خدائے تعالیٰ کی طرف رفع ہوتا ہے۔ ‘‘
(ازالہ اوہام۔ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 334)
جو اعمال بجا لانے والے لوگ ہیں، نیک لوگ ہیں، مومن لوگ ہیں، ان کا اعمال صالحہ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی طرف رفع ہوتا ہے اور انبیاء کا اس میں بہت بڑا مقام ہے۔
پھر آپؑ نے فرمایا کہ: ‘’مَیں اپنی جماعت کو مخاطب کرکے کہتا ہوں کہ ضرورت ہے اعمال صالحہ کی۔ خداتعالیٰ کے حضور اگر کوئی چیز جا سکتی ہے تو وہ یہی اعمال صالحہ ہیں۔ ‘‘
(ملفوظات جلد اول صفحہ 114 مطبوعہ ربوہ)
پس اس دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کے لئے اعمال صالحہ کی ضرورت ہے اور اگلے جہان میں بھی ایک انسان کی اگراس کے ایمان میں پختگی ہے تو یہی خواہش ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے معیاروں کو حاصل کرے اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہی اصول مقرر فرمایا ہے کہ اعمال صالحہ بجا لاؤ۔
پس اس آیت سے یہ پتہ چلتا ہے کہ جس طرح عرب کے جہالت اور برائیوں میں پڑے ہوئے لوگوں کو کہا جاتا تھا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے زیر اثر آکر نہ صرف تم اپنی برائیاں دور کرو گے بلکہ نیکی، تقویٰ، عزت اور وقار کے اعلیٰ ترین معیار حاصل کرو گے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ جو قومیں آج تمہیں تخفیف کی نظر سے دیکھتی ہیں، تمہیں جاہل اور بدو سمجھتی ہیں، وہ ایک وقت میں تمہارے سامنے جھکنے والی ہو جائیں گی۔ لیکن یہ سب عزت اور بڑائی ان لوگوں کے خالص ایمان کی وجہ سے ہو گی، اعلیٰ اخلاقی قدروں کے نتیجہ میں ہو گی اور نیک اعمال بجا لانے کے نتیجہ میں ہو گی۔ پس اس چیز کے حصول کے لئے کوشش کرو۔ اور پھر دنیا نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک دنیا انہی جاہلوں یا جاہل کہلانے والوں کے زیر نگیں کر دی اور اس بات کو قرآن کریم میں محفوظ فرما کر اللہ تعالیٰ نے آئندہ آنے والے مسلمانوں کے لئے بھی راستے متعین کر دئیے کہ اس اصول کو اپناؤ گے تو اپنا مقام حاصل کرو گے۔ لیکن بدقسمتی سے یہ نیکیاں اپنانے کی بجائے جن کا اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں حکم دیا ہے مسلمان دنیا کی ہوا و ہوس کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔ اور نتیجۃً اسلاف کی جو میراث تھی وہ کھو بیٹھے ہیں۔ خدا کے نام پر مسلمان، مسلمان کے خون کا پیاسا ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج جو غیر ہیں، غیر مسلم ہیں وہ مسلمانوں پر حکمران بنے ہوئے ہیں۔ اپنے مسائل حل کرنے کے لئے مسلمان حکومتیں مغرب کی طرف دیکھتی ہیں، غیروں کی طرف دیکھتی ہیں۔ کسی مسلمان ملک کے اندرونی معاملات خراب ہیں اور وہاں بدامنی اور بے چینی ہے، قتل و غارت ہو رہی ہے تو بجائے مسلمان ملکوں کے کہ انہیں سمجھائیں امریکہ اور یورپ ان معاملات میں دخل اندازی کرتے ہیں۔ ان کے ٹھیک کرنے کے لئے اپنے آپ کو پیش نہیں کرتے بلکہ زبردستی کرتے ہیں۔ اور کیونکہ یہ غیر مسلم حکومتیں ہیں اس لئے پھر ان کے کارندے مسلمانوں سے انتہائی ہتک آمیز سلوک کرتے ہیں۔ پھر مسلمانوں کی طرف سے ایک شور اٹھتا ہے۔ غرض اسلام کی حقیقی تعلیم پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے آج کل مسلمان بلندیوں میں جانے کی بجائے پستیوں کی طرف گر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ اصول بتا یا کہ آنحضرت ﷺ کی پیروی میں اعلیٰ اعمال ہی تمہارے لئے اونچے مقام دلانے والے ہو سکتے ہیں۔
پس سوچو اور غور کرو اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کرو۔ لیکن سوچنے اور غور کرنے کے بعد بھی مسلمان علماء اور مسلمانوں کے لیڈر یہ تو کہتے ہیں کہ ہمارے عمل غیر صالح ہونے کی وجہ سے، ہماری حرکات کی وجہ سے ہمیں بلندیوں کی بجائے ذلت کا سامنا ہے۔ لیکن یہ ماننے کو تیار نہیں کہ عمل صالح بجا لانے کے جو طریقے خداتعالیٰ نے بتائے ہیں، ان پر اس زمانہ میں خاص طورپرکس طرح عمل کرنا ہے۔ آنحضرت ﷺ کا وہ عاشق صادق جو خدا کے بعد ہر وقت آپ کے عشق میں مخمور رہتا تھا اور اس عشق رسول کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اسے زمانے کا امام اور مہدی اور مسیح بنا کر بھیجا تھا اور اپنے نور سے اُسے منور کیا اس عاشق رسول کا تم انکار کر رہے ہو اور نہ صرف انکار کر رہے ہو بلکہ آج مسلمان ہونے کی تعریف ہی یہی ہے کہ جو اس عاشق صادق کو گالیاں دے، ہر تحریر میں گندے اور بیہودہ الفاظ استعمال کر ے وہی سچا مسلمان کہلاتا ہے۔ اس عاشق رسول نے تو یہ اعلان کیا تھا اور اعلان کرتا ہے کہ ؎

جب سے یہ نور ملا نورِ پیمبرؐ سے ہمیں
ذات سے حق کی وجود اپنا ملایا ہم نے

اور پھر فرمایا:

مصطفیؐ پر تیرا بے حد ہو سلام اور رحمت
اس سے یہ نور لیا بار خدایا ہم نے

(آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 225)
اور یہ ظالم کہتے ہیں کہ نعوذ باللہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کافر ہیں کیونکہ آنحضرت ﷺ کے مقام کی ہتک کرتے ہیں۔ پس وہ نُور جو آنحضرت ﷺ کا نُور ہے، جس کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے اس کا صحیح ادراک اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے علاوہ نہ کسی کو ہے اورنہ کسی کو ہو سکتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی تقدیر نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ آپؑ ہی وہ عاشق صادق ہیں جن کو آپ کے مقام کا اور نور کا ادراک ہے۔ اس نُور کی خوبصورتی کو جس انداز میں آپؑ نے پیش فرمایا ہے وہ آپ کا ہی حصہ ہے۔ پس آج عمل صالح کرکے بلند مقام پانے والے وہی لوگ ہوں گے جو اس عاشق صادق سے حقیقی رنگ میں جڑ جائیں گے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آنحضرت ﷺ کے مقام اور نور محمدی کی سورۃ نور کی ایک آیت کی روشنی میں جو تفسیر فرمائی ہے وہ مَیں پیش کرتا ہوں۔ یہ سورۃ نور کی آیت 36 ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

اَللّٰہُ نُوْرُالسَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۔ مَثَلُ نُوْرِہٖ کَمِشْکٰوۃٍ فِیْھَا مِصْبَاحٌ۔ اَلْمِصْبَاحُ فِی زُجَاجَۃٍ۔ اَلزُّجَاجَۃُ کَاَنَّھَا کَوْکَبٌ دُرِّیٌّ یُّوْقَدُ مِنْ شَجَرَۃٍ مُّبٰرَکَۃٍ زَیْتُوْنَۃٍ لَّا شَرْقِیَّۃٍ وَّلَا غَرْبِیَّۃٍ۔ یَّکَادُ زَیْتُھَا یُضِیْ ٓ ءوَلَوْ لَمْ تَمْسَسْہُ نَارٌ۔ نُوْرٌ عَلٰی نُوْرٌ۔ یَھْدِی اللّٰہُ لِنُوْرِہٖ مَنْ یَّشَآءُ۔ وَیَضْرِبُ اللّٰہُ الْا َمْثَالَ لِلنَّاسِ۔ وَاللّٰہُ بِکُلِّ شَیْ ءعَلِیْمٌ۔ (النور:36)

کہ اللہ آسمان اور زمین کا نور ہے، اس کے نور کی مثال ایک طاق کی سی ہے جس میں ایک چراغ ہے وہ چراغ شیشہ کے شمع دان میں ہو، وہ شیشہ ایسا ہو گویا ایک چمکتا ہوا روشن ستارہ ہے۔ وہ چراغ زیتون کے ایک ایسے مبارک درخت سے روشن کیا گیا ہو جو نہ مشرقی ہو اور نہ مغربی۔ اس کا تیل ایسا ہے کہ قریب ہے کہ وہ از خود بھڑک کرروشن ہو جائے۔ خواہ اسے آگ کا شعلہ نہ بھی چھوا ہو۔ یہ نورٌ علی نور ہے۔ اللہ اپنے نور کی طرف جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور اللہ لوگوں کے لئے مثالیں بیان کرتا ہے اور اللہ ہر چیز کا دائمی علم رکھنے ولا ہے۔ پہلے

اَللّٰہُ نُوْرُالسَّمٰوٰتِ وَالْاَرْض

کی وضاحت کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ ’’خدا آسمان و زمین کا نور ہے۔ یعنی ہر ایک نور جو بلندی اور پستی میں نظر آتا ہے خواہ وہ ارواح میں ہے‘‘۔ (روحوں میں ہو)، ’’خواہ اجسام میں اور خواہ ذاتی ہے اور خواہ عرضی‘‘ (یعنی وہ نور خواہ کسی کی ذاتی خوبی کی وجہ سے اس میں نظر آرہا ہے یا کسی سے مانگ کے لیا ہے) ‘’اورخواہ ظاہری ہے اور خواہ باطنی اور خواہ ذہنی ہے خواہ خارجی۔ اُسی کے فیض کا عطیّہ ہے۔ ‘‘ (یہ تمام قسم کے جو نور ہیں، یہ اللہ تعالیٰ کے فیض کا عطیہ ہیں)۔ ’’یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ حضرت ربّ العالمین کا فیضِ عام ہر چیز پر محیط ہو رہاہے اور کوئی اس کے فیض سے خالی نہیں۔ وہی تمام فیوض کا مبدء ہے‘‘۔ (اسی سے تمام فیض پھوٹتے ہیں)’’اور تمام انوار کا علّت العلل‘‘ ہے۔ (یعنی وہی تمام نوروں کی وجہ بنتا ہے) ’’اور تمام رحمتوں کا سرچشمہ ہے۔ اسی کی ہستی ٔ حقیقی تمام عالم کی قیوم‘‘ (تمام کائنات کو قائم رکھنے والی) ’’اور تمام زیر و زبر کی پناہ ہی وہی ہے‘‘ (جو بھی الٹ پلٹ ہے، تباہی ہے، بربادی ہے، تعمیر ہے، تخریب ہے، ہر چیز کی پناہ وہی ہے)۔ ’’جس نے ہر ایک چیز کو ظلمت خانۂ عدم سے باہر نکالااور خلعت وجود بخشا……‘‘۔ (یعنی پہلے کچھ چیز نہیں تھی۔ ایک بند کائنات تھی، پھر اللہ تعالیٰ نے اس کو پیدا کیا اور اس کو وجود بخشا)۔ فرمایا ’’یہ تو عام فیضان ہے‘‘۔ (یہ ایک ایسا فیضان ہے جس سے ہر ایک فائدہ اٹھا رہا ہے)۔ ’’جس کا بیان آیت

اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْض

میں ظاہر فرمایا گیا۔ یہی فیضان ہے جس نے دائرہ کی طرح ہر یک چیز پر احاطہ کر رکھا ہے‘‘۔ (دنیا کی ہر مخلوق جو ہے وہ چاہے مومن ہے غیر مومن ہے۔ پتھر ہیں، پہاڑ ہیں، پانی ہے، جانور ہیں، ہر چیز پر اللہ تعالیٰ نے احاطہ کر رکھا ہے)۔ ’’جس کے فائز ہونے کے لئے کوئی قابلیت شرط نہیں۔ لیکن بمقابلہ اس کے ایک خاص فیضان بھی ہے جو مشروط بشرائط ہے‘‘۔ (ایک ایسا فیض ہے جو خاص ہے، اس کی بعض شرطیں ہیں)۔ ‘’اور انہیں افرادِ خاصہ پر فائض ہوتا ہے جن میں اس کے قبول کرنے کی قابلیت و استعداد موجود ہے‘‘۔ (اور یہ جو خاص فیضان ہے یہ انہی لوگوں کے لئے ہے جن میں وہ استعدادیں بھی موجود ہوں جو اس کو قبول کر سکتی ہیں)۔ ’’یعنی نفوس کاملہ انبیاء علیہم السلام پر جن میں سے افضل واعلیٰ ذاتِ جامع البرکات حضرت محمد مصطفی ﷺ ہے‘‘۔ (اور یہ جو قابلیت اور استعدادیں رکھنے والے لوگ ہیں وہ سب سے زیادہ انبیاء علیہم السلام ہیں اور انبیاء میں بھی سب سے زیادہ استعدادیں اور قابلیت رکھنے والی ذات آنحضرت ﷺ کی ہے جو تمام قسم کی برکات کا مجموعہ ہے)۔ ’’دوسروں پرہرگز نہیں ہوتا۔ اور چونکہ وہ فیضان ایک نہایت باریک صداقت ہے‘‘۔ (ایک ایسی سچائی ہے جو بہت غور کرنے سے نظر آتی ہے۔ یہ جو فیض ہے اللہ تعالیٰ کا خاص فیض ہے) ’’اور دقائق حکمیہ میں سے ایک دقیق مسئلہ ہے‘‘۔ اور حکمت کی جو باریکیاں ہیں ان میں سے یہ ایک بڑا باریک مسئلہ ہے۔ ہر ایک کو یہ نظر نہیں آسکتا)۔ ’’اس لئے خداوندتعالیٰ نے اول فیضانِ عام کو…’‘(جو ظاہر میں ظاہر ہو رہا ہے) ’’بیان کرکے‘‘(یعنی اللہ تعالیٰ تمام زمین و آسمان کا نور ہے اس کو بیان کرکے پھر فرمایا ہے) ’’پھر اس فیضانِ خاص کو بغرض اظہار کیفیت نور حضرت خاتم الانبیاء ﷺ ایک مثال میں بیان فرمایا ہے۔ ‘‘ (پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنانور بیان فرمایا کہ اللہ زمین و آسمان کا نور ہے اور کوئی چیز اس سے باہر نہیں۔ وہی ہر چیز کی پیدائش ہے اور وہی ہر چیز کو قائم رکھنے والا ہے۔ پھر اس خاص نور کی طرف اشارہ فرمایا اور اس کی ایک مثال دی جو خاص نور کی انتہاء ہے وہ آنحضرت ﷺ کی ذات میں ہے) ’’کہ جو اس آیت سے شروع ہوتی ہے۔ ‘‘ (آیت کے اس حصہ سے کہ)

’’مَثَلُ نُوْرِہٖ کَمِشْکٰوۃٍ فِیْھَا مِصْبَاحٌ …الخ’‘

یعنی ’’اس نور کی مثال (فردِ کامل میں جو پیغمبر ہے) یہ ہے جیسے ایک طاق…‘‘ (یعنی دیوار پہ جوایک خانہ بنا ہوتا ہے۔ ایسی جگہ جو دیوار میں خاص روشنی رکھنے کے لئے یا چیزیں رکھنے کے لئے بنائی جاتی ہے عموماًروشنی کے لئے بنائی جائے اس کو طاق کہتے ہیں)۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’وہ طاق آنحضرت ﷺ کا وسیع تر سینہ ہے اور اس طاق میں ‘‘ (یہ ایک مثال بیان ہو رہی ہے) ’’اوراُس طاق میں ایک چراغ ہے’‘(ایک روشنی کا لیمپ ہے اور یہ چراغ اللہ تعالیٰ کی وحی ہے اور یہ جو فرمایا کہ وہ چراغ شیشے کے شمع دان میں ہے۔ شمع دان میں جب چراغ رکھا ہویہ مثال اس لئے دی ہے کہ جب شمع دان میں چراغ رکھا ہو تو آندھیوں وغیرہ سے محفوظ رہتا ہے۔ جب ایک گلوب میں روشنی ہوتی ہے یا کوئی بھی شعلہ تو ایک تو باہر کی ہواؤں سے اور موسمی اثرات سے محفوظ رہتا دوسرے اس کی روشنی بڑھ جاتی ہے۔ جیسا کہ ہمارے عام آدمی بھی جانتے ہیں کہ تیسری دنیا میں، غریب ملکوں میں تو ہر جگہ مٹی کے تیل کی لالٹینیں استعمال کی جاتی ہیں کہ اس شیشہ کے گلوب کی وجہ سے حفاظت رہتی ہے۔ وہی شعلہ اگر ویسے ہوا میں رکھا جائے تو بجھ جائے لیکن اسی کو جب لالٹین میں رکھ کر اس کے اوپر چمنی چڑھا دی جاتی ہے یا گلوب چڑھا دیا جاتا ہے تو شعلہ محفوظ ہو جاتا ہے اور جہاں جدید قسم کی ٹارچیں وغیرہ نہیں ہوتیں لوگ آندھیوں میں بھی لے کے پھر رہے ہوتے ہیں۔ اور جہاں لیمپ یا ٹارچ کا سوال پیدا ہو وہاں جب بھی اس کے اوپر شیشہ چڑھایا جائے، گلوب چڑھایا جائے، ریفلیکٹر (Reflecter) چڑھایا جائے تو روشنی مزید پھیلتی ہے۔
تو بہرحال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ وہ ’’چراغ ایک شیشہ کی قندیل میں جو نہایت مصفّٰی ہے (یعنی نہایت پاک اور مقدس دل میں جو آنحضرت ﷺ کا دل ہے جو کہ اپنی اصل فطرت میں شیشۂ سفید اور صافی کی طرح ہریک طور کی کثافت اور کدورت سے منزّہ اور مطہر ہے‘‘ (ہر چیز سے ہر گند سے پاک ہے آنحضرت ﷺ کا دل)۔ ’’اور تعلقات ِماسوی اللہ سے بکلی پاک ہے’‘(یعنی آپؐ کا دل ہر چیز سے پاک ہے اور وہی ایسا ہے جو اتنا صاف اور پاک ہے اور اللہ تعالیٰ کی محبت میں یوں ڈوبا ہوا ہے کہ سوائے اللہ تعالیٰ کی محبت کے اس میں سے کچھ نظر ہی نہیں آتا اور یہی اس بات کا حقدار ہے کہ اللہ تعالیٰ کی وحی اس دل میں اترتی اور جب وحی الٰہی اس روشن اور صاف دل میں اتری تو اس کی روشنی اور چمک یوں دنیا کو روشن کرنے والی بنی جیسے چمکتا ہوا روشن ستارہ ہے۔ جو دیکھنے والے تھے، جن کو اللہ تعالیٰ ہدایت دینا چاہتا تھا ان کو وہ روشنی نظر آئی۔
پھر اللہ تعالیٰ نے مثال بیان فرمائی کہ’’زیتون کے شجرۂ مبارکہ سے(یعنی زیتون کے روغن سے) روشن کیا گیا ہے‘‘۔ تو آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’شجرہ ٔمبارکہ زیتون سے مراد وجود مبارک محمدیؐ ہے‘‘۔ (اس درخت سے مرادآنحضرت ﷺ کا مبارک وجود ہے) ’’کہ جو بوجہ نہایت جامعیت و کمال انواع واقسام کی برکتوں کا مجموعہ ہے‘‘ (وہ مختلف قسم کی برکتوں کا مجموعہ ہے۔ اس لئے کہ وہ تمام کمالات کا جامع ہے۔ ہر قسم کا کمال اس میں جمع ہوا ہوا ہے)۔ ’’جس کا فیض کسی جہت و مکان و زمان سے مخصوص نہیں۔ ‘‘ (کسی خاص طرف اس کا فیض نہیں جا رہا۔ کسی خاص جگہ پر اس کا فیض نہیں ہے کسی خاص زمانے کے لئے اس کا فیض نہیں ہے۔ بلکہ تمام جگہوں پر، تمام طرفوں میں، تمام مکانوں میں اور تمام زمانوں کے لئے تا قیامت یہ فیض جاری رہے گا)۔ ’’بلکہ تمام لوگوں کے لئے عام علیٰ سبیل الدوام ہے اور ہمیشہ جاری ہے کبھی منقطع نہیں ہو گا۔ ‘‘(پس ضرورت اس بات کی ہے کہ اس راستے پر چلا جائے جہاں سے یہ جوجاری فیض ہے ہمیشہ ملتا رہے اور وہ راستہ آپؐ کی لائی ہوئی شریعت کی پیروی ہے اور احکامات کی تعمیل ہے)۔
پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’یہ جو فرمایا کہ اس شجرۂ مبارکہ کے روغن سے جوچراغِ وحی روشن کیا گیاہے سو روغن‘‘(یعنی تیل جو ہے، اس) ’’سے مراد عقلِ لطیف نورانی محمدی مع جمیع اخلاقِ فاضلہ فطرتیہ ہے۔ ‘‘ (یہ تیل جو ہے وہ آنحضرت ﷺ کا وہ اعلیٰ مقام ہے جو نور سے بھرا ہوا ہے۔ جس میں تمام اخلاق فاضلہ ہیں اور وہ فطرت میں، آپ کے ذہن اور دماغ میں رکھے گئے ہیں جو) ’’اُس عقلِ کامل کے چشمۂ صافی سے پروردہ ہیں ‘‘۔ (پس آپ ﷺ کی ذہنی صلاحیتیں اور آپؐ کے اخلاق فاضلہ اس بات کے حقدار ٹھہرے کہ اس تیل کا کردار ادا کریں جو چراغ کو جلانے کے لئے کام آتا ہے)۔
پھر خداتعالیٰ نے جو یہ فرمایا کہ ’’اورشجرہ ٔمبارکہ نہ شرقی ہے نہ غربی‘‘ تو اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’یعنی طینت پاک محمدیؐ میں نہ افراط ہے نہ تفریط‘‘۔ (آپؐ کی ایسی طبیعت ہے، ایسی فطرت ہے کہ اس میں نہ افراط ہے نہ تفریط ہے)۔ ’’بلکہ نہایت توسط و اعتدال پر واقع ہے اور احسن تقویم پر مخلوق ہے……۔ ‘‘ (ایک انتہائی اعلیٰ شکل کی اس کی بناوٹ ہے)۔ آنحضرت ﷺ کی فطرت تو پہلے ہی نیک تھی اوربیلنسڈ(Balanced) تھی اور (آپ پر وحی کے ہونے سے پہلے کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ کس طرح آپ ہمیشہ انصاف پر چلنے والے اور صحیح فیصلے کرنے والے تھے۔ آپؐ کی طبیعت (حق کی طرف جھکی ہوئی تھی اور اس زمانے کے کفّار آپ سے فیصلے کروایا کرتے تھے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کی وحی بھی اس فطرت کے مطابق نازل ہوئی۔ یا اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو اس فطرت کے ساتھ پیدا فرمایا جس میں نہ افراط ہو اور نہ تفریط ہو تاکہ وہ وحی الٰہی جو آپؐ پر اترنی ہے جس نے دین کو ہر لحاظ سے کامل کرنا ہے اس کے آپؐ پَر تو بن سکیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’جیسے حضرت موسیٰعلیہ السلام کے مزاج میں جلال اور غضب تھا۔ توریت بھی موسوی فطرت کے موافق ایک جلالی شریعت نازل ہوئی۔ حضرت مسیحعلیہ السلام‘‘ کے مزاج میں حلم اور نرمی تھی۔ ’’سوانجیل کی تعلیم بھی حلم اور نرمی پر مشتمل ہے۔ مگر آنحضرت ﷺ کا مزاج بغایت درجہ وضع استقامت پر واقعہ تھا۔ نہ ہر جگہ حلم پسند تھا‘‘(نرمی پسند تھی) ‘’نہ ہر مقام غضب مرغوب خاطر تھا۔ بلکہ حکیمانہ طور پر رعایت محل اور موقعہ کی ملحوظ طبیعت مبارک تھی۔ ‘‘(یعنی موقع اور محل کے لحاظ سے آپ فیصلہ فرمایا کرتے تھے۔ سو جہاں سختی کی ضرورت ہے وہاں سختی، جہاں نرمی کی ضرورت ہے وہاں نرمی)۔ ’’سو قرآن شریف بھی اسی طرز موزون و معتدل پر نازل ہوا’‘(اور یہی تعلیم پھر قرآن کریم لے کرآیا) ’’کہ جامع شدت و رحمت و ہیبت و شفقت و نرمی و درشتی ہے۔ ’‘(قرآن کریم کی تعلیم میں شدت بھی ہے، رحمت بھی ہے۔ جہاں ڈرانے کی ضرورت ہے وہاں ہیبت، خوف بھی دلایا گیا ہے۔ جہاں شفقت و نرمی کی ضرورت ہے وہاں شفقت و نرمی بھی موجود ہے۔ جہاں نرمی کی ضرورت ہے وہاں نرمی موجود ہے۔ جہاں ڈانٹ ڈپٹ کی ضرورت ہے وہاں درشتی موجود ہے)۔ ’’سو اس جگہ اللہ تعالیٰ نے ظاہر فرمایا کہ چراغ وحیٔ فرقان اس شجرۂ مبارکہ سے روشن کیا گیا ہے۔ ‘‘ (تو آنحضرت ﷺ کی جو فطرت تھی اس کے مطابق اللہ تعالیٰ کی قرآن کریم کی جو وحی تھی، اس سے پھریہ شجرہ مبارک یعنی آنحضرت ﷺ کا جو وجودہے وہ روشن کیا گیا) ’’کہ نہ شرقی ہے نہ غربی (ہے)۔ ‘‘ اور یہی قرآن کریم کی تعلیم کا ایک منفرد اور بلند مقام ہے جس کو کوئی بھی سابقہ تعلیم نہیں پہنچ سکتی۔
اور یہی مقام آنحضرت ﷺ کا ہے جس کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں ’’اللہ تعالیٰ نے آنحضرتؐ کو مخاطب کرکے فرمایا ہے اور وہ یہ ہے اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ (الجزو نمبر 29)۔ یعنی تُو اے نبی ایک خُلقِ عظیم پر مخلوق و مفطور ہے۔ ‘‘ (یعنی اسی پر پیدا کیا گیا ہے اور تیری فطرت میں یہ رکھا گیا ہے)۔ ’’یعنی اپنی ذات میں تمام مکارم اخلاق کا ایسا متمم و مکمل ہے کہ اس پر زیادت متصور نہیں ‘‘۔ (کیونکہ جو انسانی سوچ جا سکتی تھی اعلیٰ اخلاق کی اور ہر قسم کی خصوصیات کی ایک انسان کامل میں، وہ آنحضرت ﷺ کی ذات میں موجود ہے اور اس سے زیادہ تصور ہی نہیں کی جا سکتی)۔ ’’کیونکہ لفظ عظیم محاورہ ٔ عرب میں اس چیز کی صفت میں بولا جاتا ہے جس کو اپنا نوعی کمال پورا پورا حاصل ہو…۔ ‘‘ (عظیم جو ہے وہ ایسی صفت ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ کسی چیز کی جو بھی انتہائی استعدادیں ہیں، کسی بھی نوع کی جو استعدادیں اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں میں رکھی ہیں ان کا جو بھی کمال ہے وہ اللہ تعالیٰ نے عظیم کا یہ لفظ استعما ل کر کے آنحضرت ﷺ کی ذات میں پورا فرمایا۔
پھر آپؑ اس کی مزید وضاحت فرماتے ہوئے فرماتے ہیں کہ’’وہ تیل ایسا صاف اور لطیف ہے’‘ایسا ہلکا ہے اور بھڑک اٹھنے والاہے کہ بِن آگ کے ہی روشن ہو سکتا ہے ’’کہ بِن آگ ہی روشن ہونے پر آمادہ ہے‘‘۔ (اس کو آگ نہ بھی دکھاؤ تب بھی وہ روشن ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے)’’یعنی عقل اور جمیع اخلاق فاضلہ اس نبی معصوم کے ایسے کمال موزونیت و لطافت و نورانیت پر واقعہ کہ الہام سے پہلے ہی خود بخود روشن ہونے پر مستعد تھے۔ ‘‘ (وحی الٰہی جب نہیں آئی تب بھی وہ اخلاق ایسے اعلیٰ پایہ کے تھے، اللہ تعالیٰ نے ایسی فطرت بنائی تھی کہ اس زمانے کے جو لوگ تھے تب بھی آپ سے روشنی حاصل کرتے تھے)۔

’’نُوْرٌعَلٰی نُوْر۔

نور فائض ہوا نور پر۔ یعنی جبکہ وجودمبارک حضرت خاتم الانبیاء ﷺ میں کئی نورجمع تھے‘‘ (سو ان نُوروں پر پہلے ہی کئی نور جمع تھے)۔ ’’سو اُن نُوروں پر ایک اور نُور آسمانی جو وحی الٰہی ہے واردہو گیا اور اس نور کے وارد ہونے سے وجود باجود خاتم الانبیاء کا مجمع الانوار بن گیا۔ ’‘(پھر نوروں کا ایک مجموعہ بن گیا۔ پس اس میں یہ اشارہ ہے آپ فرماتے ہیں کہ) ’’پس اس میں یہ اشارہ فرمایا کہ نور وحی کے نازل ہونے کا یہی فلسفہ ہے کہ وہ نور پر ہی وارد ہوتا ہے۔ تاریکی پرو ارد نہیں ہوتا۔ کیونکہ فیضان کے لئے مناسب شرط ہے۔ اور تاریکی کو نور سے کچھ مناسبت نہیں۔ بلکہ نور کو نور سے مناسبت ہے اور حکیم مطلق بغیر رعایت مناسبت کوئی کام نہیں کرتا‘‘ (اللہ تعالیٰ کہ جس کا ہر کام حکمت پر منحصر ہے وہ بغیر کسی مناسبت کے کوئی کام نہیں کرتا۔ بغیر حکمت کے کوئی کام نہیں کرتا۔ اور فرماتے ہیں کہ)’’ایسا ہی فیضان نور میں بھی اس کا یہی قانون ہے۔ ‘‘ (جنہوں نے نور سے فیض پانا ہے۔ جوعام آدمی ہیں ان کے لئے بھی اس کا یہی قانون ہے) ’’کہ جس کے پاس کچھ نور ہے اسی کو اور نُور بھی دیا جاتا ہے۔ ‘‘ (جو فطرت نیک ہو گی اسی کو پھر اللہ تعالیٰ صحیح راہنمائی فرمائے گا)۔ ’’اور جس کے پاس کچھ نہیں اس کو کچھ نہیں دیا جاتا۔ جو شخص آنکھوں کا نور رکھتا ہے وہی آفتاب کا نور پاتا ہے۔ ‘‘ (جس کی آنکھیں ہیں وہی سورج کو دیکھ سکتا ہے)۔ ’’اور جس کے پاس آنکھوں کا نور نہیں وہ آفتاب کے نور سے بھی بے بہرہ رہتا ہے۔ اور جس کو فطرتی نور کم ملا ہے اس کو دوسرا نور بھی کم ہی ملتا ہے۔ اورجس کو فطرتی نور زیادہ ملا ہے۔ اس کو دوسرا نور بھی زیادہ ہی ملتا ہے۔ ‘‘
(براہین احمدیہ روحانی خزائن جلد اول صفحہ 191 تا 196 حاشیہ نمبر 11)
اللہ تعالیٰ نے فطرت میں استعدادوں کے مطابق نُور رکھا ہے۔ نیک فطرت نیکیوں کو زیادہ جذب کرتا ہے جس میں کمی ہے وہ کم جذب کرتا ہے اور اپنی اپنی استعدادوں کے مطابق ہر کوئی اس نُور سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ پس یہ آنحضرت ﷺ کا کامل نُور تھا جو اللہ تعالیٰ کے نُور کا پرتَو تھا اور اب تاقیامت یہی نُور ہے جس نے دنیا کو فیض پہنچانا ہے۔ لیکن یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ اس زمانہ میں اس نُور سے سب سے زیادہ حصہ آنحضرت ﷺ کے عاشق صادق نے لیا جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی بیان کیاہے تاکہ دنیا میں اس نور کو پھیلائے۔ وہ آخری وحی جس کی روشنی تمام دنیا کے تمام کناروں تک پھیلنی ہے اسے اونچے سے اونچے میناروں پر رکھتا چلا جائے تاکہ دنیا اس کی روشنی سے فیضیاب ہو اور اس کام کو جاری رکھنے کی وجہ سے آپؑ کو، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو خاتم الخلفاء کہا گیا ہے کہ آپؑ سے پہلے جو بھی اولیاء اور مجددین آئے ان کے ذریعہ مخصوص لوگوں اور مخصوص علاقوں میں اس تعلیم کو پھیلانے کا کام ہوتا رہا جو آنحضرت ﷺ لے کر آئے تھے۔
اب مسیح محمدی کے ذریعہ سے اس چراغ کو اونچے ترین طاقوں پر رکھ کردنیا کے تمام کناروں تک یکدفعہ پہنچانے کا جو کام ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ سے ہی ہونا ہے۔ اور آج ہم دیکھیں تو یہ کام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ماننے والوں کے ذریعہ سے ہی ہو رہاہے جو اسلام کی حقیقی تعلیم کو آنحضرت ﷺ کے اسوہ حسنہ کے مطابق پھیلانے کے کام انجام دے رہے ہیں اور اونچے ترین میناروں سے آپ کے اُسوہ، آپ کے اخلاق کو اورآپ کی تعلیم کوتمام دنیا میں یکدفعہ اس کو دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اور اس خاتم الخلفاء کے بعد نظام خلافت ہی ہے جس نے اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت سے ان طاقوں اور میناروں کو اونچا کر کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مفوضہ فرائض کو پورا کرنا ہے۔
اور پھر اس آیت سے جو اگلی آیت ہے اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

فِیْ بُیُوْتٍ اَذِنَ اللّٰہُ اَنْ تُرْفَعَ وَیُذْکَرَ فِیْھَا اسْمُہٗ۔ یُسَبِّحُ لَہٗ فِیْھَا بِالْغَُدُوِّ وَالْاٰصَالِ(النور:37)

کہ ایسے گھروں میں جن کے متعلق اللہ نے اذن دیا ہے کہ انہیں بلند کیا جائے اور ان میں اس کے نام کا ذکر کیا جائے، ان میں صبح و شام اس کی تسبیح کرتے ہیں۔ یعنی یہ نور مسلمانوں کے گھروں میں ہے۔ ان گھروں میں جو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق عمل کرنے والے ہیں۔ اپنی زندگیوں کو ڈھالنے والے ہیں۔ عبادات بجا لانے والے ہیں۔ عمل صالح کی طرف ہر وقت توجہ رکھنے والے ہیں اور اسوہ رسول ﷺ کی پیروی کرنے والے ہیں۔ اور ایسے گھروں کے بارہ میں خداتعالیٰ نے فرمایا ہے کہ انہیں بلند کیا جائے گا، ان کا رفع کیا جائے گا۔ اور ایسے گھر جن کو بلند کیا جائے ان کی یہ نشانی بتائی گئی کہ وہ گھر ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کے نام کا ذکر کیا جاتا ہے اور اس میں صبح و شام اس کی تسبیح کی جاتی ہے۔ یعنی نمازوں کی پابندی ہوتی ہے۔ پس اس نور سے حصہ لینے کے لئے اور دین کامدد گار بننے کے لئے پہلی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جائے اور عبادتوں کی طرف توجہ دی جائے۔ صبح کی نماز بھی اور شام کی نماز بھی۔ صبح و شام کی عبادتوں کا ذکر ہے۔ پس جس نور سے حصہ لینا ہے اور اس کے فیض یافتہ لوگوں میں شمار ہونا ہے تو اس کے لئے پھر نبی کریم ﷺ کی اس بات کو بھی یاد رکھنا ہو گا کہ میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے۔ (سنن النسائی کتاب عشرۃ النساء باب حب النساء حدیث نمبر 3940)اور یہ نماز ہی ہے جو ہر ایک کو اپنی اپنی استعدادوں کے مطابق اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے والی بنے گی۔ عام طور پر ظہر عصر کی نمازیں جمع کرنے کا بڑا رواج ہو جاتا ہے جو سوائے مجبوری کے نہیں ہونا چاہئے۔ بعض دفعہ مجبوری میں ہوتا ہے لیکن ایک عادت نہیں بن جانی چاہئے۔
ایک حدیث میں آتا ہے، مسند احمد بن حنبل کی روایت ہے کہ حضرت ابو ایوب انصاریؓ سے روایت ہے۔ ان کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ وہ ظہر کی نماز سے قبل چار رکعتیں ادا کیا کرتے تھے۔ کسی نے ان سے پوچھا کہ آپ نے نماز سے پہلے ان چار رکعات پر دوام کیوں اختیار کیا ہے، بڑی باقاعدگی رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ایسا کرتے دیکھا ہے۔ مَیں نے آپؐ سے پوچھا یعنی انہوں نے آنحضرت ﷺ سے پوچھا تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا یہ ایک ایسی گھڑی ہے جس میں آسمانوں کے دروازے کھولے جاتے ہیں۔ اس لئے مَیں پسند کرتا ہوں کہ اس گھڑی میں میرا کوئی نیک عمل بلند ہو۔
(مسند احمد بن حنبل مسند ابو ایوب الانصاری جلد 7 صفحہ 777 حدیث 23947 ایڈیشن 1998ء مطبوعہ بیروت)
پس یہ تھے وہ لوگ جو اس نُور سے براہ راست فیض پاتے ہوئے اپنے ہر نیک عمل کو اپنی بلندی درجات کا ذریعہ بنانے کی کوشش کرتے تھے اور ان کے ہی گھر تھے جو اُس بلند مقام تک پہنچے۔ یہی وہ لوگ تھے جو اس بلند مقام تک پہنچے۔ وہ رضی اللہ عنہم بنے اور بعد میں آنے والوں کے لئے ایک نمونہ ٹھہرے۔
آج مسیح محمدی کے غلاموں کا بھی یہی کام ہے اور ان کی یہی کوشش ہونی چاہئے کہ اپنے اعمال کی بلندی کے لئے جس حد تک بھی نیک عمل بجا لانے کی کوشش ہو سکتی ہو، کی جائے۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ نُور سے وہی فیض پائے گا جس کے پاس کچھ نُور ہو۔ اور اس کے حصول کے لئے اعمال شرط ہیں اور ہر موقع جو اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے والا ہے اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ضرورت ہے۔
پھر ایک اگلی آیت میں اس کی مزید وضاحت فرمائی کہ صبح شام ذکر کس طرح کرنا ہے جس سے گھروں کو بلند کیا جائے گا۔ سورۃ نُور میں ہی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

رِجَالٌ لَّا تُلْھِیْھِمْ تِجَارَۃٌ وَّلَا بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِاللّٰہِ وَاِقَامِ الصَّلٰوۃِ وَاِیْتَآءالزَّکٰوۃِ۔ یَخَافُوْنَ یَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِیْہِ الْقُلُوْبُ وَالْاَبْصَارُ (النور:38)

ایسے عظیم مرد جنہیں نہ کوئی تجارت اور نہ کوئی خرید و فروخت اللہ تعالیٰ کے ذکر سے یا نماز کے قیام سے یا زکوٰۃ کی ادائیگی سے غافل کرتی ہے۔ وہ اُس دن سے ڈرتے ہیں جس میں دل خوف سے الٹ پلٹ ہو رہے ہوں گے اور آنکھیں بھی۔ پس اس کے بھی مقام ہیں جو صحابہؓ نے اس نور سے حصہ پاکر حاصل کئے۔ باوجود تمام گھریلو ذمہ داریوں کے، باوجود تمام معاشرتی ذمہ داریوں کے، باوجود تمام کاروباری ذمہ داریوں کے انہیں حقوق اللہ کی ادائیگی سے کوئی چیز غافل نہیں کر سکی۔ وہ اپنی عبادتوں کے اعلیٰ معیارقائم کرنے والے تھے۔ وہ اپنی نمازوں کو وقت پر اور باجماعت ادا کرنے والے تھے۔ جیسا کہ میں نے حدیث سے بتایا تھا کہ ظہر کی چار سنتیں اس لئے باقاعدگی سے پڑھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بنیں، اپنا رفع کرنے والے بنیں۔ اسی طرح یہاں یہ بھی بیان ہوا کہ وہ زکوٰۃ دے کر دین کی ضرورتیں پوری کرنے والے تھے اور حقوق العباد کی ادائیگی کرنے والے بھی تھے۔
پس اس مجسم نُور سے منسوب ہونے کی وجہ سے ان لوگوں کے یہ نمونے تھے جو آج تک ہمارے لئے مثال ہیں۔ آج بھی اِن نمونوں کو قائم کرنے کی ضرورت ہے جس طرح کہ اوّلین نے یہ قائم کئے تھے۔ آج کل اس زمانہ میں تجارت اور بیع کی طرف کچھ زیادہ توجہ ہے اس لئے عبادتوں کی طرف کوشش بھی زیادہ کرنی چاہئے اور توجہ زیادہ دینی چاہئے۔
تجارت اور بیع کا فرق کیا ہے ؟حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا ہے کہ تجارت تو خرید وفروخت ہے۔ لینا اور دینا۔ خریدنا اوربیچنا۔ لیکن بیع صرف فروخت ہے (ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 6 صفحہ 333)اور آج کل کے زمانے میں اگر دیکھیں تو یہ سروسز(Services) جو ہیں یہ صرف بیع میں شمار ہوتی ہیں اور اس ملک میں یہ سب سے زیادہ ہیں، یہ بھی نمازوں کی ادائیگی سے روکتی ہیں۔ اپنے کام کو وقت پر ختم کرنے کی کوشش میں اپنے فرائض کو اور جو اصل ذمہ داری ہے اس کو لوگ بھول جاتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو حقیقی مومن ہیں ان کو دنیا میں مصروف رہنے کے باوجود آخرت کا خوف رہتا ہے اور ان کی تجارتیں اور ان کے دوسرے کام انہیں خدا تعالیٰ کی عبادت اور حقوق العباد کی ادائیگی سے غافل نہیں کرتے۔ بلکہ ہر وقت ان کے سامنے وہ نظارہ رہتا ہے کہ جہاں مرنے کے بعد جواب دینا ہو گا۔ وہ فرض عبادتوں کی ادائیگی کرنے کی بھی کوشش کر رہے ہوتے ہیں اس طرف ان کی توجہ ہوتی ہے اور نوافل کی ادائیگی کی طرف بھی ان کی توجہ ہوتی ہے۔
پھر آخر میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

لِیَجْزِیَھُمُ اللّٰہُ اَحْسَنَ مَا عَمِلُوْا وَیَزِیْدَھُمْ مِّنْ فَضْلِہٖ۔ وَاللّٰہُ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَآءبِغَیْرِ حِسَابٍ(النور:39)

تاکہ اللہ انہیں ان کے بہتر اعمال کے مطابق جزا دے جو وہ کرتے رہے ہیں اور اپنے فضل سے انہیں مزید بھی دے اور اللہ جیسے چاہتا ہے بغیر حساب کے رزق دیتا ہے۔
پس وہ نُور جو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کی ذات میں پیدا فرمایا اور جو کامل تعلیم آپ پہ اُتاری وہ مومنوں کے گھروں کو بھی بلند کرنے کا باعث بنی۔ اور یہ ایک ایسا جاری سلسلہ ہے جو اس پر عمل کرنے سے ہمیشہ جاری رہے گا اور یہی اللہ تعالیٰ کا اس آیت میں بھی اور بعض دوسری آیات میں بھی وعدہ ہے۔ فرماتا ہے کہ ان اعمال صالحہ کو اپنے گھروں میں رائج کرنے سے، اپنے دلوں میں بٹھاتے ہوئے ان پر عمل کرنے سے، تم ان کی بہترین جزا پاؤ گے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ صرف اتنا ہی نہیں دیتا جتنا عمل کیا گیا ہے۔ فرمایا کہ اپنے فضل سے تمہیں مزید دے گا۔ تم ایک قدم اوپر چڑھنے کی کوشش کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں اپنے فضل سے کئی قدم اوپر چڑھا دے گا اور پھر اللہ تعالیٰ مالک ہے اس طرح نوازتا ہے کہ جس کا کوئی حساب اور شمار نہیں ہے درجات بڑھتے چلے جاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اس نور کو جو آنحضرت ﷺ کے ذریعہ ہمیں ملا اپنے گھروں میں اور اپنے دلوں میں رائج کرنے کی اور اس سے فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں اپنے بڑھتے ہوئے فضلوں اور رحمتوں سے ہمیشہ نوازتا چلا جائے۔ ہمیشہ ہم نیک اعمال بجا لانے والے ہوں۔
ہم جو احمدی کہلاتے ہیں ہم پر خداتعالیٰ کا آج یہ بہت بڑا احسان ہے کہ زمانہ کے امام کو قبول کرکے ہمیں ہر وقت اور ہر معاملہ میں راہنمائی ملتی ہے۔ اور حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد خلافت کے جاری نظام او ر مرکزیت کی وجہ سے توجہ دلائی جاتی رہتی ہے۔ اور خلافت اور جماعت کے ایک خاص رشتے اور تعلق کی وجہ سے جو کہ عہد بیعت کی وجہ سے مضبوط سے مضبوط تر ہوتا رہتا ہے، بغیر کسی انقباض کے اصلاح کی طرف توجہ دلانے پر توجہ ہو جاتی ہے۔ جبکہ دوسرے مسلمان جو ہیں اس نعمت سے محروم ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں