خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 4؍ستمبر 2009ء

رمضان کے مہینے کو قرآن کریم سے ایک خاص نسبت ہے۔ خداتعالیٰ کی آخری اور کامل شریعت اس مہینے میں نازل ہوئی یا اس کا نزول شروع ہوا۔
اس مہینے میں قرآن کریم کے پڑھنے کی طرف بھی توجہ ہونی چاہئے۔ صرف تلاوت ہی نہیں بلکہ اس کے اندر بیان کردہ احکاما ت کی تلاش کرنی چاہئے۔ پھر ساراسال ان احکاما ت پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
قرآن پڑھنے کے آداب کا تذکرہ اور احباب جماعت کو اس حوالہ سے اہم نصائح
اپنے بچوں کی بھی ایسی تربیت کریں کہ وہ خداتعالیٰ کے اس کلام کو سمجھنے اور غورکرنے اور اپنی زندگیوں پر لاگو کرنے کی کوشش کرنے والے ہوں۔
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ مورخہ 4؍ستمبر 2009ء بمطابق4؍تبوک 1388 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لند ن (برطانیہ)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَالْفُرْقَانِ۔ فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ۔ وَمَنْ کَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ۔ یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ۔ وَلِتُکْمِلُوْا الْعِدَّۃَ وَلِتُکَبِّرُوااللّٰہَ عَلٰی مَا ھَدٰکُمْ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ (سورۃ البقرہ: 186)

اس آیت کا ترجمہ ہے کہ رمضان کا مہینہ جس میں قرآن انسانوں کے لئے ایک عظیم ہدایت کے طور پر اتارا گیا اور ایسے کھلے نشانات کے طور پر جن میں ہدایت کی تفصیل اور حق و باطل میں فرق کر دینے والے امور ہیں۔ پس جو بھی تم میں سے اس مہینے کو دیکھے تو اس کے روزے رکھے اور جو مریض ہو یا سفر پر ہو تواسے دوسرے ایّام میں گنتی پوری کرنا ہو گی۔ اللہ تمہارے لئے آسانی چاہتا ہے اور تمہارے لئے تنگی نہیں چاہتا اور چاہتا ہے کہ تم سہولت سے گنتی کو پورا کرو اور اس ہدیت کی بنا پر اللہ کی بڑائی بیان کرو جو اس نے تمہیں عطا کی اور تاکہ تم شکر کرو۔
آج مَیں اس آیت کے پہلے حصّہ کے بارے میں کچھ کہوں گا۔ رمضان کے مہینے کو قرآن کریم سے ایک خاص نسبت ہے جیسا کہ خود اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرمایا جو مَیں نے تلاوت کی ہے کہ

شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰن۔

یہ فرما کر واضح فرما دیا کہ رمضان کے مہینے کے روزے یونہی مقرر نہیں کر دئیے گئے۔ بلکہ اس مہینے میں قرآن کریم جیسی عظیم کتاب آنحضرت ﷺ پر نازل ہوئی یا اس کا نزول ہونا شروع ہوا۔ اور احادیث میں ذکر ملتا ہے کہ جبریلعلیہ السلام ہر سال رمضان میں آنحضرت ﷺ پر قرآن کریم کا جو حصہ اُترا ہوتا تھا اس کی دوہرائی کرواتے تھے۔ پس اس مہینے کی اہمیت اس بات سے بڑھ جاتی ہے کہ خداتعالیٰ کی آخری اور کامل شریعت اس مہینے میں نازل ہوئی، یا اس کا نزول شروع ہوا۔
پس اللہ تعالیٰ نے جب ہمیں روزوں کا حکم دیا تو پہلے یہ فرمایا کہ روزے تم پر فرض کئے گئے ہیں اور پھر یہ ہے کہ دعاؤں کی قبولیت کی خوشخبری دی۔ اس کے بعد کی جو آیات ہیں ان میں پھر بعض اور احکام جو رمضان سے متعلق ہیں وہ دئیے۔ اوریہ واضح فرما دیا کہ روزے رکھنا اور عبادت کرنا صرف یہی کافی نہیں ہے، بلکہ اس مہینے میں قرآن کریم کی طرف بھی تمہاری توجہ ہونی چاہئے۔ اس کے پڑھنے کی طرف تمہاری توجہ ہونی چاہئے۔ روزوں کی اہمیت اس لئے ہے اور اس لئے بڑھی کہ اللہ تعالیٰ نے اس مہینے میں انسان کامل پر اپنی آخری اور کامل شریعت نازل فرمائی جو قرآن کریم کی صورت میں نازل ہوئی۔ خداتعالیٰ کا قرب پانے اور دعاؤں کے اسلوب تمہیں اس لئے آئے کہ خداتعالیٰ نے قرآن کریم میں وہ طریق سکھائے جس سے اس کا قرب حاصل ہو سکتا ہے اور دعاؤں کی قبولیت کے نشان ظاہر ہوتے ہیں۔ پس اس کتاب کو پڑھنا بھی بہت ضروری ہے۔ رمضان میں اس کی تلاوت کرنا بھی بہت ضروری ہے تاکہ سارا سال تمہاری اس طرف توجہ رہے۔ آنحضرت ﷺ کے آخری رمضان میں جبرئیل علیہ السلام نے آپ کو دو مرتبہ قرآن کریم کا دور مکمل کروایا۔
پس اس سنت کی پیروی میں ایک مومن کو بھی چاہئے کہ دو مرتبہ قرآن کریم کا دور مکمل کرنے کی کوشش کرے۔ اگر دو مرتبہ تلاوت نہیں کر سکتے تو کم از کم ایک مرتبہ تو خود پڑھ کر کریں۔ پھر درسوں کا انتظام ہے، تراویح کا انتظام ہے، اس میں (قرآن) سنیں۔ بعض کام پہ جانے والے ہیں کیسٹ اور CDsملتی ہیں ان کو اپنی کاروں میں لگا سکتے ہیں، سفر کے دوران سنتے رہیں۔ اس طرح جتنا زیادہ سے زیادہ قرآن کریم پڑھا اور سنا جا سکے، اس مہینے میں پڑھنا چاہئے اور سننا چاہئے۔
اور پھر صرف تلاوت ہی نہیں بلکہ اس کے اندر بیان کردہ احکامات کی تلاش کرنی چاہئے۔ پھر سارا سال اُن تلاش شدہ احکامات پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ پھر ان حکموں کے اعلیٰ سے اعلیٰ معیار تلاش کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ تبھی رمضان کی اہمیت بھی واضح ہوتی ہے اور روزوں اور عبادتوں کا حق بھی ادا ہوتا ہے۔ کیونکہ اگر یہ نہیں پتہ کہ جو کام کر رہا ہوں اس کا مقصد کیا ہے اور کیوں خداتعالیٰ نے احکامات دئیے ہیں توان اعمال کے حق ادا نہیں ہو سکتے۔ بلکہ اعمال کا بھی پتہ نہیں چل سکتا کہ کیا کرنا ہے۔ اگرصرف یہی سنتے رہیں کہ تقویٰ پر چلو اور اعمال صالحہ بجا لاؤ اور یہ پتہ نہ ہو کہ تقویٰ کیا ہے اور اعمال صالحہ کیا ہیں تو یہ تو دیکھا دیکھی ایک نظام چل رہا ہے رمضان کے دنوں میں یا عام تقریریں سن لِیں، آگے چلے گئے، خطبات سن لئے، چلے گئے۔ ایک کام تو ہو رہا ہو گا لیکن اس کی روح کا پتہ نہیں چلے گا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ حقیقی مسلمان وہ ہیں جو

اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰھُمُ الْکِتٰبَ یَتْلُوْنَہٗ حَقَّ تِلَاوَتِہٖ (البقرۃ:122)

یعنی وہ لوگ جنہیں ہم نے کتاب دی اس کی اس طرح تلاوت کرتے ہیں جس طرح اس کی تلاوت کا حق ہے۔ یعنی غور بھی باقاعدگی سے ہو۔ اور غور بھی اچھی طرح ہو تلاوت میں بھی باقاعدگی رہے اور پھر جو پڑھا یا سنا اس پر عمل کرنے کی کوشش بھی ہو۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا بلکہ خودقرآن کریم میں آتا ہے کہ اُسے مہجور کی طرح نہ چھوڑ دینا۔ پس تعلیم یہ ہے کہ غور بھی ہو، عمل بھی ہو، تلاوت بھی ہو۔ نہ کہ مہجور کی طرح چھوڑ دیا گیا ہو۔
اور یہ آیت جومَیں نے تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ یہ فرمانے کے بعد کہ

شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ۔

پھر فرماتا ہے

ھُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَالْفُرْقَان

یعنی انسانوں کی ہدایت کے لئے اتارا گیا ہے اس میں ہدایت کی تفصیل بھی ہے اور حق وباطل میں فرق کرنے والے امور بھی بیان کئے گئے ہیں۔ پس جب تک اس کی تلاوت کا حق ادا نہ ہو، نہ ہدایت کی تفصیل پتہ لگ سکتی ہے، نہ ہی جھوٹ اور سچ کا فرق واضح ہو سکتا ہے۔ پس ہر مومن کا فرض ہے کہ اگر روزوں کا حقیقی حق ادا کرنا ہے تو قرآن کریم کی تلاوت اور اس کے احکامات کی تلاش بھی ضروری ہے۔
قرآن کریم کی تلاوت کے بارہ میں ایک دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے اس طرح حکم فرمایا ہے

وَاُمِرْتُ اَنْ اَکُوْنَ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ۔ وَاَنْ اَتْلُوَالْقُرْاٰنَ (النمل:93-92)۔

یعنی اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ مَیں فرمانبرداروں میں سے ہو جاؤں اور یہ کہ مَیں قرآن کی تلاوت کروں۔ پس حقیقی فرمانبرداری یہی ہے کہ جو کامل شریعت خداتعالیٰ نے آنحضرت ﷺ پر اتاری ہے اور جس کو ماننے کا ہمارا دعویٰ ہے اور پھر اس زمانے میں مسیح الزمان و مہدی دوران کوماننے کا ہم اعلان کرتے ہیں تو پھر اس کامل کتاب کی یعنی قرآن کریم کی تلاوت کا حق ادا کرنے کی بھی کوشش کریں اور اس رمضان میں جہاں اس کو باقاعدگی سے پڑھنے کا عہد کریں اور پڑھیں وہاں اس بات کا بھی عہد کریں کہ ہم نے رمضان کے بعد بھی روزانہ ہم نے اس کی تلاوت کرنی ہے اور اپنے پر اس کی تلاوت کو فرض کرنا ہے۔ اور اس کے احکامات پر عمل کرنے کی حتی الوسع کوشش کرنی ہے۔ کیونکہ یہی چیز ہے جو ہمیں خداتعالیٰ کا قرب دلانے والی ہو گی اور یہی چیز ہمارے لئے رمضان کی مقبولیت کا باعث بنے گی۔ اور یہی بات ہے جس کی طرف خاص طور پر ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے توجہ دلائی ہے۔
آپؑ فرماتے ہیں :
‘’اور تمہارے لئے ایک ضروری تعلیم یہ ہے کہ قرآن شریف کو مہجور کی طرح نہ چھوڑ دو کہ تمہاری اسی میں زندگی ہے‘‘۔ یعنی اس حقیقی تعلیم پر عمل کو بھول نہ جانا۔ صرف پڑھنا ہی نہ رہے۔ صرف تلاوت کرنا ہی نہ رہے۔ بلکہ اس پر عمل بھی ہونا چاہئے۔ ورنہ مردہ کی طرح ہو جاؤ گے۔ روحانی زندگی جو ہے وہ نہیں رہے گی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بیعت کا عہد جو ہے وہ فضول ٹھہرے گا۔ فرمایا کہ پس اس کو مہجور کی طرح نہ چھوڑ دینا۔
پھر فرمایا کہ’’جو لوگ قرآن کو عزت دیں گے وہ آسمان پر عزت پائیں گے۔ جو لوگ ہر ایک حدیث اور ہر ایک قول پر قرآن کو مقدم رکھیں گے ان کو آسمان پر مقدم رکھا جائے گا‘‘۔
(کشتی نوح۔ روحانی خزائن جلد 20صفحہ 13)
آسمان پر عزت پانا اور مقدم رکھا جانا کیا ہے؟ یہی کہ پھر خداتعالیٰ اپنا فضل فرماتے ہوئے اپناقرب عطا فرمائے گا۔ قبولیت دعا کے نشان ملیں گے۔ معاشرے کی برائیوں سے اس دنیا میں بھی انسان بچتا رہے گا۔ پس جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں فرما دیا ہے کہ پہلی کوشش تمہاری ہو گی تومَیں بھی دوڑ کر تمہارے پاس آؤں گا۔ یہ نظارے دیکھنے کے لئے ہمیں قرآن کو عزت دینا ہو گی۔ اس کی تلاوت کا حق ادا کرنا ہو گا۔ اس کے حکموں کی پیروی کی کوشش کرنی ہو گی۔
پھر آپ علیہ السلام فرماتے ہیں :’’نوع انسان کے لئے روئے زمین پر اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن اور تمام آدم زادوں کے لئے اب کوئی رسول اور شفیع نہیں مگر محمد مصطفی ا۔ سو تم کوشش کرو کہ سچی محبت اس جاہ و جلال کے نبی کے ساتھ رکھو اور اس کے غیر کو اس پرکسی نوع کی بڑائی مت دو تا آسمان پر تم نجات یافتہ لکھے جاؤ۔ اور یاد رکھو کہ نجات وہ چیز نہیں جو مرنے کے بعد ظاہر ہو گی بلکہ حقیقی نجات وہ ہے کہ اسی دنیا میں اپنی روشنی دکھلاتی ہے۔ نجات یافتہ کون ہے؟ وہ جو یقین رکھتا ہے جو خدا سچ ہے اور محمد ﷺ اس میں اور تمام مخلوق میں درمیانی شفیع ہے‘‘۔ (یعنی شفاعت کرنے والے ہیں)’’اور آسمان کے نیچے نہ اس کے ہم مرتبہ کوئی اور رسول ہے اور نہ قرآن کے ہم رتبہ کوئی اور کتاب ہے۔ اور کسی کے لئے خدا نے نہ چاہا کہ وہ ہمیشہ زندہ رہے مگر یہ برگزیدہ نبی ہمیشہ کے لئے زندہ ہے اور اس کے ہمیشہ زندہ رہنے کے لئے خدا نے یہ بنیاد ڈالی ہے کہ اس کے افاضہ تشریعی اور روحانی کو قیامت تک جاری رکھا اور آخر کار اس کی روحانی فیض رسانی سے اِس مسیح موعود کو دنیا میں بھیجا جس کا آنا اسلامی عمارت کی تکمیل کے لئے ضروری تھا۔ کیونکہ ضرور تھا کہ یہ دنیا ختم نہ ہو جب تک کہ محمدیؐ سلسلہ کے لئے ایک مسیح روحانی رنگ کا نہ دیا جاتا جیسا کہ موسوی سلسلہ کے لئے دیا گیا تھا‘‘۔
(کشتی نوح۔ روحانی خزائن جلد 20صفحہ 14-13)
پس یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم نے اس مسیح محمدی کی جماعت میں شامل ہو کر اللہ تعالیٰ کی کامل شریعت جو قرآن کریم کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے اس کے مقام کو سمجھنے کا عہد کیا ہے۔ آنحضرت ﷺ کے مقام خاتمیت نبوت کا ادراک حاصل کیا ہے جبکہ دوسرے مسلمان اس سے محروم ہیں۔ پس یہ اعزاز ہمیں دوسروں سے منفرد کرتا ہے اور اس بات کی طرف توجہ دلاتا ہے کہ قرآن کریم کی تعلیم کو سمجھیں اور اس کی حقیقت کو جانیں اور اس کی حقیقی عزت اپنے دلوں میں قائم کریں۔ بلکہ اس کا اظہار ہمارے ہر قول و فعل سے ہو۔ اگر اس کا اظہار ہمارے ہر قول و فعل سے نہیں تو پھر یہ مہجور کی طرح چھوڑ دینے والی بات ہے اور یہ حالت پیشگوئی کی صورت میں خداتعالیٰ نے خود قرآن کریم میں فرما دی ہے جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی کہا۔ سورۃ الفرقان میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

وَقَالَ الرَّسُوْلُ یَا رَبِّ اِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوْا ھٰذَا الْقُرْاٰنَ مَھْجُوْرًا (الفرقان :31)

اور رسول کہے گا اے میرے ربّ ! یقیناً میری قوم نے اس قرآن کو متروک کر چھوڑا ہے۔ ترک کر دیا ہے۔ چھوڑ دیاہے۔ پڑھتے تو ہیں لیکن عمل کوئی نہیں۔ پس بڑے ہی خوف کا مقام ہے، ہر احمدی کے لئے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے توفیق دی کہ ہم زمانہ کے امام کو اس لئے مانیں کہ ہم نے قرآن کریم کی حکومت اپنے پر لاگو کرنی ہے۔ ہم نے اس خوبصورت تعلیم کے مطابق اپنی زندگیاں گزارنے کی کوشش کرنی ہے۔ پس قرآن کریم کی تلاوت کے بعد اس کی اس تعلیم پر عمل ہی ہے جو ہمیں اس عظیم اور لاثانی کتاب کو مہجور کی طرح چھوڑنے سے بچائے گا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس بارہ میں ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
‘’یاد رکھو، قرآن شریف حقیقی برکات کا سرچشمہ اور نجات کا سچا ذریعہ ہے۔ یہ ان لوگوں کی اپنی غلطی ہے جو قرآن شریف پر عمل نہیں کرتے۔ عمل نہ کرنے والوں میں سے ایک گروہ تو وہ ہے جس کو اس پر اعتقاد ہی نہیں اور وہ اس کو خداتعالیٰ کا کلام ہی نہیں سمجھتے۔ یہ لوگ توبہت دور پڑے ہوئے ہیں۔ لیکن وہ لوگ جو ایمان لاتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور نجات کا شفا بخش نسخہ ہے اگر وہ اس پر عمل نہ کریں تو کس قدر تعجب اور افسوس کی بات ہے۔ ان میں سے بہت سے تو ایسے ہیں جنہوں نے ساری عمر میں کبھی اسے پڑھا ہی نہیں۔ پس ایسے آدمی جو خداتعالیٰ کے کلام سے ایسے غافل اور لاپرواہ ہیں۔ ان کی ایسی مثال ہے کہ ایک شخص کو معلوم ہے کہ فلاں چشمہ نہایت ہی مصفّٰی اور شیریں اورخُنک ہے اور اس کا پانی بہت سی امراض کے واسطے اکسیر اور شفاء ہے‘‘۔ (ان کو یہ علم ہوکہ بہت میٹھے پانی والا یہ چشمہ ہے۔ ٹھنڈا اور میٹھا پانی ہے اور اس کا پانی بہت سی بیماریوں کا علاج بھی ہے)۔
اور’’یہ علم اس کو یقینی ہے لیکن باوجود اس علم کے اور باوجود پیاسا ہونے اور بہت سی امراض میں مبتلا ہونے کے وہ اس کے پاس نہیں جاتا۔ تو یہ اس کی کیسی بدقسمتی اور جہالت ہے۔ اسے تو چاہئے تھا کہ وہ اس چشمے پر منہ رکھ دیتا اور سیراب ہو کر اس کے لطف اور شفاء بخش پانی سے حظ اٹھاتا۔ مگر باوجو د علم کے اس سے ویسا ہی دور ہے جیسا کہ ایک بے خبر۔ اور اس وقت تک اس سے دُور رہتا ہے جو موت آکر خاتمہ کر دیتی ہے۔ اس شخص کی حالت بہت ہی عبرت بخش اور نصیحت خیز ہے۔ مسلمانوں کی حالت اس وقت ایسی ہی ہو رہی ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ ساری ترقیوں اور کامیابیوں کی کلید یہی قرآن شریف ہے جس پر ہم کو عمل کرنا چاہئے۔ مگر نہیں۔ اس کی پرواہ بھی نہیں کی جاتی۔ ایک شخص جو نہایت ہمدردی اور خیر خواہی کے ساتھ اور پھر نری ہمدردی ہی نہیں بلکہ خداتعالیٰ کے حکم اور ایماء سے اس طرف بلاوے تو اسے کذّاب اور دجال کہا جاتا ہے‘‘۔ (حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے بارہ میں فرما رہے ہیں کہ جب مَیں درد سے تمہیں یعنی مسلمانوں کو اپنی طرف بلاتا ہوں کہ قرآن کریم پہ عمل کروتو کذاب، جھوٹا اور دجّال کہا جاتا ہے)۔ فرماتے ہیں کہ’’اس سے بڑھ کر اور کیا قابل رحم حالت اس قوم کی ہو گی‘‘۔ فرمایا کہ ’’مسلمانوں کو چاہئے تھا اور اب بھی ان کے لئے یہی ضروری ہے کہ وہ اس چشمہ کو عظیم الشان نعمت سمجھیں اور اس کی قدر کریں۔ اس کی قدر یہی ہے کہ اس پر عمل کریں اور پھر دیکھیں کہ خداتعالیٰ کس طرح ان کی مصیبتوں اور مشکلات کو دور کر دیتا ہے۔ کاش مسلمان سمجھیں اور سوچیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے یہ ایک نیک راہ پیدا کر دی ہے اور وہ اس پر چل کر فائدہ اٹھائیں ‘‘۔
(ملفوظات جلد 4صفحہ141-140۔ مطبوعہ ربوہ)
اس اقتباس میں جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مسلمانوں کی حالت کا نقشہ کھینچا ہے اور افسوس کا اظہار فرمایا ہے۔ وہاں ہماری ذمہ داری بھی بڑھتی ہے کہ اس خوبصورت تعلیم کو اس قدر اپنی زندگیوں پر لاگو کریں کہ بعض مسلمان گروہوں کے عملوں کی وجہ سے جو غیر مسلموں کو اسلام اور قرآن پر انگلی اٹھانے کی جرأت پیدا ہوتی ہے وہ نہ رہے۔ احمدیوں کے عمل کو دیکھ کر انہیں اپنی سوچیں بدلنی پڑیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت سے احمدی ہیں جو قرآن کریم کی خوبصورت تعلیم دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں، لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے جب بھی ہمارے جلسے ہوں، سیمینار ہوں قرآن کریم کی تعلیم پیش کی جاتی ہے تو بر ملا ان غیروں کا اظہار ہوتا ہے کہ اسلام کی تعلیم کا یہ رخ تو ہم نے پہلی دفعہ سنا ہے۔ پس جب ہم ان باتوں کو اپنی روز مرّہ زندگیوں کا بھی حصہ بنا لیں گے تو صرف تعلیم سنانے والے نہیں ہوں گے بلکہ عملی نمونے دکھانے والے بھی ہوں گے۔
اس طرح احمدیوں کو اپنے دائرے میں مسلمانوں کو بھی یہ تعلیم پہنچانے کی کوشش کرنی چاہئے کہ تم ہمارے سے اختلاف رکھتے ہو تو رکھو لیکن اسلام کے نام پر اسلام کی کامل تعلیم کو تو بدنام نہ کرو۔ تمہارے لئے راہ نجات اسی میں ہے کہ صرف قرآن کریم کو ماننے کا دعویٰ نہ کرو بلکہ اس کی تعلیم پر غور کرو۔ جس حالت کی طرف حضرت
مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے نشاندہی فرمائی ہے اور جس طرح مسلمانوں کی مصیبتوں اور مشکلات کا ذکر فرمایا ہے وہ صورت جو ہے وہ آج بھی اسی طرح قائم ہے۔ بلکہ بعض صورتوں میں مسلمانوں کی زیادہ ناگفتہ بہ حالت ہے اور جب تک قرآن کریم کو اپنا لائحہ عمل نہیں بنائیں گے اس مشکل اور مصیبتوں کے دور سے مسلمان نکل نہیں سکتے۔ اسلام کا نام لینے سے اسلام نہیں آجاتا۔ اسلام کا حسن اس کی خوبصورت تعلیم سے خود بولتا ہے۔ قرآن کریم کی تفسیر کوئی عالم خود نہیں کر سکتا جب تک خداتعالیٰ کی طرف سے اس کو وہ اسلوب نہ سکھائے جائیں اور وہ اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے اسے ہی سکھائے ہیں جسے یہ لوگ دجّال اور کذّاب اور پتہ نہیں کیا کچھ کہتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہی ان لوگوں پر رحم فرمائے اور ان کو عقل دے اور ہمیں پہلے سے بڑھ کر قرآن شریف کی تلاوت کا حق ادا کرنے اور اس کی تعلیم پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اس کی عزت قائم کرنے والے ہوں اور اسے ہمیشہ مقدم رکھنے والے ہوں۔ یہ عزت کس طرح قائم ہو گی اور اس کو مقدم کس طرح رکھا جا سکتا ہے، یہ مَیں پہلے بتاچکا ہوں۔ اس بارہ میں خود قرآن کریم نے بھی مختلف جگہوں پر مختلف احکامات کے ساتھ ہماری راہنمائی فرمائی ہے۔
بعض آیات یا آیات کے کچھ حصے مَیں یہاں مختصراًپیش کرتا ہوں۔ کس خوبصورت طریقے سے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے مقام اور اس کی اعلیٰ تعلیم کے بارہ میں راہنمائی فرمائی ہے۔ آج تو شاید یہ مضمون ختم نہ ہو سکے یعنی وہ حصہ جو مَیں بیان کرنا چاہتا ہوں وہ ختم نہ ہو سکے ورنہ تو قرآن کریم ایک ایسا سمندر ہے کہ انسان اس کو بیان کرنا شروع کرے تو کبھی ختم ہو ہی نہیں سکتا۔ اپنی اپنی استعدادوں کے مطابق ہر انسان جب اس پہ غور کرتا ہے تو نئے سے نئے نکات آتے چلے جاتے ہیں۔
سب سے پہلے تو یہ ہے کہ قرآن کریم پڑھنے کے آداب کیا ہیں اور قرآن کریم کو پڑھنے سے پہلے کس طرح ذہن کو صاف کرنا چاہئے۔ اس بار ہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

فَاِذَا قَرَأْتَ الْقُرْاٰنَ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ (النحل:99)۔

پس جب تو قرآن پڑھے تو دھتکارے ہوئے شیطان سے اللہ کی پناہ مانگ۔
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ انسان کو تقویٰ کی راہ سے ہٹانے کے لئے شیطان نے ایک کھلا اعلان کیا ہے، ایک چیلنج دیا ہوا ہے اور قرآن کریم وہ کتاب ہے جس کا ہر ہر لفظ خداتعالیٰ کی طرف لے جانے والا، تقویٰ پر قائم کرنے والا اور اللہ تعالیٰ کی طرف جانے والے راستوں کی راہنمائی کرنے والا ہے۔ اس لئے خداتعالیٰ نے فرمایا کہ اگر تم خداتعالیٰ کے قرب کے معیاروں کو حاصل کرنا چاہتے ہو، اور اس تعلیم کو سمجھنا چا ہتے ہو جو قرآن کریم میں بیان کی گئی ہے تو قرآن کریم پڑھنے سے پہلے خالص ہو کر اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرو کہ وہ تمہیں شیطان کے وسوسوں اور حملوں سے بچائے اور اس تعلیم پر عمل کرنے کی توفیق دے جو تم پڑھ رہے ہو۔ کیونکہ یہ ایسابیش قیمت خزانہ ہے جس تک پہنچنے سے روکنے کے لئے شیطان ہزاروں روکیں کھڑی کرے گا اور اگر شیطان سے بچنے کی دعا نہ کی تو تمہیں پتہ ہی نہیں چلے گاکہ کس وقت شیطان نے کس طرف سے تمہیں اللہ تعالیٰ کے پیغام کو سمجھنے سے روک دیا ہے۔ باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے لیکن شیطان کی گرفت میں آنے کی وجہ سے اس کلام کو پڑھنے سے تمہاری راہنمائی نہیں ہو سکے گی۔ پس پہلی بات تو یہ کہ قرآن کریم کو خالص اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آکر پڑھو ورنہ سمجھ نہیں آئے گی۔ اس لئے ایک جگہ فرمایا کہ

وَلَا یَزِیْدُالظّٰلِمِیْنَ اِلَّاخَسَارًا(بنی اسرائیل:83)

کہ ظالموں کو قرآن کریم خسارے میں بڑھاتا ہے حالانکہ مومنوں کے لئے یہی نفع رساں ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

وَاللّٰہُ یُقَدِّ رُاللَّیْلَ وَالنَّہَارَ۔ عَلِمَ اَنْ لَّنْ تُحْصُوْہُ فَتَابَ عَلَیْکُمْ فَاقْرَءوْا مَا تَیَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ۔ عَلِمَ اَنْ سَیَکُوْنُ مِنْکُمْ مَّرْضٰی وَاٰخَرُوْنَ یَضْرِبُوْنَ فِی الْا َرْضِ یَبْتَغُوْنَ مِنْ فَضْلِ اللّٰہ ِ(المزمل :21)

یعنی اور اللہ رات اور دن کو گھٹاتا بڑھاتا رہتا ہے۔ (اس سے پہلے کا حصہ میں چھوڑ رہاہوں)۔ اور وہ جانتا ہے کہ تم ہرگز اس طریق کو نبھا نہیں سکو گے۔ پس وہ تم پر عفو کے ساتھ جھک گیا ہے۔ پس قرآن میں سے جتنا میسر ہو پڑھ لیا کرو۔ وہ جانتا ہے کہ تم میں سے مریض بھی ہوں گے اور دوسرے بھی جو زمین پر اللہ کا فضل چاہتے ہوئے سفر کرتے ہیں۔ اور پھر اس کے آگے بھی کچھ ہدایات ہیں۔ اس حصے سے پہلے آیت میں تہجد کے نوافل کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس میں قرآن کا حصہ جو بھی یاد ہو پڑھو اور اس کے علاوہ بھی جتنا قرآن کریم تم غور کرنے کے لئے پڑھ سکتے ہو تمہیں پڑھنا چاہئے۔ ایک مومن کا یہی کام ہے۔

تَیَسَّرَ مِنَ الْقُرْآن

سے صرف یہ مطلب ہی نہیں لینا چاہئے کہ جو ہمیں یاد ہے کافی ہے وہی پڑھ لیا اور مزید یاد کرنے کی کوشش نہیں کرنی۔ یا جس تعلیم کا علم ہے وہی کافی ہے اور مزیدہم نے نہیں سیکھنی۔ بلکہ جہاں تک ممکن ہو اس میں بڑھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
اللہ تعالیٰ نے ایک دوسری جگہ فرمایا ہے

فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرَاتَ(المائدہ:49)

کہ نیکیوں میں آگے بڑھو۔ اور جب تک یہ علم ہی نہ ہو کہ نیکیاں کیا ہیں جو قرآن کریم میں بیان کی گئی ہیں، کون کون سے اعمال ہیں جو قرآن کریم میں بیان کئے گئے ہیں تو کس طرح آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ پس قرآن کریم کا پڑھنااور سیکھنا اور اس پر غورکرنا بھی بڑا ضروری ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو الہام ہوا تھا کہ

اَلْخَیْرُ کُلُّہٗ فِی الْقُرْآن

کہ تمام بھلائیاں اور نیکیاں جو ہیں وہ قرآن کریم میں موجود ہیں۔
پس یہاں میسر کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مزید سیکھنا ہی نہیں ہے۔ جو یاد ہو گیا، یاد ہو گیا بلکہ اپنی صلاحیتوں کو اورعلم کو بڑھاتے رہنا چاہئے تاکہ زیادہ سے زیادہ اس قرآن کریم سے فیض پایا جا سکے۔ باقی جو حالات ہیں ان کے مطابق یہ ذکر ہے کہ تم بیمار ہو گے، مریض ہو گے، سفرپہ ہو گے تو اس لحاظ سے نمازیں چھوٹی بڑی بھی ہو جاتی ہیں، قرآن (پڑھنے) میں کمی زیادتی بھی ہو جاتی ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ قطعاً نہیں ہے کہ قرآن کریم کو جو سیکھ لیا وہ سیکھ لیا اور مزید نہیں سیکھنا۔
پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

اَوْ زِدْ عَلَیْہِ وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًا(المزمل:4)

یا اس پر کچھ زیادہ کر دے اور قرآن کو خوب نکھار کر پڑھ۔ یعنی تلاوت ایسی ہو کہ ایک ایک لفظ واضح ہو، سمجھ آتا ہو اور خوش الحانی سے پڑھا جائے۔ یہ نہیں کہ جلدی جلدی پڑھ کے گزر گئے، جیسا کہ پہلے بھی ایک دفعہ مَیں بتا چکا ہوں کہ دوسرے مسلمان جو تراویح میں پڑھتے ہیں تو اتنی تیزی سے پڑھتے ہیں کہ سمجھ ہی نہیں آرہی ہوتی۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’خوش الحانی سے قرآن شریف پڑھنا بھی عبادت ہے‘‘۔ (الحکم 24؍مارچ 1903ء)
ایک حدیث میں آتا ہے، سعید بن ابی سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص قرآن کریم کو خوش الحانی سے نہیں پڑھتا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
(سنن ابوداؤد۔ کتاب الصلوٰۃ۔ باب استجاب الترتیل فی القراءۃ)
پھر ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اور حکم ہے کہ

وَاذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَمَااَنْزَلَ عَلَیْکُمْ مِّنَ الْکِتٰبِ وَالْحِکْمَۃِ یَعِظُکُمْ بِہٖ(البقرۃ:232)

اور اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جو تم پر ہے اور جو اس نے تم پر کتاب اور حکمت میں اتارا ہے۔ وہ اس کے ساتھ تمہیں نصیحت کرتا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے جو احکامات قرآن کریم میں ہیں یہ سب نعمت ہیں جو تمہیں اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائے ہیں۔ سورۃ نور کے شروع میں بتا دیا کہ یہ نعمت جو تمہیں دی گئی ہے اس میں احکامات ہیں اس میں غور کرو۔ جب تک پڑھو گے نہیں ان نعمتوں کا علم حاصل نہیں کر سکتے ان کا فہم ہی نہیں ہو سکتا۔ پس قرآن کریم پڑھنا نصیحت حاصل کرنا ہے اور ایک مومن کے لئے یہ انتہائی ضروری چیز ہے۔ کیونکہ یہی چیز ہے جو انسان کو تقویٰ میں بڑھاتی ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے

کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَیْکَ مُبٰرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوْآ اٰیٰتِہٖ وَلِیَتَذَکَّرَ اُوْلُوْاالْا َلْبَاِب (سورۃص:30)

یہ کتاب ہے جسے ہم نے تیری طرف نازل کیا، مبارک ہے تاکہ یہ لوگ اس کی آیات پر تدبر کریں اور تاکہ عقل والے نصیحت پکڑ لیں۔ پس قرآن شریف کوماننے والے اور اس کو پڑھنے والے ہی عقل والے ہیں۔ کیوں عقل والے ہیں ؟ اس لئے کہ اس کتاب میں تمام سابقہ انبیاء کی تعلیم کی وہ باتیں بھی آجاتی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ قائم رکھنا چاہتا تھا، جو صحیح باتیں تھیں اوراس زمانے کے لئے ضروری تھیں۔ اور موجودہ اور آئندہ آنے والی تعلیم یا ان باتوں کا بھی ذکر ہے جو ضرورت کے مطابق اللہ تعالیٰ نے سمجھا کہ یہ تاقیامت انسان کے لئے ضروری ہیں اور وہ آنحضرت ﷺ پر نازل فرمائیں۔ پس اس اعلان پر جو قرآن کریم نے کیا ہے غور کرو۔ نصیحت پکڑو اور عقل والوں کا یہی کام ہے۔ اس اعلان کا ہم تبھی چرچا کر سکتے ہیں جب اس تعلیم کو ہم خود بھی اپنے اوپر لاگو کرنے والے ہیں۔
پھر تلاوت کے بارہ میں کہ کس طرح سننی چاہئے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

وَاِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ(الاعراف:205)

اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے غور سے سنو اور خاموش رہو تا کہ تم پر رحم کیا جائے۔ قرآن کریم کا یہ احترام ہے جو ہر احمدی کو اپنے اندر پیدا کرنا چاہئے اور اپنی اولاد میں بھی اس کی اہمیت واضح کرنی چاہئے۔ بعض لوگ بے احتیاطی کرتے ہیں۔ تلاوت کے وقت اپنی باتوں میں مشغول ہوتے ہیں۔ بعض دفعہ بعض گھروں میں ٹی وی لگا ہوتا ہے اور تلاوت آرہی ہوتی ہے اور گھروالے باتوں میں مشغول ہوتے ہیں۔ خاموشی اختیار کرنی چاہئے۔ یا تو خاموشی سے تلاوت سنیں یا اگر باتیں اتنی ضروری ہیں کہ کرنی چاہئیں، اس کے کئے بغیر گزارا نہیں ہے تو پھر آواز بند کردیں۔ یہ حکم تو غیروں کے حوالے سے بھی ہے کہ اگر خاموشی سے اس کلام کو سنیں تو انہیں بھی سمجھ آئے کہ یہ کیسا زبردست کلام ہے۔ اور اللہ تعالیٰ پھر اس وجہ سے ان پر رحم فرماتے ہوئے ان کی ہدایت اور راہنمائی کے سامان بھی مہیا فرما دے گا۔ پس ہمیں خود اس بات کا بہت زیادہ احساس ہونا چاہئے کہ اللہ کے کلام کو خاموشی سے سنیں اور سمجھیں اور زیادہ سے زیادہ اللہ کا رحم حاصل کرنے کی کوشش کریں۔
پھر ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

فَاسْتَقِمْ کَمَآ اُمِرْتَ وَمَنْ تَابَ مَعَکَ وَلَا تَطْغَوْا۔ اِنَّہٗ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ (ھود:113)

پس جیسے تجھے حکم دیا جاتا ہے تو اس پر مضبوطی سے قائم ہو جااور وہ بھی قائم ہو جائیں جنہوں نے تیرے ساتھ توبہ کی ہے اور حد سے نہ بڑھو یقیناً وہ اس پر جو تم کرتے ہوگہری نظر رکھنے والا ہے۔
یہ سورۃ ھود کی آیت ہے۔ تو یہ حکم صرف آنحضرت ﷺ کے لئے نہیں تھا۔ ویسے تو ہر حکم جو آپؐ پراترا وہ اُمّت کے لئے ہے۔ آپ کے ماننے والوں کے لئے ہے۔ لیکن یہاں خاص طور پر مومنوں کو اور توبہ کرنے والوں کو بھی شامل کیا گیا ہے کہ تمام احکامات پر مضبوطی سے عمل کرو اور کرواؤ۔ اور ایک بات یاد رکھو کہ صرف عبادات پر ہی انحصار نہ ہو بلکہ اصل چیز جو اس کا مغز ہے اس کو تلاش کرو اور وہ ہے اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول اور یہ حکم آپ کو دے کر خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم نے توبہ کی تو وہ بھی اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ حدود کو جانیں اور سمجھیں اور زیادہ سے زیادہ اس کا علم حاصل کریں اور کبھی اس سے تجاوز کرنے کی کوشش نہ کریں۔ تبھی اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو سکتی ہے۔ اس میں ہماری یہ بھی ذمہ داری ہے کہ اپنے بچوں کی بھی ایسی تربیت کریں کہ وہ خداتعالیٰ کے اس کلام کو سمجھنے اور غور کرنے اور اپنی زندگیوں پر لاگو کرنے کی کوشش کرنے والے ہوں۔
اس کی وضاحت کرتے ہوئے ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
‘’مجھے تو سخت افسوس ہوتا ہے جبکہ مَیں دیکھتا ہوں کہ مسلمان ہندوؤں کی طرح بھی احساس موت نہیں کرتے۔ رسول اللہ ﷺ کو دیکھو صرف ایک حکم نے کہ فَاسْتَقِمْ کَمَآ اُمِرْت نے ہی بوڑھا کر دیا۔ کس قدر احساس موت ہے۔ آپ کی یہ حالت کیوں ہوئی۔ صرف اس لئے کہ تاہم اس سے سبق لیں ‘‘۔ کوئی حکم ہوا تو آنحضرت ﷺ نے کہا کہ مجھے اس آیت نے بوڑھا کر دیا۔ کس لئے تاکہ اُمّت، جو ماننے والے ہیں وہ بھی اس سے سبق لیں۔ ان کی فکر تھی آپ کو۔ فرماتے ہیں کہ’’ورنہ رسول اللہ ﷺ کی پاک اور مقدس زندگی کی اس سے بڑھ کر اور کیا دلیل ہو سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کوہادی کامل اور پھر قیامت تک کے لئے اور اس پر کل دنیا کے لئے مقرر فرمایا۔ مگرآپ کی زندگی کے کُل واقعات ایک عملی تعلیمات کا مجموعہ ہیں۔ جس طرح پر قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی قولی کتاب ہے اور قانون قدرت اس کی فعلی کتاب ہے اسی طرح پر رسول اللہ ﷺ کی زندگی بھی ایک فعلی کتاب ہے جو گویا قرآن کریم کی شرح اور تفسیر ہے۔
(تفسیر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام (سورۃ ھود زیر آیت 113) جلد دوم صفحہ 704)
اس کی مزید وضاحت بھی آپ نے فرمائی ہے۔ فرماتے ہیں کہ:
‘’رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کے پوچھنے پر فرمایا کہ مجھے سورۃ ھود نے بوڑھا کر دیا کیونکہ اس حکم کے رو سے بڑی بھاری ذمہ داری میرے سپرد ہوئی ہے۔ اپنے آپ کو سیدھا کرنا اور اللہ تعالیٰ کے احکام کی پوری فرمانبرداری جہاں تک انسان کی اپنی ذات سے تعلق رکھتی ہے ممکن ہے کہ وہ اس کو پورا کرے۔ لیکن دوسروں کو ویسا ہی بنانا آسان نہیں ہے۔ اس سے ہمارے نبی کریم ﷺ کی بلند شان اور قوت قدسی کا پتہ لگتا ہے۔ چنانچہ آپ نے اس حکم کی کیسی تعمیل کی۔ صحابہ کرام کی وہ پاک جماعت تیار کی کہ ان کو

کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ(سورۃ آل عمران آیت نمبر111)

کہا گیا اور رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ (المائدہ :120) کی آواز ان کو آگئی۔ آپ کی زندگی میں کوئی بھی منافق مدینہ طیّبہ میں نہ رہا۔ غرض ایسی کامیابی آپ کو ہوئی کہ اس کی نظیر کسی دوسرے نبی کے واقعات زندگی میں نہیں ملتی۔ اس سے اللہ تعالیٰ کی غرض یہ تھی کہ قیل و قال ہی تک بات نہ رکھنی چاہئے‘‘۔ (صرف زبانی جمع خرچ نہ ہو)’’کیونکہ اگر نرے قیل و قال اور ریاکاری تک ہی بات ہو تو دوسرے لوگوں اور ہم میں پھر امتیاز کیا ہو گا اور دوسروں پر کیا شرف؟‘‘۔ (الحکم۔ جلد 5نمبر29۔ مورخہ 10؍اگست 1901ء صفحہ 1۔ تفسیر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام (سورۃ ھود زیر آیت 113) جلد دوم صفحہ 705-704)
پس آج یہ سبق ہمار ے لئے بھی ہے کہ قیل و قال تک بات نہ رہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کو سمجھ کر اس کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنے کی کوشش کی جائے کیونکہ یہی اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔ جیسا کہ ایک جگہ فرمایا کہ

وَہٰـذَا کِتَابٌ اَنزَلْنٰہُ مُبَارَکٌ فَاتَّبِعُوْہُ وَاتَّقُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُونَ(الانعام:156)

اور یہ مبارک کتاب ہے جسے ہم نے اتارا ہے۔ پس اس کی پیروی کرو اور تقویٰ اختیار کرو تاکہ تم رحم کئے جاؤ۔
پھر ایک اور بات جو معاشرے کے لئے، امن کے لئے ضروری ہے اس کا مَیں یہاں ذکر کر دوں۔ پہلے ہی ذکر آناچاہئے تھا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

وَاِذَا جَآءکَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِاٰ یٰتِنَا فَقُلْ سَلٰمٌ عَلَیْکُمْ کَتَبَ رَبُّکُمْ عَلٰی نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ اَنَّہٗ مَنْ عَمِلَ مِنْکُمْ سُوْٓءبِجَہَالَۃٍ ثُمَّ تَابَ مِنْ بَعْدِہٖ وَاَصْلَحَ فَاِنَّہٗ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ (الانعام:55)

اور جب تیرے پاس وہ لوگ آئیں جو ہماری آیات پر ایمان لاتے ہیں تو ان سے کہا کر۔ تم پر سلام ہو۔ تمہارے لئے تمہارے ربّ نے اپنے اوپر رحمت فرض کر دی ہے۔ یعنی یہ کہ تم میں سے جو کوئی جہالت سے بدی کا ارتکاب کرے پھر اس کے بعد توبہ کر لے اور اصلاح کر لے تو یاد رکھے کہ وہ (یعنی اللہ) یقیناً بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔
پس یہ خوبصورت تعلیم ہے جو معاشرے کا حسن بڑھاتی ہے۔ جب سلامتی کے پیغام ایک دوسرے کو بھیج رہے ہوں گے تو آپس کی رنجشیں اور شکوے اور دُوریاں خود بخود ختم ہو جائیں گی اور ہو جانی چاہئیں۔ بھائی بھائی جو آپس میں لڑے ہوئے ہیں۔ ناراضگیاں ہیں۔ ان میں صلح قائم ہوجائے گی۔ ہمارادعویٰ یہ ہے کہ ہم احمدی ہیں اور قرآن کریم پر ہمارا پورا ایمان ہے اور اس کی تعلیم پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ توپھر قرآن تو کہتا ہے کہ سلامتی بھیجو۔ ایک دوسرے پر سلامتی بھیجو۔ اور یہاں بعض جگہ پر ناراضگیوں کا اظہار ہو رہا ہوتا ہے۔
پس غور کرنا چاہئے اور اپنی چھوٹی چھوٹی باتوں پر جو قرآن کریم کی اعلیٰ تعلیم اور احکامات ہیں ان کو قربان نہیں کرنا چاہئے۔ پس ہر احمدی کو قرآن کریم کو پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ یہ ایسی عظیم کتاب ہے کہ کوئی پہلو ایسا نہیں جس کا اس نے احاطہ نہ کیا ہو۔ پس معاشرے کے امن کے لئے بھی، اپنی روحانی ترقی کے لئے بھی، خدا کا قرب پانے کے لئے بھی انتہائی ضروری ہے کہ ہم قرآن کریم کے احکامات تلاش کرکے ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔ اور یہ تبھی ہو سکتا ہے جب ہم باقاعدہ تلاوت کرنے والے اور اس پر غور کرنے والے ہوں گے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا تھا کہ تمام باتیں تو بیان نہیں ہو سکتیں۔ کچھ مَیں نے کی ہیں باقی آئندہ انشاء اللہ۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
‘’قرآن شریف پر تدبر کرو۔ اس میں سب کچھ ہے۔ نیکیوں اور بدیوں کی تفصیل ہے اور آئندہ زمانے کی خبریں ہیں وغیرہ۔ بخوبی سمجھ لو کہ یہ وہ مذہب پیش کرتا ہے جس پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ اس کے برکات اور ثمرات تازہ بتازہ ملتے ہیں۔ انجیل میں مذہب کو کامل طور پر بیان نہیں کیا گیا۔ اُس کی تعلیم اُس زمانے کے حسب حال ہو توہو لیکن وہ ہمیشہ اور حالت کے موافق ہرگز نہیں۔ یہ فخر قرآن مجید ہی کو ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں ہر مرض کا علاج بتایا ہے اور تمام قویٰ کی تربیت فرمائی ہے اور جو بدی ظاہر ی کی ہے اس کے دُور کرنے کا طریق بھی بتایا ہے۔ اس لئے قرآن مجید کی تلاوت کرتے رہو اور دعا کرتے رہو اور اپنے چال چلن کو اس کی تعلیم کے ماتحت رکھنے کی کوشش کرو‘‘۔ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ 102۔ جدید ایڈیشن)
اللہ ہمیں اس کے پڑھنے، سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم خود بھی اس ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے ہوں اور اپنی نسلوں کو بھی قرآن کریم کی خوبصورت تعلیم کی طرف توجہ دلائیں اور ان کے دلوں میں قرآن کریم کی محبت پیدا کرنے والے ہوں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں