خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 11؍ستمبر 2009ء

قرآن ایسی کتاب ہے کہ سوائے پاک کے اور کسی کی فہم اس تک نہیں پہنچتی۔ اس وجہ سے ایک ایسے مفسرکی حاجت پڑی کہ خداکے ہاتھ نے اسے پاک کیاہو۔
قرآن مجید کی عظمت و شان کا تذکرہ اور احباب جماعت کو قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کرنے کی اہم نصائح
ہر محب وطن پاکستانی یہ چاہے گا کہ ملک میں امن ہو اور مُلّائیت کا خاتمہ ہو۔
انشاء اللہ جماعت احمدیہ کے حق میں پاکستان میں اور تمام اسلامی ممالک میں وہ الٰہی تقدیر بڑی شان سے ظاہر ہو گی اور خود بخود روز روشن کی طرح واضح ہو جائے گا کہ حقیقی مسلمان کون ہے۔
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ مورخہ 11؍ستمبر 2009ء بمطابق11؍تبوک 1388 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لند ن (برطانیہ)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
لَوْاَنْزَلْنَاھٰذَاالْقُرْاٰنَ عَلٰی جَبَلٍ لَّرَاَیْتَہٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْیَۃِ اللّٰہِ۔ وَتِلْکَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُھَا لِلنَّاسِ لَعَلَّھُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ (سورۃ الحشر آیت 22)

اس آیت کا ترجمہ ہے کہ اگرہم نے اس قرآن کو کسی پہاڑ پر اتارا ہوتا توتو ضرور دیکھتا کہ وہ اللہ کے خوف سے عجز اختیار کرتے ہوئے ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا اور یہ تمثیلات ہیں جو ہم لوگوں کے لئے بیان کرتے ہیں تاکہ وہ تفکر کریں۔
بعض لوگوں کے دل اتنے سخت ہو جاتے ہیں کہ کلام الٰہی کا ان پر اثرہی نہیں ہوتا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں جو میں نے تلاوت کی ہے فرمایا کہ اگر ہم یہ قرآن پہاڑ پر بھی اتارتے تو وہ بھی خوف سے ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا۔
پس اللہ تعالیٰ کے اس کلام سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بعض انسانوں کے دل پہاڑوں سے بھی زیادہ سخت ہوتے ہیں۔ اپنے مقصد پیدائش کو بھول جاتے ہیں۔ اپنے پیدا کرنے والے کو بھول جاتے ہیں۔ اپنی عاقبت کو بھول جاتے ہیں۔
سورۃ بقرہ میں انسانی دلوں کی سختی کے بارے میں خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ

ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْبُکُمْ مِّنْ بَعْدِ ذٰلِکَ فَھِیَ کَالْحِجَارَۃِ اَوْ اَشَدُّ قَسْوَۃً۔ وَاِنَّ مِنَ الْحِجَارَۃِ لَمَا یَتَفَجَّرُ مِنْہُ الْا َ نْھٰرُ۔ وَاِنَّ مِنْھَا لَمَا یَشَّقَّقُ فَیَخْرُجُ مِنْہُ الْمَآءُ۔ وَاِنَّ مِنْھَا لَمَا یَھْبِطُ مِنْ خَشْیَۃِ اللّٰہِ (البقرۃ:75)

یعنی اس کے بعد پھر تمہارے دل سخت ہو گئے۔ گویا وہ پتھروں کی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت ہیں۔ پتھروں میں سے ایسے ہیں جن میں سے دریا بہتے ہیں اور بعض ایسے ہیں جب پھٹ جائیں تو ان میں پانی بہنے لگتاہے، چشمے پھوٹ پڑتے ہیں۔ اور ان میں سے بعض ایسے ہیں جو اللہ کے ڈر سے گر جاتے ہیں۔
پس اللہ تعالیٰ کی تقدیروں کا، اللہ تعالیٰ کے کلام کا، دنیا میں اللہ تعالیٰ کی جو مختلف تقدیریں چل رہی ہیں ان کا جمادات پر بھی اثر ہوتا ہے۔ لیکن انسان کا دل ایسا سخت ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر کو دیکھ کر بھی اپنے اندر تبدیلی لانا نہیں چاہتا۔ سورۃ بقرہ کی اس آیت میں یہودیوں کے حوالے سے بات ہو رہی ہے لیکن یہ حوالہ صرف واقعہ نہیں بلکہ پیشگوئی بھی ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کا خوف پیدا نہیں کرو گے توتمہارے دل بھی اسی طرح سخت ہوں گے۔
آج کل کے حالات دیکھیں تو مسلمانوں کے لئے بھی لمحہ فکریہ ہے۔ غور کریں کہ یہ سب کچھ کیوں ہو رہا ہے؟ باوجود اس کے کہ مغربی دنیا میں جب یہاں کے سیاستدانوں کو مسلمان اپنے فنکشنز میں بلاتے ہیں یا خود اپنے فنکشنز کرتے ہیں تو تقریروں میں، فنکشنز میں یہ لوگ مسلمانوں کی تعریف بھی کر رہے ہوتے ہیں لیکن جب مجموعی طورپر کسی فیصلے کا وقت آتا ہے تو فیصلے وہی کئے جاتے ہیں جو ان کی اپنی مرضی کے ہوں نہ کہ مسلمانوں کے مفاد کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔
پس مسلمانوں کی یہ جو دوسرے درجے بلکہ تیسرے درجے کی حیثیت ہے اور ان کے اپنے ملکوں میں بھی حکومتیں چلانے کے لئے دوسروں کی طرف نظر ہے۔ پھر آسمانی اور زمینی آفات ہیں۔ یہ سب کیا ہے ؟سورۃ حشر کی آیت جس کی مَیں نے تلاوت کی ہے اس سے پہلی آیات میں مومن ہی مخاطب ہیں جنہیں تقویٰ اختیار کرنے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ کل کے لئے کچھ آگے بھیجنے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ آخرت کی اور عاقبت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ اللہ کی یاد کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ ورنہ فرمایا اگر اس طرف توجہ نہیں کرو گے تونتیجتاً تم خود اپنی پہچان کھو بیٹھو گے۔ فسق و فجور میں پڑ کر ذلت کا سامنا کرو گے۔ پس ہوش کرو اور شیطان کے پنجے سے نکلو اور اپنے دلوں کی سختیوں کو اللہ تعالیٰ کی یاد سے بھر کر نرمی میں بدلو۔ لیکن شیطان نے ایسا قابو کیا ہے کہ حقیقت کو سمجھنا نہیں چاہتے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا نقشہ ایک جگہ اس طرح کھینچا ہے کہ

وَلٰکِنْ قَسَتْ قُلُوْبُھُمْ وَزَیَّنَ لَھُمُ الشَّیْطٰنُ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(الانعام:44)

یعنی ان کے دل تو اور بھی سخت ہو گئے ہیں اور جو کچھ وہ کرتے ہیں شیطان نے انہیں اور بھی خوبصورت کرکے دکھایا ہے۔ ہر آفت سے، ہر مشکل سے سبق لینے کی بجائے ظلموں میں اَور بڑھ جاتے ہیں۔ فسق و فجور میں اَور بڑھ جاتے ہیں۔
پاکستان میں بھی آج کل شور ہو رہا ہے۔ ہر جگہ مار دھاڑ ہوتی ہے ؟ کہیں بجلی کے خلاف، کہیں دوسرے ظلموں کے خلاف، کہیں مہنگائی کے خلاف جلوس نکل رہے ہیں، کہیں دوسری آفات ہیں۔ لیڈ رجو ہیں ان کو بھی کوئی فکر نہیں۔ اخباروں میں کالم لکھے جا رہے ہیں کہ ہم لوگ تباہی کے کنارے کی طرف بڑھتے چلے جا رہے ہیں اور یہ سب کچھ کیاہے؟ اس کی ایک بہت بڑی وجہ مَیں بتاتا ہوں اوریہ وجہ ایک عرصہ سے بتا رہا ہوں کہ زمانہ کے امام کو ماننا تو درکنار، وہ تو ایک طرف رہا ایسے قانون لاگو کئے گئے ہیں کہ ماننے والوں پر قانون کی آڑ میں ظلم کئے جاتے ہیں۔ وہ ظلم تو پہلے بند کرو۔ امام الزمان کے خلاف ہر سرکاری کاغذ پر گالیوں کی جو بھر مارکی جاتی ہے اس کو تو بند کرو۔ ورنہ خداتعالیٰ کی تقدیر اپنے پیاروں کے لئے اپنا کام کرتی ہے۔ کوئی غیر مسلم اگر اللہ اور محمدؐکا نام یہاں پاکستان میں لے لے، گلوں میں لاکٹ پہنے ہوں تو بڑے خوش ہوتے ہیں۔ لیکن احمدی اگر اللہ اور محمدا کا نام اپنی مسجدوں اور گھروں پر لکھیں تو اسے توڑ کر گندے نالوں میں بہایا جاتا ہے۔ اُس وقت ان کو خیال نہیں آتا کہ اللہ تعالیٰ کے نام کی بے حرمتی ان سرکاری کارندوں کے ذریعہ سے ہو رہی ہے۔ اُس وقت ہتک رسول ان کو نظر نہیں آرہی ہوتی۔ پس جب یہ چیزیں نظر نہیں آتیں تو اللہ تعالیٰ کی تقدیر پھر اپنا کام دکھاتی ہے۔
پاکستان میں علماء کہلانے والوں کی جہالت کا یہ حال ہے کہ ایک پروگرام کرنے والے کمپیئر ہیں، مبشر لقمان صاحب۔ بہرحال بڑی جرأت سے وہ پروگرام کر رہے ہیں۔ ٹی وی پہ ان کاپروگرام آیا۔ کتنی دیر جاری رہتا ہے۔ کس حد تک بے خوف رہتے ہیں یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ لیکن بہرحال ان کا ایک پروگرام آیا جب اس میں احمدیوں کا ذکر ہوا توایک عالم صاحب وہاں بیٹھے جواب دے رہے تھے اور جس طرح کو کاکولاکا ٹریڈ مارک ہے اور اس نام سے کوئی اَورکمپنی کوکا کولا نہیں بنا سکتی ورنہ پکڑی جائے گی اسی طرح مسلمان صرف ہم کہلا سکتے ہیں اور احمدی اپنے آپ کو مسلمان کہیں گے تو ان کو سزا ملے گی۔ ایسے فتوے دینے والے یہ علماء ہیں جن کے بارہ میں حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا : ایک زمانہ میں انتہائی جاہل اشخاص کو لوگ اپنا سردار بنا لیں گے اور ان سے جا کر مسائل پوچھیں گے اور وہ بغیر علم کے فتویٰ دیں گے۔ پس خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔ مسلمان کون ہے ؟مَیں اس کی کسی لمبی علمی بحث میں نہیں پڑنا چاہتا لیکن یہ واضح ہو کہ کامل فرمانبردار اور آنحضرت ﷺ کے تمام حکموں پر عمل کرنے والے اور قرآن کریم کی پیروی کرنے والے اگر کوئی ہیں، مسلمان کی تعریف میں آتے ہیں تو وہ احمدی ہیں۔
دو احادیث بھی اس بارہ میں پیش کر دیتا ہوں جس سے مسلمان کی وہ تعریف واضح ہوجاتی ہے جو آنحضرت ﷺ نے فرمائی ہے اور یہی حقیقی تعریف ہے، نہ کہ ان علماء کی تعریف جو کوکا کولا کے پیٹنٹ (Patent) نام کو اسلام کے نام کے ساتھ ملانا چاہتے ہیں۔ جہالت کی انتہا ہے۔
ایک حدیث میں آتا ہے۔ ابی مالک روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ مَنْ قَالَ لَااِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ وَکَفَرَ بما یُعْبَدُ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ حَرُمَ مَالُہٗ وَدَمُہٗ وَحِسَابُہٗ عَلَی اللّٰہِ (مسلم کتاب الاِیمان۔ باب الامر بقتال الناس حتی یقولوا لَاالہ الّا اللہ)کہ مَیں نے آنحضرت ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس نے یہ اقرار کیا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور انکار کیا ان کا جن کی اللہ تعالیٰ کے سوا عبادت کی جاتی ہے تو اس کے جان و مال قابل احترام ہو جاتے ہیں۔ (ان کو قانونی تحفظ حاصل ہو جاتا ہے)۔ باقی اس کا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے۔ وہی جانتا ہے کہ اس کی نیت کیا ہے اور وہ اس کی نیت کے مطابق اسے بدلہ دے گا۔ کلمہ پڑھنے کے بعد، لَااِلٰہَ اِلَّااللّٰہ کہنے کے بعد، وہ بندوں کی گرفت سے آزاد ہو جاتا ہے۔
پھر ایک دوسری حدیث میں آتا ہے۔ انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایاکہ

مَنْ صَلَّی صَلٰوتَنَا وَاسْتَقْبَلَ قِبْلَتَنَا وَاَکَلَ ذَبِیْحَتَنَا فَذٰلِکَ الْمُسْلِمُ الَّذِیْ لَہٗ ذِمَّۃُ اللّٰہِ وَذِمَّۃُ رَسُوْلِ اللّٰہِ فَلَا تُخْفِرُوْا اللّٰہِ فِی ذِمَّتِہٖ۔

(صحیح بخاری کتاب الصلوٰۃ باب فضل استقبال القبلۃ حدیث نمبر 391)
حضرت انسؓ بن مالک کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص ہماری طرح نماز پڑھے اور اس میں ہمارے قبلہ کی طرف منہ کرے، ہمارا ذبیحہ کھائے وہ مسلمان ہے۔ جس کی حفاظت کی ذمہ د اری اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے لی ہے۔ پس اللہ کی ذمہ داری کی بے حرمتی نہ کرو۔ اسے بے اثر نہ بناؤ اور اس کا وقار نہ گراؤ۔
پس علماء جو یہ کہتے ہیں اُن سے میری درخواست ہے کہ اپنے اسلام کو پیٹنٹ نہ کروائیں۔ ایسا اسلام پیش نہ کریں جو اللہ اور اس کے رسول کی تعریف کے مخالف ہے۔ اسلام وہی ہے جس کی تعریف آنحضرت ﷺ نے فرمائی ہے۔ ہمیں تو اِس تعریف کے تحت آنحضرت ﷺ نے مسلمان قرار دے دیا ہے اور اس کے بعد نہ ہمیں کسی مولوی کے سرٹیفیکیٹ کی ضرورت ہے اور نہ کسی پارلیمنٹ کے سرٹیفیکیٹ کی ضرورت ہے۔
اسی ضمن میں ایک اور بات بھی مَیں بیان کر دوں۔ گزشتہ دنوں کسی اخبار کے حوالے سے مجھے ایک خبر کسی نے بھجوائی۔ اس کی انہوں نے فوٹو کاپی نکا ل کے یااس کا پرنٹ نکال کے مجھے بھجوادی۔ احمدیوں میں ایسی خبروں کو میرے علم میں لانے کے لئے بھی اور شاید میری رائے پوچھنے کے لئے بھی بھجوانے کا شوق ہے۔ او رخبر تھی الطاف حسین صاحب کے حوالے سے جو ایم کیو ایم کے لیڈر ہیں کہ انہوں نے احمدیوں کے حق میں کھل کر بیان دیا ہے اور احمدیوں کے ساتھ پاکستان میں جو کچھ زیادتی اور ظلم ہو رہاہے، اس کی کھلی کھلی مذمت کی ہے کہ یہ غلط اقدام کئے جا رہے ہیں۔ غلط باتیں کی جا رہی ہیں۔ جب یہ خبر پہنچی توپریس کے نمائندوں کو چونکہ خبرکو سنسنی خیز کرنے کا بڑا شوق ہوتاہے کسی اخبار نے شاید اس پر یہ خبر لگا دی کہ مرزا مسرور احمد اور الطاف حسین کی میٹنگ ہوئی لندن میں اورانہوں نے منصوبہ بندی کی ہے کہ پنجاب میں اور پاکستان میں کس طرح ایم کیو ایم کو فعال کی جائے۔
جہاں تک الطاف حسین صاحب کے بیان کا تعلق ہے ہر محب وطن پاکستانی میرے خیال میں یہ چاہے گا کہ ملک میں امن ہو اور ملائیت کا خاتمہ ہو اور فرقہ واریت اور مذہبی منافرت کو ملک سے باہر نکالا جائے۔ بڑی خوشی کی بات ہے۔ مجھے اس بات پہ خوشی ہوئی کہ الطاف حسین صاحب نے یہ بیان دیا اور جرأت کا مظاہرہ کیا بلکہ اس دفعہ کافی اچھا بیان دے کر کافی جرأت کا مظاہرہ کیا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ ملک میں امن دیکھنا چاہتے ہیں۔ فرقہ واریت اور مذہبی منافرت کو ختم کرنا چاہتے ہیں تاکہ ملک ترقی کرے۔ نیتوں کو تو اللہ بہتر جانتا ہے۔ ہم کسی کی نیت پرتو شبہ نہیں کر سکتے۔ اللہ تعالیٰ ان کو اس نیک مقصد کامیاب کرے اور کبھی وہ سیاست یا کسی سیاسی مصلحت کی بھینٹ نہ چڑھ جائیں۔ لیکن کل ہی رات کو مَیں نے ٹی وی آن کیا خبریں دیکھتے ہوئے تو اس پہ خبر آرہی تھی کہ ختم نبوت کے علماء کو جو انہوں نے خطاب کیا اس میں اب ان کی تسلی ہو گئی ہے۔ ختم نبوت والوں کے جو تحفظات تھے ان کے اس بیان کے بعد وہ دور ہو گئے ہیں۔ مَیں نے تفصیل تو نہیں دیکھی کہ کیا تحفظات تھے اور کیا تسلی ہوئی لیکن بہرحال لگتا ہے کہ بیان ان کا کچھ آیا جس سے مولوی خوش ہو گئے۔ مولویوں کی حکومت کا تو یہ حال ہے کہ گزشتہ دنوں اخبار میں وزیر اعظم پاکستان کا یہ بیان تھا کہ میں چاہتا ہوں کہ یہ یہ کام ہو جائے لیکن علماء سے مجھے ڈر لگتا ہے۔ وزیراعظم کی طاقت کا تو یہ حال ہے۔
جہاں تک میری میٹنگ کا سوال ہے جیسا کہ مَیں نے کہا سنسنی پیدا کرنے کے لئے خبریں لگانے والے دن کو بھی خوابیں دیکھتے ہیں۔ اگر کوئی میٹنگ ہوئی ہوتی تو جس طرح الطاف صاحب بیان دے رہے ہیں شاید یہ بھی بتا دیتے کہ میری میٹنگ ہوئی ہے۔ ہاں یہ مَیں ضرور کہوں گا کہ اللہ کرے کہ جو بھی ملک کو بچانے کے لئے ان نفرتوں کی دیواروں کو گرانے کی کوشش کرے، اللہ تعالیٰ اسے کامیاب کرے۔ ہمیں تو ملک سے محبت ہے۔ ہم نے اس کے بنانے میں بھی کردار ادا کیا ہے اور اس کے قائم رکھنے کے لئے بھی ہر قربانی کریں گے اور کر رہے ہیں۔ انشاء اللہ۔ ہر احمدی کو دعا کرتے رہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ملک میں ایسے لیڈر پیدا کرے۔
جہاں تک احمدیوں پر ظلموں کا سوال ہے اور اس کے توڑ کے لئے ہماری کوششیں ہیں تویہ کہ ہم نے اپنے معاملات جو ہیں خداتعالیٰ کے سپرد کئے ہیں۔ اگر ہم راز و نیاز کرتے ہیں تو اپنے پیارے ربّ سے اور ہم اس یقین پر قائم ہیں کہ احمدیت کے حق میں جو سکیم خداتعالیٰ بنائے گا اور بنا رہا ہے اس کے سامنے تمام انسانی تدبیریں ہیچ ہیں اور انشاء اللہ تعالیٰ ضرور اور ضرور جماعت احمدیہ کے حق میں پاکستان میں اور تمام اسلامی ممالک میں وہ الٰہی تقدیر بڑی شان سے ظاہر ہو گی۔ اور خود بخود روز روشن کی طرح واضح ہو جائے گا کہ حقیقی مسلمان کون ہے اور اسلام کا درد رکھنے والا کون ہے۔
پس مَیں احمدیوں سے، خاص طور پر جو پاکستانی احمدی ہیں چاہے وہ ملک میں رہ رہے ہیں یا ملک سے باہر ہیں کہوں گاکہ ملک کے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو عقل دے اور ملک کی سالمیت کو جو داؤ پہ لگایا ہواہے اس سے ملک باہر نکلے۔ اسی طرح دوسرے مسلمان ممالک ہیں۔ عرب ممالک ہیں وہاں کے رہنے والے احمدیوں کو بھی رمضان کے ان دنوں میں جو گزر رہے ہیں اورخاص طور پردعاؤں کی قبولیت کے دن ہیں، اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کے دن ہیں یہ دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اپنی تقدیر مبرم کے جلدنظارے ہمیں دکھائے۔
اب مَیں واپس اسی آیت کے مضمون کی طرف آتا ہوں جو مَیں نے تلاوت کی تھی۔ مسلمان کی تعریف میں ذرا وقت لگ گیا لیکن یہ بیان کرنا بھی ضروری تھا۔
اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا ہے کہ

لَوْاَنْزَلْنَاھٰذَاالْقُرْاٰنَ عَلٰی جَبَلٍ لَّرَاَیْتَہٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْیَۃِ اللّٰہِ۔ (الحشر :22)

اس کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
‘’ایک تو اس کے یہ معنے ہیں کہ قرآن شریف کی ایسی تاثیر ہے کہ اگر پہاڑ پر وہ اترتا تو پہاڑ خوف خدا سے ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا اور زمین کے ساتھ مل جاتا۔ جب جمادات پر اس کی ایسی تاثیر ہے تو بڑے ہی بے وقوف وہ لوگ ہیں جو اس کی تاثیر سے فائدہ نہیں اٹھاتے۔ اور دوسرے اس کے معنے یہ ہیں کہ کوئی شخص محبت الٰہی اور رضائے الٰہی کو حاصل نہیں کر سکتا جب تک دو صفتیں اس میں پیدا نہ ہو جائیں۔ اوّل تکبر کو توڑنا جس طرح کہ کھڑا ہوا پہاڑ جس نے سراونچا کیا ہوا ہوتا ہے، گر کر زمین سے ہموار ہو جائے۔ اسی طرح انسان کو چاہئے کہ تمام تکبر اور بڑائی کے خیالات کو دُور کرے۔ عاجزی اور خاکسار ی کو اختیا ر کرے۔ اور دوسرا یہ ہے کہ پہلے تمام تعلقات اس کے ٹوٹ جائیں جیسا کہ پہاڑ گر کر مُتَصَدِّعًا ہو جاتا ہے۔ اینٹ سے اینٹ جدا ہو جاتی ہے۔ ایسا ہی اس کے پہلے تعلقات جو موجب گندگی اور الٰہی نارضا مندی تھے وہ سب تعلقات ٹوٹ جائیں اور اب اس کی ملاقاتیں اور دوستیاں اور محبتیں اور عداوتیں صرف اللہ تعالیٰ کے لئے رہ جائیں۔ (الحکم جلد 5نمبر 21 مورخہ 10؍جون 1901ء صفحہ 9۔ تفسیر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام جلد چہارم نمبر 338۔ زیر سورۃ الحشر آیت 22)
پس یہ تکبر توڑنے کی ضرورت ہے اور اپنے دلوں کی سطح ہموار کرنے کی ضرورت ہے۔ مَیں پھردوبارہ ان نام نہاد علماء کو کہوں گا۔ بات پھر وہیں پلٹ جاتی ہے کہ جب تک مسیح موعودؑکے مقابلہ میں اپنے تکبر سے پُر سَرجو ہیں وہ نیچے نہیں کرو گے توقرآن کی اور اسلام کی اسی قسم کی تعریفیں ہی کرتے رہو گے جو مضحکہ خیز ہیں۔ اب اللہ اور رسول ﷺ سے محبت کا دم بھرنا ہے تو امام وقت سے تعلق جوڑنا بھی ضروری ہے۔ پھر دیکھو مشرق و مغرب اور شمال و جنوب میں تم کس طرح عزت کی نگاہ سے دیکھے جاؤ گے۔ تب اس پاک کلام کے اسرار و رموز تمہیں سمجھ آئیں گیجو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ پر اتارا۔ اس کا فہم تمہیں حاصل ہو گا۔ کیونکہ قرآن کریم کو سمجھنے کے لئے بھی خداتعالیٰ کے برگزیدہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ جیسا کہ خود قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

اِنَّہٗ لَقُرْاٰنٌ کَرِیْمٌ۔ فِیْ کِتَابٍ مَّکْنُوْنٍ۔ لَایَمَسُّہٗٓ اِلَّا الْمُطَہَّرُوْنَ (الواقعہ: 80تا78)

کہ یقیناً ایک عزت والا قرآن ہے، ایک چھُپی ہوئی کتاب ہے، محفوظ کتاب ہے کوئی اسے چھُونہیں سکتا، سوائے پاک کئے ہوئے لوگوں کے۔
ان آیات میں جہاں غیر مسلموں کے لئے قرآن کریم کی عزت و عظمت کا اظہار کیا گیا ہے۔ ان کو بتایا گیا ہے کہ اس کی عظمت ہے۔ ایک ایسی کتاب ہے جو بیش بہاخزانہ ہے۔ جس کی تعلیم محفوظ ہے یعنی اس کے نزول کے وقت سے یہ محفوظ چلی آرہی ہے اور تاقیامت محفوظ رہے گی۔ لیکن فائدہ وہی اٹھائیں گے جو پاک دل ہو کر اس سے فائدہ اٹھانا چاہیں گے۔ وہاں مسلمانوں کے لئے بھی اس میں نصیحت ہے کہ صرف مسلمان ہو کر اس سے فیض نہیں پایا جا سکتا۔ جب تک پاک دل ہو کر اس پر عمل نہیں کرتے اور اس کا مکمل فہم حاصل نہیں کرتے اور اس دُرّ مکنون کو حاصل کرنے کے لئے ان مُطَہَّرِیْن کی تلاش نہیں کرتے جن کو خداتعالیٰ نے اس کے فہم سے نوازا ہے یا نوازتا ہے اور اس زمانے میں آنحضرت ﷺ کی پیشگوئیوں اور خداتعالیٰ کے وعدے کے مطابق یہ مقام آنے والے مسیح و مہدی کو ہی ملنا تھا اور ملا ہے اور خداتعالیٰ سے براہ راست علم پا کر آپؑ نے اس عظیم کتاب کے اسرار ورموز ہم پر کھولے ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :
’’قرآن کے حقائق و دقائق انہی پر کھلتے ہیں جو پاک کئے گئے ہیں۔
(ماخوذ از برکات الدعا روحانی خزائن جلد نمبر 6 صفحہ 18)
’’پس ان آیات سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کے سمجھنے کے لئے ایک ایسے معلم کی ضرورت ہے جس کو خداتعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے پاک کیا ہو۔ اگر قرآن کے سیکھنے کے لئے معلم کی حاجت نہ ہوتی تو ابتدائے زمانہ میں بھی نہ ہوتی‘‘۔ فرمایا کہ’’یہ کہنا کہ ابتدا میں توحل مشکلات قرآن کے لئے ایک معلم کی ضرورت تھی لیکن جب حل ہو گئیں تو اب کیا ضرورت ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ حل شدہ بھی ایک مدت کے بعد پھر قابل حل ہو جاتی ہیں۔ ماسوا اس کے اُمّت کو ہر ایک زمانہ میں نئی مشکلات بھی تو پیش آتی ہیں ‘‘۔
اب دیکھیں عملاً اُمّت میں اس کا اظہار بھی ہو گیا۔ کئی سو آیات ایک وقت میں قرآن کریم کی منسوخ سمجھی جاتی تھیں۔ پھر اللہ تعالیٰ کے پاک بندے جن کو اللہ تعالیٰ نے علم دیا، ان کو حل کرتے گئے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان تمام کو حل کر دیا۔ پس معلم کی ضرورت تو خود اسلام کی تاریخ سے بھی ثابت ہے۔ یہ جو اتنے فرقے بنے ہوئے ہیں یہ بھی اس لئے ہیں کہ جس جس کو اپنے ذوق کے مطابق سمجھ آئی اور اس نے اسی کوآخری فیصلہ سمجھ کے اس پر عمل کرنا شروع کر دیا اور لاگو کرلیا اس پر قائم ہو گیا۔ بڑے بڑے مسائل تو ایک طرف رہے اب وضو کے بارہ میں ہی مسلمانوں میں اختلاف پایا جاتا ہے، حالانکہ قرآن کریم میں واضح طور پر لکھا ہوا ہے۔
بہرحال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مزید فرماتے ہیں کہ’’قرآن جامع جمیع علوم تو ہے‘‘ یعنی تمام علوم اس میں پائے جاتے ہیں ’’لیکن یہ ضروری نہیں کہ ایک ہی زمانہ میں اس کے تمام علوم ظاہر ہو جائیں بلکہ جیسی جیسی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے ویسے ویسے قرآنی علوم کھلتے ہیں اور ہر ایک زمانہ کی مشکلات کے مناسب حال ان مشکلات کو حل کرنے والے روحانی معلم بھیجے جاتے ہیں۔
(شہادۃ القرآن۔ روحانی خزائن جلد 6صفحہ348)
پھرآپؑ خطبہ الہامیہ میں فرماتے ہیں : ’’کہتے ہیں کہ ہم کو مسیح و مہدی کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ قرآن ہمارے لئے کافی ہے اور ہم سیدھے راستے پر ہیں۔ حالانکہ جانتے ہیں کہ قرآن ایسی کتاب ہے کہ سوائے پاک کے اور کسی کی فہم اس تک نہیں پہنچتی۔ اس وجہ سے ایک ایسے مفسر کی حاجت پڑی کہ خدا کے ہاتھ نے اسے پاک کیا ہو اور بینا بنایا ہو‘‘۔
(خطبہ الہامیہ روحانی خزائن جلد نمبر 16 صفحہ 183-184 مطبوعہ ربوہ۔ تفسیر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام جلد چہارم صفحہ 309)
آج کل جو مسلمانوں کی حالت ہے وہ اس لئے ہے کہ خدا کے برگزیدہ کو (بھیجے ہوئے کو) جوخدا سے علم پا کر آیا، جس نے اس زمانہ میں قرآن کی جوتفسیر تھی وہ ہمارے سامنے پیش کی۔ اس کو ماننے سے انکاری ہیں۔ پس مسلمانوں کی بقا اور اُمّت کا عزت و وقار اسی سے وابستہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کے عاشق صادق کے کہنے پر عمل کریں اور اس کو مانیں۔
آپ علیہ السلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ’’سچی بات یہی ہے کہ مسیح موعود اور مہدی کا کام یہی ہے کہ وہ لڑائیوں کے سلسلہ کو بند کرے گااور قلم، دعا اور توجہ سے اسلام کا بول بالا کرے گا۔ اور افسوس ہے کہ لوگوں کو یہ بات سمجھ نہیں آتی اس لئے کہ جتنی توجہ دنیا کی طرف ہے، دین کی طرف نہیں۔ دنیا کی آلودگیوں اور ناپاکیوں میں مبتلا ہو کر یہ امید کیونکر کر سکتے ہیں کہ ان پر قرآن کریم کے معارف کھلیں۔ وہاں صاف لکھا ہے

لَایَمَسُّہٗٓ اِلَّا الْمُطَہَّرُوْنَ’‘۔

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 553 مطبوعہ ربوہ)
یہ بات جہاں عام مسلمانوں کے لئے سوچنے کا مقام ہے وہاں ہمیں جو احمدی مسلمان ہیں اپنی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلانے والی ہے۔ پس اس بابرکت مہینے میں ہر احمدی کو خداتعالیٰ سے یہ دعا بھی کرنی چاہئے کہ ہمارے دلوں کو اس طرح پاک کرے کہ قرآن کریم کی برکات سے ہم اس طرح فیض پانے والے ہوں جس طرح خداتعالیٰ ایک حقیقی مومن سے چاہتا ہے اور جس کی وضاحت اس زمانے میں خداتعالیٰ کے بھیجے ہوئے نے ہمارے سامنے پیش فرمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے حسن، اس کی تعلیم اور اس کے مقام کے بارہ میں قرآن کریم میں جو بیان فرمایا ہے، بہت جگہ پہ ہے بلکہ سارا قرآن کریم ہی بھرا ہوا ہے۔ اس کی چند مثالیں مَیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ جو قرآن کریم کی خوبصورت تعلیم پر عمل کرنے والے ہوں گے ان کو پھر اس وجہ سے کیا مقام ملتا ہے۔
جو پاک دل ہو کر اس کو سمجھتا ہے اور سمجھنے کی کوشش کرتا ہے اس کا بھی بڑا مقام ہے۔ اس بارہ میں ایک روایت میں آتا ہے کہ سہل بن معاذ جہنی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے قرآن پڑھا اور اس پر عمل کیا تو قیامت کے روز اس کے ماں باپ کو دو تاج پہنائے جائیں گے جن کی روشنی سورج کی چمک سے بھی زیادہ ہو گی جو ان کے دنیا کے گھروں میں ہوتی تھی‘‘۔
(سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ ابواب قراء ۃ القرآن باب فی ثواب قراء ۃ القرآن حدیث 1453)
پھر جب اس کے والدین کا یہ درجہ ہے تو خیال کرو کہ اس شخص کا کیا درجہ ہو گا جس نے قرآن پر عمل کیا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ فرمایا ہے کہ ’’جو لوگ قرآن کو عزت دیں گے وہ آسمان پر عزت پائیں گے‘‘۔ (کشتی ٔ نوح۔ روحانی خزائن جلد 19صفحہ 13)۔ یہ عزت تبھی ہے جب ہم عمل کر رہے ہوں گے اور پھر اللہ تعالیٰ کے ہاں اس چیز کاجو درجہ ہے وہ اس حدیث سے واضح ہوتا ہے۔
قرآن کریم کے کامل کتاب اور اس کی خوبصورت تعلیم کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں ’’چونکہ قرآن کریم خاتم الکتب اور اکمل الکتب ہے اور صحائف میں سے حسین اور جمیل ترین ہے۔ اس لئے اس نے اپنی تعلیم کی بنیاد کمال کے انتہائی درجہ پر رکھی ہے اور اس نے تمام حالتوں میں فطری شریعت کو قانونی شریعت کا ساتھی بنادیا ہے تا وہ لوگوں کو گمراہی سے محفوظ کر دے اور اس نے ارادہ کر لیا ہے کہ وہ انسان کو اس بے جان چیز کی طرح بنا دے جو خود بخود دائیں بائیں حرکت نہیں کر سکتی اور نہ ہی کسی کو معاف کر سکتی یا اس سے انتقام لے سکتی ہے جب تک کہ خدائے ذوالجلال کی طرف سے اجازت نہ ہو‘‘۔
(ترجمہ خطبہ الہامیہ۔ روحانی خزائن جلد 16صفحہ316)
پس قرآن کریم کی تعلیم پر حقیقی عمل یہ ہے کہ اس کے ہر حکم کو بجا لانے کی کوشش کی جائے تبھی عمل کرنے والے کی یا پڑھنے والے کی ہر حرکت و سکون جو ہے وہ خداتعالیٰ کی رضا کے تابع کہلائے گی اور یہ بھی نہیں کہ اس کی تعلیم میں کوئی مشکل ہے بلکہ یہ فطرت کے عین مطابق ہے۔ اس کا ذکر خداتعالیٰ نے قرآن کریم میں کئی جگہ پہ کیا ہے۔ مثلاً روزوں کے جو احکام ہیں اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ

یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ (البقرۃ:186)

کہ یعنی اللہ تعالیٰ تمہارے لئے آسانی چاہتا ہے اور تمہارے لئے تنگی نہیں چاہتا۔ یہ ایک اصولی اعلان ہے۔ قرآن کریم کی تعلیم فطرت کے مطابق ہے اور اس کے بارہ میں یہ بتایا گیا کہ اس میں آسانیاں ہی آسانیاں ہیں۔ تمہاری طاقتوں کے مطابق تمہیں تعلیم دی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے لئے تنگی نہیں چاہتا اور پھر یہ تعلیم ان اعلیٰ معیاروں کا پتہ دینے والی ہے جو معیارتمہیں خداتعالیٰ کے قریب ترین کر دیتے ہیں۔
پھر ایک جگہ خداتعالیٰ فرماتا ہے

وَلَقَدْیَسَّرْنَاالْقُرْاٰنَ لِلذِّکْرِفَھَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ (القمر:18)

اور یقیناً ہم نے قرآن کو نصیحت کی خاطر آسان بنا دیا۔ پس کیا ہے کوئی نصیحت پکڑنے والا؟ یہاں نصیحت اس لئے نہیں کہ نصیحت برائے نصیحت ہے۔ کر دی اورمسئلہ ختم ہو گیا۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ ان نصائح کو پکڑو اور ان پر عمل کرو۔ اگر یہ خیال ہے کہ مشکل تعلیم ہے تو یہ خیال بھی غلط ہے۔ یہ اس خدا کا کلام ہے جس نے انسان کو پیدا کیا اور ہر انسان کی استعدادوں کابھی اس کو علم ہے۔ وہ خدا یہ اعلان کرتا ہے کہ اس کی نصیحتیں اوراس قرآن کی تعلیم پر جو عمل ہے وہ انسانی استعدادوں اور فطرت کے عین مطابق ہے۔ پس کیا اس کے بعد بھی تم اس سوچ میں پڑے رہو گے کہ اس تعلیم پر میں کس طرح عمل کروں ؟ اس تعلیم پر عمل کرو تو جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے بے انتہا انعامات کے وارث ٹھہرو گے۔
پھر اس قرآن میں پرانی قوموں کے جو حالات بیان کئے گئے ہیں وہ بھی اس لئے ہیں کہ نصیحت پکڑ و اور اپنے اعمال کو خدا تعالیٰ کی رضا کے مطابق رکھو تاکہ وہ آفات اور پکڑ اور عذاب جو پرانی قوموں پر آتے رہے اس سے بچے رہو۔
ایک آیت میں پھر خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ قرآن کریم کی تعلیم جو ہے وہ ہمیشہ رہنے والی ہے۔ فرمایا کہ

رَسُوْلٌ مِّنَ اللّٰہِ۔ یَتْلُوْا صُحُفًا مُّطَہَّرَۃً فِیْھَا کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ (البینۃ:4-3)

اللہ کا رسول مطہر صحیفے پڑھتا تھا۔ ان میں قائم رہنے والی اور قائم رکھنے والی تعلیمات تھیں۔
اس بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بڑی تفصیل سے مختلف جگہوں پر روشنی ڈالی ہے۔ ایک بیان مَیں پڑھتا ہوں۔ فرماتے ہیں کہ’’قرآن مجید لانے والا وہ شان رکھتا ہے کہ

یتْلُوْا صُحُفًا مُّطَہَّرَۃً فِیْھَا کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ (البینۃ:4-3)

ایسی کتاب جس میں ساری کتابیں اور ساری صداقتیں موجود ہیں۔ کتاب سے مراد اور عام مفہوم وہ عمدہ باتیں ہیں جو بالطبع انسان قابل تقلید سمجھتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد 1صفحہ52-51۔ جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ) (وہ باتیں ہیں جن کو انسانی طبیعت سمجھتی ہے کہ اس پر عمل کیا جا سکتا ہے۔ ان کی پیروی کی جا سکتی ہے اور کی جانی چاہئے)۔
فرمایا :’’قرآن شریف حکمتوں اور معارف کا جامع ہے اور وہ رطب ویا بس فضولیات کا کوئی ذخیرہ اپنے اندر نہیں رکھتا‘‘ (اس میں کوئی فضول بات نہیں)۔ ’’ہر ایک امر کی تفسیر وہ خود کرتا ہے اور ہر ایک قسم کی ضرورتوں کا سامان اس کے اندر موجود ہے۔ وہ ہرایک پہلو سے نشان اور آیت ہے۔ اگر کوئی اس امر کا انکار کرے تو ہم ہر پہلو سے اس کا اعجاز ثابت کرنے اور دکھلانے کو تیار ہیں ‘‘۔ (یہ چیلنج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس وقت دیا۔ )
فرمایا کہ:’’آجکل توحید اور ہستی الٰہی پر بہت زور آور حملے ہو رہے ہیں ‘‘۔ (اور اس زمانے میں پھر آجکل اللہ تعالیٰ کے وجود کے خلاف بہت زیادہ کتابیں لکھی جا رہی ہیں تو آج کل پھر قرآن کریم کو پڑھنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ ) فرمایا کہ آجکل توحید اور ہستی الٰہی پر بہت زور آور حملے ہو رہے ہیں۔ عیسائیوں نے بھی بہت کچھ زور مارا اور لکھاہے۔ لیکن جو کچھ کہا اور لکھا وہ اسلام کے خدا کی بابت ہی لکھا ہے۔ نہ کہ ایک مُرد ہ، مصلوب اور عاجز خدا کی بابت۔ ہم دعویٰ سے کہتے ہیں کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی ہستی اور وجود پر قلم اٹھائے گا۔ اس کو آخر کار اسی خدا کی طرف آنا پڑے گا۔ جو اسلام نے پیش کیا ہے۔ کیونکہ صحیفۂ فطرت کے ایک ایک پتّے میں اس کا پتہ ملتا ہے اور بالطبع انسان اسی خدا کا نقش اپنے اندر رکھتا ہے۔ غرض ایسے آدمیوں کا قدم جب اٹھے گا وہ اسلام ہی کے میدان کی طرف اٹھے گا‘‘۔ فرمایا :’’یہ بھی تو ایک عظیم الشان اعجاز ہے۔ اگر کوئی شخص قرآن کریم کے اس معجزہ کا انکار کرے تو ایک ہی پہلو سے ہم آزما لیتے ہیں یعنی اگر کوئی شخص قرآن کریم کو خدا کا کلام نہیں مانتا تو اس روشنی اور سائنس کے زمانہ میں ایسا مدعی خدا تعالیٰ کی ہستی پر دلائل لکھے۔ بالمقابل ہم وہ تمام دلائل قرآن کریم ہی سے نکال کر دکھلا دیں گے اور اگر وہ شخص توحید الٰہی کی نسبت دلائل قلمبند کرے تو وہ سب دلائل بھی ہم قرآن کریم ہی سے نکال کر دکھا دیں گے۔ پھر وہ ایسے دلائل کا دعویٰ کرکے لکھے جو قرآن کریم میں نہیں پائے جاتے۔ یا ان صداقتوں اور پاک تعلیموں پر دلائل لکھے جن کی نسبت اس کا خیال ہو کہ وہ قرآن کریم میں نہیں ہیں۔ تو ہم ایسے شخص کو واضح طورپر دکھلا دیں گے کہ قرآن شریف کا دعویٰ

فِیْھَا کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ (البینۃ:4)

کیسا سچا اور صاف ہے اور یا اصل و فطرتی مذہب کی بابت دلائل لکھنا چاہے تو ہم ہر پہلو سے قرآن کریم کا اعجاز ثابت کرکے دکھلا دیں گے اور بتلا دیں گے کہ تمام صداقتیں اور پاک تعلیمیں قرآن کریم میں موجود ہیں۔ الغرض قرآن کریم ایک ایسی کتاب ہے جس میں ہر ایک قسم کے معارف اور اسرار موجود ہیں لیکن ان کے حاصل کرنے کے لئے مَیں پھر کہتا ہوں کہ اسی قوتِ قدسیہ کی ضرورت ہے۔ چنانچہ خود اللہ تعالیٰ نے فرما یا ہے

لَایَمَسُّہٗٓ اِلَّا الْمُطَہَّرُوْنَ (الواقعہ: 80)۔

(ملفوظات جلد اول صفحہ 51-52 مطبوعہ ربوہ)
پس یہ وہ جامع کتاب ہے اور ہدایت کا ذخیر ہ ہے جس کو پڑھنے والا اور عمل کرنے والا اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیشہ ہدایت کے راستوں پر گامزن رہتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جویہ چیلنج دیا تھا یہ آج تک قائم ہے۔ بلکہ آپ کے مریدوں نے بھی اس پر عمل کرکے دنیا کو ثابت کیا کہ قرآن کریم کی صداقت ہر زمانے کے لئے ہے۔
ڈاکٹر عبدالسلام صاحب نے جو نظریہ پیش کیا تھا وہ بھی خداتعالیٰ کی وحدانیت اور قرآن کریم کی صداقت کو ہی ثابت کرتا ہے۔ پس آج بھی جواحمدی سائنٹسٹ، ریسرچ کرنے والے ہیں اس صداقت کو سامنے رکھتے ہوئے غور کریں تو خداتعالیٰ انشاء اللہ خود ان کی راہنمائی فرمائے گا۔
قرآن کریم میں خداتعالیٰ ہدایت پانے کے بارے میں فرماتا ہے۔ اس میں قرآنی تعلیم کے مطابق روحانی ہدایت بھی ہے اور آئندہ آنے والے علوم کی طرف راہنمائی کی ہدایت بھی ہے۔ فرمایا

وَاَنْ اَتْلُوَالْقُرْاٰنَ فَمَنِ اھْتَدٰی فَاِنَّمَا یَھْتَدِیْ لِنَفْسِہٖ(النمل:93)

اور یہ کہ قرآن کی تلاوت کرو۔ پس جس نے ہدایت پائی تو وہ اپنی ہی خاطر ہدایت پاتا ہے۔ پھر تلاوت کرنے سے قرآن کریم میں ہدایات نظر آئیں گی۔ لیکن ہر قسم کی ہدایت وہی پا سکتے ہیں جن کے متعلق یہ فیصلہ آچکا ہے کہ اِلَّا الْمُطَہَّرُوْنَ کہ جب تک پاک صاف نہیں ہوں گے۔ اس کے بغیر سمجھ نہیں آئے گی۔ قرآن کریم کو سمجھنے کے لئے بھی پاک ہونا شرط ہے۔
پھر قرآن کریم کا ایک دعویٰ یہ ہے کہ اس میں سب کچھ موجود ہے۔ بنیادی اخلاق ہیں اور اس اخلاقی تعلیم سے لے کر اعلیٰ ترین علوم تک اس کتاب مکنون میں ہر بات چھپی ہوئی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ سورۃ یونس میں فرماتا ہے کہ

وَمَا تَکُوْنُ فِیْ شَاْنٍ وَّمَاتَتْلُوْا مِنْہُ مِنْ قُرْاٰنٍ وَّلَا تَعْمَلُوْنَ مِنْ عَمَلٍ اِلَّا کُنَّا عَلَیْکُمْ شُہُوْدًا اِذْ تُفِیْضُوْنَ فِیْہِ۔ وَمَا یَعْزُبُ عَنْ رَّبِّکَ مِنْ مِّثْقَالِ ذَرَّۃٍ فِی الْا َرْضِ وَلَا فِی السَّمَآءوَلَا اَصْغَرَمِنْ ذٰلِکَ وَلَا اَکْبَرَ اِلَّا فِیْ کِتٰبٍ مُّبِیْنٍ(یونس:62)

اور تو کبھی کسی خاص کیفیت میں نہیں ہوتا اور اس کیفیت میں قرآن کی تلاوت نہیں کرتا۔ اسی طرح تم اے مومنو! کوئی اچھا عمل نہیں کرتے مگر ہم تم پر گواہ ہوتے ہیں جب تم اس میں مستغرق ہوتے ہو اور تیرے ربّ سے ایک ذرہ برابر بھی کوئی چیز چھپی نہیں رہتی۔ نہ زمین میں اور نہ آسمان میں اور نہ ہی اس سے چھوٹی اور نہ کوئی بڑی چیز ہے مگر کھلی کھلی کتاب میں تحریر ہے۔
یہ آیت اللہ تعالیٰ کی شان کا اظہار ہے۔ ہر چیز پر اللہ تعالیٰ کی نظر کا اظہار ہے۔ غائب اور حاضر اوردور اور نزدیک اور چھوٹی اور بڑی ہر چیز اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے۔ پس یہ اعلان ہے مومن کے لئے اور غیر مومن کے لئے بھی، مسلمان کے لئے بھی اور کافر کے لئے بھی کہ یہ عظیم کتاب کامل علم رکھنے والے خدا کی طرف سے اتاری گئی ہے اور اس میں تمام قسم کے علوم، واقعات، انذاری خبریں اور اس کے ماننے والوں کی ذمہ داریوں کے بارہ میں بھی بتایا دیا گیا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی خاص کتاب ہے اسی لئے اس کتاب کے نازل ہونے کے بعد اس کو اللہ تعالیٰ نے محفوظ بھی رکھا ہوا ہے اور اس کے نازل ہونے کے بعد نہ اس کا انکار کرنے والے کے لئے راہ فرار ہے اور نہ ہی اس کو ماننے کا دعویٰ کرکے عمل نہ کرنے والوں کے لئے کوئی عذر رہ جاتا ہے۔ پس ماننے والوں کو بھی ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ جب صداقت کا اقرار کیا ہے تو اپنے قبلے بھی درست رکھنے ہوں گے۔ اپنی نیتوں کو بھی صحیح نہج پر رکھنا ہو گا۔ اپنے نفس کا جائزہ بھی لیتے رہنا ہو گا۔ صرف یہ کہنا کہ ہم قرآن کریم کو پڑھتے ہیں اور یہ کافی ہے۔ یہ کافی نہیں ہے۔ صرف یہ کہنا کہ ہم اس کے ذریعہ سے دنیا کو اپنی طرف بلاتے ہیں تو یہ کافی نہیں ہے۔ بلکہ یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اس کے پڑھنے سے ہمارے اندر کیا تبدیلیاں ہو رہی ہیں۔ یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ان تبدیلیوں کی وجہ سے دوسرے ہم سے کیا اثر لے رہے ہیں۔ اُن میں کیا تبدیلیاں پیدا ہو رہی ہیں۔ اُن کا اسلام کی طرف کیسا رجحان ہو رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی کا رشتہ دارنہیں ہے۔ جب اس نے ہر بات کھول کر قرآن کریم میں بیان کر دی۔ جب اس نے اپنے وعدے کے مطابق زمانے کا معلم بھیج دیا تو پھر اس بات پر ماننے والوں کو جوابدہ ہونا ہو گا کہ اگر تم نے اپنے اوپر اس تعلیم کو لاگو کرنے کی کوشش نہیں کی تو کیوں نہیں کی؟ اور منکرین کو بھی جواب دینا ہو گا۔ ان کی بھی جواب طلبی ہو گی کہ جب اتنی واضح تعلیم اور نشانات آگئے تو تم نے امام کوکیوں قبول نہیں کیا۔ اور جہاں تک منکرین کا تعلق ہے ان کا معاملہ تو خداتعالیٰ کے پاس ہے۔ (وہی جانتاہے کہ ان سے) وہ کیا سلوک کرتا ہے۔ لیکن ہمیں اپنا معاملہ صاف رکھتے ہوئے اس کتاب کی تلاوت اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام قرآن کریم کے فضائل کا ذکر کرتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں کہ: ’’اگر ہمارے پاس قرآن نہ ہوتا اور حدیثوں کے یہ مجموعے ہی مایۂ نازِ ایمان و اعتقاد ہوتے، تو ہم قوموں کو شرمساری سے منہ بھی نہ دکھا سکتے۔ مَیں نے قرآن کے لفظ میں غور کی۔ تب مجھ پر کھلا کہ اس مبارک لفظ میں ایک زبردست پیشگوئی ہے۔ وہ یہ ہے کہ یہی قرآن یعنی پڑھنے کے لائق کتاب ہے اور ایک زمانہ میں تو اور بھی زیادہ یہی پڑھنے کے لائق کتاب ہو گی جبکہ اور کتابیں بھی پڑھنے میں اس کے ساتھ شریک کی جائیں گی۔ اس وقت اسلام کی عزت بچانے کے لئے اور بطلان کا استیصال کرنے کے لئے یہی ایک کتاب پڑھنے کے قابل ہو گی اور دیگر کتابیں قطعاً چھوڑ دینے کے لائق ہوں گی۔ فرقان کے بھی یہی معنی ہیں۔ یعنی یہی ایک کتاب حق و باطل میں فرق کرنے والی ٹھہرے گی اور کوئی حدیث کی یا اور کوئی کتاب اس حیثیت اور پایہ کی نہ ہو گی۔ اس لئے اب سب کتابیں چھوڑ دو اور رات دن کتاب اللہ ہی کو پڑھو۔ بڑا بے ایمان ہے وہ شخص جو قرآن کریم کی طرف التفات نہ کرے اور دوسری کتابوں پر ہی رات دن جھکا رہے۔ ہماری جماعت کو چاہئے کہ قرآن کریم کے شغل اور تدبر میں جان و دل سے مصروف ہو جائیں اور حدیثوں کے شغل کو ترک کریں۔ بڑے تأسّف کا مقام ہے کہ قرآن کریم کا وہ اعتناء اور تدارس نہیں کیا جاتا جو احادیث کا کیا جاتا ہے۔ اس وقت قرآن کریم کا حربہ ہاتھ میں لو تو تمہاری فتح ہے اس نور کے آگے کوئی ظلمت نہ ٹھہر سکے گی‘‘۔
(ملفوظات جلد اوّل۔ صفحہ 386۔ جدید ایڈیشن)
یہاں ایک وضاحت بھی کر دوں کہ گو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ حدیث کو ترک کرو اور قرآن کو پڑھو۔ لیکن دوسری جگہ فرمایا ہے کہ احادیث اگرقرآن کریم کے تابع ہیں تو ان کو لو اور دوسریوں کو رد ّکرو صرف احادیث کے اوپر نہ چلو۔
(ماخوذ از ’ازالہ اوہام‘۔ روحانی خزائن جلد سوم صفحہ 454)
پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ:’’قرآن کو چھوڑ کر کامیابی ایک ناممکن اور محال امر ہے اور ایسی کامیابی ایک خیالی امر ہے جس کی تلاش میں یہ لوگ لگے ہوئے ہیں۔ صحابہ کے نمونوں کو اپنے سامنے رکھو۔ دیکھو انہوں نے پیغمبر خداا کی پیروی کی اور دین کو دنیا پر مقدم کیا تو وہ سب وعدے جو اللہ تعالیٰ نے ان سے کئے تھے پورے ہو گئے۔ ابتدا میں مخالف ہنسی کرتے تھے کہ باہر آزادی سے نکل نہیں سکتے اور بادشاہی کے دعوے کرتے ہیں۔ لیکن رسول اللہ ﷺ کی اطاعت میں گم ہو کر وہ پایا جو صدیوں سے ان کے حصے میں نہ آیا تھا‘‘۔
(ملفوظات جلد اول صفحہ 409 مطبوعہ ربوہ)
پس آج بھی ہماری فتح قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کرنے سے ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے اور احمدیت کے غلبہ کے نظارے ہمارے نزدیک تر کرے۔
اس وقت ایک افسوسناک اطلاع بھی ہے۔ ہمارے مبلغ سلسلہ کینیڈا، مکرم محمد طارق اسلام صاحب کی دو دن پہلے وفات ہو گئی ہے۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

ان کی عمر54سال تھی۔ ان کو جگر یا Spleen کا کینسر ہوا اس کی وجہ سے ان کی وفات ہوئی ہے۔ مختصر علالت کے بعد وفات پا گئے۔ آپ نے 1978ء میں شاہد کا امتحان پاس کیا اس کے بعد پاکستان میں مختلف جگہوں پر رہے۔ پھر آپ نے مرکز ربوہ میں وکالت علیاء میں بھی کام کیا۔ ان کو اٹلی بھجوایا گیا تھا لیکن ویزا نہ ملنے کی وجہ سے کچھ ماہ بعد واپس آگئے۔ پھر وکالت تبشیر میں کام کیا۔ 1993ء سے کینیڈا میں خدمات سرانجام دے رہے تھے۔ وینکوور میں اور آٹوا میں مربی کے طور پر کام کرتے رہے۔ بڑے ملنسار اور پیار کرنے والے اور اعلیٰ اخلاق کے مالک تھے۔ اپنے عزیزوں کا، رشتہ داروں کا، غریبوں کا بڑاخیال رکھنے والے تھے۔ جماعتی روایات کا بھی بڑا گہرا علم تھااور اطاعت کا بڑا سخت جذبہ ان میں پایا جاتا تھا۔ خلافت سے بڑی محبت کرنے والے تھے۔ ایک تو ہر احمدی کو ہوتی ہے۔ ہر مربی کو ہونی چاہئے اور ہوتی ہے لیکن بعضوں کی محبت غیر معمولی ہوتی ہے۔ یہ بھی ان میں شامل تھے۔ کبھی کوئی شکایت نہیں پیدا ہوئی تھی۔ بڑی باریک بینی سے، محنت سے ہر کام کرنے والے تھے۔ میرے کینیڈا کے جو دورے ہوتے رہے ہیں تو اس وقت یہ ملاقاتوں کے لئے یا دوسرے کاموں کے لئے پرائیویٹ سیکرٹری کے دفتر میں ڈیوٹیاں بھی دیتے رہے اور ہمیشہ بڑی خوش اسلوبی سے اور بڑی محنت سے کام کرتے رہے۔
اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے۔ مغفرت کا سلوک فرمائے۔ ان کی اہلیہ اور پانچ بچیاں ہیں۔ دو کی شادی ہوگئی ہے۔ چھوٹی بچی ان کی شاید بارہ سال کی ہے۔ ان کے لئے دعا کریں اللہ تعالیٰ ان سب کو صبر اور حوصلہ دے اور ان کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔ مجید سیالکوٹی صاحب جو ہمارے یہاں مبلغ ہیں طارق اسلام صاحب کے بہنوئی ہیں اور ان کے ایک بھائی حافظ طیب احمد غانا میں ہیں وہ جنازہ پہ نہیں جاسکے۔ اللہ تعالیٰ سب عزیزوں کو رشتہ داروں کو صبر اور حوصلہ دے۔ ابھی جمعہ کی نماز کے بعد انشاء اللہ ان کا جنازہ غائب پڑھاؤں گا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں