خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 18؍ستمبر 2009ء

جمعہ کی نماز کے لئے جب بھی بلایا جائے تو مومنوں کو اپنے تمام کام اور کاروبار فوراً بند کرکے جمعہ کے لئے مسجد کی طرف چل پڑنا چاہئے۔
جمعہ کے دن ہمیں درود شریف پڑھنے کابھی خاص طورپر اہتمام کرنا چاہئے۔
رمضان کا آخری جمعہ یا رمضان کے جو باقی جمعے ہیں صرف وہی مسجد کی حاضری بڑھانے والے اوردکھانے والے نہ ہوں بلکہ سارا سال ہی ہمیں یہ نظر آئے کہ ہماری مسجدیں اپنی گنجائش سے تھوڑی پڑ گئی ہیں۔
(جمعہ کی اہمیت کے بارہ میں تاریخی تحقیق کے علاوہ قرآن مجید، احادیث نبویہ اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے ارشادات کے حوالہ سے جمعہ کی فضیلت اور برکات کا بیان اور احباب جماعت کو نصائح)
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ مورخہ 18؍ستمبر 2009ء بمطابق18؍تبوک 1388 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لند ن (برطانیہ)

ا(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
یٰٓاَیُھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوْا الْبَیْعَ۔ ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۔ فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ وَ ابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ وَاذْکُرُوْا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ۔ وَاِذَا رَاَوْا تِجَارَۃً اَوْ لَھْوَنِ اانْفَضُّوْا اِلَیْھَا وَتَرَکُوْکَ قَآئِمًا۔
قُلْ مَا عِنْدَاللّٰہِ خَیْرٌ مِّنَ اللَّھْوِ وَمِنَ التِّجَارَۃِ۔ وَاللّٰہُ خَیْرُ الرَّازِقِیْنَ۔ (سورۃ الجمعۃ:12-10)

ان آیات کا ترجمہ ہے کہ اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو، جب جمعہ کے دن ایک حصہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔ پس جب نماز ادا کی جاچکی ہو تو زمین میں منتشر ہو جاؤ اور اللہ کے فضل میں سے کچھ تلاش کرو اور اللہ کو بکثرت یاد کرو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔ اور جب وہ کوئی تجارت کے دل بہلاوہ دیکھیں گے تو اس کی طرف دوڑ پڑیں گے اور تجھے اکیلا کھڑا ہوا چھوڑ دیں گے۔ تُو کہہ دے کہ جو اللہ کے پاس ہے وہ دل بہلاوے اور تجارت سے بہت بہتر ہے اور اللہ رزق عطا کرنے والوں میں سے بہت بہتر ہے۔
سب سے پہلے تو میں اس بات کا اظہار کرنا چاہتا ہوں اور اللہ تعالیٰ کی حمد بھی کرتا ہوں کہ اس رمضان میں تقریباً ہر جمعہ پر ہی اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہاں مسجد بیت الفتوح میں جمعہ پڑھنے کے لئے آنے والوں کی اتنی کثرت رہی کہ مسجد کی گنجائش کم ہوتی رہی۔ دروازے کھول کر سامنے کی گیلریوں میں بھی نمازیوں کے لئے جگہ بنانی پڑی۔ بلکہ اوورفلو (Overflow) اس سے بھی باہر نکل گیا۔ ایسا رش عموماً خاص موقعوں پر یاعام طور پر رمضان کے آخری جمعہ میں جسے جمعۃ الوداع کہتے ہیں، اس پر ہوتا تھا۔ پس ہمیشہ ہر احمدی کو یاد رکھنا چاہئے کہ جمعہ کا خاص اہتمام کرکے جمعہ پر آنا ہی حقیقی جمعۃالوداع ہے۔ جمعہ پر ہم اپنے تمام کاروبار اور مصروفیات چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق آئیں تاکہ اللہ تعالیٰ کی برکات جو جمعہ کے ساتھ وابستہ ہیں انہیں سمیٹیں۔ اور یہ برکات سمیٹتے ہوئے جب ہم جمعہ کے بعد اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اپنی دنیاوی مصروفیات میں مشغول ہونے جارہے ہیں تو اس دعا اور ارادے کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ کے ذکر کو نہیں بھولیں گے اور عبادات کے باقی لوازم بھی حسب شرائط پوری طرح ادا کرنے کی کوشش کریں گے۔ اور آج کا جمعہ پڑھ کر مسجد سے نکلنا آئندہ ہفتے میں آنے والے جمعہ کے استقبال کی تڑپ پیدا کرنے والا ہونا چاہئے اور ہوگا۔ نہ کہ ہمیں کسی ایسے جمعۃ الوداع کی ضرورت ہے جو رمضان کا آخری جمعہ ہو، جو سال میں ایک دفعہ آتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کا حقیقی خوف نہ رکھنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ سال کے اکاون باون جمعے اور بھی ہیں جن کااستقبال اتنا ہی ضروری ہے جتنا رمضان کے آخری جمعے کا۔ پس آج کا جمعہ جو اس رمضان کا آخری جمعہ ہے یہ ہمیں اس طرف تو بیشک توجہ دلانے والا ہو اور خاص طور پر ان لوگوں کے لئے جن سے سارا سال جمعہ کی ادائیگی میں سستی ہوتی رہی کہ آج اس جمعہ میں ہم یہ عہد کرتے ہیں کہ آئندہ اس جمعہ کو جو رمضان کا آخری جمعہ ہے الوداع کرکے ہم اگلے سال رمضان میں آنے والے جمعہ کا استقبال نہیں کریں گے بلکہ آئندہ ہفتے میں آنے والے جمعہ کا استقبال کریں گے۔ لیکن یہ کبھی نہ ہو کہ اس جمعہ سے فارغ ہونے کے بعد ہم اپنی برائیوں، کمزوریوں، خامیوں، سستیوں کو یکسر بھول جائیں بلکہ ہمیشہ ان کویاد رکھتے ہوئے اپنی اصلاح کی طرف قدم بڑھانے والے ہوں۔ مَیں امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس رمضان میں جمعہ پر جو حاضری یہاں مسجد بیت الفتوح میں ہمیں نظر آتی رہی ہے وہ دنیا میں ہر جگہ ہماری مساجد میں نظر آئی ہوگی۔
میری یہ بھی دعا ہے کہ خدا کرے کہ مسجد میں جمعہ کے لئے آنے کایہ خوش کن رجحان ہمیشہ کے لئے قائم رہے اور ہر احمدی کو اس بات کے لئے دعا بھی کرنی چاہئے۔ اس زمانے میں ہر احمدی کی یہ ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے کیونکہ یہی ان آیات سے ثابت ہے جو مَیں نے تلاوت کی ہیں۔ یہ سورۃ جمعہ کے آخری رکوع کی آیات ہیں اور ان کو شروع ہی اس طرح کیا گیا ہے کہ

یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا

یعنی اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو، جب جمعہ کے لئے بلایا جائے تو پھر تمہارا ایک ہی مقصود و مطلوب ہونا چاہئے کہ جمعہ کی نماز پڑھنی ہے اور باقی تمام کاموں کی حیثیت اب ثانوی ہوگئی ہے۔
اگر اس آیت سے پہلے کی آیات کو دیکھیں تو ان میں یہودیوں کا ذکر ہے جن پہ تورات اتاری گئی تھی۔ مگرانہوں نے اس کی تعلیم پر عمل نہیں کیا۔ نیز باوجود واضح پیشگوئیوں کے آنحضرت ﷺ کا بھی انکار کیا۔ اور یہ انکار تو ہونا ہی تھا کیونکہ جیسا کہ مَیں نے کہا اس کی تعلیم جو تھی وہ اس کو بھول گئے تھے اور اس پر عمل ختم کر دیا تھا۔ اس کی کئی تاویلیں پیش کرتے تھے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس سورۃ میں بھی فرمایا ہے کہ اس وجہ سے کہ انہوں نے عمل چھوڑ دیا ان کا تو ایسا حال ہے جیسے گدھے پر کتابوں کا بوجھ لاد دیا گیا ہو۔ بہرحال عبادت کے خاص دن کے حوالے سے جو انہیں حکم تھا، جو ان کے لئے مقررکیا گیا تھا، ، جو ہر سات دن بعد آتا تھا اس کو بھی انہوں نے بھلا دیا۔ اور سبت کا دن جو ان کے لئے ایک خاص دن تھا اس میں بھی کئی قسم کی ایسی حرکات کیں جو اللہ تعالیٰ کو ناپسند تھیں۔ سَبْت ہفتے کے دن کو بھی کہتے ہیں۔ اور بھی اس کے کئی مطلب ہیں۔ عبادت کا خاص دن بھی ہے۔ بہرحال سبت جو ہفتے کا دن ہے یہودیوں کے لئے ایک بہت متبرک اور خاص عبادت کا دن ہے۔ اس میں ان پر بعض پابندیاں بھی لگائی گئی تھیں۔ جن کوجیسا کہ مَیں نے کہا انہوں نے اپنی چالاکیوں سے توڑا۔ اس بارہ میں قرآن کریم میں یوں ذکر آتا ہے کہ

وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِیْنَ اعْتَدَوْا مِنْکُمْ فِی السَّبْتِ(البقرۃ:66)

اور تم ان لوگوں کو جنہوں نے سبت کے بارے میں زیادتی کی تھی جان چکے ہو۔ اور پھر اس زیادتی کی وجہ سے ان لوگوں کو سزا بھی دی گئی تو ان بھٹکے ہوئے یہودیوں کا اس سورۃ میں ذکرکرکے پھر

یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوا

کہہ کر مسلمانوں کو اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ تم نے جمعہ کا حق ادا کرنا ہے۔ یہ اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ اگر تم اپنے اس مقدس دن کا حق ادا نہیں کرو گے تو تم بھی اس سزا کے سزاوار ٹھہر سکتے ہو۔ ہر قوم کی طرح مسلمانوں کا بھی سَبْت کا دن ہے اور ہمارا سَبْت یہ جمعہ ہے۔ پس ہر مسلمان کو اس دن کی خاص حفاظت اور اس کا حق ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور دعا بھی کرنی چاہئے۔ اور اس کا حق اس طرح ادا ہوسکتا ہے کہ جب بھی جمعہ کی نماز کے لئے بلایاجائے تو مومنوں کو اپنے تمام کام اور کاروباربند کرکے فوراً مسجد کی طرف چل پڑنا چاہئے۔ امام کا خطبہ سننے کے لئے فوراً مسجد کی طرف دوڑنا چاہئے۔ اگر کوئی بہانہ جوُیہ کہے کہ ہمیں ان ملکوں میں یا آج کل دنیا میں اذان کی آواز تو سنائی نہیں دیتی تو اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں دوسرے انتظام کر دیئے ہیں۔ گھڑیوں کا انتظام کر دیا ہے۔ اب تو فونوں میں بھی گھنٹی کی بجائے مختلف آوازیں لوگ ریکارڈ کرتے ہیں جو بجتی ہیں، سنائی جاتی ہیں۔ مجھے اس کا تجربہ تو نہیں کہ خاص وقت پہ الارم کے لئے بھی اذان کی یہ آواز سنائی دی جاسکتی ہے کہ نہیں۔ اگر یہ ہوسکتا ہے تو پھر اس پر اذان کی آواز ریکارڈ کرنی چاہئے۔ اس کا دوہرا فائدہ ہوگا بلکہ کئی فائدے ہوسکتے ہیں۔ جمعہ کے وقت کے لئے جہاں اذان کی آواز خود اپنے آپ کو جمعہ کی طرف توجہ دلائے گی وہاں اردگرد کے لوگ بھی توجہ کریں گے اوراذان کی یہ آوازسننے والوں کی توجہ کھینچنے کا باعث بنے گی اور یہ تبلیغ کے راستے کھولنے کا ذریعہ بھی بن جائے گی۔ لیکن بہرحال جو صورت بھی ہو سادہ الارم کی آواز بھی یاددہانی تو کرواسکتی ہے۔ پس جمعہ کی اہمیت کو کبھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس ضمن میں جو وضاحت کی ہے وہ یقیناً اس زمانے کے لئے سو فیصد حقیقی اور صحیح وضاحت ہے کہ اس زمانے میں

یٰٓاَیُھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوا

سے مراد وہی قوم ہوسکتی ہے اور ہے جو مسیح موعود کو ماننے والی ہے۔
(حقائق الفرقان جلد چہارم صفحہ 122-123)
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس سے مراد عام مسلمان بھی ہیں لیکن اس صورت میں مسیح موعود کے زمانہ کے ساتھ جمعہ کی نماز کی اہمیت کو ملانا خاص طور پر مسیح موعود کو ماننے والوں کے لئے بہت اہم ہے۔ دوسرے غیراحمدی مسلمان تو باوجود مسلمان کہلوانے کے اور مومن کہلوانے کے ایمان لانے والے کہلوانے کے، مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے انکار کی وجہ سے

اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتٰبِ وَتَکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ(البقرۃ :86)

(کہ کیا تم کتاب کے ایک حصہ پر تو ایمان لاتے ہو اور ایک حصہ کا انکار کرتے ہو) کے مصداق ٹھہرتے ہیں۔ پس حقیقی مومن وہی ہیں جو قرآن شریف کی ابتدا سے آخر تک ہر حکم پر ایمان لاتے ہیں اور حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تک تمام انبیاء پر ایمان لانے والے ہیں۔ پس یہ ہماری بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ اس دن کا خاص اہتمام کریں اور تجارتوں کو چھوڑ دیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے کو تجارتوں سے بھی خاص نسبت ہے۔ ہر قسم کے کاروباروں میں بڑی وسعت پیدا ہوچکی ہے۔ سٹاک مارکیٹوں سے دنیا کی تجارتوں کے اتار چڑھاؤ کا پتہ چلتا ہے۔ جو اس کاروبار میں ملوث ہیں یا یہ کرتے ہیں، اتنے مصروف ہوتے ہیں اور مختلف کمپنیوں کے شیئرز (Shares) کے اتار چڑھاؤ دیکھ کر سودے کررہے ہوتے ہیں کہ ان کا اس بولی کے دوران یا ریٹ اوپر نیچے ہونے کے دوران ایک لمحے کے لئے بھی آنکھ جھپکنا یا سوچ ادھر ادھر پھیرنا ان کو لاکھوں کروڑوں اربوں کا گھاٹا دلوا دیتا ہے۔ اسی طرح منڈیوں کے چھوٹے کاروبار ہیں اور اس کاروبار میں منسلک تمام لوگ چاہے وہ تنخواہ دار ملازم ہی ہوں اس تجارت اور بیع کے دوران جو پہلے کبھی کسی زمانے میں اس شدت سے نہیں تھی اور اتنی آرگنائزڈ نہیں تھی جتنی مسیح موعود کے زمانہ میں ہوگئی ہے اور اس میں زیادہ سے زیادہ الیکٹرانک ذرائع اس میں استعمال ہونے کی وجہ سے تجارت کے لئے وقت کی اہمیت بھی ہر دن بہت بڑھتی چلی جارہی ہے۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جتنی بھی چاہے بڑی تجارت ہو، چاہے جتنی تمہارے پاس وقت کی کمی ہو نماز جمعہ کے مقابلہ میں اس کی کچھ بھی حیثیت نہیں اور تمہارا وقت نکال کر اپنے تمام ممکنہ نقصانات کو پس پشت ڈال کر جمعہ کا اہتمام کرنا بہرحال ضروری ہے اور چھوٹے موٹے کاروباری لوگوں کے لئے تو پھر کوئی بہانہ رہ ہی نہیں جاتا۔ پس ہم احمدی ہی آج وہ مومن ہیں اور ہونے چاہئیں جن کو اپنے جمعوں کی حفاظت کرنی چاہئے۔ تبھی ہم اس زمانے کے راہنما کی راہنمائی سے حقیقی فیض حاصل کرسکتے ہیں اور تبھی ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرتے ہوئے اس کی رضا کے حاصل کرنے والے ٹھہر سکتے ہیں۔
جمعہ کی اہمیت کے بارے میں آنحضرت ﷺ نے کس طرح ہمیں توجہ دلائی اور یہودیوں اور عیسائیوں سے کس طرح ہمیں ممتاز فرمایا ہے اس کا ایک روایت میں ذکر آتا ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ قیامت کے دن آخَرِینْ ہونے کے باوجود اور باوجود اس کے کہ انہیں کتاب پہلے دی گئی ہم سابقین ہوں گے۔ یہ ان کا وہ دن ہے جو ان پر فرض کیا گیا تھا مگر انہوں نے اختلاف کیا مگر خداتعالیٰ نے ہماری اس کی طرف درست راہنمائی کردی۔ اب لوگ ہمارے پیچھے ہی چلیں گے۔ یہود ایک دن بعد اور نصاریٰ پرسوں۔
(بخاری کتاب الجمعہ باب فرض الجمعۃ حدیث نمبر 876)
یہ بخاری کی حدیث ہے۔ کتاب الجمعہ اور فرض الجمعہ کے باب میں ہے۔
یہ حدیث ایسی ہے کہ اس کی وضاحت ضروری ہے۔ اس ضمن میں مَیں مختصر یہ بتادوں کہ جماعت میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب کے سپرد یہ کام ہوا تھا کہ بخاری کی حدیثیں جمع کریں اور پھر اس کی تھوڑی سی شرح بھی لکھیں۔ اُس زمانہ میں کتاب کی کچھ جلدیں شائع ہوئی تھیں اور پھر بڑا لمبا عرصہ اس کی اشاعت نہیں ہوسکی۔ اب کچھ سال ہوئے مَیں نے ایک نور فاؤنڈیشن قائم کی ہے۔ اس کے تحت جماعت میں بھی احادیث کی کتب کی اشاعت ہورہی ہے اور مسلم کی کئی جلدیں اور بخاری کی کئی جلدیں شائع ہوچکی ہیں۔ بہرحال شاہ صاحب نے اس کی جوشرح لکھی ہے وہ ایسی ہے کہ اس سے اس حدیث کی وضاحت ہوتی ہے۔
وہ تو خیر لمبی شرح ہے۔ شاہ صاحب نے اس میں جمعہ کی نماز کی فرضیت اور اہمیت کے بارہ میں بعض فقہاء جو جمعہ کی نماز کو فرض کفایہ سمجھتے تھے، کا علمی اور زبان کے قواعد کے رو سے جواب دینے کے بعد، (فرض کفایہ وہ ہے جس میں چند لوگ اگر شامل ہو جائیں، پڑھ لیں تو کافی ہوتا ہے۔ ضروری نہیں کہ سب شامل ہوں) اس کو غلط ثابت کیا۔ انہوں نے بتایا ہے کہ یہ فرض کفایہ نہیں ہے بلکہ اسی طرح فرض ہے جس طرح نمازیں فرض ہیں۔ پھر سَبْت کے لفظ کی لغوی بحث کی ہے اور یہودیوں کی تاریخ اور تعامل سے یہ بیان کیا ہے جیسا کہ اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ جمعہ کا دن ہی یہودیوں کا بھی سَبْت کا دن تھا یا اس کا کچھ حصہ اس میں شامل تھا جو بعد میں ہفتہ میں بدل گیا۔ تو شاہ صاحب کی جو شرح ہے اس کا کچھ حصہ اس تعلق میں پیش کرتا ہوں۔ ایک تو سَبْت کے لغوی معنی ہیں۔ لسان العرب کے تحت اس کے معنی ہیں کہ کام کاج چھوڑ کر آرام کرنا اور اصطلاحی معنی یہ ہیں کہ مشاغل سے کلیتاً منقطع ہو کر اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول ہو جانا۔ ایک روز عبادت میں سارا دن مشغول رہنے کا حکم بنی اسرائیل میں مخصوص تھا جس کا ذکر خروج باب 31 آیت 14 تا 16 میں ہے اور خروج میں ہی دوسری جگہ بھی ہے۔ اور احبار میں بھی ہے۔ بہرحال اس حکم کی آخر انہوں نے خلاف ورزی کی۔ جس کی وجہ سے ان کو سزا ملی۔ تو ’’جمعہ کے روز‘‘ (مَیں یہ شاہ صاحب کی اس حصہ کی وضاحت پڑھ رہا ہوں) ‘’مسلمانوں کے لئے ایسی کوئی پابندی نہیں جیسی بنی سرائیل کے لئے تھی۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں اس خصوصیت کا ذکر بایں الفاظ فرماتا ہے کہ

اِنَّمَا جُعِلَ السَّبْتُ عَلَی الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِیْہِ(النحل:125)۔

سبت یعنی مشاغل دنیا سے منقطع ہو کر اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول رہنے کا حکم انہی لوگوں کے لئے مخصوص تھا جنہوں نے اس کی خلاف ورزی کی۔ اس آیت کے یہ معنی نہیں کہ ساتواں دن ان کے لئے مقرر کیا گیا تھا۔ اگر عیسائی زمانہ کی رَو میں بہ کر بجائے ہفتہ، اتوار کو عبادت کا دن مناسکتے ہیں تو یہودیوں کا ایسا کرنا بعید از قیاس نہیں (کہ جمعہ سے ہفتہ کرلیا ہو)جیسا کہ تاریخی واقعات اور قرائن اس امر کی تصدیق کرتے ہیں کہ یہود نے بھی اپنی جلاوطنی کے ایام میں بابلیوں اورفارسیوں کے درمیان مدت تک بودوباش رکھنے کی وجہ سے ان کے مشرکانہ عقائدو رسوم کو اپنا لیا تھا اور ان مشرک اقوام کے زیر اثر انہوں نے اپنے مذہب کے اصول میں بھی تغیرو تبدل کیا۔ جمعہ کے دن کو بھی قدیم یہودیوں کے نزدیک ایک تقدس حاصل تھا۔ چنانچہ روحانی احکام اور فیصلہ جات جومؤرخ یوسیفس نے اپنی مشہور تاریخ میں نقل کئے ہیں ان سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جمعہ اور ہفتہ دونوں دنوں میں اس بات کی قانوناً ممانعت تھی کہ کوئی یہودی کسی مقدمے میں مجسٹریٹ کے سامنے پیش ہونے کے لئے بلایا جائے۔ جمعہ کا نام ہی عبرانی میں عُرَیْبِ ھَشَّابَاتْ رکھا گیا تھا اور سبت کی تیاری چھٹے دن یعنی جمعہ کے روز آٹھویں گھڑی میں تقریباً اڑھائی بجے شروع ہوتی جبکہ قربانی کی جاتی اور نویں گھڑی تقریباً ساڑھے تین بجے ختم ہوتی جبکہ سوختنی قربانی چڑھائی جاتی تھی اور اس کے بعد یہودی کام کاج سے فارغ ہو کر نہا دھو کر صاف کپڑے پہن کر شاہ سبت یعنی ہفتہ کا استقبال کرتے۔ تو اس تسمیہ سے ظاہر ہے کہ جمعہ بھی ان کے نزدیک ایک گوناں سبت کا حکم رکھتا تھا۔ اس لئے اسلامی مؤرخین کی یہ روایتیں اپنے اندر صداقت رکھتی ہیں کہ جمعہ کے دن کا نام عروبہ جو قدیم عربوں میں مشہور تھا وہ دراصل اہل کتاب سے لیا گیا تھا‘‘۔
بہرحال آگے پھر لکھتے ہیں۔ ’’غرض عروبہ کے نام کا ماخذ یہودیوں کے درمیان اب تک پایا جاتا ہے اور سبت کی عبادت بھی جمعہ کے دن ہی شروع ہوتی ہے اور یہ دونوں شہادتیں اصل حقیقت کی غماز ہیں ‘‘۔ پھر آخر میں نتیجہ نکالتے ہیں کہ’’یہ امر بھی یقینی ہے کہ یہود نے احکام سبت کے بارہ میں شدید سے شدید خلاف ورزیاں کیں بلکہ ان کے بعض انبیاء نے تو ان کی ذلت و ادبار کا سارا موجب سبت کی بے حرمتی قرار دیا ہے اور حضرت موسیٰعلیہ السلام نے بھی یہ پیشگوئی کی تھی کہ سبت کی بے حرمتی بنی اسرائیل کی تباہی کا موجب ہوگی‘‘۔ (یہ بائیبل میں لکھا ہوا ہے۔ )
(صحیح بخاری جلد دوم شرح حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ صفحہ 274-275)
یہ سب شواہد و قرائن آنحضرت ﷺ کے مذکورہ بالا ارشاد کی تصدیق کرتے ہیں۔
یہ جو حدیث ہے نا کہ ان کے لئے مقرر کیا گیا تھا لیکن انہوں نے اس کی خلاف ورزی کی لیکن ہمیں اللہ تعالیٰ نے اس کی طرف راہنمائی کی اور آج تک پندرہ سو سال گزرنے کے بعد بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے مسلمان جیسا بھی ہو جمعہ کا کہیں نہ کہیں اہتمام ضرورکرتا ہے۔ چاہے تھوڑے ہوں، سارا شہر نہ بھی جمع ہو لیکن جمعہ پر ضرور آتے ہیں اور جب تک جمع ہوتے رہیں گے برکات ملتی رہیں گی اور اس زمانے میں جیسا کہ مَیں نے کہا حضرت مسیح موعود کے زمانے کے ساتھ اس کی ایک خاص اہمیت ہے اس لئے احمدیوں کو خاص طور پر اس کا بہت زیادہ اہتمام کرنا چاہئے۔
پس جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی طرف ہماری درست راہنمائی فرمائی ہے۔ ہمارا یہ پہلا فرض بنتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی بجاآوری کے لئے خاص اہتمام کرتے رہیں۔ اس حکم کی خلاف ورزی کرکے اللہ تعالیٰ کے کسی انذار کا مورد نہ بن جائیں۔ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کی پُرانی تاریخیں بتائی ہیں۔ یہودیوں کی بتائی ہیں۔ بنی اسرائیل کی بتائیں۔ اسی لئے کہ ہم بھی ہوشیار رہیں۔ یہود نے جمعہ کے دن کو اگر ان کی خاص عبادت کی ابتداء اس دن سے ہوتی تھی جیسا کہ شاہ صاحب نے ثابت کیا ہے اور تاریخ سے ثابت ہوتا ہے تب بھی اس دن کو چھوڑنا تھا۔ انہوں نے اس دن کو اس لئے چھوڑنا تھا کیونکہ یہ الٰہی تقدیر تھی۔ اس بابرکت دن نے آنحضرت ﷺ اور آپ کی اُمّت کے لئے مخصوص رہنا تھا۔
اس دن کی اہمیت احادیث سے بھی ثابت ہے۔ آنحضرت ﷺ نے اس دن کی اہمیت کے بارہ میں ہمیں بہت کھول کر بتایا ہے کہ کیوں یہ دن ہمارے لئے اہم ہے۔ اس لئے کہ یہ حضرت آدم کی پیدائش اور وفات کا دن ہے اور حضرت آدم علیہ السلام ہماری روحانی زندگی کی ابتداء میں ایک مقام رکھتے ہیں۔ جس کے بارہ میں قرآن کریم میں بھی خداتعالیٰ نے بڑا واضح فرمایا ہوا ہے اور پھر مسیح موعود کے زمانے میں مسیح موعود کو بھی خداتعالیٰ نے آدم کا نام دیا ہے۔ اس زمانہ میں احیائے دین آپ علیہ السلام سے وابستہ ہے۔ پس احمدیوں کے لئے جمعوں کا اہتمام ایک انتہائی ضروری چیز ہے۔ تبھی ہماری سمتیں بھی درست رہیں گی۔ تبھی ہم ہمیشہ ان برکات سے فائدہ اٹھاتے رہیں گے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت کے ساتھ وابستہ ہیں۔
آنحضرت ﷺ نے جمعہ کے دن کی اہمیت کے بارے میں جو فرمایا، ان میں سے بعض احادیث آپ کے سامنے رکھوں گا۔ حضرت اوسؓ بن اوس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تمہارے دنوں میں سے بہترین دن جمعہ کا ہے۔ اس میں حضرت آدم پیدا کئے گئے اور اسی دن فوت ہوئے۔ اسی دن صور پھونکا جائے گا اور اسی دن بیہوشی طاری ہوگی۔ پس اس دن مجھ پر بکثرت درود بھیجو کیونکہ اس دن تمہارا یہ درود میرے سامنے پیش کیا جائے گا۔
(سنن ابی داؤد کتاب الصلوٰۃ باب فضل یوم الجمعۃ ولیلۃ الجمعۃحدیث نمبر1047)
پھر ایک دوسری حدیث ہے ابن ماجہ کی۔ اس میں حضرت ابولبابہؓ بن منذر سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جمعہ کا دن دنوں کا سردار ہے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ عظیم ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یوم الاضحی اور یوم الفطر سے بھی بڑھ کر ہے۔ اس دن کی پانچ خصوصیات ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس دن آدم کو پیدا کیا۔ دوسرے اللہ نے اس دن حضرت آدم کو زمین پر اتارا۔ تیسری اس دن اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو وفات دی۔ چوتھی اس دن میں ایک گھڑی ایسی بھی آتی ہے کہ اس میں بندہ حرام چیز کے علاوہ جو بھی اللہ تعالیٰ سے مانگے تو وہ اسے عطا کرتا ہے۔ اور پانچویں یہ ہے کہ اسی دن قیامت برپا ہوگی۔ مقرب فرشتے آسمان، زمین اور ہوائیں اور پہاڑ اور سمندر اس دن سے خوف کھاتے ہیں۔
(ابن ماجہ۔ کتاب اقامۃ الصلوٰۃ وسنتہ فیھا۔ باب فی فضل الجمعۃ حدیث نمبر 1084)
ان حادیث سے مزید وضاحت ہو جاتی ہے کہ اس دن کی کیا اہمیت ہے جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ مجھ پر کثرت سے درود بھیجو۔ ویسے تو عام طور پر بھی درود بھیجنا چاہئے لیکن فرمایا ہر جمعہ کوکثرت سے بھیجو۔ اس لئے ہر جمعہ کو یہ اہتمام خاص طور پر کرنا چاہئے کیونکہ دعاؤں کی قبولیت کا آنحضرت ﷺ پر درود بھیجنے سے بڑا تعلق ہے۔ قرآن کریم میں بھی خداتعالیٰ نے یہ فرمایا کہ

اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ۔ یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(الاحزاب:57)

کہ اللہ اپنے بندے پر رحمت نازل کرتا ہے اور اس کے فرشتے بھی اور اے لوگو! جو ایمان لائے ہو تم بھی اس نبی پر درود اور سلام بھیجتے رہو۔
پس جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اس میں ایک گھڑی ایسی آتی ہے جو قبولیت دعا کی گھڑی ہے۔ (صحیح بخاری کتاب الجمعۃ باب الساعۃ التی فی یوم الجمعۃ حدیث نمبر 935) تو دعا کی جوگھڑی ہے اس میں جو دعا خداتعالیٰ نے سکھائی ہے یعنی درود بھیجنے کی وہ اگر ہم کریں گے تو ہماری جو باقی وقتوں میں کی گئی دعائیں ہیں اس درود کی برکت سے قبولیت کا درجہ پائیں گی۔ پس جمعہ کے دن ہمیں درود شریف پڑھنے کابھی خاص طور پر اہتمام کرنا چاہئے۔ مسلمانوں پر یہ بھی خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ پورے دن کی پابندی نہیں لگائی گئی کہ کچھ نہیں کرنابلکہ جمعہ کی نماز کے بعد دنیاوی کاموں میں مصروف ہونے کی اجازت دی ہے۔ لیکن یہ اجازت ایک شرط کے ساتھ ہے۔ ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ کے ذکر کو نہیں بھولنا۔ دوسرے اللہ تعالیٰ کا فضل تلاش کرنا ہے یا ترتیب کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ کا فضل تلاش کرنا ہے اور اس کا ذکر کرنا ہے۔ تو جو شخص اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے اپنے دنیاوی کام کرے گا کہ مَیں یہ کام اللہ تعالیٰ کے اس حکم کے تحت کررہا ہوں کہ خداتعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میرا فضل تلاش کرو تو فوراً یہ خیال بھی دل میں آئے گا کہ میرا کوئی کام ایسا نہ ہو جو صرف دنیاوی لالچ کے زیر اثر ہو۔ میرا کاروبار، میری ملازمت، میری تجارت ان اصولوں پر چلتے ہوئے ہو جو تقویٰ کی طرف لے جانے والے ہیں۔ میں کہیں یہ نہ سمجھوں کہ کیونکہ یہ دنیاوی کاروبار ہے اس لئے اس میں یہ دھوکہ جائز ہے۔ نہیں بلکہ جب خداتعالیٰ کا فضل مانگنا ہے تو پھر ہمارا ہر معاملہ صاف اور شفاف ہونا چاہئے۔ دوسرے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کو بکثرت یاد کرو۔ اس سے ایک تو ہمیشہ یہ خیال رہے گا کہ مَیں نے اپنی عبادتوں کی حفاظت کرنی ہے۔ دوسرے یہ کہ میرے کام اگر اچھے ہورہے ہیں، ان میں کامیابی حاصل ہورہی ہے تو اس لئے کہ میرا پورا توکّل خداتعالیٰ کی ذات پر ہے۔ اور پھر آخری آیت میں خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ رزق دینے والی اصل ذات جو ہے خداتعالیٰ کی ذات ہے۔ کاروباروں میں برکت پڑتی ہے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے پڑتی ہے۔ تمہاری کوئی پہچان ہے تو خداتعالیٰ کے فضل کی وجہ سے ہے۔ اس لئے جب آخری زمانے میں مسیح موعود کو مان لو تو پھر دنیاوی لالچیں اور دنیاوی کھیل تماشے تمہارے سے بہت دور چلے جانے چاہئیں۔ اگر یہ اپنے سے دور نہ پھینکیں تو تمہاری حالت ایسی ہوگی جیسے تم نے مسیح موعود سے یہ عہد بیعت کرکے کہ ہم اپنی جان مال وقت اور عزت کو قربان کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہیں گے، پھر مسیح موعود کو اکیلا چھوڑ دیا اور مسیح موعود نے جس کام کے لئے تمہیں جمع کیا تھا، ایک جماعت بنائی تھی، جماعت میں شامل ہونے کے لئے کہا تھا، اسے بھول گئے۔ خداتعالیٰ سے کام کیا تھا یہی کہ خداتعالیٰ سے ایک خاص تعلق جوڑنا، اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کے ذکر سے اپنی زندگیوں کو سجانا اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے حقوق ادا کرنا۔ گویا اللہ تعالیٰ نے اس بات کو آزمانے کے لئے کہ تمہارا کس حد تک آخرین میں بھیجے ہوئے آنحضرت ﷺ کے عاشق صادق کے ساتھ تعلق ہے اور کس حد تک تم اس بات میں سچے ہو کہ ہم مسیح موعود سے کئے گئے عہد بیعت کو نبھانے والے ہیں، جمعہ پر حاضر ہونا تمہارا معیار مقرر کیا ہے۔ پس ہر احمدی کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ جمعہ کے لئے مسجد آنا یا اگر مسجد نہیں ہے تو چند احمدیوں کا اکٹھے ہو کر، جمع ہو کر جمعہ پڑھنا انتہائی اہم ہے۔
پس صرف رمضان کا آخری جمعہ یا رمضان کے جوباقی جمعے ہیں صرف وہی مسجد کی حاضری بڑھانے والے اور دکھانے والے نہ ہوں بلکہ سارا سال ہی ہمیں یہ نظر آئے کہ ہماری مسجدیں اپنی گنجائش سے تھوڑی پڑ گئی ہیں۔ اب یہ نمازیوں سے چھلکنی شروع ہوگئی ہیں۔ جمعوں کی اہمیت کے بارے میں اب میں بعض مزید احادیث بھی پیش کرتا ہوں جن سے جمعہ کے مختلف مسائل کا بھی پتہ لگتا ہے اور اہمیت کا بھی پتہ لگتاہے۔
حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ہر وہ شخص جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس پر جمعہ کے دن جمعہ پڑھنا فرض کیا گیا ہے، سوائے مریض، مسافر اور عورت اور بچے اور غلام کے۔ جس شخص نے لہو و لعب اور تجارت کی وجہ سے جمعہ سے لاپرواہی برتی۔ اللہ تعالیٰ بھی اس سے بے پرواہی کا سلوک کرے گا۔ یقیناً اللہ تعالیٰ بے نیاز اور حمد والا ہے۔
(سنن دارقطنی۔ کتاب الجمعۃ۔ باب من تجب علیہ الجمعۃ حدیث نمبر 1560 دار الکتب العلمیۃ بیروت 2003ء)
پھر ایک حدیث میں آتا ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :جمعہ کے دن نیکیوں کا اجر کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے۔
(مجمع الزوائد۔ ومنبع الفوائد۔ جلد دوم۔ کتاب الصلاۃ باب فی الجمعۃ و فضلھا حدیث نمبر 2999)
پس ہر قسم کی نیکیاں جوجمعہ کی نماز کے علاوہ جمعہ کے دن کی جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کا اجر بھی کئی گنا بڑھا دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حکم کی بجاآوری سے بڑھ کر تو کوئی نیکی نہیں ہے اور حکم بھی وہ جو انتہائی فرائض میں داخل ہے۔ پس جمعہ کی نماز کے لئے آنانیکیوں میں سب سے زیادہ بڑھانے کا موجب بنتا ہے اور یہی چیز ہے جو منافق اور مومن کی پہچان بھی کرواتا ہے۔
جیسا کہ ایک روایت میں آتا ہے۔ حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے رسول کریم ﷺ نے فرمایا جس کسی نے بلاوجہ جمعہ چھوڑا وہ اعمال نامے میں منافق لکھا جائے گا جسے نہ تو مٹایا جاسکے گا اور نہ ہی تبدیل کیا جاسکے گا۔
(مجمع الزوائد۔ ومنبع الفوائد۔ جلد دوم۔ کتاب الصلاۃ باب فی الجمعۃ و فضلھا حدیث نمبر 2999)
پھر ایک روایت میں آتا ہے حضرت جعد الضمری روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جس نے تساہل کرتے ہوئے لگاتار تین جمعے چھوڑے(سستی کرتے ہوئے تین جمعے لگاتار چھوڑے) اللہ تعالیٰ اس کے دل پر مہر کردیتا ہے
(ابوداؤد کتاب الصلوٰۃ باب فی تفریع ابواب الجمعۃ باب التشدید فی ترک الجمعۃ حدیث نمبر 1052)
اور جب مہر کردیتا ہے تو پھر نیکیاں کرنے کی توفیق بھی کم ہوتی چلی جاتی ہے اور آہستہ آہستہ انسان بالکل ہی دور ہٹ جاتا ہے۔
حضرت سلمان فارسیؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص بھی جمعہ کے دن غسل کرے اور اپنی استطاعت کے مطابق پاکیزگی اختیار کرے اور تیل لگائے اور گھر سے خوشبو لگا کر چلے اور دو آدمیوں کو الگ الگ نہ کرے(یعنی اپنے بیٹھنے کے لئے زبردستی پرے نہ ہٹائے) اور پھر جو نماز اس پر واجب ہے وہ ادا کرے۔ پھر جب امام خطبہ دینا شروع کرے تو وہ خاموشی سے سنے تو اس کے اس جمعہ اور اگلے جمعہ کے درمیان ہونے والے تمام گناہ بخش دیئے جائیں گے۔ (بخاری کتاب الجمعۃ باب الدھن للجمعۃ حدیث نمبر 883)
پھر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جمعہ کے دن فرشتے مسجد کے دروازے پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور وہ سب سے پہلے آنے والے کو پہلا لکھتے ہیں اور پہلے آنے والے کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی اونٹ کی قربانی کرے۔ پھر بعد میں آنے والا اس کی طرح ہے جو گائے کی قربانی کرے۔ پھر مینڈھا (بھیڑ)، پھر مرغی اور پھر انڈے کی قربانی کرنے والے کی طرح ہے۔ پھر فرمایا کہ پھر جب امام منبر پر آجاتا ہے تو وہ اپنے رجسٹر بند کر لیتے ہیں۔ یعنی فرشتے اپنے رجسٹر بند کرلیتے ہیں اور ذکر کو سننا شروع کر دیتے ہیں۔ (بخاری کتاب الجمعۃ باب الاستماع الی الخطبۃ یوم الجمعۃ حدیث نمبر 929) اس خطبہ کو سننا شروع کر دیتے ہیں جو امام دے رہا ہوتا ہے۔ اس میں ایک تو ثواب اوراس کے بعد پھر خطبوں کو توجہ سے سننے کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ جس مسجد میں مجلس میں اللہ تعالیٰ کے فرشتے بیٹھے ہوں اور وہ باتیں سن رہے ہوں اس سے زیادہ بابرکت مجلس اور کون سی ہوسکتی ہے۔
پھر ایک روایت میں آتا ہے حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو کوئی جمعہ کے روز امام کے خطبہ کے دوران بولے اس کی مثال اس گدھے کی سی ہے جو کتابیں اٹھائے ہوئے ہو اور جو اس سے یہ کہے کہ خاموش رہے تو اس کا بھی جمعہ نہیں۔ (مسند احمد بن حنبل1/230۔ جلد 1مسند عبداللہ بن عباس حدیث نمبر 2033 عالم الکتب بیروت 1998ء)۔ یعنی بولنے والے کو بول کرخاموش کرانا بھی منع ہے۔ اگر بچے شور کررہے ہیں اور ان میں کوئی چھوٹا بچہ ہو تو وہاں سے اس کو اٹھا کرلے جانا چاہئے اور اگر کوئی ہوش مند بچہ بول رہا ہے، شرارت کررہا ہے تو اس کو اشارے سے منع کرنا چاہئے۔
حضرت جابرؓ بن عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ سُلیک غطفانی جمعہ کے روز اس وقت آکر بیٹھ گیا جب رسول اللہ ﷺ خطبہ ارشاد فرمارہے تھے تو آپ نے اسے فرمایا: اے سُلیک! کھڑے ہو کر دورکعت نماز ادا کرو اور اس میں اختصار سے کام لو۔ پھر آپ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص جمعہ کے روز امام کے خطبہ دینے کے دوران آئے تو وہ دورکعت پڑھے اور ان کو جلد جلد مکمل کرلے۔ (مسلم کتاب الجمعۃ۔ باب التحیۃ والامام یخطب حدیث نمبر 1908)
علقمہ روایت کرتے ہیں کہ مَیں عبداللہ بن مسعودؓ کے ہمراہ جمعہ کے لئے گیا۔ انہوں نے دیکھا کہ ان سے پہلے تین آدمی مسجد میں پہنچ چکے تھے۔ انہوں نے کہا چوتھا مَیں ہوں۔ پھر کہا کہ چوتھا ہونے میں کوئی دوری نہیں۔ پھر کہا مَیں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ لوگ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کے حضور جمعہ میں آنے کے حساب سے بیٹھے ہوں گے۔ یعنی پہلا دوسرا تیسرا اور انہوں نے کہا پھر چوتھا اور چوتھا بھی زیادہ دور نہیں۔ (سنن ابن ماجہ کتاب اقامۃ الصلوٰۃ والسنۃ فیھا۔ باب ما جاء فی التہجیر الی الجمعۃ حدیث نمبر1094) تو جمعوں کی اتنی اہمیت ہے۔
پھر ایک روایت میں آتا ہے۔ حضرت سمرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: نماز جمعہ پڑھنے آیا کرو اور امام کے قریب ہو کر بیٹھا کرو اور ایک شخص جمعہ سے پیچھے رہتے رہتے جنت سے پیچھے رہ جاتا ہے۔ حالانکہ وہ جنت کا اہل ہوتا ہے۔ (سنن ابو داؤد کتاب الصلاۃ باب تفریع ابواب الجمعۃ باب الدنو من الامام حدیث نمبر 1108)
نیکیوں کی توفیق والی حدیث مَیں نے پہلے پڑھی تھی۔ نیکیاں تو انسان کررہا ہوتا ہے لیکن وہ نیکیاں جمعہ نہ پڑھنے کی وجہ سے دل کو داغ لگنے کی وجہ سے آہستہ آہستہ ختم ہوتی چلی جاتی ہیں اور پھر وہی انسان جو جنت کا اہل ہوتا ہے جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا وہ جنت سے محروم رہ جاتا ہے۔
پھر ایک روایت میں آتا ہے حضرت عبید بن ثبات روایت میں کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک جمعہ کے روز فرمایا کہ اے مسلمانوں کے گروہ! یقیناً یہ دن خدا نے تمہارے لئے عید کا دن بنایا ہے پس تم غسل کیا کرو اور جس کسی کے پاس طیب ہو یعنی خوشبو ہو وہ ضرور اسے لگا لیا کرے اور مسواک کیا کرو۔
(سنن ابن ماجہ کتاب اقامۃ الصلوٰۃ باب ما جاء فی الزینۃ یوم الجمعۃ حدیث نمبر 1098)
پس یہ اہمیت ہے جمعوں کی جسے ہمیں ہمیشہ اپنے سامنے رکھنا چاہئے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس دن کو ایک اور زاویے سے پیش فرمایا ہے اور پھر جمعہ کی اہمیت بیان فرمائی ہے۔ آپؑ آیت

اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُم(المائدہ:4)

کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
‘’غرض

اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ

کی آیت دو پہلو رکھتی ہے۔ ایک یہ کہ تمہاری تطہیر کر چکا‘‘۔ (تمہیں پاک کردیا ایسا دین آگیا کہ جو پاک کرنے والا ہے۔ )’’اور دوم (یہ کہ) کتاب مکمل کرچکا۔ کہتے ہیں جب یہ آیت اتری وہ جمعہ کا دن تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کسی یہودی نے کہا کہ اس آیت کے نزول کے دن عید کرلیتے’‘۔ (احادیث میں بعض روایات میں حضرت ابن عباسؓ کی روایت سے آتا ہے کہ یہودی نے ان سے کہا اورانہوں نے کہا کہ جمعہ عید ہی ہے۔ لیکن بہرحال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جو روایات ہیں اور بعض ایسی ہیں جن کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے لکھا ہے کہ مجھے براہ راست آنحضرت ﷺ نے بعض روایات باتیں بتائی ہیں۔ تو اس کی جو حیثیت ہے اور قدر و اہمیت ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو بیان فرمائی ہے ہمیں بہرحال اس کودیکھنا چاہئے نہ کہ ان روایتوں کو جو مختلف راویوں کے ذریعہ سے پہنچیں۔ تو بہرحال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ)’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کسی یہودی نے کہا کہ اس آیت کے نزول کے دن عید کرلیتے۔ (دوسری روایت میں آتا ہے کہ اگر یہ ہم پر اتری ہوتی تو ہم عید کا دن مناتے۔ (تو بہرحال کہا کہ اس آیت کے نزول کے دن عید کرلیتے۔ )(بخاری کتاب التفسیر تفسیر سورۃ المائدۃ باب قولہ: الیوم اکملت لکم دینکم حدیث نمبر 4606) حضرت عمرؓ نے کہا کہ جمعہ عید ہی ہے‘‘۔ (حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں)’’مگر بہت سے لوگ اس عید سے بے خبر ہیں۔ دوسری عیدوں کو کپڑے بدلتے ہیں لیکن اس عید کی پرواہ نہیں کرتے اور میلے کچیلے کپڑوں کے ساتھ آتے ہیں۔ میرے نزدیک یہ عید دوسری عیدوں سے افضل ہے‘‘۔ (حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ)’’میرے نزدیک یہ عید دوسری عیدوں سے افضل ہے۔ اسی عید کے لئے سورۃ جمعہ ہے اور اسی کے لئے قصر نماز ہے اور جمعہ وہ ہے جس میں عصر کے وقت آدم پیدا ہوئے۔ اور یہ عید اس زمانے پر بھی دلالت کرتی ہے کہ پہلا انسان اس عید کو پیدا ہوا۔ قرآن شریف کا خاتمہ اسی پر ہوا‘‘۔ (الحکم جلد 10نمبر 27مورخہ 31؍جولائی 1906ء صفحہ5 کالم 1)(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 673 مطبوعہ ربوہ)۔
یعنی یہ آیت جو تھی یہ بھی جمعہ والے دن نازل ہوئی۔ پس ہم ایک عظیم الشان دین کے ماننے والے ہیں جس کو نازل فرما کر اللہ تعالیٰ نے اپنا دین کامل اور مکمل کیا اور ایک یہودی کو بھی اس کی عظمت کا، آیت کی عظمت کا اقرار کرنا پڑا۔ پس جس خدا نے دین کامل کرکے قرآن کریم کی صورت میں آنحضرت ﷺ پر اتارا اسی خدا نے ایک اہم فریضہ کی طرف اس کتاب میں ہمیں توجہ دلائی ہے بلکہ حکم دیا ہے۔ پس یہ ہماری بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ اس کی بجاآوری میں کبھی سستی نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اور ہماری اولادوں کو بھی ہمیشہ توفیق دیتا رہے کہ ہم جمعوں کا خاص اہتمام کرنے والے بنے رہیں اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہم سے توقع کی ہے اس پر پورا اترنے والے ہوں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں