خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 27؍نومبر 2009ء

آنحضرت ﷺ کی قوت قدسی سے اللہ تعالیٰ کے مومنین کے لئے ولی ہونے کے نظارے آپ کے بعد بھی دکھائی دئے اور اس زمانہ میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے صحابہ کی زندگیوں میں بھی خداتعالیٰ کے ولی ہونے کے نظارے دکھائی دیتے ہیں۔
(آنحضرت ﷺ کے صحابہ اورصحابہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی زندگیوں سے خداتعالیٰ کے ولی ہونے اور قبولیت دعا کے حیرت انگیز، اعجازی واقعات کا ایمان افروز تذکرہ)
مکرم رانا سلیم احمد صاحب نائب امیر ضلع سانگھڑ کی دردناک شہادت اور مکرم گیانی عبداللطیف صاحب درویش قادیان کی وفات کا تذکرہ اورہر دو مرحومین کی نمازجنازہ غائب
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ مورخہ 27؍نومبر 2009ء بمطابق27؍نبوت 1388 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لند ن (برطانیہ)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

گزشتہ چند جمعوں سے قرآن کریم کی آیات کی روشنی میں مَیں وَلِیْ کے مضمون کو خطبات میں بیان کر رہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کس طرح ہمارا وَلِی ہے اور مَوْلٰی ہے اور کس کس طرح اپنی اس صفت کا اظہار فرماتا ہے اور ایک انسان کو اللہ تعالیٰ کا وَلِیْ اوردوست کس طرح بننا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کے قرب کا سب سے اعلیٰ مقام حضرت محمد مصطفی ﷺ کو ملا اور اللہ تعالیٰ کے اس اعلان کہ

نَحْنُ اَوْلِیٰٓؤُکُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ۔ وَلَکُمْ فِیْھَا مَا تَشْتَھِیْٓ اَنْفُسُکُمْ وَلَکُمْ فِیْھَا مَا تَدَّعُوْنَ (حم سجدہ:31 تا 33)

ہم اس دنیوی زندگی میں بھی تمہارے ساتھ ہیں اور آخرت میں بھی۔ اور اس میں تمہارے لئے وہ سب کچھ ہو گا جس کی تمہارے نفس خواہش کرتے ہیں اور اس میں تمہارے لئے وہ سب کچھ ہو گا جو تم طلب کرتے ہو۔ اس کے سب سے پہلے مخاطب آنحضرت ﷺ ہی ہیں۔ خداتعالیٰ کے سب سے پیارے توآپؐ ہی ہیں۔ زمین و آسمان آپؐ کی خاطر پیدا کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ آپؐ کی پیدائش سے وفات تک آپؐ کے وَلِیْ ہونے کے نظارے ہر دم دکھاتا رہا۔ آپؐ کی خواہش کی آپؐ کی زندگی میں تکمیل ہوئی۔ شریعت کامل ہوئی اور خاتم الانبیاء کہلائے اور آپؐ کا یہ سلسلہ آج تک بھی قائم و دائم ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے آپؐ سے

یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاس (المائدۃ:68)

کا وعدہ فرمایا تو ہر سختی اور مشکل میں آپؐ کی حفاظت فرماتے ہوئے ہر قسم کے نقصان سے بچایا۔ بلکہ ہجرت کے وقت جب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پکڑے جانے کے خدشہ اور خوف کا اظہار فرمایا تو یہ کہہ کر ان کی تسلی کرائی کہ

لَاتَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا (التوبۃ:40)

خوف نہ کرو جو ہمارا آقا اور مولیٰ ہے، جو ہمارا اللہ ہے، جو ہمارا وَلِیْ ہے وہ ہمارے ساتھ ہے۔ پس مومنین کے لئے اللہ تعالیٰ کے وَلِیْ ہونے کے نظارے بھی آپؐ کی قوت قدسی کی وجہ سے آپؐ کے ماننے والوں کو بھی نظر آئے اور حضرت ابو بکرؓ صدیق کا تو آپؐ کا خاص ساتھی ہونے کی وجہ سے ایک خاص مقام تھا۔ انہوں نے تو ہر آن دیکھے ہی لیکن عمومی طور پر صحابہؓ نے بھی اللہ تعالیٰ کے وَلِیْبن کر اس کے وَلِیْ ہونے کے نظارے دیکھے اور آج تک آنحضرت ﷺ کی قوت قدسی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ یہ نظارے دکھاتا چلا جا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے لئے خالص ہونے والے ہر قدم پریہ نظارے دیکھتے ہیں۔
جب اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں مسیح محمدی کو بھیجا تو اللہ تعالیٰ کی اس دوستی، مدداوروَلِیْ ہونے کی نئی مثالیں بھی ہم نے اس زمانے میں دیکھیں۔ ایمان میں ترقی کے نظارے نظر آنے لگے۔ بہرحال اس وقت مَیں اسی حوالے سے بعض واقعات بیان کروں گا۔ پہلے تو آنحضرت ﷺ کے صحابہؓ کی زندگی کے واقعات ہیں۔ اس کے بعد پھرحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابہؓ کے بھی واقعات ہیں۔ جن سے اللہ تعالیٰ کے اپنے بندوں کے ساتھ تعلق اور ان کے لئے غیرت رکھنے پر روشنی پڑتی ہے کہ کس طرح ان کی زندگی میں بھی اور اُن کے مرنے کے بعد بھی اللہ تعالیٰ ان کا مددگار بنتا ہے۔ اُن کی ذات پر دنیا کے حملوں سے انہیں بچاتا ہے۔ اگر کسی نے کوئی دعا کی تو اس کو صرف اس کی زندگی تک ہی محدود نہیں رکھابلکہ ان کی خواہش کو جس کے لئے دعا کی گئی تھی مرنے کے بعد بھی اللہ تعالیٰ نے پورا فرمایا۔
پہلی مثال جو مَیں نے لی ہے، جوواقعہ مَیں نے لیا ہے وہ آنحضرت ﷺ کے صحابی حضرت زبیرؓ کاہے۔ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ جو حضرت زبیرؓ کے بیٹے تھے وہ بیان کرتے ہیں کہ جنگ جمل کے روز مَیں حضرت زبیرؓ کے پہلو میں کھڑا تھا۔ آپؓ نے فرمایا: اے میرے بیٹے! آج کے دن یا تو کوئی ظالم قتل ہو گا یا کوئی مظلوم(دو طرح کے لوگ آج قتل ہونے والے ہیں۔ یا ایک ظالم یا مظلوم) اور یقیناً مَیں دیکھ رہا ہوں کہ مَیں مظلوم قتل کیا جاؤں گا۔ میرا سب سے بڑا مسئلہ میرا قرض ہے۔ کیا تُودیکھتا ہے کہ قرض کی ادائیگی کے بعد ہمارے مال میں سے کچھ بچے گا؟ پھر آپؓ نے کہا: اے میرے بیٹے! ہمارے مال کو بیچ کر میرا قرض ادا کر دینا۔ (ان کی عرب کے مختلف شہروں میں جائیدادیں تھیں۔ اس لئے انہوں نے کہا کہ جو میرا قرض ہو تم جائیدادوں کو بیچ کر ادا کر دینا) اور آپؓ نے تیسرے حصے کی وصیت کی اور تین میں سے تیسرے حصے کی وصیت اپنے بیٹے یعنی حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کے حق میں کی۔ پھر کہا کہ قرض کی ادائیگی کے بعد اگر ہمارے مال میں سے کچھ بچ رہے تو تیرے بیٹے کے لئے بھی تیسرا حصہ ہے۔ عبداللہ بن زبیرؓ نے کہا کہ وہ مجھے قرض کی ادائیگی کے لئے کہتے رہے۔ پھر کہاکہ اے میرے بیٹے! اگر توقرض ادا کرنے سے رہ جائے تو میرے مولیٰ سے مدد طلب کرنا۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ مَیں نہ سمجھا کہ آپؓ کی اس سے کیا مراد ہے۔ مَیں نے عرض کیا کہ اے میرے باپ! آپؓ کا مولیٰ کون ہے؟ آپؓ نے کہا کہ اللہ۔ عبداللہ بن زبیرؓکہتے ہیں کہ اللہ کی قسم! جب بھی میں نے زبیر کے قرض کی ادائیگی کرتے ہوئے مشکل محسوس کی تومَیں نے دعا کی۔ اے زبیرؓ کے مولیٰ! ان کا قرض ادا کر دو تو اللہ تعالیٰ آپ کا قرض ادا کر دیتا تھا۔ (ایسا انتظام فرما دیتا تھا جس سے قرض ادا ہو جاتا تھا)۔
(صحیح بخاری کتاب الخمس باب برکۃ الغازی فی مالہ حیًّا ومیِّتًامع النبیﷺ۔ حدیث نمبر 3129)
پس یہ ہے اللہ تعالیٰ کا اپنے بندے کے ساتھ مدد اور دوستی کا سلوک کہ وفات کے بعد بھی کسی ذاتی کمزوری کی وجہ سے، کسی قرض کی وجہ سے، آپ پرکسی کو انگلی اٹھانے یا اعتراض کرنے کا موقع نہیں دیا اور جب ضرورت پڑی توقرض کی ادائیگی کے انتظام ہوتے چلے گئے۔
پھر ایک اور عجیب روایت ہے۔ ایک واقعہ ہے کہ کس طرح خداتعالیٰ نے ایک صحابی کی خواہش کے مطابق اس کی شہادت کے بعد بھی اسے کافروں کے ہاتھوں سے محفوظ رکھا۔ یہ واقعہ الرجیع کے شہید کی بابت ہے جو سیرت ابن ہشام میں درج ہے۔ رجیع ایک جگہ تھی جہاں ایک قبیلہ والے دس صحابہ کو دھو کہ سے دینی تربیت کے لئے بلا کر لے گئے تھے اور وہا ں جا کر ان میں سے سات کو پہلے شہید کیا۔ ایک دو جو بچے تھے ان کوبھی قید کر کے بعد میں شہید کردیا۔ بہرحال ان میں عاصم بن ثابت بھی شامل تھے۔ انہوں نے دشمنوں سے مقابلہ جاری رکھا اور لڑتے لڑتے وہ شہید ہو گئے اور ان کے دونوں ساتھی بھی آخر پر شہید ہوگئے۔ جب حضرت عاصم بن ثابتؓ کی شہادت ہو گئی تو اہل ھُذَیْل نے کوشش کی کہ ان کا سر حاصل کرلیں تاکہ وہ اس کو سلافۃ بنت سعد بن شہید کے ہاتھ بیچ سکیں۔ اس عورت نے نظر مانی تھی کہ اگر اس کو عاصم بن ثابتؓ کی کھوپڑی مل گئی تو وہ اس میں شراب پئے گی کیونکہ حضرت عاصمؓ نے جنگ اُحد کے دن اس کے دو بیٹوں کا کام تمام کیا تھا۔ لیکن اہل ھُذَیْل کواس کی توفیق نہ ملی کیونکہ جب شہید ہو کے گرے تو تھوڑی دیر بعد ہی مکھیوں اور بھڑوں نے قبضہ کرلیا۔ اور عاصم کی لاش اور ان کے درمیان شہد کی مکھیاں حائل ہو گئی تھیں۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ اس کو رات تک پڑا رہنے دیتے ہیں، پھررات کو آکر لے جائیں گے۔ لیکن اس کا موقع بھی ان کو نہیں ملا۔ پھر بڑی شدید بارش ہوئی اورخداتعالیٰ نے ایسا سیلاب بھیجا کہ عاصم کے جسم کو اٹھایا اوروہ سیلاب اپنے ساتھ بہا کر لے گیا۔ یہ وہی عاصم تھے جنہوں نے قبول اسلام کے بعد خدا سے عہد کیا تھا کہ کوئی مشرک ان کو نہ چھوئے گا اور نہ ہی وہ کسی مشرک کو چھوئیں گے۔ کیونکہ کہیں وہ اس سے ناپاک نہ ہو جائیں۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں ان کو جب یہ پتہ چلا کہ مکھیوں نے عاصم کی لاش کی حفاظت کی تھی تو فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کی حفاظت فرمایا کرتا ہے۔ عاصم نے یہ نذر مانی تھی کہ وہ ساری زندگی ہرگز کسی مشرک کو نہ چھوئیں گے اور نہ کبھی کوئی مشرک ان کو چھوئے گا۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان مشرکین کو عاصم کی وفات کے بعد بھی اس سے باز رکھا جس طرح اللہ تعالیٰ نے انہیں زندگی میں محفوظ رکھا تھا۔
(ماخوذ از السیرۃ النبویۃ لابن ھشام صفحہ 592۔ ذکر یوم الرجیع فی سنۃ ثلاث)
پھر ایک واقعہ ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ مدد فرماتے ہوئے بھوک مٹانے کے انتظامات کرتا ہے۔ حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے ایک مہم کے لئے ہمیں بھیجا اور حضرت ابوعبیدہؓ کو ہمارا امیر مقرر کیا۔ ہمارے ذمہ قریش کے ایک قافلے کو روکنے کا فرض تھا۔ سفر کے زادراہ کے لئے صرف ایک تھیلا ہمیں دیا اور اس کے علاوہ کچھ اور کھانے کو نہیں تھا۔ حضرت جابرؓ کہتے ہیں کہ ہم روزانہ ایک کھجور کھایا کرتے تھے اور جیسے بچہ چوستا رہتا ہے، سارا دن اسے چوستے رہتے تھے اور پانی پی لیتے تھے۔ پھر بعض دفعہ یہ ہوتا تھا کہ پیٹ بھرنا ہو تو درختوں پر سوٹیاں ما ر کے ان کے پتے جھاڑتے تھے اور ان کو پھر پانی میں تر کرکے کھالیا کرتے تھے۔ ایک دن ہم سمندر کے کنارے جا رہے تھے تو ایک بہت بڑا ساٹیلہ نظر آیا۔ ہم نے دیکھا تو وہ ایک مچھلی تھی۔ حضرت ابوعبیدہؓ نے کہا یہ مردار ہے اسے نہیں کھانا چاہئے لیکن تھوڑی دیر کے بعد کہا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺ کے بھیجے ہوئے ہیں
اللہ تعالیٰ کی راہ میں نکلے ہیں اور مجبوری بھی ہے۔ اس لئے تم کھا سکتے ہو۔ راوی کہتے ہیں ہم نے اس مچھلی پر ایک مہینہ گزارہ کیا۔ ہم 300 آدمی تھے اور اس کو کھا کر سب خوب موٹے ہو گئے۔ بہت بڑی مچھلی تھی۔ ہم اس میں سے تیل مشکیں بھر بھر کے نکالتے رہے۔ اس کی آنکھ اتنی بڑی تھی کہ 13 آدمی اس میں آرام سے بیٹھ سکتے تھے۔ اس کی پسلی کی ہڈی اتنی اونچی تھی کہ اونٹ پر بیٹھ کر اس میں سے گزر سکتے تھے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے یہ انتظام کیا، اس میں سے کچھ بچا کے وہ لے بھی آئے اور آنحضرت ﷺ کو بتایا تو فرمایا کہ تم نے بالکل ٹھیک کیا۔ یہ تمہارے لئے جائز تھی بلکہ اگر کوئی ٹکڑا ہے تو مجھے بھی دو۔ مَیں بھی کھاؤں گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ تمہارے لئے رزق مہیاکیا تھا۔ (مسلم کتاب الصید والذبائح ومایؤکل من الحیوان۔ باب اباحۃ میتۃالبحر۔ حدیث نمبر 4891)
تو یہ ہیں خداتعالیٰ کی مدد کے طریق کہ جو اس کی راہ میں نکلتے ہیں ان کی خوراک کے بھی سامان فرما دیتا ہے۔ کہاں ایک کھجور کھاکر پانی پی کر اور پتوں پر گزارا کر رہے تھے اور پھر اللہ تعالیٰ نے یہ انتظام کیا کہ گوشت بھی مہیا ہو گیا اور تیل بھی مہیا ہو گیا۔
اللہ تعالیٰ کامل ایمان لانے والوں، تقویٰ پر چلنے والوں کواور توکّل کرنے والوں کو فرماتا ہے

وَیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ(الطلاق: 4)

اور ان کو وہاں سے رزق دیتا ہے جہاں سے وہ گمان بھی نہیں کر سکتے۔ پس جب ہم دنیا میں اللہ تعالیٰ کے وعدوں کو پورا ہوتے دیکھتے ہیں تو اس بات پر یقین اور بڑھتا ہے کہ جو اس دنیا میں وَلِیْ ہونے کا ثبوت دیتا ہے، اپنے بندوں کے لئے انتظاما ت کرتاہے اس نے آخرت کے متعلق جو وعدے کئے ہوئے ہیں ان کو بھی یقیناً پورا فرمائے گا۔
جیسا کہ مَیں نے کہا کہ آنحضرت ﷺ کی غلامی میں اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھیجا اور

اٰخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ (الجمعۃ:4)

کے وعدہ کو پورا فرماتے ہوئے آنحضرت ﷺ کے غلام صادق کے ماننے والوں کو بھی ان صفات سے متصف کیا جو آقا نے انقلاب لا کر اپنے ساتھیوں میں پیدا کی تھیں، تقویٰ پر چلنے والوں میں پیدا کی تھیں۔ پہلے تو آنحضرت ﷺ کے چند صحابہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے اس خاص سلوک کے واقعات بیان کئے تھے۔ اب صحابہؓحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے جو سلوک روا رکھا اور ہر تقویٰ پر چلنے والے اور اللہ تعالیٰ کا وَلِیْ بننے کی کوشش کرنے والے کے ساتھ آج بھی روا رکھ رہا ہے ان میں سے چند بیان کروں گا۔
یہ واقعات بیان کرنے سے پہلے ایک عجیب روایت پیش کرتاہوں جوڈاکٹر عطر دین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک گواہی ہے اور ایک غیر نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بارہ میں اظہار کرتے ہوئے دی۔ ڈاکٹر عطر دین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابی تھے ان کے حالات میں لکھا ہے کہ ایک مجذوب راہوں ضلع جالندھر کا رہنے والا مصری شاہ نام امرتسر آیا۔ وہ ایک صوبہ دار میجر کا لڑکا تھا۔ ڈاکٹر صاحب اس مجذوب کی شہرت سن کر اس کے پاس گئے۔ اس نے آپ کو دیکھتے ہی کہاکہ’’جس نے وَلِیْ بننا ہے وہ قادیان جائے‘‘۔ چنانچہ آپ نے 1899ء میں بیعت کا خط قادیان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں لکھ دیا۔ (اصحاب احمد از ملک صلاح الدین صاحب جلد دہم۔ صفحہ 2۔ جدید ایڈیشن)
پھر حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو ایک پائے کے حکیم تھے اور بہت بڑے بزرگ تھے، عالم دین تھے، ان کے بارہ میں حضرت مولانا راجیکی صاحبؓ لکھتے ہیں کہ (چوہدری) نواب خان صاحب تحصیلدار جو مخلص احمدی تھے جب گجرات میں تبدیل ہو کر آئے تو جب دورے پرراجیکی میں تشریف لاتے میرے پاس کچھ دیرضرور قیام فرماتے اور مجھ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت اور عظمت شان کے متعلق اکثر تذکرے ہوتے رہتے تھے۔ ایک دن اسی طرح کی گفتگو کا سلسلہ جا ری تھا کہ نواب خان صاحب تحصیلدار مرحوم نے مجھ سے ذکر کیا کہ مَیں نے حضرت مولاناحکیم نورالدین صاحب سے ایک دفعہ عرض کیا کہ مولانا! آپ تو پہلے ہی باکمال بزرگ تھے۔ آپ کو حضرت مرزا صاحب کی بیعت سے زیادہ کیا فائدہ حاصل ہوا؟ اس پر حضرت مولانا صاحبؓ نے فرمایا: نواب خان ! مجھے حضرت مرزا صاحب کی بیعت سے فوائدتو بہت حاصل ہوئے ہیں لیکن ایک فائدہ ان میں سے یہ ہوا ہے کہ پہلے مجھے حضرت نبی کریم ﷺ کی زیارت بذریعہ خواب ہوا کرتی تھی اب بیداری میں بھی ہوتی ہے۔ (حیات نور۔ صفحہ 194)۔ پھر فرمایا آپؑ کی صحبت میں یہ فائدہ اٹھایا کہ دنیا کی محبت مجھ پر بالکل سرد پڑ گئی ہے۔ یہ سب مرزا کی قوت قدسیہ اور فیض صحبت سے حاصل ہوا۔
اب کچھ اور واقعات ہیں جو مَیں بیان کرنا چاہتا ہوں۔ حضرت مولانا غلام رسول صاحبؓ راجیکی کا واقعہ ہے۔ لکھتے ہیں کہ’’ایک موقع پر چوہدری اللہ داد صاحب نے مجھ سے دریافت کیا کہ یہ جو دست غیب کے متعلق مشہور ہے کہ بعض وظائف یا بزرگوں کی دعا سے انسان کی مالی امداد ہو جاتی ہے۔ کیا یہ صحیح بات ہے؟مَیں نے کہا :ہاں بعض خاص گھڑیوں میں جب انسان پر ایک خاص روحانی کیفیت طاری ہوتی ہے تو اس وقت اس کی تحریری یا تقریری دعا بِاِذْنِ اللّٰہ یقیناً حاجت روائی کا موجب ہو جاتی ہے۔ میری یہ بات سن کر چوہدری اللہ داد کہنے لگے تو پھر آپ مجھے کوئی ایسی دعایا عمل لکھ دیں جس سے میری مالی مشکلات دور ہو جائیں۔ مَیں نے کہا کہ اچھا اگر کسی دن کوئی خاص وقت اور گھڑی میسر آگئی تو انشاء اللہ مَیں آپ کو کوئی دعا لکھ دوں گا۔ چنانچہ ایک دن جب افضال ایزدی اور سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی برکت سے مجھے روحانی قوت کا احساس اور قوت مؤثرہ کی کیفیت کا جذبہ محسوس ہوا (یعنی ایسی طاقت جس سے دعا میں اثر ہو سکتا ہے) تو مَیں نے حسب وعدہ چوہدری اللہ داد کو ایک دعا لکھ کر دی۔ جس کے الفاظ غالباً

اَللّٰھُمَّ اکْفِنِیْ بِحَلَالِکَ عَنْ حَرَامِکَ وَاَغْنِنِیْ بِفَضْلِکَ عَمَّنْ سِوَاکَ

تھے اور تلقین کی کہ وہ اس دعا کو ہمیشہ اپنے پاس رکھیں۔ چنانچہ انہوں نے اسی وقت اس دعا کو اپنی پگڑی کے ایک گوشہ میں باندھ کر محفوظ کر لیا۔ خدا کی حکمت ہے کہ میرے مولیٰ کریم نے سیدناحضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے طفیل اس وقت اس ناچیز کی دعا کو ایسا قبول فرمایا کہ ایک سال تک چوہدری اللہ داد غیبی امداد اور مالی فتوحات کے کرشمے اور عجائبات اور ملاحظہ کرتے رہے۔ اس کے بعدسوء اتفاق سے(بدقسمتی سے) یہ دعا چوہدری اللہ داد صاحب سے ضائع ہو گئی اور وہ دست غیب کا سلسلہ ختم ہو گیا‘‘۔ (جب تک وہ کاغذ رہا سلسلہ چلتا رہا۔ اس کے گمنے کے بعد ختم ہو گیا)۔ (حیات قدسی۔ حصہ اول صفحہ46-45۔ جدید ایڈیشن)
پھر حکیم محمد اسماعیل صاحب بیان کرتے ہیں کہ’’میرے بچے محمد یعقوب کی پیدائش پر جب اس کا ختنہ کیا گیاتو حجام کی غلطی سے اس کی رگیں تک کٹ گئیں۔ خون کسی صورت میں بند نہ ہوتا تھا۔ خون کے مسلسل خارج ہونے سے بچے کی حالت غیر ہو گئی۔ دودھ پینا تودرکنار اس میں اتنی سکت بھی نہ رہی کہ حرکت کر سکے۔ آنکھیں پتھرا گئیں اور بظاہر ایک بے جان لا شہ کی طرح نظر آنے لگا۔ اس گھبراہٹ اور پریشانی کے عالم میں میں اپنے مطب سے، (دواخانہ سے، حکمت کرتے تھے) دوائی لینے کے لئے گیا تو اس وقت اتفاقاً حضرت مولوی صاحب (مولوی شیر علی صاحبؓ) میرے مطب کے سامنے سے گزر رہے تھے۔ مَیں نے السلام علیکم کہا اور تمام حالات بیان کرکے دعا کی درخواست کی۔ چنانچہ حضرت مولوی صاحب نے اسی وقت ہاتھ اٹھا کر دعا کرنی شروع کر دی اور کافی دیر تک نہایت سوز و گداز اور انہماک سے دعا میں مشغول رہے۔ دعا سے فراغت کے بعد جب مَیں گھر پہنچا اور بیوی سے کہا بچے کو ذرا دودھ تو پلاؤ۔ جب اس کو ماں نے اشارہ کیا تو وہ نہایت اشتیاق سے تندرست بچے کی طرح دودھ پینے لگ پڑا۔ جیسے اسے کبھی کوئی تکلیف ہی نہیں تھی۔ (کہتے ہیں) مَیں حضرت مولوی صاحب کی دعا کے اس اعجاز کو دیکھ کر حیران رہ گیا اور اللہ تعالیٰ سے آپ کے گہرے تعلق کا یہ کرشمہ میرے لئے بہت ایمان افروز ثابت ہوا۔ ‘‘
(سیرت حضرت مولانا شیرعلی صاحبؓ صفحہ228-227)
پھر حضرت محمد حسین جہلمی ٹیلر ماسٹر کہتے ہیں۔ یہ بھی حضرت مولوی شیر علی صاحب کا ہی قصہ ہے کہ’’حضرت مولوی صاحب ایک دفعہ موضع پھولر وال(ضلع جہلم) تشریف لائے۔ ایک غیر احمدی عورت کی شادی ہوئے چھ سات برس کا طویل عرصہ گزر چکا تھا لیکن وہ اولاد سے محروم تھی۔ عورت کو جب آپ ایسی بزرگ ہستی کی آمد کا علم ہوا تو کہنے لگی سنا ہے مولوی صاحب بڑے بزرگ آدمی ہیں۔ ان سے مجھے اولاد کا کوئی تعویذ ہی لے دیں۔ مَیں نے کہا مولوی صاحب تعویذ تو نہیں دیتے البتہ دعا کے لئے کہوں گا۔ چنانچہ جب آپ واپس جانے لگے تو سٹیشن پر پہنچ کر مَیں نے سارا واقعہ بیان کیا اور دعا کے لئے عرض کیا۔ آپ نے وہیں ہاتھ اٹھا کر دعافرمائی۔ آپ کی دعا کا یہ اثر ہوا کہ قریباًایک سال کے اندر ہی خداتعالیٰ نے اس کو لڑکا عطافرمایا‘‘۔
(سیرت حضرت مولانا شیرعلی صاحبؓ صفحہ241-240)
پھر مولوی غلام رسول صاحب راجیکی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ فیضان ایزدی نے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت راشدہ کے طفیل اور تبلیغ احمدیت کی برکت سے میرے اندر ایک ایسی روحانی کیفیت پیدا کر دی تھی کہ بعض اوقات جو کلمہ بھی منہ سے نکالتا تھا اور مریضوں اور حاجتمندوں کے لئے دعا کرتا تھا مولیٰ کریم اسی وقت میرے معروضات کو شرف قبولیت بخش کر لوگوں کی مشکل کشائی فرما دیتا تھا۔ چنانچہ ایک موقع پر جب موضع سعداللہ پور گیا تو مَیں نے چوہدری اللہ داد صاحب کو جو چوہدری عبداللہ خاں نمبردار کے بھائی تھے اور ابھی احمدیت سے مشرف نہ ہوئے تھے، مسجد کی ایک دیوار کے ساتھ بیٹھے دیکھا(بھائی کے بیٹے تھے)۔ وہ بے طرح دمہ کے شدید دورہ میں مبتلا تھے اور سخت تکلیف کی وجہ سے نڈھال ہو رہے تھے۔ مَیں نے وجہ دریافت کی تو انہوں نے بتایا کہ پچیس سال سے پرانا دمہ ہے جس کی وجہ سے میری زندگی دوبھر ہو گئی ہے۔ مَیں نے علاج معالجہ کی نسبت پوچھا تو انہوں نے کہا سارے ہندوستان کے جتنے قابل ڈاکٹر ہیں، طبیب ہیں ان سے علاج کروا چکا ہوں لیکن کوئی فائدہ نہیں ہو رہا۔ اس بیماری کو موروثی اور مُزَمَّنْ کہتے ہیں اور ڈاکٹروں نے اسے لاعلاج قرار دے دیا ہے۔ علاج سے مایوس ہو چکا ہوں اور اب تو مَیں زندگی سے تنگ آچکا ہوں۔ مَیں نے انہیں کہا کہ آنحضرت ﷺ نے تو کسی بیماری کو

لِکُلِّ دَآءدَوَاء

کے فرمان سے لاعلاج قرار نہیں دیا۔ آپ اسے لاعلاج سمجھ کر مایوس کیوں ہوتے ہیں ؟ کہنے لگے کہ اب مایوسی کے سوا اورکیا چارہ ہے۔ مَیں نے کہا کہ ہمارا خدا تو

فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ(ھود:108)

ہے۔ اس نے فرمایا کہ

لَا تَایْئَسُوْا مِنْ رَّوْحِ اللّٰہِ۔ اِنَّہٗ لَا یَایْئَسُ مِنْ رُّوْحِ اللّٰہِ اِلَّاالْقَوْمُ الْکَافِرُوْنَ (یوسف:88)

یعنی یاس اور کفر تو اکٹھے ہو سکتے ہیں لیکن ایمان اور یاس اکٹھے نہیں ہو سکتے۔ ناامیدی ایمان کے ساتھ اکٹھی نہیں ہو سکتی۔ اس لئے آپ ناامید نہ ہوں اور پیالہ میں تھوڑا سا پانی منگائیں۔ مَیں آپ کو دم کرکے دیتا ہوں۔ چنانچہ انہوں نے پانی منگایا اور مَیں نے خداتعالیٰ کی صفت شافی سے استفادہ کرتے ہوئے اتنی توجہ سے اس پانی پر دم کیا کہ مجھے خداتعالیٰ کی اس صفت کے فیوض سورج کی کرنوں کی طرح اس پانی میں برستے ہوئے نظر آئے۔ اس وقت مجھے یقین ہو گیا کہ یہ پانی اللہ کے افضال ایزدی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی برکت سے مجسم شفا بن چکا ہے۔ چنانچہ جب مَیں نے یہ پانی حضرت چوہدری اللہ داد کو پلایا توآ ن کی آن میں دمہ کا دورہ رک گیا اور پھر اس کے بعد کبھی انہیں یہ عارضہ نہیں ہوا۔ اس کے بعد 16-15 سال وہ زندہ رہے۔ اور اس قسم کے نشانات سے اللہ تعالیٰ نے چوہدری صاحب موصوف کو احمدیت بھی نصیب فرمائی اور وہ نہ صر ف احمدی ہوئے بلکہ مخلص احمدی مبلغ بن گئے۔
(ماخوذ از حیات قدسی حصہ اول صفحہ 45-44۔ جدید ایڈیشن)
پھر حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ ایک اور واقعہ بیان کرتے ہیں کہ موضع جاموں بولا جو ہمارے گاؤں سے جانب شمال دو کوس کے فاصلے پر واقع ہے وہاں کے اکثر زمیندار ہمارے بزرگوں کے ارادتمند تھے جب انہوں نے جیون خاں ساکن دُھْدْرَھا کی بیماری اور معجزانہ صحت یابی کا حال سنا۔
یہ بھی ایک واقعہ ہے جو کافی لمبا ہے اور مَیں بیان نہیں کر رہا۔ جیون خان بھی ایک شخص تھا جوگاؤں کے مولوی صاحب کے ساتھ مل کے خوب مخالفت کیا کرتا تھا اور ان کا (مولوی صاحب کا)وہاں آنا بند کر دیا تھا۔ لیکن پھر اس کو پیٹ کی کچھ ایسی تکلیف ہوئی کہ آخر مجبوراً انہوں نے کہا کہ اب اگر اس کی صحتیابی ہو سکتی ہے تو مولوی صاحب کی دعا سے ہو سکتی ہے۔ ان کو بلا کے لاؤ۔ چنانچہ مولوی صاحب گئے۔ دعا کی، تھوڑی دیر کے لئے شفا ہوئی۔ واپس آگئے تو پھر تکلیف شروع ہو گئی۔ پھر انہوں نے اس کے لئے خاص طور پر دعا کی اور اللہ تعالیٰ نے اس کو شفادی۔ پھر مولوی صاحب نے اس واقعہ میں لکھا ہے کہ مولویوں نے اس وقت کہا تھا کہ اس کے ساری دنیا کے علاج ہو چکے ہیں اس کو شفا نہیں ہوئی تویہ کونسا اللہ تعالیٰ کا خاص بندہ مرزا صاحب کا مرید آگیا ہے جو کہتاہے کہ مَیں کروں گا، دیکھ لینا یہ بھی کچھ نہیں کر سکتا۔ مولوی صاحب کہتے ہیں اس بات پہ پھر مَیں نے اللہ تعالیٰ سے خاص طور پر واسطہ دے کے دعا کی اور اللہ تعالیٰ نے اس شخص کو شفا دی۔ بہرحال کہتے ہیں جیون خان کے معجزانہ شفاء کے اس واقعہ کی وجہ سے جو زمیندار تھے، خان محمد زمیندار وہ میرے والد کی خدمت میں حاضرہوئے اور عرض کیا کہ میرا چھوٹا بھائی جان محمد عرصہ سے ٹی بی کے مرض میں مبتلا ہے اس لئے مہربانی کرکے میاں غلام رسول راجیکی کو میرے ساتھ بھیجیں تاکہ وہ کچھ دن ہمارے گھر ٹھہریں اور جان محمد کے لئے دعا کریں۔ (یہ خلاصہ مَیں بیان کر رہا ہوں)۔ چنانچہ ان کی درخواست پر مولوی صاحب کہتے ہیں۔ والد صاحب نے مجھے کہا۔ مَیں چلا گیا اور وہاں جاتے ہی وضو کرکے نماز میں اس کے بھائی کے لئے دعا کرنی شروع کر دی۔ سلام پھیرتے ہی مَیں نے ان سے دریافت کیا کہ اب جان محمد کی حالت کیسی ہیٗگھر والوں نے دیکھا تو جواب دیا کہ بخار تو بالکل اتر گیا ہے۔ کچھ بھوک بھی محسوس ہوتی ہے۔ چنانچہ اس کے بعد چند دنوں کے اندر ہی اس کے کمزور جسم میں جان پڑ گئی اور اس میں اتنی طاقت آگئی کہ وہ چلنے پھر نے لگ گیا۔ اس نشان کو دیکھ کر اگرچہ ان لوگوں کے اندر احمدیت سے متعلق کچھ حسن ظن تو پیدا ہوا مگر حضرت مسیح موعودؑ کے حلقہ بیعت میں کوئی شخص نہ آیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا، (مولوی صاحب لکھتے ہیں)کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے فرمایا کہ اس مریض کو جو صحت دی گئی ہے وہ ان لوگوں پر اتمام حجت کی غرض سے ہے۔ اگر انہوں نے احمدیت قبول نہ کی تو یہ مریض اسی شعبان کے مہینے کی 28ویں تاریخ کی درمیانی شب قبر میں ڈالا جائے گا۔ چنانچہ مَیں نے بیدار ہوتے ہی قلم اور دوات منگوائی اوریہ الہام الٰہی کاغذ پر لکھا اور اسی گاؤں کے بعض غیر احمدیوں میں دے دیا اور انہیں تلقین کی کہ اس پیشگوئی کو تعین موت کے عرصہ سے پہلے ظاہر نہ کریں۔ اس کے بعد مَیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بارگاہ اقدس میں قادیان چلاآیا اور یہیں رمضان مبارک کا مہینہ گزارا۔ خداتعالیٰ کی حکمت ہے کہ جب جان محمد بظاہر صحت یاب ہو گیا اور جا بجا اس معجزہ کا چرچا ہونے لگا تو اس مرض نے دوبارہ حملہ کیا اور وہ ٹھیک شعبان کی29ویں رات اس دنیائے فانی سے کوچ کر گیا۔ اس کے مرنے کے بعد غیر احمدیوں نے میری تحریر لوگوں کے سامنے رکھی تو ان کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی۔ مگر افسوس ہے کہ اس کے بعد بھی، اس کو دیکھ کر بھی اس کے عزیز رشتہ دار اور گاؤں والے احمدی نہیں ہوئے۔
(ماخوذ از حیات قدسی حصہ اول صفحہ 28-27۔ جدید ایڈیشن)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت خلیفۃ المسیح (اولؓ) کو دیکھ لو انہیں جو ضرورت ہو اس وقت پوری ہو جاتی ہے اور کوئی روک یا دیر نہیں ہوتی۔ ان سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ جب تمہیں ضرورت ہو ہم دیں گے۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میرے سامنے ایک آدمی آیا۔ اس نے دو سو روپیہ بطور امانت دو سال کے لئے دیا اور کہا کہ مَیں دو سال کے بعد آکے آپ سے لے لوں گا۔ …… ایک شخص جس نے جنا ب سے ایک سو روپیہ قرض مانگا ہوا تھا وہ پاس ہی بیٹھا ہوا تھا۔ آپؓ نے(اس دو سو روپیہ میں سے) ایک سو اسے دیا اور رسید لے کر اس تھیلی میں رکھ لی (جس میں بقایا رقم تھی) اور تھیلی گھر بھجوا دی۔ تھوڑی دیر کے بعد وہی امانت رکھوانے والا دوبارہ واپس آیا اور کہا کہ میرا ارادہ بدل گیا ہے۔ آپ وہ روپیہ مجھے ابھی دے دیں۔ (دو سال کی مدت نہیں)۔ آپ نے فرمایا کب جاؤ گے، اس نے پھرکہیں باہر جانا تھا۔ اس نے کہا کہ ایک گھنٹے تک۔ آپؓ نے فرمایا کہ اچھا پھر ایک گھنٹہ کے بعد آکر لے جانا۔ جب وہ وقت پر پہنچا اور آپ کے پاس ہی بیٹھا تھا تو آپ نے فرمایا کہ دیکھو انسان پر بھروسہ کرنا کیسی غلطی ہے۔ مَیں نے غلطی کی۔ خدا نے بتلا دیا کہ تم نے غلطی کی ہے۔ اب دیکھو میرا مولیٰ میری کیسی مدد کرتا ہے۔ وہ ایک سو روپیہ(اس کے آنے سے پہلے) ایک گھنٹے کے اندر اندر آپ کو کسی اور ذریعہ سے مل گیا اور آپ نے اسے دے دیا۔
(ماخوذ از تاریخ احمدیت۔ جلد سوم۔ صفحہ 556-555۔ طبع جدید)
قاضی عبدالرحیم صاحب بیان کرتے ہیں کہ(اہلیہ چراغ دین جمونی کی تذلیل کے واقعہ کے) قریباً ایک سال بعد یہ واقعہ ہوا کہ خاکسار عام طور پر، عشاء کے بعد اپنے مکان کے آگے محلہ والوں کو تبلیغ کیا کرتا تھا اور ایک مجلس لگ جایا کرتی تھی۔ ایک دن ایک ہندو جو پرلے درجہ کا مُفَتِّنْ تھا۔ اس نے ایک ایسی بات کہی جس کے جواب میں مجھے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی صداقت کی مثال کسی نبی کی مثال سے دینی پڑی۔ اس پر اس شخص نے مجلس کے مسلمانوں کو اشارہ کیا اور اس میں سے ایک ملاح نے جو وہاں جموں کے ایک گھاٹ کا ٹھیکیدار تھا اور بڑا زبان دراز تھا۔ یہ کہنا شروع کر دیا کہ مرزا کی مثال نبیوں سے دیتا ہے ؟اور اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کواور مجھے سخت گندی گالیاں دینی شروع کر دیں اور مجھے گلے سے پکڑ لیا اور خوب مارا۔ کہتے ہیں یہاں تک کہ میرابہت برا حال کیا۔ اس وقت مجھے اپنی کسی رسوائی اور تکلیف کی تو حس نہ تھی مگر حضورعلیہ السلام کی شان میں اس کی بدزبانی سے سخت درجہ دکھ ہوا اور اکثر حصہ رات کا بے چینی میں گزرا۔ خداتعالیٰ کی شان دیکھئے کہ رات کو یکدم بارش ہوئی اور زور کی بارش ہوئی اور اگلی صبح کے اوّل وقت میں اس ملاح کے دروازے کے سامنے تھانیدار اور سپاہی کھڑے ہوئے سخت گندی گالیاں دے رہے تھے اور اس کو گھر سے نکلنے کے لئے بلا رہے تھے۔ جب وہ نکلا تو اس کو ہتھکڑی لگا کر تھانے میں لے گئے۔ یہاں اس بات کا ذکر بھی کر دینا ضروری ہے کہ ریاست کے تھانیدار گورنمنٹ انگلشیہ کے تھانیدار وں کی طرح نہیں ہوتے۔ اس وقت کے رواج کے مطابق وہ جابر، سخت گیر اور بے باک ہوا کرتے تھے۔ اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ انہوں نے کس قدر فحش کلامی کی ہو گی۔ واقعہ یوں ہوا کہ ٹھیکیدار پابند ہوتے ہیں کہ رات کے وقت دریا عبور کرکے کشتیاں نہ چلائیں لیکن اس کے آدمیوں نے رات کو جو کشتی استعمال کرتے تھے وہ کی۔ اوراس رات بارش اور طوفان کی وجہ سے اس میں جو عورتیں بیٹھی ہوئی تھیں وہ ڈوب گئیں جس کی وجہ سے پولیس کو اطلاع ہوئی اور پولیس نے آکے اس کو مارا پیٹا بھی اور گالیاں بھی دیں اور پکڑ کے بھی لے گئے۔ کہتے ہیں اس شوخی کا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ دکھائی تھی فوری مزاچکھ لیا۔
(ماخوذازاصحاب احمد جلد ششم از ملک صلاح الدین صاحب ایم اے۔ صفحہ 134-133۔ جدید ایڈیشن)
ماسٹر عبدالرحمن صاحب نے سنایا کہ’’ایک د فعہ مَیں قادیان کے ہندو بازار میں سے گزرا۔ بے پناہ گرمی پڑ رہی تھی۔ چند ہندوؤں نے کہا کہ آپ ہر روز دعا کی برکات بیان کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ قادر ہے۔ آپ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ آج بارش برسا دے تا گرمی دور ہو۔ آپ نے ان کے طنز و تمسخر کو بری طرح محسوس کیا(وہ دعا کے لئے نہیں کہہ رہے تھے بلکہ مذاق اڑاتے ہوئے تمسخر کرتے ہوئے کہہ رہے تھے)اور آپ کی غیرت جوش میں آئی۔ آسمان بالکل صاف تھا۔ آپ مسجد اقصیٰ میں جا کر اس وقت تک دعا میں مصروف رہے جب تک بارش کی وجہ سے آپ کے کپڑے گیلے نہ ہو گئے۔ فرماتے تھے کہ مَیں ہندوؤں سے جب بھی اس نشان کا ذکر کرتا تو وہ شرمندہ ہو کر آنکھیں نیچی کر لیتے‘‘۔
(اصحاب احمد۔ جلد ہفتم از ملک صلاح الدین صاحب ایم اے۔ صفحہ 135۔ جدید ایڈیشن)
واقعات تو بہت ہیں لیکن ان کو بیان کرنے کا وقت نہیں ملے گا۔ اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃالسلام کا ایک اقتباس پڑھنا چاہتا ہوں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃالسلام فرماتے ہیں کہ’’حدیث شریف میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

مَنْ عَادَ لِیْ وَلِیًا فَاٰذَنْتُہٗ لِلْحَرْب

یعنی جو شخص میرے ولی کے ساتھ دشمنی کرتا ہے وہ گویا میرے ساتھ جنگ کرنے کو تیار ہوتا ہے‘‘۔ فرمایا کہ ’’یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جب کوئی شخص کسی سے محبت کرتا ہو اور محبت بھی ایسی جیسے کوئی اپنی اولاد سے کرتا ہے اور ایک دوسرا شخص بار بار کہے کہ یہ شخص مر جائے یا اس کی نسبت اوراسی قسم کی دلآزاری کی باتیں کہے اور اسے تکلیف دے تو وہ شخص ایسی باتوں سے کیونکرخوش ہو سکتا ہے اور وہ باپ جس کے بچے کے لئے کوئی شخص بددعائیں کر رہا ہو یا دیگر رنج دِہ کلمات اس کے بچے کی نسبت استعمال کر رہا ہو ایسے شخص سے کب محبت کر سکتا ہے؟ اسی طرح پر اولیاء اللہ بھی اطفال اللہ کا رنگ رکھتے ہیں (اللہ کے جو اولیاء ہوتے ہیں، اللہ کے بچوں کی طرح کا رنگ رکھتے ہیں)۔ کیونکہ انہوں نے جسمانی بلوغ کا چولہ اتارا ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی آغوش رحمت میں پرورش پاتے ہیں۔ وہ خود ان کا متولی متکفل اور ان کے لئے غیرت رکھنے والا ہوتا ہے۔ جب کوئی شخص (خواہ وہ کیسا ہی نماز روزہ رکھنے والا ہو) ان کی مخالفت کرتا ہے اور ان کے دکھ دینے پر کمر بستہ ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی غیرت جوش مارتی ہے اور ان مخالفت کرنے والوں پر اس کا غضب بھڑکتا ہے۔ اس لئے کہ انہوں نے اس کے ایک محبوب کو دکھ دینا چاہا ہے۔ اس وقت پھر نہ وہ نماز کام آتی ہے اور نہ وہ روزہ۔ کیونکہ نماز اور روزہ کے ذریعہ سے اسی ذات کو خوش کرنا تھا جس کو ایک دو سرے فعل سے ناراض کر لیا ہے‘‘۔ (نماز روزہ اللہ تعالیٰ کو خوش کرنے کے لئے تھی لیکن اللہ تعالیٰ کے پیاروں کو تکلیف دے کر جو کام کیا اس سے اللہ تعالیٰ کو ناراض کر لیا)۔ فرمایا کہ ’’پھر وہ رضا کا مقام کیونکر ملے جب تک غضب الٰہی دور نہ ہو۔ وہ اولیاء اللہ کا مخالف نادان ان اسباب غضب سے ناواقف ہوتا ہے بلکہ اپنے نماز روزہ پر اسے ایک ناز اور گھمنڈ ہوتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ خداتعالیٰ کا غضب دن بدن بڑھتا جاتا ہے اور وہ بجائے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے دن بدن اللہ تعالیٰ سے دور ہٹتا جاتا ہے یہاں تک کہ بالکل راندۂ درگاہ ہو جاتا ہے۔ وہ شخص جو بالکل فنا کی حالت میں ہے اور آستانۂ الوہیت پر گرا ہوا ہے اور آغوش ربوبیت میں پرورش پا رہا ہے اور خداتعالیٰ کی رحمت نے اسے ڈھانپ لیا ہے۔ یہاں تک کہ اس کا بات کرنا خدا تعالیٰ کا بات کرنا ہوتا ہے اور اس کا دوست خدا کا دوست اور اس کا دشمن خدا کا دشمن ہو جاتا ہے۔ پس ایسے مومن کامل کا دشمن رہ کر کوئی شخص کیونکر مومنِ کامل ہو سکتا ہے اور ایسے ہی مومن کامل کی دشمنی سے اس کا ایمان سلب ہو جاتا ہے اور اسے مَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ میں سے بنا دیتا ہے۔ خداتعالیٰ کے ماموروں اور اولیاء اللہ کی مخالفت اور ان کی ایذاء رسانی کبھی اچھا پھل نہیں دے سکتی۔ جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ مَیں ان کو ستا کر اور دکھ دے کر بھی آرام پا سکتا ہوں وہ سخت غلطی کرتا ہے اور اس کا نفس اسے دھوکہ دے رہا ہے۔
(ملفوظات جلد اول صفحہ 230-229 جدید ایڈیشن)
اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لئے ہمیشہ غیرت دکھائی ہے اور آج بھی دکھاتا ہے۔ لیکن جیسا کہ واقعات سے ظاہر ہے جس نے نہ سمجھنا ہو نہیں سمجھتے۔ دعاؤں کے ذریعہ سے ان کی تکلیفیں بھی دور ہوئیں لیکن پھر بھی سمجھ نہیں آیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا دعویٰ سچا ہے اور ہمیں ان کو تکلیف دینے کی بجائے ان کے ساتھ ان کی بیعت میں آنا چاہئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ، آپ کی جماعت کے ساتھ، اللہ تعالیٰ کا جویہ تعلق ہے، یہ آج تک قائم ہے۔ جو خالص ہو کر دعائیں کرنے والے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو نظارے دکھاتا ہے اوراگر خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے آگے جھکا جائے تویہ تعلق ہر ایک کے ساتھ قائم ہوسکتاہے۔ صرف تقویٰ پر چلنے اور عبادات کی طرف توجہ پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں ’’یہ قویٰ جو انسان کو دئے گئے ہیں۔ اگر وہ ان سے کام لے تو یقیناً ولی ہو سکتاہے۔ مَیں یقیناً کہتا ہوں کہ اس وقت اُمّت میں بڑی قوت کے لوگ آتے ہیں جو نور اور صدق اورو فاسے بھرے ہو ئے ہوتے ہیں۔ اس لئے کوئی شخص اپنے آپ کو ان قویٰ سے محروم نہ سمجھے۔ کیا اللہ تعالیٰ نے کوئی فہرست شائع کر دی ہے جس سے یہ سمجھ لیا جائے کہ ہمیں ان برکات سے حصہ نہیں ملے گا۔ خداتعالیٰ بڑا کریم ہے۔ اس کی کریمی کا بڑا گہرا سمندر ہیجو کبھی ختم نہیں ہو سکتا اور جس کو تلاش کرنے والا اور طلب کرنے والا کبھی محروم نہیں رہا۔ اس لئے تم کو چاہئے کہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر دعائیں مانگو اور اس کے فضل کو طلب کرو۔ ہر ایک نماز میں دعا کے لئے کئی مواقع ہیں، رکوع، قیام، قعدہ، سجدہ وغیرہ۔ پھر آٹھ پہروں میں پانچ مرتبہ نماز پڑھی جاتی ہے۔ فجر، ظہر، عصر، شام اور عشاء۔ ان پر ترقی کرکے اشراق اور تہجد کی نمازیں ہیں۔ یہ سب دعا ہی کے لئے مواقع ہیں ‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ 352-351۔ لندن ایڈیشن)
آنحضرت ﷺ نے ہمیں دعا کا طریق بھی سکھایا ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کے لئے دعا کرنی چاہئے۔ ایک روایت میں آتا ہے، حضرت ز یدؓبن ثابت بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ایک دعا سکھائی اور فرمایا کہ ہر روز اس کے ذریعہ سے اپنے گھر والوں کا خیال رکھا کریں۔ آپ نے فرمایا کہ تو صبح کے وقت یہ کہہ۔ مَیں حاضر ہوں، اے اللہ مَیں حاضر ہوں اور سب سعادتیں اور خوشیاں تجھ سے ہی ہیں اور ہر قسم کی بھلائی تیرے ہاتھوں میں ہے اور تجھ سے ہی ہے اور تیرے ذریعہ ہی مل سکتی ہے اور تیری طرف رجوع کرکے ہی مل سکتی ہے۔ اے اللہ! مَیں جو بھی کہوں یا جو بھی نذر مانوں یا کوئی قسم کھاؤں تو تیری مشیت اس سے پہلے ہے۔ جو تُو چاہے وہی ہوتا ہے اور جس کو تو پسند نہ کرے وہ ہرگز نہیں ہوتا۔ اور ہر قسم کی قوت اور طاقت تجھ سے ہی ہے۔ یقیناً تو ہر چیزپر قادر ہے۔ اے میرے اللہ! مَیں جو بھی درود بھیجوں تو وہ اس پر ہو جس پر تُودرود بھیجے اورمَیں جس پر لعنت کروں وہ لعنت اس پر ہو جس پر تُو لعنت کرے۔ یقیناً تُو ہی میرا دوست اور مددگار ہے۔ اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ مجھے مسلمان ہونے کی حالت میں وفات دے اور مجھے صالحین سے ملا دے۔ اے میرے اللہ!میں تجھ سے راضی بالقضاء رہنے کی توفیق مانگتا ہوں اور مرنے کے بعد زندگی کی ٹھنڈک کا اور تیرے چہرہ کو دیکھ کے حاصل ہونے والی لذت کا طلبگار ہوں۔ اور مَیں کسی نقصان پہنچانے والے کے نقصان اور گمراہ کر دینے والے فتنہ کے بغیر تیری ملاقات کے شوق کا طلبگار ہوں۔ اے میرے اللہ! مَیں تیری پناہ چاہتا ہوں کہ مَیں ظلم کروں یا مجھ پر ظلم کیا جائے یا مَیں زیادتی کروں یا مجھ پر زیادتی کی جائے۔ یا مَیں کوئی نیچے گرا دینے والی خطا کروں یا ایسا گنا ہ کروں جو بخشا نہ جائے۔ اے آسمانوں اور زمین کو پھاڑ نے والے، اے غیب اور حاضر کا علم رکھنے والے، اے عزت و جلال والے! مَیں دنیا میں بھی اپنے آپ کو تیرے سپرد کرتا ہوں اور تجھے گواہ ٹھہراتا ہوں اور تُو گواہ ہونے کے لحاظ سے کافی ہے۔ مَیں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔ تُو اکیلا ہے۔ تیرا کوئی شریک نہیں۔ بادشاہت اور ہر قسم کی ستائش تیرے لئے اور تُوہر چیز پر قدر ت رکھنے والا ہے اور مَیں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ تیرے بندے اور رسول ہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرا وعدہ سچا ہے اور تیری ملاقات حق ہے اور جنت حق ہے اور وہ گھڑی آنے والی ہے اس میں کوئی شک نہیں۔ اور جو قبروں میں ہیں تُو انہیں کھڑا کرے گا اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اگر تُو نے مجھے اپنے نفس کے سپرد کردیا تو تُو نے مجھے گھاٹے اورننگ اور گناہ اور خطا کے سپرد کر دیا۔ مَیں یقیناً تیری رحمت پہ بھروسہ کرتا ہوں۔ پس تُومجھے میرے تمام گناہ بخش دے۔ یقیناً تیرے سوا کوئی گناہوں کو نہیں بخشتا اور میری طرف رحمت کے ساتھ متوجہ ہو۔ یقیناً تو ہی بہت زیادہ رحمت کے ساتھ توجہ کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔
(مسنداحمد بن حنبل۔ جلد 7 صفحہ255۔ مسند زید بن ثابت۔ حدیث 22006۔ عالم الکتب۔ بیروت 1998ء)
یہ ایک لمبی دعا ہے جو آنحضرت ﷺ نے سکھائی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم میں سے ہر ایک کو توفیق دے کہ ہمارے دل میں ہر وقت اللہ تعالیٰ کی یاد قائم رہے اور ہم اس کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرنے والے ہوں اور اس کے انعامات سے ہر آن فیضیاب ہوتے رہیں۔
آج ایک افسوسناک خبر ہے۔ ہمارے ایک احمدی دوست مکرم رانا سلیم احمد صاحب(نائب امیر ضلع، ناظم انصاراللہ ضلع و علاقہ سانگھڑ) کل26نومبر کو نماز مغرب کے بعد احمدیہ مسجد سانگھڑ سے باہر نکل کر موٹر سائیکل کھڑی کرکے گیٹ بند کر رہے تھے کہ کسی بدبخت نے آپ کی ناک پر پستول رکھ کر فائر کیا اور گولی سر کے پیچھے سے نکل گئی۔ فوری طور پر ہسپتال لے جایا گیا لیکن وہاں جانبر نہ ہو سکے اور ان کی وفات ہو گئی۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔

آپ پڑھے لکھے آدمی تھے۔ ایم اے بی ایڈ کیا ہوا تھا۔ شعبہ تعلیم سے وابستہ تھے اور سانگھڑ میں نیولائیٹ اکیڈمی کے نام سے ایک سکول چلا رہے تھے او ر یہ سانگھڑ کابڑا اچھا مشہور سکول ہے۔ اس وقت بھی آپ کے سکول میں تقریباً ایک ہزار طالب علم تھے۔ اللہ کے فضل سے موصی تھے اور جماعتی خدمات میں پیش پیش تھے۔ اور مختلف پوزیشنوں میں جماعت کی خدمت کر رہے تھے۔ حیدر آباد اور سانگھڑ میں سیکرٹری دعوت الی اللہ بھی رہے۔ اصلاح و ارشاد کے عہدہ پر بھی فائزتھے، 2004ء میں آپ کو نائب امیر ضلع سانگھڑ بنایا گیا تھا۔ والدین تو ان کے وفات پا چکے ہیں ان کے پسماندگان میں اہلیہ اور دو بیٹیاں اور ایک بیٹاہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو صبر جمیل عطا فرمائے اور شہید کے درجات کو بلند فرمائے اور اپنی رضا کی جنتوں میں ان کو جگہ دے۔
دوسرا ایک اور وفات کا اعلان ہے جو گیانی عبداللطیف صاحب درو یش قادیان ابن مکرم عبدالرحمن صاحب کا ہے جو 21-20 نومبر کی درمیا نی رات کو 82سال کی عمر میں وفات پا گئے تھے۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔

آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابیؓ حضرت محمد حسین صاحب کپور تھلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پوتے تھے۔ آپ نے گورمکھی کا امتحان گیانی پاس کیاتھا اس لئے گیانی کے نام سے مشہور تھے۔ حضرت مصلح موعودؓ کی تحریک پر فوج سے ریلیز ہو کر قادیان آئے اور 313 درویشوں میں شامل ہوئے۔ کچھ عرصہ دیہاتی مبلغین میں شامل ہو کر فیلڈ میں خدمات بجا لاتے رہے۔ پھر ریٹائرمنٹ کے بعد ری امپلائی ہو کر دفتر زائرین میں لمبا عرصہ خدمت کی توفیق پائی۔ قرآن کریم کے گور مکھی ترجمہ کی نظر ثانی اور پروف ریڈنگ بھی بڑی محنت سے آپ نے کی۔ کچھ عرصہ مینیجر بدر بھی رہے۔ اس طرح بہشتی مقبرہ کا ایک قطعہ بھی اپنے ذمہ لیا ہوا تھا۔ اس کو ٹھیک رکھنے کے لئے مسلسل وقار عمل کرتے رہتے تھے۔ خوش طبع اور زندہ دل انسان تھے مطالعہ کا شوق تھا۔ معاشی تنگی کے باوجود ہمیشہ خوش باش نظر آتے تھے او رکہتے ہیں کہ ایک افسردہ شخص بھی ان سے بات کرتا تو خوش ہوئے بغیر نہ رہتا۔ ان کے پسماندگان میں تین بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں۔ ان کے ایک بیٹے عبدالہادی صاحب نور ہسپتال کی لیب میں کام کر رہے ہیں اور ان کی ایک بیٹی شمیم اخترصاحبہ نصرت گرلزسکول قادیان میں ٹیچر ہیں اور قادیان کی صدر لجنہ بھی ہیں۔ ان کے ایک داماد صباح الدین صاحب نائب ناظر بیت المال ہیں۔ آپ کے باقی بچے بھی مختلف حیثیتوں میں جماعت کی خدمت کی توفیق پا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان بچوں کو بھی اپنے والد کی نیکیوں کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ شہید کے بھی اور ان کے بھی درجات بلند فرمائے۔ ان دونوں مرحومین کی نماز جنازہ غائب ابھی میں جمعہ اور عصر کی نماز کے بعد ادا کروں گا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں