خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بتاریخ 29؍اگست2003ء

دین کو دنیا پر مقدم کئے بغیر ایمان قائم نہیں رہ سکتا۔ کامل فرمانبرداری اصل دین ہے
کبریائی اللہ کی چادر ہے۔شرک کے بعد تکبر جیسی کوئی بلا نہیں
(شرائط بیعت حضرت مسیح موعودؑ کے مضمون کا پرمعارف اور روح پرور بیان )
خطبہ جمعہ ارشاد فرمودہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
۲۹؍اگست ۲۰۰۳ء بمطابق ۲۹؍ ظہور ۱۳۸۲ہجری شمسی بمقام شیورٹ ہالے،فرینکفورٹ (جرمنی)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أشھد أن لا إلہ إلا اللہ وحدہ لا شریک لہ وأشھد أن محمداً عبدہ و رسولہ-
أما بعد فأعوذ باللہ من الشیطان الرجیم- بسم اللہ الرحمٰن الرحیم-
الحمدللہ رب العٰلمین- الرحمٰن الرحیم- مٰلک یوم الدین- إیاک نعبد و إیاک نستعین-
اھدنا الصراط المستقیم- صراط الذین أنعمت علیھم غیر المغضوب علیھم ولا الضالین-

جلسہ کی آخری تقریر میں مَیں شرائط بیعت کے متعلق بیان کر رہا تھا تو وقت کی وجہ سے ساری بیان نہیں کی گئیں- چھ شرائط اب تک بیان ہو چکی ہیں اوراب دو مَیں نے آج کے لئے لی ہیں-

شرط ہفتم۔ ساتویں شرط یہ ہے: یہ کہ تکبر اور نخوت کو بکلی چھوڑ دے گا اور فروتنی اور عاجزی اور خوش خلقی اور حلیمی اور مسکینی سے زندگی بسر کرے گا۔

شیطان کیونکہ تکبر دکھانے کے بعد سے ابتدا سے ہی یہ فیصلہ کر چکا تھاکہ مَیں اپنی ایڑی چوٹی کا زور لگاؤں گااور عبادالرحمن نہیں بننے دوں گا اور مختلف طریقوں سے اس طرح انسان کو اپنے جال میں پھنساؤں گاکہ اس سے نیکیاں سرزد اگرہو بھی جائیں تو وہ اپنی طبیعت کے مطابق ان پر گھمنڈ کرنے لگے اور یہ نخوت اور یہ گھمنڈ اس کو یعنی انسان کو آہستہ آہستہ تکبرکی طرف لے جائے گا۔یہ تکبر آخر کاراس کو اس نیکی کے ثواب سے محروم کردے گا۔ توکیونکہ شیطان نے پہلے دن سے ہی یہ فیصلہ کرلیا تھاکہ وہ انسان کو راہ راست سے بھٹکائے گا اور اس نے خود بھی تکبر کی وجہ سے ہی اللہ تعالیٰ کے حکم کاانکار کیا تھا اس لئے یہی وہ حربہ ہے جو شیطان مختلف حیلوں بہانوں سے انسا ن پر آزماتاہے اور سوائے عبادالرحمن کے کہ وہ عموماً اس ذریعہ سے کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے خاص بندے ہوتے ہیں ،عبادتگزار ہو تے ہیں ، بچتے رہتے ہیں-اس کے علاوہ عموماً تکبر کا ہی یہ ذریعہ ہے جس کے ذریعہ شیطان انسان کو اپنی گرفت میں لینے میں کامیاب ہوجاتاہے۔ تو یہ ایک ایسی چیزہے جس کو معمولی نہیں سمجھنا چاہئے۔کہ یہ ہم نے بیعت کرتے ہوئے یہ شرط تسلیم کرلی کہ تکبر نہیں کریں گے،نخوت نہیں کریں گے، بکلی چھوڑ دیں گے۔یہ اتنا آسان کام نہیں ہے۔اس کی مختلف قسمیں ہیں ، مختلف ذریعوں سے انسانی زندگی پر شیطان حملہ کرتارہتاہے۔بہت خوف کامقام ہے۔ اصل میں تو اللہ تعالیٰ کا فضل ہی ہو تو اس سے بچا جاسکتاہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے کے لئے بھی اس ساتویں شرط میں ایک راستہ رکھ دیا۔ فرمایا کیونکہ تم تکبر کی عادت کوچھوڑوگے تو جو خلا پیدا ہوگا اس کواگر عاجزی اور فروتنی سے پُرنہ کیا توتکبر پھر حملہ کرے گا۔اس لئے عاجزی کو اپناؤ کیونکہ یہی راہ اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔ آپ نے خود بھی اس عاجزی کو اس انتہا ء تک پہنچا دیا جس کی کوئی مثال نہیں تبھی تو اللہ تعالیٰ نے خوش ہوکر آپ کو الہاماً فرمایا کہ تیری عاجزانہ راہیں اس کو پسند آئیں- تو ہمیں جو آپ کی بیعت کے دعویدار ہیں ، آپ کو امام الزمان مانتے ہیں ، کس حد تک اس خُلق کو اپنانا چاہئے۔انسان کی تو اپنی ویسے بھی کوئی حیثیت نہیں ہے کہ تکبر دکھائے اوراکڑتا پھرے۔یہ قرآن شریف کی آیت میں پڑھتاہوں- اللہ تعالیٰ فرماتاہے:

ولَاَ تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًا۔ اِنَّکَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلًا-(بنی اسراء یل:۳۸)

اور زمین میں اکڑ کر نہ چل۔ تُو یقینا زمین کو پھاڑ نہیں سکتا اور نہ قامت میں پہاڑوں کی بلندی تک پہنچ سکتاہے۔
جیساکہ اس آیت سے صاف ظاہر ہے انسان کی تو کوئی حیثیت ہی نہیں ہے۔کس بات کی اکڑ فوں ہے۔بعض لوگ کنویں کے مینڈک ہوتے ہیں ، اپنے دائرہ سے باہر نکلنا نہیں چاہتے۔ اوروہیں بیٹھے سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ ہم بڑی چیزہیں-اس کی مثال اس وقت مَیں ایک چھوٹے سے چھوٹے دائرے کی دیتاہوں ، جو ایک گھریلومعاشرے کا دائرہ ہے، آپ کے گھر کا ماحول ہے۔ بعض مرد اپنے گھر میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ ایسا ظالمانہ سلوک کررہے ہوتے ہیں کہ روح کانپ جاتی ہے۔بعض بچیاں لکھتی ہیں کہ ہم بچپن سے اپنی بلوغت کی عمر کو پہنچ چکی ہیں اور اب ہم سے برداشت نہیں ہوتا۔ہمارے باپ نے ہماری ماں کے ساتھ اور ہمارے ساتھ ہمیشہ ظلم کا رویہ رکھاہے۔باپ کے گھر میں داخل ہوتے ہی ہم سہم کر اپنے کمروں میں چلے جاتے ہیں-کبھی باپ کے سامنے ہماری ماں نے یاہم نے کوئی بات کہہ دی جو اس کی طبیعت کے خلاف ہوتو ایسا ظالم باپ ہے کہ سب کی شامت آجاتی ہے۔ تو یہ تکبر ہی ہے جس نے ایسے باپوں کو اس انتہا تک پہنچا دیاہے اور اکثر ایسے لوگوں نے اپنارویہّ باہر ایسا رکھا ہوتاہے، بڑا اچھا رویہ ہوتا ہے ان کا اور لوگ باہر سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ ان جیسا شریف انسان ہی کوئی نہیں ہے۔ اور باہر کی گواہی ان کے حق میں ہوتی ہے۔بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جو گھرکے اندر اور باہر ایک جیسا رویہ اپنائے ہوئے ہوتے ہیں ان کا تو ظاہر ہو جاتاہے سب کچھ۔ تو ایسے بدخُلق اور متکبر لوگوں کے بچے بھی، خاص طورپر لڑکے جب جوا ن ہوتے ہیں تو ا س ظلم کے ردّعمل کے طورپر جو انہوں نے ان بچوں کی ماں یا بہن یا ان سے خود کیاہوتاہے، ایسے بچے پھر باپوں کے سامنے کھڑے ہوجاتے ہیں-اور پھر ایک وقت میں جا کر جب باپ اپنی کمزور ی کی عمر کو پہنچتاہے تو اس سے خاص طورپر بدلے لیتے ہیں- تو اس طرح ایسے متکبرانہ ذہن کے مالکوں کی اپنے دائرہ اختیار میں مثالیں ملتی رہتی ہیں-مختلف دائرے ہیں معاشرے کے۔ایک گھر کا دائرہ اور اس سے باہر ماحول کا دائرہ۔ اپنے اپنے دائرے میں اگر جائزہ لیں تو تکبیر کی یہ مثالیں آپ کو ملتی چلی جائیں گی۔
پھر اس کی انتہاس دائرے کی اس صورت میں نظر آتی ہے جہاں بعض قومیں اور ملک اور حکومتیں اپنے تکبر کی وجہ سے ہر ایک کو اپنے سے نیچ سمجھ رہی ہوتی ہیں- اورغریب قوموں کو، غریب ملکوں کو اپنی جوتی کی نوک پر رکھا ہوتاہے۔اورآج دنیا میں فساد کی بہت بڑی وجہ یہی ہے۔ اگر یہ تکبر ختم ہو جائے تو دنیا سے فساد بھی مٹ جائے۔ لیکن ان متکبر قوموں کو بھی، حکومتوں کو بھی پتہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ جب تکبر کرنے والوں کے غرور اورتکبر کو توڑتاہے تو ان کا پھر کچھ بھی پتہ نہیں لگتا کہ وہ کہاں گئے۔
اللہ تعالیٰ قرآ ن شریف میں فرماتاہے :

فلَاَ تُصَعِّرْ خَدَّکَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًا۔ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرٍ (لقمان:۱۹)۔

اس کا ترجمہ یہ ہے :اور (نخوت سے) انسانوں کے لئے اپنے گال نہ پُھلا اور زمین میں یونہی اکڑتے ہوئے نہ پھر۔ اللہ کسی تکبر کرنے والے (اور) فخرومباہات کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔
جیساکہ اس آیت سے بھی ظاہر ہے اللہ تعالیٰ ہمیں فرمارہاہے کہ یونہی تکبر کرتے ہوئے نہ پھرو۔ اپنے گال پھلاکر، ایک خاص انداز ہوتاہے تکبرکرنے والوں کا اور گردن اکڑاکر پھرنا اللہ تعالیٰ کو بالکل پسند نہیں-بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ اپنے سے کم درجہ والوں کے سامنے اکڑ دکھا رہے ہوتے ہیں اور اپنے سے اوپر والے کے سامنے بچھتے چلے جاتے ہیں- تو ایسے لوگوں میں منافقت کی برائی بھی ظاہر ہو رہی ہوتی ہے۔تو یہ تکبر جوہے بہت سی اخلاقی برائیوں کا باعث بن جاتاہے اورنیکی میں ترقی کے راستے آہستہ آہستہ بالکل بند ہو جاتے ہیں- اورپھر دین سے بھی دورہوجاتے ہیں ، نظام جماعت سے بھی دور ہو جاتے ہیں-اور جیسے جیسے ان کا تکبر بڑھتاہے ویسے ویسے وہ اللہ اور رسول کے قرب سے، اس کے فضلوں سے بھی دور چلے جاتے ہیں-
ایک حدیث میں آتاہے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺنے فرمایا :قیامت کے دن تم میں سے سب سے زیادہ مجھے محبوب اور سب سے زیادہ میرے قریب وہ لوگ ہوں گے جو سب سے زیادہ اچھے اخلاق والے ہوں گے۔ اور مَیں تم میں سے سب سے زیادہ مبغوض اور مجھ سے زیادہ دور وہ لوگ ہوں گے جو ثرثار یعنی منہ پھٹ،بڑھ بڑھ کر باتیں بنانے والے ہیں ، متشدِّق یعنی منہ پھلا پھلا کر باتیں کرنے والے اورمُتْفَیْہِقْ یعنی لوگوں پر تکبر جتلانے والے ہیں- صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ !ثرثار اور متشدِّق کے معنے توہم جانتے ہیں، مُتْفَیْہِق کسے کہتے ہیں- آپ ؐنے فرمایا: مُتْفَیْہِق متکبرانہ باتیں کرنے والے کو کہتے ہیں- (ترمذی ابواب البر والصلۃ باب فی ممالی الاخلاق)
ایک اور حدیث ہے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، آنحضرت ﷺنے فرمایا :تین باتیں ہر گناہ کی جڑ ہیں ان سے بچناچاہئے۔ تکبر سے بچوکیونکہ تکبر نے ہی شیطان کو اس بات پراکسایا کہ وہ آدم کوسجدہ نہ کرے۔ دوسرے حرص سے بچو کیونکہ حرص نے ہی آدم کو درخت کھانے پر اکسایا۔تیسرے حسد سے بچو کیونکہ حسد کی وجہ سے ہی آدم کے دوبیٹوں میں سے ایک نے اپنے بھائی کو قتل کر دیا تھا۔ (قشریہ باب الحسد صفحہ۷۹)
پھر حدیث ہے۔حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا :جس کے دل میں ذرہ بھر بھی تکبر ہوگا اللہ تعالیٰ اس کو جنت میں نہیں داخل ہونے دے گا۔ایک شخص نے عرض کیا یارسول اللہ !انسان چاہتاہے کہ اس کا کپڑا اچھا ہو،جوتی اچھی ہو اور خوبصورت لگے۔ آپ ؐنے فرمایا :یہ تکبر نہیں-آپ نے فرمایا :اللہ تعالیٰ جمیل ہے، جمال کو پسند کرتاہے، یعنی خوبصورتی کو پسند کرتاہے۔ تکبر دراصل یہ ہے کہ انسان حق کا انکار کرنے لگے،لوگوں کو ذلیل سمجھے، ان کو حقار ت کی نظر سے دیکھے اوران سے بری طرح پیش آئے۔ (صحیح مسلم کتاب الایمان باب تحریم الکبر وبیانہ)
پھر ایک روایت میں آتاہے حضرت ابوہریرہ ؓبیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :دوزخ اور جنت کی آپس میں بحث اور تکرار ہو گئی۔ دوزخ نے کہاکہ مجھ میں بڑے بڑے جابر اورمتکبر داخل ہوتے ہیں اورجنت کہنے لگی کہ مجھ میں کمزور اورمسکین داخل ہوتے ہیں- اس پر اللہ تعالیٰ نے دوزخ کوفرمایا کہ تو میرے عذاب کی مظہرہے۔جسے مَیں چاہتاہوں تیرے ذریعہ عذاب دیتاہوں-اور جنت سے کہا تو میری رحمت کی مظہر ہے جس پر مَیں چاہوں تیر ے ذریعہ رحم کرتاہوں- اور تم دونوں میں سے ہرایک کو اس کا بھرپورحصہ ملے گا۔ (صحیح مسلم کتاب الجنۃ وصفۃ نعمھا واھلھا)
اللہ کرے کہ ہراحمدی عاجزی، مسکینی اورخوش خلقی کی راہوں پر چلتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رحم کی نظر حاصل کرنے والاہو، اللہ تعالیٰ کی جنت میں جانے والاہو اور ہر گھر تکبر کے گناہ سے پاک ہو۔
ایک حدیث میں آتاہے۔ حضرت ابوسعید خدریؓ، ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :عزت اللہ تعالیٰ کا لباس اور کبریائی اس کی چادر ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتاہے پس جو کوئی بھی انہیں مجھ سے چھینے کی کوشش کرے گا مَیں اسے عذاب دوں گا۔ (صحیح مسلم کتاب البر والصلۃ)
تو تکبر آخرکار انسان کو خدا کے مقابل پر کھڑا کردیتاہے۔جب خدا کا شریک بنانے والے کو اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ معاف نہیں کروں گا تو پھر جو خود خدائی کا دعویدار بن جائے اس کی کس طرح بخشش ہو سکتی ہے۔ تو یہ تکبر ہی تھا جس نے مختلف وقتوں میں فرعون صفت لوگوں کو پیدا کیا اور پھر ایسے فرعونوں کے انجام آپ نے پڑھے بھی اوراس زمانہ میں دیکھے بھی۔تو یہ بڑاخوف کامقام ہے۔ ہر احمدی کو ادنیٰ سے تکبر سے بھی بچنا چاہئے کیونکہ یہ پھرپھیلتے پھیلتے پوری طرح انسان کو اپنی لپیٹ میں لے لیتاہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ وارننگ دے دی ہے، واضح کردیاہے کہ یہ میری چادر ہے، مَیں رب العالمین ہوں ، کبریائی میری ہے، ا س کو تسلیم کرو، عاجزی دکھاؤ۔اگر ان حدود سے باہر نکلنے کی کوشش کروگے تو عذاب میں مبتلا کئے جاؤ گے۔اگر رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہے توعذاب تمہارا مقدرہے لیکن ساتھ ہی یہ خوشخبری بھی دے دی کہ اگر ذرہ بھر بھی تمہارے اندرایمان ہے تو مَیں تمہیں آگ کے عذاب سے بچا لوں گا۔ جیسا کہ حدیث میں آیاہے۔
حضرت عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ اور جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہوگا و ہ آگ میں داخل نہ ہوگا۔(سنن ابن ماجہ کتاب المقدمہ )
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں : ’’ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ قیامت کے دن شرک کے بعد تکبر جیسی اور کوئی بلا نہیں- یہ ایک ایسی بلا ہے جو دونوں جہان میں انسان کو رسوا کرتی ہے۔ خدا تعالیٰ کا رحم ہر ایک موحد کا تدارک کرتا ہے مگر متکبر کا نہیں- شیطان بھی موحد ہونے کادم مارتا تھا مگر چونکہ اس کے سر میں تکبر تھا اور آدم کو جو خدا تعالیٰ کی نظر میں پیارا تھا۔ جب اس نے توہین کی نظر سے دیکھا اور اس کی نکتہ چینی کی اس لئے وہ مارا گیا اور طوق لعنت اس کی گردن میں ڈالا گیا۔ سو پہلا گناہ جس سے ایک شخص ہمیشہ کیلئے ہلاک ہوا تکبر ہی تھا۔‘‘(آئینہ کمالات اسلام۔ روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ۵۹۸)
پھر فرماتے ہیں :’’اگر تمہارے کسی پہلو میں تکبر ہے یا ریا ہے یا خود پسندی ہے یا کسل ہے تو تم ایسی چیز نہیں ہو کہ قبول کے لائق ہو۔ ایسا نہ ہو کہ تم صرف چند باتوں کو لے کر اپنے تئیں دھوکہ دو کہ جو کچھ ہم نے کرنا تھا کر لیا ہے۔ کیونکہ خدا چاہتا ہے کہ تمہاری ہستی پر پورا پور انقلاب آوے اور وہ تم سے ایک موت مانگتا ہے جس کے بعد وہ تمہیں زندہ کرے گا۔ (کشتی نوح۔ روحانی خزائن جلد۱۹ صفحہ۱۲۔۱۳)
پھر فرماتے ہیں :’’ہاں ایسے لوگ ہیں جو انبیاء علیہم السلام سے حالانکہ کروڑوں حصہ نیچے کے درجہ میں ہوتے ہیں جو دو دن نماز پڑھ کر تکبر کرنے لگتے ہیں اور ایسا ہی روزہ اور حج سے بجائے تزکیہ کے ان میں تکبر اور نمود پیدا ہوتی ہے۔ یاد رکھو تکبر شیطان سے آیا ہے اور شیطان بنا دیتا ہے۔ جب تک انسان اس سے دور نہ ہو۔ یہ قبول حق اور فیضان الوہیت کی راہ میں روک ہو جاتا ہے۔ کسی طرح سے بھی تکبر نہیں کرنا چاہئے۔ نہ علم کے لحاظ سے، نہ دولت کے لحاظ سے، نہ وجاہت کے لحاظ سے، نہ ذات اور خاندان اور حسب نسب کی وجہ سے۔ کیونکہ زیادہ تر انہی باتوں سے یہ تکبر پیدا ہوتا ہے اور جب تک انسان ان گھمنڈوں سے اپنے آپ کو پاک صاف نہ کرے گا۔ اس وقت تک وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک برگزیدہ نہیں ہو سکتا اور وہ معرفت جو جذبات کے موادِ ردّیہ کو جلا دیتی ہے اس کو عطا نہیں ہوتی کیونکہ یہ شیطان کا حصہ ہے اس کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرنا۔……
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرما رہے ہیں کہ بعض بنیادی چیزیں ہیں اور ان کی طرف بھی توجہ دینی چاہئے۔ اوران سے بچو۔ بعض لوگ دو چاردن نماز پڑھ کے سمجھتے ہیں کہ ہم بڑے نیک ہو گئے ہیں-چہرے پر عجیب قسم کی سنجیدگی کے ساتھ رعونت بھی طاری ہوجاتی ہے۔اور آپ نے دیکھاہوگابعض دفعہ بعض جبہّ پوشوں کو کہ ہاتھ میں تسبیح لے کر مسجدوں سے نکل رہے ہوتے ہیں-ان کی گردن پرہی فخر اورغرور نظر آرہا ہوتا ہے۔ شکرہے، اللہ تعالیٰ کا بہت بہت شکرہے کہ جماعت احمدیہ ایسے جبہ پوشوں سے پاک ہے۔ پھر حج کرکے آتے ہیں اتنا پروپیگنڈہ اس کا ہو رہا ہوتاہے کہ انتہا نہیں-ایسے لوگوں کے دکھاوے کے روزے ہوتے ہیں اور دکھاوے کاحج ہوتاہے۔ صرف بڑائی جتانے کے لئے یہ سب ہوتاہے کہ لوگ کہیں کہ فلا بڑا نیک ہے۔بڑے روزے رکھتاہے، حاجی ہے، بہت نیک ہے۔تو یہ سب دکھاوے تکبر کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں یا دکھاوے کی وجہ سے تکبر پیدا ہو جاتاہے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ بعض لوگ اپنی ذات پات کی وجہ سے تکبر کر رہے ہوتے ہیں کہ ہماری ذات بہت اونچی ہے۔فلاں تو کمی کمین ہے وہ ہماراکہاں مقابلہ کرسکتاہے۔ توحضرت اقدس نے فرمایاکہ تکبر کی کئی قسمیں ہیں جوتمہیں خدا تعالیٰ کی معرفت سے دور لے جاتی ہیں ،اس کے قرب سے دور لے جاتی ہیں اورپھر آہستہ آہستہ انسان شیطان کی جھولی میں گر جاتاہے۔
پھر آپ ؑفرماتے ہیں :’’پس میرے نزدیک پاک ہونے کا یہ عمدہ طریق ہے اور ممکن نہیں کہ اس سے بہتر کوئی اور طریق مل سکے کہ انسان کسی قسم کا تکبر اور فخر نہ کرے نہ علمی نہ خاندانی نہ مالی۔ جب خدا تعالیٰ کسی کو آنکھ عطا کرتا ہے تو وہ دیکھ لیتا ہے کہ ہر ایک روشنی جو ان ظلمتوں سے نجات دے سکتی ہے وہ آسمان سے ہی آتی ہے اور انسان ہر وقت آسمانی روشنی کا محتاج ہے۔ آنکھ بھی دیکھ نہیں سکتی جب تک سورج کی روشنی جو آسمان سے آتی ہے نہ آئے۔ اسی طرح باطنی روشنی جو ہر ایک قسم کی ظلمت کو دور کرتی ہے اور اس کی بجائے تقویٰ اور طہارت کا نور پیدا کرتی ہے آسمان ہی سے آتی ہے۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ انسان کا تقویٰ،ایمان،عبادت،طہارت سب کچھ آسمان سے آتا ہے۔ اور یہ خدا تعالیٰ کے فضل پر موقوف ہے وہ چاہے تو اس کو قائم رکھے اور چاہے تو دور کردے۔
پس معرفت اسی کا نام ہے کہ انسان اپنے نفس کو مسلوب اور لاشئی محض سمجھے اور آستانۂ الوہیت پر گر کر انکسار اور عجز کے ساتھ خدا تعالیٰ کے فضل کو طلب کرے۔ اور اس نور معرفت کو مانگے جو جذبات نفس کو جلا دیتا ہے اور اندر ایک روشنی اور نیکیوں کے لئے قوت اور حرارت پیدا کرتا ہے۔ پھر اگر اس کے فضل سے اس کو حصہ مل جاوے اور کسی وقت کسی قسم کا بسط اور شرح صدر حاصل ہو جاوے تو اس پر تکبر اور ناز نہ کرے بلکہ اس کی فروتنی اور انکسار میں اور بھی ترقی ہو۔ کیونکہ جس قدر وہ اپنے آپ کو لاشئی سمجھے گا اسی قدر کیفیات اور انوار خدا تعالیٰ سے اتریں گے جو اس کو روشنی اور قوت پہنچائیں گے۔ اگر انسان یہ عقیدہ رکھے گا تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کی اخلاقی حالت عمدہ ہو جائے گی۔ دنیا میں اپنے آپ کو کچھ سمجھنا بھی تکبر ہے اور یہی حالت بنا دیتا ہے۔ پھر انسان کی یہ حالت ہو جاتی ہے کہ دوسرے پر لعنت کرتا ہے اور اسے حقیر سمجھتا ہے۔ (ملفوظات جلدچہارم صفحہ۲۱۳ جدید ایڈیشن)
پھر آپ فرماتے ہیں :’’تکبّر بہت خطرناک بیماری ہے جس انسان میں یہ پیدا ہو جاوے اس کے لئے رُوحانی موت ہے۔ میں یقینا جانتا ہوں کہ یہ بیماری قتل سے بھی بڑھ کر ہے۔ متکبر شیطان کا بھائی ہو جاتا ہے۔ اس لئے کہ تکبّر ہی نے شیطان کو ذلیل و خوار کیا۔ اس لئے مومن کی یہ شرط ہے کہ اس میں تکبّر نہ ہو بلکہ انکسار، عاجزی، فروتنی اس میں پائی جائے اور یہ خدا تعالیٰ کے ماموروں کا خاصہ ہوتا ہے ان میں حد درجہ کی فروتنی اور انکسار ہوتا ہے اور سب سے بڑھ کر آنحضرتﷺ میں یہ وصف تھا۔ آپؐ کے ایک خادم سے پوچھا گیا کہ تیرے ساتھ آپؐ کا کیا معاملہ ہے۔ اس نے کہا کہ سچ تو یہ ہے کہ مجھ سے زیادہ وہ میری خدمت کرتے ہیں‘‘۔ (اللّٰھُمَّ صلّ علیٰ محمدٍ وَ علیٰ اٰل محمّدٍ وَ بارک وسلّم)۔
(ملفوظات جلد چہارم۔ صفحہ ۴۳۷۔ جدید ایڈیشن)
پھر آپ ؑ فرماتے ہیں :’’مَیں اپنی جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ تکبر سے بچو کیونکہ تکبر ہمارے خداوند ذوالجلال کی آنکھوں میں سخت مکروہ ہے۔ مگر تم شاید نہیں سمجھوگے کہ تکبر کیا چیز ہے۔ پس مجھ سے سمجھ لو کہ مَیں خدا کی روح سے بولتا ہوں- ہر ایک شخص جو اپنے بھائی کو اس لئے حقیر جانتا ہے کہ وہ اس سے زیادہ عالم یا زیادہ عقلمند یا زیادہ ہنرمند ہے وہ متکبر ہے کیونکہ وہ خدا کو سرچشمہ عقل اور علم کا نہیں سمجھتا اور اپنے تئیں کچھ چیز قرار دیتا ہے۔ کیا خدا قادر نہیں کہ اُس کو دیوانہ کردے اور اس کے اُس بھائی کو جس کو وہ چھوٹا سمجھتا ہے اس سے بہتر عقل اور علم اور ہنر دے دے۔ ایسا ہی وہ شخص جو اپنے کسی مال یا جاہ و حشمت کا تصور کرکے اپنے بھائی کو حقیر سمجھتا ہے وہ بھی متکبر ہے کیونکہ وہ اس بات کو بھول گیا ہے کہ یہ جاہ و حشمت خدا نے ہی اُس کو دی تھی اور وہ اندھا ہے اور وہ نہیں جانتا کہ وہ خدا قادر ہے کہ اس پر ایک ایسی گردش نازل کرے کہ وہ ایک دم میں اسفل السافلین میں جاپڑے اور اس کے اس بھائی کو جس کو وہ حقیر سمجھتا ہے اس سے بہتر مال و دولت عطا کردے۔ ایسا ہی وہ شخص جو اپنی صحت بدنی پر غرور کرتا ہے یا اپنے حسن اور جمال اور قوت اور طاقت پر نازاں ہے اور اپنے بھائی کا ٹھٹھے اور استہزاء سے حقارت آمیز نام رکھتا ہے اور اُس کے بدنی عیوب لوگوں کو سناتا ہے وہ بھی متکبر ہے اور وہ اس خدا سے بے خبر ہے کہ ایک دم میں اس پر ایسے بدنی عیوب نازل کرے کہ اس بھائی سے اس کو بدتر کردے اور وہ جس کی تحقیر کی گئی ہے ایک مدت دراز تک اس کے قویٰ میں برکت دے کہ وہ کم نہ ہوں اور نہ باطل ہوں کیونکہ وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ ایسا ہی وہ شخص بھی جو اپنی طاقتوں پر بھروسہ کرکے دعا مانگنے میں سست ہے وہ بھی متکبر ہے کیونکہ قوتوں اور قدرتوں کے سرچشمہ کو اُس نے شناخت نہیں کیا اور اپنے تئیں کچھ چیز سمجھا ہے۔ سو تم اے عزیزو! ان تمام باتوں کو یاد رکھو ایسا نہ ہو کہ تم کسی پہلو سے خدا تعالیٰ کی نظر میں متکبر ٹھہر جاؤ اور تم کو خبر نہ ہو۔ ایک شخص جو اپنے ایک بھائی کے ایک غلط لفظ کی تکبر کے ساتھ تصحیح کرتا ہے اس نے بھی تکبر سے حصہ لیا ہے۔ ایک شخص جو اپنے بھائی کی بات کو تواضع سے سننا نہیں چاہتا اور منہ پھیر لیتا ہے اُس نے بھی تکبر سے حصہ لیا ہے۔ ایک غریب بھائی جو اس کے پاس بیٹھا ہے اور وہ کراہت کرتا ہے اس نے بھی تکبر سے حصہ لیا ہے۔ ایک شخص جو دعا کرنے والے کو ٹھٹھے اور ہنسی سے دیکھتا ہے اس نے بھی تکبر سے ایک حصہ لیا ہے۔ اور وہ جو خدا کے مامور اور مُرسل کی پورے طور پر اطاعت کرنا نہیں چاہتا اس نے بھی تکبر سے ایک حصہ لیا ہے۔ اور وہ جو خدا کے مامور اور مُرسل کی باتوں کو غور سے نہیں سنتا اور اس کی تحریروں کو غور سے نہیں پڑھتا اس نے بھی تکبر سے ایک حصہ لیا ہے۔ سو کوشش کرو کہ کوئی حصہ تکبر کا تم میں نہ ہو تاکہ ہلاک نہ ہوجاؤ تا تم اپنے اہل و عیال سمیت نجات پاؤ۔ خدا کی طرف جھکو اور جس قدر دنیا میں کسی سے محبت ممکن ہے تم اس سے کرو اور جس قدر دنیا میں کسی سے انسان ڈر سکتا ہے تم اپنے خدا سے ڈرو۔ پاک دل ہوجاؤ اور پاک ارادہ اور غریب اور مسکین اور بے شر تا تم پر رحم ہو۔‘‘
(نزول المسیح۔ روحانی خزائن۔ جلد ۱۸۔ صفحہ۴۰۲۔۴۰۳)
پھر دوسری بات جو اس شرط میں بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ فروتنی اور عاجزی اورخوش خلقی اورحلیمی اور مسکینی سے زندگی بسر کروں گا۔ تو جیساکہ مَیں نے پہلے بھی کہا ہے کہ جب آپ اپنے دل ودماغ کو تکبر سے خالی کرنے کی کوشش کریں گے، خالی کریں گے تو پھر لازماً ایک اعلیٰ وصف،ایک اعلیٰ صفت،ایک اعلیٰ خُلق اپنے اندرپیداکرنا ہوگا ورنہ پھر شیطان حملہ کرے گا کیونکہ وہ اسی کام کے لئے بیٹھا ہے کہ آپ کا پیچھا نہ چھوڑے۔ وہ خُلق ہے عاجزی اورمسکینی۔ اور یہ ہو نہیں سکتاکہ عاجز اورمتکبر اکٹھے رہ سکیں-متکبر لوگ ہمیشہ ایسے عاجز لوگوں پر جو عبادالرحمن ہوں طعنہ زنیاں کرتے رہتے ہیں ، فقرے کستے رہتے ہیں تو ایسے لوگوں کے مقابل پر آپ نے ان جیسا رویہ نہیں اپنانا۔بلکہ خداتعالیٰ کے اس حکم پر عمل کرنا ہے فرمایا:

وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ھَوْنًا وَّاِذَا خَاطَبَھُمُ الْجَاھِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا (الفرقان:۶۳)

اور رحمان کے بندے وہ ہیں جو زمین پر فروتنی کے ساتھ چلتے ہیں اور جب جاہل ان سے مخاطب ہوتے ہیں تو (جواباً) کہتے ہیں ’’سلام‘‘۔
حضرت ابو سعید خدریؓ روایت کرتے ہیں کہ آنحضورؓ نے فرمایا جس نے اللہ کی خاطر ایک درجہ تواضع اختیار کی اللہ تعالیٰ اس کا ایک درجہ رفع کرے گا یہاں تک کہ اسے علیّین میں جگہ دے گا، اور جس نے اللہ کے مقابل ایک درجہ تکبّر اختیار کیا تو اللہ تعالیٰ اس کو ایک درجہ نیچے گرا دے گا یہاں تک کہ اسے اسفل السافلین میں داخل کردے گا۔(مسند احمد بن حنبل، باقی مسند المکثرین من الصحابۃ)
تو ایسے لوگوں کی مجالس سے سلام کہہ کراٹھ جانے میں ہی آپ کی بقا، آپ کی بہتری ہے کیونکہ اسی سے آپ کے درجات بلند ہو رہے ہیں اورمخالفین اپنی انہی باتوں کی وجہ سے اسفل السافلین میں گرتے چلے جا رہے ہیں-
حدیث میں آیا ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا: صدقہ دینے سے مال کم نہیں ہوتا اور اللہ تعالیٰ کا بندہ جتنا کسی کو معاف کرتا ہے اللہ تعالیٰ اتنا ہی زیادہ اسے عزت میں بڑھاتا ہے۔ جتنی زیادہ کوئی تواضع اور خاکساری اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اتنا ہی اسے بلند مرتبہ عطا کرتا ہے۔(مسلم کتاب البرو الصلۃ باب استحباب العفو و التواضع)
عیاذ بن حمار بن مجاشع کے بھائی روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺہمارے درمیان خطاب کرتے ہوئے کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے وحی کی ہے کہ تم اس قدر تواضع اختیار کرو کہ تم میں سے کوئی ایک دوسرے پر فخر نہ کرے، اورکوئی ایک دوسرے پر ظلم نہ کرے۔
پھر ایک روایت ہے اسے ہمیں آپس کے معاملات میں بھی پیش نظر رکھنا چاہئے۔ حضرت ابوہریرہ ؓبیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے مال کم نہیں ہوتا اور اللہ تعالیٰ کا بندہ جتنا کسی کو معاف کرتا ہے اللہ تعالیٰ اتنا ہی زیادہ اسے عزت میں بڑھاتا ہے۔ جتنی زیادہ کوئی تواضع اور خاکساری اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اتنا ہی اسے بلند مرتبہ عطا کرتا ہے۔ (مسلم۔ کتاب البر والصلۃ۔ باب استحباب العفو والتواضع)
پس ہر احمدی ایک دوسرے کو معاف کرنے کی عادت ڈالے۔اگلے جہان میں بھی درجات بلند ہو رہے ہوں گے اور اللہ تعالیٰ اس دنیا میں بھی آپ کی عزتیں بڑھاتا چلا جائے گا۔اللہ تعالیٰ اپنی خاطر کئے گئے کسی فعل کو کبھی بغیر اجر کے جانے نہیں دیتا۔
مسکینوں کا مقام آنحضرت ﷺکی نظر میں کتناتھا، اس کا اندازہ اس حدیث سے کریں-حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ آنحضرت ﷺسے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مساکین سے محبت کیاکرو۔ یہ حضرت ابوسعید خدری کہہ رہے ہیں کہ پس مَیں نے رسول اللہ ﷺکو یہ دعا کرتے ہوئے سناہے کہ اَللّٰھُمَّ اَھْیِنِیْ مِسْکِیْنًا وَاَمِتْنِیْ مِسْکِیْنًا وَاَحْشُرْنِیْ فِی زُمْرَۃِ الْمَسَاکِیْن۔ یعنی اے اللہ مجھے مسکینی کی حالت میں زندہ رکھ،مجھے مسکینی کی حالت میں موت دے اورمجھے مسکینوں کے گروہ ہی سے ا ٹھانا۔ (ابن ماجہ کتاب الزھد باب مجالسۃ الفقراء)
پس ہر احمدی کو بھی وہی راہ اختیار کرنی چاہئے،ان راہوں پر قدم مارنا چاہئے جن پر ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفیﷺ چل رہے ہیں-ہر ا حمدی کو اپنے آپ کو مسکینوں کی صف میں ہی رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے کیونکہ یہی عہد بیعت ہے کہ مسکینی سے زندگی بسر کروں گا۔
ایک روایت میں آتاہے۔ حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ جعفر بن ابی طالب مساکین سے بہت محبت کرتے تھے۔ان کی مجلسوں میں بیٹھتے تھے۔ وہ ان سے باتیں کرتے اور مساکین ان سے باتیں کرتے۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺحضرت جعفر کو ابوالمساکین کی کنیت سے پکارا کرتے تھے۔(ابن ماجہ کتاب الزھد باب مجالسۃ الفقراء)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :-
اگر اللہ تعالیٰ کو تلاش کرنا ہے تو مسکینوں کے دل کے پاس تلاش کرو۔ اسی لیے پیغمبروں نے مسکینی کا جامہ ہی پہن لیا تھا۔ اسی طرح چاہیئے کہ بڑی قوم کے لوگ چھوٹی قوم کو ہنسی نہ کریں اور نہ کوئی یہ کہے کہ میرا خاندان بڑا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم میرے پاس جو آؤگے تو یہ سوال نہ کروں گا کہ تمہاری قوم کیا ہے۔ بلکہ سوال یہ ہو گا کہ تمہارا عمل کیا ہے۔ اسی طرح پیغمبر خدا نے فرمایا ہے اپنی بیٹی سے کہ اے فاطمہؓ خدا تعالیٰ ذات کو نہیں پوچھے گا۔ اگر تم کوئی برا کام کروگی تو خدا تعالیٰ تم سے اس واسطے درگزر نہ کرے گا کہ تم رسول کی بیٹی ہو۔ پس چاہیئے کہ تم ہر وقت اپنا کام دیکھ کر کیا کرو۔(ملفوظات جلد سوم صفحہ۳۷۰ مطبوعہ ربوہ)
پھر آپؑ فرماتے ہیں :’’اہل تقویٰ کے لیے یہ شرط تھی کہ وہ غربت اور مسکینی میں اپنی زندگی بسر کرے یہ ایک تقویٰ کی شاخ ہے جس کے ذریعہ ہمیں غضب ناجائز کا مقابلہ کرنا ہے۔ بڑے بڑے عارف اور صدیقوں کے لیے آخری اور کڑی منزل غضب سے ہی بچنا ہے۔ عجب و پندار غضب سے پیدا ہوتا ہے۔ اور ایسا ہی کبھی خود غضب عجب و پندار کا نتیجہ ہوتا ہے کیونکہ غضب اس وقت ہو گا جب انسان اپنے نفس کو دوسرے پر ترجیح دیتا ہے۔ ‘‘ (رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ ء صفحہ۴۹)
آپ ؑفرماتے ہیں :’’ تم اگر چاہتے ہو کہ آسمان پر تم سے خدا راضی ہو تو تم باہم ایسے ایک ہو جاؤ جیسے ایک پیٹ میں سے دو بھائی۔ تم میں سے زیادہ بزرگ وہی ہے جو زیادہ اپنے بھائی کے گناہ بخشتا ہے۔ اور بدبخت ہے وہ جو ضد کرتا ہے اور نہیں بخشتا۔ سو اس کا مجھ میں حصہ نہیں-‘‘
(کشتی نوح۔ روحانی خزائن جلد۱۹ صفحہ۱۲۔۱۳)

پھرآٹھویں شرط یہ ہے ’یہ کہ دین اور دین کی عزت اور ہمدردیٔ اسلام کو اپنی جان اور اپنے مال اور اپنی عزت اور اپنی اولاد اور اپنے ہریک عزیز سے زیادہ تر عزیز سمجھے گا‘۔

دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا عہد ایک ایسا عہد ہے کہ جماعت کا ہروہ فرد جس کا جماعت کے ساتھ باقاعدہ رابطہ ہے، اجلاسوں اور اجتماعوں وغیرہ میں شامل ہوتاہے وہ اس عہد کو بارہا دہراتاہے۔ہر اجتماع اور ہر جلسہ وغیرہ میں بھی بینرز لگائے جاتے ہیں اور اکثر ان میں یہ بھی ہوتاہے کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا۔کیوں اس بات کو اتنی اہمیت دی گئی ہے، اس لئے کہ اس کے بغیرایمان قائم ہی نہیں رہ سکتا۔ اس پر عمل کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اس لئے اس کے حصول کے لئے ہر وقت، ہر لحظہ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے رہنا چاہئے۔اس کا فضل ہی ہوتو یہ اعلیٰ معیار قائم ہو سکتاہے۔ تو ہم جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے شامل ہیں-ہمارے لئے توللہ تعالیٰ اس طرح حکم فرماتاہے۔ قرآن شریف میں آیا ہے۔

وَمَااُمِرُوْٓا اِلَّا لِیَعْبُدُوْا اللہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ۔حُنَفَآء وَیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوالزَّکٰوۃَ وَذٰلِکَ دِیْنُ الْقَیِّمَۃِ (سورۃ البینہ:۶)۔

اور وہ کوئی حکم نہیں دیئے گئے سوائے اس کے کہ وہ اللہ کی عبادت کریں ، دین کو اُس کے لئے خالص کرتے ہوئے، ہمیشہ اس کی طرف جھکتے ہوئے، اور نماز کو قائم کریں اور زکوٰۃ دیں- اور یہی قائم رہنے والی اور قائم رکھنے والی تعلیمات کا دین ہے۔
تو نمازوں کو قائم کرنے سے یعنی باجماعت اور وقت پر نماز پڑھنے سے،اس کی راہ میں خرچ کرنے سے،غریبوں کا خیال رکھنے سے بھی ہم صحیح دین پر قائم ہو سکتے ہیں- اور ان تعلیمات کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنا سکتے ہیں ، اپنی زندگیوں پر لاگو کر سکتے ہیں جب ہم اللہ کی عبادت کریں گے،اس کی دی ہوئی تعلیم پر عمل کریں گے تو اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے گا، ہمارے ایمانوں کو اس قدر مضبوط کردے گا کہ ہمیں اپنی ذات، اپنی خواہشات، اپنی اولادیں ، دین کے مقابلے میں ہیچ نظر آنے لگیں گی۔ تو جب سب کچھ خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے لئے ہو جائے گا اور ہمارا اپنا کچھ نہ رہے گا تو اللہ تعالیٰ پھر ایسے لوگوں کو ضائع نہیں کرتا۔وہ ان کی عزتوں کی بھی حفاظت کرتاہے، ان کی اولادوں کی بھی حفاظت کرتاہے، ان میں برکت ڈالتاہے، ان کے مال کو بھی بڑھاتاہے اور ان کو اپنی رحمت اور فضل کی چادر میں ہمیشہ لپیٹے رکھتاہے اوران کے ہر قسم کے خوف دور کردیتاہے۔ جیساکہ فرمایاہے :

بَلٰی مَنْ اَسْلَمَ وَجْہَہٗ لِلّٰہِ وَھُوَ مُحْسِنٌ فَلَہٗ اَجْرُہٗ عِنْدَ رَبِّہٖ وَلَاخَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ (البقرہ :۱۱۳)۔

نہیں نہیں ، سچ یہ ہے کہ جو بھی اپنا آپ خدا کے سپرد کردے اور وہ احسان کرنے والا ہو تو اس کا اجر اس کے ربّ کے پاس ہے۔ اور اُن (لوگوں ) پر کوئی خوف نہیں اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
پھر فرمایا

وَمَنْ اَحْسَنُ دِیْنًا مِّمَّنْ اَسْلَمَ وَجْھَہٗ لِلہِ وَھُوَ مُحْسِنٌ وَّاتَّبَعَ مِلَّۃَ اِبْرَاہِیْمَ حَنِیْفًا۔ وَا تَّخَذَ اللہُ اِبْرَاہِیْمَ خَلِیْلًا (النساء :۱۲۶)۔

اور دین میں اس سے بہتر کون ہو سکتا ہے جو اپنی تمام تر توجہ اللہ کی خاطر وقف کردے اور وہ احسان کرنے والا ہو اور اس نے ابراہیمِ حنیف کی ملّت کی پیروی کی ہو اور اللہ نے ابراہیم کو دوست بنا لیا تھا۔
اس آیت میں اسلام کی تعلیمات کا خلاصہ بیان کر دیا گیاہے۔یعنی مکمل فرمانبرداری اور اپنی تمام طاقتوں کے ساتھ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پیروی کرنے، اس کے دین کی خاطر اپنے آپ کو وقف کرنے اور احسان کرنے والاہو۔ تو کیونکہ وہ اللہ کی خاطر احسان کرنے والا ہوگا اس لئے کسی کو یہ خیال نہیں آنا چاہئے کہ اگر ہر وقت وہ دین کی طرف اور دین کی خدمت کی طرف رہا تو اس کا مال یا اولاد ضائع ہوجائے گی۔ نہیں ،بلکہ اللہ تعالیٰ جو سب سے بڑھ کر بدلہ دینے والا ہے، اجردینے والاہے، اس کے اس فعل کا خود اجر دے گا۔ جیساکہ پہلے بھی بیان کیاگیاہے کہ خود اس کے جان،مال،آبروکی حفاظت کرے گا۔ایسے لوگوں کو، ان کی نسلوں کو بھی اللہ تعالیٰ ضائع نہیں کرتا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :

بَلٰی مَنْ اَسْلَمَ وَجْہَہٗ لِلہِ وَھُوَ مُحْسِنٌ فَلَہٗ اَجْرُہٗ عِنْدَ رَبِّہٖ وَلَاخَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ (البقرہ :۱۱۳)۔

یعنی جو شخص اپنے وجودکوخدا کے آگے رکھ دے اور اپنی زندگی اس کی راہوں میں وقف کرے اور نیکی کرنے میں سرگرم ہو۔ سو وہ چشمہ ٔ قربِ الٰہی سے اپنا اجر پائے گا۔ اور اُن لوگوں پر نہ کچھ خوف ہے نہ کچھ غم۔ یعنی جو شخص اپنے تمام قویٰ کو خدا کی راہ میں لگا دے اور خالص خدا کے لئے اس کا قول اور فعل اور حرکت اور سکون اور تمام زندگی ہو جائے اور حقیقی نیکی بجا لانے میں سرگرم رہے۔ سو اس کو خدا اپنے پاس سے اجر دے گا اور خوف اور حُزن سے نجات بخشے گا۔‘‘
(سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب۔ روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحہ ۳۴۴)
ایک حدیث میں آتاہے۔معاویہ بن حَیدہ قُشیری رضی اللہ عنہ اپنے اسلام لانے کا قصہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ مَیں
رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچا۔مَیں نے پوچھا ’’آپ کو ہمارے ربّ نے کیا پیغام دے کر بھیجا ہے اور کیا دین لائے ہیں؟‘‘۔ آپؐ نے فرمایا: ’’خدا نے مجھے دین اسلام دے کر بھیجا ہے‘‘۔مَیں نے پوچھا ’’دین اسلا م کیا ہے‘‘۔ حضورﷺ نے جواب دیا: ’’اسلام یہ ہے کہ تم اپنی پوری ذات کو اللہ کے حوالے کردو اور دوسرے معبودوں سے دست کش ہو جاؤ۔ اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو۔‘‘(الاستیعاب)
پھر ایک روایت یہ ہے۔حضرت سفیان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ مَیں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول!مجھے اسلام کی کوئی ایسی بات بتائیے جس کے بعد کسی اور سے پوچھنے کی ضرورت نہ رہے یعنی میری پوری تسلی ہو جائے۔ حضورﷺنے جواب دیا :تم یہ کہو کہ مَیں اللہ تعالیٰ پرایمان لایا، پھراس پر پکے ہو جاؤ اور استقلال کے ساتھ قائم رہو۔
صحابہ کا کیا فعل تھا۔ایک حدیث میں یہ واقعہ ہے۔ ابتداء میں جب شراب اسلام میں حرام نہیں تھی۔صحابہ بھی شراب پی لیا کرتے تھے اوراکثر نشہ بھی ہوجایا کرتاتھا۔ لیکن اس حالت میں بھی ان پردین اوردین کی عزت کا غلبہ رہتا تھا۔ یہ فکر تھی کہ سب چیزوں پر دین سب سے زیادہ مقدم ہے چنانچہ جب شراب کی حرمت کا بھی حکم آیاہے تو جو لوگ مجلس میں بیٹھے شراب پی رہے تھے بعض ان میں سے نشہ میں بھی تھے۔ جب انہوں نے اس کی حرمت کا حکم سنا تو فوراً تعمیل کی۔ اس بارہ میں حدیث جیسا کہ مَیں نے عرض کیاہے۔حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مَیں ابوطلحہ انصاری، ابوعبیدہ بن جراح اور ابی بن کعب کو کھجور کی شراب پلا رہا تھا۔ کسی آنے والے نے بتایا کہ شراب حرام ہوگئی ہے۔ یہ سُن کر ابوطلحہ نے کہا کہ انس اُٹھو اور شراب کے مٹکوں کو توڑ ڈالو۔ انس کہتے ہیں کہ مَیں اٹھا اور پتھر کی کونڈی کا نچلا حصہ مٹکوں پر دے مارا اور وہ ٹوٹ گئے۔(بخاری کتاب خبرالواحد باب ماجاء فی اجازۃ الواحد الصدوق)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :’’اسلام کا زندہ ہونا ہم سے ایک فدیہ مانگتا ہے۔ وہ کیا ہے؟ ہمارا اسی راہ میں مرنا۔ یہی موت ہے جس پر اسلام کی زندگی، مسلمانوں کی زندگی اور زندہ خدا کی تجلی مو قوف ہے اور یہی وہ چیز ہے جس کا دو سرے لفظوں میں اسلام نام ہے۔ اسی اسلام کا زندہ کرنا خدا تعالیٰ اب چاہتا ہے اور ضرور تھا کہ وہ اس مہم عظیم کے روبراہ کرنے کے لئے ایک عظیم الشان کارخانہ جوہر ایک پہلو سے مؤثر ہو اپنی طرف سے قائم کرتا۔ سو اس حکیم و قدیر نے اس عاجز کو اصلاح خلائق کے لئے بھیج کر ایسا ہی کیا۔
(فتح اسلام ٗ روحانی خزائن جلد ۳صفحہ۱۰تا ۱۳)
پھر آپ فرماتے ہیں : ’’جب تک انسان صدق و صفا کے ساتھ خدا تعالیٰ کا بندہ نہ ہوگا تب تک کوئی درجہ ملنا مشکل ہے۔ جب ابراہیم کی نسبت خدا تعالیٰ نے شہادت دی وَاِبْرَاھِیْمَ الَّذِیْ وَفّٰی (النجم:۳۸ ) کہ ابراہیم وہ شخص ہے جس نے اپنی بات کو پورا کیا۔ تو اس طرح سے اپنے دل کو غیر سے پاک کرنا اور محبت الٰہی سے بھرنا خدا تعالیٰ کی مرضی کے موافق چلنا اور جیسے ظل اصل کا تابع ہوتا ہے ویسے ہی تابع ہونا کہ اس کی اور خدا کی مرضی ایک ہو، کوئی فرق نہ ہو۔ یہ سب باتیں دعا سے حاصل ہوتی ہیں- نماز اصل میں دعا کے لئے ہے کہ ہر ایک مقام پر دعا کرے لیکن جو شخص سویا ہو ا نماز ادا کرتا ہے کہ اسے اس کی خبر ہی نہیں ہوتی تو وہ اصل میں نماز نہیں- … پس چاہئے کہ ادائیگی نماز میں انسان سست نہ ہو اور نہ غافل ہو۔ ہماری جماعت اگر جماعت بننا چاہتی ہے تو اسے چاہئے کہ ایک موت اختیار کرے۔ نفسانی امور اور نفسانی اغراض سے بچے اور اللہ تعالیٰ کو سب شئے پر مقدم رکھے۔(ملفوظات جلد سوم جدیدایڈیشن صفحہ۴۵۷۔۴۵۸ )
پھر آپ فرماتے ہیں :’’ اے خدا کے طالب بندو! کان کھولو اور سنو کہ یقین جیسی کوئی چیز نہیں- یقین ہی ہے جو گناہ سے چھڑاتا ہے۔ یقین ہی ہے جو نیکی کرنے کی قوت دیتا ہے۔ یقین ہی ہے جو خدا کا عاشق صادق بناتا ہے۔ کیا تم گناہ کو بغیر یقین کے چھوڑ سکتے ہو۔ کیا تم جذبات نفس سے بغیر یقینی تجلی کے رک سکتے ہو۔ کیا تم بغیر یقین کے کوئی تسلّی پا سکتے ہو۔ کیا تم بغیر یقین کے کوئی سچی تبدیلی پیدا کر سکتے ہو۔ کیا تم بغیر یقین کے کوئی سچی خوشحالی حاصل کر سکتے ہو۔ کیا آسمان کے نیچے کوئی ایسا کفّارہ اور ایسا فدیہ ہے جو تم سے گناہ ترک کرا سکے۔ …… تم یاد رکھو کہ بغیر یقین کے تم تاریک زندگی سے باہر نہیں آسکتے اور نہ روح القدس تمہیں مل سکتا ہے۔ مبارک وہ جو یقین رکھتے ہیں کیونکہ وہی خدا کو دیکھیں گے۔ مبارک وہ جو شبہات اور شکوک سے نجات پا گئے ہیں- کیونکہ وہی گناہ سے نجات پائیں گے۔ مبارک تم جبکہ تمہیں یقین کی دولت دی جائے کہ اس کے بعد تمہارے گناہ کا خاتمہ ہو گا۔ گناہ اور یقین دونوں جمع نہیں ہو سکتے۔ کیا تم ایسے سوراخ میں ہاتھ ڈال سکتے ہو جس میں تم ایک سخت زہریلے سانپ کو دیکھ رہے ہو۔ کیا تم ایسی جگہ کھڑے رہ سکتے ہو جس جگہ کسی کوہِ آتش فشاں سے پتھر برستے ہیں یا بجلی پڑتی ہے یا ایک خونخوار شیر کے حملہ کرنے کی جگہ ہے یا ایک ایسی جگہ ہے جہاں ایک مہلک طاعون نسل انسانی کو معدوم کر رہی ہے۔ پھر اگر تمہیں خدا پر ایسا ہی یقین ہے جیسا کہ سانپ پر یا بجلی پر یا شیر پر یا طاعون پر تو ممکن نہیں کہ اس کے مقابل پر تم نافرمانی کر کے سزا کی راہ اختیار کر سکو۔ یا صدق و وفا کا اس سے تعلق توڑ سکو۔ (کشتی نوح۔ روحانی خزائن جلد۱۹ صفحہ۶۷۔۶۶)
آپ نے فرمایا : ’’خوف اور محبت اور قدردانی کی جڑ معرفتِ کاملہ ہے۔ پس جس کو معرفتِ کاملہ دی گئی، اُس کو خوف اور محبت بھی کامل دی گئی اور جس کو خوف اور محبت کامل دی گئی، اُس کو ہر ایک گناہ سے جو بیباکی سے پیدا ہوتا ہے، نجات دی گئی۔ پس ہم اِس نجات کے لئے نہ کسی خون کے محتاج ہیں اور نہ کسی صلیب کے حاجتمند اور نہ کسی کفارہ کی ہمیں ضرورت ہے۔ بلکہ ہم صرف ایک قربانی کے محتاج ہیں جو اپنے نفس کی قربانی ہے جس کی ضرورت کو ہماری فطرت محسوس کر رہی ہے۔ ایسی قربانی کا دوسرے لفظوں میں نام اسلام ہے۔ اسلام کے معنے ہیں ذبح ہونے کے لئے گردن آگے رکھ دینا۔ یعنی کامل رضا کے ساتھ اپنی رُوح کو خدا کے آستانہ پر رکھ دینا۔ یہ پیارا نام تمام شریعت کی رُوح اور تمام احکام کی جان ہے۔ ذبح ہونے کے لئے اپنی دلی خوشی اور رضا سے گردن آگے رکھ دینا کامل محبت اور کامل عشق کو چاہتا ہے اور کامل محبت کامل معرفت کو چاہتی ہے۔ پس اسلام کا لفظ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ حقیقی قربانی کے لئے کامل معرفت اور کامل محبت کی ضرورت ہے نہ کسی اَور چیز کی ضرورت۔‘‘(لیکچر لاہور۔ صفحہ ۸تا ۹)
اللہ تعالیٰ ہمیں ان تمام باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں