خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بتاریخ 28؍نومبر2003ء

ہماری ذاتی اور جماعتی ترقی کا ا نحصار دعا پر ہے اس لئے دعاؤں میں سست نہ ہوں
انبیاء علیہم السلام کی زندگی کی جڑ اور ان کی کامیابیوں کا اصل اور سچا ذریعہ یہی دعا ہے
اللہ تعالیٰ مُضطر کی دعا سنتاہے۔ اس زمانے میں ہمیں دعا کا ہتھیار دیا گیاہے
(عبادات اور دعاؤں کی ا ہمیت کے بارہ میں پرمعارف اور ایمان افروز خطبہ جمعہ)
خطبہ جمعہ ارشاد فرمودہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
۲۸؍نومبر ۲۰۰۳ء بمطابق ۲۸؍ نبوت ۱۳۸۲ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح،مورڈن لندن

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أشھد أن لا إلہ إلا اللہ وحدہ لا شریک لہ وأشھد أن محمداً عبدہ و رسولہ-
أما بعد فأعوذ باللہ من الشیطان الرجیم- بسم اللہ الرحمٰن الرحیم-
الحمدللہ رب العٰلمین- الرحمٰن الرحیم- مٰلک یوم الدین- إیاک نعبد و إیاک نستعین-
اھدنا الصراط المستقیم- صراط الذین أنعمت علیھم غیر المغضوب علیھم ولا الضالین-
أَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُ و یَکْشِفُ السُّوٓءَ وَیَجْعَلُکُمْ خُلَفَآءَ الْاَرْضِ۔ءَاِلٰہ ٌ مَّعَ اللہِ۔ قَلِیْلًا مَّا تَذَکَّرُوْنَ-
(سورۃ النمل آیت ۶۳)

اس آیت کا ترجمہ یہ ہے :یا (پھر) وہ کون ہے جو بے قرار کی دعا قبول کرتا ہے جب وہ اسے پکارے اور تکلیف دور کر دیتا ہے اور تمہیں زمین کے وارث بناتا ہے۔ کیا اللہ کے ساتھ کوئی (اور) معبود ہے؟ بہت کم ہے جو تم نصیحت پکڑتے ہو۔
رمضان اپنی بیشمار برکتیں لے کر آیا اور جن کو اس سے حقیقی معنوں میں فائدہ اٹھانے کی توفیق ملی یعنی راتوں کو اٹھ کر نوافل ادا کرنے کی، فجر کی نمازکے بعد اکثر جگہوں پر حدیث کے درس کا انتظام تھا،اس درس کو سننے کی توفیق ملی۔ مسجد میں پانچ وقت کوشش کرکے نماز باجماعت ادا کرنے کے لئے آنے کی توفیق ملی۔ درس قرآن کریم اور پھررات کو تراویح کی نماز ادا کرنے کی توفیق ملی۔ اس کے علاوہ خود بھی ایک دو یا تین قرآن کریم کے دور مکمل کرنے کی توفیق ملی اور پھر روزے رکھنے کی بھی اللہ تعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی۔ تو آپ میں ایسے وہ لو گ جنہوں نے یہ سب اہتمام کیا اس رمضان میں ، انہوں نے یقینامحسوس کیاہوگاکہ رمضان آیا اور انتہائی تیزی سے اپنی برکتیں چھوڑتا ہوا چلا گیا۔عبادتوں کے لطف دوبالاہوئے۔ خطوط سے پتہ چلتاہے، مختلف لوگ خط لکھتے رہتے ہیں کہ بہت سوں کواللہ تعالیٰ نے اپنی معرفت کا، اپنی ہستی کا یقین دلایا۔ اللہ کرے کہ یہ برکتیں اب ہم سمیٹے رکھیں- اللہ تعالیٰ نے محض اورمحض اپنے فضل سے،نہ کہ ہماری کسی خوبی کی وجہ سے اپنی برکتوں سے ہمیں اپنے برتن بھرنے کی توفیق دی ہے اب ہماری کسی لاپرواہی کی وجہ سے، ہماری کسی کمزور ی کی وجہ سے یا ہمارے کسی تکبر کی وجہ سے ہمارے یہ برتن خالی نہ ہوجائیں-
گزشتہ چند خطبوں سے دعاؤں کی طرف، عبادا ت کی طرف مَیں توجہ دلا رہاہوں-اب کسی کو خیال آسکتاہے کہ رمضان تھا اور اس مناسبت سے عبادات اور دعاؤں کے اس مضمون کی طرف توجہ دلانے کی ضرورت تھی۔ اب کوئی اور مضمون شروع کرنا چاہئے۔ لیکن یہ مضمون دعاؤں کا مضمون ایک ایسا مضمون ہے کہ ہم احمدیوں کا اس کے بغیر گزارا ہی نہیں-اس لئے آج پھر مَیں احباب جماعت کو توجہ دلاتاہوں کہ جس طرح رمضان میں اللہ تعالیٰ کے حضور جھک کر ہم سب نے مل کر آہ و زاری کی ہے اسی طرح اب بھی اسی ذوق اور اسی شوق کے ساتھ اس کے حضور جھکے رہیں ،اور ہمیشہ جھکے رہیں- اس کا فضل اور رحم مانگتے ہوئے، ہمیشہ اسی کی طرف جھکیں اور اس زمانہ کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ماننے والوں کا ہتھیار ہی یہ دعا ہے کہ اس کے بغیر ہمارا گزارا ہوہی نہیں سکتا۔آنحضرت ﷺ کو اگر تلوار اٹھانے کی ا جازت ملی تو اس وجہ سے تھی کہ آپ ؐکے خلاف تلوار اٹھائی گئی تھی۔لیکن اس زمانے میں خدا تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ کو صرف دعا ہی کاہتھیار دیاہے۔ اورحضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے سختی سے اس بارہ میں فرمایا ہے کہ اس زمانہ میں تلوار کا،توپ کا یا اورکسی قسم کے ہتھیارکا جہاد قطعاً منع ہے اور یہ کوئی اپنی طرف سے نہیں کہہ رہے بلکہ یہ سب کچھ اس زمانہ میں آنحضرت ﷺکی پیشگوئیوں کے مطابق ہی ہو رہاہے۔
اب اس زمانہ میں اگر فتح ملنی ہے ، اسلام کا غلبہ ہوناہے تودلائل کے ساتھ ساتھ صرف دعا سے ہی یہ سب کچھ ملناہے۔اور یہ وہ ہتھیار ہے جو اس زمانہ میں سوائے جماعت احمدیہ کے نہ کسی مذہب کے پاس ہے، نہ کسی فرقے کے پاس ہے۔پس ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے حضرت اقد س مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ سے وہ ہتھیار دے دیاہے جو کسی اور کے پاس اس وقت نہیں- پس جب یہ ایک ہتھیار ہے اور واحد ہتھیار ہے جو کسی اور کے پاس ہے ہی نہیں تو پھر ہم اپنے غلبہ کے دن دیکھنے کے لئے کس طرح اس کو کم اہمیت دے سکتے ہیں ،کس طرح دعاؤں کی طرف کم توجہ دی جاسکتی ہے۔ہم ان لامذہبوں کی طرح نہیں ہیں ،یہ تو نہیں کہہ سکتے ہم کہ دعاؤں سے بھی کبھی دنیا فتح کی گئی ہے، کبھی ہونٹ ہلانے سے بھی فوائد حاصل ہوئے ہیں-ہم تو یہ کہتے ہیں ، بلکہ ہمارا جواب یہی ہونا چاہئے کہ ہاں جب ہونٹ اللہ کا نام لینے کے لئے ہلائے جائیں ،جب دل کی آواز ہونٹوں کے ذریعہ سے باہر نکلے اور اللہ سے مد د مانگی جا رہی ہو تو نہ صرف عام فوائد دینی و دنیاوی حاصل ہوتے ہیں بلکہ ایسے لوگوں سے ٹکرانے والے، ایسے اللہ والوں کو تنگ کرنے والے، چاہے وہ لوگ ہوں یا حکومتیں ہوں وہ بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتی ہیں ، پاش پا ش ہوجاتی ہیں- ہمارا خدا تو وہ خداہے جو صمد ہے، بہت اونچی شان والاہے، بہت طاقتوں کا مالک خداہے، وہ مضبوط سہاراہے جس کے ساتھ جب کوئی چمٹ جائے تووہ اس کی پناہ بن جاتاہے۔ وہ ایسا سہاراہے جو اپنے ساتھ چمٹانے کے لئے،ہمیں محفوظ کرنے کے لئے ہمیں آوازیں دے رہاہے کہ میرے بندو خالص ہو کر میرے پاس آؤ، میری پناہ گاہ میں پناہ لو، دشمن تمہارا بال بھی بیکا نہیں کرسکتا۔ تو جب ہمارا خدا،ہمارا پیاراخدا،ہمیں اتنی یقین دہانیاں کروارہاہے تو پھر ہم کس طرح اس سے مانگنے، اس کی طرف جھکنے، اس سے دعا کرنے کے مضمون کو چھوڑ سکتے ہیں-جماعت احمدیہ کو تو جماعتی اور دنیا کے حالات کو دیکھتے ہوئے پہلے سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی طرف جھکنے کی ضرورت ہے۔
اس آیت میں جو مَیں نے پڑھی ہے،اللہ تعالیٰ نے تو کہہ دیاہے کہ مَیں مضطرکی دعا کو سنتاہوں ، بے قرار دل کی دعا کو قبول کرتاہوں-ا س لحاظ سے بہت دعاؤں کی ضرورت ہے اور یہ ہمارے لئے ہی ہے کہ مضطر کا مطلب صرف بے قرار ہی نہیں ہے بلکہ ایسا شخص ہے جس کے سب راستے کٹ گئے ہوں-تو اس وقت صرف جماعت احمدیہ ہی ہے جس کے کوئی دنیاوی واسطے اور راستے نہیں ہیں-اس معاشرہ میں رہتے ہیں اس لئے جب تنگیاں آتی ہیں تو جو بھی متعلقہ حکام ہوتے ہیں اور مختلف ذرائع ہیں ان کو آگاہ ہم ضرور کرتے ہیں لیکن کبھی ان کو خدا نہیں بناتے۔کیونکہ ہمیں تو ہمارے خدا نے، ہمارے زندہ خدا نے یہ بتا دیاہے کہ جب بھی تمہیں میری ضرورت ہو بلکہ ہر وقت،جب تم امن کی حالت میں ہو، بظاہر امن کی حالت میں بھی ہو، اس یقین کے ساتھ مجھے پکارو کہ مَیں بے سہاروں کا سہارا ہوں ، ان کی دعائیں سنتاہو ں تو تم مجھے ہمیشہ اپنی مدد کے لئے اپنے سامنے پاؤ گے۔لیکن یہ ذہن میں ہونا چاہئے کہ اس اضطرار کے ساتھ دعائیں ہو رہی ہیں کہ زبان حال بھی کہہ رہی ہو کہ ’حیلے سب جاتے رہے حضرت توّاب ہے‘۔ پھر دیکھو اللہ تعالیٰ تمہاری تکلیفیں کس طرح دور کرتاہے۔ظالم افسروں سے بھی تمہاری نجات ہوگی، ظالم مولویوں سے بھی تمہاری نجات ہوگی، ظالم حکومت سے بھی تمہاری نجات ہوگی۔لیکن صرف رونا یا گڑگڑانا ہی کافی نہیں بلکہ جیساکہ فرمایا ایک اضطراب اور اضطرار ہونا چاہئے، یہ یقین ہونا چاہئے کہ سب طاقتوں کا سرچشمہ صرف خدا کی ذا ت ہے۔ اورزمینی حملے ہمارا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے اگر ہمارا خدا ہمارے ساتھ ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :۔
’’خداتعالیٰ نے قرآن شریف میں ایک جگہ پر اپنی شناخت کی یہ علامت ٹھہرائی ہے کہ تمہارا خدا وہ خدا ہے جو بیقرار وں کی دعا سنتاہے جیساکہ وہ فرماتاہے

أَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُ

پھر جب کہ خداتعالیٰ نے دعا کی قبولیت کو اپنی ہستی کی علامت ٹھہرائی ہے تو پھر کس طرح کوئی عقل اورحیاوالا گمان کرسکتاہے کہ دعا کرنے پر کوئی آثار صریحہ اجابت کے مترتب نہیں ہوتے اورمحض ایک رسمی امر ہے جس میں کچھ بھی روحانیت نہیں-میرے خیال میں ہے کہ ایسی بے ادبی کوئی سچے ایمان والا ہرگزنہیں کر ے گا جبکہ اللہ جل شانہ فرماتاہے کہ جس طرح زمین وآسمان کی صفت پر غورکرنے سے سچا خدا پہچانا جاتاہے اسی طرح دعا کی قبولیت کو دیکھنے سے خداتعالیٰ پر یقین آتاہے‘‘۔
(ایام الصلح صفحہ۳۰)
پھر آپ ؑ نے فرمایا :
’’ کلام الٰہی میں لفظ مُضطر سے وہ ضرر یافتہ مراد ہیں جو محض ابتلا کے طور پر ضرر یافتہ ہوں ، نہ سزا کے طور پر۔ لیکن جو لوگ سزا کے طور پر کسی ضرر کے تختہ مشق ہوں ، وہ اس آیت کے مصداق نہیں ہیں- ورنہ لازم آتا ہے کہ قوم نوح اور قوم لوط اور قوم فرعون وغیرہ کی دعائیں اس اضطرار کے وقت میں قبول کی جاتیں مگر ایسا نہیں ہوا اور خدا کے ہاتھ نے اُن قوموں کو ہلاک کردیا‘‘۔ (دافع البلاء صفحہ ۱۱)
تو اس وقت جماعت احمدیہ میں ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلا م کی اس تعریف کے لحاظ سے مضطر ہیں- بعض ملکوں میں جتنا نقصان جماعت کو یاجماعت کے افراد کو پہنچایا جاتاہے، یعنی کھل کر اپنے مذہب کا اظہار نہیں کرسکتے۔ ہم کہتے ہیں کہ ہم ایک خدا کو ماننے والے ہیں ، ہم حضرت خاتم الانبیاء ﷺ کے دین پر قائم ہیں- مخالفین کہتے ہیں کہ نہیں تم جھوٹ بول رہے ہو۔ آنحضرت ﷺکو تو کسی کے دل کے حال کا پتہ نہ چل سکا، معلوم نہ ہوسکا ان مولویوں کو، ان حکومتوں کو دلوں کے حال پتہ لگنے لگ گئے۔ تو ختم نبوت کا منکرکون ہوگیا؟ پھر تو ختم نبوت کے منکر یہ لو گ ہیں جو اپنے منہ سے نہیں کہہ رہے بلکہ اپنے عمل سے کہہ رہے ہیں کہ آنحضرت ﷺکو تو دلوں کا حال نہیں پتہ لگا لیکن نعوذباللہ ہم آپؐ سے اوپر ہیں ،ہمیں سب کے دلوں کا حال پتہ لگ گیاہے۔ اوریہ اپنے ساتھیوں کے عبرتناک انجام دیکھتے بھی ہیں لیکن پھر بھی بے حیائی اورڈھٹائی کی انتہاء ہے، کوئی اثر نہیں ہوتا۔
تو جیساکہ مَیں نے شروع میں دعا کے بارہ میں کہاتھا ،دعا ہی ہے جو ہمارا اوڑھناہو، ہمارا بچھوناہو۔دعا ہی ہے جس پر ہمیں مکمل طورپر یقین ہونا چاہئے، اس کے بغیرہماری زندگی کچھ نہیں-ربوہ سے بھی اور پاکستان سے مختلف جگہوں سے بھی بڑے جذباتی خط آتے ہیں کہ پتہ نہیں ہم خلافت سے براہ راست، ان معنوں میں براہ راست کہ بغیر کسی واسطہ کے کیونکہ ایم ٹی کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے براہ راست دیکھنے اور سننے کے سامان تو ہو گئے ہیں لیکن یہ سب کچھ یکطرفہ ہے کہ کب ہماری آزادی کے حالات پیدا ہوتے ہیں جب دونوں طرف سے ملنے کے سامان ہوں ،کب ہم آزادی سے اللہ اوراس کے رسول ﷺسے محبت کا اظہار بازار میں کھڑے ہوکرکرسکتے ہیں-تاکہ لوگوں کو پتہ لگے کہ اصل محبت کرنے والے تو ہم لوگ ہیں-کب قانون میں انصاف کے تقاضے پورے کرنے کی صلاحیت پیدا ہوگی۔تو ان کو میرا جواب تو یہی ہوتاہے کہ جیساکہ گزشتہ سو سال سے زائد عرصہ سے ہمیشہ اللہ تعالیٰ ہی ہمیں سنبھالتا رہاہے،ہماری مشکلیں آسان کرتا رہاہے،آ ج بھی وہی خدا ہے جو ا ن دکھوں کو دور کر ے گا انشاء اللہ۔بظاہر ناممکن نظر آنے والی چیز،ناممکن نظر آنے والی بات محض اور محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے ممکن بن جایاکرتی ہے اور انشاء اللہ بن جائے گی۔ بڑے بڑے فرعون آئے اور گزر گئے لیکن الٰہی جماعتیں ترقی کرتی ہی چلی گئیں- لیکن شرط یہ ہے کہ مضطر بن کر اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکیں- اس لئے رمضان میں جس طرح دعاؤں کی توفیق ملی اس معیارکو قائم رکھیں گے تو کوئی چیز سامنے نہیں ٹھہر سکے گی۔بہت سے باہر سے ربوہ جانے والوں نے بتایااور لکھاکہ رمضان میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے عبادت کرنے والوں سے بھری پڑی تھیں اور یہی حال دنیا میں ہر جگہ تھا، یہاں بھی آپ نے دیکھا۔ تو مسجدوں کی آبادی کا یہ انتظام اگر جاری رہے گا، اس میں سستی نہیں آئے گی۔اب اس میں صرف ربوہ ہی نہیں بلکہ جہاں جہاں احمدی آبادیاں ہیں ،اپنی مساجد کو آباد رکھنے کی کوشش کریں گی اور ہماری مسجدیں تنگ پڑنی شروع ہوجائیں گی۔ اتنی حاضری ہوگی کہ ہربچہ،ہر بوڑھا،ہر جوان نمازوں کے دوران مسجد کی طرف جائے گا۔تو یہ کیفیت جب ہوگی تو پھر اللہ تعالیٰ بھی ہماری دعاؤں کو بہت سنے گا۔ اسی طرح گھروں میں بھی خواتین نمازوں اور عبادات کا خاص اہتمام کریں اور پھر دیکھیں کہ انشاء اللہ تعالیٰ اللہ تعالیٰ کس طر ح مدد کو آتاہے۔ اسی طرح جب ہم سب مل کر دعائیں کریں گے،اللہ کے حضور جھکیں گے،عبادات بجا لانے کی کوشش کریں گے تو اس کی مثال اس تیزبہاؤ والے پانی کی طرح ہی ہے جب پہاڑی راستوں سے گزرتاہوا جہاں دریاکا پاٹ تنگ ہوتاہے، یہ پانی گزر رہا ہوتاہے تو اپنے راستے میں آنے والے پتھروں کو بھی کاٹ رہا ہوتاہے اور انہیں بعض اوقات بہا بھی لے جاتاہے۔اور بڑے بڑے شہتیروں کے بھی ٹکڑے کررہاہوتاہے۔اس کی اتنی تیز رفتار ہوتی ہے کہ اس کے سامنے کوئی ٹھہر نہیں سکتا۔تو جب مل کر سب دعا کریں گے۔ اکٹھاکر کے جب دعائیں ہو رہی ہوں گی ساروں کی،ایک طرف بہاؤ ہو رہاہوگا تو اس دریاکے پانی کی طرح اس کے سامنے جو بھی چیز آئے گی خس و خاشاک کی طرح اڑ جائے گی۔لیکن شرط یہ ہے کہ مستقل مزاجی اور باقاعدگی سے اس طر ف توجہ رہے۔ رمضان گزر جانے کے بعد ہم ڈھیلے نہ پڑ جائیں ،ہماری مسجدیں ویران نہ نظر آنے لگیں-
حضرت اقد س مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :
’’یاد رکھوکہ خداتعالیٰ بڑا بے نیاز ہے۔جب تک کثرت سے اور باربار اضطراب سے دعا نہیں کی جاتی وہ پرواہ نہیں کرتا۔ دیکھو کسی کی بیوی یا بچہ بیمار ہو یا کسی پرسخت مقدمہ آجاوے تو ان باتوں کے واسطے اس کو کیسا اضطراب ہوتاہے۔ پس دعامیں بھی جب تک سچی تڑپ اور حالت اضطراب پیدا نہ ہوتب تک وہ بالکل بے اثر اور بیہودہ کام ہے۔ قبولیت کے واسطے اضطراب شرط ہے جیساکہ فرمایا

أَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُ و یَکْشِفُ السُّوٓء-
(الحکم جلد ۱۲ نمبر ۱۶ مورخہ ۲؍مارچ ۱۹۰۸ء صفحہ ۵)

پھر فرمایا :
’’دوسری شرط قبولیت دعا کے واسطے یہ ہے کہ جس کے واسطے انسان دعا کرتاہو اس کے لئے دل میں درد ہو

أَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُ-(الحکم جلد ۵ نمبر ۳۲ مورخہ ۳۱؍اگست ۱۹۰۱ء صفحہ ۱۳)

تو جماعت کے لئے بھی آپ یہ درد پیدا کریں گے تو دعائیں بھی انشاء اللہ قبول ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے ذاتی معاملات کے لئے بھی اور جماعتی ترقی کے لئے اسی اضطراب اوردر د سے دعائیں کرنے کی توفیق دے جس طرح ہم اپنے لئے کرتے ہیں اور رمضان میں کرتے رہے ہیں- پس مَیں باربار آپ کو اس بات کی طرف توجہ دلارہاہوں اور دلاتا رہوں گاکہ جس توجہ سے آپ نے رمضان میں اپنی مسجدوں کی رونق بڑھائی،اپنے گھروں کو عبادات سے سجایا، اس کو اب اسی طرح جاری رکھنے کا بھی عہد کریں- ہم نے حضرت اقد س مسیح موعودعلیہ السلام کو نہ ماننے والوں کی طرح قضائے عمریاں اد ا نہیں کرنی کہ رمضان گیا تو چھٹی ہوئی، اب اگلاماہِ رمضان آئے گا تو دیکھیں گے،اب جائے نماز لپیٹ کر الماریوں میں بند کردو، اب قرآن کریم کو غلافوں میں چڑھا کر اپنے پرچھتیوں میں یا شیلفوں میں رکھ دو۔ نہیں، بلکہ ہم نے اللہ تعالیٰ کی خشیت ہر وقت اپنے ذہن میں رکھتے ہوئے اس حدیث پر عمل کرناہے۔
حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺنے فرمایا:ذکر الٰہی کرنے والے اور ذکر الٰہی نہ کرنے والے کی مثال زندہ اور مردہ کی طرح ہے۔ یعنی جو ذکر الٰہی کرتاہے وہ زندہ ہے اور جو نہیں کرتا وہ مردہ ہے۔
پھر مسلم کی روایت ہے کہ آنحضرت ﷺنے فرمایا :وہ گھر جن میں خداتعالیٰ کا ذکر ہوتاہے اور وہ گھر جن میں خداتعالیٰ کا ذکر نہیں ہوتا، ان کی مثال زندہ اور مردہ کی طرح ہے۔ (بخاری کتاب الدعوات باب فضل ذکر اللہ تعالیٰ۔مسلم کتاب الصلوٰۃ باب استحباب صلوۃالنافلۃفی بیتہ وجوازھا فی المسجد)
پھر ایک حدیث ہے۔رسول اللہ ﷺنے فرمایاکہ :’’مَیں تمہیں حکم دیتاہوں کہ اللہ کو زیادہ یاد کرو اور ذکر کی مثال ایسی سمجھو کہ جیسے کسی آدمی کا اس کے دشمن نہایت تیزی کے ساتھ پیچھا کرتے رہے ہوں یہاں تک کہ اس آدمی نے بھاگ کر ایک مضبوط قلعہ میں پناہ لی اور دشمنوں کے ہاتھ میں لگنے سے بچ گیا۔ اسی طرح بندہ شیطان سے نجات نہیں پا سکتا مگر اللہ کی یاد کے سہارے‘‘۔(جامع ترمذی)
تو دیکھیں یہ حدیث جہاں ہمیں یہ خوشخبری سنا رہی ہے کہ ذکر کرنے سے تم اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آ جاؤگے اورمضبوط قلعہ میں اپنے آپ کو محفوظ کر لوگے۔جس طرح بہت سے لوگوں نے رمضان میں محسوس بھی کیا،اس کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ دعاؤں کے بعد ہمیں لگا کہ ہم ایک محفوظ حصار میں آ گئے ہیں-تو وہاں یہ بھی یاد رکھیں کہ جب آ پ نے اللہ تعالیٰ کی عبادات میں سستی دکھائی،اللہ کے ذکر سے لاپرواہی برتی، تو دشمن پھر حملہ کرے گا،شیطان پھر حملہ کرے گا۔اس لئے اس قلعہ میں آپ کے لئے مسلسل دعاؤں اور عبادات کی ضرورت ہے۔اب مسلسل دعائیں کرتے رہیں گے، عبادات کرتے رہیں گے توپھراس مضبوط قلعہ میں رہ سکتے ہیں-اللہ سے مدد مانگنے کی ضرورت ہے، اس میں کمزور ی نہیں آنی چاہئے۔اللہ سے مدد مانگتے ہوئے، اس کا فضل مانگتے ہوئے،اب اس میں باقاعدگی قائم رہنی چاہئے جو رمضان میں ہم سب تجربہ کر چکے ہیں ،اور اس سے لطف اٹھا چکے ہیں-
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ آنحضرت ﷺنے کہا:’’اللہ تعالیٰ فرماتاہے جو شخص کوئی نیکی کرتاہے اس کو دس گنا بلکہ اس سے بھی زیادہ ثواب مَیں دوں گا۔ اگر وہ برائی کرتاہے تواس کو اس برائی کے برابر سزا دوں گا یااسے بخش دوں گا۔ اور جو شخص ایک بالشت میرے قریب ہوتاہے مَیں ایک گز اس کے قریب ہوتاہوں اور جو ایک گز میرے قریب ہوتاہے مَیں دو گزاس کے قریب ہوتاہوں- اور جو میرے پاس چلتے ہوئے آتاہے تو مَیں اس کے پاس دوڑے ہوئے جاتاہوں- اگر کوئی شخص دنیا بھرکے گناہ لے کر میرے پاس آئے بشرطیکہ اس نے میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا ہو تو مَیں اس کے ساتھ اتنی ہی بڑی مغفرت اور بخشش سے پیش آؤں گا اور اسے معاف کردوں گا‘‘۔
(مسلم کتاب الذکر باب فضل الذکر والدعاء)
تو یہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں تحریص دلائی ہے کہ اس طرح مَیں معاف کیا کرتاہوں- اب یہ نہیں کہ باربار معافی مانگو اور باربار غلط کام کرتے چلے جاؤ اورمیری نافرمانی کرتے چلے جاؤ۔ تو ہم میں سے جنہوں نے بھی اس رمضان سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اللہ کی مغفرت اور بخشش سے فائدہ اٹھایاہے اوراللہ تعالیٰ نے جن فضلوں کے دروازوں کو ہم پر کھولاہے، ہمارا کام ہے کہ اب اللہ کے فضلوں کو مانگتے ہوئے اسی التزام کے ساتھ اسی باقاعدگی کے ساتھ اس کے سامنے جھکتے ہوئے ان مغفرت اور بخشش کے دروازوں کو بند نہ ہونے دیں- ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے دروازے ہم پر کھلے رہیں اورہماری کمزوری کی وجہ سے ہمارے قریب پہنچی ہوئی منزلیں کہیں ہم سے پھر دو ر نہ ہوجائیں ، کہیں ہم راستے میں ہی تھک کر بیٹھ نہ جائیں- اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دیتا رہے کہ جس طرح عبادات بجا لانے کاحق ہے اسی طرح عبادات بجا لاتے رہیں-
حضرت عمرو بن عبسہؓ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺکویہ فرماتے ہوئے سنا کہ (ہمارا) ربّ رات کے درمیانی حصے میں بندے کے سب سے زیادہ قریب ہوتاہے۔پس اگر تم سے ہو سکے تو اس گھڑی توُ اللہ کا ذکر کرنے والوں میں سے بن جائے تو ضروربن‘‘۔
(سنن الترمذی۔ کتاب الدعوات)
تو رمضان کے دنوں میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ عاد ت ہمیں پڑ گئی کہ رات کو اٹھے اور تہجدکی نمازاداکی، نوافل پڑھے۔اگرہم اس عادت کو باقاعدہ کرلیں اور جاری رکھیں تو اس حدیث کے مطابق اللہ تعالیٰ کے ہم بہت قریب ہوں گے۔اور اللہ تعالیٰ کے قریب ہونے کا مطلب یہی ہے کہ آپ نے سب کچھ پا لیا۔ تو دعاؤں کے ساتھ پھر ایک بات یہ ہے کہ دعاؤں کے ساتھ، عبادات کے ساتھ جمعہ کے دن کابھی ایک خاص تعلق ہے۔ اس دن میں اللہ تعالیٰ نے ایک ایسا وقت رکھاہواہے جس میں بندے کی دعا سنی جاتی ہے اور پھر اس دور کا حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے دور کا،اسلام کی نشأۃ ثانیہ کا جمعہ کے ساتھ ایک خاص تعلق ہے۔تو جمعہ کو بھی ہمیں خاص اہتمام سے منانا چاہئے۔ بعض ایسی دعائیں ہیں ، جماعتی دعائیں ان کے لحاظ سے بھی خاص طورپر اس طرف توجہ کرنی چاہئے۔ نوافل کے لئے بھی، گھر کے ہرفرد کو ا ٹھنا چاہئے۔جمعہ پڑھنے کے لئے تمام مردوں کو ضرور جانا چاہئے، کوشش کرکے بھی اور مساجد میں جمعوں کی حاضریاں بھی ایسی ہی ہونی چاہئیں جیسے رمضان میں ہوتی تھیں-
جیساکہ حدیث میں آتاہے حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺنے فرمایاکہ :’’جمعہ کے دن ایک ایسی گھڑی بھی آتی ہے جس میں مسلمان اللہ تعالیٰ سے جو بھی بھلائی مانگتاہے اللہ تعالیٰ اس کو عطا کرتاہے اور وہ گھڑی بڑی مختصر ہوتی ہے‘‘۔(مسلم کتاب الجمعہ)
تو دعا کی طر ف ہر وقت توجہ دیتے رہنا چاہئے۔کیا پتہ کس وقت وہ گھڑی آجائے جوقبولیت دعا کی گھڑی ہو،قبولیت دعا کاوقت ہو۔تو ان تڑپنے والے دلوں کو جو پاکستا ن میں مختلف جگہوں سے، حالات کی وجہ سے جذبات کا اظہار کرتے ہیں ، مَیں یہ کہتاہوں کہ جمعوں کی رونق بڑھائیں-اللہ تعالیٰ کے حضور جذبات کا اظہار کریں-اور جب پورے یقین کے ساتھ اس سے مانگیں گے اور اس سے مانگ رہے ہوں گے تووہ بھی اپنے وعدوں کے مطابق سنے گا بھی اور آپ کی ضروریات بھی پوری کرے گا اور آپ کی دعاؤں کو قبول کرے گااورآسانیاں پیدا فرمائے گا۔ انشاء اللہ۔
حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے اس کافضل مانگاکروکیونکہ اللہ تعالیٰ اس بات کو پسند کرتاہے کہ اس سے مانگا جائے اور بہترین عبادت کشائش کا انتظارکرنا ہے۔(ترمذی کتاب الدعوات)
تواللہ تعالیٰ یہ پسند کرتاہے کہ اس سے مانگا جائے لیکن مانگنے والے مانگنے سے تھکیں نہیں-بے صبری کا مظاہرہ نہ کریں-کیونکہ جیساکہ مَیں نے پہلے ذکر کیاہے کہ اگر پھنس گئے تو پھر نئے سرے سے سفر شروع کرنا پڑے گا۔ تو اللہ تعالیٰ مختلف رنگ میں دعائیں قبول کرنے کے نظارے ہمیں دکھاتابھی رہتاہے۔ تو یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کو ڈھارس بندھانے کے لئے، تسلی دینے کے لئے دکھاتاہے تاکہ بندہ یہ تسلی رکھے کہ اگر خداتعالیٰ دعا کے طفیل وہ کام کرسکتاہے جن کو ہم دیکھ چکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری دعاؤں کو قبول کرتے ہوئے، ان کو ہمیں حاصل کرنے کی یا ان کاموں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائی تو اس اللہ تعالیٰ میں یہ طاقت بھی ہے کہ یہ جو بظاہر مشکل اور بڑے کام نظر آتے ہیں ان کو بھی کردے۔ اس لئے صبر اورحوصلے سے دعائیں مانگتے رہنا چاہئے اور کبھی تھکنا نہیں چاہئے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا :’’دعا عبادت کا مغز ہے ‘‘۔
حضرت ابن عمر ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:’’دعا ایسی مصیبت سے بچانے کے لئے بھی فائدہ دیتی ہے جو نازل ہو چکی ہو اور ایسی مصیبت کے بارہ میں بھی جو ابھی نازل نہ ہوئی ہو۔ پس اے اللہ کے بندو! دعاکو اپنے اوپر لازم کر لو‘‘۔ (ترمذی کتاب الدعوات)
پس اس حدیث کے مطابق بھی ہمیں دعاؤں کی طرف بہت توجہ دینی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ذاتی طورپر بھی، جماعتی طورپر بھی،ہر پریشانی اور مصیبت اور بلا سے بچائے۔اللہ تعالیٰ ان تمام مشکلات کو جن میں سے ہم اس وقت گزر رہے ہیں جلد دور فرمائے،ہمیں مزید ابتلاؤں اورامتحانوں میں نہ ڈالے،ہمیں ہر شر سے محفوظ و مامون رکھے۔ اللہ تعالیٰ جلد ترہمیں اپنے مخالفین پر غلبہ عطا فرمائے۔لیکن بات وہی ہے کہ ایک اضطراری کیفیت ہمیں اپنے اوپرطاری کرنی ہوگی اور یہ حالت بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی حاصل ہوتی ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :
’’اگرمیرے بندے میر ی نسبت سوال کریں کہ وہ کہاں ہے تو ان کو کہہ کہ وہ تم سے بہت قریب ہے۔مَیں دعا کرنے والے کی دعا سنتاہوں- پس چاہئے کہ دعاؤں سے میرا وصل ڈھونڈیں اور مجھ پر ایمان لاویں تاکہ کامیاب ہوں-
(رپورٹ جلسہ اعظم مذاہب صفحہ ۱۳۹۔ بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد اول صفحہ ۶۴۸)
پس ہم بہت ہی بدقسمت ہوں گے اگر ہم اللہ تعالیٰ کی اس بات پر یقین نہ کریں- یقین نہ کرنے والی بات ہی ہے کہ اگر ہم اس کے کہنے کے باوجود اس کاقرب نہ ڈھونڈیں ،اس کو تلاش نہ کریں- اور رمضان میں جو فضل ہم پر اللہ تعالیٰ نے کئے ہیں ان کو بھلادیں اور ایمان میں کمزوری دکھائیں- اللہ نہ کرے کہ ہم میں سے کوئی بھی ایسی حرکت کرنے والاہو۔بلکہ ہمارے ایمانوں میں دن بدن ترقی ہو،زیادتی کے نظارے نظر آتے ہوں ،ہر نیادن ہمیں اللہ تعالیٰ کے اور قریب لانے والا دن ثابت ہو۔ اس شکرگزاری کے طورپر کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں رمضان کی برکتوں سے فیضیا ب کیا، ہم مزید اس کے حضور جھکتے چلے جائیں اور اپنی تمام حاجتیں اپنے پیارے خداکے سامنے پیش کرنے والے ہوں-
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :
’’ دعا جو خدا تعالیٰ کے پاک کلام نے مسلمانوں پر فرض کی ہے اس کی فرضیت کے چار سبب ہیں- ایک یہ کہ تا ہر ایک وقت اور ہر ایک حالت میں خدا تعالیٰ کی طرف رجوع ہوکر توحید پر پختگی حاصل ہو کیونکہ خدا سے مانگنا اس بات کا اقرار کرنا ہے کہ مرادوں کا دینے والا صرف خدا ہے۔دوسرے یہ کہ تا دعا کے قبول ہونے اور مراد کے ملنے پر ایمان قوی ہو۔ تیسرے یہ کہ اگر کسی اور رنگ میں عنایت الٰہی شامل حال ہو تو علم اور حکمت زیادت پکڑے۔ چوتھے یہ کہ اگر دعا کی قبولیت کا الہام اور رؤیا کے ساتھ وعدہ دیا جائے اور اُسی طرح ظہور میں آوے تو معرفت الٰہی ترقی کرے اور معرفت سے یقین اور یقین سے محبت اور محبت سے ہر ایک گناہ اور غیر اللہ سے انقطاع حاصل ہو جو حقیقی نجات کا ثمرہ ہے‘‘۔
(ایام الصلح صفحہ۱۴۔ تفسیر حصرت مسیح موعودؑ جلد اول صفحہ۶۷۲)
پھر آپ ؑنے فرمایا:
’’دنیا میں کوئی نبی نہیں آیا جس نے دعا کی تعلیم نہیں دی۔ یہ دعا ایک ایسی شے ہے جو عبودیت اور ربوبیت میں ایک رشتہ پیدا کرتی ہے‘‘۔ (یعنی بندے اور خدا میں رشتہ پیدا کرتی ہے) ’’اس راہ میں قدم رکھنا بھی مشکل ہے۔ لیکن جو قدم رکھتاہے پھر دعا ایک ایسا ذریعہ ہے کہ ان مشکلات کو آسان اورسہل کردیتاہے… جب انسان خداتعالیٰ سے متواتر دعائیں مانگتاہے تووہ اور ہی انسان ہو جاتاہے۔ اس کی روحانی کدورتیں دور ہوکر اس کو ایک قسم کی راحت اور سرورملتاہے اورہر قسم کے تعصب اور ریاکاری سے الگ ہوکر وہ تمام مشکلات کو جو اس کی راہ میں پیداہوں برادشت کر لیتاہے۔خداکے لئے ان سختیوں کو جو دوسرے برداشت نہیں کرتے اورنہیں کر سکتے صرف اس لئے کہ خداتعالیٰ راضی ہوجاوے برداشت کرتاہے۔ تب خداتعالیٰ جو رحمن اور رحیم خداہے اور سراسررحمت ہے اس پر نظر کرتاہے اوراس کی ساری کلفتوں اورکدورتوں کو سرور سے بدل دیتاہے‘‘۔
(الحکم جلد ۵ نمبر ۱۷۔ مورخہ ۱۰؍مئی ۱۹۰۱ء۔صفحہ ۳۔۴۔تفسیر حضرت مسیح موعود ؑجلد اول صفحہ ۴۵۲)
پھر آپ ؑنے فرمایا :
’’دعا خداتعالیٰ کی ہستی کا زبردست ثبوت ہے۔چنانچہ خداتعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے

وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ۔ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَاِن-

یعنی جب میرے بندے تجھ سے سوال کریں کہ خدا کہاں ہے اور اس کاکیاثبوت ہے تو کہہ دو کہ وہ بہت ہی قریب ہے اور اس کا ثبوت ہے کہ جب کوئی دعا کرنے والا مجھے پکارتاہے تو مَیں اس کا جواب دیتاہوں- یہ جواب کبھی رؤیائے صالحہ کے ذریعہ ملتاہے اورکبھی کشف و الہام کے واسطے سے اور علاوہ بریں دعاؤں کے ذریعہ خداتعالیٰ کی قدرتوں اور طاقتوں کا اظہار ہوتاہے اور معلوم ہوتاہے کہ وہ ایسا قادر ہے جب کہ مشکلات کو حل کردیتاہے۔غرض دعا بڑی دولت اور طاقت ہے اور قرآن شریف میں جا بجا اس کی ترغیب دی ہے اور ایسے لوگوں کے حالات بھی بتائے ہیں جنہوں نے دعا کے ذریعہ اپنے مشکلات سے نجات پائی۔ انبیاء علیہم السلام کی زندگی کی جڑ اور ان کی کامیابیوں کا اصل اور سچا ذریعہ یہی دعا ہے۔پس مَیں نصیحت کرتاہوں کہ اپنی ایمانی اور عملی طاقت کو بڑھانے کے واسطے دعاؤں میں لگے رہو۔ دعاؤں کے ذریعہ سے ایسی تبدیلی ہوگی جو خداکے فضل سے خاتمہ بالخیر ہو جاوے گا‘‘۔
(الحکم جلد ۹ نمبر ۲۔ مورخہ ۱۷؍جنوری ۱۹۰۵ء۔صفحہ ۳۔ تفسیر حضرت مسیح موعود ؑ جلد اول صفحہ ۶۵۱)
پس جیساکہ مَیں نے پہلے بھی کہا تھاکہ ذاتی بھی اور جماعتی ترقی کا انحصار بھی دعاؤں پر ہے۔اس لئے اس میں کبھی سست نہ ہوں- اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس ارشاد کے مطابق دعائیں کرتے رہیں- اپنے ایمانوں کو بھی بڑھائیں ، اپنے عمل بھی اس طرح بنائیں جن سے خدا راضی ہو۔ کہیں بھی ہماری ذاتی انا ہمیں تقویٰ سے دورلے جانے والی نہ ہو۔اور سچا تقویٰ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے عاجزی دکھانے سے ہی پیدا ہوتاہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :
’’جب میرابندہ میری بابت سوال کرے پس مَیں بہت ہی قریب ہوں-مَیں پکارنے والے کی دعا کو قبول کرتاہوں جب وہ پکارتاہے۔ بعض لوگ اس کی ذات پر شک کرتے ہیں-پس میر ی ہستی کا نشان یہ ہے کہ تم مجھے پکارو اورمجھ سے مانگو مَیں تمہیں پکاروں گا اورجواب دوں گا اور تمہیں یاد کروں گا۔ اگریہ کہو کہ ہم پکارتے ہیں پر وہ جواب نہیں دیتا تو دیکھو کہ تم ایک جگہ کھڑے ہوکر ایک ایسے شخص کو جو تم سے بہت دور ہے پکارتے ہو اور تمہارے اپنے کانوں میں کچھ نقص ہے۔ وہ شخص تو تمہاری آواز کو سن کر تم کو جواب دے گا۔ مگر جب وہ دُور سے جواب دے گا تو تم بباعث بہرہ پن کے سن نہ سکوگے۔ پس جوں جوں تمہارے درمیانی پردے اور حجاب اور دُوری دُورہوتی جائے گی اور تم ضرور اس آوازکو سنو گے۔جب سے دنیا کی پیدائش ہوئی ہے اس با ت کا ثبوت چلا آتاہے کہ وہ اپنے خاص بندوں سے ہمکلام ہوتاہے۔اگر ایسانہ ہوتاتو رفتہ رفتہ بالکل یہ بات نابود ہو جاتی کہ اس کی کوئی ہستی ہے۔ پس خدا کی ہستی کے ثبوت کا سب سے زبردست طریقہ یہی ہے کہ ہم اس کی آواز کو سن لیں یا دیدار یا گفتار۔ پس آج کل گفتار قائم مقام ہے دیدارکا۔ یا بات کریں یا دیکھ لیں- ہاں جب تک خدا کے اور اس سائل کے درمیان کوئی حجاب ہے اس وقت تک ہم سن نہیں سکتے۔ جب درمیانی پردہ اٹھ جائے گا تو اس کی آواز سنائی دے گی‘‘۔
تو یہ خطوط ملتے رہتے ہیں مختلف۔ان سے ایسا تأثر ملتاہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے رمضان میں بہت سوں کو جیساکہ مَیں نے پہلے بھی کہا، اللہ تعالیٰ کی ہستی پر یقین پیدا ہواہے۔بہت سوں کے پردے سرکنے شروع ہوئے ہیں ،لیکن ابھی حقیقی معرفت حاصل کرنے کے لئے مزید محنت کی ضرورت ہے۔ ان حجابوں کو مکمل طورپر اٹھانے کے لئے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا،عبادات کی طرف اسی باقاعدگی سے توجہ کی ضرورت ہے جیسے رمضان کے مہینے میں توجہ رہی ہے ہم سب کی۔تو جتنی زیادہ تعداد میں ایسی دعائیں کرنے والے ہماری جماعت میں پیدا ہوں گے اتنا ہی جماعت کا روحانی معیار بلند ہوگااور ہوتاچلاجائے گا۔ خلیفہ ٔوقت کو بھی آپ کی دعاؤں سے مدد ملتی چلی جائے گا اور جب یہ دونوں مل کر ایک تیز دھارے کی شکل اختیار کریں گے توپھر انشاء اللہ تعالیٰ فتوحات کے دروازے بھی کھلتے چلے جائیں گے۔پس ہمارے ہتھیار یہ دعائیں ہیں جن سے ہم نے فتح پانی ہے۔ انشاء للہ تعالیٰ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں یہ معیار جلد سے جلد حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں