خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بتاریخ 13؍جون2003ء

یہ ضروری نہیں کہ ہم پر کوئی مشکل یا مصیبت آئے توہم نے دعائیں مانگنی ہیں-
ان مشکلات سے بچنے کے لئے بھی دعاؤں کی بہت ضرورت ہے اور ہم سب پر یہ فرض بنتاہے کہ دعاؤں پر بہت زور دیں
اور مستقلاً اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کریں-
(آیات قرآنیہ،احادیث نبویہ ،حضرت مسیح موعود ؑ، حضر ت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ اور حضرت
مصلح موعودؓ کے ارشادات کے حوالہ سے اللہ تعالیٰ کی صفت السمیع کے مختلف پہلوؤں کا تذکرہ )

خطبہ جمعہ ارشاد فرمودہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرو ر احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
۱۳؍جون ۲۰۰۳ء مطابق ۱۳؍احسان۱۳۸۲ہجری شمسی بمقام مسجد فضل لندن(برطانیہ)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أشھد أن لا إلہ إلا اللہ وحدہ لا شریک لہ وأشھد أن محمداً عبدہ و رسولہ-
أما بعد فأعوذ باللہ من الشیطان الرجیم- بسم اللہ الرحمٰن الرحیم-
الحمدللہ رب العٰلمین- الرحمٰن الرحیم- مٰلک یوم الدین- إیاک نعبد و إیاک نستعین-
اھدنا الصراط المستقیم- صراط الذین أنعمت علیھم غیر المغضوب علیھم ولا الضالین-
فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَآ اٰمَنْتُمْ بِہٖ فَقَدِ اھْتَدَوْا۔وَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا ھُمْ فِیْ شِقَاقٍ۔ فَسَیَکْفِیْکَھُمُ اللہُ۔ وَھُوَالسَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ (سورۃ البقرہ :۱۳۸)

اس آیت کا ترجمہ ہے : پس اگر وہ اسی طرح ایمان لے آئیں جیسے تم اس پر ایمان لائے ہو تو یقینا وہ بھی ہدایت پاگئے اور اگر وہ (اس سے) منہ پھیر لیں تو وہ (عادتاً) ہمیشہ اختلاف ہی میں رہتے ہیں- پس اللہ تُجھے اُن سے (نمٹنے کے لئے) کافی ہو گا۔ اور وہی بہت سننے والا (اور) دائمی علم رکھنے والا ہے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
’’اگر وہ پھر جائیں تو تم گھبراؤنہیں- اُن کے اس اِعراض کی سوائے اس کے اَور کوئی وجہ نہیں کہ وہ اختلاف کرنے پر تُلے ہوئے ہیں- اور تم سے کسی حالت میں بھی اتحاد کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں- یہ عبارت اصل میں

اِنْ ھُمْ اِلَّا فِیْ شِقَاق

ہے یعنی ان کے اس اِعراض سے تم پریشان مت ہو۔ جیسا کہ رسول کریم ﷺ کے زمانے میں بعض کمزور دل مسلمان خیال کر سکتے تھے کہ یہ لوگ تو ہم سے اَور زیادہ دُور ہوجائیں گے۔ فرماتا ہے: یہ تو تم سے پہلے ہی دُور ہیں اور اُن باتوں کی طرف آنے کو تیار نہیں جو خداتعالیٰ کے قریب کرنے والی ہیں- اور جب اُن کے دلوں میں اتنا بُغض ہے اور وہ پہلے ہی تم سے جُدا ہیں تو پھر اتحاد کیسے ہو سکتا ہے۔ پس اس بات سے مت ڈرو کہ علیحدگی کی صورت میں ہمیں اُن سے تکلیف پہنچے گی اور لڑائیاں ہوں گی۔

فَسَیَکْفِیْکَھُمُ اللہ۔

اُن کے مقابلے میں تمہارے لئے اللہ تعالیٰ کافی ہے۔ وہ اُن کے حملوں سے تمہیں خود بچائے گا اور تمہاری آپ حفاظت فرمائے گا۔ جب تک انسان کو یہ مقام حاصل نہ ہو، وہ حقیقی مومن نہیں کہلا سکتا۔ ایمان کا مقام وہی ہے جو

فَسَیَکْفِیْکَھُمُ اللہ

کے ماتحت ہو۔ یعنی وہ اس مقام پر کھڑا ہو کہ دشمن اُسے نقصان پہنچانے کے لئے خواہ کس قدر کوشش کرے، وہ سمجھے کہ میرا خدا میرے ساتھ ہے، وہ دشمن کو مجھ پر غالب نہیں آنے دے گا۔ اور اگر اس مقابلے میں میرے لئے موت مقدر ہے، تب بھی کوئی غم نہیں کیونکہ ہم نے مرکر خدا کے پاس ہی جانا ہے… اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم ڈرتے کیوں ہو۔ اگر تم خداتعالیٰ پر ایمان لائے ہو تو وہی تمہاری حفاظت کرے گا اور وہی تمہیں ہر قسم کے نقصان سے بچائے گا۔
غرض اگر یہ لوگ ایمان نہ لائیں تو تم سمجھ لو کہ ان کے دلوں میں تمہاری نسبت سخت عداوت اور دشمنی ہے۔ اور وہ تمہارے خلاف شرارتیں کریں گے۔ مگر اِن کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ تمہارے لئے کافی ہوگا، وہ تمہیں اُن کے حملے سے خود بچائے گا۔ اور اُن کی شرارتیں تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گی۔‘‘(تفسیر کبیر جلد نمبر ۲ صفحہ ۲۱۴۔۲۱۵)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ مزید فرماتے ہیں :-

’’وھوالسمیع العلیم۔

فرماتا ہے: یہ نہ سمجھ لو کہ اب خداتعالیٰ کی طرف سے چونکہ وعدہ ہو گیا ہے اس لئے ہمیں کچھ کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ دُعائیں کرو کہ ایسا ہی ہو۔ خداتعالیٰ سننے والا ہے اور جن باتوں کا تمہیں علم نہیں ، اُن کا اُسے خود علم ہے۔ وہ آپ اُن کا انتظام کر دے گا۔
انسان کی دو حالتیں ہوا کرتی ہیں- ایک یہ کہ انسان پر اس کا دشمن حملہ کرتا ہے اور اُس حملے کا اُسے علم ہوتا ہے اور جہاں تک اُس کے لئے ممکن ہوتا ہے وہ اُس کا مقابلہ کرتا ہے اور اپنے بچاؤ کی تدبیر کرتا ہے۔ دوسری حالت یہ ہوتی ہے کہ اُس کا دشمن ایسے وقت میں حملہ کرتا ہے جبکہ اُسے خبر نہیں ہوتی۔ یا ایسے ذرائع سے حملہ کرتا ہے جن کی اُسے خبر نہیں ہوتی۔ مثلاً اس کے کسی دوست کو خرید لیتا ہے اور اس کے ذریعے اُسے نقصان پہنچا دیتا ہے۔ یا رات کو اُس پر سوتے سوتے حملہ کردیتا ہے۔ یا راستے میں چھپ کر بیٹھ جاتا اور اندھیرے میں حملہ کردیتا ہے یا وہ اُسے تیر مار دیتا ہے یا کھانے میں زہر ملا کر اُسے کھلا دیتا ہے یا اس کا مال یا جانور چُرا لیتا ہے۔ یہ وہ حملے ہیں جو اُس کے علم میں نہیں ہوتے اور اس وقت ہوتے ہیں جبکہ وہ بے خبر ہوتا ہے۔ ان دونوں حملوں کے بچاؤ کی مختلف تدبیریں ہوتی ہیں- اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ دشمن کس طرح اور کس رنگ میں حملہ کرے گا۔ اگر تم کو اُس کے حملے کا علم ہو مگر تم دفاع کی طاقت نہ پاؤ تو ایک سمیع اور علیم خدا موجود ہے۔ وہ جانتا ہے کہ دشمن تم پر حملہ آور ہے اور تم میں اُس کے دفاع کی طاقت نہیں- پس تم گھبراؤ نہیں- تم ہمیں آواز دو۔ ہم فوراً تمہاری مدد کے لئے آجائیں گے۔ اور اگر تم سوئے ہوئے ہو یا راستے پر سے گزر رہے ہو یا تاریکی میں سفر کر رہے ہو اور دشمن نے اچانک تم پر حملہ کر دیا ہے یا کھانے میں زہر ملا دیا ہے یا چوری سے مال نکال لیا ہے۔ یا کسی دوست سے مل کر اُس نے تم پر حملہ کر دیا ہے اور تمہیں اس کا علم نہیں ہوا۔ تو فرماتا ہے کہ ہم علیم ہیں- ہم خوب جاننے والے ہیں اور ہمیں ہر قسم کی قوتیں حاصل ہیں- اس لئے ایسی حالت میں بھی تم گھبراؤ نہیں- بلکہ اللہ تعالیٰ کو پکار و اور اُس سے دُعائیں کرو۔ وہ تمہاری تمام مشکلات کو دُور کردے گا اور تمہارے دشمن کو ناکام اور ذلیل کرے گا۔‘‘(تفسیر کبیر جلد نمبر ۲۔صفحہ ۲۱۵۔۲۱۶)
اب جب انسان پر کوئی مصیبت یا آفت آتی ہے اس وقت توخداتعالیٰ کو پکارتا ہے، قدرتی بات ہے اور اس وقت مومن یا کافر کا سوال نہیں- ہرایک کو جو خداتعالیٰ پر یقین نہیں کرتے،دہریہ بھی، اس وقت خداتعالیٰ کو پکارتے ہیں- تو ایسی حالت میں جب اضطراب پیدا ہوتا ہے اللہ تعالیٰ سن بھی لیتا ہے لیکن مومن کا یہ کام ہے کہ امن کی حالت میں بھی خداتعالیٰ سے دعائیں مانگتا رہے، اپنی حفاظت کے لئے، جماعت کے لئے، جماعت کی ترقی کے لئے، تاکہ جب مشکل دَور آئے اس وقت جو پہلے مانگی ہوئی دعائیں ہیں ان کا بھی اثر ہو اور خداتعالیٰ اپنی قبولیت کے نظارے جلد سے جلد دکھاسکے۔اس لئے ہمیشہ ہر احمدی کا یہ فرض ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ ہم پر کوئی مشکل یا مصیبت آئے توہم نے دعائیں مانگنی ہیں- ان مشکلات سے بچنے کے لئے بھی دعاؤں کی بہت ضرورت ہے اور ہم سب پر یہ فرض بنتاہے کہ دعاؤں پر بہت زور دیں اور مستقلاً اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کریں-
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :
’’پس اگر دوسرے لوگ بھی جو اسلام کے مخالف ہیں اسی طرح ایمان لاویں اور کسی نبی کوجوخدا کی طرف سے آیا،ردّ نہ کریں- تو بلاشبہ وہ بھی ہدایت پا چکے۔ اور اگر وہ روگردانی کریں اور بعض نبیوں کو مانیں اور بعض کوردّ کردیں توانہوں نے سچائی کی مخالفت کی اور خدا کی راہ میں پھوٹ ڈالنی چاہی۔ پس توُ یقین رکھ کہ وہ غالب نہیں ہو سکتے اور ان کو سزا دینے کے لئے خدا کافی ہے۔ اور جو کچھ وہ کہتے ہیں خدا سن رہاہے۔ اور ان کی باتیں خدا کے علم سے باہر نہیں ‘‘۔(لیکچر مشمولہ چشمہ ٔمعرفت روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۳۷۷)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :-
’’اگر وہ ایسا ایمان لائیں جیسا کہ تم ایمان لائے تو وہ ہدایت پاچکے اور اگر ایسا ایمان نہ لاویں تو پھر وہ ایسی قوم ہے (کہ) جو مخالفت چھوڑنا نہیں چاہتی اور صلح کی خواہاں نہیں-‘‘(یادداشتیں براہین احمدیہ، حصہ پنجم۔ و پیغام صلح صفحہ۵۱)

’’فَسَیَکْفِیْکَھُمُ اللہُ وھُوَ السّمیعُ الْعَلیم

اور اُن کی شرارتوں کے دفع کرنے کے لئے خدا تجھے کافی ہے اور وہ سمیع اور علیم ہے۔‘‘(براہین احمدیہ۔ حصہ سوم۔ صفحہ ۲۳۰، حاشیہ نمبر۱۱)
پھر آپ ؑ نے فرمایا:’’خدائے تعالیٰ ان سب کے تدارک کے لئے جو اس کام کو روک رہے ہیں ، تمہارا مددگار ہوگا‘‘۔
(تبلیغ رسالت (مجموعہ اشتہارات)، جلد اوّل صفحہ ۱۱۶)
پس آج کل کے حالات میں کسی بھی احمدی کو مایوس نہیں ہونا چاہئے۔خدائی وعدے ہیں-خداتعالیٰ ہمیشہ ہمارا مدد گار رہا ہے اور
انشاء اللہ رہے گا۔لیکن جہاں وہ مخالفین کی بیہودہ گوئی کو سن رہاہے کیونکہ آج کل پاکستان میں پھر کافی شورہوا ہواہے۔اور اس کو علم ہے کہ یہ لوگ احمدیوں کے ساتھ ظلم روا رکھ رہے ہیں اور اپنی تقدیر کے مطابق ایسے لوگوں کی خدا تعالیٰ نے پکڑ کرنی ہے۔انشاء اللہ۔اور ہمارے تجربہ میں ہے کہ ماضی میں بلکہ ماضی قریب میں ایسی پکڑ کے نظارے وہ ہمیں دکھاتارہاہے اور اپنی قدر ت نمائی کرتا رہاہے۔پھر کوئی وجہ نہیں کہ ہمارے دل مایوس ہوں اور ہلکا سا احساس بھی پیدا ہو۔ لیکن ہماری بھی یہ ذمہ دار ی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم پر یہ ذمہ دار ی ڈا ل رہاہے کہ پہلے سے بڑھ کر میری طرف رجوع کرو اور میرے سے مانگو تاکہ وہ الٰہی تقدیر جو غالب آنی ہے انشاء اللہ، تمہیں بھی احساس رہے کہ تمہاری دعاؤں کا بھی اس میں کچھ حصہ ہے اور اللہ تعالیٰ نے تمہاری دعاؤں کو بھی سناہے۔پس ان دنوں میں بہت زیادہ دعاؤں کی طرف ہمیں توجہ دینی چاہئے۔
پھر اللہ تعالیٰ فرماتاہے:

فَمَنْ بَدَّلَہٗ بَعْدَ مَا سَمِعَہٗ فَاِنَّمَآ اِثْمُہٗ عَلَی الَّذِیْنَ یُبَدِّلُوْنَہٗ۔اِنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ (سورۃ البقرہ :۱۸۲)

پس جو اُسے اُس کے سُن لینے کے بعد تبدیل کرے تو اس کا گناہ ان ہی پر ہو گا جو اسے تبدیل کرتے ہیں- یقینا اللہ بہت سننے والا (اور) دائمی علم رکھنے والا ہے۔
اس آیت میں وصیت کا مضمون بیان کیا گیاہے۔ اس سلسلہ میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :-
’’اگر کوئی شخص وصیت کرے اور بعد میں کوئی دوسرا شخص اس میں تغیر و تبدل کر دے تو اس صورت میں تمام تر گناہ اس شخص کی گردن پر ہے جس نے وصیت میں ترمیم و تنسیخ کی۔ یہ تغیر دو صور توں میں ہو سکتا ہے۔ ایک تو یہ کہ لکھانے والا تو کچھ اورلکھائے مگر لکھنے والا شرارت سے کچھ اور لکھ دے۔ یعنی لکھوانے والے کی موجودگی میں ہی اُس کے سامنے تغیر و تبدل کردے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ وصیت کرنے والے کی وفات کے بعد اُس میں تغیر وتبدل کر دے۔ یعنی وصیت میں جو کچھ کہا گیا ہو اس کے مطابق عمل نہ کرے بلکہ اُس کے خلاف چلے۔ اِن دونوں صورتوں میں اس گناہ کا وبال صرف اُسی پر ہوگا جو اُسے بدل دے۔ (اِثۡمُہٗ میں سبب مُسبّب کی جگہ استعمال کیا گیا ہے اور مراد گناہ نہیں بلکہ گناہ کا وبال ہے)۔یہ الفاظ بتاتے ہیں کہ اس میں کسی قرآنی حکم کی طرف اشارہ ہے اور وہ حکم وراثت کا ہی ہے۔ ورنہ اس کا کیا مطلب کہ بدلنے کا گناہ بدلنے والوں پر ہوگا، وصیت کرنے والے پر نہیں ہوگا۔ کیونکہ اگر اس وصیت کی تفصیلات شرعی نہیں تو بدلنے والے کو گناہ کیوں ہو۔ اُس کے گناہ گار ہونے کا سوال تبھی ہو سکتا ہے جبکہ کسی شرعی حکم کی خلاف ورزی ہورہی ہو، اور وہ اسی طرح ہوسکتی ہے کہ مرنے والا تو یہ وصیت کرجائے کہ میری جائیداد احکام اسلام کے مطابق تقسیم کی جائے لیکن وارث اس کی وصیت پر عمل نہ کریں- ایسی صورت میں وصیت کرنے والا تو گناہ سے بچ جائے گا لیکن وصیت تبدیل کرنے والے وارث گناہ گار قرار پائیں گے۔‘‘(تفسیر کبیر جلد دوم۔ صفحہ ۳۶۸)
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ اس ضمن میں فرماتے ہیں :

’’ اِنَّ اللہَ سَمِیْعٌ عَلِیْم :

فرماتا ہے کہ ہم علیم خدا ہیں- سمجھ بوجھ کر حصص مقرر کئے ہیں اور وصیتوں کے بدلانے کو بھی سنتے ہیں- چنانچہ فرماتا ہے

وَمَنْ یَّعْصِ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ وَیَتَعَدَّ حُدُوْدَہٗ یُدْخِلْہُ نَارًا خَالِدًا فِیْھَا (النساء: ۱۵)۔

فَمَنْ بَدَّلَہٗ :اب سن لو کہ کیا کچھ تبدیل کیا گیا ہے۔ سب سے اوّل تو یہ کہ لڑکیوں کو ورثہ نہیں دیا جاتا۔ خدا تعالیٰ نے عورت کو بھی حرث فرمایا ہے اور زمین کو بھی۔ ایسا ہی زمین کو بھی ارضؔ فرماتا ہے اور عورتوں کو بھی۔ فَاِنَّمَا اِثْمُہٗ :چنانچہ اس کا نتیجہ دیکھ لو کہ جب سے ان لوگوں نے لڑکیوں کا ورثہ دینا چھوڑا ہے، ان کی زمینیں ہندوؤں کی ہوگئی ہیں- جو ایک وقت سو گھماؤں زمین کے مالک تھے اب دو بیگھہ کے بھی نہیں رہے۔ یہ اس لئے کہ صریحاً النساء آیت ۱۵ میں فرمایا ولہ عذابٌ مھینٌ اس سے زیادہ اور کیا ذلت ہوگی۔ عورتوں پر جو ظلم ہو رہا ہے، وہ بہت بڑھ گیا ہے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے:

وَلَا تُمْسِکُوْھُنَّ ضِرَارًا (البقرۃ:۲۳۲)۔ دوسرا وَعَاشِرُوْا ھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ (النساء:۲۰)۔ تیسرا وَلَا تُضَارُّوْھُنَّ (الطلاق:۷) چوتھا فَاِنْ کَرِھْتُمُوْھُنَّ (النساء:۲۰)۔ پنجم وَلَھُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْھِنَّ (البقرۃ:۲۲۹)۔

باوجود اس کے وراثت (یعنی ورثہ نہ دینے کا) کا ظلم بہت بڑھ رہا ہے۔ پھر دوسرا یہ کہ بعض ظالم عورت کو نہ رکھتے ہیں نہ طلاق دیتے ہیں- ‘‘(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان۔ ۸؍ اپریل ۱۹۰۹ء)
اس آیت کی تفسیر میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
’’جو شخص سننے کے بعد وصیت کو بدل ڈالے تو یہ گناہ اُن لوگوں پر ہے جو جرم تبدیل وصیت کے عمداً مرتکب ہوں- تحقیق اللہ سنتا اور جانتا ہے یعنی ایسے مشورے اُس پر مخفی نہیں رہ سکتے اور یہ نہیں کہ اُس کا علم ان باتوں کے جاننے سے قاصر ہے۔‘‘(چشمہ معرفت۔ صفحہ ۲۰۱، ۲۰۲)
جیسا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ لوگ عورتوں کے حقوق ادا نہیں کرتے،وارثت کے حقوق۔ اور ان کا شرعی حصہ نہیں دیتے اب بھی یہ بات سامنے آتی ہے برصغیر میں اور جگہوں پر بھی ہوگی کہ عورتوں کو ان کا شرعی حصہ نہیں دیا جاتا۔ وراثث میں ان کو جو ان کا حق بنتا ہے نہیں ملتا۔ اور یہ بات نظام کے سامنے تب آتی ہے جب بعض عورتیں وصیت کرتی ہیں تو لکھ دیتی ہیں مجھے وراثت میں اتنی جائیداد تو ملی تھی لیکن مَیں نے اپنے بھائی کو یا بھائیوں کو دے دی اور اس وقت میرے پاس کچھ نہیں ہے۔ اب اگر آپ گہرائی میں جا کر دیکھیں ،جب بھی جائزہ لیا گیا تو پتہ یہی لگتاہے کہ بھائی نے یا بھائیوں نے حصہ نہیں دیا اور اپنی عزت کی خاطر یہ بیان دے د یا کہ ہم نے دے دی ہے۔ یا کبھی ایسا بھی ہو جاتاہے کہ بھائی یادوسرے ورثاء بالکل معمولی سی رقم اس کے بدلہ میں دے دیتے ہیں حالانکہ اصل جائیداد کی قیمت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ تو ایک تو یہ ہے کہ وصیت کرنے والے،نظام وصیت میں شامل ہونے والے،ان سے بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تقویٰ کے اعلیٰ معیار کی امید رکھی ہے اس لئے ان کو ہمیشہ قول سدید سے کام لینا چاہئے اور حقیقت بیان کرنی چاہئے کیونکہ جو نظام وصیت میں شامل ہیں تقویٰ کے اعلیٰ معیار اور شریعت کے احکام کوقائم کرنے کی ذمہ داری ان پر دوسروں کی نسبت بہت زیادہ ہے۔ اس لئے جو بھی حقیقت ہے، قطع نظر اس کے کہ آپ کے بھائی پر کوئی حرف آتاہے یا ناراضگی ہو یا نہ ہو، حقیقت حال جو ہے وہ بہرحال واضح کرنی چاہئے۔تا کہ ایک تو یہ کہ کسی کا حق مارا گیا ہے تو نظام حرکت میں آئے اور ان کو حق دلوایا جائے۔ دوسرے ایک چیز جو اللہ تعالیٰ نے ان کو دی ہے شریعت کی رو سے اس سے وہ اپنے آپ کو کیوں محروم کررہی ہیں- اور صرف یہی نہیں کہ اپنے آپ کو محروم کررہی ہیں بلکہ وصیت کے نظام میں شامل ہو کے جو ان کا ایک حصہ ہے اس سے خداتعالیٰ کے لئے جو دینا چاہتی ہیں اس سے بھی غلط بیانی سے کام لے کے وہاں بھی صحیح طرح ادائیگی نہیں کر رہیں-تو اس لئے یہ بہت احتیاط سے چلنے والی بات ہے۔وصیت کرتے وقت سوچ سمجھ کر یہ ساری باتیں واضح طورپر لکھ کے دینی چاہئیں-
پھر صفت سَمِیْع کے ضمن میں ایک اور آیت ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے :

وَلَا تَجْعَلُوْا اللّٰہَ عُرْضَۃً لِاَیْمَانِکُمْ اَنْ تَبَرُّوْا وَتَتَّقُوْا وَتُصْلِحُوْا بَیْنَ النَّاسِ۔ وَاللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ – (سورۃ ا لبقرہ :۲۲۵)

اور اللہ کو اپنی قَسموں کا نشانہ اس غرض سے نہ بناؤ کہ تم نیکی کرنے یا تقویٰ اختیار کرنے یا لوگوں کے درمیان اصلاح کرنے سے بچ جاؤ۔ اور اللہ بہت سننے والا (اور) دائمی علم رکھنے والا ہے۔
ا س ضمن میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
’’اللہ تعالیٰ کو اپنی قسموں کا نشانہ نہ بناؤ۔ یعنی جس طرح ایک شخص نشانہ پر بار بار تیر مارتا ہے اسی طرح تم بار بار خداتعالیٰ کی قسمیں نہ کھا یا کرو کہ ہم یوں کر دیں گے اور وُوں کر دیں گے۔

اَنْ تَبَرُّوْا وَتَتَّقُوْا وَتُصْلِحُوْا بَیْنَ النَّاسِ

یہ ایک نیا اور الگ فقرہ ہے جو مبتدا ہے خبر مخدوف کا۔ اور خبر مخدوف اَمْثَلُ وَاَوْلٰی ہے۔ یعنی

بِرُّکُمْ وَتَقْوٰکُمْ وَاِصْلَاحُکُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَمْثَلُ وَاَوْلٰی۔

اس کے معنے یہ ہیں کہ تمہارا نیکی اور تقویٰ اختیار کرنا اور اصلاح بین الناس کرنا زیادہ اچھا ہے۔ صرف قسمیں کھاتے رہنا کہ ہم ایسا کر دیں گے، کوئی درست طریق نہیں- تمہیں چاہیے کہ قسمیں کھانے کی بجائے کام کرکے دکھاؤ۔ پہلے قسمیں کھانے کی کیا ضرورت ہے۔ زجاجؔ جو مشہور نحوی اور ادیب گزرے ہیں ، انہوں نے یہی معنے کئے ہیں-
پھر حضرت مصلح موعود ؓفرماتے ہیں کہ دوسرے معنے اس کے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو روک نہ بناؤ اُن چیزوں کے لئے جن پر تم قسم کھاتے ہو۔ یعنی بِرّ کرنا، تقویٰ کرنا اور اصلاح بین الناس کرنا۔ اس صورت میں یہ تینوں اَیۡمَان کا عطف بیان ہیں اور اَیۡمَان کے معنے قسموں کے نہیں بلکہ اُن چیزوں کے ہیں جن پر قسم کھائی جاتی ہے۔ مطلب یہ کہ اپنا پیچھا چھڑانے کے لئے نیک کام کی قسم نہ کھالیا کرو۔ تاکہ یہ کہہ سکو کہ کیا کروں چونکہ مَیں قسم کھا چکا ہوں ، اس لئے نہیں کرسکتا۔ مثلاً کسی ضرورتمند نے روپیہ مانگا تو کہہ دیا کہ مَیں نے تو قسم کھالی ہے کہ آئندہ مَیں کسی کو قرض نہیں دوں گا۔
تو آپ فرماتے ہیں کہ اس کے معنے یہ ہیں کہ اگر کوئی نیکی اور تقویٰ اور اصلاح بین الناس کے کام کے لئے تمہیں کہے تو یہ نہ کہو کہ مَیں نے تو قسم کھائی ہوئی ہے،مَیں یہ کام نہیں کرسکتا۔
پھر آپ فرماتے ہیں کہ تیسرے معنے یہ ہیں کہ اس ڈر سے کہ تمہیں نیکی کرنی پڑے گی خدا تعالیٰ کو اپنی قسموں کا نشانہ نہ بناؤ۔ اس صورت میں اَنْ تَبَرُّوا مفعول لاجلہ ہے اور اس سے پہلے کرا ھۃً مقدّر ہے۔ اور مراد یہ ہے کہ اگر اچھی باتیں نہ کرنے کی قسمیں کھاؤ گے تو ان خوبیوں سے محروم ہو جاؤگے، اس لئے نیکی تقویٰ اور اصلاح بین الناس کی خاطر اس لغو طریق سے بچتے رہو۔ در حقیقت یہ سب معنے آپس میں ملتے جلتے ہیں- صرف عربی عبارت کی مشکل کو مختلف طریق سے حل کیا گیا ہے۔ جس بات پر سب مفسرین متفق ہیں ، وہ یہ ہے کہ اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ یہ نہ کرو کہ خداتعالیٰ کو اپنی قسموں کا نشانہ بنالو۔ یعنی اُٹھے اور قسم کھا لی۔ یہ ادب کے خلاف ہے اور جو شخص اس عادت میں مبتلا ہو جاتا ہے وہ بسا اوقات نیک کاموں کے بارے میں بھی قسمیں کھا لیتا ہے کہ مَیں ایسا نہیں کروں گا۔ اور اس طرح یا تو بے ادبی کا اور یا نیکی سے محرومی کا شکار ہو جاتا ہے۔ یا یہ کہ بعض اچھے کاموں کے متعلق قسمیں کھا کر خداتعالیٰ کو ان کے لئے روک نہ بنالو۔ اِن معنوں کی صورت میں داؤ پیچ والے معنے خوب چسپاں ہوتے ہیں- اور مطلب یہ ہے کہ بعض لوگ صدقہ و خیرات سے بچنے کے لئے چالیں چلتے ہیں اور داؤ کھیلتے ہیں اور بعض خداتعالیٰ کی قسم کو جان بچانے کا ذریعہ بتاتے ہیں- گویا دوسرے سے بچنے اور اُسے پچھاڑنے میں جو داؤ استعمال کئے جاتے ہیں اُن میں سے ایک خداتعالیٰ کی قسم بھی ہوتی ہے۔ پس فرماتا ہے: اللہ تعالیٰ کے نام کو ایسے ذلیل حیلوں کے طور پر استعمال نہ کیا کرو۔ میرے نزدیک سب سے اچھی تشریح علامہ ابوحیان کی ہے کہ خدا تعالیٰ کو اپنے احسان اور نیکی وغیرہ کے آگے روک بنا کر کھڑا نہ کردیا کرو۔

وَاللہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ

میں بتایا کہ اگر تمہیں نیکی اور تقویٰ اور اصلاح بین الناس کے کام میں مشکلات پیش آئیں تو خدا تعالیٰ سے اس کا دفعیہّ چاہو اور ہمیشہ دعاؤں سے کام لیتے رہو کیونکہ یہ کام دعاؤں کے بغیر سرانجام نہیں پا سکتے اور پھر یہ بھی یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ علیم بھی ہے۔ اگر تم اس کی طرف جھکو گے تو وہ اپنے علم میں سے تمہیں علم عطا فرمائے گا اور نیکی اور تقویٰ کے بارے میں تمہارا قدم صرف پہلی سیڑھی پر نہیں رہے گا بلکہ علم لدنی سے بھی تمہیں حصہ دیا جائے گا۔‘‘(تفسیر کبیر جلد دوم۔ صفحہ ۵۰۶ تا ۵۰۷)
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
’’ عُرْضَۃً : اللہ کے نام کو نیکی کرنے میں روک نہ بناؤ مثلاً خدا کی قسم کھا کر یہ کہہ دیا : مَیں فلاں کے ساتھ نیکی نہیں کروں گا، فلاں کے گھر نہ جاؤں گا۔ وغیرہ (ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۹ اپریل ۱۹۰۹ء۔ تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۴۲)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :-
’’قرآن شریف کی رُو سے لغو یا جھوٹی قسمیں کھانا منع ہے کیونکہ وہ خدا سے ٹھٹھا ہے اور گستاخی ہے اور ایسی قسمیں کھانا بھی منع ہے جو نیک کاموں سے محروم کرتی ہوں جیسا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے قسم کھائی تھی کہ مَیں آئندہ مسطح صحابی کو صدقہ خیرات نہیں دوں گا تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی

وَلَا تَجْعَلُوْا اللہَ عُرْضَۃً لِاَیْمَانِکُمْ اَنْ تَبَرُّوْا وَتَتَّقُوْا-

یعنی ایسی قسمیں مت کھاؤ جو نیک کاموں سے باز رکھیں … تفسیر مفتی ابومسعود مفتی روم میں زیر آیت

وَلَا تَجْعَلُوْا اللہَ عُرْضَۃً لِاَیْمَانِکُمْ

لکھا ہے کہ عُرضہؔ اس کو کہتے ہیں کہ جو چیز ایک بات کے کرنے سے عاجز اور مانع ہوجائے اور لکھا ہے کہ یہ آیت ابوبکر صدیق کے حق میں ہے جب کہ انہوں نے قسم کھائی تھی کہ مسطح کو جو صحابی ہے، بباعث شراکت اس کی حدیث اِفک میں ، کچھ خیرات نہیں دوں گا۔ پس خدا تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے کہ ایسی قسمیں مت کھاؤ جو تمہیں نیک کاموں اور اعمال صالحہ سے روک دیں ، نہ یہ کہ معاملہ متنازعہ، جس سے طے ہو۔‘‘(الحکم۔ جلد۸۔ نمبر۲۲۔ بتاریخ ۱۰؍جولائی ۱۹۰۴ء۔ صفحہ ۷)
اب صفت سمیع کے تحت بعض احادیث اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قبولیت دعا کے بعض واقعات کا ذکرکرتاہوں-
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص جمعے کے روز مسجد نبوی میں اس دروازے سے داخل ہوا جو منبر کے سامنے تھا۔ رسول اللہ ﷺاس وقت کھڑے خطبہ دے رہے تھے۔ اُس نے آنحضرت ﷺکو اپنی طرف متوجہ کرکے عرض کیا :یا رسول اللہ ! مویشی مر رہے ہیں ،راستے مخدوش ہورہے ہیں ، آپ ؐاللہ سے دعا کریں کہ وہ ہم پربارش برسائے۔ اس پر رسول اللہ ﷺنے اپنے دونوں ہاتھ دعا کے لئے اٹھائے اور دعا کرتے ہوئے تین مرتبہ کہا:

’’اَللّٰھُمَّ اسْقِنَا‘‘

اے اللہ !ہم پر بارش کا پانی نازل کر۔
انسؓ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کی قسم! ہمیں اُس وقت آسمان پر کوئی بادل یا بادل کاٹکڑا نظر نہیں آ رہا تھا جبکہ سلع پہاڑ تک ان دنوں کوئی گھر تعمیر نہ ہواتھا۔ اچانک سلع کے پیچھے سے ڈھال کی شکل کی ایک بدلی نمودار ہوئی جب وہ آسمان کے وسط میں آئی تو پھیل گئی، پھر بارش برسانے لگی۔
انسؓ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کی قسم ! ہم نے چھ دن تک سورج نہیں دیکھا۔ پھر ایک شخص اگلے جمعہ، اُسی دروازے سے داخل ہوا اور رسول اللہ ﷺکھڑے خطبہ دے رہے تھے۔ وہ آپؐ کے سامنے کھڑا ہوا اور مخاطب ہوا اور کہا : یا رسول اللہ !اموال تباہ ہورہے ہیں ، راستے منقطع ہو گئے ہیں-آپؐ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ بارش کو روک لے۔ راوی کہتے ہیں کہ اس پر رسول اللہ ﷺنے اپنے دونوں ہاتھ دعا کے لئے بلند کئے، پھر کہا:

’’اَللّٰھُمَّ حَوَالَیْنَا وَلَاعَلَیْنَا‘‘

اے اللہ!ہمارے اردگرد تو بارش ہومگر ہمارے اوپر بارش نہ ہو۔ اے اللہ ! چوٹیوں اور پہاڑوں ،چٹیل میدانوں ، وادیوں اور جنگلوں پربارش برسا۔راوی بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺکا دعا کرنا تھا کہ بارش ختم ہو گئی اور جب نماز جمعہ پڑھ کر نکلے تو دھوپ نکلی ہوئی تھی۔(بخاری کتاب الاستسقاء باب الاستسقاء فی المسجد الجامع)
ایک روایت اسی قسم کی حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کے بارہ میں بھی آتی ہے۔مکرم چوہدری غلام محمد صاحب فرماتے ہیں کہ ۱۹۰۹ء کے موسم برسات میں ایک دفعہ لگاتار آٹھ روز بارش ہوتی رہی جس سے قادیان کے بہت سے مکان گر گئے۔ آٹھویں یا نویں روز حضرت خلیفۃ المسیح اولؓ نے فرمایا کہ میں دعا کرتا ہوں ،آپ سب لوگ آمین کہیں- دعا کرنے کے بعد آپ نے فرمایا کہ آج میں نے وہ دعاکی ہے جو حضرت رسول کریم ﷺ نے ساری عمر میں صرف ایک دفعہ کی تھی۔ یہ دعا بارش بند ہونے کی دعا تھی۔ دعا کے وقت بارش بہت زور سے ہو رہی تھی اس کے بعد بارش بند ہوگئی اور عصر کی نماز کے وقت آسمان بالکل صاف تھااور دھوپ نکلی ہوئی تھی۔
بدرؔ کے دوران جب کہ دشمن کے مقابلے میں آپﷺ اپنے جاں نثار بہادروں کو لے کر کھڑے ہوئے تھے۔ تائید الٰہی کے آثار ظاہر تھے۔ کفار نے اپنا قدم جمانے کے لئے پختہ زمین پر ڈیرے لگائے تھے اور مسلمانوں کے لئے ریت کی جگہ چھوڑ دی تھی لیکن خدا تعالیٰ نے بارش بھیج کر کفار کے خیمہ گاہ میں کیچڑ ہی کیچڑ کردیا اور مسلمانوں کی جائے قیام مضبوط ہوگئی۔ اسی طرح اَور بھی تائیدات سماویہ ظاہر ہو رہی تھیں- لیکن باوجود اس کے اللہ تعالیٰ کا خوف ایسا آنحضرتﷺ پر غالب تھا کہ سب وعدوں اور نشانات کے باوجود اس کے غنا کو دیکھ کر گھبراتے تھے اور بے تاب ہوکر اس کے حضور میں دعا کرتے تھے کہ مسلمانوں کو فتح ہو۔ آپؐ یہ دعا کر رہے تھے اور اس الحاح کی کیفیت میں آپؐ کی چادر بار بار کندھوں سے گرجاتی تھی کہ اے میرے خدا! اپنے وعدے کو، اپنی مدد کو پورا فرما۔ اے میرے اللہ! اگر مسلمانوں کی یہ جماعت آج ہلاک ہوگئی تو دنیا میں تجھے پوجنے والا کوئی نہیں رہے گا۔
اس وقت آپؐ اس قدر کرب کی حالت میں تھے کہ کبھی آپؐ سجدے میں گر جاتے اور کبھی کھڑے ہوکر خدا کو پکارتے تھے اور آپؐ کی چادر آپؐ کے کندھوں سے گرپڑتی تھی۔ حضرت علیؓ کہتے ہیں کہ مجھے لڑتے لڑتے آنحضرتﷺ کا خیال آتا اور مَیں دوڑ کے آپؐ کے پاس پہنچ جاتا تو دیکھتا کہ آپؐ سجدے میں ہیں اور آپؐ کی زبان پر یٰا حَیُّ یٰا قَیُّوم کے الفاظ جاری ہیں- حضرت ابوبکرؓ جوش فدائیت میں آپؐ کی اس حالت کو دیکھ کر بے چین ہوجاتے اور عرض کرتے: یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں ، آپ گھبرائیں نہیں- اللہ ضرور اپنے وعدے پورے کرے گا۔ مگر اس مقولے کے مطابق کہ ’’ہرکہ عارف تراست ترساں تر‘‘، برابر دعا و گریہ و زاری میں مصروف رہے۔ آپؐ کے دل میں خشیت الٰہی کا یہ گہرا احساس مضمر تھا کہ کہیں خدا کے وعدوں میں کوئی ایسا پہلو مخفی نہ ہو جس کے عدم علم سے تقدیر بدل جائے۔ (صحیح بخاری۔ کتاب الجھاد۔ باب فی درع النبی)
حضرت ابن عباس ؓبیان کرتے ہیں کہ جنگ بدر میں آنحضرت ﷺ ایک خیمہ میں قیام پذیر تھے اور باربار یہ دعا کرتے تھے کہ اے میرے اللہ!مَیں تجھے تیرے عہد کا واسطہ دیتا ہوں، تجھے تیرا وعدہ یاد دلاتاہوں- میرے اللہ! اگر توُ چاہتاہے کہ آج کے بعد تیری عبادت کرنے والا کوئی نہ رہے تو بے شک ہماری مدد نہ کر۔ یعنی اگر مسلمانوں کی یہ جماعت ہلاک ہوگئی تو پھر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہیں رہے گا۔ حضورؐاتنی عاجزی اور زاری کے ساتھ باربار دعا کررہے تھے کہ حضرت ابوبکرؓ سے رہا نہ گیا اور گھبرا کر آپؐ کا ہاتھ پکڑلیا اور کہا اے اللہ کے رسول! کافی ہے، اتنی آہ وزاری کافی ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ ؐ کی دعا ضرور قبول کرے گا۔ حضور اس وقت زرع پہنے ہوئے تھے چنانچہ حضور اسی حالت میں خیمہ سے باہر آئے اور مسلمانوں کو خوشخبری دی کہ دشمن کی جمیعت شکست کھا جائے گی۔ ان کے منہ موڑ دئے جائیں گے بلکہ یہ گھڑی ان کے لئے بڑی دہشتناک، ہلاکت خیز اور تلخ ہوگی۔(بخاری کتاب الجہاد)۔ چنانچہ اب دیکھیں دشمن کو جنگ بدر میں کس طرح ذلت کی شکست ہوئی۔
حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ میری والدہ مشرکہ تھیں اور مَیں انہیں دعوت اسلام دیا کرتا تھا۔جب ایک دن میں نے انہیں پیغام حق پہنچایا تو انہوں نے آنحضرت ﷺ کے بارے میں بعض ایسی باتیں کیں جو مجھے ناگوار گزریں تو مَیں روتا ہوا آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو ا اور عرض کی کہ مَیں اپنی والدہ کو دعوت اسلام دیا کرتا تھا اور وہ انکار کر دیتی تھیں- اور آج جب میں نے انہیں یہ دعوت دی تو انہوں نے آپؐ کے بارہ میں مجھے ایسی باتیں سنائیں جو مجھے ناپسند ہیں- آپؐ دعا کریں کہ اللہ ابو ہریرہ کی والدہ کو ہدایت دیدے۔تو رسول اللہ ﷺ نے دعا کی:

’’اَللّٰہُمَّ اہْدِ أمّ أبِی ہُرَیْرَۃ‘‘

کہ اے اللہ تو ابوہریرہ کی والدہ کو ہدایت دیدے۔
حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ میں آپﷺ کی اس دعا کی وجہ سے خوش خوش گھر کے لئے نکلا او رجب گھر کے دروازہ کے پاس پہنچا تو وہ بند تھا اور میری والدہ نے میرے قدموں کی آہٹ سن کر کہا کہ اے ابوہریرہ! وہیں ٹھہرو۔ اسی اثناء میں مَیں نے پانی گرنے کی آواز سنی۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے غسل کیا، کپڑے بدلے او ر دوپٹہ اوڑھ کر دروازہ کھولا اور کہا: اے ابوہریرہ!

اَشْہَدُ اَنْ لَا اِلٰـہَ اِلَّا اللہُ وَاَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ۔

حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں فوراً آنحضرت ﷺ کی خدمت میں خوشی سے روتے ہوئے حاضر ہوا۔ اور عرض کی: مبارک ہو، اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا سن لی ہے او رابو ہریرہ کی والدہ کو ہدایت دیدی ہے۔ اس پر آپﷺ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی اور فرمایا: اچھا ہوا ہے۔ تب میں نے عرض کی: یارسول اللہ! آپؐ اللہ سے یہ دعا بھی کریں کہ وہ مجھے اور میری ماں کو مؤمنین کا محبوب بنا دے اور وہ ہمیں محبوب ہوں- تب آپ ﷺ نے دعا کی: کہ اے اللہ! تُو اپنے اس بندہ ابوہریرہ اور اس کی ماں کو مومنوں کا اور مؤمنین کو ان کا محبوب بنا دے۔
حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ جس مومن نے مجھے دیکھا بھی نہیں ، بس میرے بارے میں سنا ہے، وہ بھی مجھ سے محبت کرتا ہے۔(صحیح مسلم۔جلد۴صفحہ ۱۹۳۸۔ باب من فضائل ابی ہریرہ)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قبولیت دعا کے واقعات پیش ہیں-
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ لکھتے ہیں کہ میر محمد اسحق صاحبؓکے بچپن کا ایک واقعہ ہے۔کہ ایک دفعہ وہ سخت بیمار ہوگئے اور حالت بہت تشویشناک ہوگئی اور ڈاکٹروں نے مایوسی کا اظہار کیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کے متعلق دعا کی تو عین دعا کرتے ہوئے خدا کی طرف سے الہام ہوا کہ

’سَلَامٌ قَوْلاً مِنْ رَّبِّ رَحِیْم ‘

یعنی تیری دعا قبول ہوئی اور خدائے رحیم وکریم اس بچے کے متعلق تجھے سلامتی کی بشارت دیتاہے۔چنانچہ اس کے جلد بعد حضر ت میر محمد ا سحق صاحبؓ بالکل توقع کے خلاف صحت یاب ہوگئے اور خدا نے اپنے مسیح کے دم سے انہیں شفا عطا فرمائی۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک اور زبردست نشان قبولیت دعا کا بیان کرتا ہوں- کپورتھلہ کے بعض غیر احمدی مخالفوں نے کپورتھلہ کی احمدیہ مسجد پر قبضہ کرکے مقامی احمدیوں کو بے دخل کرنے کی کوشش کی۔ بالآخریہ مقدمہ عدالت میں پہنچا اور کافی دیر تک چلتا رہا۔کپورتھلہ کے بہت سے دوست فکر مند تھے اور گھبراگھبرا کر حضرت مسیح موعود ؑ کی خدمت میں دعا کے لئے عرض کرتے تھے۔ حضر ت مسیح موعود علیہ السلام نے ان دوستوں کے فکر اور اخلاص سے متأثر ہوکر ایک دن ان کی درخواست پر غیرت کے ساتھ فرمایا :گھبراؤ نہیں ! اگر مَیں سچا ہوں تو یہ مسجد تمہیں مل کر رہے گی۔ مگر عدالت کی نیت خراب تھی اور جج کا رویہ بدستور مخالفانہ رہا۔ آخر اس نے عدالت میں برملا کہہ دیا کہ ’’تم لوگوں نے نیا مذہب نکالا ہے۔ اب مسجد بھی تمہیں نئی بنانی پڑے گی اور ہم اسی کے مطابق فیصلہ دیں گے‘‘۔ مگر ابھی اس نے فیصلہ لکھا نہیں تھا اور خیال تھا کہ عدالت میں جا کر لکھوں گا۔اس وقت اس نے اپنی کوٹھی کے برآمدہ میں بیٹھ کر نوکر سے بوٹ پہنانے کے لئے کہا۔ نوکر بوٹ پہنا ہی رہا تھاکہ جج پر اچانک دل کا حملہ ہوا اور وہ چند لمحوں میں ہی اس حملہ میں ختم ہوگیا۔ اس کی جگہ جو دوسرا جج آیا تو اس نے مسل دیکھ کر احمدیوں کو حق پر پایا اور مسجد احمدیوں کو دلا دی۔
(سیرت طیبہ از حضر ت مرزا بشیر احمد صاحب ؓ صفحہ۱۲۵۔۱۲۶)
پھر ایک اور واقعہ ہے۔ حضر ت مسیح موعود علیہ السلام نے چشمہ ٔمعرفت میں بیان فرمایاہے۔ اس جگہ ایک تازہ قبولیت دعا کا نمونہ جو اس سے پہلے کسی کتاب میں نہیں لکھا گیا، ناظرین کے فائدہ کے لئے لکھتاہوں- وہ یہ ہے کہ نواب محمد علی خان صاحب رئیس مالیر کوٹلہ مع اپنے بھائیوں کے سخت مشکلات میں پھنس گئے تھے۔منجملہ ان کے یہ کہ وہ ولی عہد کے ماتحت رعایا کی طرح قرار دئے گئے تھے۔ انہوں نے بہت کچھ کوشش کی مگر ناکام رہے اور صرف آخری کوشش یہ باقی رہی تھی کہ وہ نواب گورنرجنرل بہادر بالقابہ سے اپنی دادرسی چاہیں اور اس میں کچھ امید نہ تھی کیونکہ ان کے برخلاف قطعی طورپر حکام ماتحت نے فیصلہ کر دیا تھا۔ اس طوفان غم و ہم میں جیسا کہ انسان کی فطرت میں داخل ہے انہوں نے مجھ سے د عا کی درخواست ہی نہ کی بلکہ یہ بھی وعدہ کیا کہ خدا تعالیٰ ان پر رحم کرے اور ا س عذاب سے نجات دے۔ وہ تین ہزار نقد روپیہ بعد کامیابی کے بلاتوقف لنگر خانہ کی مدد کے لئے ادا کریں گے۔ چنانچہ بہت سی دعاؤں کے بعد مجھے یہ الہام ہوا کہ ’’اے سیف اپنا رخ اس طرف پھیر لے ‘‘۔ تب مَیں نے نواب محمد علی خان صاحب کو اس وحی الٰہی سے اطلاع دی۔ بعد اس کے خدا تعالیٰ نے ان پر رحم کیا اور صاحب بہادر وائسرائے کی عدالت سے ان کے مطلب اور مقصود اور مراد کے موافق حکم نافذ ہوگیا۔ تب انہوں نے بلا توقف تین ہزار روپیہ کے نوٹ جو نذر مقرر ہوچکی تھی مجھے دے دئے اور یہ ایک بڑا نشان تھا جو ظہور میں آیا ‘‘۔
(چشمہ ٔ معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۳۳۸۔۳۳۹)
حضر ت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام فرماتے ہیں :
’’پانچواں نشان جو ان دنوں میں ظاہر ہوا وہ ایک دعا کا قبول ہونا ہے جو درحقیقت احیائے موتٰی میں داخل ہے۔ تفصیل ا س اجمال کی یہ ہے کہ عبدالکریم نام ولد عبدالرحمن ساکن حیدرآباد دکھن ہمارے مدرسہ میں ایک لڑکا طالب العلم ہے، قضاء و قدر سے اس کو سگ دیوانہ کاٹ گیا۔ (یعنی ہلکایا کتا کاٹ گیا)۔ ہم نے ا س کو معالجہ کے لئے کسولی بھیج دیا۔ چند رو زتک ا س کا کسولی میں علاج ہوتارہا پھر وہ قادیان میں واپس آیا۔ تھوڑے دن گزرنے کے بعد ا س میں وہ آثار دیوانگی کے ظاہر ہوئے جو دیوانہ کتے کے کاٹنے کے بعد ظاہر ہوا کرتے ہیں اور پانی سے ڈرنے لگا اور خوفناک حالت پیدا ہوگئی۔ تب اس غریب الوطن عاجز کے لئے میرا دل سخت بے قرار ہوا اور دعا کے لئے ایک خاص توجہ پیدا ہوگئی۔ ہر ایک شخص سمجھتا تھا کہ وہ غریب چند گھنٹہ کے بعد مر جائے گا۔ ناچار اُس کو بورڈنگ سے باہر نکال کر ایک الگ مکان میں دوسروں سے علیحدہ ہر ایک احتیاط سے رکھا گیا اور کسولی کے انگریز ڈاکٹروں کی طرف تار بھیج دی اور پوچھا گیا کہ اِس حالت میں اُس کا کوئی علاج بھی ہے۔ ا ُس طرف سے بذریعہ تار جواب آیا کہ اب اس کا کوئی علاج نہیں-مگر اس غریب اور بے وطن لڑکے کے لئے میرے دل میں بہت توجہ پیدا ہوگئی اور میرے دوستوں نے بھی اس کے لئے دعا کرنے کے لئے بہت ہی اصرار کیا کیونکہ اس غربت کی حالت میں وہ لڑکا قابل رحم تھا اور نیز دل میں یہ خوف پیدا ہوا کہ اگر وہ مرگیا تو ایک بُرے رنگ میں اس کی موت شماتت اعداء کا موجب ہوگی۔تب میرا دل ا س کے لئے سخت درد اور بیقراری میں مبتلا ہوا اور خارق عادت توجہ پیدا ہوئی جو اپنے اختیار سے پیدا نہیں ہوتی بلکہ محض خدا تعالیٰ کی طرف سے پیدا ہوتی ہے اوراگر پیدا ہو جائے تو خداتعالیٰ کے اذن سے وہ اثر دکھاتی ہے کہ قریب ہے کہ اس سے مُردہ زندہ ہو جائے۔ غرض اس کے لئے اقبال علی اللہ کی حالت میسر آگئی اورجب وہ توجہ انتہا تک پہنچ گئی اوردرد نے اپنا پورا تسلّط میرے دل پر کر لیا تب اس بیمار پر جو درحقیقت مردہ تھا اس توجّہ کے آثار ظاہر ہونے شروع ہوگئے اور یا تو وہ پانی سے ڈرتا اور روشنی سے بھاگتا تھا اور یا یکدفعہ طبیعت نے صحت کی طر ف رخ کیا اوراس نے کہا کہ اب مجھے پانی سے ڈر نہیں آتا۔ تب اس کو پانی دیا گیا تو اس نے بغیر کسی خوف کے پی لیا بلکہ پانی سے وضو کرکے نما ز بھی پڑھ لی۔اور تمام رات سوتا رہا اور خوفناک اور وحشیانہ حالت جاتی رہی۔یہاں تک کہ چند روز تک بکلّی صحت یاب ہوگیا‘‘۔ اور یہ واقعہ نہ اس سے پہلے کبھی ہوا نہ بعدمیں- کیونکہ ایک دفعہ جب اثر ہو جائے تو بہرحال ڈاکٹر یہی کہتے ہیں کہ اس کا کوئی علاج نہیں-
حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓابن میاں کرم الدین صاحب سکنہ راجیکی ضلع گجرات بیان فرماتے ہیں کہ :-
حافظ آباد کے علاقہ میں ایک گاؤں ہے۔ وہاں ایک شخص الٰہی بخش رہا کرتا تھا۔ اسے ایک دفعہ بعض احمدیوں نے قادیان لانے کے لئے تیار کیا۔ وہ تیار ہوگیا۔ بٹالہ اترنے سے پہلے اسے بخار آگیا۔ بخار کی حالت میں ہی وہ بٹالہ سٹیشن پر اترا۔ آگے مولوی محمد حسین بٹالوی ملا۔ اس نے دیکھا کہ یہ شخص بخار کی حالت میں قادیان جا رہا ہے۔ اس نے اس کے دل میں وسوسہ ڈالا کہ اگر مرزا صاحب سچے ہوتے تو تجھے رستہ میں ہی بخار نہ ہو جاتا اور کہا کہ وہاں تو دکانداری ہے، وہاں ہرگز مت جانا۔ مگر اُس نے کہا ایک دفعہ تو ضرور جاؤں گا۔ چنانچہ وہ قادیان آیا۔ حضرت اقدس کی مجلس میں بیٹھا ہی تھا کہ حضور نے فرمایا۔ ہمارے بعض مخالف یہ بھی کہتے ہیں کہ یہاں دکانداری ہے۔ بیشک یہ دکان ہے مگر یہاں سے خدا اور اس کے رسول کا سودا ملتا ہے۔ یہ بات سن کر اس کی آنکھیں کھل گئیں اور اس کا ایمان تازہ ہوا اور معاً تیز بخار بھی اتر گیا۔ (رجسٹر روایات نمبر ۱۲۔ صفحہ ۱۴۰)
اب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک الہام کا ذکر کرتاہوں- ۱۸۸۳ء کا الہام ہے :

’’یَاعَبْدَالْقَادِرِ اِنِّی مَعَکَ اَسْمَعُ وَاَرٰی‘‘۔

اے عبدالقادر مَیں تیرے ساتھ ہوں ، سنتا ہوں اور دیکھتاہوں-
(براہین احمدیہ ہرچہار حصص روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۶۱۳۔ ترجمہ از صفحہ ۶۱۴ حاشیہ در حاشیہ نمبر ۳)
حضر ت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
’’مَیں اپنے ذاتی تجربہ سے بھی دیکھ رہا ہوں کہ دعاؤں کی تاثیر آب و آتش کی تاثیر سے بڑھ کر ہے بلکہ اسباب طبیعہ کے سلسلہ میں کوئی چیز ایسی عظیم التاثیر نہیں جیسی کہ دعا ہے۔‘۔(برکات الدعا۔ روحانی خزائن جلد ۶۔ صفحہ ۱۱)
پھر آپ ؑفرماتے ہیں : ’’دعا میں خدا تعالیٰ نے بڑی قوتیں رکھی ہیں- خدا نے مجھے بار بار الہامات کے ذریعہ یہی فرمایا ہے کہ جو کچھ ہوگا دعا کے ذریعہ سے ہوگا۔‘‘(سیرت مسیح موعودؑ از یعقوب علی عرفانی صاحبؓ۔ صفحہ ۵۱۸)

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں