خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ 9؍جون 2006ء

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت سے جڑے رہنے اور خلافت سے وابستہ رہنے کے لئے اطاعت کے وہ معیار قائم کرنے کی ضرورت ہے جو اعلیٰ درجہ کے ہوں۔
جو نظام حضرت مسیح موعودؑ کی جماعت میں نظام خلافت کے قائم کرنے سے قائم ہواہے اس کی بھی اطاعت کرو۔
امراء اورمرکزی عہدیداران اگر چاہتے ہیں کہ جماعت کے تعاون اور اطاعت کے معیار بڑھیں تو خود خلیفہ ٔوقت کے فیصلوں کی تعمیل اس طرح کریں جس طرح دل کی دھڑکن کے ساتھ نبض چلتی ہے۔
ہر عہدیدار اپنے سے بالاعہدیدار کی اطاعت کرے۔ ہر احمدی ہرعہدیدار کی اطاعت کرے۔
مربّیان کی بہت بڑی ذمہ دار ی ہے کہ جماعت میں اطاعت کی روح پیدا کریں۔
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ مورخہ 09؍جون 2006ء (09؍احسان 1385ہجری شمسی)بمقام مئی مارکیٹ۔منہائیم (جرمنی)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ٓ اَطِیْعُوا اللہ َواَطِیْعُواالرَّسُوْلَ وَاُوْلِیْ الْاَمْرِ مِنْکُمْ۔فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْء فَرُدُّوْہُ اِلَی اللہِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُوْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْاٰ خِرِ۔ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِیْلاً (سورۃ النساء آیت:60)

جماعت احمدیہ میں خلافت کی اطاعت اور نظام جماعت کی اطاعت پر جو اس قدر زور دیا جاتا ہے یہ اس لئے ہے کہ جماعتی نظام کو چلانے کے لئے یک رنگی پیدا ہونی ضروری ہے اور اس زمانے کے لئے جو آنحضرت ﷺ کا اعلان ہے کہ مسیح موعودؑ کے آنے کے بعد جو خلافت قائم ہونی ہے وہ عَلٰی مِنْہَاجِ النُّبُوَّۃ ہونی ہے اور وہ دائمی خلافت ہے اور جس کے بارہ میں حضرت
مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی فرمایا ہے کہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا دیکھنا بھی ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے۔ کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا۔ پھر آپ نے فرمایا کہ: ’’خدا نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا کہ مَیں اپنی جماعت کو اطلاع دوں کہ جو لوگ ایمان لائے ایسا ایمان جو اس کے ساتھ دنیا کی ملونی نہیں اور وہ ایمان نفاق یا بزدلی سے آلودہ نہیں اور وہ ایمان اطاعت کے کسی درجہ سے محروم نہیں۔ ایسے لوگ خدا کے پسندیدہ لوگ ہیں ‘‘۔ (رسالہ الوصیت۔ روحانی خزائن جلد 20صفحہ 309)
پس جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا اس دائمی قدرت کے ساتھ وابستہ رہنے کے لئے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت سے جُڑے رہنے اور خلافت سے وابستہ رہنے کے لئے،اطاعت کے وہ معیار قائم کرنے کی ضرورت ہے جو اعلیٰ درجہ کے ہوں جن سے باہر نکلنے کا کسی احمدی کے دل میں خیال تک پیدا نہ ہو۔ بہت سارے مقام آسکتے ہیں جب نظام جماعت کے خلاف شکوے پیدا ہوں۔ ہر ایک کی اپنی سوچ اور خیال ہوتا ہے اور کسی بھی معاملے میں آراء مختلف ہوسکتی ہیں، کسی کام کرنے کے طریق سے اختلاف ہوسکتا ہے۔ لیکن نظام جماعت اور نظام خلافت کی مضبوطی کے لئے جماعتی نظام کے فیصلہ کو یا امیر کے فیصلہ کو تسلیم کرنا اس لئے ضروری ہوتا ہے کہ خلیفۂ وقت نے اس فیصلے پر صاد کیا ہوتا ہے یا امیر کو اختیار دیا ہوتا ہے کہ تم میری طرف سے فیصلہ کردو۔ اگر کسی کے دل میں یہ خیال ہو کہ یہ فیصلہ غلط ہے اور اس سے جماعتی مفاد کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہے تو خلیفۂ وقت کو اطلاع کرنا کافی ہے۔ پھر خلیفۂ وقت جانے اور اس کا کام جانے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو ذمّہ دار اور نگران بنایا ہے اور جب خلیفہ، خلافت کے مقام پر اپنی مرضی سے نہیں آتا بلکہ خدا تعالیٰ کی ذات اس کو اس مقام پر اس منصب پر فائز کرتی ہے تو پھر خداتعالیٰ اس کے کسی غلط فیصلے کے خود ہی بہتر نتائج پیدا فرمادے گا۔ کیونکہ اس کا وعدہ ہے کہ خلافت کی وجہ سے مومنوں کی خوف کی حالت کو امن میں بدل دے گا۔ مومنوں کا کام صرف یہ ہے کہ اللہ کی عبادت کریں، اس کے احکامات کی بجاآوری کریں اور اس کے رسول کے حکموں کی پیروی کرنے کی کوشش کریں اور کیونکہ خلیفہ نبی کے جاری کردہ نظام کی بجاآوری کی جماعت کو تلقین کرتا ہے اور شریعت کے احکامات کو لاگو کرنے کی کوشش کرتاہے اس لئے اس کی اطاعت بھی کرو اور اس کے بنائے ہوئے نظام کی اطاعت بھی کرو۔اور افراد جماعت کی یہ کامل اطاعت اور خلیفہ ٔوقت کے اللہ کے آگے جھکتے ہوئے، اس سے مدد مانگتے ہوئے کئے گئے فیصلوں میں اللہ تعالیٰ اپنی جماعت کے ایمان کو مضبوط کرنے کے لئے اور اپنے بنائے ہوئے خلیفہ کو دنیا کے سامنے رُسوا ہونے سے بچانے کے لئے برکت ڈال دے گا۔ کمزوریوں کی پردہ پوشی فرمادے گا اور اپنے فضل سے بہتر نتائج پیدا فرمائے گا اور من حیث الجماعت اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے جماعت کو ہمیشہ بڑے نقصان سے بچالیتا ہے اور یہی ہم نے اب تک اللہ تعالیٰ کا جماعت سے اور خلافت احمدیہ سے سلوک دیکھا ہے اور دیکھتے آئے ہیں۔
یہ آیت جو مَیں نے تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر فرمایا ہے کہ

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ٓ اَطِیْعُوا اللّٰہَ واَطِیْعُواالرَّسُوْلَ وَاُوْلِیْ الْاَمْرِ مِنْکُمْ…… (سورۃ النساء آیت:60)

اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے حکّام کی بھی۔ اور اگر تم کسی معاملہ میں اولوالامر سے اختلاف کرو تو ایسے معاملے اللہ اور رسول کی طرف لوٹا دیا کرو۔ اگر فی الحقیقت تم اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان لانے والے ہو۔ یہ بہت بہتر طریق ہے اور انجام کے لحاظ سے بہت اچھاہے۔ یعنی تمہارا کام اطاعت کرنا ہے اللہ تعالیٰ کے حکموں کی پوری پیروی کرو۔ پہلے اپنے آپ کو دیکھو کہ تم اللہ کے حکموں کی پیروی کررہے ہو؟ اللہ تعالیٰ نے شریعت کے جو احکامات اتارے ہیں، پہلے تو ان کا فہم و ادراک حاصل کرو، کیا وہ تمہیں حاصل ہوگیا ہے۔ اور جب مکمل طور پر حاصل ہوگیا ہے تو پھر اُن احکامات کو اپنی زندگیوں کا حصہ بناؤ اور جب ایک شخص خود اس پر عمل کرنے لگ جائے گا اور اس کے ساتھ رسول اللہﷺ کی سنت پر بھی عمل کررہا ہوگا تو پھر وہ شاید اپنے خیال میں یہ کہنے کے قابل ہوسکتا ہے کہ ہاں اب مَیں ایمان لانے والوں میں سے ہوں۔ لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوجاتی، یہ آیت ہمیں کچھ اور بھی کہتی ہے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم علمی اور عملی لحاظ سے احکام شریعت کے بہت پابند ہیں اور علم رکھنے والے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ جو غیب کا علم بھی رکھتا ہے اور حاضر کا علم بھی رکھتاہے اور جو آئندہ ہونے والا ہے اس کا علم بھی رکھتاہے اس کو پتہ تھا کہ اگر صرف اللہ اور رسول ﷺ کی اطاعت کا کہہ دیا تو کئی نام نہاد علماء اور بزم خویش سنت رسولؐ پر چلنے والے پیدا ہوں گے اور جو جماعت کی برکت ہے وہ نہیں رہے گی اور ہر ایک نے اپنی ایک ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنائی ہوگی اور اپنے محدود علم کو ہی انتہا سمجھیں گے اور آج ہم مسلمانوں میں دیکھتے ہیں تو یہی کچھ نظر آتا ہے۔ لیکن یہ جو زعم ہے کہ ہم اللہ اور رسول کے حکم پر عمل کررہے ہیں، اس کو بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ سے یہ کہلوا کر ختم کردیا کہ مسیح موعود کے آنے کے بعد اس کو ماننا ضروری ہے اور پھر اس کے بعد جو خلافت عَلٰی مِنْہَاجِ النُّبُوَّۃ قائم ہونی ہے اس کی اطاعت بھی ضروری ہے۔ ورنہ یہ دعویٰ ہے کہ ہم نے اللہ اور رسول کی اطاعت کرلی۔ اور پھر اس سے آگے اللہ تعالیٰ نے نظام جماعت میں یکرنگی پیداکرنے کے لئے اور اس نظام کی حفاظت کے لئے یہ بھی فرمادیا کہ اولوالامر کی بھی اطاعت کرو۔ صرف مسیح موعودؑ کو جو مان لیا اس کے بعد جو نظام مسیح موعودؑ کی جماعت میں، نظام خلافت کے قائم ہونے سے قائم ہوا ہے اس کی بھی اطاعت کرو۔
آج ہم پر اللہ تعالیٰ کا یہ احسان ہے کہ اس نے ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی ہے۔ اور ہم اس نظام میں پروئے گئے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے حکموں کی طرف توجہ دلاتا رہتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے پیارے رسول ﷺکی سنت کی طرف بھی توجہ دلاتا رہتا ہے اور ہم دوسرے مسلمان فرقوں کی طرح بکھرے ہوئے نہیں بلکہ خلافت کی برکت کی وجہ سے ایک لڑی میں پروئے ہوئے ہیں اور یہ بھی اللہ تعالیٰ کا ہم پر احسان ہے کہ اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ ولسلام کو اپنے وعدے کے مطابق علوم ظاہری و باطنی سے پُر، ذہین اور فہیم، ایسا موعود بیٹا عطا فرمایا جس نے اللہ تعالیٰ کی رہنمائی سے ہم میں چھوٹی سے چھوٹی سطح سے لے کر ملکی اور پھر مرکزی سطح پر ایک ایسا جماعتی ڈھانچہ بنا کر دے دیا جس میں نہ صرف جماعت کے انتظامی معاملات بلکہ تربیتی، تبلیغی، تعلیمی، تمام قسم کے معاملات جو ہیں،سب کا ایک اعلیٰ انتظام موجود ہے۔ پھر جماعت کے ہر طبقے کو اس کی ذمہ داریوں کا احساس پیدا کرنے کے لئے،ہر طبقے کے ہر شخص کو جماعتی معاملات میں شامل کرنے اور اس کو اس کی اہمیت کا احساس دلانے کے لئے ذیلی تنظیموں، خدام، اطفال، لجنہ،ناصرات، انصار کا قیام فرمایا۔ آج یہی وجہ ہے کہ جماعت کا ہر وہ شخص، ہر وہ بچہ اور جوان اور عورت جس کا اپنی تنظیموں سے ابتدائی عمر سے رابطہ ہے وہ ان تنظیموں میں شمولیت کی وجہ سے جماعتی ڈھانچے اور اطاعت کے مضمون کو سمجھتے ہیں۔ ان تنظیموں میں ابتداء سے حصہ لینے والے کو علم ہے کہ ان کی حدود کیا ہیں، اس کی ذیلی تنظیموں کی حدود کیا ہیں جماعتی نظام کی اہمیت کیا ہے اور خلیفۂ وقت کی اطاعت کس طرح کرنی ہے۔ لیکن بعض دفعہ دنیا داری کی وجہ سے اپنی اہمیت اور انا کی وجہ سے بعض لوگوں کی آنکھوں پر پردہ پڑ جاتا ہے اور باوجود اس اہمیت کا علم ہونے کے کہ اطاعت میں کتنی برکت ہے بعض ایسی باتیں کرجاتے ہیں جس سے اگر جماعتی نظام متاثر نہ بھی ہو تو پھر بھی بعض کمزور ایمان والوں یا نئے آنے والوں کے لئے ٹھوکر کا باعث بن جاتے ہیں۔ مثلاً اگر کوئی کمیشن کسی بارے میں قائم ہوا ہے کہ تحقیق کرکے بتائیں، بعض لوگوں کے بعض معاملات کی رپورٹ دیں یا بعض دفعہ کوئی معاملہ خلیفہ وقت کی طرف سے بھجوایا جاتا ہے کہ اس بارے میں جائزہ اور رپورٹ دیں تو تحقیق کرنے کے بعد یا جائزہ لینے کے بعد جو رپورٹ بھجوائی جاتی ہے اگر خلیفۂ وقت اس کے مطابق کوئی فیصلہ نہ کرے تو اور کچھ نہیں کہہ سکتے تو جماعت میں یا کم ازکم اس طبقے میں یہ بات کہہ کر بے چینی پیدا کردیتے ہیں کہ ہم نے تو یوں لکھا تھا پتہ نہیں نیشنل امیر نے یا مرکزی عاملہ نے رپورٹ بدل کر بھیج دی ہے یا خلیفۂ وقت نے اس کے الٹ فیصلہ دیا ہے۔بہرحال ہم نے تو یہ رپورٹ نہیں دی تھی۔ تو یہ ایسی بات ہے جو یقینا جماعت میں فتنے کا باعث بن سکتی ہے۔پہلی بات تو یہ ہے کہ ایسے لوگوں کو ایسی باتوں سے احتراز کرنا چاہئے۔ اگر کسی سطح پر آپ لوگوں کو خدمت کا موقع دیا گیا ہے تو اس کو فضل الٰہی سمجھیں اور اُن حدود کے اندر ہی رہیں جو مقرر کی گئی ہیں اور اپنی حدود سے تجاوز نہ کریں۔بعض لوگ بیوقوفی اور کم علمی کی وجہ سے ایسی باتیں کرتے ہیں، بعض اپنی انا کی وجہ سے۔ اور مختلف ملکوں میں ایسے معاملات اکاّدکاّ اٹھتے رہتے ہیں اور توجہ دلانے پر پھر احساس بھی ہوجاتاہے اور معافی بھی مانگتے ہیں۔
لیکن آج مَیں خطبے میں اس بات کا ذکر اس لئے بھی کررہا ہوں کہ یہ سب کو بتادوں کہ جو فتنے کے لئے یہ باتیں کرتے ہیں ان کے علم میں آجائے کہ اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کافی میچور (Mature) ہوچکی ہے۔ اپنی بلوغت کو پہنچ چکی ہے اور ایسے لوگ جن کو اللہ تعالیٰ نے خدمت کا موقع دے دیا ہے وہ بھی اپنی نظر اور سوچ کو اپنی ذات کے محور سے نکالیں۔ پھر بعض لوگ اپنی رائے اور عقل کو سب سے بالا سمجھتے ہیں وہ بھی اس خول سے نکلیں۔ آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت میں عقل رکھنے والے بھی بہت ہیں۔ علم رکھنے والے بھی بہت ہیں، تقویٰ پر چلنے والے بھی بہت ہیں، تعلق باللہ والے بھی ہیں، اس لئے ہر خدمت گزار جس کو کسی بھی سطح پر خدمت کا موقع ملتا ہے جیسا کہ مَیں نے پہلے کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ کا فضل سمجھتے ہوئے اور کامل اطاعت کے ساتھ اس خدمت کی برکات سے فیض اٹھائیں ورنہ اگرکوئی بھی عہدیدار کسی بھی سطح پر کھلے دل سے اور بغیر کوئی خیال دل میں لائے خلیفہ ٔوقت کی اطاعت نہیں کرے گا تو اس کے عہدے کی حدود میں اس سے نیچے کام کرنے والے بھی اس کی اطاعت نہیں کریں گے۔ اور کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا نظام ہے اس لئے اللہ تعالیٰ ایک وقت تک ایسے لوگوں کو موقع دیتا ہے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا خدمت کو اللہ کا فضل سمجھیں، ہم نے تو یہی دیکھا ہے کہ ایسے لوگوں کی وہاں تک پردہ پوشی ہوتی ہے یا اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کی پردہ پوشی فرماتا ہے جب تک کہ ان کی خدمت جماعت کے مفاد میں رہے۔
یہاں مَیں خطبہ دے رہا ہوں اس لئے یہ واضح کردوں کہ صرف یہاں نہیں بلکہ بعض دوسرے ملکوں میں بھی بعض عہدیدار اپنے آپ کو عقلِ کُل سمجھتے ہیں اور وہ بھی اپنے تکبر اور انانیت میں پڑے ہوئے ہیں۔ ان کو بھی اپنے خول سے باہر آنا چاہئے۔ کیونکہ یہی عادت بن چکی ہے کہ جہاں خطبہ دیا جارہا ہو،لوگ سمجھتے ہیں کہ صرف و ہی مخاطب ہیں۔ بلکہ جہاں جہاں بھی یہ بیماریاں یا برائیاں ہیں اور ہر جگہ کے وہ لوگ، لوگوں کے خطوط کے ذریعہ سے میرے علم میں آتے رہتے ہیں، ہر اس جگہ پر جہاں ایسے لوگ موجود ہیں جن کے ذہنوں میں خنّاس سمایا ہوا ہے ان کو اس سے باہر نکلنا چاہئے اور استغفار کرنی چاہئے۔
دوسرے نیشنل امراء سے مَیں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جب کسی بھی قسم کی تحقیق کے لئے کمیشن بناتے ہیں تو تلاش کرکے تقویٰ شعار لوگوں کے سپرد یہ کام کیا کریں۔ یا اگر میرے پاس کسی کمیشن کے بنانے کی تجویزدی جاتی ہے تو ایسے لوگوں کے نام آیا کریں جو تقویٰ پر چلنے والے ہوں اور انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے والے ہوں اور اطاعت کے اعلیٰ معیار کے حامل ہوں۔ کسی بھی فریق سے ان کا کسی بھی قسم کا تعلق نہ ہو۔ اسی طرح امراء اور مرکزی عہدیداران کو بھی مَیں کہتا ہوں کہ اگر وہ چاہتے ہیں کہ جماعت کے تعاون اور اطاعت کے معیار بڑھیں تو خود خلیفۂ وقت کے فیصلوں کی تعمیل اس طرح کریں جس طرح دل کی دھڑکن کے ساتھ نبض چلتی ہے۔ یہ معیار حاصل کریں گے تو پھر دیکھیں کہ ایک عام احمدی کس طرح اطاعت کرتا ہے کیونکہ ایک احمدی کے لئے جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مانا ہے اور اس یقین پر قائم ہے کہ اب یہ سلسلۂ خلافت چلنا ہے انشاء اللہ اور جیسا کہ آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا یہ دائمی اور ہمیشہ رہنے والا سلسلہ ہے ان لوگوں کے لئے جو ایمان میں ترقی کرنے والے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کے احکام پر عمل کرنے والے ہوں گے، تو احمدی کے لئے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے بعد سب سے زیادہ اطاعت اولوالامر کے طور پر خلیفۂ وقت کی اطاعت ہے۔ پھر مرتبے کے لحاظ سے ہر سطح پر جماعتی نظام کا ہر عہدیدار قابل اطاعت ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ نظام اور اولوالامر کی اطاعت یہ معیار بنے گی تمہارے ایمان کی حالت کی اور اس بات کی کہ حقیقت میں تم یوم آخرت پر ایمان لانے والے ہو۔ اس یقین پر قائم ہو کہ مرنے کے بعد خدا کے حضور حاضر ہونا ہے اور وہاں یہ سوال بھی ہونا ہے کہ تم نے اپنی بیعت کے بعد اپنی اطاعت کے معیار کو کس حد تک بڑھایا ہے۔ وہاں غلط بیانی ہو نہیں سکتی۔ کیونکہ جسم کے ہر عضو نے گواہی دینی ہے اور اس دن کسی کا کوئی عضو بھی اس کے اپنے کنٹرول میں نہیں ہوگا اس کی اپنی بات نہیں مانے گا بلکہ وہی کہے گا جو حق ہے، حقیقت ہے اور سچ ہے۔ پس اگر آخرت پر یقین ہے اور بہتر انجام چاہتے ہو، اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا چاہتے ہو تو اللہ اور رسول کی اطاعت کے ساتھ اولوالامر کے ہر حکم کو بھی مانو۔اس کی کسی بات کو تخفیف کی نظر سے نہ دیکھو۔کیسے ہی حالات ہوں اطاعت کا دامن کبھی نہ چھوڑو۔بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے اس سے دنیاوی حاکم بھی مراد ہیں۔ ان کی اطاعت کرنا بھی فرض ہے اور سوائے اس کے کہ وہ کوئی غیر شرعی حکم دیں تم نے اطاعت کرنی ہے۔ تو یہ عمومی حکم ہر ایک کے لئے ہے۔ عہدیداروں کے لئے بھی ہے اور عام احمدی کے لئے بھی ہے۔ بلکہ اللہ اور رسول کی طرف لوٹنے کا حکم اس لئے ہے کہ اگر کوئی دنیاوی حاکم کوئی ایسا حکم دے جو غیر شرعی ہو تو اللہ اور رسول سے رہنمائی لو،قرآن اور سنت سے رہنمائی لو۔جماعتی نظام میں تو تمہیں یہ حکم نہیں ملنا جو خلاف شریعت ہو۔نہ خلیفۂ وقت کی طرف سے شریعت کے خلاف کوئی حکم دیا جائے گا۔
دنیاوی حاکموں کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:’’ اگر حاکم ظالم ہو تو اس کو برا نہ کہتے پھرو، بلکہ اپنی حالت میں اصلاح کرو۔ خدا اس کو بدل دے گا یا اسی کو نیک کردے گا۔ جو تکلیف آتی ہے وہ اپنی ہی بدعملیوں کے سبب آتی ہے۔ ورنہ مومن کے ساتھ خدا کا ستار ہ ہوتا ہے۔ مومن کے لئے خداتعالیٰ آپ سامان مہیا کردیتا ہے۔ میری نصیحت یہی ہے کہ ہر طرح سے تم نیکی کا نمونہ بنو۔ خدا کے حقوق بھی تلف نہ کرو اور بندوں کے حقوق بھی تلف نہ کرو‘‘۔ (الحکم جلد 5نمبر 19مورخہ 24؍ مئی 1901ء صفحہ9)
تو ہر احمدی کو یہ سوچنا چاہئے کہ حکم عمومی طور پر ہر ایک کے لئے ہے۔ اس نے تو بہر حال اپنے نظام اور جو بھی عہدیدار ہے اس کی اطاعت کرنی ہے کیونکہ وہ خلیفۂ وقت کا قائم کردہ نظام ہے۔ لیکن عہدیداروں کو بھی یہ سوچنا چاہئے کہ انہوں نے اگر اطاعت کے معیار بڑھانے ہیں تو خود بھی اطاعت کے اعلیٰ نمونے قائم کریں۔
پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :’’اطاعت ایک ایسی چیز ہے کہ اگر سچے دل سے اختیار کی جائے تو دل میں ایک نور اور روح میں ایک لذّت اور روشنی آتی ہے۔ مجاہدات کی اس قدر ضرورت نہیں ہے جس قدر اطاعت کی ضرورت ہے۔ مگر ہاں یہ شرط ہے کہ سچی اطاعت ہو اور یہی ایک مشکل امر ہے۔اطاعت میں اپنے ہوائے نفس کو ذبح کردینا ضروری ہوتا ہے‘‘۔
اپنی جو نفسانی خواہشات، انائیں، جھوٹی عزتیں ہیں ان کواطاعت کے لئے ذبح کرنا پڑتا ہے۔ ہر سطح پر ہر احمدی کو ایک عام احمدی سے لے کر(عام تو نہیں بلکہ ہر احمدی خاص ہے کیونکہ اس نے زمانے کے امام کو مانا ہے، عام سے میری مراد یہ ہے کہ ایک احمدی جو عہدیدار نہیں ہے، اس سے لے کر) بڑی سے بڑی سطح کے عہدیدار تک، ہر ایک کو اپنی نفس کی خواہشات کو کچلنا ہوگا۔ اور وہ اسی وقت پتہ لگتا ہے جب اپنے خلاف کوئی بات ہو۔ جہاں تک دوسروں کے معاملات آتے ہیں، ہر ایک بڑھ بڑھ کر اپنی سچائی ظاہر کرنے کے لئے گواہیاں دے رہاہوتا ہے۔ لیکن جہاں اپنا معاملہ آجائے یا اپنے بچوں کا معاملہ آجائے وہاں جھوٹ کو بنیاد بنالیا جاتا ہے۔
فرمایا کہ:’’ اطاعت میں اپنے ہوائے نفس کو ذبح کردینا ضروری ہوتا ہے۔ بدُوں اس کے اطاعت ہو نہیں سکتی‘‘۔ اگر یہ نفس کو ذبح نہیں کرتے تواس کے بغیر اطاعت ہی نہیں کرتے’’ اورہوائے نفس ہی ایک ایسی چیز ہے جو بڑے بڑے موحدوں کے قلب میں بھی بت بن سکتی ہے‘‘۔ بڑے بڑے جو دعویٰ کرنے والے ہیں کہ ہم عبادت کرنے والے ہیں اور ایک خدا کی عبادت کرنے والے ہیں اور اللہ کو ایک جاننے والے ہیں اور اس کا تقویٰ ہمارے دل میں ہے، خوف ہے۔جب اپنے معاملے آتے ہیں جیسا کہ مَیں نے کہا تو پھر یہ سب چیزیں نکل جاتی ہیں۔ پھر نفس بت بن کے سامنے کھڑا ہوجاتا ہے۔ پس دیکھیں جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی فرمایا ہے کہ اپنے نفس کی اَنا کو دبانا بہت مشکل ہے۔
پس اگر اللہ کی رضا حاصل کرنی ہے تو صرف زبانی نعروں سے یہ رضا حاصل نہیں ہوگی کہ ہم ایک خدا کو ماننے والے ہیں اور اس کی عبادت کرنے والے ہیں بلکہ امام الزمان، اس کے خلیفہ اور اس کے نظام کے آگے یوں سرڈالنا ہوگا کہ انانیت کی ذرا سی بھی ملونی نظر نہ آئے، کچھ بھی رمق باقی نہ رہے۔ورنہ تو یہ انانیت کے بُت اس نظام کے خلاف کھڑے نہیں ہوتے بلکہ پھر یہ خلیفہ وقت کے مقابلے پہ بھی کھڑے ہوجاتے ہیں۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سامنے بھی کھڑے ہوجاتے ہیں۔ پھر آنحضرت ﷺ کے مقابلے پر بھی کھڑے ہوجاتے ہیں۔وہاں سے بھی اطاعت سے باہر نکل جاتے ہیں، پھر اللہ تعالیٰ کے مقابلے پر بھی کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اور وہی شخص جو یہ خیال کررہا ہوتا ہے کہ مَیں سب سے بڑا موحّد ہوں، خدا کی عبادت کرنے والا ہوں، شرک کرنے والوں میں شامل ہو جاتا ہے۔ اللہ کرے کہ ہر احمدی اس شرک سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے والا ہو۔اللہ سے مدد مانگتے ہوئے اپنے نفس کی خواہشات اور اناؤں کو ختم کرنے کی کوشش کریں اور وہ نمونے قائم کریں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی جماعت میں قائم کرنا چاہتے ہیں۔
آپؑ فرماتے ہیں :’’ یہ سچی بات ہے کہ کوئی قوم، قوم نہیں کہلاسکتی اور ان میں ملیّت اور یگانگت کی روح نہیں پھونکی جاتی جب تک کہ وہ فرمانبرداری کے اصول کو اختیار نہ کرے‘‘۔ فرمایا کہ اگر اختلاف رائے کو چھوڑ دیں اور ایک کی اطاعت کریں جس کی اطاعت کا اللہ نے حکم دیا ہے۔ اب اللہ اور رسول کی اطاعت کے بعد اولوالامر کی اطاعت ہے اور اولوالامر میں نظام جماعت کا ہر شخص شامل ہے۔ ایک احمدی بھی جو عہدیدار نہیں ہے اور وہ بھی جو عہدیدار ہے۔ ہر عہدیدار اپنے سے بالا عہدیدار کی اطاعت کرے۔ ہر احمدی ہر عہدیدار کی اطاعت کرے۔
فرمایا کہ:’’ اگر اختلاف رائے کو چھوڑ دیں اور ایک کی اطاعت کریں جس کی اطاعت کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے پھر جس کام کو چاہتے ہیں وہ ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ جماعت پر ہوتا ہے۔ اس میں یہی تو سرّ ہے‘‘۔ یہی ایک راز ہے، یہی اصل بات ہے اور یہی جڑ ہے کہ’’ اللہ تعالیٰ توحید کو پسند فرماتا ہے اور یہ وحدت قائم نہیں ہوسکتی جب تک اطاعت نہ کی جاوے‘‘۔ (الحکم جلد 5نمبر5 مورخہ 10؍فروری 1901ء)
پس یہ اطاعت کے معیار ہیں جو ایک احمدی کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور اسی سے توحید کا قیام ہونا ہے۔ پس اس کے لئے ہر احمدی کو، ہرمرد کو، ہر عہدیدار کو، ہر ممبر جماعت کو، ہر مربی اور مبلغ کو کوشش کرنی چاہئے تاکہ اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے توحید کے قیام کا جو کام حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سپرد فرمایا ہے اس کو ہم آگے سے آگے لے جاسکیں۔ انشاء اللہ۔
پس جیسا کہ مَیں نے کہا سب سے پہلے اس کے لئے عہدیدار یا کوئی بھی شخص جس کے سپرد کوئی بھی خدمت کی گئی ہے اپنا جائزہ لے اور اطاعت کے نمونے قائم کرے کیونکہ جب تک کام کرنے والوں میں اطاعت کے اعلیٰ معیار پیدا کرنے کی روح پیدا نہیں ہوگی، افراد جماعت میں وہ روح پیدا نہیں ہو سکتی۔ پس ہر لیول پر جو عہدیدار ہیں چاہے وہ مقامی عاملہ کے ممبر یا صدر جماعت ہیں، ریجنل امیر ہیں یا مرکزی عاملہ کے ممبر یا امیر جماعت ہیں اپنی سوچ کو اس سطح پر لائیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مقرر فرمائی ہے کہ اپنی، اپنے نفس کی خواہشات کو، اناؤں کو ذبح کرو۔ اور جب یہ مقام حاصل ہوگا تو پھر دل اللہ تعالیٰ کے نور سے بھرجائے گا اور روح کو حقیقی خوشی اور لذت حاصل ہوگی ایسا مومن جو کام بھی کرے گا وہ یہ سوچ کرکرے گا کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کررہا ہے اور یہی ایک مومن کا مقصد ہونا چاہئے۔
پس جہاں جماعتی عہدیداران یہ روح اپنے قول و فعل سے جماعت میں پیدا کرنے کی کوشش کریں وہاں مربیان اور مبلغین کا بھی کام ہے کہ اپنے قول و فعل کے اعلیٰ نمونے قائم کرتے ہوئے جماعت کی اس نہج پر تربیت کریں جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام چاہتے ہیں۔ ذیلی تنظیمیں اپنی اپنی مجالس میں اس طریق پر اپنی متعلقہ تنظیموں کے ممبران کی تربیت کریں جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خواہش ہے۔ اور جب اطفال اور ناصرات کے لیول سے یہ تربیتی اُٹھان ہورہی ہوگی تو بہت سے معاشرتی اور اخلاقی مسائل جو اس معاشرے میں پیدا ہورہے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے دور ہورہے ہوں گے۔ ہمارے بچے معاشرے کے غلط اثرات سے بچ رہے ہوں گے۔ اس وجہ سے گھروں کا امن اور سکون پہلے سے بڑھ کر قائم ہورہا ہوگا۔ پس اس اطاعت کے معیار کو بڑھانے کے لئے ہر سطح پر کوشش کریں، ہر سطح پر، ہر عہدیدار اپنے سے بالا عہدیدار کی اطاعت کرے۔احباب جماعت اپنے عہدیداران کی اطاعت کریں اور سب مل کر خلافت سے سچے تعلق اور اطاعت کا اعلیٰ نمونہ دکھائیں۔
یہاں مَیں مربیان، مبلغین کو ایک اور بات کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ ایک تو جیسا کہ مَیں نے کہا کہ جہاں جہاں بھی وہ ہیں اپنے اعلیٰ نمونے دکھاتے ہوئے امراء کی اطاعت کے نمونے دکھائیں اور اگر امیر میں یا عہدیدار میں کوئی ایسی بات دیکھیں جو جماعتی روایات کے خلاف ہو تو عہدیداران کو اور امیر کو علیحدگی میں توجہ دلائیں۔ حدیث میں یہی آیا ہے کہ اگر کسی امیر میں گناہ دیکھو تو تب بھی تم اس کی اطاعت کرو۔ توجہ دلاؤ اور اس کے لئے دعا کرو، اور اگر وہ عہدیدار اور امیر پھر بھی اپنی بات پر زور دیں اور آپ یہ سمجھتے ہوں کہ جماعتی مفاد متاثر ہورہا ہے تو پھر خلیفۂ وقت کو اطلاع کردیں لیکن یہ تاثر کبھی بھی جماعت میں نہیں پھیلنا چاہئے کہ مربی اور امیر کی آپس میں صحیح انڈرسٹینڈنگ (Understanding) نہیں ہے یا آپس میں تعاون نہیں ہے۔
دوسرے یہ بھی مربیان کو خیال رکھنا چاہئے کہ مربی کے لئے کبھی بھی جماعت کے کسی فرد کے ذہن میں یہ تاثر نہیں پیدا ہونا چاہئے کہ فلاں مربی یامبلغ کے فلاں شخص سے بڑے قریبی تعلقات ہیں اور اگر کوئی معاملہ اس کے سامنے پیش کیا جائے تو فلاں مربی یا مبلغ یا واقف زندگی اس کی ناجائز طرفداری کرے گا۔ مربی، مبلغ یا کسی بھی مرکزی عہدیدار کا یہ کام ہے کہ اپنے آپ کو ہر مصلحت سے بالا رکھ کر، ہر تعلق کو پس پشت ڈال کر جماعتی مفاد کے لئے کام کرنا ہے اور جماعت کے افراد کے لئے عمومی طور پر بھی اور بعض معاملات اٹھنے پر خاص طور پر بھی،ایسا رویہ رکھیں اور تربیت کریں کہ فریقین ہمیشہ اطاعت کے دائرے میں رہیں۔ یہ مربیان کی بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ جماعت میں اطاعت کی روح پیدا کردیں۔ کیونکہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے دینی علم سے بھی نوازا ہوا ہے۔ پس اس طرف خاص توجہ دیں۔ جماعت میں جماعت کی روح پیدا کرنے کے لئے بنیادی چیز ہی یہ ہے کہ جماعت کے ہر فرد میں اطاعت کا جذبہ اور روح پیدا کردیں۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ نے اطاعت کی طرف بہت توجہ دلائی ہے۔
جیسا کہ مَیں نے جو آیت تلاوت کی تھی اس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اطاعت کرنے والوں کا ہی انجام اچھا ہے۔ بہت سے لوگ لکھتے ہیں کہ دعا کریں کہ انجام بخیر ہو، تو ا نجام بخیر کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک بہت اہم راستہ ہمیں دکھا دیا ہے کہ اللہ اور رسول اور اولوالامر کی اطاعت کرو اور اپنے اوپر یہ لازم کرلو تو اللہ تم پررحم فرماتے ہوئے پھر تمہارا انجام بخیر کرے گا۔
اس بارہ میں کہ کس حد تک ہمیں اطاعت کرنی چاہئے آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ میرے امیر کی اطاعت، میری اطاعت ہے اور میری اطاعت اللہ کی اطاعت ہے اور میرے امیر کی نافرمانی میری نافرمانی ہے اور میری نافرمانی خداتعالیٰ کی نافرمانی ہے۔ تو اس حد تک اطاعت کا حکم ہے۔اس کو ہر احمدی کو ہمیشہ اپنے ذہن میں رکھنا چاہئے کیونکہ یہی ہماری بنیاد ہے، یہی ہماری اساس ہے اور اس کے بغیر جماعت کا تصور ہی نہیں ہے۔
ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ

اَطِیْعُوااللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ (آل عمران:133)

کہ اللہ اور رسول کی اطاعت کرو تاکہ رحم کئے جاؤ۔ تواللہ تعالیٰ کا یہ رحم حاصل کرنے کے لئے اس کی اور اس کے رسول کی اطاعت کرنی ہوگی۔ وہ اطاعت جیسا کہ مَیں نے پہلے بیان کیا ہے حدیث میں آتا ہے کہ امیر کی اطاعت کرو گے تو میری اطاعت کرو گے اور میری اطاعت کرو گے تو خدا کی اطاعت کرو گے۔ پس اللہ تعالیٰ کا یہ رحم حاصل کرنے کی ہر ایک کو کوشش کرنی چاہئے۔ اطاعت جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ آسان کام نہیں ہے لیکن اللہ تعالیٰ کا رحم حاصل کرنے کے لئے اطاعت کے دائرے میں ہی ایک احمدی نے رہنا ہے۔ بہت سی باتیں عہدیداران یا امراء کی طرف سے ایسی ہوتی ہیں جو طبیعت پر گراں گزرتی ہیں۔ لیکن جماعت کے وقار اور اپنی عاقبت کے لئے ان کو برداشت کرنا پڑتا ہے اور اس صبر کا ثواب بھی ہے۔
ایک روایت میں آتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جو شخص اپنے حاکم سے ناپسندیدہ بات دیکھے وہ صبر کرے کیونکہ جو نظام سے بالشت بھر جدا ہوا اس کی موت جاہلیت کی موت ہوگی۔ (بخاری کتاب الأحکام باب السمع والطاعۃ الامام ما لم تکن معصیۃ)
پس اس جاہلیت کی موت سے بچنے کے لئے اور اللہ تعالیٰ کا رحم حاصل کرنے کے لئے اطاعت ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو جہالت سے بچاتے ہوئے ہدایت پر قائم رکھے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں اطاعت پوری ہو تو ہدایت پوری ہوتی ہے۔ ہماری جماعت کے لوگوں کو خوب سن لینا چاہئے اور خداتعالیٰ سے توفیق طلب کرنی چاہئے کہ ہم سے کوئی ایسی حرکت نہ ہو۔ اب خداتعالیٰ کے فضل کے بغیر کچھ حاصل نہیں ہوسکتا۔ اس لئے آپؑ نے فرمایا کہ خداتعالیٰ کے آگے جھکو اور اس سے دعا مانگو، اس سے توفیق طلب کرو کہ وہ اس انانیت کو ختم کرے اور صحیح اطاعت کی روح پیدا کرے۔
پھر آپؑ فرماتے ہیں :’’ غرض صحابہؓ کی سی حالت اور وحدت کی ضرورت اب بھی ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس جماعت کو جو مسیح موعود کے ہاتھ سے تیار ہورہی ہے اُسی جماعت کے ساتھ شامل کیا ہے جو رسول اللہﷺ نے تیارکی تھی اور چونکہ جماعت کی ترقی ایسے ہی لوگوں کے نمونوں سے ہوتی ہے اس لئے تم جو مسیح موعودؑ کی جماعت کہلا کر صحابہ کی جماعت سے ملنے کی آرزو رکھتے ہو اپنے اندر صحابہ کا رنگ پیدا کرو۔ اطاعت ہو تو ویسی ہو۔ باہم محبت اور اخوت ہو تو ویسی ہو۔ غرض ہر رنگ میں، ہر صورت میں تم وہی شکل اختیار کرو جو صحابہ کی تھی‘‘۔(ا لحکم جلد 5نمبر5مورخہ 10؍فروری 1901ء)
اور صحابہ کی اطاعت کا کیا حال تھا۔ اس کی ایک مثال میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ بہت دفعہ سن چکے ہیں۔ وہ نظارہ اپنے سامنے رکھیں جب شراب کی حرمت کا حکم آیا تو کچھ صحابہ بیٹھے شراب پی رہے تھے جب اعلان کرنے والے نے اعلان کیا تو ایک صحابی اٹھے اور ایک سوٹی لے کر شراب کے مٹکوں کو توڑنا شروع کردیا۔ کسی نے کہا جاکے پتہ تو کرلو کہ اصل میں حکم کیا ہے، واضح ہے بھی یا نہیں۔ آنحضورﷺ نے فرمایا بھی ہے کہ نہیں۔ تو انہوں نے کہا: نہیں ،جوسُن لیا پہلے اس پر عمل کرو۔ یہی اطاعت ہے۔ اس کے بعد پتہ کرلینا کہ کیا اصل حکم تھا۔ تو یہ جذبہ ہے جو ہر ایک کو پیدا کرنا ہوگا۔ یہ نہیں کہ ہمیں علیحدہ طور پر کچھ کہیں گے تو تب ہم عمل کریں گے ورنہ نہیں۔
عمومی طور پر ہر بات جو اس زمانے میں اپنے اپنے وقت میں خلفاء وقت کہتے رہے ہیں۔ جو خلیفہ ٔوقت آپ کے سامنے پیش کرتاہے، جو تربیتی امور آپ کے سامنے رکھے جاتے ہیں۔ ان سب کی اطاعت کرنا اور خلیفۂ وقت کی ہر بات کو ماننا یہ اصل میں اطاعت ہے اور یہ نہیں ہے کہ تحقیق کی جائے کہ اصل حکم کیا تھا؟ یا کیا نہیں تھا؟ اس کے پیچھے کیا روح تھی؟۔جو سمجھ آیا اس کے مطابق فوری طور پر اطاعت کی جائے تبھی اس نیکی کا ثواب ملے گا۔ ہاں اگر کوئی کنفیوژن ہے تو بعد میں اس کی وضاحت لی جاسکتی ہے۔ پس ہر احمدی کو کوشش کرنی چاہئے کہ وہ اپنے اطاعت کے معیار ایسے بلند کرے اور اس تعلیم پر چلنے کی پوری کوشش کرے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں دی ہے۔ جوں جوں جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑھ رہی ہے
اللہ تعالیٰ کے فضل ہورہے ہیں۔ لیکن بہت سے نئے آنے والے کم تربیت کی وجہ سے بعض نئی باتیں لے آتے ہیں۔ اس لحاظ سے پرانے احمدی، معاشرے کے زیر اثر آرہے ہیں اور جو بنیادی حکم ہے اس کو بھول جاتے ہیں۔ اس لئے استغفار کا حکم ہے اور استغفار ہر ایک کو بہت زیادہ کرنی چاہئے۔ استغفار کی بہت ضرورت ہے اور یہی اللہ کا حکم ہے جیسا کہ مَیں نے کہا کہ ترقی کے دنوں میں تم استغفار بہت کرو۔ کیونکہ یہ استغفار ایمانوں کو بھی مضبوط کرتی رہے گی اور اطاعت کے معیار بھی بڑھاتی رہے گی اور اس سے برائیاں دور ہوں گی۔ ہمیں ہروقت یاد رکھنا چاہئے کہ ہمارے اندر نہ کسی خاندان کی چھاپ نظر آئے، نہ کسی کلچر کی چھاپ نظر آئے، نہ کسی ملک کا باشندہ ہونے کی چھاپ نظر آئے۔ اگر کوئی چھاپ نظر آئے تو اس اسوہ حسنہ کی چھاپ نظر آئے جو آنحضرت ﷺ نے قائم فرمایا اور ہمارے سامنے ہے اور جسے نکھار کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آج ہمارے سامنے پیش فرمایا۔اور جیسا کہ آپؑ نے فرمایا ہے توحید کے لئے صحابہ کی سی وحدت اپنے اندر پیدا کریں اور ہر احمدی پہلے سے بڑھ کر اطاعت کے معیاردکھانے کی کوشش کرے۔ یہی چیز ہے جو جماعت کا وقار بلند کرنے والی ہے اور جماعت کی ترقی کا باعث بننے والی ہے اور انشاء اللہ بنے گی۔
اللہ ہر احمدی کو توفیق دے کہ وہ جماعت کے وقار اور تقدس کی خاطر اپنی اناؤں کوختم کرتے ہوئے اطاعت کے ا علیٰ معیار قائم کرنے والاہو، نہ کہ اپنے آپ کو جماعت سے کاٹ کر جاہلیت کی موت مرنے والا ہو۔ اللہ تعالیٰ رحم فرمائے اور ہر ایک پہ اپنافضل فرمائے۔ آمین

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں