خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ 31؍اگست 2007ء

جلسہ پر آنے والے ہر احمدی کو ہمیشہ یہ بات اپنے پیش نظر رکھنی چاہئے کہ اس جلسہ میں شامل ہونا اپنے اندر ایک بہت بڑا مقصد رکھتا ہے۔ اگر خدا کی رضا کے حصول کی کوشش نہیں ہورہی، اگر تقویٰ میں ترقی کرنے کی کوشش نہیں ہورہی، اگر اخلاق کے اعلیٰ نمونے قائم کرتے ہوئے بندوں کے حقوق ادا نہیں ہورہے تو پھر جلسہ پر آنے کا مقصد پورا نہیں ہورہا۔
جب ہم نیک نیت ہو کر جلسے کے پروگراموں سے فیض اٹھانے کی کوشش کریں گے تو تبھی ہم اپنی زندگیوں میں انقلاب لانے والے بن سکیں گے۔ اس انقلاب کے لئے بنیادی اور سب سے اہم چیز دعا اور ذکر الٰہی ہے۔
ہر احمدی کے چہرہ کے پیچھے آج احمدیت کا چہرہ ہے۔ پس ہمیشہ یاد رکھو تمہارے قول اور عمل میں تضاد نہ ہو۔
(جماعت احمدیہ جرمنی کے جلسہ سالانہ کے موقع پر حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کے ارشادات کے حوالہ سے
جلسہ کے اغرا ض و مقاصد کا بیان اور بیش قیمت نصائح)
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ مورخہ 31؍اگست 2007ء بمطابق31؍ظہور 1386 ہجری شمسی بمقام مئی مارکیٹ، منہائیم (جرمنی)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

آج اس خطبہ کے ساتھ ہی جماعت احمدیہ جرمنی کاجلسہ سالانہ شروع ہورہا ہے۔ ہم پر اللہ تعالیٰ کے انعاموں میں سے یہ بھی ایک بہت بڑا انعام ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا فرمایا کہ سال میں ایک دفعہ ہم جمع ہو کر اپنی روحانی اور اخلاقی ترقی کے سامان بہم پہنچائیں۔ ایسے پروگرام بنائیں جو ہمیں خداتعالیٰ سے قریب کرنے والے اور تقویٰ میں بڑھانے والے ہوں۔ اس ارادے اور اس نیت سے یہ دن گزاریں کہ ہم نے اعلیٰ اخلاق اور ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کے بھی اعلیٰ معیار قائم کرنے ہیں۔ آپس میں محبت،پیار اور تعلق کو بڑھانا ہے، رنجشوں کو دورکرنا ہے، اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی کوشش کرنی ہے، ہر قسم کی لغویات سے اپنے آپ کو پاک کرنا ہے۔بظاہر یہ چند باتیں ہیں جن کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جلسہ کے مقاصد میں سے بیان فرمایا۔ لیکن یہی باتیں ہیں جو انسان کے مقصد پیدائش کو پورا کرنے والی ہیں۔
پس جلسہ پر آنے والے ہر احمدی کو ہمیشہ یہ بات اپنے پیش نظر رکھنی چاہئے کہ اس جلسہ میں شامل ہونا اپنے اندر ایک بہت بڑا مقصد رکھتا ہے۔ اگر خدا کی رضا کے حصول کی کوشش نہیں ہورہی، اگر تقویٰ میں ترقی کرنے کی کوشش نہیں ہورہی، اگر اخلاق کے اعلیٰ نمونے قائم کرتے ہوئے بندوں کے حقوق ادا نہیں ہورہے تو پھر جلسہ پر آنے کا مقصد پورا نہیں ہورہا اور اگر یہ مقصد پورا نہیں کرنا تو پھر اس جلسہ پر آنے کا فائدہ بھی کوئی نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعائیں بھی صرف انہی کے حق میں پوری ہوں گی جو اس مقصد کو سمجھ رہے ہوں گے، اس غرض کو سمجھ رہے ہوں گے جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس جلسہ کا اجراء فرمایا تھا۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’مَیں ہرگز نہیں چاہتا کہ حال کے پیرزادوں کی طرح صرف ظاہری شوکت دکھانے کے لئے اپنے مبائعین کو اکٹھا کروں۔ بلکہ وہ علت غائی‘‘ یعنی وہ بنیادی وجہ وہ مقصد’’جس کے لئے میں حیلہ نکالتا ہوں، اصلاح خلق اللہ ہے‘‘۔
پس ہر احمدی جو دنیا میں کسی بھی جگہ بسنے والاہے۔ جب اپنے ملک کے جلسہ سالانہ میں شریک ہوتا ہے یا اب بعض ذرائع اور سہولتوں کی وجہ سے بعض احمدی جن کو اللہ تعالیٰ نے آسانی اور وسائل مہیا فرمائے ہوئے ہیں دوسرے ممالک کے جلسوں میں بھی شامل ہوجاتے ہیں۔(یہاں بھی اس وقت بہت سے مختلف ممالک سے بعض احمدی آئے ہوئے ہیں جو جلسہ میں شمولیت کی نیت سے آئے ہیں)۔ ان سب شامل ہونے والوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا جلسہ کے انعقاد کا جو مقصد تھا اسے پیش نظر ر کھنا چاہئے۔ اگر یہ مقصد پیش نظر نہیں، اگر جلسہ کے پروگراموں نے ایک احمدی کی روحانی اور اخلاقی حالت میں کوئی بہتری پیدا نہیں کی تو ایسے شامل ہونے والوں سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کراہت کا اظہار فرمایا ہے۔ اگر تقویٰ میں ترقی نہیں تو 20 ہزار یا 25 ہزار یا 30 ہزار کی حاضری بے مقصد ہے۔ تعداد بڑھنے سے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کا مقصد پورا نہیں ہوتا۔ آپعلیہ السلام کی بعثت کا مقصد تو تب پورا ہوگا جب ہم تقویٰ میں ترقی کریں گے۔
آپؑ فرماتے ہیں :’’تمام مخلصین، داخلین سلسلہ بیعت اس عاجز پر ظاہر ہو کہ بیعت کرنے سے غرض یہ ہے کہ تا دنیا کی محبت ٹھنڈی ہو اور اپنے مولیٰ کریم اور رسول مقبولﷺ کی محبت دل پر غالب آجائے اور ایسی حالت انقطاع پیدا ہوجائے جس سے سفر آخرت مکروہ معلوم نہ ہو‘‘۔
(مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 302)
یہ کتنی بڑی ذمہ داری ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہم پر ڈالی ہے اور یہ کتنی بڑی توقع ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہم سے کی ہے۔آپعلیہ السلامتمام محبتوں پر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ سے محبت ہم پر غالب دیکھنا چاہتے ہیں۔ کوئی ایسی محبت نہ ہو جو اس محبت کا مقابلہ کرسکے۔ اللہ اور رسولؐ کی محبت تمہارے دل میں قائم ہونی چاہئے۔ دنیا کی محبت آپؑ ہمارے دلوں سے مٹا دینا چاہتے ہیں لیکن اس کا یہ بھی مطلب نہیں ہے کہ دنیا سے لاتعلق ہوجاؤ اور بالکل ہی جنگلوں میں جا کے بیٹھ جاؤ۔آپ نے ایک جگہ یہ بھی فرمایا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی قدر نہیں کرتے تو یہ بھی کفران نعمت ہے۔ اگر کوئی زمیندار ہے اور اپنے کھیت کا حق ادا نہیں کرتا، اپنی زمینداری کا حق ادا نہیں کرتا تو یہ بھی کفران نعمت ہے۔ اگر کوئی تاجر ہے یا کسی کاروبار میں ہے یا ملازم ہے اور ان کاموں کی طرف توجہ نہیں دیتا جو اس کے سپرد ہیں، جن کی اس پر ذمہ داری ڈالی گئی ہے تو یہ بھی غلط ہے۔ لیکن اس کے باوجود ایک احمدی کے دل میں سب سے زیادہ محبت خدا کی ہو،اس کے رسولؐ کی ہو۔ دنیا کی یہ نعمتیں ایک احمدی کو دنیادار بنانے والی نہ ہوں، اس کو اللہ تعالیٰ کے احکامات سے دور لے جانی والی نہ ہوں۔ یہ کاروبار، یہ دنیاوی نعمتیں ایک احمدی کو تقویٰ سے دور ہٹانے والی نہ ہوں، اللہ تعالیٰ کی عبادت سے دور لے جانے والی نہ ہوں، عبادتوں کو بھلانے والی نہ ہوں، اعلیٰ اخلاقی قدروں کو ہم سے چھیننے والی نہ ہوں۔ یہ کاروبار اور یہ دنیاوی نعمتیں جو خداتعالیٰ نے ہمیں دی ہیں یہ ہمیں اللہ کی مخلوق کے حقوق غصب کرنے والی نہ بنائیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کی محبت کا غلبہ اور رسولﷺ کی محبت کا غلبہ ہمیں اس تعلیم پر چلانے والا ہو جو تعلیم ہمیں قرآن کریم نے دی ہے۔ اس محبت کی وجہ سے ہم اس اُسوہ پر چلنے والے ہوں جو آنحضرتﷺ نے قائم فرمایا ہے۔ تقویٰ کے اعلیٰ معیار قائم کرتے ہوئے ہم ان راہوں پر چلنے والے ہوں جو خداتعالیٰ نے ہمارے لئے متعین فرمائی ہیں اور جن پر چل کر آنحضرتﷺ نے ہمیں دکھایا اور جن کا اس زمانے میں اعلیٰ ترین نمونہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے قائم فرمایا اور اپنی جماعت سے اس تقویٰ کے معیار کے حاصل کرنے کی توقع کی ہے۔
پس جلسہ میں شامل ہونے والے ہر احمدی کو اس مقصد کے حصول کی کوشش کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے جلسہ میں شامل ہونے والے ہر احمدی کے لئے یہ موقع میسر فرمایا ہے تاکہ پاکیزہ ماحول کے زیر اثر زیادہ تیزی سے اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش کرے اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ یہ توحیلہ نکالا ہے، یہ تو ایک ذریعہ ہے، ایک بہانہ ہے کہ تقویٰ میں جلد سے جلد ترقی ہو، تمہارے لئے تربیت کا ایک ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے، ورنہ صرف یہی نہیں کہ جو جلسہ میں شامل ہوں انہوں نے ہی اپنے معیار اونچے کرنے ہیں۔ ہر وہ شخص جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں شامل ہوا ہے، اس وقت آپؑ کی بیعت کے مقصد کوپورا کرنے والا ہوگا جب اپنے تقویٰ کے معیار بڑھائے گا۔
جیسا کہ آپؑ فرماتے ہیں ’’خداتعالیٰ نے جو اس جماعت کو بنانا چاہا ہے تو اس سے یہی غرض رکھی ہے کہ وہ حقیقی معرفت جو دنیا سے مفقود ہو گئی تھی اور وہ حقیقی تقویٰ و طہارت جو اس زمانے میں پائے نہیں جاتے تھے دوبارہ اسے قائم کرے‘‘۔
(تقریریں صفحہ21۔بحوالہ’’مرزا غلام احمد قادیانی اپنی تحریروں کی رو سے‘‘ جلد اول صفحہ 156)
پھر آپؑ ایک جگہ فرماتے ہیں ’’سو اے وے تمام لوگو! جو اپنے تئیں میری جماعت شمار کرتے ہو، آسمان پر تم اس وقت میری جماعت شمارکئے جاؤ گے جب سچ مچ تقویٰ کی راہوں پرقدم ماروگے‘‘۔
(کشتیٔ نوح۔روحانی خزائن جلد 19صفحہ15)
پھر ایک جگہ آپؑ نے ہمیں نصیحت کرتے ہوئے اور توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ ہماری جماعت’’تقویٰ سے کام لے اور اولیاء بننے کی کوشش کرے‘‘۔(ملفوظات جلد چہارم صفحہ279۔مطبوعہ لندن)
پھر ایک جگہ آپؑ فرماتے ہیں ’’خدا کی عظمت اپنے دلوں میں بٹھاؤ اور اسی کی توحید کا اقرار نہ صرف زبان سے بلکہ عملی طورپر کرو تا خدا بھی عملی طور پر اپنا لطف و احسان تم پر ظاہر کرے‘‘۔
پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ان ارشادات کو ہمیشہ ہر احمدی کو اپنے پیش نظر رکھنا چاہئے اور خاص طور پر آپ جو اس جلسے میں اپنی روحانیت کی ترقی کے لئے شامل ہورہے ہیں اور جیسا کہ مَیں نے کہا کہ یہی مقصد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیان فرمایا ہے اور اس نیت سے ہر احمدی کو جلسوں میں شامل ہونا چاہئے۔تقویٰ میں ترقی کے اس موقع سے فائدہ اٹھائیں جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ ماحول میسر کرکے مہیا فرمایا ہے۔ تقویٰ میں ترقی کرنے کی کوشش کریں کیونکہ جیسا کہ ان چند مختصر اقتباسات میں جو مَیں نے پیش کئے ہم نے دیکھا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی جماعت میں شمار ہی اسے کیا ہے جس میں حقیقی تقویٰ اور طہارت پیدا ہو اور اپنی عملی حالتوں کو درست کرتے ہوئے اولیاء بننے کی کوشش کرے۔ اور اولیاء کیا ہیں ؟ یہ وہ لوگ ہیں جو ہر وقت اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کوشش کرنے والے ہیں۔ ان کی زبانیں ذکر الٰہی سے تر رہتی ہیں۔ ان کی راتیں اور دن عبادتوں میں گزرتے ہیں۔ دنیاوی کاموں میں، جو ان کو پڑتے ہیں،ان میں بھی خدا کی یاد سے غافل نہیں ہوتے۔ ان کے ہر عمل سے خدا کی رضا کی تلاش کی جھلک نظر آتی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :’’یاد رکھو کہ کامل بندے اللہ تعالیٰ کے وہی ہوتے ہیں جن کی نسبت فرمایا ہے

لَا تُلْھِیْھِمْ تِجَارَۃٌ وَّلَا بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِاللّٰہِ (النور:38)

جب دل خدا کے ساتھ سچا تعلق اور عشق پیدا کرلیتا ہے تو وہ اس سے الگ ہوتا ہی نہیں۔ اس کی ایک کیفیت اس طریق پر سمجھ میں آسکتی ہے کہ جیسے کسی کا بچہ بیمار ہوتوخواہ وہ کہیں جاوے، کسی کام میں مصروف ہو، مگر اس کا دل اور دھیان اسی بچے میں رہے گا۔ اسی طرح جولوگ خدا کے ساتھ سچا تعلق اور محبت پیدا کرتے ہیں وہ کسی حال میں بھی خدا کو فراموش نہیں کرتے‘‘۔
(الحکم جلد8نمبر 21مورخہ 24؍جون 1904ء صفحہ1)
پس اللہ تعالیٰ کی یہ یاد اور اس کا ذکر ہر احمدی کا مطمح نظر ہو، مقصد ہو۔ جہاں زبان ہر وقت ذکر الٰہی کررہی ہو وہاں دل کی یہ حالت ہو کہ مَیں ہر اس عمل کو بجالانے والا بنوں جس کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ہر اس عمل سے، ہر اس کام سے بچنے والا بنوں جس کے نہ کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے۔ ہر وقت یہ پیش نظر رہے کہ میری ہر حرکت و سکون خداتعالیٰ کی نظر کے سامنے ہے اس لئے میرے سے کوئی ایسا عمل سرزد نہ ہو جو خداتعالیٰ کی ناراضگی کا موجب بنے۔ پس یہ حالت ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہم میں دیکھنا چاہتے ہیں اور اسی حالت کے پیدا کرنے کے لئے سال میں ایک دفعہ چند دن کے لئے ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس جلسہ کے لئے بلایا ہے۔
پس اے وہ تمام احمدیو! جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے یہ عہد بیعت باندھا ہے کہ اے امام الزمان !جو ایمان ہمارے دلوں سے نکل کر ثریا پر چلا گیا تھا اور جسے تُو دوبارہ پھر اس دنیا پر،اس زمین پر واپس لایا ہے اور وہ قرآنی تعلیم جس نے ہمیں خیر امت بنایا تھا لیکن ہم دنیاداری میں پڑ کر اسے بھلا بیٹھے تھے، جسے تُو نے پھر ہماری زندگیوں کا حصہ بنانے کے لئے ہم میں جاری فرمایا ہے اور خود اس کے پاک نمونے قائم فرمائے ہیں،ہم عہد کرتے ہیں کہ اب یہ ایمان اور یہ تعلیم ہمارے دلوں کا، ہمارے عملوں کاہمیشہ کے لئے حصہ بنی رہے گی، انشاء اللہ۔ ہم اب اپنی زبانوں کو خداتعالیٰ کے اس حکم کے مطابق ذکر الٰہی سے تر رکھیں گے جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْکُرُوا اللّٰہَ ذِکْرًا کَثِیْرًا(الاحزاب:42)

یعنی اے مومنو! اللہ کا بہت ذکر کیا کرو۔ پس اللہ تعالیٰ نے یہ موقع مہیا فرمایا ہے کہ اس بات کی یاددہانی ہو جائے اور ان دنوں میں ذکر الٰہی کی طرف توجہ پیدا ہو جائے، عبادتوں کی طرف توجہ پیدا ہوجائے تاکہ تقویٰ کے معیار بڑھیں اور ہم اللہ کا قرب حاصل کرنے والے بنیں۔اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ عملی طور پر اپنا لطف و احسان تم پر ظاہر کرے گا۔ پس تقویٰ میں بڑھنے سے اللہ تعالیٰ کا لطف و احسان ظاہر ہوگا جس کا ایک ذریعہ حقوق اللہ کی ادائیگی ہے اور یہ حق عبادتوں اور ذکر الٰہی سے حاصل ہوگا۔
اس نکتے کو حضرت مصلح موعودؓ نے جلسہ کی مناسبت سے یوں بیان فرمایا تھا کہ کیونکہ یہ جلسہ شعائراللہ میں سے ہے اور اس میں شامل ہونے کا مقصد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے روحانیت میں ترقی کا حصول بتایا ہے جس کا ایک بہت بڑا ذریعہ عبادت و ذکر الٰہی ہے۔اور ذکر الٰہی کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اور بہت سارے فائدوں میں سے اس کا بہت بڑا اور عظیم فائدہ یہ ہے کہ

اُذْکُرُوْااللہ یَذْکُرْکُمْ

یعنی اگر تم ذکر الٰہی کرو گے تو خداتعالیٰ تمہارا ذکر کرے گا۔ پس خوش قسمت ہے وہ شخص جس کا ذکر اس کا آقا، اس کا مالک اس کا پیدا کرنے والا اور مالک حقیقی کرے، اس پر لطف و احسان فرمائے۔ پس ان دنوں میں اس اہم امر کی طرف ہر ایک کو بہت توجہ دینی چاہئے۔ چاہے وہ جلسہ گاہ میں بیٹھ کر جلسہ سننے والے مرد ہیں یا عورتیں ہیں یا مختلف جگہوں پر خدمت پرمامور ڈیوٹی والے مرد ہیں یا لجنہ و ناصرات ہیں۔ کل بھی مَیں نے کارکنان اور کارکنات کو اس طرف توجہ دلائی تھی کہ ذکر الٰہی کی طرف ان دنوں میں خاص توجہ دیں۔ ڈیوٹی دینے والے بھی جب بھی ڈیوٹی دے رہے ہوں ذکر الٰہی کی طرف توجہ رکھیں جس طرح باقی شاملین جلسہ ذکر الٰہی کی طرف توجہ رکھتے ہیں کیونکہ اس کے بغیر تو ہمارا مقصد ہی پورا نہیں ہوتا۔ پس اس بنیادی بات کو ہر ایک کو پلّے باندھ لینا چاہئے۔ جو کام ہم اللہ تعالیٰ کے مقررکردہ ایک نمائندے کے کہنے پر خدا کا قرب حاصل کرنے کے لئے کررہے ہیں اس میں اگر ہم عبادت اور ذکر الٰہی کو جتنی اہمیت دینی چاہئے وہ نہیں دیں گے تو نہ تو خداتعالیٰ کے اس نمائندے کے ساتھ سچا تعلق جوڑنے والے بن سکتے ہیں اور نہ ہی خداتعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بن سکتے ہیں۔ جیسا کہ آپ نے فرمایا کہ:’’آسمان پر تم اس وقت میری جماعت شمار کئے جاؤ گے جب سچ مچ تقویٰ کی راہوں پر قدم مارو گے‘‘۔ یہ ایک ایسا فقرہ ہے کہ اس سے ہمارے رونگٹے کھڑے ہو جانے چاہئیں۔ ہم یہ پڑھتے ہیں، سنتے ہیں، جماعتی پروگراموں میں کئی دفعہ یہ الفاظ بینرز پر بھی ہم لکھے ہوئے دیکھتے ہیں لیکن سرسری نظر سے دیکھتے ہیں اور اس کو دیکھتے ہوئے گزر جاتے ہیں یا تھوڑی دیر کے لئے توجہ پیدا ہوتی ہے تو وہ وقتی ہوتی ہے۔ پس بہت فکرکامقام ہے، ہر فقرہ اور ہرلفظ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی جماعت کونصیحت کرتے ہوئے فرمایا ہے، ہمیں جھنجھوڑنے والا ہے۔ ہم لاکھ کہتے رہیں، ہم احمدی ہیں لیکن اگر عرش کے خدا نے ہمیں اُس فہرست میں شامل نہیں کیا تو ہمارا احمدی ہونے کا دعویٰ بھی بیکار ہے اور ہمارا ان جلسوں میں آنے کا مقصد بھی فضول ہے۔ پس ان دنوں میں خوب دعائیں کریں، اللہ تعالیٰ سے تعلق جوڑیں، ذکرِ خدا پہ زور دیں اور ظلمت دل مٹاتے جائیں۔ یہاں بہت سی علمی، تربیتی اور روحانی بہتری پیدا کرنے کے لئے تقاریر ہوں گی انہیں سنیں۔ اللہ تعالیٰ کے حضور ان تقریروں کو سنتے ہوئے یہ عہد کریں اور مددمانگیں کہ اے خدا ہم نیک نیت ہو کر تیرے مسیح کے بلانے پر دلوں کی اصلاح کے لئے حاضر ہوئے ہیں۔ لیکن یہ اصلاح ہم اپنے زور بازو سے نہیں کرسکتے، تیری مدد کی ضرورت ہے۔ اگر

اِیَّاکَ نَسْتَعِیْن

کی دعا سنتے ہوئے تو نے ہماری مدد نہ کی تو ہم تیری عبادت کے معیار حاصل نہیں کرسکتے۔ پس اے میرے پیارے خداتجھ کو تیرا ہی واسطہ کہ ہمیں ضائع ہونے سے بچا۔جس نیک مقصد کے لئے ہم یہاں جمع ہوئے ہیں اس سے وافر حصہ ہمیں عطا فرما کہ تیرے فضل کے بغیر ہم کچھ بھی نہیں۔ ہمارے دلوں کو اتنا پاک اور صاف کر دے کہ جو کچھ ہم سنیں اس سے صرف علمی اور ادبی حظ اور لطف نہ اٹھائیں بلکہ اُن تربیتی اور روحانی معیاروں کو اونچا کرنے والی باتوں کو ہم اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے والے ہوں، ان پر عمل کرنے والے ہوں،ان کو اپنی نسلوں میں جاری کرنے والے ہوں۔ پس جب ہم نیک نیت ہو کر جلسے کے پروگراموں سے فیض اٹھانے کی کوشش کریں گے، دعائیں کرتے ہوئے تمام نیک باتوں کو اپنی زندگیوں پر لاگو کرنے کی کوشش کریں گے تو تبھی ہم اپنی زندگیوں میں انقلاب لانے والے بن سکیں گے۔ اس انقلاب سے حصہ لینے والے بن سکیں گے جس انقلاب کے لانے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰہ والسلام مبعوث ہوئے تھے اور پھر دنیا میں بھی انقلاب لانے والے بنیں گے انشاء اللہ۔
پس اس انقلاب کے لئے بنیادی اور سب سے اہم چیز دعا اور ذکر الٰہی ہے جب یہ عادت ہم اپنے اندرپیدا کرلیں گے اور خداتعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے پیدا کرلیں گے تو پھر اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق، اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے احکامات کے مطابق ہم مزید احکامات پر بھی عمل کریں گے۔ حقوق العباد ادا کرنے والے بھی بن جائیں گے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس جلسے کے مقاصد میں سے ایک مقصد یہ بھی بیان فرمایا ہے کہ جمع ہونے سے آپس میں تودّد و تعارف بڑھے گا۔ اس مقصد کو حاصل کرنے والے بنیں گے تو تودّد و تعارف کا تو مطلب ہی یہ ہے کہ آپس کی محبت اس تعارف سے پیدا ہو۔ توجب نئے تعلقات کو فروغ دیا جائے گا اور ایک دوسرے سے محبت بڑھانے کے سامان کئے جائیں گے تو اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلتے ہوئے پرانے تعلقات میں پہلے سے بڑھ کر بہتری پیدا کرنے کی کوشش ہوگی۔ اگر کسی وجہ سے کوئی رنجشیں پیدا ہوچکی ہیں تو انہیں دُور کرنے کی کوشش ہوگی، اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے نہ صرف فضول گوئی اور بدکلامی سے بچے رہیں گے بلکہ پیار اور محبت پیدا کررہے ہوں گے۔ نہ صرف لڑائی جھگڑوں سے بچ رہے ہوں گے بلکہ پرانے لڑائی جھگڑوں پر ایک دوسرے سے معذرتیں اور معافیاں مانگ رہے ہوں گے۔ ذاتی اناؤں کے جال سے نکل رہے ہوں گے۔ کئی شکایات یہاں سے مجھے آتی ہیں، ذرا ذرا سی بات پر ایک دوسرے سے دست و گریباں ہو جاتے ہیں، جماعت کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں اور بعض کو پھر مجبوراً دکھی دل کے ساتھ سزابھی دینی پڑتی ہے کیونکہ نظام جماعت کا تقدس تمام رشتوں سے زیادہ ہے، ہر رشتے سے بالا ہے۔ اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے حقیقی تعلق ہے تو اپنی حرکتوں پر پشیمان ہوتے ہوئے آپس میں پیدا ہوئی ہوئی دراڑوں کو نہ صرف اس محبت کی وجہ سے جوڑنے والے ہوں گے بلکہ محبت کے تعلقات پیدا کریں گے۔ آنحضرتﷺ کے حکم پر عمل کرنے والے بنیں گے کہ ایک مسلمان سے دوسرے مسلمان کو اس کی زبان اور ہاتھ سے کبھی تکلیف نہیں پہنچتی، نہ پہنچنی چاہئے۔
پھر ان دنوں میں جبکہ خداتعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے جمع ہوتے ہیں، اس کے آگے جھکتے ہوئے اس سے دعائیں مانگ رہے ہیں، کامل ایمان کے ساتھ ذکر الٰہی میں مشغول ہیں، کامل فرمانبرداری کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق پر چل رہے ہیں تو پھر یہ نہیں ہوسکتا کہ کسی بھی موقع پر نظام جماعت کی فرمانبرداری سے باہر ہوں۔ ایک طرف تو یہ کوشش ہو کہ ہم آسمان پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت میں لکھے جائیں اور دوسری طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور آپؑ کے خلفاء کے قائم کردہ نظام جماعت کی اطاعت سے باہر جارہے ہوں۔ پس یہ دو عملیاں نیک نیتی سے اللہ تعالیٰ کے آگے جھکنے والے کبھی نہیں دکھا سکتے اور نہ کبھی دکھاتے ہیں۔ ان دنوں میں دلوں کے اس میل کو بھی دعاؤں کے ذریعہ سے، اصلاح کے ذریعہ سے دھونے کا موقع ملتا ہے۔ اگر اصلاح کی غرض سے اس جلسے میں شامل ہوئے ہیں اور کوئی میلہ سمجھ کر شامل نہیں ہوئے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ یہ جلسہ کوئی میلہ نہیں ہے، تو یقینا پھر دلوں کے میل بھی دھوئیں گے۔ بعض دفعہ روزمرہ کی زندگی میں بھی اور جلسہ کے دنوں میں بھی ایک عام احمدی کی رنجشیں اور جھگڑے عہدیداران سے بھی ہو جاتے ہیں۔ تو ایسی صورت میں اگر یہ ذہن میں ہوکہ اس جلسے کا مقصد کیا ہے تو ہرایک احمدی اپنے پرانے جھگڑے بھی ختم کرنے کی کوشش کرے گا اور اگر یہاں کوئی تلخی کی صورت پیدا ہوئی ہے تو اسے بھی دور کرنے کی کوشش کرے گا۔ عہدیداران اور جلسے کے دنوں میں ڈیوٹی دینے والے بھی اس بات کا خیال رکھیں۔کل بھی مَیں نے یہی کہا تھا کہ اخلاق کے اعلیٰ معیار سب سے زیادہ ڈیوٹی دینے والوں سے ظاہر ہونے چاہئیں کہ بحیثیت کارکن اور عہدیدار ان کی زیادہ ذمہ داری ہے۔ اس لئے ان میں برداشت کا پہلو بھی زیادہ ہونا چاہئے یا برداشت پیدا کرنے کی ان کو زیادہ کوشش کرنی چاہئے۔ ان میں عفو اور درگزر کا پہلو بھی زیاہ ہونا چاہئے اور انہیں دوسروں کے لئے نمونہ بننے کے لئے اپنی عبادتوں اور دوسرے اخلاق کے معیار اونچا کرنے کی بھی دوسروں کے مقابلے میں بہت زیادہ کوشش کرنی چاہئے۔
پس اگر عہدیدار اپنے آپ کو عہدیدار کی بجائے خادم سمجھیں اور افراد جماعت اپنے عہدیداران کو نظام جماعت چلانے کے لئے خلیفہ وقت کے مقرر کردہ کارکن سمجھیں تو یہ تعلقات ہمیشہ محبت اور پیار کے تعلق کی صورت میں رہیں گے جو پھر خلیفہ وقت کے تابع ہو کر دنیا کو امن اور سلامتی کا حقیقی پیغام دینے والے ہوں گے، دنیا میں ایک انقلاب پیدا کرنے والے ہوں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کوپورا کرنے والے ہوں گے۔ ان راہوں پر چلنے والے ہوں گے جن راہوں پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہمیں چلانا چاہتے ہیں۔ ان معیاروں کو حاصل کرنے والے ہوں گے جن معیاروں کے حصول کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہماری رہنمائی فرمائی ہے۔
آپؑ فرماتے ہیں :’’اے سعادت مند لوگو!’‘آپ میں سعادت تھی تو آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو، زمانے کے امام کو قبول کیا۔ اب سعادت کا پہلا قدم تو تم نے اٹھا لیا، آگے آپؑ فرماتے ہیں ’’اے سعادت مند لوگو! تم زور کے ساتھ اس تعلیم میں داخل ہو جو تمہاری نجات کے لئے مجھے دی گئی ہے‘‘ ایک قدم سعادت کا تو تم نے اٹھا لیا، نیک فطرت تھی قبول کرلیا، اب اپنے آپ پر اس تعلیم کو بھی لاگو کرو جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دی گئی ہے۔ فرماتے ہیں ’’تم خدا کو واحد لاشریک سمجھو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک مت کرو نہ آسمان میں سے، نہ زمین میں سے۔ خدا اسباب کے استعمال سے تمہیں منع نہیں کرتا‘‘۔ دنیاوی کام ہیں ان سے تمہیں منع نہیں کرتا۔ ذریعے ہیں ان سے تمہیں منع نہیں کرتا، توکل اگر اللہ تعالیٰ پرکرنا ہے تو اس کے لئے حکم ہے کہ اونٹ کا گھٹنا باندھو۔ ’’لیکن جو شخص خدا کو چھوڑ کر اسباب پر ہی بھروسہ کرتا ہے وہ مشرک ہے۔ قدیم سے خدا کہتا چلاآیا ہے کہ پاک دل بننے کے سوا نجات نہیں، سو تم پاک دل بن جاؤ اور نفسانی کینوں اور غصوں سے الگ ہو جاؤ۔ انسان کے نفس امّارہ میں کئی قسم کی پلیدیاں ہوتی ہیں مگر سب سے زیادہ تکبر کی پلیدی ہے۔ اگر تکبر نہ ہوتا تو کوئی شخص کافر نہ رہتا۔ سو تم دل کے مسکین بن جاؤ۔عام طور پر بھی بنی نوع کی ہمدردی کرو جبکہ تم انہیں بہشت دلانے کے لئے وعظ کرتے ہو سو یہ وعظ تمہارا کب صحیح ہوسکتا ہے اگر تم اس چند روزہ دنیا میں ان کی بدخواہی کرو۔ خداتعالیٰ کے فرائض کو دلی خوف سے بجالاؤ کہ تم ان سے پوچھے جاؤ گے۔ نمازوں میں بہت دعا کرو کہ تا خدا تمہیں اپنی طرف کھینچے اور تمہارے دلوں کو صاف کرے، کیونکہ انسان کمزور ہے۔ ہر ایک بدی جو دُور ہوتی ہے وہ خداتعالیٰ کی قوت سے دُور ہوتی ہے‘‘۔ اپنی طاقت سے کوئی بدی دُور نہیں کرسکتے اس لئے دعائیں مانگو’’اور جب تک انسان خدا سے قوت نہ پاوے کسی بدی کے دُور کرنے پر قادر نہیں ہوسکتا۔ اسلام صرف یہ نہیں ہے کہ رسم کے طور پر اپنے تئیں کلمہ گو کہلاؤ، بلکہ اسلام کی حقیقت یہ ہے کہ تماری روحیں خداتعالیٰ کے آستانہ پر گرجائیں اور خدا اور اس کے احکام ہر ایک پہلو کے رو سے تمہاری دنیا پر تمہیں مقدم ہوجائیں ‘‘۔
(تذکرۃ الشہادتین۔ روحانی خزائن جلد 20صفحہ63 مطبوعہ لندن)
یہ ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے قائم کردہ معیار جس کی طرف آپؑ نے ہماری رہنمائی فرمائی ہے۔ نفسانی کینوں اور غصوں سے الگ ہو جاؤ۔ یہ بڑا اچھا موقع اللہ تعالیٰ نے میسر فرمایا ہے اگر ان دنوں میں ہر ایک خود اپنا محاسبہ کرے تو اپنی تصویر خود سامنے آجائے گی۔ اگر نیک نیتی سے اپنا محاسبہ کررہے ہوں گے تو ان نفسانی کینوں اور غصّوں کا حال خود معلوم ہوجائے گا۔ ’’تکبر سے بچو‘‘۔ فرمایا یہ تکبر ہی ہے جو نافرمان بناتا ہے۔ تکبر ہی ہے جس نے انبیاء کا انکار کروایا اور یہ تکبر ہی ہے جو نظام جماعت یا عہدیداران کے خلاف دوسرے کو بھڑکاتا ہے اور یہ تکبر ہی ہے جو آپس میں بھی ایک دوسرے سے لڑاتا ہے۔ پھر حقیقی ہمدردی اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے پیدا کرو تبھی تمہاری باتوں کا اثر ہوگا، تبھی تمہاری تبلیغ مؤثر ہوگی۔ کئی لوگ ہمارے جلسوں میں شامل ہوتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے میں بھی آتے تھے، قادیان کا ماحول دیکھتے تھے اور اس ماحول کا ہی اثر ان پر ہوتا تھا۔ ان لوگوں کے اخلاق کا اثر بھی ان لوگوں پر ہوتا تھا جو احمدی ہو جاتے تھے۔ اب بھی دنیا کے مختلف ممالک میں جب جماعت کے جلسے ہوتے ہیں اور لوگ آتے ہیں تواللہ تعالیٰ کے فضل سے نیک اثر لے کر جاتے ہیں اور بعض ان میں سے پھر بیعت کرکے جماعت میں بھی شامل ہو جاتے ہیں۔ تو ہر ایک کو یہ یاد رکھنا چاہئے اور ہر ایک کو یہ بات اپنے پیش نظر رکھنی چاہئے کہ ہر احمدی کے چہرہ کے پیچھے آج احمدیت کا چہرہ ہے۔ پس ہمیشہ یاد رکھو تمہارے قول اور عمل میں تضاد نہ ہو تبھی تمہاری دعوت الی اللہ میں برکت پڑے گی۔ جماعت کی نیک نامی کا باعث بھی تم تبھی بنو گے جب ہمیشہ سچائی پر قائم ہوگے۔ کسی کی برائی نہ چاہو۔ ذاتی منفعت اور فائدہ تمہیں کسی سے برائی پر مجبور نہ کرے۔ ہمیشہ یاد رکھو کہ تمہارے ہر عمل کو خدا دیکھ رہا ہے۔ ہر وقت دل میں خدا کا خوف ہو اور اس کا خوف دل میں رکھتے ہوئے اس کے آگے جھکو اور اپنی عبادتوں کے معیار قائم کرو اور ہمیشہ یاد رکھو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت تمہیں تبھی فائدہ دے گی جب ہر حالت میں تم دین کو دنیا پر مقدم رکھو گے۔ صرف دعوے اور نعرے کبھی کام نہیں آئیں گے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اپنی جماعت کے اعلیٰ معیار دیکھنے کی کس قدر تڑپ تھی اور کس درد سے آپ نے جماعت کے لئے دعائیں کی ہیں اس کا ایک نمونہ میں آپ کو دکھاتا ہوں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں ’’دعا کرتا ہوں اور جب تک مجھ میں دم زندگی ہے کئے جاؤں گا۔ اور دعا یہی ہے کہ خداتعالیٰ میری اس جماعت کے دلوں کو پاک کرے اور اپنی رحمت کا ہاتھ لمبا کرکے ان کے دل اپنی طرف پھیر دے اور تمام شرارتیں اور کینے ان کے دلوں سے اٹھادے اور باہمی سچی محبت عطا کردے اور مَیں یقین رکھتا ہوں کہ یہ دعا کسی وقت قبول ہوگی اور خدا میری دعاؤں کو ضائع نہیں کرے گا۔ ہاں مَیں یہ بھی دعا کرتا ہوں کہ اگر کوئی شخص میری جماعت میں خداتعالیٰ کے علم اور ارادے میں بدبخت ازلی ہے جس کے لئے مقدر ہی نہیں کہ سچی پاکیزگی اور خداترسی اس کو حاصل ہو تو اس کو اے قادر خدا میری طرف سے بھی منحرف کردے جیسا کہ وہ تیری طرف سے منحرف ہے اور اس کی جگہ کوئی اور لا جس کا دل نرم اور جس کی جان میں تیری طلب ہو‘‘۔(اشتہار التوائے جلسہ 27؍ دسمبر 1893ء۔مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 446)
اللہ تعالیٰ ہمارے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تمام نیک تمناؤں اور دعاؤں کو ہمارے حق میں پورا فرمائے۔ ہم میں کبھی کوئی بھی ایسا نہ ہو جائے جو اپنی بدبختی اور بدقسمتی کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت سے کاٹا جائے۔ اے اللہ! تُو ہم پر ہمیشہ اپنی رحمت اور مغفرت کی چادر پھیلائے رکھ اور ہمیں ہمیشہ اپنے محبوب اور خاتم الانبیاء کے عاشق صادق کی جماعت سے جوڑے رکھ اور ہمیں اور ہماری نسلوں کو ان فضلوں اور انعاموں کا وارث بنا جن کا تُو نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے وعدہ فرمایا ہے۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو۔ آمین

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں