خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ 28؍ستمبر 2007ء

یہ مہینہ خاص اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول، گناہوں کی بخشش اور قبولیت دعا کا مہینہ ہے
(دعاؤں کی قبولیت کے لئے قرآن مجید، احادیث نبویہ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشادات کے حوالہ سے بعض اہم شرائط کا بیان)
اپنی ایمانی اور عملی طاقت کو بڑھانے کے واسطے دعاؤں میں لگے رہو۔
اپنی دعاؤں کو اس طریق پر کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور ایسی دعائیں کروانی چاہئیں جو اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے راستہ پر لے جانے والی ہوں اور اللہ کا قرب دلانے والی ہوں۔
(کراچی میں ڈاکٹر حمیداللہ صاحب اور مکرم پروفیسر ڈاکٹر شیخ مبشر احمد صاحب کی شہادتوں کا دلگداز تذکرہ)
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ مورخہ 28؍ستمبر 2007ء بمطابق28؍ تبوک 1386 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح،لند ن (برطانیہ)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ۔ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ۔ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَلْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَ (سورۃ البقرہ :۔187)

اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم رمضان سے گزر رہے ہیں۔ جس کا آج سولہواں روزہ ہے۔ یہاں تو باقی چودہ دن رہ گئے ہیں۔ باقی دنیا میں بھی چاند دیکھنے کے بعد جہاں عید کا فیصلہ ہوتاہے۔ کہیں تیرہ روزے بقایا رہ گئے ہیں، کہیں چودہ روزے۔ تو بہرحال اللہ تعالیٰ نے یہ مہینہ ہماری روحانی اور اخلاقی حالتوں کو سدھارنے کے لئے اپنی رضا کے حصول کی کوشش کے لئے، ہماری بخشش کے سامان مہیا فرمانے کے لئے، ہماری دعاؤں کی قبولیت کے لئے خاص طور پر مقرر فرمایا ہے۔
یہ آیت جو مَیں نے تلاوت کی ہے اس کا ترجمہ ہے۔ اور جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق سوال کریں تو یقینامَیں قریب ہوں۔مَیں دعا کرنے والے کی دعا کا جواب دیتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے۔پس چاہئے کہ وہ بھی میری بات پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ وہ ہدایت پائیں۔
یہ آیت قرآن کریم میں ان آیات کے بیچ میں رکھی گئی ہے جن میں رمضان کے روزوں کی فرضیت اور اس سے متعلقہ دوسرے احکام ہیں۔ پس اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ مہینہ خاص اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول، گناہوں کی بخشش اور قبولیت دعا کا مہینہ ہے۔
ایک حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جبرئیل میرے پاس آئے اور انہوں نے کہا ہلاک ہوا وہ شخص جس نے رمضان کو پایا اور وہ بخشا نہ گیا۔
(سنن ترمذی کتاب الدعوات باب قول رسول الہ رغم انف رجل)
پھر ایک حدیث ہے۔ جوحضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: جو شخص ایمان کے تقاضے اور ثواب کی نیت سے رمضان کی راتوں میں اٹھ کر نماز پڑھتا ہے، اس کے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں۔
(صحیح بخاری کتاب الصوم۔ باب فضل من قام رمضان)
تو یہ گناہوں کی بخشش کے خاص نظارے ہمیں اس لئے نظر آتے ہیں کہ خداتعالیٰ نے روزوں کے مجاہدے کے ساتھ ایک خاص توجہ سے، خالص اس کا ہوتے ہوئے، اپنے حضور جھکنے والوں کو ایک مقام دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی تلاش کرنے والوں،اسے پکارنے والوں کو جواب دینے کا وعدہ فرمایا ہے۔ گو اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہی ہر وقت ہی ان لوگوں کی دعاؤں کو سنتا ہے جو خالص اس کا ہوتے ہوئے اسے پکارتے ہیں۔ لیکن رمضان میں ایک خاص ماحول عبادات کا بن جاتا ہے اس لئے خداتعالیٰ اس مہینے میں پہلے سے بڑھ کر اپنے بندوں کی پکار سن رہا ہوتا ہے۔
جیسا کہ اس حدیث سے پتہ چلتا ہے، اس میں رمضان کی اہمیت بیان کی گئی ہے۔ حضرت سلمان ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ہمیں شعبان کے آخری روز مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: اے لوگو! تم پر ایک عظیم اور بابرکت مہینہ سایہ فگن ہونا چاہتا ہے اس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے روزے رکھنے فرض کئے ہیں اور اس کی راتوں میں قیام کرنے کو نفل ٹھہرایا ہے۔

ھُوَشَہْرٌ اَوَّلُہٗ رَحْمَۃٌ وَّاَوْسَطُہٗ مَغْفِرَۃٌ وَّآخِرُہٗ عِتْقٌ مِّنَ النَّارِ۔

وہ ایک ایسا مہینہ ہے جس کا ابتدائی عشرہ رحمت ہے، درمیانی عشرہ مغفرت کا موجب ہے اور آخری عشرہ جہنم سے نجات دلانے والا ہے اور جس نے اس میں کسی روز ے دار کو سیر کیا اسے اللہ تعالیٰ میرے حوض سے ایسا مشروب پلائے گاکہ اسے جنت میں داخل ہونے سے پہلے کبھی پیاس نہیں لگے گی۔
(کنزالعمال جلد 8 فصل فی فضلہ وفضل رمضان)
پس رحمت کے دن بھی گزر گئے اور اب ہم مغفرت کے دنوں سے گزر رہے ہیں اور چند دن بعد، تین چار دن بعد آخری عشرہ شروع ہونے والا ہے جو جہنم سے نجات دلانے والا ہے۔ اس میں وہ رات بھی ہے جو دعاؤں کی قبولیت کی رات ہے اور خاص رات ہے،اس میں جس کو وہ رات میسر آجائے اللہ تعالیٰ اس کی کی ہوئی دعاؤں کو قبول کرتا ہے۔ پس یہ چند دن ہمیں اب اس طرف توجہ دلانے والے ہونے چاہئیں کہ اس مہینے کے فیض سے فیضیاب ہونے کی کوشش کریں۔ اپنے رب کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ اس کی مغفرت کی چادر میں لپٹنے کی کوشش کریں۔ اپنے آپ کو اس زندگی میں بھی دنیا داری کی غلاظتوں کی جہنم سے نکالنے کی کوشش کریں اور آخرت کی جہنم سے بھی اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کریں۔ اپنے اس تمام قدرتوں والے خدا کی تلاش کریں جو اپنے بندے کی پکار پہ کہتا ہے کہ اِنِّیْ قَرِیْبٌ۔ لیکن یہ مقصد حاصل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے بعض شرائط رکھی ہیں ان شرائط کو پورا کرنا ضروری ہے تبھی اس کی رحمت حاصل ہو گی۔ تبھی اس کی مغفرت کی چادر میں اپنے آپ کو لپیٹنے والے ہوں گے۔ تبھی ہر قسم کی جہنم سے اپنے آپ کو دور کرنے والے ہوں گے اور تبھی ہم اپنی دعاؤں کے قبول ہونے کے نظارے دیکھیں گے۔
اس آیت کے ضمن میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
‘’جب میرے بندے میرے بارہ میں سوال کریں تو ان کو کہہ دے کہ مَیں نزدیک ہوں۔ یعنی جب وہ لوگ جو اللہ رسول پر ایمان لائے ہیں یہ پتہ پوچھنا چاہیں کہ خدا تعالیٰ ہم سے کیا عنایات رکھتا ہے جو ہم سے مخصوص ہوں اور غیروں میں نہ پائی جاویں۔ توان کو کہہ دے کہ مَیں نزدیک ہوں یعنی تم میں اور تمہارے غیروں میں یہ فرق ہے کہ تم میرے مخصوص اور قریب ہو اور دوسرے مہجور اور دُور ہیں۔ جب کوئی دعا کرنے والوں میں سے، جو تم میں سے دعا کرتے ہیں،دعا کرے تو مَیں اس کا جواب دیتا ہوں۔ یعنی مَیں اس کا ہم کلام ہو جاتا ہوں اور اس سے باتیں کرتا ہوں اور اس کی دعا کو پایۂ قبولیت میں جگہ دیتا ہوں۔ پس چاہئے کہ قبول کریں حکم میرے کو اور ایمان لاویں تاکہ بھلائی پاویں ‘‘۔(جنگ مقدس۔روحانی خزائن جلد 6صفحہ 146 مطبوعہ لندن)
پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ گو کہ تمہیں یہ ماحول بھی میسر آگیا ہے جو دعاؤں کی قبولیت کا ماحول ہے۔ اس مہینہ میں شیطان جکڑا بھی گیا ہے،جنت بھی قریب کر دی گئی ہے۔ لیکن اس کے باوجود فیض وہی پائے گا جو میری شرائط کی پابندی کرے گا جن میں سے ایک شرط یہ ہے کہ اس یقین پر قائم ہو کہ خدا ہے۔ خدا کی ذات پر ایسا پختہ یقین ہو جس کو کوئی چیز بھی ہلا نہ سکے۔ یہ یقین ہو کہ زمین و آسمان اور اس کے درمیان جو کچھ ہے اس کو پیدا کرنے والا ایک خدا ہے جو تمام جہانوں کا ربّ ہے،ہر چیز کا مالک ہے،ہر چیز اس کے قبضۂ قدرت میں ہے۔ اس نے اپنی ربوبیت کی وجہ سے بلا امتیاز مذہب اور قوم ہر ایک کی جسمانی ضروریات کا خیال رکھا ہوا ہے حتیٰ کہ چرند پرند بھی سب اس کی ربوبیت سے فیض پا رہے ہیں۔ ہوا پانی روشنی کھانے پینے کی چیزیں اس نے سب کو مہیا کی ہوئی ہیں۔ وہ تمام صفات کا جامع ہے۔ نہ وہ کسی کا بیٹا ہے اور نہ اس کا کوئی بیٹا ہے۔ پس پہلی شرط یہ ہے کہ جامع الصفات خدا پر پختہ یقین ہو۔
دوسری بات یہ کہ صرف یہ یقین نہیں کہ خدا ہے، کوئی پیدا کرنے والا ہے بلکہ اس پر ایمان بھی کامل ہو اور یہی کوشش ہو کہ اب جو بھی ایمان ہمیں میسر ہے اورجو بھی ہماری دعائیں ہیں وہ اس نے ہی قبول کرنی ہیں اور اس کو حاصل کرنے کی ہم نے کوشش کرنی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا وصل ڈھونڈھنے کی ہم نے کوشش کرنی ہے۔ اس کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرنی ہے۔ اس کے لئے ہم نے اپنے اندر تقویٰ پیدا کرنا ہے، خدا ترسی پیدا کرنی ہے، اپنے آپ کو پاک کرنا ہے۔اور یہی ایمان کامل کرنے کا ذریعہ ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’پس چاہئے کہ اپنے تئیں ایسے بناویں کہ مَیں اُن سے ہمکلام ہو سکوں ‘‘۔(لیکچر لاہور۔ روحانی خزائن جلد 20صفحہ159) اور یہ مقام جو ہے ایمان کامل ہونے پر ہی ملتا ہے۔ اس لئے ایمان کامل کرنے کی ہمیں کوشش کرنی چاہئے۔ یعنی اس بات پر ایمان ہوکہ اللہ تعالیٰ دعاؤں کو سنتا ہے انہیں قبول کرتا ہے بلکہ جب ایمان میں ترقی ہوتی ہے،اس کا قرب حاصل ہوتا ہے تو خداتعالیٰ بندے سے بولتا بھی ہے۔ رحمانیت کی وجہ سے یا اس کے صدقے جو خداتعالیٰ نے انعامات کئے ہیں، جب بندہ اس کے قریب ہوتا ہے، جب ایمان میں ترقی کرتا ہے تو رحیمیت کے جلوے بھی وہ دکھاتا ہے۔ قبولیت دعا کے جلوے بھی دکھاتا ہے۔ یہ پختہ ایمان بھی اللہ تعالیٰ پر ہو۔ پھر دعائیں بھی قبول ہوتی ہیں۔
پھر تیسری بات یہ کہ ایمان بھی کامل ہو۔ گو کہ تمام انبیاء اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے گئے ہیں لیکن اب اللہ تعالیٰ اپنے پیارے نبیﷺ کو فرماتا ہے کہ اے محمدﷺ اب تیرے ساتھ جڑ کر ہی دنیا قبولیت دعا کے نظارے دیکھ سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے ساتھ تعلق اب اسی کا ہو گا جو میرے نبی پر کامل ایمان لانے والا ہو گا۔ فرمایا وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ یعنی جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق سوال کریں اور اے محمدﷺ تو ہی ہے جو میرے بندوں کی حقیقی رہنمائی کرسکتا ہے، ان بندوں کو راستہ دکھا سکتا ہے جو میری تلاش میں ہیں۔ اس لئے آنحضرت ﷺ پر بھی ایمان کامل ہو گاتو خداتعالیٰ تک رسائی ہو گی۔ باقی مذاہب بھولی بسری یادیں بن چکے ہیں۔ گو تمام انبیاء پر ایمان بھی ضروری ہے لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے راستے دکھانے کا اختیار صرف اب اے محمد!ﷺ تجھے ہی ہے اور تجھ پر ایمان یہ تقاضا کرتا ہے کہ تیری بتائی ہوئی جو پیشگوئیاں ہیں ان پر بھی کامل یقین ہو۔ اس بات پر بھی یقین ہو اور اس پر ایمان بھی ہو کہ نشانات اور پیشگوئیاں پوری ہونے پر تیرے غلام صادق کو جب خداتعالیٰ نے دنیا میں بھیجا ہے تو اس کو ماننا بھی ایمان کی ایک شرط ہے۔ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مانیں گے وہی اللہ اور اس کے رسولﷺ پر کامل ایمان لانے والے ہوں گے اور وہی قبولیت دعا کے نظارے پہلے سے بڑھ کر مشاہدہ کریں گے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہی لوگ ہیں جو میری ‘’اِنِّیْ قَرِیْبٌ’‘کی آواز سنیں گے۔
پھر چوتھی بات یہ کہ سوال خدا کی رضا کے حصول کے لئے ہو، خدا کو پانے کے لئے ہو۔ یہ خواہش ہو کہ خداتعالیٰ مجھے مل جائے۔ جب اس نیت سے سوال ہو گا، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب میرے بارے میں سوال ہو گا، میری لقا حاصل کرنے کے لئے سوال ہو گا تو بندہ مجھے قریب پائے گا۔ اگر خدا کو پکارنے کا مقصد صرف اپنی دنیاوی ضروریات کو پورا کرنا ہی ہو گا۔ اگر خدا صرف اس وقت یاد آئے گا جب کوئی دنیاوی خواہش پوری کرنی ہو، نہ کہ اللہ تعالیٰ کا وصال اور اس کا پیار حاصل کرنا تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ تو پھر یکطرفہ بات ہو گی۔ یہ تو خود غرضی ہے۔ اگر میرا جواب سننا ہے تو

فَلْیَسْتَجِیْبُوْالِیْ

پر بھی عمل کرنا ہو گا۔میری بات پر لبیک کہنا ہو گا۔ تبھی تمہیں میری طرف سے جواب بھی ملے گا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس طرح بیان فرمایا ہے کہ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ چاہئے کہ میرے حکموں کو قبول کریں اور مجھ پر ایمان لاویں۔ تاکہ ان کا بھلا ہو‘‘۔
(پیغام صلح۔ روحانی خزائن جلد 23صفحہ472)
پھر دعا کی قبولیت کے لئے پانچویں بات یہ ہے کہ انسان تمام گناہوں سے بچنے کی کوشش کرے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ

’’اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ

یعنی مَیں توبہ کرنے والے کی توبہ قبول کرتا ہوں۔خداتعالیٰ کا یہ وعدہ اس اقرار کو جائز قرار دیتا ہے جو کہ سچے دل سے توبہ کرنے والا کرتا ہے‘‘۔ فرماتے ہیں کہ’’اگر خداتعالیٰ کی طرف سے اس قسم کا اقرار نہ ہوتا تو پھر توبہ کا منظور ہونا ایک مشکل امر تھا۔ سچے دل سے جو اقرار کیا جاتا ہے اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پھر خداتعالیٰ بھی اپنے تمام وعدے پورے کرتا ہے جو اس نے توبہ کرنے والوں کے ساتھ کئے ہیں اور اسی وقت سے ایک نور کی تجلّی اس کے دل میں شروع ہو جاتی ہے جب انسان یہ اقرار کرتا ہے کہ مَیں تمام گناہوں سے بچوں گا اور دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا‘‘۔
(البدر۔ جلد 2نمبر14مورخہ 24؍اپریل1903ء صفحہ107)
پس جب گناہوں سے بچنے کی کوشش ہو گی اور ساتھ اللہ تعالیٰ کو پکارا بھی جا رہا ہو گا کہ اے خدا تو کہاں ہے؟ میں تیرے نبیﷺ کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق تجھ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتا ہوں، ان گناہوں سے چھٹکارا پانے کی دعا کرتا ہوں، آ اور مجھے ان سے چھٹکارا دلا۔ تو یہ دُعا پھر اللہ تعالیٰ کے فضل کو کھینچنے والی ہو گی اور قبولیت کا درجہ پائے گی اور اللہ تعالیٰ کی طرف خالص ہو کر جھکنے والا بندہ

فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ

کی آواز سنے گا۔ پس گناہوں سے نجات حاصل کرنے کی دعا بھی اللہ تعالیٰ کا عبد بنانے کے لئے دعاؤں کی قبولیت کے لئے ضروری ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:‘‘ یاد رکھوکہ سب سے اوّل اور ضروری دعا یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو گناہوں سے پاک صاف کرنے کی دعا کرے۔ ساری دعاؤں کا اصل اور جزو یہی دعا ہے کیونکہ جب یہ دعا قبول ہو جاوے اور انسان ہر قسم کی گندگیوں اور آلودگیوں سے پاک صاف ہو کر خداتعالیٰ کی نظر میں مطہّر ہو جاوے تو پھردوسری دعائیں جو اس کی حاجات ضروریہ کے متعلق ہوتی ہیں وہ اس کو مانگنی بھی نہیں پڑتیں، وہ خود بخود قبول ہوتی چلی جاتی ہیں ‘‘۔(ملفوظات جلد 5صفحہ 617 جدید ایڈیشن)
پس اپنی دوسری حاجات بھی اگر پوری کرنی ہیں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بتائے ہوئے اس نسخے پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ جیسے آپؑ فرماتے ہیں۔’’تم اپنے آپ کو پاک کرنے کی کوشش اور اس کے لئے دعا کرو تو اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی ہر مشکل گھڑی میں اس کے کام آئے گا۔ اس کو

اِنِّیْ قَرِیْبٌ

کا نظارہ دکھائے گا اور اسے اپنی آغوش میں لے گا، ضروریات اس کی پوری کرے گا۔
پھر یہ بات پہلے بھی آگئی ہے لیکن اس کو علیحدہ بھی رکھا جاتا ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ قبولیت دعا کے لئے دین کو دنیاپر مقدم کرنا بھی ضروری ہے۔ دین کی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے دنیا کی لہو و لعب چھوڑنا ضروری ہے۔ ہمارے عہد میں بھی ایک فقرہ ہے کہ دین کو دنیاپر مقدم رکھوں گا، خدام الاحمدیہ کے عہد میں بھی ہے۔ اسی طرح آٹھویں شرط بیعت جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے رکھی ہے وہ یہ ہے کہ ’’یہ کہ دین اور دین کی عزت اور ہمدردی اسلام کو اپنی جان اور اپنے مال اور اپنی عزت اور اپنی اولاد اور اپنے ہر ایک عزیز سے زیادہ تر عزیز سمجھے گا‘‘۔ پس یہ ہے دین کو دنیاپر مقدم سمجھنا کہ ایک انسان، ایک احمدی کو، اپنے ہر عمل سے جو بھی عمل وہ کرتا ہے اس سے پہلے یہ خیال رہے کہ مَیں مسلمان ہوں۔ مَیں وہ مسلمان ہوں جس نے آنحضرت ﷺ کے غلام صادق کو بھی مانا ہوا ہے۔ اس لئے میری یہ کوشش ہے کہ میرے سے کوئی ایسا کام سرزد نہ ہو جس سے دین کی عزت پر کوئی حرف آتا ہے۔ مجھے اپنی اور اپنے خاندان سے زیادہ اللہ کے دین کی عزت پیاری ہے۔ دین کی عزت کی خاطر اگر دنیاوی نقصان اٹھانا پڑے تو اس سے بھی دریغ نہیں کروں گا۔یہ عہد کرے ہر احمدی تو پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَیں بھی دعاؤں کو سنوں گا اور قبولیت دعا کے نظارے دکھاؤں گا۔
پھر ساتویں بات یہ ہے کہ’’اپنی ایمانی اور عملی طاقت کو بڑھانے کے واسطے دعاؤں میں لگے رہو‘‘۔
(الحکم جلد 9نمبر2مورخہ 13؍جنوری 1905ء صفحہ 3)
یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الفاظ ہیں اور مستقل مزاجی سے یہ حالت جاری رہنی چاہئے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں : ‘’پس میں نصیحت کرتا ہوں کہ اپنی ایمانی اور عملی طاقت کو بڑھانے کے واسطے دعاؤں میں لگے رہو‘‘۔(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 207۔جدید ایڈیشن)
پس اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا کہ

فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَلْیُؤْمِنُوْا بِیْ

یعنی چاہئے کہ وہ بھی میری بات پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں۔اس بات کو حاصل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنی عملی حالتوں کو سنوارنے کی اور بڑھانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنی ایمانی حالتوں کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا زیادہ سے زیادہ قرب پانے کے لئے بھی دعاؤں کی ضرورت ہے اور یہ ایک ایسی دعا ہے جو باقی دعاؤں کی قبولیت کا ذریعہ بنتی ہے۔ مومن کا قدم ایک جگہ پر رُک نہیں جاتا۔ جب ایک مومن نیک اعمال بجا لاتا ہے تو ان میں بھی مختلف درجے ہیں۔ ترقی کا میدان کھلا ہے۔ ایک مومن جب ایمان لاتا ہے تو ایمان میں بڑھنے کے درجے ہیں۔ پس دعاؤں کی قبولیت کے لئے ان درجوں میں بڑھنے کی کوشش اور دعا ہونی چاہئے۔ جتنے درجے بڑھیں گے اتنا خدا کا قرب حاصل ہو گا، اتنی جلدی بندے کو اس کی پکار کا جواب ملے گا۔
پھر آٹھویں بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو قانون قدرت بنایا ہوا ہے اس کے اندر رہتے ہوئے دعا ہو تو وہ دعا سنی جاتی ہے۔ اگر اس سے باہر ہے تو وہ دعا قبولیت کا درجہ نہیں رکھتی۔جتنا بھی انسان چیختا چلاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ مَیں تمہاری وہی دعائیں سنوں گا جو میری تعلیم اور قانون کے اندر رہتے ہوئے ہو ں۔پس دعاؤں کی قبولیت کے لئے اللہ تعالیٰ کے احکام کی بجا آوری ضروری شرط ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حقوق العباد ادا کرو۔ ایک حکم یہ ہے۔ حقوق العباد کی ادائیگی کے لئے قرآن کریم میں اس کے مختلف احکامات ہیں۔ لیکن اگر ایک انسان دوسرے کے حقوق غصب کر رہا ہو اور پھر اللہ سے مانگے کہ مَیں تو دوسروں کے حقوق غصب کر رہاہوں پر تُو مجھ پر رحم فرما تو یہ دعا قبول نہیں ہوتی۔
بعض باپ ماؤں سے بچے چھین لیتے ہیں یا بعض مائیں باپوں کو بچوں کے ذریعہ تکلیف پہنچاتی ہیں اور نہ صرف یہ کہ دونوں طرف کے لوگ خود یہ دعا کررہے ہوتے ہیں کہ بچوں سے باپ کا یا ماں کا سایہ دُور رہے بلکہ مجھے بھی دعا کے لئے لکھتے ہیں کہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کو ماں کے یا باپ کے سائے سے محروم رکھے۔ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حکم تو یہ ہے کہ نہ ماں کو بچے کی وجہ سے تکلیف دو،نہ باپ کو بچے کی وجہ سے تکلیف دو اور جب ایسے جھگڑے ہوتے ہیں اور قضاء میں مقدمے بھی جاتے ہیں۔ دونوں طرف سے حقوق کا تعین بھی ہو جاتا ہے، پھر ایسی دعائیں کر رہے ہوتے ہیں، ایک دوسرے کے حقوق غصب کر رہے ہوتے ہیں۔ تو ایسی جو دعائیں ہیں اس عمل کے بعد پھروہ بھی قبولیت کا درجہ نہیں پاتیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنی تعلیم کے خلاف کاموں کو قبول نہیں کرتا، قبولیت کا درجہ نہیں دیتا۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی لکھا ہے کہ ایک شخص خانہ کعبہ میں حج پر گیا اور یہ دعا کر رہا تھا کہ اے اللہ میری محبوبہ کا خاوند اس سے ناراض ہو جائے تاکہ وہ مجھے مل جائے۔ ایک جگہ لکھا ہے کہ ایک چور نے بتایا کہ مَیں چوری پر جانے سے پہلے دو نفل نماز پڑھتا ہوں کہ اللہ میاں مجھے کامیابی عطا کرے۔ یعنی نعوذ باللہ
ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کو بھی اپنے ظلم اور بدکاری میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔ اسی طرح بعض نام نہاد پیر ہیں اور بزرگ ہیں وہ بھی اپنی دعاؤں کی قبولیت کے دعوے کرتے ہیں۔ بعض جاہل ان سے بڑے متاثر ہو رہے ہیں۔ بعض ایسی کہانیاں قبولیت دعا کی اپنی بیان کر رہے ہوتے ہیں جو سراسر جھوٹی اور خلاف عقل اور خلاف قانون شریعت ہوتی ہیں۔ اسی طرح ٹونے ٹوٹکے کرنے والے لوگ ہیں۔ جاہلوں کو بے وقوف بناتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نہ تو ایسی دعاؤں کو سنتا ہے اور نہ ہی ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کے قریبی ہیں یہ سب جھوٹے دعوے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ہم احمدی جنہوں نے زمانے کے امام کو مانا ہے اس جہالت سے پاک ہیں۔ پس اپنی دعاؤں کو اس طریق پر کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور ایسی دعائیں کروانی چاہئیں جو اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے راستے پر لے جانے والی ہوں اور اللہ کا قرب دلانے والی ہوں۔
پھرنویں بات جو دعاؤں کی قبولیت کے لئے ہمیشہ مدنظر رکھنی چاہئے یہ ہے کہ دعائیں صرف تکلیف اور تنگی کے وقت نہ مانگی جائیں۔ ایسے حالات میں نہ ہو ں کہ جب تکلیف اور تنگی پہنچی تو دعائیں کی جا رہی ہوں بلکہ امن اور اچھے حالات میں بھی خدا کو یاد رکھا جائے۔ صرف رمضان میں ہی نیک اعمال کی طرف توجہ پیدا نہ ہو بلکہ عام دنوں میں بھی نیکیوں کی طرف توجہ ہو تو پھر رمضان میں کی گئی دعائیں بھی پہلے سے بڑھ کر قبولیت کا درجہ پانے والی ہوتی ہیں۔
پھر دسویں بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے راستے کے مطابق دعا کرنے کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ اس میں جلد بازی نہ ہو۔ تھوڑے عرصے کے بعد بندہ تھک نہ جائے کہ مَیں نے دعا کی اور قبول نہیں ہوئی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ یاد رکھو کوئی آدمی کبھی دعا سے فیض نہیں اٹھا سکتا۔ جب تک وہ صبر میں حد نہ کر دے اور استقلال کے ساتھ دعاؤں میں لگا نہ رہے۔
آپؑ فرماتے ہیں کہ’’دیکھو حضرت یعقوبعلیہ السلام کا پیارا بیٹا یوسفعلیہ السلامجب بھائیوں کی شرارت سے ان سے الگ ہو گیا تو آپ چالیس برس تک اس کے لئے دعائیں کرتے رہے۔ اگر وہ جلد باز ہوتے تو کوئی نتیجہ پیدا نہ ہوتا۔چالیس برس تک دعاؤں میں لگے رہے اور اللہ تعالیٰ کی قدرتوں پر ایمان رکھا۔ آخر چالیس برس کے بعد وہ دعائیں کھینچ کر یوسف کو لے ہی آئیں۔ اس عرصہ دراز میں بعض ملامت کرنے والوں نے یہ بھی کہا کہ تُویوسف کو بے فائدہ یاد کرتا ہے۔ مگر انہوں نے یہی کہا کہ مَیں خدا سے وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے‘‘۔ فرماتے ہیں کہ’’اللہ تعالیٰ نے اگر دعاؤں میں محروم رکھنا ہوتاتو وہ جلد جواب دے دیتا‘‘۔نبی کو جواب دے دیتا۔ عام انسان کی نسبت، ایک عام مومن کی نسبت، نبی کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق بہت زیادہ ہوتا ہے۔ فرماتے ہیں ’’مگر اس سلسلے کا لمبا ہونا قبولیت کی دلیل ہے کیونکہ کریم سائل کو دیر تک بٹھا کر کبھی محروم نہیں کرتا بلکہ بخیل سے بخیل بھی ایسا نہیں کرتا۔ وہ بھی سائل کو اگر زیادہ دیر تک دروازے پر بٹھائے تو آخر اُس کو کچھ نہ کچھ دے ہی دیتا ہے‘‘۔
(الحکم جلد6نمبر46مورخہ 24؍دسمبر1902ء صفحہ2۔ تفسیر حضر ت مسیح موعودعلیہ السلام جلد نمبر2صفحہ724) اللہ تعالیٰ تو بہت کریم ہے۔ جتنی دیر تک دعائیں مانگتے رہو یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ انکار کر دے بلکہ جو کنجوس ترین آدمی ہے اس کے دروازے پر بھی جاؤ تو اگر مانگنے والا لمبا عرصہ بیٹھا رہا تو وہ بھی کچھ نہ کچھ اس کو دے دیتا ہے۔ پس مستقل مزاجی اور صبر بھی دعا کرنے کی بہت اہم شرط ہے۔ یہی الٰہی جماعتوں کا ہمیشہ وطیرہ رہا ہے۔ جتنا زیادہ دعا کا موقع ملتا ہے اللہ کا بھی یہ سلوک رہا ہے کہ اتنے زیادہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے دروازے کھلتے ہیں۔ پس پاکستان میں بھی اور بعض دوسرے ممالک میں بھی جہاں احمدیوں پر تنگیاں وارد کی جا رہی ہیں اُن کویہ فکر نہیں کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کا دامن پکڑے رکھیں، انشاء اللہ تعالیٰ، اللہ تعالیٰ کی مدد آئے گی اور ضرور آئے گی اور ظلمت کے تمام بادل چھٹ جائیں گے اور پھر اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کی گھٹائیں آئیں گی، انشاء اللہ۔ گو ابھی بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت نے ہر احمدی کا ہاتھ تھاما ہوا ہے لیکن پہلے سے بڑھ کر اس کے نظارے دیکھیں گے۔ اس رمضان سے بھی فائدہ اٹھاتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے در پر پڑ جائیں کہ اللہ تعالیٰ ان دنوں میں ہمارے قریب تر آیا ہوا ہے۔ یہ ابتلاؤں کی گرمی اور رمضان کی گرمی یقینا ہماری دعاؤں کو قبولیت کادرجہ دلانے والی ہیں۔ پس ہر احمدی کو پہلے سے بڑھ کر اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنی چاہئے۔
پھر دعا کی قبولیت کے لئے گیارھویں بات یہ ہے کہ دعا کے اعلیٰ معیار حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔ تضرع اور زاری کی جائے، ایسی تضرع اور زاری جو بچے کی طرح آہ و بکا کرنے والی ہو۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں ’’بچہ تو دعا کا نام بھی نہیں جانتا لیکن یہ کیا سبب ہے کہ اس کی چیخیں دودھ کو جذب کر لاتی ہیں ؟۔(تفسیر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام جلد اوّل صفحہ652)۔جب وہ پکارتا ہے تو ماں کے دُودھ کو کھینچ لاتا ہے۔ یہ مثال دے کر آپؑ نے اس طرف توجہ دلائی ہے کہ تضرع اور زاری سے کی گئی دعائیں جو ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے فضل کو کھینچ لاتی ہیں اورپھر قبولیت کا درجہ پاتی ہیں۔ آپؑ فرماتے ہیں : مَیں سچ کہتا ہوں کہ اگر اللہ تعالیٰ کے حضورہماری چلاہٹ ایسی ہی اضطراری ہو۔ تو وہ اس کے فضل اور رحم کو جوش دلاتی ہے اور اس کو کھینچ لاتی ہے۔
آپ فرماتے ہیں : چاہئے کہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر نہایت تضرع اور زاری اور ابتہال کے ساتھ خدا کے حضور اپنی مشکلات پیش کرے اور ایسی دعا کو اس حد تک پہنچاوے کہ ایک موت کی سی صورت واقع ہو جائے، اس وقت دعا قبولیت کے درجہ تک پہنچتی ہے۔
پس اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرتے ہوئے، اس کی باتوں پر لبیک کہتے ہوئے،اس پر ایمان کامل کرتے ہوئے جو دعائیں کی جائیں گی،وہ خداتعالیٰ کے حضورسے جواب پانے والی ہوں گی۔ اور پھر فرمایا کہ ایسے لوگ ان لوگوں میں شامل ہوں گے جو یَرْشُدُوْنَ کے زمرہ میں آتے ہیں تو پھر ہدایت یافتہ ہوں گے۔ ان کو جو راستہ محمد رسول اللہﷺ نے اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کا بتا دیا اس پر وہ ہمیشہ کے لئے چلتے چلے جائیں گے۔ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے حکموں پر لبیک کہنے والے ہوں گے۔ایمان میں ترقی کی منازل طے کرتے چلے جانے والے ہوں گے۔ پھر وہ یہ سوال نہیں کریں گے کہ بتا اللہ کہاں ہے۔ بلکہ آنحضرت ﷺ کے دامن سے جڑ کر وہ اعلیٰ معیار کو حاصل کرتے ہوئے اپنے محبوب کو آمنے سامنے دیکھنے والے ہوں گے۔ وہ آنحضرت ﷺ کی حدیث کے مطابق اس مقام سے ترقی کریں گے کہ خدا مجھے دیکھ رہا ہے بلکہ وہ اپنی عبادتوں میں وہ معیار حاصل کرنے والے ہوں گے جس میں وہ بھی خدا کو دیکھ رہے ہوں گے۔
پس اس رمضان میں ہمیں یہ معیار حاصل کرنے چاہئیں۔ جب ہم یہ معیار حاصل کر لیں تو ہماری نمازیں اللہ تعالیٰ کا قرب پاتے ہوئے روزے کی معراج بن جائیں گی اور ہمارے روزے ہماری نمازوں کی معراج بن جائیں گے۔
رمضان جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایاہے کہ رمض سے نکلا ہے اور رمض سورج کی تپش کو کہتے ہیں اور رمضان میں دو تپشیں ہیں۔ ایک کھانا پینا اور جسمانی لذتوں کو چھوڑنا اور دوسرے اللہ تعالیٰ کے احکام کے لئے ایک جوش پیدا ہونا۔
پس جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ

فَلْیَسْتَجِیْبُوْالِیْ

کہ میری آواز پر لبیک کہو۔ ہم اس تپش پر جو رمضان نے ہمارے اندرپید اکر دی ہے۔زیادہ سے زیادہ ان روزوں اور ان عبادتوں سے فیض اٹھانے کی کوشش کرتے ہوئے عمل کریں اوراللہ تعالیٰ کے اس حکم پر پہلے سے بڑھ کر عمل کرنے والے بنیں کہ اپنے مقصد پیدائش کو سمجھتے ہوئے میری عبادت کی طرف توجہ دو۔ پھر حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف توجہ دو۔حقوق العباد کی ادائیگی بھی اللہ تعالیٰ کے حکموں میں سے ایک حکم ہے۔ بلکہ جو بندوں کے حقوق کی ادائیگی کی طرف توجہ نہیں کرتا وہ اللہ تعالیٰ کے حقوق بھی ادا نہیں کرتا۔ پس اللہ تعالیٰ کے اس حکم پر عمل کرنے کے لئے کہ میرے بندے میری آواز پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں۔ ہر دو قسم کے حقوق کی ادائیگی ضروری ہے جیسا کہ مَیں پہلے بتا کر آیا ہوں۔ تبھی ہم حقیقی ہدایت یافتہ کہلانے والے ہوں گے۔تبھی خدا تعالیٰ ہماری باتوں کا جواب دے گا۔
پس یہ جو کہا جاتا ہے کہ قرآن رمضان کے بارہ میں اترا اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم کے احکامات اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف توجہ دلانے والے اور حقوق العباد کی طرف توجہ دلانے والے ہیں۔رمضان میں ایک مومن اس طرف خاص طور پر توجہ پیدا کر ے۔ ان ہر دو حقوق کی ادائیگی کے لئے ایک جوش پیدا کرے۔ حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ دلاتے ہوئے آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو شخص روزے دار کا روزہ افطارکروائے اس کے گناہ معاف کر دئے جاتے ہیں اور اس کی گردن آگ سے آزاد کر دی جاتی ہے۔ اور رمضان کے دنوں میں خود آنحضرت ﷺ کا اپنا عمل بھی کیا تھا۔ روایت میں آتا ہے کہ رمضان میں صدقہ خیرات اور دوسروں کی مدد میں اپنا ہاتھ اتنا کھلا کر لیتے تھے کہ جس طرح ایک تیز ہوا چل رہی ہوتی ہے اسی طرح آپ خرچ کر رہے ہوتے۔ (بخاری کتاب الصوم۔باب وجود ما کان النبی ﷺ یکون فی رمضان)
یہ اس لئے تھا کہ حقوق اللہ کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی کا حکم بھی ہے، اس پر بھی رمضان میں پہلے سے بڑھ کر عمل ہو۔
پس ہر مومن کا بھی فرض ہے کہ ایمان میں ترقی کے لئے اور قرآن کریم کے احکامات پر عمل کرنے کے لئے خاص طور پر اس مہینے میں توجہ دے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے جیسا کہ مَیں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ ہر سال رمضان کے روزے مقرر کرکے ہمیں اللہ تعالیٰ یہ توجہ دلاتا ہے کہ یہ مہینہ جس میں قرآن اترا اور یہ احکامات جن کے بارے میں قرآن کریم کی تعلیم ہے اس رمضان میں روحانی ترقی کے لئے روزے رکھتے ہوئے، روحانی ترقی میں ایک تپش پیدا کرتے ہوئے اس طرف خاص توجہ دو اور ہدایت پانے والوں میں شامل ہو جاؤ۔ ان ہدایت یافتہ لوگوں میں جن کے معیار ہمیشہ اونچے سے اونچے ہوتے جاتے ہیں۔ ان اعمال کے بجا لانے میں ایک ذوق پیدا کروجو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان فرمائے ہیں۔ تبھی رمضان تمہیں فائدہ دے گا اور تبھی تم لبیک کہنے والے ہو گے۔ تبھی تم ایمان میں ترقی کرو گے یا کرنے والے کہلاؤ گے۔ تبھی تم ہدایت یافتہ کہلاؤ گے اور تم اللہ تعالیٰ کے پیار کی آواز ’میرے بندے‘ کا صحیح لقب پانے والے ہوگے۔ تبھی اللہ تعالیٰ کے قرب کے نشان دیکھو گے۔ تبھی اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانَِ کے نظارے دیکھو گے اور تبھی اللہ تعالیٰ کی جنتوں میں داخل ہونے والے بن سکو گے۔ پس اس آیت میں اس بات کی وضاحت کردی کہ کیوں تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں اورکیوں رمضان سے قرآن کی خاص نسبت ہے۔اس لئے کہ تپش کا ایک خاص ماحول میسر آکر روزے کے ساتھ قرآن پر غور کرکے، حقوق اللہ اورحقوق العباد پر غور کرکے معیاروں کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کا زیادہ سے زیادہ موقع ملے اور سال کے دوران جو کوتاہیاں اور سستیاں ہو گئی ہیں ان کا مداوا ہو سکے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں وہ معیار حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے جو اللہ تعالیٰ کے خالص بندے سے خداتعالیٰ نے توقع کی ہے۔ ہم اپنی روحانی تپش کے وہ معیار حاصل کر یں جن سے ہماری دعائیں عرش تک پہنچ کر اجابت کا درجہ حاصل کرنے والی ہوں اور ہم اسلام اور احمدیت کا جھنڈا تمام دنیا پر لہراتا ہوا دیکھیں۔
خطبہ ثانیہ کے درمیان فرمایا۔
ایک افسوسناک خبر ہے کہ گزشتہ دنوں کراچی میں ہمارے دو ڈاکٹر صاحبان شہید کر دئیے گئے۔ ان دنوں رمضان میں بھی یہ احمدیوں کو شہید کرکے سمجھتے ہیں کہ بڑا ثواب کما رہے ہیں۔ پہلے تو ڈاکٹر حمیداللہ صاحب ہیں۔ یہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے وقت میں جب وقف منظور ہوا تھا تو ان کو بطور ڈاکٹرگیمبیا بھجوایا گیا تھا۔پھر یہ سیرالیون، نائیجیریا، گھانا، لائبیریا مختلف جگہوں پر رہے اور بڑی خدمات انجام دیتے رہے۔ شروع میں ڈاکٹروں کے حالات بڑے سخت تھے۔بڑی قربانی سے انہوں نے وہاں اپنا وقت گزارا۔پھر1990ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی اجازت سے واپس کراچی آگئے تھے انہوں نے وہاں کلینک کھولا۔ وہاں بھی آپ حلقہ کے صدر رہے۔ سیکرٹری اصلاح و ارشاد بھی رہے۔ اچھے پُر جوش داعی الی اللہ تھے۔ مریضوں کو بھی تبلیغ کیا کرتے تھے۔ ان کے ذریعہ سے کئی بیعتیں ہوئی ہیں اور اسی وجہ سے مخالفین کی آپ پرنظر تھی اور بعض دفعہ کافی دھمکیاں وغیرہ بھی ملتی رہیں۔ 20ستمبرکوکلینک سے جب گھر آرہے تھے توان کو اغواء کیا اور پھر راستے میں گولیاں مار کر، فائر مار کر شہید کر دیا۔ وہیں ان کی لاش پڑی رہی۔ دو دن کے بعد اس جگہ سے ان کی لاش ملی۔ ان کے بچے بھی ڈاکٹر ہیں۔
ہمارے دوسرے شہید بھی ڈاکٹر ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر شیخ مبشر احمد صاحب۔ یہ بھی کراچی کے ہیں۔ ان کو 26ستمبر کو شہید کیا گیا۔ یہ کلینک میں آئے ہیں کار سے باہر نکل رہے تھے کہ دو آدمی جو وہاں کھڑ ے تھے انہوں نے ان کو فائر کرکے شہید کر دیا۔ فوری طورپر ان کو زخمی حالت میں کلینک لے جایا گیالیکن جانبر نہ ہو سکے اور شہادت پائی۔ گزشتہ سال 2006ء میں ان کے بھانجے بھی اسی جگہ شہید کئے گئے تھے۔ کالج آف نرسنگ کے پرنسپل تھے۔ جناح ہسپتال میں پروفیسر تھے۔ اچھے سوشل ورکر تھے۔ غریبوں سے ہمدردی کرتے تھے۔ کسی بھی نافع الناس وجود کو یہ لوگ نہیں چھوڑتے اور صرف اس لئے کہ کیونکہ یہ احمدی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہر دو شہداء کے درجات بلند فرمائے اور ان کے لواحقین کو صبر کی توفیق عطا فرمائے۔ ابھی
انشاء اللہ جمعہ کی نماز کے بعد میں ان کی نماز جنازہ غائب پڑھوں گا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں