خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 02؍نومبر 2007ء

خوش قسمت ہیں ہم احمدی جن کے دلوں کو خداتعالیٰ نے اپنے پیارے مسیح کی محبت میں سرشار کیا ہوا ہے۔ جب تک ہم اس محبت کی آبیاری اوراپنے ایمان میں ترقی کی کوشش اللہ کے آگے جھکتے ہوئے، اپنے نیک اعمال بجا لاتے ہوئے اور اپنے آنکھ کے پانی سے کرتے رہیں گے، ہم اس محبت اور تعلق کے فیض سے فیض اٹھاتے چلے جائیں گے۔
یہ وہ جماعت ہے جس کے ہر فرد بچے، جوان، مرد، عورت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور خلافت سے محبت کوٹ کوٹ کر بھر دی۔ یہ جماعت احمدیہ کی سچائی اور اس کے اس تمام قدرتوں کے مالک اور واحد ویگانہ خدا کی طرف سے ہونے کی دلیل ہے۔ یہ دلیل ہے اس بات کی کہ آپؑ کے بعد نظام خلافت یقینا سچا اور راشد نظام ہے۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے خلافت کے شیدائی اب دنیا کی ہرقوم اور ہرملک میں ہیں۔
جب تک جماعت اور خلافت میں یہ دو طرفہ محبت قائم رہے گی انشاء اللہ تعالیٰ خلافت احمدیہ کا قیام اوراستحکام رہے گا اور انشاء اللہ جس طرح اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق خلافت دائمی ہے یہ محبت بھی دائمی رہے گی۔
ہمیشہ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ یہ مضبوط تعلق اور اس کا فیض ہمارے ایمان کی مضبوطی اور دعاؤں سے مشروط ہے۔ پس اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے۔ اللہ تعالیٰ سے تعلق کو مزید مضبوط کرتے چلے جائیں۔
(پِتّہ کے آپریشن کی خبر پر جماعت احمدیہ عالمگیر کے افراد کی طرف سے خلافت سے محبت وفدائیت کے والہانہ اظہار اور آپریشن کی کامیابی کا تذکرہ)
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ مورخہ 02؍نومبر 2007ء بمطابق02؍نبوت 1386 ہجری شمسی بمقام مسجد فضل، لند ن (برطانیہ)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خداتعالیٰ سے اذن پا کرجب بیعت لینے کا اعلان فرمایا تو شرائط بیعت میں سے ایک شرط یہ بھی تھی کہ آپعلیہ السلام سے ہر بیعت کرنے والا ایسی عقدِاخوت و محبت رکھے گا جس کی مثال کسی بھی دنیاوی رشتہ میں نہ ملتی ہو۔ یعنی محبت، پیار، بھائی چارے اور خادمانہ حالت کا ایسا بے مثال تعلق ہو جس کا کوئی دنیاوی رشتہ اور تعلق مقابلہ نہ کر سکے۔ کوئی بھی تعلق اگر مقابلے پر آئے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے تعلق کے مقابلہ میں اس کی ذرّہ بھی وقعت نہ ہو۔ یہ ایک ایسی شرط ہے جو سوائے اللہ تعالیٰ کے خاص فضل کے نبھانی بہت مشکل ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہر وہ شخص جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے میں آپؑ کے ہاتھ پر بیعت کرکے احمدیت میں داخل ہوا یا آج ہو رہاہے، خوشی سے اس شرط پر آنحضرت ﷺ کے عاشق صادق اور غلام کی بیعت میں آتا ہے اور کوئی خوف یا عذر اس بات پر نہیں ہوتا کہ یہ تعلق کس طرح نبھاؤں گا۔ آج بھی اگر کسی احمدی کو کوئی تعزیر ہویا ناراضگی کا اظہار ہو تو الاماشاء اللہ سبھی یہی لکھتے ہیں کہ ہم اپنے عزیزوں اور رشتہ د اروں اور بیوی بچوں سے تو جدائی برداشت کر سکتے ہیں لیکن جماعت سے علیحدہ رہنا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت سے باہر نکلنا ہمیں برداشت نہیں۔ تو یہ تعلق جیسا کہ مَیں نے کہا سوائےاللہ تعالیٰ کے خاص فضل کے نبھانا مشکل ہے اور یہ جماعت کے ہر فرد پر اللہ تعالیٰ کا فضل ہی ہے۔ حضرت
مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیعت کیونکہ اللہ تعالیٰ سے اِذن پاکر لی تھی، یہ جماعت کی کشتی بھی اللہ تعالیٰ کے منشاء اور حکم کے مطابق تیار ہوئی تھی اس لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آنے والے دلوں کو اس تعلق میں مضبوط بھی کرنا تھا اور محبت بھی اس قدر بڑھانی تھی کہ وہ تمام دنیاوی رشتوں سے زیادہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے رشتے کو عزیز رکھیں۔ آپؑ کے مُحِبّوں کا گروہ بڑھانے کا اللہ تعالیٰ کا آپ سے وعدہ تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ’’خداتعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا اور میری محبت دلوں میں بٹھائے گا اور میرے سلسلہ کو تمام زمین پر پھیلائے گا‘‘۔
(تجلّیاتِ الٰہیہ روحانی خزائن جلد 20صفحہ409)
پس ہر بیعت کنندہ اپنے دل میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی محبت محسوس کرتا ہے اور یہ محبت اللہ تعالیٰ بڑھاتا ہے اور بیعت کرنے کے بعد یا آپؑ سے بیعت کا فہم و ادراک حاصل کرنے کے بعد، آپؑ سے عقیدت اور محبت میں ایک احمدی بڑھتا چلا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ اس خدا کے فضل کی وجہ سے ہے جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے وعدہ فرمایا تھا اور پھر اس وعدہ کو پورا کرتے ہوئے جیسا کہ مَیں نے کہا سعید فطرت لوگوں کو آپؑ سے تعلق اور محبت میں سب رشتوں سے زیادہ بڑھا دیا۔
پس خوش قسمت ہیں ہم احمدی جن کے دلوں کو خداتعالیٰ نے اپنے پیارے مسیح کی محبت میں سرشار کیا ہوا ہے۔ جب تک ہم اس محبت کی آبیاری اوراپنے ایمان میں ترقی کی کوشش اللہ کے آگے جھکتے ہوئے، اپنے نیک اعمال بجا لاتے ہوئے اور اپنے آنکھ کے پانی سے کرتے رہیں گے، ہم اس محبت اور تعلق کے فیض سے فیض اٹھاتے چلے جائیں گے۔ ان انعاموں کے وارث بنتے چلے جائیں گے جن کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودعلیہ والصلوٰۃ والسلام سے فرمایا ہے۔ اللہ کرے کہ یہ محبت بڑھتی چلی جائے اور اس وجہ سے ہم اللہ تعالیٰ کے انعاموں اور سلامتی سے حصہ دار بنتے چلے جائیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قوّت قدسی نے اپنے مُحِبّوں کے گروہ کی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسی تربیت کی ہے کہ نسلاً بعد نسلٍ اس محبت کا سلسلہ چلتا چلا جا رہا ہے۔ بلکہ جیسا کہ مَیں نے کہا تھا نئے آنے والوں میں بھی یہ محبت ترقی پذیر ہے۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے خبر دی کہ آپؑ کی وفات کا وقت قریب ہے تو آپؑ نے رسالہ الوصیت تحریر فرمایا تھا اور اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنی وفات کی خبر کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
’’سواے عزیزو جبکہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ خداتعالیٰ دو قدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کرکے دکھلاوے۔ سو اب ممکن نہیں ہے کہ خداتعالیٰ اپنی قدیم سنّت کو ترک کر دیوے۔ اس لئے تم میری اس بات سے جو مَیں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو اور تمہارے دل پر یشان نہ ہو جائیں۔ کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اُس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہو گا۔ اور وہ دوسری قدرت نہیں آسکتی جب تک مَیں نہ جاؤں۔ لیکن مَیں جب جاؤں گا تو پھر خدا اُس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی۔ جیسا کہ خدا کا براہین احمدیہ میں وعدہ ہے اور وہ وعدہ میری ذات کی نسبت نہیں ہے بلکہ تمہاری نسبت وعدہ ہے جیسا کہ خدا فرماتا ہے کہ مَیں اس جماعت کو جو تیرے پَیرو ہیں قیامت تک دوسروں پر غلبہ دوں گا۔ سو ضرور ہے کہ تم پر میری جدائی کا دن آوے تا بعد اس کے وہ دن آوے جو دائمی وعدہ کا دن ہے۔ وہ ہمارا خدا وعدوں کا سچا اور وفادار اور صادق خدا ہے۔ وہ سب کچھ تمہیں دکھلائے گاجس کا اس نے وعدہ فرمایا ہے’‘۔
(رسالہ الوصیت۔ روحانی خزائن جلد 20صفحہ306-305)
جب اللہ تعالیٰ کی خاطر آپؑ کے ماننے والوں کے دلوں میں آپ کے لئے محبت پیدا ہوئی تھی اور یہ محبت سب دنیاوی محبتوں کے رشتوں پر حاوی ہو گئی تھی اور حاوی ہیتو قدرتی بات ہے کہ آپؑ کے وقت میں جو آپؑ سے محبت کرنے والے تھے ان کے دلوں میں پریشانی اور غم پیدا ہوا ہوگا۔ آپؑ نے ان کی تسلی کے لئے فرمایا کہ اس سے تمہارے دل غمگین اور پریشان نہ ہوں۔ یہ کشتی جو اللہ تعالیٰ نے خود اپنی نظر کے سامنے تیار کروائی ہے اسے یونہی نہیں چھوڑے گا بلکہ میرے جانے کے بعد تمہارے دلوں کی سکینت کے لئے دوسری قدرت بھی تمہیں دکھلائے گا۔
پس بحیثیت مسیح موعود اور امام الزمان آپؑ فرماتے ہیں میری محبت تمہارے دلوں میں قائم رہے۔ لیکن میرے نام پر میری نمائندگی میں جو دوسری قدرت خدا تمہیں دکھلائے گا اس سے بھی محبت کا اظہار کرتے ہوئے اسے ہمیشہ پکڑے رہنا کیونکہ دوسری قدرت ہمیشہ رہنے والی ہے۔
خلافت کا ادارہ اب اللہ تعالیٰ کے وعدہ کے مطابق ہمیشہ رہنے والا ہے۔ یہ کہہ کرکہ خلافت اب ہمیشہ تمہارے ساتھ رہنی ہے خلافت کی اہمیت اور اس سے تعلقِ محبت اور عقیدت کے بارے میں بھی بتا دیا۔ یہ بتا کر کہ مَیں جو اس زمانے میں خداتعالیٰ کی پہلی قدرت ہوں تم نے جو میرے ساتھ محبت اور عقیدت اور اطاعت کا عہد کیا ہے میرے ہی نام پر بیعت لینے والوں سے اس عہد کو نبھانا، خلافت کی محبت کی چنگاری بھی دلوں میں آپؑ نے پیدا کر دی۔ یہ کہہ کر کہ یہ وعدہ تمہاری نسبت ہے اور ہمیشہ ہے، اپنے ماننے والوں کے دلوں کو تیار کر دیا کہ یہ وعدہ جو خداتعالیٰ نے دوسری قدرت دکھانے کا کیا ہے تبھی پورا ہو گا جب دلوں میں اس قدرت کے لئے محبت پیدا کرو گے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی جماعت سے یہ وعدہ فرمایا ہے اوران سے ہی وعدہ فرمایا ہے جو ایمان میں بڑھنے والے ہیں۔ ان سے ہی وعدہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر کامل ایمان رکھتے ہوئے اس یقین پر قائم ہیں کہ خلافت خدا کے انعاموں میں سے ایک انعام ہے جس کی بیعت میں آنا ضروری ہے۔ پس تمام سعید فطرت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس پیغام کو سمجھ گئے اور خلافت کے ہاتھ پر جمع ہو کرخلیفہ ٔوقت سے بے لوث اور بے مثال عقیدت اور اخوت کا نمونہ دکھایا اور آج تک دکھلا رہے ہیں۔ یہی بات جماعت کی مضبوطی اور تمکنت کا باعث بن رہی ہے اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا تھاکہ وہ تمہیں وہ کچھ دکھلائے گا جس کا اس نے وعدہ فرمایا ہے۔ ہر احمدی ہر روز یہ نظارہ دیکھ رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے وعدے ہر لمحہ اور ہر آن پورے ہو رہے ہیں۔
پس یہ جماعت جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی کے مطابق پیدا کی ہے یہ وہ جماعت ہے جس کے ہر فرد بچے، جوان، مرد، عورت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور خلافت سے محبت کوٹ کوٹ کر بھر دی ہے۔ پس یہ جماعت احمدیہ کی سچائی اور اس کے اس تمام قدرتوں کے مالک اور واحد ویگانہ خدا کی طرف سے ہونے کی دلیل ہے۔ یہ دلیل ہے اس بات کی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام یقینا وہی مسیح و مہدی ہیں جنہوں نے اس زمانے میں مبعوث ہونا تھا اور جن کے آنے کی پیشگوئی آنحضرت ﷺ نے فرمائی تھی۔ یہ دلیل ہے اس بات کی کہ آپؑ کے بعد نظام خلافت یقینا سچا اور راشد نظام ہے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سپرد تمام دنیا کو آنحضرت ﷺ کی غلامی میں لانے کا کام کیا ہے اور خلافت احمدیہ کا نظام بھی اسی اہم کام کے لئے قائم کیا گیا ہے۔ آنحضرت ﷺ کی غلامی میں آنے کا مطلب ہے کہ خدائے واحد ویگانہ کی عبادت اور اس کے احکامات کی تعمیل۔ پس یہ خلافت احمدیہ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے محبت اصل میں آنحضرت ﷺ اور خداتعالیٰ سے محبت کی ہی کڑیاں ہیں۔ آج دنیا میں ان محبت کرنے والوں میں جو وحدانیت نظر آرہی ہے، وہ خدا تعالیٰ کی محبت کے راستے تلاش کرنے کے لئے ہے۔ آج دنیا کے 190ممالک کے مختلف نسلوں اور رنگوں اور زبانوں کے بولنے والوں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لئے اور آپؑ کے بعد خلافت کے لئے جو محبت ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حق میں اللہ تعالیٰ کا ایک زبردست تائیدی نشان ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مختلف رنگوں اور زبانوں کو ایک نشان بتایا ہے۔ جیسا کہ فرماتا ہے کہ

وَمِنْ اٰیٰتِہٖ خَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْا َرْضِ وَاخْتِلَافُ اَلْسِنَتِکُمْ وَاَلْوَانِکُمْ۔ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّلْعٰلِمِیْنَ(الروم:23)

یعنی اس کے نشانوں میں سے آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا اور تمہاری زبانوں اور تمہارے رنگوں کا اختلاف بھی ہے۔ اس میں تمام جاننے والوں کے لئے بڑے نشان ہیں۔
آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا پیغام سن کر مختلف مذاہب، رنگ، نسل اور زبانوں کے اختلاف کے باوجود آپؑ کے ہاتھ پر سعید فطرت لوگ جمع ہو رہے ہیں اور آپؑ کے ہاتھ پریہ جمع ہونا اور پھر آپؑ کے بعد اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت سے جو نظام خلافت جاری ہے اس کے ساتھ محبت کا یہ تعلق بھی اللہ تعالیٰ کے ان تائیدی نشانوں میں سے ایک نشان ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو وعدے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کئے تھے یہ ان وعدوں کے پورا ہونے کے نشانات میں سے نشان ہے۔
گزشتہ خطبے میں مَیں نے اپنے اپریشن کا بتایا تھا تو دنیا کے مختلف کونوں کے رہنے والوں نے جس محبت اور پیار کا اظہار کیا اس نے مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیاری جماعت سے پیار میں کئی گنا بڑھا دیا۔ عجیب عجیب اظہار تھے جو احمدیوں نے کئے تھے۔ کوئی کہہ رہا تھا کہ اگر پتّے بدلے جا سکتے ہیں تو میر اپِتّہ حاضر ہے۔ کوئی کسی طرح محبت کا اظہار کر رہا تھا، کوئی کسی طرح۔ کبھی یہ خط آرہے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آنحضرت ﷺ کی غلامی میں ایسی جماعت پیدا کر دی ہے جو ایک جسم کی طرح ہے اور خلافت تو اس میں دل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اگر عام مسلمان کو تکلیف ہو تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ ایسا محسوس کرو جیسا اپنے جسم کے کسی عضو کو تکلیف ہوتی ہے تو اگر دل کو تکلیف ہو جائے تو کیا حال ہوتا ہے، یہ ان کی دلیل تھی۔ جذبات سے مغلوب خطوط تھے۔ گو کہ یہ پتّہ کا جواپریشن ہے بڑا معمولی سااپریشن ہے اور نئے طریق کار سے اگر اپریشن کے دوران یا بعد میں کوئی پیچیدگی نہ ہو تو زیادہ تکلیف بھی نہیں ہوتی۔ لیکن پھر بھی جب سے انہوں نے سنا پڑھے لکھے لوگ بھی جن کو اس بات کا اچھی طرح علم ہے بلکہ ڈاکٹرز بھی، اَن پڑھ بھی، عام آدمی بھی، افریقہ کے رہنے والے بھی اور جزائر کے رہنے والے بھی، یورپ کے رہنے والے بھی، امریکہ میں رہنے والے احمدی بھی اور ایشیا کے رہنے والے احمدی بھی بڑی فکر مندی کا اظہار کرنے لگے تھے اور اس طرح اللہ تعالیٰ کے حضور دعاؤں میں لگے اور اس طرح اپنے جذبات کا اظہار کیا کہ انتہائی پیار اور تشکر کے جذبات ان کے لئے ابھرے۔ اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ان مُحِبّوں اور پیاروں کو ہمیشہ اپنی حفاظت میں رکھے۔ ہر رنج اور ہر غم سے ان کو محفوظ رکھے۔ مختلف قوموں اور رنگوں میں اس تعلق نے جو وحدانیت پیدا کی ہے اسے ہمیشہ قائم رکھے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا مشرق سے بھی، مغرب سے بھی، شمال سے بھی، جنوب سے بھی، ہر ملک کے رہنے والے نے اس طرح جذبات کا اظہار کیا ہے کہ بے اختیار اللہ تعالیٰ کی حمد زبان پر جاری ہوتی ہے۔ بعض خطوں سے تو مَیں فکرمند ہو گیا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ان پیاروں کے لئے مَیں بھی اتنا تڑپتا ہوں یا نہیں؟ اللہ کرے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پیاروں سے میرے پیار کے معیار بھی بلند سے بلند ترہوتے چلے جائیں۔
پہلے بھی مَیں ایک دفعہ درخواست دعا کر چکا ہوں کہ دعا کریں کہ اپنے فرض کو احسن رنگ میں ادا کر سکوں۔ اب پھر دعا کی درخواست کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ پہلے سے بڑھ کر محبت اور پیار کے ساتھ حق ادا کرنے کی توفیق دے۔ جب تک جماعت اور خلافت میں یہ دو طرفہ محبت قائم رہے گی انشاء اللہ تعالیٰ خلافت احمدیہ کا قیام اوراستحکام رہے گا اور انشاء اللہ جس طرح اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق خلافت دائمی ہے یہ محبت بھی دائمی رہے گی، اس میں کوئی شک نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جو جذبات مَیں نے دیکھے ہیں وہ یہی بتا رہے ہیں اور اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ یقینا سچا ہے اور یہ انعام ہمیشہ قائم رہنے والا ہے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا اللہ تعالیٰ کے فضل سے خلافت کے فدائی اور شیدائی اب دنیا کی ہر قوم اور ہر ملک میں ہیں۔ سچے محبوں کا جو گروہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو عطا فرمایا تھا اس نے اپنی نسلوں میں بھی محبت کو کوٹ کوٹ کر بھر دیا ہے۔ آج نئی قوموں سے شامل ہونے والے بھی اسی جذبے سے سرشار ہیں۔ اس سال یو کے جلسہ پر جو نئی شامل ہونے والی جماعتیں تھیں، اس سال کے ممالک تھے ان ملکوں میں سے ایک نومبائع احمدی آئے تھے۔ برازیل کے قریب ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے وہاں کے رہنے والے ہیں۔ اب ہمارا وفد جب دوبارہ فرانس سے وہاں گیا تو انہوں نے بتایا کہ جلسے کے بعد جا کر ان نومبائع نے ایک نئے جوش اور جذبے سے تبلیغ کی مہم شروع کی ہوئی ہے اور اخلاص و محبت کا اظہار اس قدر ہے کہ لوگ حیران ہوتے تھے۔ ہر وقت خلافت سے محبت کا ذکر کرتے رہتے ہیں۔ کئی بیعتیں انہوں نے جا کر کروائی ہیں۔ تو یہ ہے اللہ تعالیٰ کے وعدے کا پورا ہونا کہ کس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی محبت اور اسلام کی محبت دلوں میں پیدا ہو رہی ہے۔
پس اللہ کا یہ فضل اب اس قدر بڑھ چکا ہے اور لوگوں کو اس کا فہم و ادراک اس قدر ہو چکا ہے کہ اب فتنہ پرداز لاکھ کوشش کریں یہ پودے جو اَب تناور درخت بن چکے ہیں وہ اب ان کو ہلا نہیں سکتے۔ کوئی طاقت نہیں ہے جو اب ان کو اکھیڑ سکے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت کا تعلق اپنے ربّ سے اتنا پختہ ہو چکا ہے کہ اب کوئی طوفان، کوئی آندھی اسے ہلا نہیں سکتی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس پیغام کو کہ قدرت ثانیہ کا دیکھنا بھی تمہارے لئے ضروری ہے اور یہ دائمی ہے اور یہ وعدہ تمہارے لئے ہے اس خوبی سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پیاروں نے پکڑا ہے کہ بے اختیار اللہ تعالیٰ کی حمد اور شکر سے دل اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے چلے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس حبل اللہ کے پکڑنے کی برکت سے جماعت کی جڑیں مضبوط سے مضبوط تر کرتا چلا جا رہا ہے۔ یہ وہ درخت ہے جو سدا بہار، سرسبز درخت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اسے قائم اور سرسبز رکھے۔ کبھی ہم میں سے کوئی سوکھے پتے کی طرح اس سے علیحدہ ہو کر گرنے والا نہ ہو اور ہمیشہ ہم وہ فیض پاتے چلے جائیں جن کی اس دو طرفہ تعلق کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خداتعالیٰ سے خبر پا کر ہمیں خوشخبری عطا فرمائی ہے۔ ہمیشہ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ یہ مضبوط تعلق اور اس کا فیض ہمارے ایمان کی مضبوطی اور دعاؤں سے مشروط ہے۔ پس اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے تعلق کو مزید مضبوط کرتے چلے جائیں۔ دعاؤں سے اس شجرہ طیبہ کی آبیاری کرتے چلے جائیں۔ اللہ تعالیٰ مجھے بھی اور آپ کو بھی اس کی توفیق عطا فرمائے۔
مَیں ان تمام احمدی ڈاکٹر صاحبان کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے اس دوران میں ہمہ وقت موجود رہ کر اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ اللہ تعالیٰ اپریشن کرنے والے ڈاکٹر جن کا نام مارکوس ریڈی(Marcuis Reddy) ہے ان کو بھی جزا دے ان کے ساتھ ہمارے احمدی ڈاکٹر مظفر احمد صاحب تھے جو سرجن ہیں۔ پارک سائیڈ ہسپتال میں یہ اپریشن ہوا تھا۔ وہاں کی انتظامیہ نے بھی بہت تعاون کیا ہے بلکہ یوں لگ رہا تھا جس طرح کسی احمدی ہسپتال میں ہی یہ اپریشن ہو رہا ہے۔ اس بات پر وہاں کا سٹاف، ڈاکٹر اور لوگ حیران تھے کہ اپریشن میں ہر ایک مریض کوکچھ نہ کچھ فکر ہوتی ہے۔ مجھے کہہ رہے تھے کہ تم بالکل نارمل ہو۔ بلکہ کہنے لگے کہ تمہاری گھبراہٹ اور بلڈ پریشر بالکل نارمل ہے جبکہ ہمیں تمہارے سے زیادہ ہے۔ مَیں نے سوچا کہ ان کو کیا پتہ کہ اللہ تعالیٰ کا فضل کس طرح ہوتا ہے۔ اور لاکھوں احمدیوں کی دعائیں کیا کام کر رہی ہیں۔ کیونکہ ان لوگوں میں عموماً یہ خانہ تو خالی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب دعا کرنے والوں کو بھی جزا دے اور ہمیشہ ان کی نیک تمنائیں اور دعائیں پوری فرماتا رہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں