خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 16؍نومبر 2007ء

خدا تعالیٰ پر ایمان کا دعویٰ کرکے اپنے آپ کو مسلمان کہلوا کر پھر کمزوروں کے حقوق ادا نہ کرنا اور معاشرے کے امن کو برباد کرنا قابل گرفت ہے۔
ہمیشہ یتیموں کی ضرورتوں کا خیال رکھو اور خاص طورپر جو دین کی خاطر جان قربان کرتے ہیں ان کا تو بہت زیادہ خیال رکھنا چا ہئے۔
جھوٹے طریقے سے یتیم کو اس کے باپ کی جائیداد سے محروم کر نے کی کوشش نہ کریں۔
یتیم کی پرورش، ا س کے مال کی حفاظت، اس کومعاشرے کافعال حصّہ بنانا ایک انتہائی اہم حکم ہے۔
بیواؤں اور مطلّقہ عورتوں کے حقوق سے متعلق قرآ ن مجید کی پرحکمت تعلیم کا بیان اور اہم نصائح
یہ کامل غلبہ والے اور حکمت والے خدا تعالیٰ کے احکامات ہیں جن سے معاشرہ کا امن قائم ہوتاہے، گھروں کا سکون قائم ہوتاہے، نیکیاں پھیلتی ہیں۔ لیکن اگر ان باتوں کی طرف توجہ نہیں ہوگی تو جہاں معاشرے کا امن برباد ہوگا وہاں ایسا شخص پھر اس عزیز اور غالب خدا کی پکڑ میں آئے گا۔
پاکستان کے موجودہ حالات کے پیش نظر احباب کو خصوصی دعاؤں کی تحریک۔
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
(فرمودہ مورخہ16 ؍ نومبر2007ء (16؍نبوت 1386ہجری شمسی) بمقام مسجد بیت الفتوح، لند ن (برطانیہ)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
وَیَسْئَلُوْ نَکَ عَنِ الْیَتٰمٰی۔ قُلْ اِصْلَاحٌ لَّھُمْ خَیْرٌ۔ وَاِنْ تُخَالِطُوْھُمْ فَاِخْوَانُکُمْ۔ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِح۔ وَلَوْ شَآءاللّٰہُ لَا َعْنَتَکُمْ۔ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ(البقرۃ:221)
وَالَّذِیْنَ یَتَوَفَّوْنَ مِنْکُمْ وَیَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا وَّصِیَّۃً لِّاَزْوَاجِھِمْ مَّتَاعًا اِلَی الْحَوْلِ غَیْرَ اِخْرَاجٍ۔ فَاِنْ خَرَجْنَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ فِیْ مَا فَعَلْنَ فِیْٓ اَنْفُسِھِنَّ مِنْ مَّعْرُوْفٍ۔ وَاللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ(البقرۃ:241)
وَالْمُطَلَّقٰتُ یَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِھِنَّ ثَلٰثَۃَ قُرُوْٓئٍ۔ وَلَا یَحِلُّ لَھُنَّ اَنْ یَّکْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللّٰہُ فِیْٓ اَرْحَامِھِنَّ اِنْ کُنَّ یُؤْمِنَّ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ۔ وَبُعُوْلَتُھُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّھِنَّ فِیْ ذٰلِکَ اِنْ اَرَادُوْآ اِصْلَاحًا۔ وَلَھُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْھِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۔ وَلِلرِّجَالِ عَلَیْھِنَّ دَرَجَۃٌ۔ وَاللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ۔ (البقرۃ:229)

یہ آیات جو مَیں نے تلاوت کی ہیں ان میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو معاشرے کے کمزورطبقے کے حقوق کی ادائیگی کی طرف توجہ دلائی ہے تاکہ اس طبقہ میں یہ احساس پیدا نہ ہو کہ ہمیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے، معاشرے میں ہماری کوئی حیثیت نہیں، زور آور اور طاقتور جس طرح چاہیں ہم سے سلوک کرتے رہیں۔ ہر آیت کے آخر پر عزیز اور حکیم کے الفاظ استعمال کرکے یہ احساس اس کمزور طبقے میں بھی پیدا کر دیا کہ اگر طاقت والے تمہارے سے زیادتی کریں اور تمہارے حقوق ادا نہ کریں تو ان کے اوپر ایک عزیز اور غالب خدا ہے جو پھر زیادتی کرنے والوں کو پکڑتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہ لوگ جو میرے پُر حکمت احکامات پرصحیح طور پر عمل نہیں کرتے، مَیں جو سب طاقتوں کا سرچشمہ ہوں، ان کو پکڑوں گا۔ اسی طرح قرآن کریم کو الٰہی کتاب ماننے والوں کو بھی توجہ دلا دی کہ یہ حقوق ایسے نہیں کہ اگر تم ادا نہ کرتے ہوئے زیادتی بھی کر جاؤ تو کوئی حرج نہیں۔ فرمایا ہمیشہ ایک مسلمان کو، ایک مومن کو یاد رکھنا چاہئے کہ ان باتوں پر عمل کرنا انتہائی ضروری ہے کیونکہ یہ معاشرے کے امن کی ضمانت ہیں۔ اِن پر عمل نہ کرکے صاحب اختیار لوگ معاشرے کے امن کو برباد کرنے والے ہوتے ہیں اور خداتعالیٰ پر ایمان کا دعویٰ کرکے، اپنے آپ کو مسلمان کہلوا کر پھر کمزوروں کے حقوق ادا نہ کرنا اور معاشرے کے امن کو برباد کرنا قابل گرفت ہے۔ کمزور طبقے پر توجہ نہ دے کر اس طبقے میں جو بے چینی پیدا ہو گی اور پھر بعض اوقات شدید ردّعمل بھی ظاہر ہوتا ہے تو ایسے ردّ عمل کے اظہار کا باعث وہ لوگ بن رہے ہوں گے جن کے ذمّہ حقوق کی ادائیگی تھی، حالات کو سنوارنے کی ذمہ داری تھی لیکن انہوں نے اپنے فرض کا حق ادا نہیں کیا۔ پس اس فرض کا حق ادا نہ کرنے کی وجہ سے، ایسے لوگوں کو جو فرض ادا نہیں کرتے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے حقوق ادا نہ کرنے والو، یا ظلم سے حق مارنے والو! ہمیشہ یاد رکھو کہ ایک غالب، عزیز خدا تمہارے اوپر ہے اور اس کے حکموں پر عمل نہ کرکے وہ احکام جو حکمت سے پُر احکام ہیں ان پر عمل نہ کرکے تم پھر امن، سلامتی اور پیار قائم کرنے والے معاشرے کے قیام میں روک ڈالنے والے بن رہے ہو۔ اور یہ چیز اس غالب خدا کو کسی صورت میں بھی برداشت نہیں ہے۔ پس توجہ کرو، حکمت اختیار کرو، حقوق کی ادائیگی کی طرف توجہ دو تاکہ وہ عزیز خدا جو عزیز و رحیم بھی ہے تم پر رحم کرتے ہوئے صفت عزیز کے نظارے تمہیں تمہارے حق میں دکھائے۔
ؑ ان آیات میں سے جو مَیں نے تلاوت کی ہیں، پہلی آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ اور وہ تجھ سے یتیموں کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ تُو کہہ دے کہ ان کی اصلاح اچھی بات ہے اور اگر تم ان کے ساتھ مل جل کر رہو تو وہ تمہارے بھائی بند ے ہی ہیں اور اللہ فساد کرنے والے کا، اصلاح کرنے والے سے فرق جانتا ہے اور اگر اللہ چاہتا تو تمہیں ضرورت مشکل میں ڈال دیتا، یقینا اللہ کامل غلبہ والا اور حکمت والا ہے۔
اس آیت میں یتامیٰ کے بارے میں ذکر کیا گیا ہے اور یتامیٰ کے تعلق میں قرآن کریم میں اور بھی بہت ساری جگہوں پر ذکر ملتا ہے جس میں ان کے حقوق کی ادائیگی اور ان پر شفقت کا ہاتھ رکھنے کا حکم ہے، اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ تمہارے بھائی ہیں اور بھائی کے ساتھ ایک نیک فطرت بھائی کیا سلوک کرتا ہے۔ بڑا بھائی ہمیشہ یہی کوشش کرتا ہے کہ میرا بھائی پڑھائی میں بھی اچھا ہو، صحت میں بھی اچھا ہو، اخلاق میں بھی اچھا ہو، جماعتی کاموں میں دلچسپی لینے والا ہو، اس کا اٹھنا بیٹھنا اچھے دوستوں میں ہو۔ جہاں پڑھائی کی طرف توجہ دے وہاں کھیلنے کی طرف بھی توجہ دے تاکہ اس کی صحت بھی اچھی رہے۔ اگر کسی محبت کرنے والے کا بھائی بیمار ہو جائے تو بے چین ہوتا ہے۔ اس کی تیمارداری او ر اس کے علاج کی طرف بھرپور توجہ دیتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہارے معاشرے کے یتیم تمہارے بھائی ہیں۔ ان سے نیک سلوک کرو، ان کی ضروریات کا خیال رکھو، ہمیشہ یہ بات تمہارے ذہن میں رہے کہ ان کی اصلاح کی طرف بھی توجہ دینی ہے۔ ان کو معاشرے کا ایک فعال حصہ بنانا ہے۔ یہ نہیں کہ اگر ان کے ماں باپ یا بڑے بہن بھائی نہیں ہیں جو ان کو سنبھال سکیں تو ان کو ضائع کر دو۔ فرمایا کہ یہ ایک مومن کا شیوہ نہیں ہے۔ مومن تو وہ ہے جو ان یتیموں کا خیال رکھتے ہوئے انہیں معاشرے کا مفید وجود بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ اسلام کی جو تعلیم ہے کہ پیار بھی کرو اور سختی کے وقت سختی بھی کرو اور ہمیشہ اصلاح کا پہلو مدنظر رہے۔ یہ چیز اپنے یتیم بھائیوں اور بچوں کے لئے بھی سامنے رکھو، جس طرح تم اپنے بچوں اور چھوٹے بھائیوں کے لئے ہمدردی کے جذبات رکھتے ہو اور یہ جذبات رکھتے ہوئے انہیں بگڑنے سے بچانے کی کوشش کرتے ہو، غلط بات پر ٹوکتے اور سمجھاتے ہو، نیک باتوں کی تلقین کرتے ہو، نہ زیادہ سختی کرتے ہو کہ وہ باغی ہو جائیں اور نہ پیار کا سلوک کرتے ہو کہ وہ لاڈ میں بگڑ جائیں۔ پس قرآن کریم کی پہلی ہدایت یتامیٰ کے بارے میں یہ ہے کہ ان کی اصلاح ہمیشہ مدنظر رکھو تاکہ وہ معاشرے کا فعال جزو بن سکیں۔ اور فرمایا کہ اصلاح اس طرح مدّنظر ہو جس طرح تم اپنے قریبی عزیز اور پیاروں کی اصلاح کی طرف توجہ دیتے ہو۔ ہمیشہ مدنظر ہو کہ وہ تمہارے بھائی ہیں۔ ان کا خیال رکھنا تمہارا فرض ہے۔
دوسری جگہ یتیموں کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

وَلْیَخْشَ الَّذِیْنَ لَوْ تَرَکُوْا مِنْ خَلْفِھِمْ ذُرِّیَّۃً ضِعٰفًا خَافُوْا عَلَیْہِمْ۔ فَلْیَتَّقُوْا اللّٰہَ وَلْیَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًا(النساء:10)

یعنی اور جو لوگ ڈرتے ہیں کہ اگر وہ اپنی کمزور اولاد چھوڑ گئے تو ان کا کیا بنے گا، ان کو اللہ کے ڈر سے کا م لینا چاہئے اور چاہئے کہ وہ صاف اور سیدھی بات کریں۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ زندگی اور موت کا تو کسی کونہیں پتہ، اس لئے اللہ کا خوف رکھتے ہوئے، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نیکیوں کی جزا دیتا ہے تم یتیموں کا خیال رکھو تاکہ اللہ تعالیٰ تمہاری اولاد کو بھی ہر قسم کے ہم و غم سے محفوظ رکھے۔
پس ہمیشہ یتیموں کی ضرورتوں کا خیال رکھو اور خاص طور پر جو دین کی خاطر جان قربان کرتے ہیں ان کا تو بہت زیادہ خیال رکھنا چاہئے تاکہ ان کے بچوں کے دل میں کبھی یہ خیال نہ آئے کہ ہمارے باپ نے دین کی خاطر جان قربان کرکے ہمیں اکیلا چھوڑ دیا ہے۔ بلکہ ہر شہید کی اولاد کو اس بات پر فخر ہو کہ ہمارے باپ نے دین کی خاطر جان قربان کرکے دائمی زندگی پا لی اور ہمارے سر بھی فخر سے اونچے ہو گئے۔ ہمیشہ ایسے بچوں کو یہ خیال رہے کہ دنیاوی لحاظ سے جماعت نے اور افراد جماعت نے ہمیں یوں اپنے اندر سمو لیاہے اور ہماری ضروریات اور ہمارے حقوق کا یوں خیال رکھا ہے جس طرح ایک بھائی اپنے بھائی کا رکھتا ہے۔ جس طرح ایک باپ اپنے بچے کا رکھتا ہے۔ ہمیشہ ان بچوں میں یہ احساس رہے کہ ہماری تربیت کا ہمارے بھائیوں نے بھی اور جماعت نے بھی حق ادا کر دیا ہے۔ اگر کسی بچے کا باپ اس کے لئے جائیداد چھوڑ کر مرا ہے تو اس کے قریبی اور ارد گرد کے لوگ اس کی جائیداد پر نظر رکھتے ہوئے اسے ہڑپ کرنے کی کوشش نہ کریں، ختم کرنے کی کوشش نہ کریں۔ جھوٹے طریقے سے یتیم کو اس کے باپ کی جائیداد سے محروم کرنے کی کوشش نہ کریں۔ بلکہ حکم یہ ہے کہ احتیاط سے استعمال کرو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

وَلَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْیَتِیْمِ اِلَّا بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ حَتّٰی یَبْلُغَ اَشُدَّہٗ (بنی اسرائیل:35)

اور تم یتیم کے مال کے پاس اس کے جوانی کے پہنچنے تک بے احتیاطی سے نہ جاؤ۔ یعنی یہ نہ ہو کہ پرورش کے بہانے اس کا مال سارا لُٹا دو۔ اگر تمہارے حالات اچھے ہیں تو جہاں اپنے بچوں کو کھلاتے پہناتے ہو اس کے لئے بھی خرچ کرو۔ اور اگر حالات ایسے نہیں کہ پرورش کر سکو اور یتیم کے ماں باپ نے اگر کوئی مال چھوڑا ہے تو پھر اس میں سے احتیاط سے صرف اتنا ہی خرچ کروجس سے اس کی ضرورت، جو حقیقی ضرورت ہے پوری ہو جائے اور جب وہ ہوش وحواس کی عمر کو پہنچ جائے تو پھر اس کا مال اسے واپس کر دو۔ بعض دفعہ دیکھنے میں آتا ہے کہ بعض قریبی بھی یتیم کا مال اس کی بلوغت کو پہنچنے کے بعد اس کے حوالے نہیں کرتے۔ ماں باپ کی چھوڑی ہوئی جائیداد پر مستقل تصرف کئے رکھتے ہیں کہ ہم نے اس پر خرچ کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو یہ چیز انتہائی ناپسند ہے یتیم کی پرورش کے لئے نیت صاف ہونی چاہئے۔ اگر نیتوں میں فتور آجائے تو باوجود اس کے کہ بظاہر ایک شخص یتیم کی پرورش کر رہا ہوتا ہے، دوسروں کی نظر میں بڑا قابل تعریف ہوتا ہے کہ اس نے اپنے قریبی یا کسی بھی یتیم کی اچھی پرورش کی ہے یا کر رہا ہے لیکن اصل میں تو اس یتیم کے پیسے سے ہی پرورش کر رہا ہوتا ہے، ہر ایک کو تو نہیں پتہ ہو گا۔ اور نہ صرف یہ کہ وہ پیسہ پرورش میں استعمال کر رہا ہوتا ہے بلکہ اس سے خود بھی فائدہ اٹھا رہا ہوتا ہے۔ زیادہ مقصد خود فائدے اٹھانے کا ہوتا ہے۔ اور جب یتیم کو بڑے ہو کر پتہ چلتا ہے کہ اس کی جائیداد تو اس کی پرورش کے نام پر اس کی پرورش کرنے والا ختم کر چکا ہے، یا حیلوں بہانوں سے اسے دینا نہیں چاہتا توپھر فساد شروع ہو جاتا ہے۔ بھائیوں بھائیوں میں دُوریاں پیدا ہو جاتی ہیں، ماموؤں، چچاؤں اور بھائیوں بھتیجوں میں دوریاں پیدا ہو جاتی ہیں، رنجشیں بڑھتی ہیں، مقدمہ بازیاں شروع ہو جاتی ہیں۔ جماعتی نظام کے تحت اگر آتے ہیں تو مقدمے قضاء میں آجاتے ہیں یا پھر عدالتوں میں چلے جاتے ہیں۔ بعض لوگ جو خود ہی معاملات اندر ہی سمیٹنا چاہتے ہیں وہ پھر بعض دفعہ اصلاح احوال کے لئے مجھے لکھتے ہیں کہ ہمارے حق دلوائے جائیں۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کو تو دھوکہ نہیں دے سکتے۔ اللہ اصلاح کرنے والے کا فساد کرنے والے سے فرق جانتا ہے۔ اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور اس کا علم کامل ہے۔ وہ انسان کی پاتال تک سے واقف ہے۔ وہ جانتا ہے کہ یتیم کی پرورش کے شوق کے پیچھے نیت کیاہے۔ معاشرے کو تو دھوکہ دیا جا سکتا ہے، عدالتوں میں تومقدے جیتے جا سکتے ہیں لیکن خداتعالیٰ کو دھوکہ نہیں دیا جا سکتا۔ اللہ تعالیٰ تو ایک مومن سے یہ توقع رکھتا ہے کہ یتیم کا مال کھانے کا تو سوال ہی نہیں، تم ایک محبت کرنے والے بھائی کی طرح یتیم سے سلوک کرو۔ نہ صرف اس کی پرورش کرو بلکہ اگر ہو سکے تو ان کو ان کے پاؤں پر کھڑا کرنے میں اگر توفیق ہے تو اپنے پاس سے بھی خرچ کر دو۔ ان کو کسی کام پر، کسی کاروبار میں لگاؤ تاکہ وہ معاشرے کا فعال اور مفید حصہ بن سکیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

وَلَوْ شَآءاللّٰہُ لَا َعْنَتَکُمْ

اور اگر اللہ چاہتا تو تمہیں مشقت میں ڈال دیتا۔ تمہیں ایسا حکم دیتا جس سے تمہیں تکلیف ہوتی۔ تمہیں حکم دیتا کہ اگر کسی یتیم کا باپ جائیداد چھوڑ گیاہے تو تم نے پھر بھی اس پر تصرف نہیں کرنا اور یتیم کی جائیداد کی ایک ایک پائی اسے واپس لوٹانی ہے اور پرورش پر بھی خود خرچ کرنا ہے۔ پس اللہ نے اگر تمہیں کسی تکلیف میں نہیں ڈالا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ جو جائز سہولت دی ہے کہ یتیم کے مال میں سے اس کی پرورش پر خرچ کر سکتے ہو اس سے ناجائز فائدہ اٹھاؤ اور اس کا مال دونوں ہاتھوں سے لُٹادو۔ پس ہمیشہ یاد رکھو کہ ناجائز طریقے سے یتیم کا مال کھانے سے تم پکڑ کے نیچے آؤ گے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

اِنَّ الَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ اَمْوَالَ الْیَتٰمٰی ظُلْمًا اِنَّمَا یَاْکُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِھِمْ نَارًا (النساء:11)

جو لوگ ظلم سے یتیموں کے مال کھاتے ہیں وہ یقینا اپنے پیٹوں میں صرف آگ بھرتے ہیں۔
پس یتیم کی پرورش، اس کے مال کی حفاظت، اس کو معاشرے کا فعال حصہ بنانا، ایک انتہائی اہم حکم ہے۔ یہ کوئی ایسی بات نہیں جس پر انسان کہے کہ اس طرف توجہ نہ بھی دی تو کوئی حرج نہیں۔ اللہ تعالیٰ اس آیت کے آخر میں جو مَیں نے تلاوت کی تھی فرماتا ہے کہ

اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ۔

یہ کہہ کر پھر توجہ دلا دی کہ گو کہ یتیم کمزور ہے، اس میں اتنی طاقت نہیں ہوتی کہ وہ اپنے حقوق کی حفاظت کرسکے یا دوسرے سے لے سکے لیکن معاشرے کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے، جو لوگ یتیم کے نگران بنائے گئے ہیں ان کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ یتیم تو عزیز نہیں ہے، غالب نہیں ہے، طاقت والا نہیں ہے لیکن ان کے اوپر ایک عزیز اور غالب خدا ہے، اس کاہاتھ ہے جو تمہارے سمیت کائنات کی ہر چیز پر غالب ہے اور اگر یتیم کے حقوق کی حق تلفی کرو گے تو خداتعالیٰ ضرور تم پر پکڑ کرے گا۔
پس اللہ تعالیٰ جو حکیم ہے، اس نے حکمت کے تحت اگر تمہیں یہ چھوٹ دی ہے کہ حسب ضرورت کم از کم مال یتیم کے مال میں سے خرچ کر سکتے ہو تو تمہیں بھی ہمیشہ حکمت کے پیش نظر یہ بات یاد رکھنی چاہئے اور عارضی فائدوں کی بجائے دُور رَس نتائج کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے جس سے معاشرے کا فساد بھی ختم ہو، آپس میں محبت و پیار اور بھائی چارے کی فضا بھی پیدا ہو اور پرورش کرنے والے خود بھی اپنے پیٹوں میں آگ بھرنے سے محفوظ رہیں اور جلنے کے عذاب سے بھی بچے رہیں۔
پھر دوسری آیت جو مَیں نے تلاوت کی ہے اس میں معاشرے کے ایک اور کمزور طبقہ یعنی بیوہ کا ذکر ہے۔ ایک تو عورت ویسے ہی عموماً معاشرے میں کمزور سمجھی جاتی ہے۔ اس پر اگر وہ بیوہ ہوجا ئے تو اکثر معاشرے اس کے حقوق کا خیال نہیں رکھتے۔ خاص طور پر کم ترقی یافتہ معاشروں میں اور ایسے معاشروں میں بعض پڑھے لکھے جو لوگ ہیں وہ بھی پھرماحول کے زیر اثر زیادتی کر جاتے ہیں۔ مسلمانوں کو تو خاص طور پر عورتوں کے حقوق کی حفاظت کی طرف توجہ دینی چاہئے کیونکہ خداتعالیٰ نے بار بار اس طرف توجہ دلائی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک تو آج عورت کے حقوق کا نعرہ لگا رہے ہیں لیکن ہمیں تو قرآن کریم نے چودہ صدیاں پہلے ہی ان حقوق کی طرف توجہ دلا دی اور اگر اُس زمانے کی معاشرتی روایات کو سامنے رکھ کر دیکھیں تو حیرت ہوتی ہے لیکن نہ صرف اللہ تعالیٰ نے عورت کے حقوق قائم کئے بلکہ اُس معاشرے میں جہاں بالکل حقوق ادا نہیں کئے جاتے تھے صحابہ کی کایاپلٹ گئی اور ان پر عمل کرکے دکھایا۔
اس آیت کا ترجمہ یہ ہے، اور تم میں سے جو لوگ وفات دئیے جائیں اور بیویاں پیچھے چھوڑ رہے ہوں ان کی بیویوں کے حق میں یہ وصیت ہے کہ وہ اپنے گھروں میں ایک سال تک فائدہ اٹھائیں اور نکالی نہ جائیں ہاں اگر وہ خود نکل جائیں تو تم پر کوئی گناہ نہیں، اس بارہ میں وہ خود جو معروف فیصلہ کریں اور اللہ کامل غلبہ والا اور صاحب حکمت ہے۔
تو یہاں اللہ تعالیٰ نے بیوہ کا ایک مدت تک اپنے خاوند کے گھر میں رہنے کا حق قائم کر دیا۔ عورت کے بارے میں یہ تو حکم ہے کہ وہ اپنے خاوند کے گھر میں بیوگی کی صورت میں اپنی عدت پوری کرے جو 4ماہ 10دن تک ہے لیکن اس کے بعد بھی ایک سال تک رہ سکتی ہے اگر وہ چاہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس بات کا رجحان رکھتے تھے اور اس سے یہ استنباط کرتے تھے کہ عدّت کی مدت کے علاوہ جو چار ماہ دس دن ہے، ایک سال کی اجازت ہے۔ آپ کا یہ رجحان تھا کہ عورت کو جتنی زیادہ سے زیادہ سہولت دی جا سکتی ہے اس آیت کی رُو سے دینی چاہئے۔ بعض دفعہ جب جائیداد کی تقسیم ہو تو اگر مرنے والے کا مکان ہو تو جو مکان ورثے میں چھوڑ کر جاتا ہے وہ اگر کسی اور کے حصے میں آگیا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تب بھی وہ صبر کرے اور ایک سال تک عورت کو تنگ نہ کرے، بیوہ کو تنگ نہ کرے۔ کیونکہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے بھی یہ لکھا ہے اور آج بھی یہ اسی طرح ہو رہا ہے کہ اگر مثلاً عورت کے اولاد نہیں ہے یا کسی کے دو بیویاں ہیں یا تھیں تو پہلی بیوی کی اولاد یا اگر عورت کے اولاد نہیں تو مرد کے والدین یا اور دوسرے رشتہ دار، بیوہ، جس کے حصے میں مکا ن کی جائیداد نہ آئی ہو، اسے نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ ایک سال تک اس کا حق ہے اور کسی وارث کا حق نہیں بنتاکہ اس معاملے میں بیوہ پر دباؤ ڈالا جائے اور اسے تنگ کیاجائے ہاں اگر وہ خود جانا چاہیں تو بیوگی کی عدّت پوری کرکے جا سکتی ہیں۔ یہ فیصلہ عورت کے اختیار میں دیا گیا ہے۔ عورت کو حق دیا گیا ہے کہ وہ معروف فیصلہ کرے یعنی ایسا فیصلہ جو قانون اور شریعت کے مطابق ہو۔ پس ہمیشہ یاد رکھو کہ یہ عزیز اور حکیم خدا کا حکم ہے۔ آخر میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم عورتوں کو ان کی کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مجبور کرو گے اور اس کے رشتہ داروں اور قریبیوں میں بھی اگر اس کو سنبھالنے والا کوئی نہیں ہو گا تو اس کی مجبوری سے کوئی دوسرا ناجائز فائدہ بھی اٹھا سکتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے ہر چھوٹے سے چھوٹے اور دُور کے امکان کو بھی مدنظر رکھتے ہوئے انتہائی پُر حکمت حکم فرمایاہے۔ عورت کے خاوندکے قریبیوں کو بھی تنبیہ کی ہے کہ ہمیشہ یاد رکھو کہ خدا کی ذات عزیز اور غالب ہے۔ اگر اس کے حکموں پر عمل نہیں کرو گے تو اس کی پکڑ کے نیچے آؤگے۔
اس میں ایک اور بات کی طرف بھی اشارہ ہے۔ ایک تو جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے کہ عورت کو ایک سال تک گھر میں رہنے دو، دوسرے بیوہ کو حق دیاہے کہ اگر وہ شادی کرکے یا کسی وجہ سے ایک سال سے پہلے بھی گھر چھوڑ دیتی ہے تو یہ اس کا معروف فیصلہ ہے۔ پھر عزیز وں رشتہ داروں کو اس میں روک نہیں بننا چاہئے کہ اب یہاں ضرور ایک سال رہو۔ بعض تنگ کرنے کے لئے بھی کہہ دیتے ہیں۔ بعض دفعہ رشتہ دار چاہتے ہیں کہ بیوہ شادی نہ کرے حالانکہ بیوہ کی شادی بھی ایک مستحسن عمل ہے۔
تو ایسے روک ڈالنے والوں کے جواب میں حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے وَاللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْم کی بڑی لطیف تشریح فرمائی ہے۔ فرمایا کہ بعض لوگ بیوہ کی شادی کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ ہماری عزت کے خلاف ہے۔ خاص طور پر ہمارے پاکستانی اور ہندوستانی معاشرے میں، بعض خاندانوں میں بہت زیادہ شدت پسندی ہے کہ یہ ہماری عزت کے خلاف ہے کہ بیوہ شادی کرے۔ لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرا نام عزیز ہے اور مَیں سب سے زیادہ عزت والا ہوں۔ مَیں حکم دیتا ہوں کہ شادی کرے۔ کیونکہ حکمت کے تقاضے کے تحت یہ حکم ہے اس لئے وہ سب جو میرے حکم سے ٹکرانے کی کوشش کرتے ہیں ان کو یاد رکھنا چاہئے کہ مَیں عزیز اور غالب ہوں۔ سب عزتیں میری طرف منسوب ہیں اس لئے میرے حکموں کی پابندی کرو اور جھوٹی عزتیں تلاش نہ کرو تاکہ تم بھی اللہ تعالیٰ کی صفات سے فیض پانے والے ہو۔
پھر تیسری آیت عورتوں کے حقوق کے بارے میں ہے۔ اور جو مطلقہ عورت ہے اس کے حق کے بارے میں ہے کہ اگر طلاق ہوجاتی ہے تو عورت کے لئے مقررہ عدت ہے جو متعین کردہ ہے اس کے بعد وہ آزاد ہے کہ شادی کرے۔ دوسری جگہ حکم ہے کہ تم ان کی شادی میں روک نہ بنو۔ بلکہ شادی میں مدد کرو اور اب وہ خود ہوش والی ہے اس لئے اگر وہ شادی کا فیصلہ کرے تو ٹھیک ہے۔ لیکن عورتوں کو حکم ہے کہ طلاق کے بعد اگر تمہیں پتہ چلے کہ حاملہ ہو تو اپنے خاوندکو بتا دو، چھپانا نہیں چاہئے۔ اگر شادی کے بعد کسی وجہ سے نہیں بنی تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انتقام لینے لگ جاؤ اور جو اس بچے کا باپ ہے اس کو نہ بتاؤ کہ تمہارا بچہ پیدا ہونے والاہے۔ اللہ فرماتاہے کہ تمہارے بتانے سے ہوسکتاہے کہ اس کا دل نرم ہو جائے اور وہ رجوع کرے اور گھر آباد ہو جائے۔ فرمایا کہ خاوند زیادہ حق دار ہے کہ انہیں واپس لے لے اور گھر آباد ہو جائیں اور رنجشیں دور ہو جائیں۔ دوسرے قریبیوں اور رشتہ داروں کو بھی حکم ہے کہ اس میں وہ روک نہ بنیں۔ بعض دفعہ قریبی اور رشتہ دار بھی لڑکی کو خراب کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ اگر خاموش بھی ہے بلکہ رجوع کرنے پر رضامند بھی ہے تو قریبی شور مچا دیتے ہیں کہ ایک دفعہ طلاق ہو گئی اب ہم لڑکی کو واپس نہیں بھیجیں گے۔ انا اور عزتوں کے معاملے اٹھ جاتے ہیں۔ کئی معاملات میرے پاس بھی آتے ہیں۔ حیرت ہوتی ہے جب بعض دفعہ جھوٹی غیرت دکھاتے ہوئے اپنی بچیوں کے گھر برباد کر رہے ہوتے ہیں۔ بعض بچیاں پھر خط لکھتی ہیں کہ ہم دونوں میاں بیوی اب بسنا چاہتے ہیں لیکن دونوں طرف کے والدین کی اَناؤں نے یہ مسئلہ بنا لیاہے۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ رشتہ د اروں کو اس تعلق کے دوبارہ قائم ہونے میں روک نہیں بننا چاہئے۔ اگر مرد کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیاہے تو پھرجھوٹی غیرتوں کے نام پر لڑکی کا گھر برباد نہیں کرنا چاہئے۔ پھر اللہ تعالیٰ عورت کے حقوق کی حفاظت کرتے ہوئے فرماتاہے کہ عورتوں کا دستور کے مطابق مردوں پر اتنا ہی حق ہے جتنا مردوں کا عورتوں پر۔
یہ آیت تو مَیں نے پڑھی تھی۔ اس کا ترجمہ بھی پڑھ دیتاہوں۔ فرمایا کہ’’اور مطلقہ عورتوں کو تین حیض تک اپنے آپ کو روکنا ہوگااور ان کے لئے جائز نہیں اگر وہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لاتی ہیں کہ وہ اس چیزکو چھپائیں جو اللہ نے ان کے رِحموں میں پیدا کر دی ہے۔ اور اس صور ت میں ان کے خاوند زیادہ حقدار ہیں کہ انہیں واپس لے لیں اگر وہ اصلاح چاہتے ہیں۔ اور ان عورتوں کا دستور کے مطابق مردوں پر اتنا ہی حق ہے جتنا مردوں کا ان پر ہے حالانکہ مردوں کو ان پر ایک قسم کی فوقیت بھی ہے اور اللہ کامل غلبے والا اورحکمت والاہے‘‘۔
پس انسان ہونے کے ناطے اور ایک ایسے رشتے کے لئے جوایک عہد پر قائم ہواہے مَردوں کو بھی حکم ہے کہ عورت کے حقوق اداکرو۔ عورت کو بھی حکم ہے کہ مردوں کے حقوق ادا کرو۔ اورجب دونوں ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھو گے تو رشتہ پائیدا رہوگا۔ پس یہ حکم عورت کے حق قائم کرنے والاہے۔ اسلام کے یہی خوبصورت احکامات تھے جنہوں نے معاشرے کی کایا پلٹ دی۔ اسلام سے پہلے عربوں نے عورتوں کوہر قسم کے حق سے محروم کیا ہواتھا بلکہ کسی مذہب نے بھی اس طرح حقوق قائم نہیں کئے جس طرح اسلام نے کئے ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے بے شمارجگہ عورتوں کے حق قائم فرمائے۔ آنحضرتﷺ فرماتے ہیں

خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِا َھْلِہٖ وَ اَنَا خَیْرُکُمْ لِاَھْلِی

(سنن ترمذی باب فضل ازواج النبی ﷺ) یعنی تم میں سے خدا کے نزدیک بہترین شخص وہ ہے جو اپنے اہل کے ساتھ حسن سلوک کرنے میں بہترین ہے اور مَیں تم سب میں اپنی بیویوں کے ساتھ بہترین سلوک کرنے والاہوں۔
پھر اللہ تعالیٰ فرماتاہے

وَعَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۔ فَاِنْ کَرِھْتُمُوْھُنَّ فَعَسٰٓی اَنْ تَکْرَھُوْا شَیْئًا وَّیَجْعَلَ اللّٰہُ فِیْہِ خَیْرًا کَثِیْرًا (النساء20:)

کہ اپنی بیویوں کے ساتھ نیک سلوک کرو۔ اگر تم میں کوئی شخص اپنی بیوی کو ناپسند بھی کرتاہو تو پھر بھی یاد رکھو کہ عین ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند کر و مگر خدا تعالیٰ نے اس میں تمہارے لئے انجام کے لحاظ سے بڑی خیر مقدر کر رکھی ہو۔ پس مرد کو بھی اپنے فیصلوں میں جلد بازی نہیں کرنی چاہئے۔ بلکہ اس کو ذہن میں رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اس چیز پر قدرت رکھتاہے کہ انجام بہتر فرمائے۔ آئے دن طلاقیں ہو جاتی ہیں اس لئے مردوں کو بھی غور کر کے سوچ سمجھ کے پھر فیصلے کرنے چاہئیں اور اس امر کو پیش نظر رکھناچاہئے کہ بعض چھوٹی چھوٹی وجہ سے مسائل بڑھ رہے ہوتے ہیں، ہو سکتاہے کہ تم اس بات کو ناپسند کرو لیکن اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے اس میں بہتری رکھی ہو۔
اگرخدا کی رضا کے لئے اور دعا کرتے ہوئے یہ سلوک اپنی بیوی سے کیا جائے تو اللہ تعالیٰ برکت ڈالتا ہے۔ جو گھرتباہی کے کنارے پر ہوتے ہیں، ٹوٹنے والے ہوتے ہیں اگر ان کے بچے ہیں تو بچے گھروں میں سہمے ہوئے ہوتے ہیں، وہی گھر پھر اللہ کی رضا حاصل کرنے والوں کے لئے پُر امن اور پیار اور محبت قائم رکھنے والے بن جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں مرد اور عورت دونوں کو ایک نصیحت یہ بھی فرما دی کہ حقوق کے لحاظ سے گو تم دونوں برابر ہو لیکن مرد کوانتظامی لحاظ سے اور بعض طاقتوں کے لحاظ سے، بعض ذمہ داریوں کے لحاظ سے فوقیت حاصل ہے۔ اس لئے عورت کو اس با ت کا بھی مرد کو مارجن (Margin) دینا چاہئے۔ مردوں کو بھی فرمایا کہ تمہیں اگر قوّام ہونے کے لحاظ سے فضیلت دی ہے تو ان ذمہ داریوں کو سمجھنا اور سنبھالنا بھی تمہارا کام ہے۔ گھر کے انتظامات اور اخراجات کے لئے رقم مہیا کرنا بھی تمہارا کام ہے۔ یہ نہیں کہ گھر میں پڑے رہواور بیوی کو کہو کہ جاؤ جا کر باہر کماؤ اورکام کرو۔ یہاں مغربی معاشرہ میں بعض گھروں میں یہ بھی ہو رہاہے۔ بیوی بچوں کی تمام ذمہ داری اٹھانا تمہارا کام ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے جو عزیز اور حکیم ہے عورتوں اور مردوں کے حقوق قائم فرمادئے۔ اور مردوں کو آخر پر عزیز اور حکیم کے الفاظ استعمال کرکے اس طرف توجہ دلادی کہ یاد رکھو عورتوں پر جو فوقیت تمہیں ہے اس سے ناجائز فائدہ نہ اٹھانا کیونکہ وہ عزیز خدا تمہارے اوپر ہے۔ تمہارے سار ے عمل دیکھ رہاہے۔ اس کی حکومت ہے۔ اس کی تم پر نظر ہے۔ تم اپنے اہل سے غلط سلوک کر کے پھر اس کی پکڑ میں آؤگے۔ پس اپنی حاکمیت کو، اپنی فوقیت کو عورتوں پر اس حد تک جتاؤ جہاں تک تمہیں اجازت ہے اور اپنے حقوق اداکرنے کی طرف بھی توجہ رکھو۔ اور اگر ان باتوں کو مدّنظر رکھو گے تو پھر اس حکیم خدا کی حکمت سے بھی فائدہ اٹھاؤ گے جس نے تمہیں فوقیت دی ہے۔ پس یہ کامل غلبہ والے اور حکمت والے خدا تعالیٰ کے احکامات ہیں جن سے معاشرہ کا امن قائم ہوتاہے۔ گھروں کا سکون قائم ہوتا ہے۔ نیکیاں پھیلتی ہیں۔ اس پُرحکمت تعلیم کا حسن دوبالا ہو کر پھیلتا چلا جاتاہے۔ لیکن اگر ان باتوں کی طرف توجہ نہیں ہوگی تو جہاں معاشرے کا امن برباد ہوگا وہاں ایسا شخص پھر اس عزیز اور غالب خدا کی پکڑ میں بھی آئے گا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس پُرحکمت تعلیم کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
خطبہ ثانیہ کے دوران حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا :
مَیں ایک دعا کے لئے بھی کہنا چاہتا تھا۔ پاکستان کے جو آج کل حالات ہیں ہر ایک کے سامنے ہیں اور حکومت بھی، سیاستدان بھی اور نام نہاد اسلام کے علمبردار بھی ہر ایک ملک کی تباہی کے درپے ہے۔ اللہ تعالیٰ اس ملک کو بچائے جو بڑی قربانیوں سے حاصل کیا گیا تھا۔ جماعت احمدیہ کی بھی اس کے لئے قربانیاں ہیں۔ کئی جانیں قربان ہوئی تھیں اس کے لئے۔ تو ایک تو وطن کی محبت کا تقاضا ہے، حکم ہے، حق بنتاہے کہ اس کے لئے دعا کریں۔ بہت سے پاکستانی جو باہر کے ملکوں میں ہیں گوکہ خبریں سنتے ہیں، دیکھتے ہیں لیکن یہ انداز ہ نہیں کہ اس وقت ملک کس طرف جا رہاہے۔ لگتاہے کہ یہ لوگ اس کو بربادی کی طرف لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو عقل دے اور اگر عقل ان کے مقدر میں نہیں تو پھر کوئی سامان پیدا فرمائے جس سے ایسے لوگ اوپر آنے والے ہوں جو ملک کا، وطن کا، عوام کا درد رکھنے والے ہوں۔
ہم یہاں بیٹھے دعا کرسکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو توفیق دے اور خاص طورپر اس کے لئے دعا کریں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں