خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 28؍دسمبر 2007ء

اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء اور ان کی جماعتوں کی سچائی ثابت کرنے کے لئے نشانات بھیجتا ہے۔ اس قسم کے بے شمار واقعات کا قرآن کریم میں پہلے انبیاء کے حوالے سے ذکر ہے۔
نشان دو قسم کے ہوتے ہیں۔ 1۔ نشان تخویف و تعذیب جن کو قہری نشان بھی کہہ سکتے ہیں۔ 2۔ نشان تبشیر و تسکین جن کو نشان رحمت سے بھی موسوم کر سکتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ معجزات دکھانے اور پکڑنے پر اب بھی قادر ہے۔ نشانات تو اللہ تعالیٰ آج بھی دکھا رہاہے لیکن اگر دیکھنے والی آنکھ دیکھے۔
پاکستان کے انتہائی ناگفتہ بہ اور خطرناک حالات کی بنا پر دنیا بھر کے احمدیوں کو پاکستانی احمدیوں کے لئے اور ان کے ملک کے لئے دعا کی تحریک۔
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ مورخہ 28؍دسمبر 2007ء بمطابق28؍فتح 1386 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لند ن (برطانیہ)

ا(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِکَ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزَکِّیْھِمْ۔ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ (البقرۃ:130)

گزشتہ خطبہ میں آنحضرت ﷺ کی ذ ات کے حوالے سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کا ذکر ہوا تھا جس میں آنحضرت ﷺ کی ذات میں چار باتوں کے وہ معیار پور اہونے کی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی تھی جو عظیم رسول کے ذریعہ کامل اور مکمل ہونے والے تھے اور ان کا ذکر کر کے مَیں پہلی خصوصیت کے بارے میں بتا رہا تھا یعنی

یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِکَ

جو اُن پر تیری آیات پڑھ کر سنائے۔ ہم آیات کے مختلف معانی دیکھ چکے ہیں یعنی آیات نشانات اور معجزات بھی ہیں، اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ دلانے والی باتیں بھی ہیں، ایمان کی طرف راہنمائی کرنے والی باتیں بھی ہیں، عذاب سے بچنے والی باتوں کی طرف توجہ دلانا بھی ہے، آئندہ ہونے والے واقعات کی پیشگوئیاں بھی ہیں۔ زمین و آسمان میں مختلف موجودات، نباتات، جمادات وغیرہ کے بارے میں علم بھی ہے، تمدن کے صحیح راستے بتانے والی باتیں بھی ہیں۔
پس آنحضرت ﷺ کے ذریعہ قرآن کریم میں اپنی ان آیات کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے جو بتایا اُسے آنحضرت ﷺ نے ہم تک پہنچایا۔ جیسا کہ ایک اور آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

یَتْلُوْا عَلَیْکُمْ اٰیٰتِنَا۔

یہ نبی، یہ عظیم رسول تمہیں ہماری آیات پڑھ کر سناتا ہے اور یہ اتنے مختلف النوع اور تفصیلی مضامین ہیں اور مختلف حوالوں سے بیان ہوئے ہیں جن کی کوئی انتہاء نہیں۔ ان میں سے چند ایک آیات مَیں نے لی ہیں جو پیش کرتا ہوں۔
گزشتہ خطبہ کے آخر پر مفسرین کے حوالے سے آیت کا ایک مطلب عذاب بتاتے ہوئے سورۃ بنی اسرائیل کے اس حصہ کا بیان کیا تھا کہ

وَمَا نُرْسِلُ بِالْاٰیٰتِ اِلَّا تَخْوِیْفًا(بنی اسرائیل:60)

یعنی اور ہم نشانات نہیں بھیجتے مگر تدریجاً ڈرانے کی خاطر۔ یہ پوری آیت یوں ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

وَمَا مَنَعَنَا اَنْ نُّرْسِلَ بِالْاٰیٰتِ اِلَّآ اَنْ کَذَّبَ بِھَا الْا َوَّلُوْنَ۔ وَاٰتَیْنَا ثَمُوْدَ النَّاقَۃَ مُبْصِرَۃً فَظَلَمُوْا بِھَا۔ وَمَا نُرْسِلُ بِالْاٰیٰتِ اِلَّا تَخْوِیْفًا (بنی اسرائیل:60)

اور کسی نے ہمیں نہیں روکا کہ ہم اپنی آیات بھیجیں سوائے اس کے کہ پہلوں نے ان کا انکار کر دیا تھا اور ہم نے ثمود کو بھی ایک بصیرت افروز نشان کے طو رپر اونٹنی عطا کی تھی۔ پس وہ اس سے ظلم کے ساتھ پیش آئے اور ہم نشانات نہیں بھیجتے مگر تدریجاً ڈرانے کی خاطر۔
پس اصل میں یہ آیت اس طرف اشارہ کر رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء اور ان کی جماعتوں کی سچائی ثابت کرنے کے لئے نشانات بھیجتا ہے اور

وَمَا مَنَعَنَا اَنْ نُّرْسِلَ بِالْاٰیٰت

یعنی کسی بات نے ہمیں نہیں روکا کہ ہم اپنے نشانات بھیجیں، اپنے نبیوں کی تائید میں نشانات اتاریں، معجزات دکھائیں۔ پس اللہ تعالیٰ جو تمام قوتوں کا سرچشمہ ہے، عزیز اور غالب ہے اس نے جہاں اس میں اُن لوگوں کو ڈرایا کہ ثمود کی اونٹنی کے نشان سے سبق حاصل کرو، وہاں یہ بات آج کے زمانے کے لوگوں کے لئے بھی ہے اور خاص طور پر مسلمانوں کے لئے کہ قرآن کریم کی آیات تمہارے سامنے اس آخری نبی اور عظیم رسولﷺ نے پیش کی تھیں۔ اس لئے کہ تم جو پڑھنے والے ہو سبق حاصل کرتے رہو۔ یہ نہ سمجھو کہ پرانے لوگوں کے واقعات قصۂ پارینہ بن گئے۔ اللہ تعالیٰ معجزات دکھانے اور پکڑنے پر اب بھی قادر ہے اس لئے کبھی غافل نہ ہونا۔ اللہ کی یاد کو کبھی نہ بھلانا۔ اللہ کے نام پر جو یہ اعلان کرے کہ چودھویں صدی کی پیشگوئیوں پر غور کرو اور ان نشانات کو دیکھو جو خدا تعالیٰ نے اپنے مسیح و مہدی کے لئے اتارے ہیں ان کو سرسری نظرسے نہ لو۔ تکذیب اور تکفیر کو انتہا تک پہنچا کر اس کی اہانت کے مرتکب نہ ہو۔ اس کے ماننے والوں کے دلوں پر چوٹ لگا کر یہ نہ سمجھو کہ نشانات دکھانے والا خدا اپنی اس طاقت کو کھو بیٹھا ہے یا اُس کا جو یہ فعل ہے ختم ہو گیا ہے۔ وَمَا مَنَعَنَا کا اعلان کرکے اللہ تعالیٰ جس امر کی طرف توجہ دلا رہا ہے اس پر غور کرو۔ اللہ تعالیٰ یہ اعلان فرما رہا ہے کہ ہم نشانوں کو بد انجام سے ڈرانے کے لئے بھیجا کرتے ہیں۔ نشانات تو اللہ تعالیٰ آج بھی بہت دکھا رہا ہے لیکن اگر دیکھنے والی آنکھ دیکھے۔
غرض اس قسم کے بیشمار واقعات کا قرآن کریم میں پرانے انبیاء کے حوالے سے ذکر ہے جو خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان فرمائے ہیں۔ اُن آیات میں بیان فرمائے ہیں جن میں پہلے انبیاء کی قوموں کا ذکر ہے۔ یہ بیان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء کی تائید میں معجزات دکھاتا ہے اور کس طرح اپنے معجزات اور نشانات دکھائے اور کس طرح قومیں تباہ ہو ئیں۔ تو یہ سب کچھ جو قرآن کریم میں ہمیں بتایا گیا، کیا یہ سب ہمیں کہانیاں سنانے کے لئے ہے؟ کیا یہ اس بات کی ضمانت دینے کے لئے ہے کہ تم جو چاہو کرو، بیشک بے عملی کی زندگی گزارو، بیشک ظلموں میں بڑھتے چلے جاؤ، استہزاء کرو، تعدّی کرو تمہیں کچھ نہیں کہا جائے گا؟ اگر یہ سوچ ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر بہت بڑا الزام ہے۔ پس عقلمند وہی ہے جو ان عبرت کے واقعات سے سبق سیکھتا ہے۔
حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس بارہ میں یہ نکتہ بھی بیان فرمایا ہے کہ کیونکہ اللہ کی قدرتیں اور طاقتیں لامحدود ہیں اس لئے وہ اپنے نشانات ہر قوم کے لئے مختلف دکھاتا ہے۔ اس لئے یہ نہیں ہوا کہ حضرت موسیٰؑکے لئے بھی وہی نشانات دکھائے گئے جو حضرت نوحؑ کے لئے یا قوم لوط اور عاد اور ثمو د کے لئے بھی وہی ایک طرح کے نشانات ظاہر ہوئے۔ کسی کو اللہ تعالیٰ نے کسی طرح پکڑا اور کسی کو کسی طرح۔ پس اللہ تعالیٰ کی خشیت اور خوف ہر وقت دل میں رکھنا چاہئے تاکہ ہم اللہ تعالیٰ کی رحمت اور فضل کے جذب کرنے والے بن سکیں۔ اللہ تعالیٰ تو بہت رحم کرنے والا ہے۔ صرف عذاب کے نشانات نہیں دکھاتا بلکہ بشارتیں بھی دیتا ہے۔ سزائیں بھی دیتا ہے تو اس وقت دیتا ہے جب لوگ حد سے بڑھ جاتے ہیں۔ بعض اسلام پر اعتراض کرنے والے یہ اعتراض کرتے ہیں کہ قرآن کریم میں جبر اور عذاب کی باتیں زیادہ ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ

وَرَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْء (الاعراف:157)

یعنی میری رحمت ہر چیز پر حاوی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت کی وجہ سے ہی بہت سے عذاب ٹل جاتے ہیں یا لمبی مہلت مل جاتی ہے۔ پس بندے کا کام ہے کہ استغفار کرے، توبہ کرے، اللہ تعالیٰ کی حدود سے باربار باہر نکلنے کی کوشش نہ کرے۔ پس مسلمان خوش قسمت ہیں کہ ہمیں یہ حدود بتا کر اور ان واقعات کی نشاندہی کر کے جو اُن قوموں کے لئے نشان بن گئیں، اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کے ذریعہ سے صحیح رہنمائی کر دی۔ پس ان حدود کی پابندی کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے۔ ان حدود کی پابندی کریں تاکہ مومن بن کر اور نیک اعمال کر کے ان بشارتوں کے حصہ دار بنیں، ان بشارتوں سے حصہ لینے والے ہوں جو اللہ تعالی ٰنے مومنوں کے لئے مقدر کی ہیں اور جس کے بارے میں ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

وَیُبَشِّرَالْمُؤْمِنِیْنَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَھُمْ اَجْرًا حَسَنًا (الکہف:3)

اور ایمان لانے والوں کوجو نیک اور ایمان کے مناسب حال کام کرتے ہیں ان کو بشارت دے کہ ان کے لئے خدا کی طرف سے اچھا اجر مقدر ہے۔ اور اچھا اجر حاصل کرنے والے جوصحیح مومن ہیں وہ پھر ایک مسلسل عمل کی حالت میں رہتے ہوئے جس میں نیک اعمال بجا لانے کی کوشش ہو اس طرح مسلسل عمل کرتے رہتے ہیں اور پھر یہ ایسی حالت ہوتی ہے جس میں ایمان بگڑتا نہیں۔ پس مومن کو چاہئے کہ قرآن کی تعلیم جو ایک کامل کتاب ہے، آیات سے پُرہے، پہلوں کے نشانات کے واقعات بھی بیان ہوئے ہیں، آئندہ کے لئے اس میں پیشگوئیاں ہیں، ان سے سبق حاصل کرے اور آئندہ آنے والی باتوں پر غور کرے نیک اعمال کی طرف توجہ کرے تاکہ اجر حسنہ پائے۔ نشانوں کی وضاحت کرتے ہوئے کہ کس قسم کے دو مختلف نشانات ہوتے ہیں، بشارتیں بھی ہوتی ہیں، انذاربھی ہوتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :
‘’واضح ہو کہ نشان دو قسم کے ہوتے ہیں۔ 1۔ نشان تخویف و تعذیب جن کو قہری نشان بھی کہہ سکتے ہیں ‘‘۔ جس سے اللہ تعالیٰ کا عذاب ہوتا ہے۔ ’’2۔ نشان تبشیر و تسکین جن کو نشان رحمت سے بھی موسوم کر سکتے ہیں۔ تخویف کے نشان سخت کافروں اور کج دلوں اور نافرمانوں اور بے ایمانوں اور فرعونی طبیعت والوں کے لئے ظاہر کئے جاتے ہیں تاوہ ڈریں اور خدا ئے تعالیٰ کی قہری اور جلالی ہیبت ان کے دلوں پر طاری ہو۔ اور تبشیر کے نشان اُن حق کے طالبوں اور مخلص مومنوں اور سچائی کے متلاشیوں کے لئے ظہور پذیر ہوتے ہیں جو دل کی غربت اورفروتنی سے کامل یقین اور زیادتِ ایمان کے طلبگار ہیں۔ اور تبشیر کے نشانوں سے ڈرانا اور دھمکانا مقصود نہیں ہوتا بلکہ اپنے ان مطیع بندوں کو مطمئن کرنا اور ایمانی اور یقینی حالات میں ترقی دینا اور ان کے مضطرب سینے پر دستِ شفقت و تسلّی رکھنا مقصود ہوتا ہے۔ سو مومن قرآن شریف کے وسیلے سے ہمیشہ تبشیر کے نشان پاتا رہتا ہے اور ایمان اور یقین میں ترقی کرتا جاتا ہے۔ تبشیر کے نشانوں سے مومن کو تسلی ملتی ہے اور وہ اضطراب جو فطرتاً انسان میں ہے، جاتا رہتا ہے اور سکینت دل پر نازل ہوتی ہے۔ مومن بابرکت اتباع کتاب اللہ اپنی عمر کے آخری دن تک تبشیر کے نشانوں کو پاتا رہتا ہے‘‘۔ اگر وہ صحیح طور پر اللہ تعالیٰ کی کتاب پر عمل کرنے والا ہو تو آخری دن تک اس کو بشارتیں ملتی رہتی ہیں۔ ’’اور تسکین اور آرام بخشنے والے نشان اس پر نازل ہوتے رہتے ہیں تا وہ یقین اور معرفت میں بے نہایت ترقیاں کرتا جائے اور حق الیقین تک پہنچ جائے۔ اور تبشیر کے نشانوں میں ایک لطف یہ ہوتا ہے کہ جیسے مومن اُن کے نزول سے یقین اور معرفت اور قوت ایمان میں ترقی کرتا ہے ایسا ہی وہ بوجہ مشاہدہ ٔآلاء ونعماء الٰہی و احسانات ظاہرہ و باطنہ‘‘۔ یعنی وہ ان چیزوں کامشاہدہ کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی نعمتیں ہیں اور اس کے احسانات ہیں۔ ’’و جلیہ و خفیہ‘‘ جو احسانات و انعامات ظاہر بھی ہیں اور مخفی بھی ہیں ’’حضرت باری عزّاسمہ جو تبشیر کے نشانوں میں بھرے ہوئے ہوتے ہیں محبت اور عشق میں دن بدن بڑھتا جاتا ہے……‘‘۔
اس قسم کے نشانات، اللہ تعالیٰ کی نعمتیں اور احسانات جو ظاہری بھی ہیں اور چھپے ہوئے بھی ہیں اور جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک انسان پر نازل ہوتے ہیں جو خوشخبریاں دینے والے نشانات ہیں ان کی وجہ سے پھر ایک انسان اللہ تعالیٰ کی محبت وعشق میں بڑھتا چلاجاتا ہے۔
پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ:’’…… قرآن شریف میں تبشیر کے نشانوں کا بہت کچھ ذکر ہے یہاں تک کہ اس نے ان نشانوں کو محدود نہیں رکھا بلکہ ایک دائمی وعدہ دے دیا ہے کہ قرآن شریف کے سچے متبع ہمیشہ ان نشانوں کو پاتے رہیں گے۔ جیسا کہ وہ فرماتا ہے

لَہُمُ الْبُشْرٰی فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ۔ لَا تَبْدِیْلَ لِکَلِمٰتِ اللّٰہ۔ ذٰلِکَ ہُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ(یونس:65)

یعنی ایماندار لوگ دنیوی زندگی اور آخرت میں بھی تبشیر کے نشان پاتے رہیں گے جن کے ذریعے سے وہ دنیا اور آخرت میں معرفت اورمحبت کے میدانوں میں ناپیدا کنارترقیاں کرتے جائیں گے‘‘۔ ایسی ترقیاں کرتے جائیں گے جو نہ ختم ہونے والی ہوں گی۔ ’’یہ خدا کی باتیں ہیں جو کبھی نہیں ٹلیں گی’‘۔
فرمایا کہ:’’اور تبشیر کے نشانوں کو پالینا، یہی فوز عظیم ہے(یعنی یہی ایک امر ہے جو محبت اور معرفت کے منتہی مقام تک پہنچا دیتا ہے)۔ … اگر خدائے تعالیٰ کے کُل نشانوں کو قہری نشانوں میں ہی محصور سمجھ کر اس آیت کے یہ معنی کئے جائیں کہ ہم تمام نشانوں کو محض تخویف کی غرض سے ہی بھیجا کرتے ہیں اور کوئی دوسری غرض نہیں ہوتی تو یہ معنی بہ بداہت باطل ہیں ‘‘۔ ظاہری طور پر بے معنی باتیں ہیں۔ ’’جیسا کہ ابھی بیان ہو چکا ہے کہ نشان دو غرضوں سے بھیجے جاتے ہیں یا تخویف کی غرض سے یا تبشیر کی غرض سے‘‘۔
(بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام۔ سورۃ بنی اسرائیل زیر آیت 60)
پس یہ ہے حقیقت ہر دو قسم کے نشانوں کی کہ مومن کے لئے بشارتیں ہیں۔ وہ نشانات ہیں جو اسے نیکی اور تقویٰ میں بڑھانے والے ہیں اور پھر اللہ کا قرب دلانے والے ہیں۔ جبکہ غیر مومن کے لئے، انکار کرنے والے کے لئے، اس میں انذار ہے، قہری نشانات ہیں۔ اور جو اس حقیقت کو نہیں سمجھتے کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی بھی فعل کبھی محدود نہیں ہوتا انہیں یہ سمجھایا گیا ہے اور قرآن کریم میں انذاری واقعات بیان کئے گئے ہیں تاکہ وہ اس سے سبق حاصل کر سکیں۔ پس عقلمند ہے وہ جو ان سے سبق لیتے ہوئے اپنی دنیا و آخرت سنوارتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مختلف جگہوں پر مختلف حوالوں سے یہ ذکر فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نشانات کو دیکھ کر کون لوگ ایمان لاتے ہیں۔ ان میں کیا خصوصیات ہونی چاہئیں یا کون لوگ ہیں جن میں یہ خصوصیات ہوں تو ان کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ مثلاً سورۃ ابراہیم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰی بِاٰیٰتِنَآ اَنْ اَخْرِجْ قَوْمَکَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ۔ وَذَکِّرْھُمْ بِاَیّٰمِ اللّٰہِ۔ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّکُلِّ صَبَّارٍ شَکُوْرٍ(ابراھیم:6)

اور یقینا ہم نے موسیٰ کو اپنے نشانات کے ساتھ یہ اذن دے کر بھیجا کہ اپنی قوم کو اندھیروں سے روشنی کی طرف نکال لا اور انہیں اللہ کے دن یاد کرا۔ یقینا اس میں ہر بہت صبر کرنے والے اور شکر کرنے والے کے لئے بہت سے نشانات ہیں۔
یہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ذکر کر کے فرمایا کہ ان حالات میں جن میں سے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم گزرے تھے، ان کا صبر و شکر ان کے کام آیا تھا اور فرمایا کہ اس صبر و شکر میں نشانات ہیں۔ پس قرآن کریم میں یہ ذکر کرنے کا مطلب ہے کہ مسلمان بھی اس نکتہ کو سمجھیں۔ لیکن صبر اور شکر کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ جو ہو، جس طرح بھی ہو، جس حال میں بھی ہو، گھر بیٹھ جاؤ اور کہہ دو ہم صبر و شکر کر رہے ہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ انعامات کی اس طرح قدر کرو جس پہ شکر گزاری بھی ہو اور قناعت بھی ہو اور صبر بھی ہو۔
آنحضرت ﷺ جو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بڑھ کر شرعی احکامات لائے، وہ آخری شریعت لائے جس پر دین اپنے کمال کو پہنچ گیا۔ تو آپؐ کے ماننے والوں کے صبر و شکر کے معیار بھی بہت اونچے ہونے چاہئیں تبھی وہ اُن حقیقی انعامات کے وارث ٹھہریں گے جو آپؐ سے وابستہ ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے جب تک انعامات کی قدر کی، فیض پاتے رہے۔ جب انعامات کی قدر نہیں کی تو ان سے انعامات چھین لئے گئے۔ یہ واقعہ بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ صبر او رشکر ایک مسلسل عمل اور جدوجہد کو چاہتا ہے۔ ایک استقلال کے ساتھ ان نیکیوں پر چلتے چلے جانے کا نام صبر اور شکر ہے جن کے بارہ میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآن کریم میں حکم دیا ہے۔ ایک تسلسل سے اس جہاد اکبر کی ضرورت ہے جو قرآن کریم کی خوبصورت تعلیم کے ذریعہ سے کرنا ہے جس میں اپنے نفس کی صفائی بھی ہے اور تبلیغ بھی ہے، اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کی شکر گزاری بھی ہے اور یہ سب چیزیں اللہ تعالیٰ نے ہمیں دی ہیں اور یہی چیز صبر و شکر کے زمرہ میں آتی ہے تاکہ تسلسل قائم رہے اور ان انعامات پر ایک بندہ، ایک مومن، اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہو۔
فی زمانہ اللہ تعالیٰ کی اس سے بڑی نعمت اور کیا ہوگی کہ جب اسلام کی نہایت کسمپرسی کی حالت تھی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود ومہدی معہود کی صورت میں ایک جری اللہ مبعوث فرمایا جو آنحضرت ﷺ کا حقیقی غلام ہے۔ اس عظیم رسول کا غلام ہے جس نے موسیٰ کی قوم سے بڑھ کر ظلمت میں ڈوبے ہوؤں کو نور عطا فرمایا۔ حضرت موسیٰؑ کی مثال دینے سے یہ مطلب نہیں کہ حضرت موسیٰؑ کامقام آنحضرت ﷺ سے بڑا تھا، اس لئے ان کے نمونے پر چلو۔ بلکہ یہ مثال ہے کہ رسولوں کو ہم اس مقصد کے لئے بھیجتے ہیں کہ وہ قوموں کو اندھیروں سے نور کی طرف لائیں اور جو قومیں اس چیز کے حصول کے بعد یعنی نور کی طرف آنے کے بعد مستقل مزاجی سے قائم رہتی ہیں وہ آیت اللہ بن جاتی ہیں۔ جو سست ہو جاتی ہیں، صبر اورشکر کے نمونے نہیں دکھاتیں ان سے نعمتیں چھن جاتی ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے رسول اللہﷺ ! مسلمانوں کو بھی بتا دے کہ اس اصول کو پکڑ کر رکھیں گے تو اللہ تعالیٰ کی ان آیات کے جو تبشیری آیات ہیں حقدار کہلائیں گے۔ پس اس اصل کو پکڑتے ہوئے اُس نعمت کی بھی قدر کرو جو اِس زمانے میں مسیح موعود کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے اتاری تھی تاکہ پھر کھوئی ہوئی عظمت واپس آئے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

وَذَکِّرْھُمْ بِاَیّٰمِ اللّٰہِ

یعنی انہیں اللہ کے دن یاد کرا۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی یہ وضاحت فرمائی ہے کہ ظلمت سے نور کی طرف نکالنے کا اس میں اللہ تعالیٰ نے ایک تو یہ طریق بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی طرف توجہ دلا۔ انہیں بتا کہ مومنین کے ساتھ کتنی بشارتیں وابستہ ہیں۔ کیا کیا انعامات مومنین کے لئے ہیں۔ دوسرے یہ کہ سزاؤں سے خوف دلایا جائے۔
پس یہ حالات قرآن کریم میں محفوظ کر کے مسلمانوں کو مستقل نصیحت فرما دی کہ تمہاری نظر ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے انعامات پر رہنی چاہئے اور پھر دوسری اس چیز پر رہنی چاہئے کہ جو نافرمانی کرنے والے ہیں ان کو نافرمانی کی صورت میں جو سزائیں ملیں، جو عذاب آئے ان پر نظر رکھو۔ تبھی ایک انسان شیطان کے حملوں سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر ایک کو یہ بات سمجھنے کا فہم و ادراک عطا فرمائے۔
اللہ تعالیٰ قرآن کریم سورۃ النحل میں فرماتا ہے

وَاللّٰہُ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءمَآءفَاَحْیَابِہِ الْا َرْضَ بَعْدَ مَوْتِھَا۔ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّقَوْمٍ یَّسْمَعُوْنَ(النحل:66)

اور اللہ نے آسمان سے پانی اتارا، اس سے زمین کو اس کے مرجانے کے بعد زندہ کر دیا۔ یقینا اس میں ان لوگوں کے لئے بہت بڑا نشان ہے جو (بات) سنتے ہیں۔
اس پانی اتارنے میں اللہ تعالیٰ نے اس قوم کے لئے جو بات سنتی ہے نشان بتایا ہے، یعنی پانی کا اترنا نشانی ہے سننے والوں کے لئے۔ جبکہ اسی سورۃ کی پچھلی آیات میں ایک جگہ فرماتا ہے کہ

اَلَّذِیْ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءمَآءلَّکُمْ

اور یہ جو پانی اتارا ہے اس کے بارے میں فرمایا کہ یہ پانی مَیں نے تمہارے لئے اتارا۔ اس کے بارے میں ان آیات میں فرماتا ہے کہ اس پانی سے تم پیتے بھی ہو اور جانور بھی پیتے ہیں، اور تمہارے درخت اور فصلیں بھی تیار ہوتی ہیں جو تمہارے فائدے کے لئے ہیں۔ لیکن یہ جو مَیں نے ابھی آیت پڑھی ہے اس میں جیسا کہ مَیں نے کہا اور ہم نے ترجمہ دیکھا کہ زمین کے زندہ کرنے کے لئے جو پانی اتارا اس میں نشان ہے سننے والوں کے لئے اور پانی کا سننے سے تو کوئی تعلق نہیں ہے۔ پانی کا تعلق جیسا کہ پہلی آیت میں بیان ہوا ہے پیاس بجھانے اور فصلوں اور پودوں کی پرورش سے ہے۔ تو یہاں جو سننے کے ساتھ اس پانی کے اُترنے کو ملایا ہے اس کا کچھ اور مطلب ہو گا۔ کچھ اور مراد ہونی چاہئے۔ اس کے لئے جب اس آیت سے پہلی آیت دیکھتے ہیں تو اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے یہ کتاب تجھ پر اس لئے اتاری ہے کہ جن باتوں کے متعلق پہلی اُمّتوں نے اختلاف پیدا کیا ہوا ہے، ہر ایک اپنے آپ کو صحیح سمجھتی ہے، ان اختلافات کو کھول کر بیان کریں تاکہ صحیح تعلیم اور حقیقت کا انہیں پتہ چلے۔ اور جو اس پہ ایمان لائیں انہیں اس کے ذریعہ سے ہدایت اور راہنمائی حاصل ہو۔ اور یہ مومنین کی جماعت ایسی بن جائے جن پر رحمتیں نازل ہوں۔ پھر اس آیت میں جو مَیں نے پڑھی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مردہ زمین کو زندگی بخشنے میں سننے والوں کے لئے نشانات پائے جاتے ہیں۔ پس یہاں پانی سے مرادروحانی پانی ہے جو انبیاء کے ذریعہ سے آسمان سے نازل ہوتا ہے جو سب سے اعلیٰ اور مصفّٰی حالت میں آنحضرت ﷺ پر نازل ہوا۔ جس نے بہت سے مُردوں کو زندگی بخشی۔ پرانی امتوں کے جو آپس کے اختلافات تھے اور قضیے تھے وہ چکائے۔ اختلافات ختم کئے۔ پس یہ قرآن کریم کی تعلیم ہے جو سننے والوں کے لئے زندگی بخش کلام ہے۔ یہاں سننے سے مراد صرف سننا نہیں ہے بلکہ اسے قبول کرتے ہوئے اس پر عمل کرنا بھی ہے۔ پس اس روحانی پانی کا فائدہ اس تعلیم پر عمل کرنے والوں کے لئے ہی ہے نہ کہ ان لوگوں کے لئے جو فرقہ بندیوں اور تفرقہ بازیوں میں پھنسے ہوئے ہیں اور اپنی فرقہ بندیوں کی وجہ سے باوجود اس کتاب کے موجود ہونے کے اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ عجیب و غریب تو جیہیں اور تفسیر یں اس کی بیان کی جاتی ہیں۔ اس زندگی بخش پانی کو مسلمانوں نے اپنے لئے اس وجہ سے بے فیض کر لیا ہے کہ اس کو سمجھ نہیں سکے۔ اس زمانے میں جب آنحضرت ﷺ کے عاشق صادق نے مبعوث ہونا تھا وہی فیض پا سکتے تھے جو اس عاشق صادق کی تفسیروں کو غور سے سنے جس کی خود اللہ تعالیٰ نے راہنمائی فرمائی ہے اور جس نے اللہ تعالیٰ سے خبر پا کر یہ اعلان کیا کہ’’مَیں وہ پانی ہوں جو آیا آسماں سے وقت پر‘‘۔
پس اب قرآنی فیض کے چشمے جو ہیں وہ بھی اسی عاشق صادق کی صحبت سے جاری ہونے ہیں۔ پس عقل والوں کے لئے غور اور فکر کا مقام ہے۔ کان رکھنے والوں کے لئے سننے کا پیغام ہے۔ پس توجہ کریں اور سنیں۔
پھر اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے۔

اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّمَنْ خَافَ عَذَابَ الْاٰخِرَۃِ ذٰلِکَ یَوْمٌ مَّجْمُوْعٌ لَّہُ النَّاسُ وَذٰلِکَ یَوْمٌ مَّشْہُودٌ(ھود:104)

یقینا اس بات میں ایک عظیم نشان ہے اس کے لئے جو آخرت کے عذاب سے ڈرتا ہو۔ یہ وہ دن ہے جس کے لئے لوگوں کو جمع کیا جائے گا اور یہ وہ دن ہے جس کی شہادت دی گئی ہے۔
پس جب ایک مومن ان واقعات کو پڑھتا ہے جو پہلی قوموں پر ہو چکے ہیں۔ یعنی ان کے ظلموں اور زیادتیوں کی وجہ سے ان پر عذاب آئے یا ان آیات کو پڑھتا ہے جن میں اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ مَیں ظلم و زیادتی کرنے والوں کو پکڑوں گا او رآخرت کا عذاب بہت سخت عذاب ہے تو ایک مومن کی روح کانپ جاتی ہے وہ اپنی اصلاح کی مزید کوشش کرتا ہے۔ ہر قسم کے ظلم سے اپنے آپ کو دور رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ بلکہ ایک مومن کی تو یہ شان ہے اور آنحضرت ﷺ نے ہمیں یہی سکھایا ہے اور یہی اُسوہ ہمارے سامنے پیش فرمایا کہ جب بادل یا آندھی وغیر ہ آتے تھے اور جب آپؐ اُن کو دیکھتے تھے تو اللہ تعالیٰ سے اس کے شر سے بچنے کے لئے دعا کیا کرتے تھے، اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آنے کی دعا کیا کرتے تھے۔ پس مومن ان سب باتوں کو دیکھ کر اپنا جائزہ لیتے ہیں اور ان میں خوف اور خشیت پیدا ہوتی ہے۔ عذاب اور پہلے واقعات، یہی چیز ہے جو مومن کو اپنی اصلاح کی طرف توجہ دلاتے ہیں۔
اللہ کرے کہ آنحضرت ﷺ کی اُمّت کا ہر فرد، آپؐ سے منسوب ہونے والا ہر شخص اس حقیقت کو دل کی گہرائی سے سمجھنے والا ہو کہ ظلم و تعدی اور حد سے بڑھی ہوئی نافرمانی اور بغاوت اور اللہ تعالیٰ کے احکامات کو توڑ مروڑ کر اپنے مقصد کے لئے استعمال کرنا خدا کے ہاں قابل مؤاخذہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم احمدیوں کو بھی سب سے بڑھ کر ان باتوں کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
ایک دُعا کی طرف بھی توجہ دلانی چاہتا ہوں۔ جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ پاکستان کے حالات آج کل انتہائی ناگفتہ بہ ہیں۔ حکومت بھی بظاہر لگتا ہے کہ بالکل مجبور ہو چکی ہے، نہ ہونے کے برابر ہے اور ہر چیز دہشت گردوں اور شدت پسندوں کے ہاتھوں میں ہے۔ اسلام کا نام لے کر اسلام کے احکامات کے خلاف حرکتیں کی جا رہی ہیں۔ اللہ کا رسولؐ تو یہ کہتا ہے کہ وہ مسلمان ہی نہیں ہے جس نے دوسرے مسلمان کو مارا اور یہاں ہر ایک دوسرے کو مارنے پر تلا ہوا ہے۔ ہر روز درجنوں جانیں ضائع ہو جاتی ہیں۔ دہشت گردی حد سے زیادہ بڑھی ہوئی ہے۔ کئی بچے یتیم ہو رہے ہیں، کئی عورتیں بیوہ ہو رہی ہیں۔ کیؤں کے سہاگ اجڑ رہے ہیں۔ لیکن ان کو کوئی سمجھ نہیں آرہی کہ کیا ہو رہا ہے، کس طرف یہ لوگ جا رہے ہیں۔ تو دعا کریں اللہ تعالیٰ ان کو عقل دے اور سمجھ دے۔
احمدیوں کا تو اس ملک کے قیام میں بھی حصہ ہے۔ احمدیوں کے خون اس ملک کے قیام کے وقت بھی بہے ہیں۔ احمدیوں کے خون اس ملک کی تعمیر میں بھی بہے ہیں۔ احمدیوں کے خون اس ملک کی حفاظت کے لئے بھی بہے ہیں۔ اوریہ وطن سے محبت کا تقاضا بھی ہے کہ ہم آج بھی اللہ تعالیٰ کے حضور جھکیں۔ کیونکہ اب جو حالات ہیں ویسے بھی ہمارے پاس اور کوئی طاقت نہیں جو ظلم کو روک سکیں۔ ظلم سے روکنے کے لئے ایک چیز جوہمارے پاس ہے وہ دُعا ہے۔ اس لئے دُعاؤں کی طرف بہت زیادہ توجہ دیں۔
پاکستان میں رہنے والے احمدی بھی بہت زیادہ دعائیں کریں۔ دنیا کے دوسرے ملکوں میں جو پاکستانی احمدی رہ رہے ہیں وہ بھی اس ملک کے لئے دعا کریں۔ بلکہ دنیا میں رہنے والے غیر پاکستانی احمدی بھی دعا کریں کہ پاکستانی احمدیوں کا ان ملکوں پر یہ بھی احسان ہے کہ انہوں نے پہلے جا کر وہاں اس زمانے کے امام کا پیغام پہنچایا اور انہیں وہ راستے دکھائے اور انہیں وہ تعلیم دکھائی اور اس آسمانی پانی سے آگاہ کیا جو اس زمانے کے امام کے ذریعے ہم تک پہنچا۔ تو احسان کا بدلہ اتارنے کے لئے بھی مَیں سمجھتا ہوں کہ ہر احمدی کو آج کل پاکستانی احمدیوں کے لئے اور ان کے ملک کے لئے دعا کرنی چاہئے۔
احمدی جو پاکستان میں ہیں اپنے ماحول میں بھی اس طرف توجہ کریں۔ غیروں میں بھی ان کا کچھ نہ کچھ اثر ہوتا ہے، ان کو توجہ دلائیں کہ تم لوگ یہ کس ڈگر پر چل پڑے ہو۔ اللہ تعالیٰ نے تم پر ایک ملک دینے کی صورت میں جواحسان کیا تھا جہاں تم آزادی سے رہ سکتے ہو، کیوں اس کی بربادی پر تلے ہوئے ہو۔ جو قومیں انعامات کی قدر نہیں کرتیں پھر وہ انعامات سے محروم کر دی جاتی ہیں۔
پس جیسا کہ مَیں نے کہا پاکستان میں رہنے والے ہر احمدی کا فرض ہے کہ اپنے ماحول میں اس طرف توجہ بھی دلائیں جہاں تک ان کا اثر ہے اور دُعا بھی بہت کریں بلکہ دنیا کے رہنے والے ہر احمدی کا فرض ہے کہ دعا کریں اور بہت دعا کریں۔ حالات انتہائی خطرناک ہوتے چلے جا رہے ہیں حد سے زیادہ بڑھتے چلے جا رہے ہیں اور جو بم پھٹتے ہیں یا گولیاں چلتی ہیں یا قتل ہوتے ہیں اس کے ردّعمل کے طور پربجائے اس کے کہ
غور و فکر کر کے کوئی حل سوچا جائے، کوئی عقلمندی سے پلاننگ کی جائے، اس کی بجائے پھر مار دھاڑ، توڑ پھوڑ اور تباہی کی طرف پھر توجہ ہو جاتی ہے اور مزید تباہیاں پھیلتی چلی جا رہی ہیں۔ درجنوں موتیں روزانہ ہو رہی ہیں۔ اس کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو عقل دے۔ عوام تو عموماً شریف ہیں، زیادہ تر عوام تو اس میں ملوث نہیں ہوتے لیکن جو شرارتی طبقہ ہے، جو ملک کی تباہی کے درپے ہے اگر ان کا یہی مقدر ہے کہ اُن میں عقل نہیں آنی، اللہ تعالیٰ کی یہی تقدیر ہے تو کم از کم پھر ان پر پکڑ جلدی آئے تاکہ یہ ملک محفوظ رہے اور شرفاء محفوظ رہیں اور بچے محفوظ رہیں۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ اس ملک میں جلد امن قائم ہو جائے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں