خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بتاریخ 11؍جولائی2003ء

امام کی ڈھال کے پیچھے رہ کر فتح و ظفر احمدیت کا مقدر بنے گی
آنحضرتﷺ کی دعاؤں سے دشمن غزوہ ٔ اُحد میں اپنے مقصد میں ناکام رہا
غزوہ احد کے حالات اور جانثار صحابہؓ کی قربانیوں کا ایمان افروز تذکرہ
خطبہ جمعہ ارشاد فرمودہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
۱۱؍جولائی ۲۰۰۳ء مطابق ۱۱؍وفا۱۳۸۲ہجری شمسی بمقام مسجد فضل لندن(برطانیہ)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أشھد أن لا إلہ إلا اللہ وحدہ لا شریک لہ وأشھد أن محمداً عبدہ و رسولہ-
أما بعد فأعوذ باللہ من الشیطان الرجیم- بسم اللہ الرحمٰن الرحیم-
الحمدللہ رب العٰلمین- الرحمٰن الرحیم- مٰلک یوم الدین- إیاک نعبد و إیاک نستعین-
اھدنا الصراط المستقیم- صراط الذین أنعمت علیھم غیر المغضوب علیھم ولا الضالین-
وَاِذْ غَدَوْتَ مِنْ اَھْلِکَ تُبَوِّیُٔ الْمُؤْمِنِیْنَ مَقَاعِدَ لِلْقِتَالِ۔وَاللہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ-(سورۃ آل عمران :۱۲۲)

اور (یاد کر) جب تُو صبح اپنے گھر والوں سے مومنوں کو (ان کی) لڑائی کے ٹھکانوں پر بٹھانے کی خاطر الگ ہوا۔ اور اللہ بہت سننے والا (اور) دائمی علم رکھنے والا ہے۔
یہ آیت جنگ اُحد کے حالات کے بارہ میں ہے۔اس میں مسلمانوں سے جو غلطیاں ہوئیں جنگ میں مثلاً ابتدائی طورپر تو آنحضرت ﷺکی مرضی کے خلاف بعض نوجوان صحابہ کا مدینہ سے باہر نکل کر جنگ کرنے کا مشورہ تھا۔پھر جنگ کے میدان میں جب ایک درہ کی حفاظت کے لئے آپ نے پچاس تیراندازوں کو بٹھایا۔تو انہوں نے یہ دیکھتے ہوئے کہ لڑائی کا پانسا مسلمانوں کی طرف پلٹ گیا ہے اور فتح نصیب ہو رہی ہے۔باجود اس کے کہ آنحضرت ﷺکا ارشاد تھا کہ جو بھی صورت ہو تم نے درہ خالی نہیں کرنا۔مال غنیمت کے لالچ میں نافرمانی کرتے ہوئے جگہ چھوڑی اور پھر اس کا نتیجہ ظاہر ہے جو ہونا تھا مسلمانوں کو نقصان ہوا اور اس کے بارہ میں آنحضرت ﷺ کو ایک خواب میں بھی یہ بتا دیا گیاتھا کہ ایسی صورت پیدا ہوگی کہ مسلمانوں کا نقصان ہو۔ ظاہر ہے کہ حضور ﷺنے بہت دعائیں بھی کی ہوں گی اس جنگ سے پہلے۔ جنگ بدر کے بارہ میں تو بہت سے حوالے بھی آتے ہیں-بہرحال اللہ تعالیٰ نے ان دعاؤں کو سنا اور ایسے حالات میں جو ظاہر ی نتیجہ جس طرح نکلنا چاہئے، جب مسلمانوں کو فتح ہوئی درہ پر بیٹھے ہوئے صحابہ نے نافرمانی کرتے ہوئے وہ جگہ چھوڑی اور پھر کفار نے دوبارہ پلٹ کر حملہ کیا اور مسلمانوں کو بے انتہا نقصان پہنچایا۔تو جو نتیجہ اس صورت میں نکلنا چاہئے وہ بہت بھیانک ہونا چاہئے لیکن یہ دعائیں ہی تھیں جن کی وجہ سے باوجود اس کے کہ مسلمانوں کو بہت نقصان پہنچا جس طرح دشمن فتح حاصل کرنا چاہتا تھا اس کو فتح نصیب نہیں ہوئی۔باوجود اس کے کہ بہت سارے صحابہ شہید ہوئے آنحضرت ﷺکو خود بھی زخم آئے لیکن دشمن پھر بھی فاتح کی حیثیت سے واپس نہیں لوٹ سکا۔ کیونکہ اس زمانہ میں جنگوں میں جو رواج تھا کہ مال غنیمت اکٹھا کیا جاتا تھا اور اور بہت سے لوٹ کھسوٹ ہوتی تھی وہ کچھ بھی نہ کرسکے۔
اس کی تشریح میں اما م فخرالدین راز یؔؒ کا ایک اقتباس پیش کرتاہوں- فرماتے ہیں :

’’ وَاِذْ غَدَوْتَ مِنْ اَھْلِکَ (آل عمران :۱۲۲)

اس سے پہلے اللہ نے فرمایاہے کہ

اِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا لَا یَضُرُّکُمْ کَیْدُھُمْ شَیْئًا

کہ اگر تم صبر کرو گے اور تقویٰ پر قائم رہو گے تو ان کی تدبیریں تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گی۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی نصرت اور مدد کی یہ سنت بیان فرمائی ہے۔ لیکن اُحُد کے دن مسلمانوں کی تعداد کافی تھی لیکن جب انہوں نے آنحضرت ﷺ کے احکام کی نافرمانی کی تو شکست سے دوچار ہوئے۔جبکہ بدر کے موقعہ پر باوجود تھوڑے ہونے کے مسلمانوں نے آنحضرت ﷺکی اطاعت کی اور دشمن پر غالب آ گئے۔
شکست کا ایک سبب یہ بھی بنا کہ عبداللہ بن ابی بن سلول نے وعدہ خلافی کر کے اپنے لوگوں کو الگ کر لیا تھا۔اس سے ثابت ہوتاہے کہ منافقین پراعتماد نہیں کرنا چاہئے۔(تفسیر کبیر امام رازی)
اس ضمن میں حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ نے بڑی تفصیل بیان فرمائی ہے دیباچہ تفسیر القرآن میں ،وہ میں پیش کرتاہوں-آپ فرماتے ہیں کہ کفار کے لشکر نے بدر کے میدان سے بھاگتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ اگلے سال ہم دوبارہ مدینہ پر حملہ کریں گے اور اپنی شکست کا مسلمانوں سے بدلہ لیں گے۔چنانچہ ایک سال کے بعد وہ پھر بھرپور تیاری کرکے مدینہ پر حملہ آ ورہوئے۔ مکہ والوں کے غصہ کا یہ حال تھا کہ بدر کی جنگ کے بعد انہوں نے یہ اعلان کر دیا کہ کسی شخص کو اپنے مُردوں پر رونے کی اجازت نہیں اور جو تجارتی قافلے آئیں گے ان کی آمد آئندہ جنگ کے لئے محفوظ رکھی جائے گی۔ چنانچہ بڑی تیاری کے بعد تین ہزار سپاہیوں سے زیادہ تعداد کا ا یک لشکر ابوسفیان کی قیادت میں مدینہ پر حملہ آور ہوا۔ رسول اللہ ﷺنے صحابہ سے مشورہ لیا کہ آیا ہمیں شہر میں ٹھہر کر مقابلہ کرنا چاہئے یا باہر نکل کر۔آپؐ کا اپنا خیال یہی تھا کہ دشمن کو حملہ کرنے دیا جائے تاکہ جنگ کی ابتدا ء کا بھی وہی ذمہ دار ہو اور مسلمان اپنے گھروں میں بیٹھ کر اس کا مقابلہ آسانی سے کر سکیں- لیکن وہ مسلمان جنہیں بدر کی جنگ میں شامل ہونے کا موقع نہیں ملا تھا اور جن کے دلوں میں حسرت رہی تھی کہ کاش ہم کو بھی خدا کی راہ میں شہید ہونے کا موقعہ ملتا۔ انہوں نے اصرار کیا کہ ہمیں شہادت سے کیوں محروم رکھا جا تا ہے۔ چنانچہ آپؐ نے ان کی بات مان لی اور مشورہ لیتے وقت آپ نے اپنی خواب بھی سنائی۔ فرمایا کہ خوا ب میں مَیں نے ایک گائے دیکھی ہے اور مَیں نے د یکھا ہے کہ میری تلوار کا سرا ٹوٹ گیاہے اور مَیں نے یہ بھی دیکھاہے کہ وہ گائے ذبح کی جا رہی ہے۔ اور پھر یہ کہ مَیں نے اپنا ہاتھ تو ایک مضبوط اور محفوظ زرہ کے اندر ڈالا ہے اور مَیں نے یہ بھی دیکھاہے کہ مَیں ایک مینڈھے کی پیٹھ پر سوار ہوں-
صحابہ ؓنے کہا یا رسول اللہ ! آپؐ نے ان خوابوں کی کیا تعبیر فرمائی۔ آ پؐ نے فرمایا گائے کے ذبح ہونے کی تعبیر یہ ہے کہ میرے بعض صحابہ شہید ہوں گے اور تلوار کا سرا ٹوٹنے سے مراد یہ معلوم ہوتی ہے کہ میرے عزیزوں میں سے کوئی ا ہم وجود شہید ہوگا یا شاید مجھے ہی اس مہم میں کوئی تکلیف پہنچے۔ اور زرہ کے اندر ہاتھ ڈالنے کی تعبیر مَیں یہ سمجھتاہوں کہ ہمارا مدینہ میں ٹھہرنا زیادہ مناسب ہے- اور مینڈھے پر سوار ہونے والے خواب کی تعبیر یہ معلوم ہوتی ہے کہ کفار کے لشکر کے سردار پر ہم غالب آئیں گے یعنی وہ مسلمانوں کے ہاتھ سے مارا جائے گا۔ گو اس خواب میں مسلمانوں پر یہ واضح کر دیا گیاتھا کہ ان کا مدینہ میں رہنازیادہ اچھا ہے مگر چونکہ خواب کی تعبیر رسول کریم ﷺکی اپنی تھی،الہامی نہیں تھی۔ آپ ؐنے اکثریت کی رائے کو تسلیم کر لیا اور لڑائی کے لئے باہر جانے کا فیصلہ کردیا۔ جب آپ باہر نکلے تو نوجوانوں کو اپنے دلوں میں ندامت محسوس ہوئی اور انہوں نے کہا : یا رسول اللہ ! جو آ پ کا مشورہ ہے وہی صحیح ہے۔ہمیں مدینہ میں ٹھہر کر دشمن کا مقابلہ کرنا چاہئے۔ آپؐ نے فرمایا :خدا کا نبی جب زرہ پہن لیتاہے تو اتارا نہیں کرتا۔ اب خواہ کچھ ہو ہم آگے ہی جائیں گے۔ اگر تم نے صبر سے کام لیا تو خدا کی نصرت تم کو مل جائے گی۔یہ کہہ کر آ پؐ ایک ہزار لشکر کے ساتھ مدینہ سے نکلے اور تھوڑے فاصلے پر جاکر رات بسر کرنے کے لئے ڈیرہ لگایا۔آپ ؐکا ہمیشہ طریق تھاکہ آپ ؐدشمن کے پاس پہنچ کر اپنے لشکر کو کچھ دیر آرام کرنے کا موقع دیا کرتے تھے۔ تا کہ وہ اپنے سامان وغیرہ تیار کرلیں-صبح کی نماز کے وقت جب آپ نکلے تو آپؐ کو معلوم ہوا کہ کچھ یہودی بھی اپنے معاہد قبیلوں کی مدد کے بہانے سے آئے ہیں- چونکہ یہود کی ریشہ دوانیوں کا آپ ؐکو علم ہو چکا تھا، آپؐ نے فرمایا کہ ان لوگوں کو واپس کر دیاجائے۔ اس پر عبداللہ بن ابی بن سلول جو منافقوں کا رئیس تھا وہ بھی اپنے تین سو ساتھیوں کو لے کر یہ کہتے ہوئے واپس لوٹ گیا کہ اب یہ لڑائی نہیں رہی یہ تو ہلاکت کے منہ میں جانا ہے۔ کیونکہ خود اپنے مددگاروں کو لڑائی سے روکا جا تاہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان صرف سات سو رہ گئے جو تعداد میں کفار کی تعداد سے چوتھے حصے سے بھی کم تھے اور سامانوں کے لحاظ سے اور بھی کمزور۔ کیونکہ کفار میں سات سو زرہ پوش تھا اورمسلمانوں میں صرف ایک سو زرہ پوش اور کفار میں دو سو گھوڑ سوار تھا مگر مسلمانوں کے پاس دو گھوڑے تھے۔ آخر آپ اُحد مقام پر پہنچے۔وہاں پہنچ کر آپ نے ایک پہاڑی درّے کی حفاظت کے لئے پچاس سپاہی مقرر کئے اور سپاہیوں کے افسر کو تاکید کی کہ یہ درہ اتنا ضرور ی ہے کہ خواہ ہم مارے جائیں یا جیت جائیں تم نے اس جگہ سے نہیں ہلنا۔اس کے بعد آپ بقیہ ساڑھے چھ سو آدمی لے کردشمن کے مقابلے کے لئے نکلے جو اب دشمن کی تعداد سے قریباً پانچواں حصہ تھے۔ لڑائی ہوئی اور اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت سے تھوڑی دیر میں ساڑھے چھ سو مسلمانوں کے مقابلہ میں تین ہزار مکہ کاتجربہ کار سپاہی سر پر پاؤں رکھ کر بھاگا۔اس سلسلہ میں ایک بڑی تفصیلی حدیث ہے وہ میں یہاں پڑھتاہوں-
حضرت براء بن عازبؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے جنگ احد میں عبداللہ بن جبیرؓ کو پچاس فوجیوں کے ایک دستے کا امیر مقرر کیا اور ایک پہاڑی درّہ پر انہیں متعین کرتے ہوئے فرمایا: اگر تم دیکھو کہ ہمیں پرندے اُچک کر لے جارہے ہیں اور ہمارے گوشت کھا رہے ہیں تو بھی تم نے اس درّہ کو نہیں چھوڑنا جہاں مَیں تمہیں مقرر کر رہا ہوں-اور اگر تم دیکھو کہ ہم نے دشمن کو شکست دیدی ہے اور ہم انہیں رگیدے چلے جا رہے ہیں تب بھی تم نے اس وقت تک اس جگہ کو نہیں چھوڑنا جب تک کہ مَیں تمہیں واپس چلے آنے کا پیغام نہ بھجواؤں- جب جنگ شروع ہوئی اور مسلمانوں نے کفار کو شکست دیدی اور ہم نے کفار کی عورتوں کو دیکھا کہ وہ کپڑے سمیٹے ننگی پنڈلیاں بھاگی جارہی ہیں- عبداللہ بن جبیرؓ کے دستے نے یہ دیکھ کر کہا: اب کس بات کا انتظار ہے، مسلمان فتحیاب ہوگئے ہیں ، ہمیں بھی چلنا چاہئے۔ عبداللہ بن جبیرؓ نے جواب دیا : کیا تم آنحضرتﷺ کا یہ ارشاد بھول گئے ہو کہ جب تک مَیں واپسی کا پیغام نہ بھیجوں ، تم نے اس جگہ کو نہیں چھوڑنا۔ لیکن لوگوں نے کہا کہ فتح تو ہوچکی ہے، اب ہمیں بھی غنیمت سمیٹنے میں شامل ہونا چاہئے۔ چنانچہ وہ درّہ چھوڑ کر نیچے آگئے لیکن اس غلطی کو جب دشمن نے دیکھا کہ درّہ خالی ہے تو وہ پلٹا اور درّے میں سے ہوکر مسلمانوں پر حملہ آور ہوا۔ اس وجہ سے مسلمانوں کی فتح شکست میں بدل گئی۔ (اسی واقعہ کا ذکر قرآن کریم میں ہے) کہ رسول اُن کو پیچھے سے بلا رہا تھا۔ اس حادثہ میں ایک وقت ایسا بھی آیا کہ آنحضرتﷺ کے ساتھ صرف ۱۲ صحابہؓ رہ گئے اور ۷۰ کے قریب صحابہؓ لڑتے ہوئے شہید ہوگئے۔ جبکہ جنگ بدر میں ۱۴۰ کافر مسلمانوں کے ہاتھوں بدحال ہوئے تھے، ۷۰ قیدی بنائے گئے تھے اور ۷۰ مارے گئے تھے۔ اس موقع پر ابوسفیان نے بلند آواز سے تین دفعہ کہا: کیا تم میں محمد موجود ہیں؟۔ حضورﷺ نے جواب دینے سے منع کردیا۔ پھر اُس نے کہا کہ کیا تم میں ابوقحافہ کے بیٹے ابوبکر موجود ہیں؟ پھر اس نے تین دفعہ بلند آواز سے کہا: کیا تم میں خطاب کے بیٹے عمر موجود ہیں؟ جب اُسے کوئی جواب نہ ملا تو وہ اپنے لشکر کی طرف مُڑا اور کہا: یہ سب قتل ہوچکے ہیں- حضرت عمرؓ اس کی اس بات کو برداشت نہ کرسکے اور بلند آواز سے کہا: اے اللہ کے دشمن! خدا کی قسم! جن لوگوں کا تم نے نام لیا ہے، وہ سب کے سب زندہ ہیں اور تمہارے لئے رسوائی کے سوا کچھ نہیں- اس پر ابوسفیان نے کہا: جنگ بدر کا بدلہ چکا دیا گیا ہے اور لڑائی تو ڈول کی طرح ہوتی ہے، کبھی اِدھر جھکاؤ ہوتا ہے کبھی اُدھر۔ لوگوں میں تمہیں کچھ لاشیں مثلہ اور بگاڑی ہوئی ملیں گی۔ مَیں نے ایسا کرنے کا حکم نہیں دیا تھا لیکن مجھے اس کا افسوس بھی نہیں- پھر وہ رجزیہ نعرہ لگانے لگا:

اُعْلُ ھُبَلْ! اُعْلُ ھُبَلْ!

ھبل بُت کی جے اور اُس کی بلندی۔ اس موقعہ پر حضورﷺ نے فرمایا: جواب کیوں نہیں دیتے؟۔ صحابہؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم کیا جواب دیں؟۔ حضورﷺ نے فرمایا: تم کہو

اَللہُ اَعْلیٰ و اَجَلُّ

اللہ ہی سب سے اعلیٰ اور سب سے بڑا ہے، اس کے مقابل کوئی بلند نہیں ہے۔ ابوسفیان نے جواب میں نعرہ لگایا:

لَنَا الْعُزّیٰ وَلَا عُزّٰی لَکُمْ

ہمیں عزیٰ بت کی مدد حاصل ہے اور تمہیں کسی دیوی کی مدد حاصل نہیں- حضورﷺ نے فرمایا: جواب دو۔ صحابہؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! جواب میں ہم کیا کہیں؟ آپؐ نے فرمایا: کہو

اَللہُ مَوْلَانَا وَلاَ مَوْلٰی لَکُمْ۔

اللہ ہمارا مولیٰ اور ہمارا آقا ہے اور تمہارا ایسا کوئی مولیٰ اور آقا نہیں جو اس کے مقابلہ میں تمہاری مدد کرسکے۔
(صحیح بخاری۔ کتاب الجھاد والسیر باب یکرہ من التنازع والاختلاف فی الحرب)
اب حضرت مصلح موعودؓکا اس سلسلہ میں جو بیان ہے اس کو مَیں پڑھتاہوں- فرماتے ہیں کہ کافروں کا تعاقب کرنے کی وجہ سے مسلمان اتنا پھیل چکے تھے کہ کوئی باقاعدہ اسلامی لشکر ان لوگوں کے مقابلہ میں نہیں تھا۔اکیلا اکیلا سپاہی میدان میں نظر آ رہا تھا جن میں سے بعض کو ان لوگوں نے مار دیا باقی اس حیرت میں کہ کیا ہوگیاہے پیچھے کی طرف دوڑے۔ چند صحابہ دوڑ کر رسول اللہ ﷺکے گرد جمع ہو گئے ان کی تعداد زیادہ سے زیادہ بیس تھی۔ کفار نے شدت کے ساتھ اس مقام پر حملہ کیا جہا ں رسول کریم ﷺ تھے۔ یکے بعد دیگر ے صحابہ ؓآپؐ کی حفاظت کرتے ہوئے مارے جانے لگے۔علاوہ شمشیر زنوں کے تیر انداز اونچے ٹیلوں پر کھڑے ہو کر رسول کریم ﷺ کی طرف بے تحاشہ تیرمارتے تھے۔اس وقت طلحہ نے جو قریش میں سے تھے اور مکہ کے مہاجرین میں شامل تھے یہ دیکھتے ہوئے کہ دشمن سب کے سب تیر رسول اللہ ﷺکے منہ کی طرف پھینک رہاہے اپنا ہاتھ رسول اللہ ﷺ کے منہ کے آگے کھڑا کردیا۔ تیر کے بعد تیر جو نشانے پر گرتاتھا وہ طلحہ ؓکے ہاتھ پرگرتاتھا۔ مگر جانباز اور وفادار صحابیؓاپنے ہاتھ کو کوئی حرکت نہیں دیتاتھا۔اس طرح تیر پڑتے گئے اور طلحہ ؓکا ہاتھ زخموں کی شدت کی وجہ سے بالکل بے کار ہوگیااور صرف ایک ہی ہاتھ ان کا باقی رہ گیا۔ …احد کی جنگ کے بعد کسی شخص نے طلحہ ؓسے پوچھا کہ جب تیر آپ کے ہاتھ پر گرتے تھے تو کیا آپ کو درد نہیں ہوتی تھی اور کیا آپ کے منہ سے اُف نہیں نکلتی تھی؟ طلحہؓ نے جوا ب دیا کہ درد بھی ہوتی تھی اور اُف بھی نکلناچاہتی تھی، لیکن مَیں اُف نہیں کرتا تھا تاایسا نہ ہو کہ اُف کرتے وقت میراہاتھ ہل جائے اور تیر رسول کریم ﷺ کے منہ پر آ گرے۔
مگر یہ چند لوگ کب تک اپنے بڑے لشکر کا مقابلہ کر سکتے تھے۔ لشکرکفار کا ایک گروہ آگے بڑھا اور رسول کریم ﷺ کے گرد کے سپاہیوں کو دھکیل کر اُس نے پیچھے کر دیا۔ رسو ل کریم ﷺ ؓ تن تنہا پہاڑ کی طرح وہاں کھڑے تھے کہ زور سے ایک پتھر آپ کے خَودپر لگا او ر خَود کے کیل آپ کے سر میں گھس گئے اور آ پ بیہوش ہو کر ان صحابہ کی لاشوں پر جا گرے جو آپ کے ارد گرد لڑتے ہوئے شہید ہو چکے تھے۔ اس کے بعد کچھ اور صحابہ ؓ آپ کے جسم کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہوئے اور اُن کی لاشیں آپ کے جسم پر جا گریں- کفار نے آپ کے جسم کولاشوں کے نیچے دباہوا دیکھ کر سمجھاکہ آ پؐ مارے جا چکے ہیں-چنانچہ مکہ کا لشکر اپنی صفوں کو درست کرنے کے لئے پیچھے ہٹ گیا۔ جو صحابہ آپ ؐکے گرد کھڑے تھے اور جن کو کفار کے لشکر کا ریلا دھکیل کر پیچھے لے گیا تھا ان میں حضرت عمرؓ بھی تھے۔ جب آ پ نے دیکھا کہ میدان سب لڑنے والوں سے صاف ہو چکاہے تو آپ کو یقین ہو گیا کہ رسول کریم ﷺشہید ہو گئے ہیں اور وہ شخص جس نے بعد میں ایک ہی وقت میں قیصر اور کسریٰ کا مقابلہ بڑی دلیر ی سے کیا اور اس کا دل کبھی نہ گھبرایا اور کبھی نہ ڈرا وہ ایک پتھر پر بیٹھ کر بچوں کی طرح رونے لگ گیا۔ اتنے میں مالک ؓنامی ایک صحابی جو اسلامی لشکرکی فتح کے وقت پیچھے ہٹ گئے تھے کیونکہ انہیں فاقہ تھا اور رات سے انہوں نے کچھ نہیں کھایا تھا جب فتح ہو گئی تو وہ چند کھجوریں لے کر پیچھے کی طرف چلے گئے تاکہ انہیں کھا کر اپنی بھوک کا علاج کریں- وہ فتح کی خوشی میں ٹہل رہے تھے کہ ٹہلتے ٹہلتے حضرت عمر ؓتک جا پہنچے اور عمرؓ کو روتے ہوئے دیکھ کر نہایت ہی حیران ہوئے اور حیرت سے پوچھا :عمر !آپ کو کیا ہوا،اسلام کی فتح پر آپ کو خوش ہونا چاہئے یا رونا چاہئے؟ عمرؓ نے جواب میں کہا:مالک! شاید تم فتح کے معاً بعد پیچھے ہٹ آئے تھے۔تمہیں معلوم نہیں کہ لشکر کفار پہاڑی کے دامن سے چکرکاٹ کر اسلامی لشکر پرحملہ آور ہوا اور چونکہ مسلمان پراگندہ ہو چکے تھے ان کا مقابلہ کوئی نہ کر سکا۔ رسول اللہ ﷺ چند صحابہ ؓسمیت ان کے مقابلہ کے لئے کھڑے ہوئے اور مقابلہ کرتے کرتے شہید ہو گئے۔ مالک ؓنے کہا :عمر ؓاگر یہ واقعہ صحیح ہے تو آپ یہاں بیٹھے کیوں رو رہے ہیں-جس دنیا میں ہمارا محبوب گیاہے ہمیں بھی تو وہیں جانا چاہئے۔ یہ کہا اور وہ آخری کھجور جو آپ کے ہاتھ میں تھی جسے آپ منہ میں ڈالنے ہی والے تھے اسے یہ کہتے ہوئے زمین پر پھینک دیا کہ اے کھجور! مالک اور جنت کے درمیان تیرے سوا اور کونسی چیز روک ہے۔یہ کہا اور تلوارلے کر دشمن کے لشکر میں گھس گئے۔تین ہزار آدمی کے مقابلے میں ایک آدمی کر ہی کیا سکتاتھا مگر خدائے واحد کی پرستار روح ایک بھی بہتوں پر بھاری ہوتی ہے۔ مالک ؓاس بے جگری سے لڑے کہ دشمن حیران ہوگیا۔مگر آخر زخمی ہوئے، پھر گرے اور گر کر بھی دشمن کے سپاہیوں پر حملہ کرتے رہے جس کے نتیجہ میں کفار مکہ نے اس وحشت سے آپ پر حملہ کیا کہ جنگ کے بعد آپ کی لاش کے ستّر ٹکڑے ملے۔حتی کہ آپ کی لاش پہچانی نہیں جاتی تھی۔آخر ایک انگلی سے آپ کی بہن نے پہچا ن کر بتایا کہ یہ میرے بھائی مالک ؓکی لاش ہے۔
وہ صحابہ جو رسول اللہ ﷺکے گرد تھے اور جو کفار کے ریلے کی وجہ سے پیچھے دھکیل دئے گئے تھے کفار کے پیچھے ہٹتے ہی وہ پھر
رسول اللہ ﷺکے گر دجمع ہوگئے۔آپ کے جسم مبارک کو انہوں نے اٹھایا اور ایک صحابی عبیداللہ بن الجراح ؓ نے اپنے دانتوں سے آپؐکے سر میں گھسی ہوئی میخ کو زور سے نکالا جس سے ان کے دو دانت ٹوٹ گئے۔ تھوڑی دیر میں رسول اللہ ﷺ کو ہوش آ گیا اور صحابہ نے چاروں طر ف میدان میں آدمی دوڑائے کہ مسلمان پھراکٹھے ہوجائیں- بھاگا ہوا لشکر پھر جمع ہونا شروع ہوا اور رسول اللہ ﷺ انہیں لے کر پہاڑ کے دامن میں چلے گئے ……اور دشمن پیچھے ہٹ گیا۔ تو آپ نے بعض صحابہؓ کو اس بات پر مامور فرمایا کہ وہ میدان میں جائیں اور زخمیوں کی خبر لیں- ایک صحابی میدان میں تلاش کرتے کرتے ایک زخمی انصاری کے پاس پہنچے۔ اب دیکھیں اس حالت میں بھی صحابہ کا نمونہ۔دیکھا تو ان کی حالت خطرناک تھی۔ اور وہ جان توڑ رہے تھے۔ یہ صحابی ان کے پاس پہنچے اور انہیں السلام علیکم کہا۔ انہوں نے کانپتا ہوا ہاتھ مصافحے کے لئے اٹھایا اور ان کا ہاتھ پکڑ کے کہا کہ مَیں انتظار کررہاتھا کہ کوئی بھائی مجھے مل جائے۔ انہوں نے اس صحابی سے پوچھا کہ آپ کی حالت تو خطرناک معلوم ہوتی ہے،کیا کوئی پیغام ہے جو آپ اپنے رشتہ داروں کو دینا چاہتے ہیں؟۔اس مرنے والے صحابی نے کہا ہاں ہاں میری طرف سے میرے رشتہ داروں کو سلام کہنا اور انہیں کہناکہ مَیں تو مر رہا ہوں مگراپنے پیچھے خداتعالیٰ کی ایک مقدس امانت محمد رسول اللہ ﷺکا وجود تم میں چھوڑے جا رہاہوں- اے میرے بھائیو اوررشتہ دارو! وہ خدا کا سچا رسول ہے۔مَیں امید کرتاہوں کہ تم اس کی حفاظت میں اپنی جانیں دینے سے دریغ نہیں کروگے اور میری اس وصیت کو یاد رکھو گے۔(مؤطا امام مالک ؒ اور زرقانی)
جب رسول کریم ﷺ شہداء کو دفن کر کے مدینہ واپس گئے تو پھر عورتیں اور بچے شہر سے باہر استقبال کے لئے نکل آئے۔ رسول کریم ﷺ کی اونٹنی کی باگ سعد بن معاذؓ مدینہ کے رئیس نے پکڑ ی ہوئی تھی اور فخر سے آگے آگے دوڑے جاتے تھے۔شاید دنیا کو یہ کہہ رہے تھے کہ دیکھا ہم محمد رسول اللہ ﷺ کو خیریت سے اپنے گھر واپس لے آئے۔ شہر کے پاس انہیں اپنی بڑھیا ماں جس کی نظر کمزور ہو چکی تھی آتی ہوئی ملی۔ اُحد میں اُس کاایک بیٹا عمر بن معاذ ؓبھی مارا گیاتھا۔اسے دیکھ کر سعد بن معاذؓنے کہا :یا رسول اللہ:اُمّی۔اے اللہ کے رسول میری ماں آ رہی ہے۔ آ پ نے فرمایا خدا تعالیٰ کی برکتوں کے ساتھ آئے۔ بڑھیا آگے بڑھی اور اپنی کمزور پھٹی آنکھوں سے ادھر اُدھر دیکھا کہ کہیں رسول اللہ ﷺکی شکل نظر آ جائے۔ آخر رسول اللہ ﷺکا چہرہ پہچان لیا اور خوش ہوگئی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مائی مجھے تمہارے بیٹے کی شہادت پر تم سے ہمدردی ہے۔ اس پر نیک عورت نے کہا :حضور !جب مَیں نے آ پ کو سلامت دیکھ لیا تو سمجھو کہ مَیں نے مصیبت کو بھون کر کھا لیا۔
حضرت مصلح موعود ؓفرماتے ہیں کہ بہرحال رسول کریم ﷺ خیریت سے مدینہ پہنچے۔گواس لڑائی میں بہت سے مسلمان مارے بھی گئے اور بہت سے زخمی بھی ہوئے لیکن پھر بھی اُحد کی جنگ شکست نہیں کہلا سکتی۔جو واقعات مَیں نے اوپر بیان کئے ہیں ان کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ ایک بہت بڑی فتح تھی،ایسی فتح کہ قیامت تک مسلمان اس کو یاد کر کے اپنے ایمان کو بڑھا سکتے ہیں اور بڑھاتے رہیں گے ‘‘۔
( دیباچہ تفسیر القرآن صفحہ ۱۵۱۔۱۵۷)
اس ضمن میں ایک حدیث ہے۔حضر ت مصعب بن عمیر کے آخر ی کلمات۔حضرت مصعب بن عمیرؓ جنگ اُحد میں علمبردار اسلام تھے۔ جب اچانک جنگ کی حالت بدلی تو یہ بھی کفار کے نرغے میں پھنس گئے۔ اس وقت مشرکین کے شہسوار ابن قمیۂ نے بڑھ کر تلوار کا وار کیا جس سے ان کا داہنا ہاتھ شہید ہوگیا لیکن فوراً بائیں ہاتھ سے علم کو پکڑ لیا۔ اس وقت ان کی زبان پر یہ آیت جاری تھی:

وَمَامُحَمَّدٌ اِلَّارَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُل‘‘-

ابن قمیہ نے دوسرا وار کیا تو بایاں ہاتھ بھی قلم ہوگیا۔ آپؓ نے دونوں بازوؤں کا حلقہ بناکر علم کو سینے سے چمٹا لیا۔ اُس نے تلوار پھینک دی اور زور سے نیزہ مارا کہ نیزے کی انی ٹوٹ کر سینے میں رہ گئی اور اسلام کا سچا فدائی اسی آیت کا ورد کرتے ہوئے اپنے مولیٰ کے حضور حاضر ہوگیا۔
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد المجلد الثالث ذکر مصعب بن عمیر۔ داراحیاء التراث العربی۔ بیروت لبنان)
حضرت انس بن مالک ؓبیان کرتے ہیں کہ میرے چچا انس بن نضر ؓجنگ بدر میں شامل نہیں ہو سکے تھے اور اس کا ان کو بڑا افسوس ہوا تھا۔ آپ نے ایک دفعہ کہا:اے اللہ تعالیٰ کے رسول ! پہلی جنگ جو آپؐ نے مشرکین سے لڑی، اس میں مَیں شامل نہیں ہو سکا۔ اگر اللہ تعالیٰ نے آئندہ کبھی مجھے مشرکین سے جنگ کرنے کا موقعہ دیا تو مَیں اللہ تعالیٰ کو دکھاؤں گا کہ مَیں کیا کرتاہوں-لوگ ان کی اس بات سے تعجب کرتے۔
پھر جب اُحد کی لڑائی ہوئی تو ایک ایسا موقعہ آیا کہ مسلمان بکھر گئے اور ان کی صفیں قائم نہ رہ سکیں-اس پر انسؓ نے کہا :اے میرے اللہ ! مَیں تیرے حضور ان لوگوں ( یعنی صحابہ) کے کئے کی معذرت چاہتاہوں اور دشمنوں یعنی مشرکین کے ظالمانہ سلوک سے بیزاری کا اظہار کرتا ہوں- (مطلب یہ تھاکہ صحابہؓسے جو غلطی ہوئی ان کو معاف کردے)۔ پھر وہ آگے بڑھے تو ان کو سعد بن معاذؓ ملے۔ انس بن نضرؓ نے ان سے کہا اے سعد! دیکھوجنت قریب ہے۔ ربّ کعبہ کی قسم !مجھے اُحد کے ادھر سے اس کی خوشبو آرہی ہے۔
حضرت سعدؓنے یہ واقعہ آنحضرت ﷺ سے بیان کرتے ہوئے کہا کہ انسؓنے کہا اور کر دکھایا،مَیں ایسا نہ کرسکا۔
حضرت انس جو اس واقعہ کے راوی ہیں بیان کرتے ہیں کہ ہم نے چچا (انسؓ) کو ایسی حالت میں شہید پایا کہ ۸۰سے کچھ اوپر تلوار، نیزہ یا تیر کے ان کو زخم آئے تھے۔مشرکین نے ان کی شکل بگاڑ دی ہوئی تھی۔سوائے ان کی بہن کے کوئی ان کی نعش کو نہ پہچان سکا جس نے انگلیوں کے نشان سے ان کو پہچانا- ہم سمجھتے ہیں کہ یہ آیت اسی قسم کے لوگوں کے حق اور شان میں نازل ہوئی کہ مومنوں میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ سے جو عہد کیا اس کو پورا کر دکھایا اور وہ اپنے عہد میں سچے نکلے۔(بخاری کتاب الجہاد)
جب واپسی مدینہ کو ہوئی تو یہ خبر آئی کہ کفار کا لشکر دوبارہ راستہ میں اکٹھا ہو کر مدینہ پرحملہ کرنا چاہتاہے۔اس وقت آنحضور ﷺجب (غزوہ اُحد کے بعد)ہفتہ کی شام اُحد سے واپس لوٹے تو آپ ؐاور آپؐ کے صحابہ نے رات مدینہ میں بسر کی اور رات بھر مسلمان اپنے زخموں کی مرہم پٹی کرتے رہے۔یعنی جو بچے تھے وہ بھی سخت زخمی ہو چکے تھے۔جب رسول کریم ﷺنے صبح کی نماز اداکی تو آپ نے حضرت بلالؓ کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو بلائیں اور کہیں کہ آپ ﷺدشمن کا پیچھا کرنے کا حکم دیتے ہیں-اس سے پہلے کہ دشمن مدینہ پر حملہ آور ہو آ پ نے حکم دیا کہ ہمیں چلنا چاہئے۔ اور ہمارے ساتھ صرف وہی نکلیں گے جو کل جنگ میں شامل تھے۔ آپ ؐنے اپنا جھنڈا منگوایا اور اسے کھولے بغیر حضرت علی ؓکو دے دیا۔رسو ل کریم ﷺاور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم اس حال میں دشمن کے مقابلہ کے لئے نکلے کہ سب زخموں سے چُور تھے۔جب آپ حمراء الاسد پہنچے (جو مدینہ سے دس میل کے فاصلہ پرہے ) تو مسلمانوں نے ایک بہت بڑی آگ جلائی جو دُور دُور سے نظر آتی تھی اور یوں لگتاتھا کہ بہت بڑی تعداد میں لوگ جمع ہیں …اللہ تعالیٰ نے اس سے کفار کے دلوں میں ایسا رعب پیدا کیا کہ وہ فوراً مکہ لوٹ گئے۔ رسول کریم ﷺ صحابہ کرام کے ساتھ حمراء الاسد میں سوموار، منگل اور بدھ تک ٹھہرے رہے اور پھر واپس مدینہ لوٹ آئے۔(تاریخ الطبری جلد ۲صفحہ ۷۵)
پھر یہ تھی اس آیت کی واقعاتی اور تاریخی تصویر جو تفصیل سے مَیں نے پڑھی لیکن اس بارہ میں حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ عنہ نے ایک اور بہت اہم نکتہ بھی پیش فرمایاہے۔آپ فرماتے ہیں کہ

’’ تُبَوِّیُٔ الْمُؤْمِنِیْنَ مَقَاعِدَ لِلْقِتَال-

تو بٹھاتاتھامومنوں کو جگہ بہ جگہ جہاں انہیں کھڑے ہو کر لڑنا چاہئے۔ اس سے ایک سبق تمہارے لئے نکلتاہے کہ دشمن کامقابلہ، مناظرہ، مباحثہ بے شک کرو مگر اپنے امام کی منشاء کے ماتحت۔ کیونکہ یہ ترتیب جس کا انجام فتح و ظفر ہو اللہ کے بندے ہی جانتے ہیں ‘‘۔(حقائق الفرقان جلد اول صفحہ۵۲۵۔۵۲۶)
توبعض خطوں کی وجہ سے مجھے فکر پیدا ہوئی جومَیں یہاں بیان کرتاہوں- ایک دوست نے لکھا کہ کیونکہ دشمن ہر وقت زبان درازی کرتا رہتاہے اور جماعت کے متعلق بالکل جھوٹی اور لغو باتیں منسوب کی جاتی ہیں- پھرتبلیغ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ایسے لوگ جن کو مَیں تبلیغ کرتاہوں ان کو بھی ان کے دماغوں میں غلط فہمیاں پیدا کی جاتی ہیں اور ہماری طرف غلط باتیں منسوب کر کے ان کو بتائی جاتی ہیں اور یہ کہا جاتاہے کہ اگر یہ لوگ یعنی احمدی سچے ہیں تو ہمارے سے مباہلہ کر لیں- تو لکھنے والے یہ لکھتے ہیں کہ مَیں سمجھتاہوں کہ مجھے مباہلہ کا چیلنج قبول کرلینا چاہئے اور ـ اس کی اجازت دی جائے۔اب ایک خط کی تو مجھے فکر نہیں تھی لیکن مختلف جگہ سے یہ سلسلہ شروع ہوا اور اس سے فکر پیدا ہوئی۔ تو اس بارہ میں آپ لوگوں کو ذہن میں رکھنا چاہئے جیساکہ حضرت خلیفۃ المسیح اوّل کا ارشاد ہے کہ ہر معاملہ میں امام کے پیچھے چلیں- آپ میں سے کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ اپنے امام سے آگے نکلنے کی کوشش کریں-یا کسی کو مباہلہ کا چیلنج دیں-ہر ایک کا تو حق ہی نہیں ہے۔ اس کے بھی کچھ قواعد وضوابط ہیں- آنحضرت ﷺنے بھی جب عیسائیوں اور یہودیوں کو مباہلہ کا چیلنج دیا تو اپنی مرضی سے تو نہیں دیا تھا۔ جب تک خدا تعالیٰ نے آپ کو نہیں کہا اور طریق نہیں بتا دیا آپ ہمیشہ ہدایت کی دعائیں ہی کرتے رہے۔اسی طرح حضر ت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی جب مخالفین کی دشنام طرازیاں انتہا کو پہنچ گئیں تو اللہ تعالیٰ کے اِذن سے مختلف لوگوں کو مباہلہ کی دعوت دی پھر اس زمانہ میں آپ نے دیکھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے بھی مباہلہ کا چیلنج دیا تو اللہ تعالیٰ کے اذن سے ہی دیا۔تویہ کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ ہر کوئی اٹھے اوراس قسم کی سوچ دل میں پیدا کرلے بلکہ مناظروں مباحثوں وغیرہ میں بھی اس قسم کی شرطیں لگانے کی اجازت نہیں ہے جس سے یہ احساس ہوتاہو کہ آپ جماعت کی اور احمدیت کی سچائی کو اپنی شرطوں کے ساتھ مشروط کررہے ہیں یا اپنی دعاؤں کے ساتھ مشروط کر رہے ہیں-احمدیت تو سچی ہے اور یقینا حضرت مسیح موعود
علیہ الصلوٰۃ والسلام کا آنا خدائی بشارتوں کے ماتحت اور آنحضرت ﷺکی پیشگوئیوں کے مطابق ہے۔اور احمدیت کی سوسال سے زائد کی تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مختلف لوگوں اور مذاہب کے ماننے والوں کو جو چیلنج دئے ان کے سامنے مقابلہ کی نیت سے جو بھی کھڑا ہوا اس کے ٹکڑے اڑتے ہم نے دیکھے ہیں- خدا خود ہمارے بدلے لیتاہے اور لیتا چلا جا رہاہے پھر آپ کو کس بات کا خوف اور فکرہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے امام کی جو ڈھال آ پ کے لئے مہیا فرمائی ہے اس کے پیچھے ہی رہیں اور جو طریق اور دلائل پیغام پہنچانے کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں بتائے ہیں ان کے مطابق دعوت الی اللہ کرتے چلے جائیں- جیساکہ آپ نے فرمایا کہ جس کی فطرت نیک ہے وہ آئے گا انجام کار۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دعائیں کریں اور دعاؤں سے ہی مدد کریں- ہماراخدا زندہ خدا آج بھی ہمیں اپنی خدائی کے جلوے دکھا رہاہے اور انشاء اللہ دکھاتا چلا جائے گا۔آپ بے فکررہیں- ہاں ایک شرط ہے کہ خالص ہوکر اس کی طرف جھکیں اور اس سے مدد مانگیں- وہی ہے جو ہماری دعاؤں کو سنتاہے۔ اس کی وحدانیت کو دنیا میں قائم کرنے کی کوشش کریں- جو مخالفین مباہلے کااتنا ہی شوق رکھتے ہیں وہ اپنا شوق پورا کریں- خدا کو جتنا مرضی پکاریں وہ،اپنی ناکیں رگڑیں ، اپنے ماتھے رگڑیں-کبھی ان کی یہ دعائیں سنی نہیں جائیں گی جو وہ جماعت کے خلاف کریں گے۔ اور انشاء اللہ تعالیٰ غلبہ احمدیت یعنی حقیقی اسلام کاہی ہوگا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ فقرہ ہمیشہ یاد رکھیں کہ مَیں مامور ہوں اور فتح کی مجھے بشارت دی گئی ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں