خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 04؍اپریل 2008ء

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کے مقصد کو ہر احمدی کو، ہر وقت اپنے سامنے رکھنا چاہئے کہ آپ کی بعثت کا مقصد بندے کو اللہ تعالیٰ کے قریب کرنا اور وہ راستے دکھانا ہے جو اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول کے راستے ہیں۔
صلاح وتقویٰ، نیک بختی اورخلاقی حالت کو درست کرنے اورحِلم او ررفق کو اختیار کرنے سے متعلق حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی نصائح کا تذکرہ
صرف فنکشن کرنا اور اس کے بہترین انتظامات کرنا ہی ہمارامقصود نہیں بلکہ دعائیں اور عبادات اور نیک اعمال ہیں جو ایک مومن کو خلافت کے انعام سے فیضیاب کرتے رہیں گے۔ اس طرف توجہ دلانے کے لئے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی کتب بہت بڑا ذریعہ ہیں۔ خطبات میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے اقتباسات پیش کرنے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ تاحضورعلیہ السلام کے الفاظ میں زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پیغام پہنچے۔
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ مورخہ 04؍ اپریل 2008ء بمطابق04؍شہادت 1387 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لند ن (برطانیہ)

ا(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کے مقصد کو ہر احمدی کو ہر وقت اپنے سامنے رکھنا چاہئے کیونکہ یہ ہماری اصلاح کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے اور اس مقصد کے حصول کے لئے ہی ہر احمدی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں شامل ہوتا ہے۔ یہی چیز ہے جو ہمیں دوسرے مسلمانوں سے بھی اور غیروں سے بھی ممتاز کرتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کا مقصد کیا تھا جیسا کہ آپؑ نے کئی جگہ ذکر فرمایا ہے کہ وہ مقصد بندے کو اللہ تعالیٰ کے قریب کرنا ہے۔ وہ راستے دکھانا ہے جو اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول کے راستے ہیں۔ بندے کے تقویٰ کے معیار کو ان بلندیوں پر لے جانا ہے جس سے وہ خداتعالیٰ کے رنگ میں رنگین ہو اور یہی باتیں ہیں جو ہمیں اس تاریک کنویں میں گرنے سے بچائے رکھیں گی جس سے ہم یا ہمارے باپ دادا نکلے تھے۔ جو باتیں ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بتائیں وہ کوئی نئی باتیں نہیں ہیں۔ دراصل تو یہ باتیں اس تعلیم کی وضاحت ہیں جو خداتعالیٰ نے قرآن کریم میں ہمیں دی ہیں۔ یہ وہی باتیں ہیں جنہیں آنحضرت ﷺ نے اپنے اُسوہ سے ہمارے سامنے پیش فرمایا اور اس کے وہ اعلیٰ معیار قائم فرمائے کہ ان پر اللہ تعالیٰ کا یہ اعلان ہے کہ

وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ(القلم:5)

اور یقینا تُو بہت اعلیٰ درجہ کے اخلاق پر قائم ہے۔ اور مومنوں کو یہ حکم ہے کہ جو اُسوہ اس رسول انے قائم فرمایا اور جو قائم کر دیا اس پر چلنا تمہارا فرض ہے۔ اور پھر

آخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ۔ وَھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ (الجمعۃ:4)

کہہ کر یہ بھی اعلان فرما دیاکہ آخری زمانہ میں ایک تاریکی کے دور کے بعد جب مسیح و مہدی مبعوث ہو گا تو وہ حقیقی اور کامل نمونہ ہو گا اپنے آقا و مطاع کے اُسؤہ حسنہ کا۔ پس یہ دَور جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا دور ہے۔ یہ دور جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسلام کی حقیقی تعلیم کی تصویر ہمارے سامنے رکھی، یہ اصل میں اسی دور کی ایک کڑی ہے جو آنحضرت ﷺ کا دور ہے۔ کیونکہ اصل زمانہ تو تاقیامت آنحضرت ﷺ کا ہی زمانہ ہے اور یہ بیعت بھی جو ایک احمدی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کرتا ہے آنحضرت ﷺ کے حکم سے ہی کرتا ہے۔ پس ایک مومن کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آکر یہ تجدید عہد کہ وقت کی دُوری نے جس عظیم تعلیم اور جس عظیم اُسوہ کو ہمارے ذہنوں سے بھلا دیا تھا اب ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہاتھ پر یہ تجدید عہد کرتے ہیں کہ ہم ان نیکیوں پر کار بند ہونے کی پوری کوشش کریں گے اور اپنی تمام تر استعدادوں کے ساتھ کوشش کریں گے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی ایک کتاب میں ایک جگہ فرماتے ہیں کہ’’خدا نے مجھے دنیا میں اس لئے بھیجا کہ تا مَیں حِلم اورخُلق اور نرمی سے گم گشتہ لوگوں کو خدا اور اس کی پاک ہدایتوں کی طرف کھینچوں اور وہ نور جو مجھے دیا گیا ہے اس کی روشنی سے لوگوں کو راہ راست پر چلاؤں ‘‘۔
(تریاق القلوب۔ روحانی خزائن جلد15صفحہ143)
پس یہ ہے وہ کام جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے بھیجا۔ اللہ تعالیٰ کی پاک ہدایتوں پر قائم کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ ان ہدایتوں کی طرف کھینچوں۔ یعنی جس گند میں ایک انسان ڈوبا ہوا ہے اس سے کوشش سے نکالوں۔ جس کنویں میں گرا ہوا ہے اس میں سے کھینچ کر نکالوں۔ کھینچنا ایک کوشش چاہتا ہے۔ اپنے آپ کو تکلیف میں ڈال کر دوسرے کو انسان کھینچ کر اس تکلیف سے باہر نکالتا ہے جس میں دوسرا پڑا ہوتا ہے یا جس مشکل میں کوئی گرفتار ہوتا ہے۔ پس یہ ہدایتوں کی طرف کھینچنا مدد کرنے والے سے ایک تکلیف کا مطالبہ کرتا ہے اس لئے اس تکلیف کا اظہار کرتے ہوئے آپؑ نے ایک جگہ یوں بھی فرمایا کہ مَیں کس دَف سے مُنادی کروں تا لوگ ہدایت کے چشمہ کی طرف آئیں۔ اور پھر دیکھیں کہ اس اظہار ہمدردی کا کیا معیار ہے جو انسانیت کے لئے آپؑ کے دل میں تھی کہ صرف یہی نہیں کہ کھینچنا ہے اور گند سے یا تکلیف سے باہر نکال دینا ہے بلکہ اس روشن راستے پر چلانا بھی ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دیا۔ اور راستے پر چلانے کے لئے مستقل راہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ روشنی صرف چند قدم کی نہیں ہے بلکہ اس راستے کی طرف لے جانے کے لئے روشنی مہیا کرنی ہے جو خداتعالیٰ کی طرف لے جاتا ہے۔ جس کی ایک منزل کے بعد دوسری منزل آتی ہے۔ جس کی ایک منزل پر پہنچ کر اگلی منزل پر پہنچنے کی بھڑک اور تڑپ اور زیادہ ہو جاتی ہے۔ پس یہ ر وشنی بھی ایک مستقل روشنی ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی ہدایتوں کے تمام دِیوں کو روشن کرنے سے ملتی ہے۔ ہدایت کی ایک منزل پر پہنچ کر ہدایت کی اگلی منزل کے راستے نظر آنے لگتے ہیں۔ اخلاق کی ایک منزل پر پہنچ کر اخلاق کے دوسرے اعلیٰ معیار نظر آنے لگتے ہیں۔ پس یہ ایک مسلسل کوشش ہے ہدایت دینے والے کے لئے بھی اور ہدایت پانے والے کے لئے بھی۔ جس کے اس زمانے میں اعلیٰ ترین نمونے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمارے سامنے قائم فرمائے۔ اس لئے کہ ہم اس روشن راستے پر ہمیشہ سفر کرتے چلے جائیں اور نہ صرف خود ان روشن راستوں پر چلنے والے ہوں بلکہ رحمۃ للعالمین ﷺ کے ماننے والے ہونے کی وجہ سے دوسروں کو بھی اس راستے پر چلانے کی کوشش کریں۔
پس ایک احمدی کی یہ ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ ایک تو عہد بیعت کو پورا کرتے ہوئے اس راستے پر ہمیشہ چلتے رہنے کی کوشش کرے۔ دوسرے اپنے ہم قوموں کو، اپنے قریبیوں کو ان روشن راستوں کی نشاندہی کرتے ہوئے چلانے کی کوشش کرے۔ لیکن کیا طریق اختیار کرناہے، کیا حکمت عملی اپنانی ہے؟ اس کے بارے میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بتا دیا کہ میرے آنے کا مقصد سختی اور تلوار سے دنیا کی اصلاح نہیں ہے۔ ڈنڈے کے زور پر ان راستوں پر نہیں چلانا بلکہ حِلم اورخُلق اور نرمی سے ان راستوں پر ڈالنا ہے۔
پس آپؑ نے حلم اور خلق کے جو اعلیٰ نمونے دکھائے وہ اس عظیم اُسوہ حسنہ کے نمونے تھے جو آنحضرت ﷺ نے قائم فرمائے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے گھر کے اندر بھی، دوستوں میں بھی، اپنے فوری ماحول میں بھی اور غیروں اور دشمنوں میں بھی وہ نمونے قائم کئے جو حِلم وخُلق اور رفق کی اعلیٰ مثالیں ہیں۔ کیونکہ دلوں کو فتح کرنے کا یہی ایک طریق ہے اور جیسا کہ مَیں نے کہا آپؑ کی بیعت میں آنے والے سے بھی اسی اعلیٰ خلق کی آپؑ توقع کرتے ہیں۔ اور یہی نصیحت آپؑ نے اپنی جماعت کو ہمیشہ کی۔ ایک جگہ نصیحت کرتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں کہ:
’’مَیں یہ بھی کہتا ہوں کہ سختی نہ کرو اور نرمی سے پیش آؤ۔ جنگ کرنا اس سلسلہ کے خلاف ہے۔ نرمی سے کام لو اور اس سلسلہ کی سچائی کو اپنی پاک باطنی اور نیک چلنی سے ثابت کرو۔ یہ میری نصیحت ہے اس کو یاد رکھو اللہ تعالیٰ تمہیں استقامت بخشے‘‘۔ آمین۔ (ملفوظات جلد 4صفحہ185 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
یہ نمونہ ایک احمدی اسی وقت قائم کر سکتا ہے جب ہر ماحول میں اس اعلیٰ خُلق یعنی حِلم اور رِفق کا اظہار ہے۔ ایک شخص باہر غیروں کے سامنے تو حلم اور نرمی کے نمونے دکھانے کی کوشش کرتے ہوئے دوسرے کو قائل کرے لیکن گھر کا ماحول اور آپس میں ایک دوسرے سے جو تعلقات ہیں وہ اس کے خلاف گواہی دے رہے ہوں تو جس کو ہم تبلیغ کریں گے وہ جب قریب آکر ہماری تصویرکا یہ رخ دیکھے گا تو واپس پلٹ جائے گا کہ کہتے کچھ اور ہیں اور کرتے کچھ اور ہیں۔ اور یوں ہمارے عمل روشن راستوں کی طرف راہنمائی کرنے کی بجائے اُن بھٹکے ہوؤں کو پھر بھٹکتا ہوا چھوڑ دیں گے۔
ہمیں اپنی حالتوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے۔ ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :۔
’’صلاح، تقویٰ، نیک بختی اور اخلاقی حالت کو درست کرنا چاہئے۔ مجھے اپنی جماعت کا یہ بڑا غم ہے کہ ابھی تک یہ لوگ آپس میں ذرا سی بات سے چڑ جاتے ہیں۔ عام مجلسوں میں کسی کو احمق کہہ دینا بھی بڑی غلطی ہے۔ اگر اپنے کسی بھائی کی غلطی دیکھو تو اس کے لئے دعا کرو کہ خدا اسے بچا لیوے۔ یہ نہیں کہ منادی کرو۔ جب کسی کا بیٹا بدچلن ہو تو اس کو سردست کوئی ضائع نہیں کرتا بلکہ اندر ایک گوشہ میں سمجھاتا ہے‘‘۔ ایک طرف لے جا کر سمجھاتا ہے’’کہ یہ برا کام ہے۔ اس سے باز آجا۔ پس جیسے رفق، حِلم اور ملائمت سے اپنی اولاد سے معاملہ کرتے ہو ویسے ہی آپس میں بھائیوں سے کرو۔ جس کے اخلاق اچھے نہیں ہیں مجھے اس کے ایمان کا خطرہ ہے کیونکہ اس میں تکبر کی ایک جڑ ہے۔ اگرخدا راضی نہ ہو تو گویا یہ برباد ہو گیا۔ پس جب اس کی اپنی اخلاقی حالت کا یہ حال ہے تو اسے دوسروں کو کہنے کا کیا حق ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد سوم۔ صفحہ 590۔ جدید ایڈیشن۔ مطبوعہ ربوہ)
یہ نصیحت ہے جو انتہائی اہم ہے۔ مجھے بھی روزانہ چند ایک ایسے خطوط آتے ہیں جن سے انداز ہ ہوتا ہے کہ نرمی اور صبر کی جو کمی ہے یہ آپس کے جھگڑوں کی بہت بڑی وجہ ہے۔ پس جس حِلم اور رِفق کی کمی پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فکر کا اظہار فرمایا ہے اس زمانے میں تو شاید چند ایک ایسے ہوں جن سے آپؑ کو فکر پیدا ہوئی لیکن جماعت کی تعداد بڑھنے کے ساتھ بعض برائیاں بھی بعض دفعہ بڑھتی ہیں تو اس طرف ہمیں توجہ دینی چاہئے۔
جماعتی نظام ایک حد تک اصلاح کر سکتا ہے۔ اصل اصلاح تو انسان خود اپنی کرتا ہے اور اگر ہر احمدی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس انذار کو پیش نظر رکھے جیسا کہ آپؑ نے اس اقتباس میں فرمایا ہے کہ ’’جس کے اخلاق اچھے نہیں مجھے اس کے ایمان کا خطرہ ہے‘‘۔ تو ایک احمدی کا دل لرز جاتا ہے اور لرز جانا چاہئے۔ مَیں نے جائزہ لیاہے کہ تکبّر ہی ہے اور حِلم اور رِفق کی کمی ہی ہے جو بہت سے جھگڑوں کی بنیاد بنتی ہے۔ ایک طرف اگر کوئی بات ہوتی ہے تو دوسرا فریق بجائے نرمی دکھانے کے کہ اس سے جھگڑا ختم ہو جائے اس سے بھی زیادہ بڑھ کر جواب دیتا ہے اور نتیجتاً جھگڑے جو ہیں وہ طول پکڑتے جاتے ہیں۔ اصلاحی کمیٹیوں سے حل نہیں ہوتے۔ پھر قضاء میں جاتے ہیں۔ پھر اگر کوئی فریق فیصلہ نہ مانے تو نہ چاہتے ہوئے بھی اس کو جو فیصلہ نہیں مانتا جماعتی نظام سے نکالنا پڑتا ہے۔ یوں ایک اچھا بھلا خاندان روشنیاں دیکھنے کے بعد پھر اس سے محروم ہو جاتا ہے۔ بعض پھر اس ضد میں اتنا پیچھے چلے جاتے ہیں کہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ ان کے ایمان کا خطرہ ہے۔ حقیقت میں وہ ایمان گنوا بیٹھتے ہیں۔ صرف خطرہ ہی نہیں رہتا۔ والدین کی سزا کی وجہ سے بعض بچے جو نیک فطرت ہوتے ہیں اُن پر بھی اپنے ماں باپ کی حرکتوں کا منفی اثر ہوتا ہے۔ اپنے ماحول میں ان کو شرمندگی اٹھانی پڑتی ہے۔ پھر ایسے والدین جو جھگڑالو ہیں جن کے واقف نو بچے ہیں ان کے واقف نو بچوں کے معاملات کو بھی زیر غور لایا جاتا ہے کہ ان بچوں کا وقف قائم بھی رکھا جائے کہ نہیں۔ کیونکہ اگر ماں باپ کا یہ حال ہے کہ معاشرے کے حقوق ادا نہیں کر رہے اور نظام جماعت کا خیال نہیں تو بچوں کی تربیت کس طرح ہو گی۔ غرض کہ اس خلق حلم اور رفق کی کمی کے باعث ایک خاندان اپنے ایمان کو اور اپنی نسلوں کے ایمان کو داؤ پر لگا دیتا ہے اور پھر جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ ایسے آدمی پھر دوسروں کو کہنے کا بھی حق نہیں رکھتے کہ ہمارے پاس سچائی ہے اور یوں کسی سعید فطرت کو احمدیت سے بھی دُور لے جانے کا باعث بنتے ہیں۔ یعنی ایک غلطی، دوسری غلطی کو جنم دیتی ہے اور پھر بڑھتی چلی جاتی ہیں۔
پس یہ ایک احمدی کے لئے جو مغضوب الغضبی میں نتائج سے لاپرواہ ہو جاتا ہے بڑا فکر کا مقام ہے اور ہونا چاہئے۔ اکثریت ایسے احمدیوں کی ہے جو سزا ملنے کے بعد کچھ پریشان ہوتے ہیں۔ معافی کے خط لکھتے ہیں۔
غیر مشروط طور پر ہر فیصلے پر عمل کرنے کا کہتے ہیں۔ اگرپہلے ہی اس کے جو عواقب ہیں وہ سوچ لیں تو کم از کم ان کے بچے اور خاندان شرمندگی سے بچ جائیں۔
اعلیٰ اخلاق کی طرف نشاندہی کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
‘’چوتھی قسم ترک شر کے اخلاق میں سے رِفق اور قولِ حسن ہے اور یہ خُلق جس حالت طبعی سے پیدا ہوتا ہے اس کا نام طلاقت یعنی کشادہ روی ہے‘‘ یعنی ہنس کر جواب دینا، ہنس مکھ ہونا۔ ’’بچہ جب تک کلام کرنے پر قادر نہیں ہوتا بجائے رِفق اور قول حسن کے طلاقت دکھلا تا ہے‘‘ کہ وہ باتیں کرتا ہے جن میں نرمی ہوتی ہے۔ لیکن فرمایا ’’یہی دلیل اس بات پر ہے کہ رِفق کی جڑھ جہاں سے یہ شاخ پیدا ہوتی ہے طلاقت ہے۔ طلاقت ایک قوت ہے اور رِفق ایک خُلق ہے جو اس قوت کو محل پر استعمال کرنے سے پیدا ہو جاتا ہے۔ اس میں خدائے تعالیٰ کی تعلیم یہ ہے۔

وَقُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا (البقرۃ :84)۔ لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰٓے اَنْ یَّکُوْنُوْا خَیْرًا مِّنْھُمْ وَلَانِسَآءمِنْ نِّسَآءعَسٰٓے اَنْ یَّکُنَّ خَیْرًا مِّنْھَنَّ۔ وَلَا تَلْمِزُوْآ اَنْفُسَکُمْ وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ (الحجرات:12)۔ اجْتَنِبُوْا کَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ۔ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّلَا تَجَسَّسُوْا وَلَا یَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضًا … وَاتَّقُوْا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ تَوَّابٌ رَّحِیْم (الحجرات:13)۔ وَلَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ۔ اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ اُوْلٰٓئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْؤلًا (بنی اسرائیل:37)

ترجمہ:یعنی لوگوں کو وہ باتیں کہو جو واقعی طور پر نیک ہوں۔ ایک قوم دوسری قوم سے ٹھٹھّا نہ کرے۔ ہو سکتا ہے کہ جن سے ٹھٹھّا کیا گیا ہے وہی اچھے ہوں۔ بعض عورتیں بعض عورتوں سے ٹھٹھّا نہ کریں ہو سکتا ہے کہ جن سے ٹھٹھّا کیا گیا ہے وہی اچھی ہوں۔ اور عیب مت لگاؤ۔ اپنے لوگوں کے بُرے بُرے نام مت رکھو۔ بدگمانی کی باتیں مت کرو اورنہ عیبوں کو کرید کرید کرپوچھو۔ ایک دوسرے کا گلہ مت کرو۔ کسی کی نسبت وہ بہتان یا الزام مت لگاؤ جس کا تمہارے پاس کوئی ثبوت نہیں۔ اور یاد رکھو کہ ہر ایک عضو سے مواخذہ ہو گا اور کان، آنکھ، دل ہر ایک سے پوچھا جائے گا‘‘۔
(اسلامی اصول کی فلاسفی۔ روحانی خزائن جلد 10صفحہ350)
تو آپؑ نے یہ وضاحت فرمائی کہ بچہ جب تک اسے برے بھلے کی تمیز نہ ہو جائے جب کوئی اچھی بات کرتا ہے یا جب بولتا ہے تو کسی اعلیٰ خُلق کی وجہ سے یا اپنے دل کے رِفق کی وجہ سے نہیں بولتا بلکہ یہ اس کے اندر کی وہ قوت ہے یا فطرت ہے جو خدا تعالیٰ نے بچے کو عطا فرمائی ہے۔ اور اس سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ دلیل لی کہ رِفق کی جو جڑھ ہے وہ انسان کے اندر ہوتی ہے اور نیک فطرت اور دین پر قائم خدا تعالیٰ کے حکم کے تابع اس خُلق کا استعمال کرتا ہے۔ اور اس خُلق یعنی رِفق کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی تعلیم کیا ہے اس بارے میں آپؑ نے قرآن کریم کی آیات کے کچھ حصے پیش فرمائے۔
پہلی بات یہ کہ اس خُلق کو پیدا کرنے کے لئے، رفق کے حسن کو اپنے اندر پیدا کرنے کے لئے

قُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا (البقرۃ :84)

یہ بات ہے اس پر عمل کرنا چاہئے۔ یہ ہے اسلام کے اعلیٰ خُلق کا معیار کہ لوگوں کو نیک باتیں کہو۔ پیار سے، ملاطفت سے پیش آؤ۔ لوگوں کو نیک باتیں کہنے کے لئے پہلے اپنے اندر بھی تو وہ نیکیاں پیدا کرنی ہوں گی، وہ خُلق پیدا کرنے ہوں گے تبھی تو اثر ہو گا۔ دوہرے معیار تو نیک نتیجے پیدا نہیں کرتے۔ پھر تعلیم دی دوسروں کے جذبات کا خیال رکھنے کی اور اس بات کی طرف توجہ دلائی کہ خود پسندی میں مبتلا نہ ہو جاؤ۔ عین ممکن ہے کہ جس کو تم اپنے سے کم تر سمجھ رہے ہو وہ تمہارے سے بہتر ہوں۔ جب یہ احساس ہو گا تو پھر اپنے اندر بھی بہتر تبدیلیاں پیدا کرنے کی طرف توجہ پیدا ہو گی۔
پھر فرمایا کہ یہ بات بھی کسی کے اعلیٰ خُلق سے بعید ہے کہ وہ کسی کو ایسے ناموں سے پکارے جو دوسرے کوبُرے لگیں۔ رِفق کرنے والے تو وہ ہوتے ہیں جو دوسروں کے ہمدرد ہوں، ان کے کام آنے والے ہوں۔ یہ حرکتیں تو ان کے اندر دوریاں پیدا کریں گی اور نفرتوں کی دیواریں کھڑی کریں گی۔ اسی طرح بدظنیاں ہیں یہ ایسی برائیاں ہیں جو تعلقات میں دراڑیں ڈالتی ہیں، دوستیوں کو ختم کرتی ہیں، بغض اور کینے بڑھتے ہیں۔
پھر فرمایا کہ بلاوجہ کا تجسس بھی جو کسی کے عیب تلاش کرنے کے لئے کیا جائے خود اپنے اخلاق کو بھی تباہ کرتا ہے اور معاشرے کا امن بھی برباد کرتا ہے اور پھر یہ بھی ایسے شخص سے بعید ہے جو رفیق ہونے کا دعویٰ کرے اور اپنے دوستوں کی غیبت کرے۔ ان کے بارے میں ایسی باتیں کہے جو اگر اس کے اپنے بارے میں کسی مجلس میں کی جائیں تو اُسے بُری لگیں۔ ایک طرف تو مومن کا یہ دعویٰ ہو کہ ہم اللہ تعالیٰ کی صفات اپنانے والے ہیں دوسری طرف رفق جس کا مطلب دوسرے سے اعلیٰ سلوک کرنا ہے اس کی بجائے برائیاں بیان کی جائیں اور وہ بھی ایسی مجلسوں میں جن کا مقصد اصلاح نہ ہو بلکہ ہنسی ٹھٹھّا ہو۔ پس اس سے بچنے کی نہ صرف کوشش کرنی چاہئے بلکہ ایسی جگہوں سے دور بھاگنا چاہئے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: جو ایک دوسرے کو برے ناموں سے یاد کرتے ہیں اور اپنے ہی لوگوں پر عیب لگاتے ہیں اور دوستوں کی طرح پردہ پوشی سے کام نہیں لیتے بلکہ تمسخر کرتے ہیں اور غیبت کرتے ہیں اور بدظنی سے کام لیتے ہیں اور اٹھتے بیٹھتے لوگوں کے عیوب کی تلاش میں لگے رہتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ ان امور کے مرتکب کو ایمان کے بعد اطاعت سے نکل جانے والا قرار دیتا ہے اور اس پر اُسی طرح اپنے غضب کا اظہار کرتا ہے جیسے کہ سرکشی کرنے والوں پر۔
پس یہ بہت سخت تنبیہ ہے کہ نہ صرف بدخلقی کرکے اپنے بھائیوں کا دل نہ دکھایا جائے بلکہ ایساانسان اللہ تعالیٰ کے غضب کا بھی مورد بن جاتا ہے۔
پھر آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ آیت بیان فرمائی کہ جن باتوں کا تمہیں علم نہیں ان کے پیچھے نہ چل پڑو کیونکہ جب حساب کتاب ہو گا تو انسان کے اعضاء اس دن گواہی دیں گے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ ’’جس بات کا علم نہیں ہے خواہ نخواہ اس کی پیروی مت کروکیونکہ کان، آنکھ، دل اور ہر ایک عضو سے پوچھا جاوے گا۔ بہت سی بدیاں صرف بدظنی سے ہی پیدا ہو جاتی ہیں۔ ایک بات کسی کے متعلق سنی اور جھٹ یقین کر لیا، یہ بہت بری بات ہے۔ جس بات کا قطعی علم اور یقین نہ ہو اس کو دل میں جگہ مت دو۔ یہ اصل بدظنی کو دُور کرنے کے لئے ہے‘‘۔
(الحکم جلد 10نمبر 22مورخہ 24؍جون 1906ء صفحہ 3)
پھر ایک جگہ آپؑ نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’یاد رکھو جو شخص سختی کرتا اور غضب میں آجاتا ہے اس کی زبان سے معارف اور حکمت کی باتیں ہرگز نہیں نکل سکتیں۔ وہ دل حکمت کی باتوں سے محروم کیا جاتا ہے جو اپنے مقابل کے سامنے جلدی طیش میں آکر آپے سے باہر ہو جاتا ہے۔ گندہ دہن اور بے لگام کے ہونٹ لطائف کے چشمے سے بے نصیب اور محروم کئے جاتے ہیں۔ غضب اور حکمت دونوں جمع نہیں ہوسکتے۔ جو مغلوب الغضب ہوتا ہے اس کی عقل موٹی اور فہم کند ہوتا ہے۔ اس کو کبھی کسی میدان میں غلبہ اور نصرت نہیں دئے جاتے۔ غضب نصف جنون ہے اور جب یہ زیادہ بھڑکتا ہے تو پورا جنون ہو سکتا ہے۔ ہماری جماعت کو چاہئے کہ کُل ناکردنی افعال سے دور رہا کریں۔ وہ شاخ جو اپنے تنے اور درخت سے سچا تعلق نہیں رکھتی وہ بے پھل رہ جاتی ہے۔ سو دیکھو اگر تم لوگ ہمارے اصل مقصد کو نہ سمجھو گے اور شرائط پر کار بند نہ ہو گے تو ان وعدوں کے وارث تم کیسے بن سکتے ہو جو خداتعالیٰ نے ہمیں دئیے ہیں ‘‘۔
(ملفوظات جلد سوم صفحہ 104جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
پس یہ توقعات ہیں ایک احمدی سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اور یہی چیزیں ہیں جو ایک احمدی کو خداتعالیٰ کے رنگ میں رنگین کرنے کے کام آئیں گی اور ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعثت کے مقصد کو پورا کرنے والے بنیں گے۔
پھر کشتی نوح میں نصیحت کرتے ہوئے آپؑ نے فرمایا:
‘’کسی پر تکبر نہ کرو گو اپنا ماتحت ہو اور کسی کو گالی مت دو گو وہ گالی دیتا ہو۔ غریب اور حلیم اور نیک نیت اور مخلوق کے ہمدرد بن جاؤ تا قبول کئے جاؤ۔ بہت ہیں جو حِلم ظاہر کرتے ہیں مگر وہ اندر سے بھیڑئیے ہیں۔ بہت سے ہیں جو اوپر سے صاف ہیں مگر اندرسے سانپ ہیں۔ سو تم اس کی جناب میں قبول نہیں ہو سکتے جب تک ظاہر و باطن ایک نہ ہو۔ بڑے ہو کر چھوٹوں پر رحم کرو، نہ ان کی تحقیر۔ اور عالم ہو کر نادانوں کو نصیحت کرو، نہ خود نمائی سے ان کی تذلیل۔ اور امیر ہو کر غریبوں کی خدمت کرو، نہ خود پسندی سے ان پر تکبر۔ ہلاکت کی راہوں سے ڈرو۔ خدا سے ڈرتے رہو اور تقویٰ اختیار کرو‘‘۔ (کشتیٔ نوح۔ روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 12-11)
پھر آپؑ فرماتے ہیں :
’’خداتعالیٰ کی ستاری ایسی ہے کہ وہ انسان کے گناہوں اور خطاؤں کو دیکھتا ہے لیکن اپنی اس صفت کے باعث اس کی غلط کاریوں کو اُس وقت تک جب تک کہ وہ اعتدال کی حد سے نہ گزرجاوے ڈھانپتا ہے۔ لیکن انسان کسی دوسرے کی غلطی دیکھتا بھی نہیں اور شور مچاتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ انسان کم حوصلہ ہے اور خداتعالیٰ کی ذات حلیم و کریم ہے۔ ظالم انسان اپنے نفس پر ظلم کر بیٹھتا ہے اور کبھی کبھی خداتعالیٰ کے حِلم پرپوری اطلاع نہ رکھنے کے باعث بے باک ہو جاتا ہے۔ اس وقت ذُو انتقام کی صفت کام آتی ہے اور پھراسے پکڑ لیتی ہے۔ ہندولوگ کہا کرتے ہیں کہ پرمیشر اور اَت میں وَیر ہے یعنی خدا حد سے بڑھی ہوئی بات کو عزیز نہیں رکھتا۔ بایں ہمہ بھی وہ ایسا رحیم کریم ہے کہ ایسی حالت میں بھی اگر انسان نہایت خشوع اور خضوع کے ساتھ آستانہ الٰہی پر جا گرے تو وہ رحم کے ساتھ اس پر نظر کرتا ہے۔ غرض یہ ہے کہ جیسے اللہ تعالیٰ ہماری خطاؤں پر معاً نظر نہیں کرتااور اپنی ستاری کے طفیل رسوا نہیں کرتا تو ہم کو بھی چاہئے کہ ہر ایسی بات پر جو کسی دوسرے کی رسوائی یا ذلت پر مبنی ہو فی الفور منہ نہ کھولیں ‘‘۔ (ملفوظات جلد اول۔ صفحہ 198۔ جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
یہ چند حوالے جومَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پیش کئے ہیں جن میں آپؑ نے رفق اورحِلم کے خلق کی طرف ہمیں توجہ دلائی ہے تاکہ ہم اس کے معنوں کو وسیع کرکے دیکھیں۔ اس کے معنوں کو وسیع تر کرکے سمجھیں اور سمجھنے کی کوشش کریں۔ یہ باتیں ایک احمدی کو اپنی اصلاح کے لئے جگالی کرتے رہنے کے لئے ضروری ہیں تاکہ یہ احساس اجاگر رہے کہ صرف احمدی ہونا اور بیعت کر لینا یا کسی صحابی کی اولاد ہونا ہی کافی نہیں ہے بلکہ عہد بیعت کا حق تب ادا ہو گا جب ہم اپنی حالتوں کو اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں گے۔ آج جب اس سال میں خلافت احمدیہ کے سو سال پورے ہو رہے ہیں۔ مختلف ممالک میں اس حوالے سے فنکشن بھی شروع ہیں۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ صرف فنکشن کرنا اور اس غرض کے لئے بہترین انتظامات کرنا ہی ہمارا مقصود نہیں ہے اور نہ کبھی کسی احمدی کو یہ مقصود بناناچاہئے۔ بلکہ دعائیں اور نیک اعمال ہی ہیں جو ایک مومن کو اس انعام سے فیض یاب کرتے رہیں گے اور یہی اللہ تعالیٰ نے شرط لگائی ہے۔ وہی اس کی برکات سے فیض پائے گا جو اللہ تعالیٰ کے حکموں پر اپنے آپ کو چلانے کی کوشش کرے گا۔ یہ کہیں نہیں خداتعالیٰ نے فرمایا کہ جس کا مشاعرہ اچھا ہو گا یا جس کے دوسرے پروگرام اچھے ہوں گے وہی جماعت ترقی کرے گی اور فیض پائے گی بلکہ عبادات اور نیک اعمال اس کی شرط ہیں۔ پس اس لحاظ سے ہمیں اپنے جائزے لیتے رہنا چاہئے۔ اس طرف توجہ دلانے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب ایک بہت بڑا ذریعہ ہیں۔ جیسا کہ مَیں نے کہا ان باتوں کی جگالی کرتے رہنا چاہئے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب میں ہمیں یہ سب نیکی کی باتیں اور اللہ تعالیٰ کے احکام بڑی وضاحت کے ساتھ ملتے ہیں۔ لیکن ایک تو اکثر کتب اُردو میں ہیں، بہت کم حصہ ترجمہ ہوا ہوا ہے۔ دوسرے اُردو پڑھنے والوں کی بھی عموماً پڑھنے کی طرف توجہ کم رہتی ہے۔ اس لئے عام طور پر اقتباس پیش کرنے کا میرا بڑا مقصدیہ بھی ہوتا ہے کہ جو راہنمائی ملے وہ تو ہے ہی۔ لیکن ایک مقصد یہ بھی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الفاظ میں جو باتیں ہیں یا آپؑ کے الفاظ ہیں و ہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچیں۔ کیونکہ اب اصل تو یہی ہے جس پر قرآن و حدیث کی تشریحوں اور تفسیروں کی بنیاد ہے۔ جیسا مَیں نے کہا کہ بہت کم ترجمہ شدہ کتابیں ہیں گو کہ اب یہ کام بڑی تیزی سے ماشاء اللہ ہو رہا ہے اور مرکز ربوہ میں وکالت تصنیف کے وکیل جو ہیں مکرم و محترم چوہدری محمد علی صاحب بڑی محنت سے یہ انگلش ترجمے کے کام کر بھی رہے ہیں اور کروا بھی رہے ہیں۔ لیکن بہرحال یہ اتنا آسان کام نہیں ہے، وقت لگے گا۔ مکرم چوہدری صاحب باوجود پیرانہ سالی کے بڑے جذبے سے یہ کام کر رہے ہیں۔ حیرت ہوتی ہے ان کو دیکھ کے اور ان کے ساتھ کام کرنے والے بعض نوجوان ہیں انہوں نے لکھا ہے کہ ہم میں بھی انہوں نے وقف کی حقیقی روح پھونک دی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی عمر وصحت میں برکت ڈالے۔ آپ بھی ان کے لئے دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ ان کو زیادہ سے زیادہ خدمت دین کی توفیق دے۔ بہرحال یہ ضمناً ذکر آگیا۔ مَیں یہ کہہ رہا تھا کہ جب مَیں اقتباس پڑھتا ہوں تو مختلف زبانوں میں ترجمہ بھی ہوتا ہے اور مقصد یہ ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اپنے الفاظ میں زیادہ سے زیادہ حد تک ہم پیغام پہنچا سکیں۔ گو رواں ترجمہ جو ہے اتنا معیاری نہیں ہوتا اور نہ ہو سکتا ہے لیکن بہت حد تک تشنگی دور ہو جاتی ہے اور بہت سے سننے والے آپؑ کے اپنے الفاظ سے فیضیاب ہوتے ہیں۔ اللہ کرے کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الفاظ کی برکت سے اللہ اور آنحضرت ﷺ کی حسین تعلیم اور اسوہ سے ہمیشہ فیض پاتے چلے جانے والے ہوں۔ یہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کا مقصد ہے اور یہی ہمارے احمدی ہونے کا مقصد ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کے حصول کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں