خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 11؍اپریل 2008ء

اگر سفروں سے برکات حاصل کرنی ہیں تو تقویٰ بنیادی شرط ہے۔ اسے ہر وقت مومن کو مدنظر رکھنا چاہئے۔ ا گر یہ مدنظر رہے گا تو دنیاوی فائدوں کے حصول کے لئے بھی جو سفر ہیں وہ بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کا ذریعہ بن جائیں گے۔
خلافت جوبلی کے حوالہ سے اس سال مختلف ممالک میں پروگرام ہونے ہیں۔ بعض میں مَیں شامل ہوں گا۔ اس لحاظ سے یہ مصروفیت اورسفر کاسال ہے۔
دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ کے انعامات کی جو گزشتہ سو سال سے زائد عرصہ سے جماعت احمدیہ پر بارشیں ہوئیں اور ہو رہی ہیں وہ ہماری عبادتوں کے معیار بھی بڑھانے والی ہوں، ہماری عاجزی کے معیار بھی بڑھانے والی ہوں، نیکیوں کو پھیلانے اور برائیوں کو روکنے کی طرف ہم پہلے سے زیادہ توجہ دینے والے ہوں اور خاص طورپر میرا ہر سفر اس مقصد کے حصول کے لئے اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت لئے ہوئے ہو۔ اللہ تعالیٰ دوران سفر بھی حافظ و ناصر ہو اور جس جگہ پہنچیں وہاں بھی اپنی قدرت کے خاص نظارے دکھائے۔
(سفر کے حوالہ سے قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں مذکور مختلف ہدایات اور دعاؤں کا تذکرہ)
لجنہ اماء اللہ جرمنی کی خلافت سے محبت اور اخلاص ووفا کا تذکرہ اور لجنہ جرمنی کو اپنا الگ جلسہ سالانہ منعقد کرنے کی اجازت کی پُرمسرت نوید
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ مورخہ 11؍اپریل 2008ء بمطابق11؍شہادت 1387 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لند ن (برطانیہ)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں سفر کے بارے میں مختلف جگہ مختلف مضامین اور حوالوں کے ساتھ توجہ دلائی ہے۔ انبیاء کا انکار کرنے والوں کو کہا کہ پھر و اور دیکھو انکار کرنے والی قوموں کا کیا انجام اور حشر ہوا۔ مصر میں فرعون کی لاش کو آج تک محفوظ رکھ کر ہمیشہ کے لئے انکار کرنے والوں اور حد سے تجاوز کرنے والوں کے لئے ایک عبرت کا سامان پیدا فرما دیا۔ ہزاروں لاکھوں سیاح اسے دیکھتے ہیں۔ پھر معلومات ویسے بھی مل جاتی ہیں آجکل تو انٹرنیٹ پر بھی مل جاتی ہیں۔ دیکھنے والوں میں مسلمان بھی ہیں، عیسائی بھی ہیں، دوسرے مذاہب کے لوگ بھی ہیں، لامذہب بھی ہیں۔ اگر خداتعالیٰ کا خوف ہو تو دیکھیں کہ کس طرح فرعون کا عبرتناک انجام ہوا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے میں اس خبر کی سچائی کا ظہور ہوا جو فرعون کے بارے میں قرآن کریم نے حقیقی رنگ میں بیان فرمائی ہے۔ بائیبل میں بھی اس کا ذکرملتاہے۔ اس کو دیکھنے کے لئے اس زمانہ میں سفر اور دوسرے ذریعوں کی سہولتیں زیادہ میسر ہیں۔ قرآن کریم کی پیشگوئیوں کے مطابق بہت اعلیٰ رنگ میں اس زمانے میں وسائل میسر ہیں جن سے پرانی چیزوں کو دیکھا جاسکتا ہے۔ بہرحال سبق بھی وہی حاصل کرتے ہیں جن کے دل میں نیکی کی چنگاری ہو اور جنہیں اللہ تعالیٰ ہدایت دینا چاہتا ہو۔ یہ تو ہے ایک نبی کا مقابلہ اور انکار کرنے والے کے انجام کا ایک واقعہ جو مَیں نے فرعون کا بیان کیا ہے۔
قرآن کریم میں کئی انبیاء کا ذکر کرکے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو انکار کرنے والے ہیں پھریں اور دیکھیں، آثار قدیمہ کے کھوج لگائیں تاکہ پتہ لگے کہ تکبر اور فخر کوئی چیز نہیں ہے۔ بڑی بڑی قوموں کے بھی نشان مٹ جایا کرتے ہیں۔
پھرقرآ ن کریم میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو بھی مختلف نوعیت کے سفروں کی طرف توجہ دلائی ہے۔ مومن ایک تو قوموں کے عبرتناک انجام دیکھ کر، پڑھ کر، سن کر، اللہ تعالیٰ سے زیادہ لَو لگاتے ہیں۔ ایک مومن ایسے واقعات دیکھ کر اللہ تعالیٰ کی طرف زیادہ جھکتا ہے۔ شیطان سے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ بد انجام اور آفات سے محفوظ رہے۔ دوسرے ایک مومن کے سفر اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی شکر گزاری کے طور پر ہوتے ہیں۔ ان دعاؤں سے ایک مومن اپنا سفر شروع کرتا ہے اور اس کا اختتام کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اسے قرآن کریم میں سکھائی ہیں۔ اس اُسوہ پر ایک مومن چلنے کی کوشش کرتا ہے جو آنحضرت ﷺ نے قائم فرمایا۔ اُن نصائح پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے جس کی ایک حقیقی مسلمان سے آنحضرت ﷺ نے توقع رکھتے ہوئے نصیحت کی ہے۔ پس ایک مومن کے ہر دوسرے عمل کی طرح اس کا سفر بھی خداتعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہوتا ہے اور نیکیوں کو قائم رکھنے اور قائم کرنے کے لئے ہوتا ہے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

تَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوٰی (البقرۃ:198)

زا دِ راہ ساتھ لو اور بہترین زادہ راہ تقویٰ ہے۔ قرآن کریم کے یہ الفاظ اس آیت میں ہیں جس میں حج کے حوالے سے بات کی گئی ہے کہ جب اس رکن اسلام کی ادائیگی کے لئے نکلو تو پھر ہمیشہ یاد رکھو کہ حقیقی مومن وہی ہے جو ہر قسم کی نفسانی بیماریوں سے اپنے آپ کو بچاتے ہوئے، نیکیوں پر قدم مارتے ہوئے، اس پاک فریضے کو سرانجام دینے کے لئے گھر سے نکلتا اور کوشش کرتا ہے۔ اور جو سفر کا سامان تم ساتھ لے کر نکلو، جو عمل تمہارے ہوں اس میں تقویٰ ہو گا تو حج بھی قبولیت کا درجہ پائے گا۔ لیکن یہ مومن کے لئے ایک عمومی حکم بھی ہے کہ ہمیشہ یاد رکھوکہ بہترین زادِ راہ تقویٰ ہے۔ مومنوں کے سفر اعلیٰ ترین نیکیاں کمانے کے مقصد کے لئے ہوں یا عام سفر۔ ہر صورت میں یاد رکھوکہ سفر وہی اللہ تعالیٰ کی برکات کا حامل بنائے گا جس میں تقویٰ مدنظر ہو گا، جس میں اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے نیک اعمال کی بجا آوری کی کوشش مدنظر ہو گی۔
پس اگر سفروں سے برکات حاصل کرنی ہیں تو تقویٰ بنیادی شرط ہے۔ اسے ہر وقت مومن کو مدنظر رکھنا چاہئے۔ ا گر یہ مدنظر رہے گا تو دنیاوی فائدوں کے حصول کے لئے بھی جو سفر ہیں وہ بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کا ذریعہ بن جائیں گے۔ پس یہی سفر ہیں جو مومن کی شان ہیں اورہونے چاہئیں۔ جب ایک مسلمان زاد ِراہ کو حقیقت میں اپنے ساتھ رکھتا ہے یعنی تقویٰ کی زاد ِراہ کو توپھر وہ مومنین کی اس صف میں کھڑا ہو جاتا ہے جن کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے سچے مومن ہونے کی بشارت دی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

اَلتَّائِبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ السَّآئِحُوْنَ الرّٰکِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ الْاٰمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَالنَّاھُوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَالْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰہِ۔ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ (التوبۃ:112)

کہ توبہ کرنے والے، عبادت کرنے والے، حمد کرنے والے، خدا کی راہ میں سفر کرنے والے، رکوع کرنے والے، سجدہ کرنے والے، نیک باتوں کا حکم دینے والے، بری باتوں سے روکنے والے اور اللہ تعالیٰ کی حدود کی حفاظت کرنے والے، سب سچے مومن ہیں اور تو مومنوں کو بشارت دے دے۔
تو تقویٰ پر چلنے کے لئے پہلی شرط توبہ کرنا ہے۔ ایسی سچی توبہ جو اس میں اور گناہوں میں یعنی ایک مومن میں اور گناہوں میں دُوری پیدا کرتی چلی جائے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ: ’’جب وہ مداومت کرے گا تو خداتعالیٰ اسے سچی توبہ کی توفیق عطا کرے گا۔ یہاں تک کہ وہ سیئات اس سے قطعاً زائل ہو کر اخلاق حسنہ اور افعال حمیدہ اس کی جگہ لے لیں گے‘‘۔ اور مداومت کس طرح کرنی ہے، اس کے بارے میں آپ نے یہ نسخہ فرمایا کہ ایک پکا ارادہ کرے کہ برائیوں کے قریب بھی نہ پھٹکوں گا تب جو برائیاں ہیں ان کی جگہ اعلیٰ اخلاق لے لیں گے اور ایسے فعل اور عمل سرزد ہوں گے جو قابل تعریف ہوں گے۔ پس یہ ہے سچی توبہ جو زاد ِراہ مہیا کرتی رہے گی اور پھر انسان مکمل طور پر خدا کی رضا کے حصول کے لئے کوشش کرنے والا ہو گا۔ خداتعالیٰ کی طرف اس کی مدد کے لئے نظر ہو گی اورجب خداتعالیٰ کی طرف نظر ہو گی تو اس آیت میں بیان کردہ دوسری اہم خصوصیت جو ایک مومن کی ہے اس کی طرف توجہ ہو گی۔ یعنی عبادت، مکمل طور پر اس کے آگے جھک جانا اور اپنے ہر عمل کو خدا کی مرضی کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرنا۔ اور پھر جب یہ حالت ہو گی تو تیسری حالت مومن کی حَامِدُون کی ہے یعنی حمد کرنے والے۔ جیسے بھی حالات ہوں، اچھے یا برے، سفر میں ہو یا حضر میں ہو، اللہ تعالیٰ کی حمد اس کی زبان پر ہو گی۔ اور پھر ایک مومن کو یہ خوشخبری دی کہ اگر تم اللہ تعالیٰ کی راہ میں صبر کرو توتمہارے دین و دنیا سنور جائیں گے۔ تم خداتعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے ہو گے۔ جو سفر بھی اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے اور نیکیاں پھیلانے کی غرض سے کیاجائے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعامات کے حصول کا ذریعہ بنتا ہے۔
اورپھر پانچویں بات یہ بیان فرمائی کہ اُن مومنین کو خوشخبری ہے جو رکوع کرنے والے ہیں۔ ہم نماز پڑھتے ہیں ہر رکعت میں رکوع کرتے ہیں لیکن حقیقی رکوع وہ ہے جس میں جسم بھی اور روح بھی اللہ تعالیٰ کے آگے جھک جائے۔ جسم کا ہر ذرّہ خداتعالیٰ کی رضا کے حصول کی کوشش کرے۔ اللہ تعالیٰ نے خوشخبری دی ہے کہ جب اس سوچ کے ساتھ رکوع ہو گا تویہ حالت یقینا میری رضا کو حاصل کرنے کا ذریعہ بنے گی۔ پھر سجدہ کرنے والوں کو خوشخبری ہے۔ سجدہ انسان نماز میں کرتا ہے۔ یہ انتہائی عاجزی کی حالت ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ سجدے حقیقی سجدے ہونے چاہئیں۔ یہ نہ ہو کہ جس طرح مرغی دانہ کھاتے ہوئے بار باراپنی چونچ زمین پر مارتی ہے ایسے سجدے ہوں بلکہ عاجزی سے اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہو جاؤ۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ سجدے کی حالت میں انسان خداتعالیٰ کے انتہائی قریب ہوتا ہے اس لئے کہ اب اس نے اپنے نفس کو ختم کرکے اللہ تعالیٰ کے حضور ڈال دیا۔ پھر اللہ تعالیٰ بھی اسے اپنی نفس کشی کا بہترین بدلہ دیتا ہے۔ اب یہ مقام حاصل کرنے کے بعد بندے کا یہ بھی کام ہے کہ ان نیکیوں سے جو مقام اسے حاصل ہوا ہے اسے اپنے تک ہی محدود نہ رکھے بلکہ ان نیکیوں کو پھیلائے۔ دوسروں کو بھی اس مقام کی طرف توجہ دلانے کی کوشش کرے۔ برائیوں کے خلاف جہاد کرے۔ اپنی برائیاں صاف کرنے کے بعد دنیا کو بھی بتائے کہ کون کون سی باتیں اللہ تعالیٰ کے انعامات کو دور کردیتی ہیں۔ بلکہ ان برائیوں کی وجہ سے ایک انسان اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والا ہونے کی بجائے شیطان کی گود میں چلا جاتا ہے۔ پس یہ نیکیاں حاصل کرنا، ان نیکیوں کو حاصل کرنے کے لئے سفر کرنا اور ان نیکیوں کو پھیلانے کے لئے سفر کرنا، اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کا ذریعہ بنتا ہے۔ کیونکہ اس ذریعہ سے وہ اللہ تعالیٰ کی حکومت دنیا میں قائم کرنا چاہتا ہے اور اس کے لئے کوشش کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب یہ حالت میرے بندوں کی ہو جائے تو اس کے لئے خوشخبری ہے اور ایسی خوشخبری ہے کہ وہ آئندہ خوشخبریاں دیتی چلی جائے گی۔ اللہ کرے کہ ہمارے حضر بھی اور ہمارے سفر بھی نیکیاں پھیلانے، نیکیاں کرنے اور خداتعالیٰ کی حکومت دنیا میں قائم کرنے کے لئے ہوں تاکہ ہم اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرتے ہوئے اس کے انعامات حاصل کرنے والے ہوں۔
دو تین دن تک انشاء اللہ تعالیٰ مَیں بھی ایک سفر شروع کرنے والا ہوں جو مغربی افریقہ کے تین ممالک کا ہے یعنی گھانا، بینن اور نائیجیریا کا۔ ان ملکوں کے پروگرام خلافت جوبلی کے حوالے سے پہلے پروگرام ہیں جن میں مَیں شامل ہونے جا رہاہوں۔ انشاء اللہ۔ اب اس کے ساتھ ہی مختلف ممالک میں پروگرام ہونے ہیں۔ بعض ملکوں میں مَیں شامل ہوں گا انشاء اللہ تعالیٰ اور یہ سال تقریباً اس لحاظ سے مصروفیت اور سفر کا سال ہے۔ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ کے انعامات کی جو گزشتہ سو سال سے زائد عرصہ سے جماعت احمدیہ پر بارشیں ہوئیں اور ہو رہی ہیں وہ ہماری عبادتوں کے معیار بھی بڑھانے والی ہوں، ہماری عاجزی کے معیار بھی بڑھانے والی ہوں، نیکیوں کو پھیلانے اور برائیوں کو روکنے کی طرف ہم پہلے سے زیادہ توجہ دینے والے ہوں اور خاص طورپر میرا ہر سفر اس مقصد کے حصول کے لئے اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت لئے ہوئے ہو۔ اللہ تعالیٰ دوران سفر بھی حافظ و ناصر ہو اور جس جگہ پہنچیں وہاں بھی اپنی قدرت کے خاص نظارے دکھائے۔ ہم تو عاجز اور کمزور بندے ہیں، اگر اللہ تعالیٰ کی مدد ہمارے شامل حال نہ ہو تو نہ ہم خود اپنے اندر نیکی قائم کر سکتے ہیں نہ دوسروں کو نیکی کی تلقین کر سکتے ہیں۔ نہ ہی یہ سفر خوشخبریاں دلانے والے بن سکتے ہیں۔ پس اُس کے فضل کے حصول کے لئے اس کے آگے جھکناہی ہماری کوششوں کا بہترین پھل لانے کی ضمانت بن سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس میں کامیابی فرمائے اورقبول فرمائے۔
اللہ تعالیٰ نے سفر شروع کرنے سے پہلے قرآن کریم میں بعض دعائیں بھی سکھائی ہیں جو نہ صرف آرام دہ سفر کا ذریعہ بنتی ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے انعامات بھی بڑھاتی ہیں اور آنحضرت ﷺ ہر سفر شروع کرنے سے پہلے دعائیں کیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

لِتَسْتُووْا عَلٰی ظُہُورِہٖ ثُمَّ تَذْکُرُوا نِعْمَۃَ رَبِّکُمْ اِذَا اسْتَوَیْتُمْ عَلَیْہِ وَتَقُولُوا سُبْحٰنَ الَّذِیْ سَخَّرَ لَنَا ہَذَا وَمَا کُنَّا لَہُ مُقْرِنِیْنَ۔ وَاِنَّآ اِلٰی رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْن (الزخرف:15-14)

سواریوں کا ذکر چل رہا ہے۔ پھرفرمایا تاکہ تم ان کی پیٹھوں پر جم کر بیٹھ سکو، پھر جب تم ان پر اچھی طرح قرار پکڑ لو تو اپنے ربّ کی نعمت کا تذکر ہ کرو اور کہو پاک ہے وہ جس نے اسے ہمارے لئے مسخر کیا اور ہم اسے زیر نگیں کرنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے اور یقینا ہم اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔
آج کل کے زمانے میں جب اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھیجا، اپنے وعدے کے مطابق ایسی سواریاں بھی مہیا فرما دیں جو آسانی سے اور کم وقت میں ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتی ہیں۔ اگر انسان اس سوچ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرے، اس کی تسبیح کرے کہ مَیں حقیقی رنگ میں رکوع کرنے والا اور سجدہ کرنے والا ہو جاؤں اور ان میں شامل ہو جاؤں اور ان میں شامل ہو کر اللہ تعالیٰ کے پیغام کو دنیا میں پہنچانے والا بن جاؤں تو ہر سفر اللہ تعالیٰ کی برکات کو سمیٹنے والا سفر ہو گا۔
میرے لئے دعا کریں جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی کہا کہ میرا ہر سفر اس جذبے اور روح کے ساتھ ہو۔ جب تمام جماعت کی د عاؤں کا دھارا ایک طرف چل رہا ہو گا تو اللہ تعالیٰ کے فضل پھر کئی گنا بڑھ جاتے ہیں اور پھر بڑھ کر ظاہر ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دعاؤں کی توفیق بھی دے اور انہیں قبول بھی فرمائے اور ہم ہر قدم پر اس کے فضلوں کے نظارے پہلے سے بڑھ کر دیکھیں۔ اللہ تعالیٰ ہرقدم پر ہماری کمزوریوں کو دور فرمائے، پردہ پوشی فرمائے۔ ہماری کوئی غلطی، کوئی کمزوری اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو ہم سے دُور لے جانے والی نہ ہو۔
اس وقت مَیں سفر سے متعلق چند احادیث بھی بیان کروں گا جن میں آنحضرت ﷺ نے نصائح بھی فرمائی ہیں، رہنمائی بھی فرمائی ہے، سفر کرنے والوں کو دعائیں بھی دی ہیں تاکہ یہ سفر اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کا ذریعہ بن جائیں۔
آنحضرت ﷺ سفر کرنے سے پہلے، سفر کرنے والوں کو کس طرح دعا دے کر رخصت فرمایا کرتے تھے، اس بارے میں روایت میں آتا ہے، حضرت انس بن مالک ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور کہا اے اللہ کے نبی! مَیں سفر کا ارادہ رکھتا ہوں۔ آپؐ نے اس سے پوچھاکب، اس نے کہا کل انشاء اللہ راوی کہتے ہیں کہ آپ اس کے پاس آئے اور اس کا ہاتھ پکڑا اور اسے فرمایا

فِیْ حِفْظِ اللّٰہِ وَ فِی کَنَفِہٖ زَوَّدَکَ اللّٰہُ التَّقْوٰی وَغَفَرَلَکَ ذَنْبَکَ وَوَجَّھَکَ لِلْخَیْرِ اَیْنَ مَا تَوَفَّیْتَ وَاَیْنَ مَا تَوَجَّھْتَ

تو اللہ کی حفاظت میں اور اس کے پہلو میں رہے اللہ تعالیٰ تقویٰ کوتیرا زاد راہ بنائے اور تیرے لئے تیرے گناہ بخشے اور خیر کی طرف ہی تجھے پھیرے جہاں کا بھی تو ارادہ کرے یا جہاں بھی تو رخ کرے۔
سفر کرنے سے پہلے آپؐ کا اپنا عمل کیا تھا۔ اس بارے میں بعض روایات پیش کرتا ہوں۔ سفروں میں کامیابی کے لئے اور شکر گزاری کے لئے یہی اسوہ ہے جو ہمارے لئے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے کا ذریعہ بنے گا۔
ایک روایت میں آتا ہے حضرت انس بن مالک ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ جب کسی مقام پرپڑاؤ کرتے تووہاں سے اُس وقت تک کوچ نہ فرماتے جب تک دو رکعت نماز نہ ادا فرما لیتے۔ جب کسی مقام کو چھوڑتے تو دو رکعت نماز ادا کرتے۔
پھر سفر شروع کرنے اور اس کے اختتام پر صدقات کا بھی ذکر ملتا ہے۔ آنحضرت ﷺ تو ہر وقت صدقہ و خیرات کرتے رہتے تھے لیکن اس حوالے سے جانوروں کی قربانی کا ذکر ملتا ہے۔ جانور قربان کرتے تھے۔
پھر ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ جب حج یا عمرے سے یا غزو ہ سے واپسی پر کسی گھاٹی یا ٹیلے سے گزرتے تو تین دفعہ اللہ اکبرکہتے پھر یہ پڑھتے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ اس کے لئے بادشاہت ہے اسی کے لئے تمام حمدہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ ہم لوٹنے والے ہیں، توبہ کرنے والے ہیں، عبادت کرنے والے ہیں، سجدہ کرنے والے ہیں، اپنے ربّ کی حمدکرنے والے ہیں، اللہ نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا اور اپنے بندے کی مدد کی اور اکیلے ہی تمام گروہوں کو شکست دی۔ (بخاری کتاب الجہاد والسیرباب التکبیراذا علا شرفا حدیث نمبر 2995)
اللہ تعالیٰ آپ ﷺ سے کئے گئے وعدے ہمیشہ سے ہماری زندگیوں میں بھی سچ کر دکھاتا رہے اور ہماری کوئی کمزوریاں ان کو دُور لے جانے والی نہ بنیں اور دنیا میں ہم جلد سے جلد آنحضرت ﷺ کا جھنڈا لہراتا ہوا دیکھیں۔
پھر آپؐ نے ایک یہ نصیحت فرمائی، حضرت خولہؓ بنت حکیم بیان کرتی ہیں کہ مَیں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اگر تم میں سے کوئی کسی مقام پر پڑاؤ کرے تو یہ کہے کہ جو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے مَیں اس کے شر سے اللہ تعالیٰ کے تمام کلمات کی پناہ میں آتا ہوں۔ تو اس جگہ سے کوچ کرنے کے وقت تک(یعنی وہ جگہ چھوڑنے کے وقت تک) کوئی بھی چیز اسے وہاں تکلیف نہیں پہنچائے گی۔
(سنن الدارمی کتاب الاستئذان باب ما یقول اذا نزل منزلا۔ حدیث نمبر 2682)
حضرت ابویرہرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تین دعائیں ایسی ہیں جو قبول ہوتی ہیں اور ان کی قبولیت میں کسی قسم کا کوئی شک نہیں۔ مظلوم کی دعا، مسافر کی دعا اور والد کی دعا اپنی اولاد کے لئے۔
پس مسافروں کو سفر کے موقع سے فائدہ اٹھانا چاہئے بجائے اس کے کہ سارا وقت فضول باتوں میں ضائع کیا جائے، دعاؤں کی طرف توجہ ہونی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اس کی توفیق عطا فرمائے اور محض اور محض اپنے فضل سے ان دعاؤں کو قبول بھی فرمائے۔
پھر آپؐ کی ایک دعا ایک روایت میں آتی ہے۔ حضرت صہیب ؓ جو نبی کریم ﷺ کے صحابیؓ تھے بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ جب کسی ایسی بستی کو دیکھتے جس میں آپؐ کے جانے کا ارادہ ہو تو آپؐ یہ دعا کرتے اے اللہ! سات آسمانوں اور جس پر ان کا سایہ ہے ان کے ربّ، سات زمینوں اور جو کچھ انہوں نے اٹھا رکھا ہے ان کے ربّ، شیاطین اور جن کو انہوں نے گمراہ کیا ہے ان کے ربّ، ہواؤں اور جو کچھ وہ اڑاتی ہیں، ان کے ربّ، ہم تجھ سے اس بستی اور اس کے رہنے والوں اور اس کی خیر اور بھلائی چاہتے ہیں اور اس کے شر سے اور اس کے باشندوں کے شر سے اورجو کچھ اس میں ہے اس کے شر سے تیری پناہ میں آتے ہیں۔
(مستدرک علی الصحیحین۔ جلد نمبر 2کتاب المناسک۔ حدیث نمبر 1668۔ ایڈیشن2002ء)
سفر شروع کرتے وقت کی دعاؤں میں سے ایک یہ بھی دعا آپؐ نے ہمیں بتائی، حضرت عبداللہ بن سَرْجِسْ کہتے ہیں کہ ر سول اللہ ﷺ سفر شروع کرتے وقت یہ دعا پڑھا کرتے تھے کہ

اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ وَعْثَآءالسَّفَرِ وَکَآبَۃِ الْمُنْقَلَبِ وَالْحَوْرِ بَعْدَالْکَوْرِ۔ وَدَعْوَۃِالْمَظْلُوْمِ وَسُوْءالْمَنْظَرِ فِی الْاَھْلِ وَالْمَالِ۔

(سنن ابن ماجہ۔ باب الدعاء۔ باب ما یدعوبہ الرجل اذاسافر۔ حدیث نمبر 3888)
اے اللہ مَیں سفر کی مشکلات سے اور سفر سے رنج اور غم کے ساتھ لوٹنے سے اور نفع کے بعد نقصان سے اور مظلوم کی دعا سے اور گھر میں اور مال میں برے نظارے سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔
پھر روایت میں ہے حضرت ام سلمیٰؓ بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ کا یہ عمل تھا کہ جب وہ اپنے گھر سے نکلتے تو یہ دعا کرتے تھے کہ اے اللہ مَیں تیری پناہ چاہتا ہوں اس سے کہ مَیں گمراہ ہو جاؤں یا مَیں پھسل جاؤں یا مَیں ظلم کروں یا میرے پہ ظلم کیا جائے یا میں جہالت کروں یا مجھ سے جہالت کا سلوک کیا جائے۔
(سنن ابن ماجہ۔ باب الدعاء۔ باب ما یدعو بہ الرجل اذ اخرج من بیتہ حدیث نمبر 3884)
پھر سفر شروع کرتے وقت آنحضرت ﷺ کی بعض دعاؤں کا اگلی روایت میں ذکر ملتا ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ سفر کا ارادہ کرتے تو اپنی اونٹنی پر تشریف فرما ہو کر اپنی انگلی کے اشارے سے کہتے کہ اے اللہ! تُو ہی سفرمیں اصل ساتھی ہے اور تو ہی گھر والوں میں اصل جانشین ہے۔ اے اللہ اپنی خیر خواہی کے ساتھ تو ہمیں لے کر جا اور ہمیں اپنے ذمہ میں ہی واپس لانا(اپنی پناہ میں ہی واپس لانا)۔ اے اللہ! ہمارے لئے زمین کو لپیٹ دے اور اس سفر کو ہمارے لئے آسان کر دے۔ اے اللہ! مَیں سفر کی تکلیف اور مشقت سے اور سفر سے رنج اور غم کے ساتھ لوٹنے سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔ (سنن الترمذی کتاب الدعوات با ب مایقول اذا خرج مسافر ا۔ حدیث نمبر 3438)
پھر ایک روایت میں ذکر ہے۔ عبدالرزاق بیان کرتے ہیں کہ ان سے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ سفر پر نکلتے وقت ایک سواری پرجب اچھی طرح بیٹھ جاتے تو آپؐ تین مرتبہ تکبیر کہتے پھر آپ پڑھتے، پاک ہے وہ ذات جس نے ہمارے لئے سواری کو مسخر کیا یعنی وہی قرآن کریم کی دعا ہے

سُبْحٰنَ الَّذِیْ سَخَّرَ لَنَا ہَذَا وَمَا کُنَّا لَہُ مُقْرِنِیْنَ۔ وَاِنَّآ اِلٰی رَبِّنَا لَمُنقَلِبُون(الزخرف:15-14)

کہ پاک ہے وہ ذات جس نے ہمارے لئے سواری کو مسخر کیا اور ہماری طاقت میں نہیں تھا کہ اس پر قابو پا سکیں اور اے ہمارے ربّ! یقینا ہم تیری طرف ہی لوٹ کر آنے والے ہیں۔ اے اللہ! مَیں تجھ سے اپنے اس سفر میں نیکی اور تقویٰ طلب کرتا ہوں اور ایسا عمل جس سے تو راضی ہوجائے۔ اے اللہ اس سفر کو ہمارے لئے آسان کر دے۔ اے اللہ!اس کی دُوری کو ہمارے لئے لپیٹ دے، اے اللہ تُو ہی اس سفر میں اصل ساتھی ہے اور گھروالوں اور مال میں تو ہی اصل جانشین ہے۔ اور جب آنحضرت ﷺ سفر سے لوٹتے تو یہ کلمات ادا کرتے اور یہ الفاظ زیادہ کہتے کہ ہم واپس آنے والے ہیں۔ ہم توبہ کرنے والے ہیں، ہم عبادت کرنے والے ہیں اور اپنے ربّ کی تعریف بیان کرنے والے ہیں جیسا کہ پہلے روایت میں آیا ہے وہ یہ ہے کہ کسی چڑھائی پر چڑھتے وقت اللہ اکبر کہتے اور اترتے وقت سبحان اللہ کہتے۔ (سنن ابی داؤد۔ کتاب الجہاد۔ باب ما یقول الرجل اذا سافر حدیث نمبر 2599)
ہم بھی آنحضرت ﷺ کی بتائی ہوئی ان دعاؤں کے ساتھ ہی اپنے سفر کا آغاز کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان الفاظ کی برکت سے جو اس کے پیارے نبی ﷺ کے منہ سے نکلے، ہمارے سفروں میں بھی آسانی پیدا کر دے۔ ان میں برکت ڈالے اور خیریت سے اُن برکات کو ہم سمیٹتے ہوئے واپس لوٹیں۔ وہ برکات جو ہمیں ملیں وہ ایسی برکات ہوں جو ہمیشہ قائم و دائم رہنے والی ہوں اور جن جن ملکوں میں جائیں، جن جن جماعتوں میں جائیں یا جہاں جہاں بھی یہ پروگرام ہو رہے ہیں، ہر جگہ ان برکات کا اظہار نظر آتا ہو۔
اللہ تعالیٰ ہمیں وہ دن جلد دکھائے جب اس کی توحید کا جھنڈا تمام دنیا میں ہم لہراتا ہوا دیکھیں اور اللہ تعالیٰ کے پیارے اورمحسن انسانیتؐ کے حسن کو ہم بڑی شان وشوکت کے ساتھ تمام دنیا میں چمکتا ہوا دیکھیں۔
ضمناً میں ایک اور بات بھی کہنا چاہتا ہوں جو باقیوں کے لئے تو ضمناً ہے لیکن جرمنی کی لجنہ کے لئے اہم بات ہے اور اس سفر کی وجہ سے مجھے اس کا خیال زیادہ آیا کہ جرمنی کی لجنہ یہ سن کر مزید بے چین ہو گی کہ دنیا میں اس سال جلسے ہو رہے ہیں اور جوبلی کے حوالے سے بڑے اہم جلسے ہیں اورشاید ان سے محروم رہنا پڑے کیونکہ گزشتہ سال ان کے جلسے میں پوری طرح ڈسپلن نہ ہونے کی وجہ سے مَیں نے کہا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ اگلے سال تمہارا جلسہ نہ کیا جائے جب تک اپنی اصلاح نہیں کر لیتے۔ اس کے بعد مجھے بے شمار خط عورتوں کے، بچیوں کے، لڑکیوں کے آئے کہ ہمیں معاف کر دیں آئندہ انشاء اللہ تعالیٰ ایسی بدانتظامی نہیں ہوگی۔ بلکہ لجنہ جرمنی کی ہمدردی میں دوسرے ملکوں کی لجنہ کی ممبرات کے خطوط آئے کہ انہیں جلسے سے محروم نہ کریں بلکہ مجھے یاد پڑتا ہے کہ سب سے پہلے جرمنی کی بجائے پاکستان سے معافی کا خط آیا تھا۔ تو بہرحال جیسا کہ مَیں نے کہا وہ تو ایک اصلاحی قدم تھا۔ لجنہ جرمنی کا نیشنل اجتماع بھی اسی لئے نہیں کیا گیا کہ پہلے چھوٹے پیمانے پر اجتماعات کرکے جلسے کی اہمیت سے لوگوں کو آگاہ کریں، عورتوں کو آگاہ کریں۔ اور اس کا بڑا مثبت نتیجہ نکلا ہے۔ الحمدللہ کہ میری اطلاع کے مطابق وہاں ایک انقلابی تبدیلی اکثریت میں پیدا ہوئی ہے۔ مجھے جو خطوط آئے ان میں بھی توبہ و استغفار کی طرف خاص توجہ تھی اور اخلاص و وفا کا اظہار ایسا تھا کہ آج اس مادی دور میں صرف اور صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت میں ہی نظر آسکتا ہے کہ دنیاوی چیزوں کے لئے نہیں بلکہ دین کی خاطر اس طرح درد سے کوشش ہو رہی ہو، بچیوں، لڑکیوں عورتوں کے خلافت سے محبت کے اور معافی کے خطوط آتے رہے۔ ایک بہن نے لکھا کہ اس کی غیر احمدی افغان واقف تھی۔ اس نے کہا کہ مَیں نے سنا ہے کہ تمہارے خلیفہ تم سے ناراض ہیں اور پھر ساتھ ہی اس کو یہ بھی کہا کہ تم لوگ بڑی بُری عورتیں ہو۔ کہتی ہیں کہ مَیں ابھی یہ سوچ ہی رہی تھی کہ کیا جواب دوں کہ خود ہی وہ غیر احمدی کہنے لگیں کہ شکر کرو تمہاری غلطیوں کی نشاندہی کرنے والاکوئی ہے، صحیح کرنے والا کوئی ہے، جو غلط کام پر سمجھا سکے۔ ہم تو برائیوں میں پھنستے جا رہے ہیں اور ہمیں پوچھنے والا کوئی نہیں۔ تو بہرحال کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اس پابندی نے پورے جرمنی کی لجنہ، ناصرات، بچیوں میں ایک بے چینی کی لہر دوڑا دی تھی اور اس وجہ سے انہوں نے دعائیں بھی کیں اور اپنے اندر تبدیلیاں بھی پیدا کیں۔ کچھ عرصہ ہوا اسی وجہ سے میرے پاس ان کی رپورٹیں آرہی تھیں۔ مَیں نے امیر صاحب اور صدر لجنہ کو کہہ دیا تھا کہ خاموشی سے جلسے کی تیاری کرتے رہیں لیکن لگتا ہے کہ ابھی تک بات پہنچی نہیں کیونکہ جلسے کی تیاری تو ہو رہی ہے۔ تو بہرحال یہ بھی اچھی بات ہے کہ واقعی خاموشی سے کام ہو رہا ہے جودوسروں کو پتہ نہیں لگا۔
اخلاص ووفا کا نمونہ جو لجنہ جرمنی نے اور وہاں کی بچیوں نے دکھایا ہے وہ تو بیان نہیں ہو سکتا۔ بہرحال یہ تسلی رکھیں کہ انشاء اللہ تعالیٰ وہاں لجنہ کا، عورتوں کا بھی جلسہ ہو گا انشاء اللہ۔ لیکن اس واقعہ نے جرمنی کی لجنہ کی قدرخاص طور پر میرے دل میں کئی گنا بڑھا دی ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کے اخلاص و وفا کو بڑھاتا رہے اور ہر دم ترقی کرتی رہیں۔
دوبارہ پھرمَیں دعا کی د رخواست کرتا ہوں اپنے ملکوں کے جلسوں کے لئے بھی دعا کریں اور میرے دَوروں کے لئے بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنی رحمتوں اور فضلوں کے دروازے کھولتا چلا جائے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں