خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 28؍نومبر 2008ء

دنیا کے ہر کونے میں بسنے والے احمدیوں کا اخلاص و وفا ناقابل مثال ہے۔ گو کہ اظہار کے طریقے مختلف ہیں اور ہندوستان کے اس حصّہ(کیرالہ) کے احمدیوں کے اخلاص و و فا کے اظہار کا بھی اپنا ایک طریق ہے۔
احمدیوں کی گرمجوشی اور خوشی اور خلافت سے محبت کا اظہا صرف اور صرف اس لئے ہے کہ یہ خلافت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کام کو آگے بڑھانے کے لئے وہ رسّی ہے جس کو پکڑ کے ہم نے آگے بڑھتے چلے جانا ہے اور اپنی منزل مقصود تک پہنچنا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہے۔
اس تعلق اور اس جذبہ کو نہ صرف کبھی آپ نے مرنے نہیں دینا بلکہ اس میں ہر روز اضافہ کی کوشش کرنی ہے اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو ہمیشہ یاد رکھیں کہ خدائے واحد و یگانہ کی عبادت اور نیک اعمال ایک مومن کے لئے انتہائی ضروری ہیں۔
اب آپ کو اللہ تعالیٰ نے مسیح محمدی کے ماننے کی توفیق دی ہے تو اس پیغام کو ایک خاص کوشش اور جدوجہد کے ساتھ آگے پہنچائیں
(کالی کٹ (کیرالہ۔ انڈیا) میں پہلی بار خلیفۃ المسیح کا ورود مسعود اورخطبہ جمعہ جو ایم ٹی اے کے ذریعہ براہ راست تمام عا لم میں نشر کیاگیا۔
کیرالہ کے احمدیوں کے اخلاص و وفا کا تذکرہ اور عبادات اور نیک اعمال میں ترقی اور بعدعات و غلط رسومات سے بچنے اور دعوت الی اللہ کے میدان میں خصوصی جدوجہد کرنے کی اہم نصائح)
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ مورخہ 28؍نومبر 2008ء بمطابق28؍نبوت 1387 ہجری شمسی بمقام بیت القدوس۔ کالی کٹ۔ کیرالہ (انڈیا)
(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

الحمدللہ کہ اللہ تعالیٰ نے آج مجھے ہندوستان کے اس علاقے میں بھی آنے کی توفیق دی۔ 2005ء میں جب مَیں قادیان آیا تھا اُس وقت بھی کیرالہ کے بعض مخلصین کا اصرار تھا کہ کیرالہ بھی ضرو ر آئیں لیکن حالات ایسے تھے کہ اس وقت فوری طور پر پروگرام نہیں بن سکتا تھا۔ مَیں نے اس وقت ان سے کہا تھا کہ آئندہ انشاء اللہ آنے کی کوشش کریں گے۔ سو اللہ تعالیٰ نے آج محض اپنے فضل سے اس بات کو پورا کرنے کی توفیق دی۔ یہ بالکل حقیقت ہے کہ جب تک انسان خود کسی چیز کا مشاہدہ نہ کر لے اس کے بارہ میں جو بھی معلومات ہوں صحیح طرح ان کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔ مَیں اس بات پر اللہ تعالیٰ کا اور بھی زیادہ شکر ادا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے یہاں آکر آپ لوگو ں سے ملنے اور آپ لوگوں کے اخلاص و وفا کو دیکھنے کا موقع عطا فرمایا۔ گو اس صوبہ کے، اس علاقہ کے جتنے بھی لوگو ں سے مَیں قادیان یا لندن میں ملا ہوں انہیں اخلاص ووفا سے پُر ہی پایا ہے لیکن یہاں آکر جماعت کو دیکھ کر اور ہر مرد، عورت، بچے، بوڑھے، جوان کو دیکھ کر اور ان کے اخلاص و و فا کے معیار کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت پر فضلوں کا جواندازہ ہوا ہے وہ آپ لوگوں سے ملنے کے بغیر نہیں ہو سکتا تھا۔
ہمارے ساتھیوں میں سے کوئی کہہ رہا تھا کہ ان میں انڈونیشین احمدیوں کی طرح کا ڈسپلن اور اخلاص ہے۔ کوئی کہہ رہا تھا کہ افریقنوں کی طرح کا اخلاص ہے، گو کہ افریقنوں کے اخلاص کے اظہار میں جوش بھی بہت نمایاں ہوتا ہے۔ لیکن مَیں کہتا ہوں کہ دنیا کے ہر کونے میں بسنے والے احمدیوں کا اخلاص و وفا ناقابل مثال ہے-
گو کہ اظہار کے طریقے مختلف ہیں اور ہندوستان کے اس حصّہ کے احمدیوں کے اخلاص و و فا کے اظہار کا بھی اپنا ایک طریق ہے۔ یہ حصّہ جو قادیان سے ہزاروں میل دور ہے، اس حصّہ میں رہنے والے احمدیوں میں سے شاید بڑی تعداد ایسی ہو جنہوں نے براہ راست خلیفہ وقت سے پہلی مرتبہ ملاقات کی ہو۔ لیکن بوڑھوں، جوانوں، بچوں کی آنکھوں میں پہچان اور جذبات کا ایک خاموش اظہار کہ دنیا کی کوئی طاقت نہیں جو ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد جاری کردہ نظام خلافت سے محبت و وفا کے جذبے کو ختم کرنے میں روک بن سکے، اسے مَیں نے دیکھا ہے۔
یہ سب کچھ حیرت میں ڈال دیتا ہے کہ کیا ان جذبات کے اظہار کے بعد بھی دوسرے مسلمانوں کو شک ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اللہ تعالیٰ کے فرستادہ اور بھیجے ہوئے نہیں ہیں ؟ جماعت کی بڑی مسجد شہر کے مرکز میں ہے اور آتے جاتے لوگ احمدیوں کی گرمجوشی اور خوشی کو دیکھ رہے ہیں، خلافت سے محبت کا اظہار ہو رہاہے اور یہ صرف اور صرف اس لئے ہے کہ یہ خلافت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کام کو آگے بڑھانے کے لئے وہ رسّی ہے جس کو پکڑ کے ہم نے آگے بڑھتے چلے جانا ہے اور اپنی منزل مقصود تک پہنچنا ہے۔ اور ہماری منزل مقصود کیاہے؟ وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہے۔ مرتے دم تک وہ کام کئے جانا ہے جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کو آسان بنانے والے ہوں۔ وہ کام کرتے چلے جانا ہے جو اللہ کے رسول ﷺ کی کامل اطاعت کا حامل بنانے والے ہیں۔ وہ معیار حاصل کرنے کی کوشش کرنی ہے جو آنحضرت ﷺ کے عاشق صادق، زمانے کے امام اور مسیح موعود اور مہدی موعود ہم میں پیدا کرنا چاہتے ہیں۔
پس جس جذبہ کا اظہار مَیں نے دیکھا کہ کس طرح یہاں کے احمدی حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی محبت کی وجہ سے آپ کے نظام خلافت سے اخلاص و وفاکا تعلق رکھتے ہیں اس کو قائم رکھنا ہر احمدی کا فرض ہے اور اس کو اسی صورت میں قائم رکھا جا سکتا ہے جب ہم اس بنیادی مقصد کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھنے والے ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہماری زندگی کا بنیادی مقصد ہے۔
آنحضرت ﷺ کی پیروی اور اطاعت ہماری زندگیوں کا نصب العین ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آکر وہ معیار حاصل کرنا جن کی آپ علیہ السلام نے ہم سے توقع کی ہے، ہمارا ہدف یا ٹارگٹ ہونا چاہئے۔ ورنہ اگر یہ نہیں تو خلافت کے متعلق ترانے پڑھنا اور نظمیں پڑھنا کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔
لوگ دنیاوی لیڈروں سے بھی جذباتی تعلق اور عقیدت رکھتے ہیں۔ دنیاوی مقاصد کے لئے بھی قربانیاں دیتے ہیں۔ لیکن کتنے ہیں جو خداتعالیٰ کی رضا کے لئے، اللہ تعالیٰ کے رسولؐ کی اطاعت اور فرمانبرداری کی خاطر قربانیاں دیتے ہیں۔ جو لوگ بظاہر یہ قربانیاں دیتے نظر آتے ہیں، یہ سب نام نہاد قربانیاں ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی تعلیم کے خلاف ہیں اور ان علماء اور لیڈروں کے پیچھے چل کر کرتے ہیں جو خود کسی ایسے رہنما کو چاہتے ہیں جو خداتعالیٰ کی طرف سے ہدایت یافتہ ہو اور وہ اس زمانے میں صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہیں اور ان کے علاوہ کوئی نہیں۔ پس حقیقی قربانی کا شعور اور مقاصد کے حصول کے لئے راہیں متعین کرنا صرف احمدی کے ہی نصیب میں ہے اور اس کے علاوہ ہر احمدی کو اس تعلیم کو سمجھتے ہوئے جو حضرت مسیح موعو د علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمارے سامنے قرآن اور سنّت کی روشنی میں پیش فرمائی، اپنانے اور اس پر قائم رہنے کی کوشش کرنی چاہئے تبھی ہم سچے اور حقیقی احمدی کہلانے کے قابل ہوں گے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہم سے کیا چاہتے ہیں ؟ آپ علیہ السلام ایک جگہ فرماتے ہیں :
‘’یاد رکھو کہ سچے اور پاک اخلاق راستبازوں کا معجزہ ہے جمیں کوئی غیر شریک نہیں۔ کیونکہ وہ جو خدا میں محو نہیں ہوتے وہ اوپر سے قوت نہیں پاتے۔ اس لئے ان کے لئے ممکن نہیں کہ وہ پاک اخلاق حاصل کر سکیں۔ سو تم اپنے خدا سے صاف ربط پیدا کرو۔ ٹھٹھا، ہنسی، کینہ وری، گندہ زبانی، لالچ، جھوٹ، بدکاری، بدنظری، بد خیالی، دنیا پرستی، تکبر، غرور، خود پسندی، شرارت، کج بحثی، سب چھوڑ دو۔ پھر یہ سب کچھ تمہیں آسمان سے ملے گا‘‘۔ یعنی راستبازوں کا معجزہ آسمان سے ملے گا۔ ’’جب تک وہ طاقت بالا جو تمہیں اوپر کی طرف کھینچ کر لے جائے، تمہارے شامل حال نہ ہو اور روح القدس جو زندگی بخشتا ہے تم میں داخل نہ ہو تم بہت ہی کمزور اور تاریکی میں پڑے ہوئے ہو۔ اس حالت میں نہ تو تم کسی مصیبت کا مقابلہ کر سکتے ہو نہ اقبال اور دولتمندی کی حالت میں کبر اور غرور سے بچ سکتے ہو‘‘۔
آپؑ نے فرمایا:

’’تم اَبنَاءالسَّمَآء بنو نہ اَبْنَآءالْا َرْض۔

اور روشنی کے وارث بنو نہ کہ تاریکی کے عاشق تا تم شیطان کی گزر گاہوں سے امن میں آجاؤ‘‘۔ (کشتی ٔ نوح۔ روحانی خزائن جلد 19صفحہ45)
پس یہ وہ اعلیٰ معیار ہے، وہ ٹارگٹ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں دیا ہے۔ انسان کمزور واقعہ ہوا ہے، زندگی میں اونچ نیچ ہوتی رہتی ہے اس لئے اس ٹارگٹ کے حصول کے لئے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے ایک احمدی کو مسلسل کوشش اور جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ اس اقتباس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں اللہ تعالیٰ کی مدد کے لئے اور ان اعلیٰ اخلاق کے حصول کے لئے طریقہ بھی بتا دیا اور وہ ہے اللہ تعالیٰ سے صاف ربط پیدا کرنا۔ ایک خالص تعلق پیدا کرنا۔ اور وہ کس طرح پیدا ہوتا ہے؟ وہ اسی صورت میں پیدا ہو گاجب ہم اپنے مقصد پیدائش کو ہمیشہ سامنے رکھنے والے ہوں گے اور وہ مقصد پیدائش خداتعالیٰ نے ہمیں خود بتا دیا اور فرمایا

وَمَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ (الذاریات: 57)

کہ مَیں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔ پس یہ ایک بہت بڑا مقصد ہے۔ اگر اس مقصد کو اللہ تعالیٰ کے لئے خالص ہو کر حاصل کرنے کی کوشش ہم کرتے رہیں گے تو اُن اَعمال کے نہ کرنے کی طرف بھی توجہ رہے گی جن کی نشاندہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمائی ہے۔ اور ان نیک اعمال بجا لانے کی طرف بھی توجہ رہے گی جن کے بارہ میں خداتعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے۔ ہم معاشرے کے حقوق ادا کرنے والا بنانے والے ہوں گے اور پھر یہ اعمال ہمیں مزید اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والا بنائیں گے۔ اور پھرخلافت کی نعمت کا بھی انہی لوگوں سے وعدہ ہے جو اعمال صالحہ بجالانے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے شِرک سے بکلّی پاک اور اس کے عبادت گزار ہیں۔
پس اگر ہم نے اس انعام کو اپنے پر جاری رکھنا ہے جس کی پیشگوئی آنحضرت ﷺ نے فرمائی تھی، تو اپنے مقصد پیدائش کو یاد رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عبادت کے لئے جو راستے ہمیں بتائے ہیں اورجو طریق ہمیں سکھایا ہے اس میں سب سے اہم پانچ وقت نمازوں کی ادائیگی ہے۔ پس ہر عورت، مرد، بچہ، بوڑھا ہمیشہ یاد رکھے کہ اگر اس کی پانچ وقت کی نمازوں کی حفاظت نہیں اور خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے آگے جھکنا نہیں، تو نہ ہم اعمال صالحہ کے اُس معیار کو حاصل کرنے والے ہو سکتے ہیں جو ہمیں بتائے گئے ہیں اور نہ انسان اللہ تعالیٰ کے اُن انعامات سے حصہ لے سکتا ہے جو عبادت کے ساتھ مشروط ہیں۔
حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام اس بارہ میں ہم سے کیا توقع رکھتے ہیں۔ آپؑ ایک جگہ فرماتے ہیں :
‘’سو اے وے تمام لوگو! جو اپنے تئیں میری جماعت شمار کرتے ہو آسمان پر تم اس وقت میری جماعت شمار کئے جاؤ گے جب سچ مچ تقویٰ کی راہوں پر قدم مارو گے۔ سو اپنی پنجوقتہ نمازوں کو ایسے خوف اور حضور سے اد اکرو کہ گویا تم خدا تعالیٰ کو دیکھتے ہو‘‘۔ (کشتیٔ نوح۔ روحانی خزائن۔ جلد 19صفحہ15)
پس اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کے بعد تقویٰ سے متعلق سب سے بڑی شرط نمازوں کی ادائیگی ہے اور نمازوں کی ادائیگی اس طرح نہیں کہ جیسے کوئی بوجھ سر سے اتارا جا رہا ہے کہ جلدی جلدی ختم ہو اور پھر جا کر اپنے دنیاوی کاموں میں مشغول ہو جائیں۔ نہیں، بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں نماز اس طرح اداکرو جس طرح تم خدا کو دیکھتے ہو۔ اب دیکھیں جب ہم کسی بڑی ہستی کے سامنے پیش ہوتے ہیں تو ایک خوف ہوتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ جو سب سے بالا ہستی ہے اس کی عبادت کرتے ہوئے جب ہم یہ سوچ رکھیں گے کہ خداتعالیٰ کو دیکھ رہے ہیں تو کس قدر ہماری خوف کی حالت ہو گی اور یہی حالت ہے جو خالص عبادت گزار بناتی ہے۔ لیکن چونکہ ہر ایک میں یہ حالت ایک دم پیدا نہیں ہو سکتی اس لئے آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ نماز پڑھتے ہوئے اگر یہ حالت نہیں کہ تم سمجھو کہ خدا کو دیکھ رہے ہو تو کم از کم یہ خیال کرو کہ خداتعالیٰ تمہیں دیکھ رہا ہے۔ وہ خدا جو سب طاقتوں کا مالک ہے، جو دلوں کا حال جانتا ہے۔ جب یہ خیال ہو گا کہ وہ سب طاقتوں والا خدا ہمیں دیکھ رہا ہے تو اُس کی عبادت کرنے کی طرف توجہ پیدا ہو گی۔ اس طرح خالص ہو کر عبادت کرنے کی طرف توجہ پیدا ہو گی جو خداتعالیٰ کی رحمت کو جذب کرنے والی ہو گی۔ ہم اپنی نمازوں کی اس طرح حفاظت کرنے والے بنیں گے جو دنیاوی لذات، دنیاوی کاروبار، دنیاوی مقاصد کو ثانوی حیثیت دے رہے ہوں گے۔ اور یہ چیز ہے جو ہمیں

اَبْنَاءالسَّمَاء

بنائے گی اور یہی چیز ہے جو ہمیں اس مقام پر لانے والی ہو گی جس سے ہم حقیقی رنگ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت میں شمار کئے جانے والے بنیں گے۔ یہ باتیں اس لئے نہیں بیان کی جا رہیں کہ جن لوگوں کو یہ حالت میسر نہیں آتی وہ مایوس ہو کر ایک طرف بیٹھ جائیں کہ ہم تو یہ معیار نہ حاصل کر سکتے ہیں اور نہ ہم نے کیا ہے اس لئے ہم جماعت سے باہر ہو گئے۔ بلکہ یہ وہ اعلیٰ معیار ہیں جن کے حصول کی ہمیں کوشش کرنی چاہئے۔ آگے بڑھنے والی جماعتوں کے لئے ہمیشہ بڑے ٹارگٹ مقرر ہوتے ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ کے فضل اور برکتیں پہلے سے بڑھ کر نازل ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

وَرَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْء (الاعراف :157)

کہ میری رحمت ہر ایک چیزپر حاوی ہے۔ پس ہم جو حاصل کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے مل رہاہے اور نیکیوں میں آگے بڑھتے چلے جانے کا ہی اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔ پس یہ نہ سمجھیں کہ جو حاصل نہیں کر سکتے یا نہیں کیا تو مایوس ہو گئے۔ بلکہ بڑھتے چلے جائیں تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل اور رحمت سے آگے بڑھاتا چلا جائے گا۔ اور پھر من حیث الجماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان انعاموں اور فضلوں کے ہم وارث بن رہے ہوں گے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت کے لئے مقدر فرمائے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں ایسے لوگ بھی بہت ہیں جو عبادتوں کے معیار حاصل کرنے والے ہیں۔ راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر نفل پڑھنے والے ہیں۔ جماعت کے لئے دعائیں کرنے والے ہیں۔ تقویٰ پر قدم مارنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اُن کی وجہ سے جماعت پر پھر مجموعی لحاظ سے فضل فرماتا ہے۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی جماعت کے افراد کی اکثریت کو اس معیار پر دیکھنا چاہتے ہیں جو آپؑ نے بیان فرمایا ہے تاکہ جماعت کے ہرفرد کا اللہ تعالیٰ سے ذاتی تعلق پیدا ہو جائے۔ ہر فرد جماعت وہ فیض پانے والا بنے جو اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کی کوشش کرنے والے پاتے ہیں۔ جتنا زیادہ ہر فرد جماعت کے تقویٰ کا معیار بڑھے گا اتنی جلدی ہم احمدیت کے غلبہ کے نظارے دیکھنے والے ہوں گے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا اپنے ماحول میں ان نیک اعمال کی وجہ سے جن کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے ہم دوسروں کو بھی اپنی طرف کھینچنے والے ہوں گے۔ ہماری ان عبادتوں کی وجہ سے ہماری دعوت الی اللہ کی کوشش بھی بارآور ہو گی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت سوں کو مَیں نے ملاقات کے دوران اخلاص و وفا سے پُر پایا ہے۔ اور ان کو دعاؤں کی قبولیت پر یقین سے پُر پایا ہے۔ اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان اور اس کی رضا کی کوشش ان کی باتوں سے عیاں تھی۔ بہت سی عورتوں اور مردوں نے اپنے اور اپنی اولاد کے دین میں ترقی کرنے کی باتیں کی ہیں ان کے لئے دعا کے لئے کہتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ خلافت اور جماعت سے بھی ان لوگوں کا پختہ تعلق ہے۔
پس اس تعلق اور اس جذبہ کو نہ صرف کبھی آپ نے مرنے نہیں دینا بلکہ اس میں ہر روز اضافہ کی کوشش کرنی ہے۔ اور اس کے لئے جیسا کہ مَیں نے کہا اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو ہمیشہ یاد رکھیں کہ خدائے واحدو یگانہ کی عبادت اور نیک اعمال ایک مومن کے لئے انتہائی ضروری ہیں۔
اپنے آپ کو ہر مخفی شرک سے بھی بچائیں۔ یہاں آپ کے آپس میں مختلف مذاہب کے ساتھ تعلقات ہیں اور اُن کی وجہ سے، آپس میں ملنے جلنے کی وجہ سے، بعض بدعات اور غلط رسومات راہ پا جاتی ہیں اپنے آپ کو ان سے ہمیشہ بچا کر رکھیں۔ کیونکہ یہی باتیں پھر آہستہ آہستہ شرک کی طرف لے جاتی ہیں۔ یہاں تعلیم کا معیار ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس صوبہ میں احمدی بھی باقی آبادی کی طرح 100فیصد تعلیم یافتہ ہیں۔ تو اس تعلیم کو اپنے دین کی حفاظت کے لئے استعمال کریں۔ دینی تعلیم کا حصول بھی آپ لوگوں کا ایک اہم مقصد ہونا چاہئے تاکہ اپنے ایمان کی حفاظت کے ساتھ اپنے بچوں میں بھی دین سے تعلق پیدا کرکے ان کی حفاظت کرنے والے ہوں تاکہ آئندہ نسلوں کا ایمان بھی ہمیشہ ترقی کرتے چلے جانے والا ہو۔ اور پھر اس دینی علم کو استعمال کرکے دعوت الی اللہ میں بھی اہم کردار ادا کرنے والے بنیں۔ یہ سرزمین ایسی ہے جہاں ہندوؤں کے علاوہ یہودی بھی آکر آباد ہوئے پھر ان کی تلاش میں حضرت عیسیٰؑ کے خاص حواری حضرت تھومہ(Thomas) یہاں آئے، عیسائیت یہاں پھیلی۔ پھر جیسا کہ یہاں مشہور ہے حضرت مالک ؓبن دینار کے ذریعہ اور عرب تاجروں کے ذریعہ اسلام کی ابتداء یہاں اسلام کے ابتدائی زمانہ میں ہو گئی۔ اب آپ کو اللہ تعالیٰ نے مسیح محمدی کے ماننے کی توفیق دی ہے تو اس پیغام کو ایک خاص کوشش اور جدوجہد کے ساتھ آگے پہنچائیں اور آنحضرت ﷺ کے جھنڈے تلے اس حصّہ کی آبادی کو بھی لانے کی کوشش کریں کہ اب دنیا کی اصل نجات آنحضرت ﷺ کے جھنڈے تلے آنے میں ہی ہے۔ اور اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے اسی لئے بھیجا ہے۔
پس اب ہم پر یہ ذمہ داری ہے کہ اس پیغام کو جواللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ دنیا میں پھیلانا مقدر فرمایاہے توایک کوشش کے ساتھ پھیلانے کی طرف توجہ کریں۔ دنیا کی توجہ اب پہلے سے بڑھ کر احمدیت کی طرف ہو رہی ہے۔ آپ نے اپنے علاقہ میں بھی میڈیا کے ذریعہ محسوس کیا ہو گا اور مخالفت میں بھی اور سننے کے لئے بھی اب دنیا کی ایک خاص توجہ احمدیت کی طرف ہو گئی ہے۔ پس اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے اور اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے ہمیں پہلے سے بڑھ کر اپنی ذمہ داریوں کو اد اکرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
ہمیشہ اس بات کو یاد رکھیں کہ حضرت مسیح موعو د علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ مجھے دعاؤں کا ہتھیار دیا گیا ہے۔ اس لئے دعاؤں کی طرف ہمیں بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ یہی ہیں جو انشاء اللہ تعالیٰ ہماری کامیابی کا باعث بنیں گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں