خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 20؍اکتوبر 2006ء

قرآن کریم اور احادیث میں جمعۃ الوداع کا کوئی تصور نہیں ملتا، ہاں جمعہ کی اہمیت ہے اور بہت اہمیت ہے۔
ہر احمدی کو ہمیشہ جمعہ کی اہمیت کو اپنے پیش نظر رکھنا چاہئے اور چھوٹے چھوٹے بہانے تراش کر یا تلاش کرکے اللہ تعالیٰ کے احکامات کی حکم عدولی نہیں کرنی چاہئے۔
جمعہ کے دن قبولیت دعا کی ایک خاص گھڑی آتی ہے، اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے
(قرآن کریم، احادیث نبویہؐ اور ارشادات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حوالہ سے جمعہ کی فرضیت و اہمیت اور اس سے متعلقہ امور کا بیان اور احباب جماعت کو اہم نصائح)
گزشتہ خطبات میں جاری مضمون کے تسلسل میں قرآن مجید، احادیث نبویہؐ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعض دعاؤں کا تذکرہ۔
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ مؤرخہ 20؍اکتوبر 2006ء (20؍نبوت 1385ہجری شمسی) بمقام مسجد بیت الفتوح ،لندن۔ برطانیہ

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
یٰٓاَایُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الْبَیْعَ ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۔فَاِذَاقُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ وَ ابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ وَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ۔وَاِذَا رَاَوْا تِجَارَۃً اَوْ لَھْوًا انْفَضُّوْا اِلَیْھَا وَتَرَکُوْکَ قَآئِماً قُلْ مَا عِنْدَاللّٰہِ خَیْرٌ مِّنَ اللَّھْوِ وَمِنَ التِّجَارَۃِ وَاللّٰہُ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ۔(سورۃالجمعۃ 10تا 12)

آج اس رمضان کا آخری جمعہ ہے اور انشاء اللہ دو تین دن تک یہ رمضان کامہینہ بھی اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جنہوں نے اپنی استعداد اور بساط کے مطابق کوشش کی کہ اس ماہ میں اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلیں اور اس کا پیار، اس کی محبت اور اس کی رضا حاصل کرنے والوںمیں شامل ہو سکیں۔ بہرحال جیسا کہ میں نے کہا ابھی دو تین دن باقی ہیں، جو اس رمضان سے بھرپور فائدہ نہیں اٹھا سکے وہ ان بقیہ دنوں میں ہی اگر سچے دل سے کوشش کریں تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے والے بن سکتے ہیں۔ کیونکہ خالص ہو کر اس کی راہ میں گزرا ہوا ایک لمحہ بھی انسان کی کایا پلٹ سکتا ہے اور خداتعالیٰ اپنی طرف آنے والے کو ماں باپ سے بھی زیادہ بڑھ کر پیار کرتا ہے۔ وہ جب اپنے بندے کو اپنے ساتھ چمٹاتا ہے تو وہ بندہ وہ نہیں رہتا جو پہلے تھا۔ اس ایک سچے اور خالص لمحے کی دعا انسان کو برائیوں سے اتنا دور لے جاتی ہے،اس کی طبیعت میں اتنا فرق ڈال دیتی ہے جو مَشْرِقَیْنکا فرق ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کی ذات سے مایوسی کا تو کوئی سوال ہی نہیں، صرف ان راستوں پر چلنے کی ضرورت ہے جو اللہ تعالیٰ کو پانے کے راستے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کو پانے کے وہ اسلوب سیکھنے کی ضرورت ہے جو آنحضرت ﷺ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں سکھائے جو ایک عرصے سے بھولی بسری یادیں بن چکے تھے اور جن کو دوبارہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمارے سامنے رکھا ۔پس ہم وہ خوش قسمت ہیں جو اس امام کو ماننے والے ہیں جس نے ان راستوں کو صاف کرکے ہماری ان کی طرف راہنمائی فرمائی۔ ہمارے ذہنوں کی گرد بھی جھاڑی جس سے بدعات اور غلط روایات سے ہمارے ذہن پاک و صاف ہوئے، جس میں آجکل غیراحمدی معاشرہ ڈوبا ہوا ہے۔ بہت ساری غلط روایات ہیں جو ان میں راہ پکڑگئی ہیں، بدعات کا دخل ہو گیا ہے جس سے ان کی بعض باتیں اللہ تعالیٰ کی اس تعلیم سے جو اللہ تعالیٰ نے آنحضرتﷺ پر نازل فرمائی تھی کوسوں دور چلی گئی ہیں اور ان باتوں میں ایک جمعۃ الوداع کا تصور بھی ہے۔ جبکہ قرآن کریم اور احادیث میں جمعۃ الوداع کا کوئی تصور نہیں ملتا۔ ہاں جمعہ کی اہمیت ہے اور بہت اہمیت ہے، جس کا میں ان آیات کی روشنی میں جو میں نے تلاوت کی ہیں اور احادیث کی
روشنی میں ذکر کروں گا۔ لیکن اس سے پہلے میں نہایت افسوس سے اس بات کا ذکر کروں گا کہ امام الزمان کی بیعت میں آنے کے باوجود اور باوجود اس کے کہ خلفاء احمدیت اس تصور کو ذہنوں سے نکالنے کے لئے بار ہا اس طرف توجہ دلا چکے ہیں بعض احمدی بھی معاشرے کی اس برائی اور بدعت کا شکار ہو کر جمعہ کی اہمیت کو بھلا کر جمعۃ الوداع کا تصور ذہنوں میں بٹھائے ہوئے ہیں۔ اور ایسے لوگ چاہے زبان سے اس بات کا اقرار کریں یا نہ کریں اپنے حال سے، اپنے عمل سے یہ اظہار کر رہے ہوتے ہیں۔ عموماً سارا سال مساجد میں جمعوں پر جو حاضری ہوتی ہے، رمضان کے دنوں میں خاص قسم کا ماحول بننے کی وجہ سے جمعوں میں حاضری اس سے بہت بہتر ہو جاتی ہے۔ لیکن رمضان کے آخری جمعہ میں یہ حاضری رمضان کے باقی جمعوں کی نسبت بہت آگے بڑھ جاتی ہے جس سے صاف ظاہر ہو رہا ہوتا ہے کہ آج توجہ زیادہ ہے۔ یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ مرکز میں یا جہاںخلیفۂ وقت نماز جمعہ پڑھا رہے ہوں وہاں اس جمعے میں شامل ہونے کی لوگ زیادہ کوشش کرتے ہیں جو ٹھیک ہے لیکن اگر جماعتیں جائزہ لیں تو ہر مسجد میں رمضان کے آخری جمعہ کی حاضری پہلے سے بڑھ کر ہوتی ہے۔ پس یہ عمل ظاہر کر رہا ہے کہ رمضان کے آخری جمعہ میں شامل ہو جاؤ، جمعہ پڑھ لو اور گناہ بخشوا لو ۔ یہ ٹھیک ہے کہ اللہ تعالیٰ رمضان میں پہلے سے بڑھ کر بندے کے ساتھ بخشش کا سلوک فرماتا ہے۔ لیکن بندے کو بھی اللہ تعالیٰ کے اس سلوک کی وجہ سے حتی الوسع اس تعلیم پر قائم رہنے کی کوشش کرنی چاہئے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں دی ہے اور جیسا کہ میں نے کہا اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اور آنحضرت ﷺنے مختلف مواقع پر جمعہ کے دن کی اہمیت کی طرف توجہ دلائی ہے لیکن جمعۃ الوداع کی کسی اہمیت کا تصور نہیں ملتا۔ بلکہ جیسا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرمایا کرتے تھے کہ ہمیں اس آخری جمعہ میں جو رمضان کا آخری جمعہ ہے، یہ سبق ملتا ہے کہ اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے اس جمعہ سے اس طرح گذریں اور نکلیں کہ رمضان کے بعد آنے والے جمعہ کی تیاری اور استقبال کر رہے ہوں اور پھر ہرآنے والا جو جمعہ ہے وہ ہرنئے آنے والے جمعہ کی تیاری کرواتے ہوئے ہمیں روحانیت میں ترقی کے نئے راستے دکھانے والا بنتا چلا جائے اور یوں ہمارے اندر روحا نی روشنی کے چراغ سے چراغ جلتے چلے جائیں اور یہ سلسلہ کبھی نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہو اور ہرآنے والا رمضان ہمیں روحانیت کے نئے راستے دکھاتے چلے جانے والا رمضان ہو، نئی منازل کی طرف راہنمائی کرنے والا رمضان ہو جس کا اثر ہم ہر لمحہ اپنی زندگیوں پر بھی دیکھیں اور اپنے بیوی بچوں پر بھی دیکھیں اور اپنے ماحول پر بھی دیکھیں۔
جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ ہمیں قرآن اور حدیث سے جمعہ کی اہمیت پتہ چلتی ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اس بارہ میں جو حکم اتارا ہے، وہ سب سے پہلے میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔یہ آیات جو میں نے تلاوت کی ہیں ان میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو، جب جمعہ کے دن کے ایک حصہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔
پھر اگلی آیت میں فرمایا: پس جب نماز ادا کی جا چکی ہو تو زمین میں منتشر ہو جاؤ اور اللہ کے فضل میں سے کچھ تلاش کرو اور اللہ کو بکثرت یاد کرو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔ پھر فرماتا ہے: اور جب وہ کوئی تجارت یا دل بہلاوہ دیکھیں گے تو اس کی طرف دوڑ پڑیں گے اور تجھے اکیلا چھوڑ دیں گے۔ تو کہہ دے کہ جو اللہ کے پاس ہے وہ دل بہلاوے اور تجارت سے بہت بہتر ہے اور اللہ رزق عطا کرنے والوں میں سب سے بہتر ہے۔
تو دیکھیں کتنا واضح حکم ہے ،کوئی ابہام نہیں ہے کہ کون سے جمعہ کی طرف بلایا جائے؟ صرف حکم ہے تو یہ کہ جمعہ کے دن جمعہ کی نماز کی طرف بلایا جائے تو اس پیارے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے دوڑو۔ یہ خیال دل میں نہ لاؤ کہ تھوڑا سا یہ کام رہتا ہے اسے پورا کر لوں پھر جاتا ہوں۔ یہاں اکثر دیکھا گیا ہے کہ خطبہ شروع ہونے کے وقت اس مسجد کا ہال نصف سے بھی کم بھرا ہوتا ہے اور اس کے بعد آہستہ آہستہ لوگ آنا شروع ہو تے ہیں اور جگہ بھرتی چلی جاتی ہے۔ صرف یہاں نہیں، باقی دنیا میں بھی یہی حال ہے بلکہ بعض لوگ خطبہ ثانیہ کے دوران آرہے ہوتے ہیں۔ بعض کو تو کام سے رخصت کی مجبوریاں ہیں، بعض کو بعض دفعہ ٹرانسپورٹ کا مسئلہ پیدا ہوجاتا ہے لیکن بعض عادی بھی ہوتے ہیں اور کوشش یہ ہوتی ہے کہ جتنا دیر سے جا سکیں، جتنا لیٹ جا سکیں جایا جائے تاکہ نماز میں شامل ہو کر فوری واپس آ جائیں یا تھوڑا سا خطبے کا حصہ سن لیں تو یہی کافی ہے ۔ حالانکہ حدیث میں آتا ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جمعہ کے دن فرشتے مسجد کے دروازے پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور وہ سب سے پہلے آنے والے کو پہلا لکھتے ہیں اور پہلے آنے والے کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی اونٹ کی قربانی کرے ۔پھر بعد میں آنے والا اس کی طرح ہے جو گائے کی قربانی کرے، پھر مینڈھا یعنی بھیڑ بکرا، پھر مرغی اور پھر انڈے کی قربانی کرنے والے کی طرح، پھر جب امام منبر پر آ جاتا ہے تووہ اپنے رجسٹر بند کر لیتے ہیں اور ذکر کو سننا شروع کر دیتے ہیں۔ (بخاری کتاب الجمعۃ باب الاستماع الی الخطبۃ یوم الجمعۃ)
تو دیکھیں جمعہ کے لئے جلدی آنے کی اہمیت کس طرح واضح فرمائی۔ جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ بعض کام کرنے والے لوگ ایسے ہیں جن کو مجبوریاں ہوتی ہیں لیکن ایک ایسی تعداد بھی ہے جس میں یہ احساس ہی نہیں ہے کہ جمعہ پہ وقت پر جانا ہے۔ اکثر یہاں بہت سارے لوگ میرے سامنے مسجد کے اگلے حصے میں بیٹھے ہوتے ہیں، تقریباً نوے فیصد شاید وہی چہرے ہوتے ہیں اور آج بھی وہی ہیں۔ ان میں سے بعض کو میں جانتا ہوں وہ کام بھی کرتے ہیں اورعموماً یہاں اکثر لوگ اپنے کام کر رہے ہیں، کوئی ٹیکسی چلا رہا ہے کوئی دوسرے کام کر رہا ہے۔ تو یہ جلدی آنے والے بھی اور لیٹ آنے والے بھی اور نہ آنے والے بھی ،ان کے کاموں کی نوعیت تقریباً ایک جیسی ہوتی ہے، تو وقت پر نہ آناصرف نفس کا بہانہ ہے۔ آخر جو وقت پر آ کر بیٹھ جاتے ہیں، یہ بھی تو اپنے کام کا حرج کرکے آ رہے ہوتے ہیں۔
پس اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو یاد رکھیں کہ جمعہ کی نماز پر جلدی آؤ اور اپنی تجارت، اپنے کاروبار اور اپنے کام چھوڑ دیا کرو اور ہمیشہ یاد رکھو کہ رزق دینے والی ذات خداتعالیٰ کی ذات ہے۔ اگر اس کے حکم پر عمل کرتے ہوئے، بظاہر نقصان اٹھاتے ہوئے بھی جمعہ کے لئے آؤ گے تو خداتعالیٰ ایسے سامان پیدا فرمادے گا کہ جس نقصان سے تم ڈ ر رہے ہو وہ نہیں ہو گا اور اگر بالفرض کہیں کوئی تھوڑی بہت کمی رہ بھی جاتی ہے تواللہ تعالیٰ اس وجہ سے تمہیں اور ذریعوں سے برکتوں سے بھر دے گا کہ تم سوچ بھی نہیں سکتے۔
جمعہ پر تم جو سستی دکھاتے ہو اور بے احتیاطی کرتے ہو یہ اپنی بے علمی کی وجہ سے کرتے ہو۔ اگر تمہیں علم ہو کہ اس کے کتنے فوائد ہیں اور اللہ تعالیٰ کس طرح اپنے فضلوںسے نوازے گاتو اتنی سستیاں اور بے احتیاطیاں کبھی نہ ہوں اور سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ کبھی یہ بے احتیاطی ہو بلکہ ہمیشہ اس کوشش میں رہو گے کہ اونٹ یا گائے کی قربانی کا ثواب حاصل کرو۔ پس ہر احمدی کو ہمیشہ جمعہ کی اہمیت کو اپنے پیش نظر رکھنا چاہئے اور چھوٹے چھوٹے بہانے تراش کر یا تلاش کرکے اللہ تعالیٰ کے احکامات کی حکم عدولی نہیں کرنی چاہئے۔ جمعہ کا خطبہ اور نماز آنے جانے سمیت زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ دو گھنٹے کا معاملہ ہے۔ اور بعض لوگ جو دوسرے کام ہیں ان میں بغیر کام کے ہی بے تحاشا وقت ضائع کر رہے ہوتے ہیں۔ مکرم حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب کی ایک بات مجھے یاد آئی، یہیں کہیں، کسی مغربی ملک میں ان کا غیروں میں لیکچر تھا، جگہ کونسی تھی یہ تو مجھے پوری طرح مستحضر نہیں لیکن بہرحال وہاں انہوں نے اسلامی عبادات کا ذکر فرمایا اور جمعہ کی مثال بھی دی کہ ہفتے بعد جمعہ ایک لازمی عبادت ہے، اس کے متعلق حکم ہے کہ ضرور پڑھو۔ بعض لوگوں کے نزدیک یہ بہت بڑا بوجھ ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ اس میں کتنا وقت لگ جاتا ہے؟پھر انہوں نے وقت کی مثال اس طرح دی کہ جتنا وقت دو برِج(Bridge) کھیلنے والے اپنی اس برِج کی کھیل کو ختم کرنے میں لگاتے ہیں اس سے کم وقت اس میں لگتا ہے ۔ یہ برِج جو ہے یہ بھی تاش کھیلنے کی ایک قسم ہے۔ تو لہوو لعب کی طرف تو توجہ ہو جاتی ہے، جمعہ کی طرف توجہ نہیں ہوتی۔پس دنیا داروں کو سمجھانے کے لئے انہوں نے اس کی مثال دی تھی۔ اسی طرح دوسری بے فائدہ کھیلیں ہیں، بعض گپیں ہانکنے میں وقت لگا دیتے ہیں، بیٹھے رہتے ہیں لیکن جمعہ پر آنے کے لئے سوچ میں پڑ جاتے ہیں کہ اتنا وقت ہو گا، جائیں گے، بیٹھنا پڑے گا، خطبہ لمبا ہو گیا تو کیا کریں گے۔ جماعت پر یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ میاں بیوی میں سے کوئی نہ کوئی ضرور نیکی کی طرف مائل ہوتا ہے۔ بعض عورتیں اور لڑکیاں بڑی فکر سے اپنے خاوندوں کے بارے میں دعا کے لئے لکھتی ہیں کہ ہمارے میاں کوجمعہ پر جانے کی عادت نہیںاور اکثر بہانے بنا کر جمعہ ضائع کر رہے ہوتے ہیں، کوئی وجہ نہیں ہوتی۔ دعا کریں کہ جمعہ پر جانے کی عادت پڑ جائے۔ ایک حدیث میںجمعہ ضائع کرنے والوں کے بارے میں آتا ہے، جس میں جمعہ کی اہمیت اور جمعہ نہ پڑھنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا ذکر ہے۔ حضرت ابو جعد ضمری ؓ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جس نے تساہل کرتے ہوئے لگاتار تین جمعے چھوڑے اللہ تعالیٰ اس کے دل پر مہر کر دیتا ہے۔ (سنن ابی داؤد کتاب الصلوٰۃ باب التشدد فی ترک الجمعۃ )
اب دیکھیں کس قدر انذار ہے، جمعہ چھوڑنے کے کس قدر بھیانک نتائج پیدا ہو رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کے دل پھر اللہ تعالیٰ سخت کر دیتا ہے اور ان کے اپنے عمل کی وجہ سے یہ چیز پیدا ہو رہی ہوتی ہے، جمعہ سے لاپرواہی کی وجہ سے یہ چیز پید ا ہو رہی ہوتی ہے۔ دیکھ لیں کہ یہاں لگا تار تین جمعے چھوڑنے پر انذار کیا ہے، رمضان کا آخری جمعہ چھوڑنے کا یہاں ذکر نہیں ہے۔ یعنی جو لگا تارتین جمعے چھوڑے گا اس کا دل سخت ہو جاتا ہے، اس کے دل پر مہر لگ جاتی ہے۔ یہ نہیں کہا گیا کہ جو رمضان کا آخری جمعہ چھوڑتا ہے یا لگاتار تین رمضان آخری جمعہ پر نہ جائے تو اس کا دل سخت ہو گا۔ اس لئے جمعہ کی اہمیت کو بہت زیادہ اپنے پیش نظر رکھنا چاہئے اور اس کے علاوہ اپنی ہر قسم کی عبادتوں کو زندہ کرنے کی کوشش کرنی چاہئے تاکہ اللہ تعالیٰ جو بہت زیادہ بخشنہار ہے،اس سے اپنے گناہوں کے بخشوانے اور اس کے فضلوں کو حاصل کرنے والے اور اس کے لئے کوشش کرنے والے ہوں۔ حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر انسان کبائر گناہ سے بچے تو پانچ نمازیں، ایک جمعہ سے دوسرا جمعہ اور رمضان سے اگلا رمضان ان دونوں کے درمیان ہونے والی لغزشوں کا کفارہ بن جاتا ہے۔ (الترغیب والترھیب کتاب الجمعۃ باب الترغیب فی صلاۃ الجمعۃ و السعی الیھا)
یعنی اگر انسان بڑے بڑے گناہوں سے بچتا رہے تو ان چھوٹی موٹی غلطیوں سے اور لغزشوں سے اور گناہوں سے اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے اس عمل کی وجہ سے صرف نظر فرماتا رہے گا جو وہ اس کی رضا حاصل کرنے کے لئے، اپنی نمازوں کی طرف توجہ دیتے ہوئے اور جمعہ پر باقاعدگی اختیار کرتے ہوئے اور پھر رمضان کے روزے رکھتے ہوئے کرتا ہے۔ہرنمازپڑھنے کے بعد جب اگلی نماز کا انتظار ہواور اگلی نماز انسان پڑھے تو اللہ تعالیٰ اس دوران کی غلطیاں معاف فرما دیتا ہے، پھر ہفتے کے دوران جو غلطیاں ہوں وہ جمعہ کے جمعہ معاف فرما دیتا ہے ۔ اسی طرح اگر سال کے دوران کچھ غلطیاں ہیں تو رمضان میں اللہ تعالیٰ بخشش کے دروازے کھولتا ہے اور معاف فرما دیتا ہے۔ تو دیکھیں یہاں صرف جمعہ کا یا جمعۃ الوداع کا ذکر نہیں بلکہ روزانہ نمازوں کی طرف بھی توجہ کی ضرورت ہے۔پھر ہر جمعہ کی طرف توجہ کی ضرورت ہے۔ یہاں یہ نہیں لکھا ہوا، جس طرح بعض لوگوں کا خیال ہے کہ قضائے عمری پڑھ لی تو گناہ معاف ہو گئے، اسی طرح جمعۃ الوداع پڑھ لیا تو گناہ معاف ہو گئے۔ بلکہ ہر جمعہ جو ہے وہ اگلے جمعہ تک کی غلطیوں کا کفّارہ بنتا ہے۔ پھر جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ جمعہ پر آنے جانے اور خطبہ سننے میں زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ دو گھنٹے لگتے ہیں کیونکہ جو مسجدوں کے قریب کے لوگ ہیں وہی آئے ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ تھوڑا سا وقت ہے،جب تم جمعہ ادا کر چکو تو بے شک اپنے کاموں پر چلے جاؤ اور جو اپنے دنیاوی کام ہیں وہ سارے کرو اور اللہ کا فضل تلاش کرو۔ اللہ تعالیٰ نے یہ دنیاوی نعمتیں اور یہ کاروبار جو صحیح کاروبار ہیں تمہیں اپنے فضل سے ان سے فائدہ اٹھانے کے لئے عطا کئے ہوئے ہیں۔ پس اس فضل سے فائدہ اٹھاؤ۔ اس میں اس طرف بھی اشارہ ہو گیا کہ ناجائز کاروبار، دھوکہ دہی کے کاروبار جو ہیں ان سے بچو کیونکہ اللہ تعالیٰ کے جو نواہی ہیں اس سے بچ کر ہی اللہ تعالیٰ کے فضل کے وارث بن سکتے ہو، ان کو کرکے نہیں۔ پس اپنی ملازمتوں میں ،اپنے کاروباروںمیں جائز او رناجائز کے فرق کو بھی ہمیشہ پیش نظر رکھو۔ یہ نہیں کہ ان لوگوں کی طرح ناجائز کاروبارکرکے اور کالا دھن کما کر اور سمگلنگ کرکے پھر حج پر چلے گئے اور سمجھ لیا کہ ہم پاک ہو گئے ہیں اور ہمارے پچھلے گناہ بخشے گئے۔
جیسا کہ اس حدیث میں جو میں نے پڑھی تھی آتا ہے کہ جمعہ کفّارہ ہے، یہ اس صورت میں کفّارہ بنتا ہے جب انسان بڑے گناہوں سے بچے، جب کبائرسے بچے۔ اور پھر ان سے بچنے کے لئے اس آیت میں یہ بھی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر بچنے کا ایک ذریعہ ہے۔ اللہ کا ذکر کرنے والے ایک تو اللہ کا خوف رکھیں گے، ناجائز کام نہیں کریں گے اور یہ ذکر تمہارے دلوں کو اطمینان بھی بخشے گا ۔ ناجائز منافع خوری اور ناجائز کاروبار کی طرف جو توجہ ہے وہ نہیں رہے گی، قناعت پیدا ہو گی۔ اور ’’ذکر‘‘ پھر اس طرف بھی توجہ دلا رہا ہے کہ جمعہ پڑھ کر پھر نمازوں سے چھٹی نہیں ہو گی بلکہ اس کے بعد عصر کی نماز بھی ہے پھر مغرب کی نماز ہے پھر عشاء کی نماز ہے۔ اور یہ سلسلہ پھر اسی طرح چلنا ہے، اس طرف بھی ہر ایک کی توجہ رہنی چاہئے ۔ اور اس’’ ذکر‘‘ سے پھر فضل بڑھتے چلے جائیں گے اور چھوٹی موٹی غلطیوں اور کوتاہیوں کا کفارہ بھی ہوتا چلا جائے گا۔ پس ہمیشہ اس طرف توجہ رکھو کہ’’ ذکر‘‘ کرنا ہے۔پھر اگلی آیت میں فرمایا کہ جن کے دل ہر وقت دنیاوی چیزوں کی طرف مائل رہتے ہیں، جھکے رہتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرنے والے نہیں۔ ان کو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے کا فہم اور ادراک ہی نہیں۔ انہوں نے اپنی تجارتوں کو ہی اپنا خدا بنا لیا ہوا ہے۔ اپنے کاروباروں کو اپنا خدا بنا لیا ہوا ہے۔ عبادتوں کی بجائے کھیل کود میں ان کا دل زیادہ لگا ہوا ہے۔ جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ تاش کھیلنے والے گھنٹوں تاش کھیلتے رہیں تو انہیں وقت کے ضائع ہونے کا احساس نہیں ہوتا، تو فرمایا کہ جن کے دل ایمان سے خالی ہیں یا ایمان صرف منہ کی جمع خرچ ہے وہ عبادت کی طرف توجہ دینے والے نہیں ہیں، قربانیاں کرنے والے نہیں ہیں۔ آنحضرت ﷺ کے زمانے میں تو صحابہؓ قربانیاں کرنے والے تھے۔ انہوں نے مال،جان ، وقت اورعزت ہر چیز کواسلام کی خاطر قربان کر دیا تھا ۔ سوائے چند ایک منافقین کے جو جان بچاتے تھے، ان کا ذکر بھی اللہ تعالیٰ نے کر دیا ہے۔
پس جو تجارت اور کھیل کود کی طرف توجہ دینے والے ہیں یہ اس زمانے کے لوگ ہیں جبکہ مختلف طریقوں سے، دلچسپیوں سے شیطان ان کو اپنی طرف بلاتا ہے اور ان دلچسپیوں کے بے تحاشا سامان پیداہو گئے ہیں۔ اس سورۃ جمعہ میں اس زمانے میں مسیح موعود کے آنے کا بھی ذکر ہے۔ یہ لوگ جو کھیل کود اور تجارتوں میں مشغول ہیں، مسیح موعود کی آواز پر بھی کان نہیں دھرتے اور اللہ تعالیٰ کے پیغام کو سننے کو تیار نہیں، اس آیت میں ان لوگوں کا ذکر ہے۔ لیکن وہ لوگ جو صحیح مومن ہیں، جنہوں نے مسیح موعود کو مانا ہے ان کو تو یہ حکم ہے کہ تمہارا کام تو عبادتوں کو زندہ رکھنا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ذکر سے اپنی زبانوں کو تر رکھنا ہے۔ اگر حضرت مسیح موعودؑ کوماننے کا انعام حاصل کرنے کے باوجود ذکر الٰہی کی طرف توجہ نہیں دو گے تو یاد رکھو کہ اللہ اور اس کے رسول اور مسیح موعودؑ کو تو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکو گے کیونکہ تمہاری بیعت سے تو ان کو کوئی غرض نہیں۔ تمام قسم کی نعمتیں جو تم حاصل کر رہے ہو ان کا سرچشمہ تو اللہ تعالیٰ کی ذات ہے، ہر قسم کے رزق تو اس سے آتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے پاس جو نعمتیں ہیں وہ ان دل بہلاوے کی چیزوں سے اور تجارتوں سے بہت بہتر ہیں۔اگر اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع نہیں کرو گے تو پھر ان نعمتوں سے بھی محروم رہو گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہر احمدی کو اس بات کو سمجھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے والا بنائے۔ کبھی یہ نہ ہو کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکموں سے لاپرواہی برتنے والا ہو۔
ایک حدیث میں آتا ہے، حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ہر وہ شخص جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس پر جمعہ کے دن جمعہ پڑھنا فرض کیا گیا ہے۔ سوائے مریض، مسافر ،عورت ،بچے اور غلام کے۔ جس شخص نے لہو و لعب اور تجارت کی وجہ سے جمعہ سے لاپرواہی برتی اللہ تعالیٰ بھی اس سے بے پرواہی کا سلوک کرے گا۔ یقینا اللہ تعالیٰ بے نیاز اور حمد والا ہے۔(سنن دار قطنی کتاب الجمعۃ باب من تجب علیہ الجمعۃ)
پس فکر کے ساتھ جمعوں کی ادائیگی کرنی چاہئے اور جو استثناء ہیں ان کااس حدیث میں ذکر ہو گیا کہ مریض کی مجبوری ہوتی ہے، نہیںجا سکتا۔ پھر مسافر ہے ، بعض دفعہ مجبوری سے سفر کرنے پڑتے ہیں اس لئے مسافر کے بارے میں بھی آ گیا کہ اگر کوئی مسافر ہے۔ لیکن جو عمداً بغیر کسی وجہ کے جبکہ وقت بدلا جا سکتا ہے جمعہ کے دن سفر کرتے ہیں، ان کی کوئی مجبوری نہیں ہے، ان کو بہرحال بچنا چاہئے۔ اسی لئے آنحضرت ﷺ جمعرات کے سفر کو پسند فرماتے تھے تا کہ جمعہ سے پہلے اپنی منزل پر پہنچ جائیں۔ اسی طرح عورت کے لئے ضروری نہیں کہ وہ جمعہ پرضرور آئے، عید پر آنا ہر عورت کے لئے ضروری ہے۔ جو بھی ہوش و حواس رکھنے والی عورت ہے اس کے لئے عید پر آنا تو بہرحال ضروری ہے، ہر حالت میں آنا ضروری ہے۔ لیکن جمعہ پر آنا ہرعورت کے لئے ضروری نہیں ہے اس لئے یہ استثناء ہے۔ اسی طرح غلاموں کو بھی مجبوریاں ہوتی ہیں، ان کو بھی چھوٹ دی گئی ہے۔ بعض حالات میں وہ مجبور ہوتے ہیں، ان کو کوئی گناہ نہیں۔
پھر جمعہ کی اہمیت بیان فرماتے ہوئے آنحضرت ﷺ نے فرمایا، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے جمعہ کا ذکر فرمایا کہ جمعے کے دن ایک ایسی گھڑی آتی ہے جس میں مسلمان اللہ تعالیٰ سے نماز پڑھتے ہوئے جو بھی بھلائی مانگتا ہے اللہ تعالیٰ وہ اس کو عطا کر دیتا ہے۔ حدیث کے الفاظ ہیں

وَھُوَ قَائِمٌ یُصَلِّیْ۔

(بخاری کتاب الجمعۃ باب الساعۃ التی فی یوم الجمعۃ)
بعض اور روایات ہیںاور حدیثوں کی جومختلف تشریح کرنے والے ہیں وہ اس پر یہ کہتے ہیں کہ صرف نماز پڑھنے کے دوران ہی نہیں بلکہ خطبہ جمعہ بھی جمعہ کا حصہ ہے یہ بھی اسی طرح اس میں آ جاتا ہے، صرف کھڑے ہونا نہیں۔ اور بعض اس سے زیادہ وقت دیتے ہیں کہ یہ وقت شام تک چلتا ہے۔ تو بہرحال اس حدیث میں یہ ہے کہ مسلمان نماز پڑھتے ہوئے جو بھی بھلائی مانگتا ہے اللہ تعالیٰ وہ اس کو عطا کردیتا ہے اور آنحضرت ﷺ نے اپنے دست مبارک سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ گھڑی بہت مختصر ہے، بہت تھوڑی ہے۔ پس اس موقع سے ہر ایک کو فائدہ اٹھانا چاہئے، اپنے لئے بھی دعائیں کریں، جماعت کے لئے بھی دعائیں کریں۔ کسی کوکیا پتہ کہ وہ گھڑی کس وقت آنی ہے، اس لئے پہلے وقت میںآنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ یہ تو بہرحال واضح ہے کہ جمعہ کا خطبہ نماز کا حصہ ہے۔
پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جمعہ کی اہمیت کے بارے میں فرماتے ہیں، یہ ایک میموریل تھا جو جمعہ کی رخصت کی بدلی کے وقت وائسرائے کوبھیجا گیا تھا۔ تو بہرحال اس میں جمعہ کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ ’’روز جمعہ ایک اسلامی عظیم الشان تہوار ہے اور قرآن شریف نے خاص کرکے اس دن کو تعطیل کا دن ٹھہرایا ہے اور اس بارے میں خاص ایک سورۃ قرآن شریف میں موجود ہے جس کا نام سورۃ الجمعہ ہے اور اس میں حکم ہے کہ جب جمعہ کی بانگ دی جائے (اذان دی جائے) تو تم دنیا کا ہر ایک کام بند کر دو اور مسجدوں میں جمع ہو جاؤ۔ اور نماز جمعہ اس کی تمام شرائط کے ساتھ ادا کرو اور جو شخص ایسا نہ کرے گا وہ سخت گناہگار ہے۔ اور قریب ہے کہ اسلام سے خارج ہو اور جس قدر جمعہ کی نماز اور خطبہ سننے کی قرآن شریف میں تاکید ہے اس قدر عید کی نماز کی بھی تاکید نہیں۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ۔جلد دوم صفحہ 580-581جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ )
اب میں گزشتہ خطبوں کے مضمون کی طرف آتے ہوئے آج بھی چند دعائیں آپ کے سامنے رکھوں گا۔ جیسا کہ ہم نے ایک حدیث میں آنحضرت ﷺ کا یہ فرمان دیکھا ہے کہ جمعہ کے دوران ایک ایسی گھڑی آتی ہے جو قبولیت کا درجہ رکھتی ہے، پس اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔
ایک دعا جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں سکھائی ہے وہ آج کل کے حالات کے لحاظ سے بھی بہت اہم ہے۔ کیونکہ آج کل جومعاشرے کا حال ہے ،گندگیوں میں ڈوبا ہوا ہے۔ وہ دعا ہے

رَبِّ انْصُرْنِیْ عَلَی الْقَوْمِ الْمُفْسِدِیْنَ۔(سورۃالعنکبوت:31)

کہ اے میرے رب اس فساد کرنے والی قوم کے خلاف میری مدد کر۔آجکل جیسا کہ میں نے کہا دنیا تمام قسم کی برائیوں میں ملوث ہے اور اس وجہ سے فساد پھیلا ہوا ہے۔ اور یہی لہو و لعب ہے جس نے مسلمان کہلانے والوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے جس کی وجہ سے وہ مسیح موعود کو بھی ماننے سے انکاری ہیں۔ اورسورۃ جمعہ کی جو آخری آیت ہے، جیسا کہ میں نے بتایا تھا اسی طرف اشارہ کرتی ہے کہ دنیا کی چکا چوند سے تم خدا تعالیٰ کو بھول گئے ہو جس کی وجہ سے امام الزمان کی مدد کرنے کی بجائے اسے چھوڑ کر ایک طرف کھڑے ہو گئے ہو۔ پس موجودہ زمانے کی برائیوں سے بچنے کے لئے جب کہ سفروں کی سہولتیں بھی میسر ہیں،سٹیلائٹ رابطوں کی وجہ سے تمام دنیا تقریباً ایک ہو چکی ہے، ایک خبر دوسری جگہ فوراً پہنچ جاتی ہے، تصویریں پہنچ جاتی ہیں، ایک دوسرے کے کلچر پہنچ رہے ہیں ، روایات پہنچ رہی ہیں، برائیوں کے سمجھنے کے معیار ہی بدل گئے ہیں۔ بعض چیزوں میں احساس ہی نہیں رہتا کہ فلاں چیز برائی ہے، غور کرنے کی صلاحیتیں ختم ہو چکی ہیں تو اس دعا کی بہت زیادہ ضرورت ہے تاکہ ہر احمدی اور اس کی نسلیںچاہے وہ مشرق کا ہے، چاہے وہ مغرب کاہے، ہر قسم کے گند سے اور برائیوں سے محفوظ رہے اور پھر اس طرح فتنوں اور فسادوںسے بچا رہے۔
پھر آنحضرت ﷺ نے ہمیں ایک دعا سکھائی، جو اپنے آپ کوسیدھے راستے پر چلانے اور اپنی خواہشات، اعمال اور اخلاق کو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی تعلیم کے مطابق چلانے کے لئے بہت ضروری ہے۔ اور آجکل جیسا کہ میں نے پہلے بھی بتا دیا ہے کہ اتنی مختلف النوع برائیاں پھیلی ہوئی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آئے بغیر ان سے بچنا اور ان سے نجات بہت مشکل ہے۔ اس لحاظ سے آنحضرت ﷺ کی جو یہ دعا ہے، یہ بھی اس زمانے کے لئے بڑی ضروری ہے۔ حضرت زیادبن علاقہؓ اپنے چچا عتبہ بن مالک سے روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ یہ دعا مانگا کرتے تھے کہ

اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ مُنْکَرَاتِ الْاَخْلَاقِ وَ الْاَعْمَالِ وَالْاَ ھْوَاءِ

(سنن ترمذی کتاب الدعوات باب جامع الدعوات)کہ اے میرے اللہ میں بُرے اخلاق اور بُرے اعمال اور بُری خواہشات سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔
پھربخشش اور مغفرت کے لئے ایک دعا ہے ۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ یہ دعا کیا کرتے تھے کہ

رَبِّ اغْفِرْلِیْ خَطِیْئَتِیْ وَ جَہْلِیْ وَاِسْرَافِیْ فِیْ اَمْرِیْ کُلِّہٖ وَاَنْتَ اَعْلَمُ بِہٖ مِنِّی اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ خَطَایَایَ وَعَمَدِیْ وَجَہْلِیْ وَ جِدِّیْ وَکُلُّ ذٰلِکَ عِنْدِیْ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ مَاقَدَّمْتُ وَمَا اَخَّرْتُ وَمَا اَسْرَرْتُ وَ مَااَعْلَنْتُ اَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَاَنْتَ الْمُؤَخِّرُوَاَنْتَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۔

(بخاری کتاب الدعوات باب قول النبی ﷺ اللھم اغفرلی) کہ اے میرے رب! میری خطائیں، میری جہالتیں، میری تمام معاملات میں زیادتیاں جو تو مجھ سے زیادہ جانتا ہے مجھے بخش دے۔ اے میرے اللہ! مجھے میری خطائیں، میری عمداً کی گئی غلطیاں، جہالت اور سنجیدگی سے ہونے والی میری غلطیاں مجھے معاف فرما دے اور یہ سب میری طرف سے ہوئی ہیں۔ اے اللہ! مجھے میرے وہ گناہ بخش دے جو میں پہلے کر چکا ہوں اور جو مجھ سے بعد میں سرزد ہوئے ہیں اور جو میں چھپ کے کر چکا ہوں اور جو میں اعلانیہ کر چکا ہوں۔ مقدم ومؤخر تو ہی ہے اور تو ہر ایک چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ پس اللہ ہی ہے جو ہمیں معاف رکھنے کی طاقت رکھتا ہے۔
ان دنوں میں اگر سچے اور کھرے ہو کر اس کے آگے جھکیں گے تو یقینا وہ طاقت اور قدرت رکھتا ہے کہ ہماری کایا پلٹ دے اور قبولیت دعا کا ایک لمحہ بھی ہماری دنیا اور آخرت سنوار نے والا بن جائے۔
پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ایک دعا ہے آپ فرماتے ہیں۔ ’’خداتعالیٰ سے دعاکرو کہ ہم تیرے گناہگار بندے ہیں اور نفس غالب ہے تو ہم کو معاف کر اور دنیا اور آخرت کی آفتوں سے ہم کو بچا‘‘ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ 44جدید ایڈیشن)
پس جو غلطیاں ہو چکی ہیں اللہ تعالیٰ ہمیں معاف فرمائے اور اپنی رضا کی راہوں پر چلائے اور ہر شر سے ہمیں اور ہماری نسلوں کو محفوظ رکھے۔
پھر ایک جگہ آپ فرماتے ہیں ’’دعا بہت کرتے رہو اور عاجزی کو اپنی خصلت بناؤ۔ جو صر ف رسم اور عادت کے طور پر زبان سے دعا کی جاتی ہے کچھ بھی چیز نہیں۔ جب دعا کرو تو بجز صلوٰۃ فرض کے یہ دستور رکھو کہ اپنی خلوت میں جاؤ۔‘‘ جو فرض نمازیں ہیں ان کے علاوہ بھی یہ عادت بناؤ کہ علیحدگی میں نفل پڑھو اور پھر ذکر الٰہی کرو ’’اور اپنی زبان میں نہایت عاجزی کے ساتھ جیسے ایک ادنیٰ سے ادنیٰ بندہ ہوتا ہے خداتعالیٰ کے حضور میں دعا کرو۔‘‘ اور فرمایا کہ ’’اے رب العالمین !تیرے احسان کا میںشکر نہیں کر سکتا۔ تو نہایت رحیم و کریم ہے اور تیرے بے انتہا مجھ پر احسان ہیں۔ میرے گناہ بخش تا میں ہلاک نہ ہو جاؤں۔ میرے دل میں اپنی خالص محبت ڈال تا مجھے زندگی حاصل ہو۔ اور میری پردہ پوشی فرما۔ اور مجھ سے ایسے عمل کرا جن سے تو راضی ہو جاوے۔ میں تیرے وجہ کریم کے ساتھ اس بات سے پناہ مانگتا ہوں کہ تیرا غضب مجھ پر وارد ہو۔ رحم فرما اوردنیا و آخرت کی بلاؤں سے مجھے بچا کہ ہر ایک فضل و کرم تیری ہی ہاتھ میں ہے۔ امین ثم امین۔‘‘ (مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر چہارم صفحہ6,5)
اللہ کرے کہ ہم رمضان سے ان دعاؤں کی قبولیت کے نظارے دیکھتے ہوئے نکلیں اور خالص اللہ کے ہو جائیں اور صرف اللہ کے ہو جائیں اور جو دنیا کی لہوولعب ہے اس کی ہمارے سامنے مٹی کی ایک چٹکی کے برابر بھی قیمت نہ ہو۔
خطبہ ثانیہ میں حضور انور نے فرمایا:۔
ایک افسوسناک خبر ہے۔ سری لنکا کی مسجد کے ہمارے خادم مسجد عبداللہ نیاز صاحب کو 14؍ا کتوبر کو مخالفین دشمنوں نے شہید کر دیا۔

اناللہ و انا الیہ راجعون۔

ان کی والدہ بھی زندہ ہیں جن کی عمر96سال ہے اور ان کے تین بیٹے ،ایک بیٹی اور بیوہ ہیں۔ یہ خادم مسجد کے طور پر خدمت سرانجام دے رہے تھے اور بڑی سنجیدگی سے اور وقف کی روح کے ساتھ کام کرتے تھے ۔مسجد کو کھولنا، بند کرنا، صفائی اور اذانیں وغیرہ دینا۔ بچوں کو قرآن کریم ناظرہ بھی پڑھاتے تھے۔ 14؍ اکتوبر کو صبح 4بجے مخالفین نے ان کی رہائش گاہ کے نزدیک ہی چاقوؤں اور تلواروں سے حملہ کرکے ان کو شہید کر دیا، یہ اس وقت نماز کے لئے مسجد آ رہے تھے۔ وہاں بھی آج کل بڑی رو چلی ہوئی ہے، پاکستان سے ایک مولوی لٹریچر اور ٹریننگ وغیر ہ لے کر آیا ہے اور مسلمانوں کو خوب بھڑکا رہا ہے کہ یہ مرتد لوگ ہیں ان کو قتل کرو یہ ثواب ہے اور سب سے بڑا جہاد یہی ہے۔ اس رمضان میں اللہ کی رضا حاصل کرنی ہے تو ان احمدیوں کو قتل کر دو۔ اوروہ خود عمرہ پر چلا گیا ہے اور ان کو تاریخ دے گیا ہے کہ 30یا 31 ؍اکتوبر کو میں واپس آ ؤں گا، اس وقت تک احمدیوں کے جتنے بڑے بڑے عہدیداران ہیں ان کو شہید کر دو( وہ تو خیر قتل کرنا ہی کہتے ہیں) پھر جب میں واپس آجاؤں گا تو ان کی مسجد پر قبضہ کریں گے۔ توبہرحال یہ ان کے منصوبے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے ہر شر سے جماعت کو محفوظ رکھے اور ان کے منصوبوں سے بچائے۔ جن کے لئے اللہ تعالیٰ نے عقل مقدر کی ہوئی ہے اور ماننا مقدر ہے ان کو عقل آ جائے ورنہ پھر عبرت کا نشان بنائے۔
پھر ہمارے ایک پاکستانی احمدی آجکل وہاں گئے ہوئے ہیں،21سالہ نوجوان ہیں گوجرانوالہ کے رہنے والے ہیں ان پر بھی حملہ ہوا تھا۔ وہ مسجد سے گھر آ رہے تھے تو ان پر بھی چاقوؤں اور تلواروں سے حملہ کیا۔ ان کے دونوں ہاتھ زخمی ہو گئے، لوگ پہنچ گئے۔ بہرحال ان کو بچا لیا۔ کسی طرح سے بچت ہو گئی۔ ہسپتال میں داخل ہیںعلاج ہو رہا ہے۔ ان کے لئے دعا کریں اللہ تعالیٰ ان کو صحت عطا فرمائے۔
خطبہ ثانیہ کے آخر پرحضور انور نے فرمایا:۔
ابھی میں جمعہ کی نماز کے بعد شہید کا نماز جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں