خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ یکم دسمبر 2006ء

یاد رکھیں جب اس زمانے کے پکارنے والے اور مسیح و مہدی کی آواز کو سنا ہے تو تمام دوسرے ربّوں سے نجات حاصل کرتے ہوئے صرف اور صرف ربِّ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو ربُّ العالمین ہے سامنے جھکنا ہو گا اور اس کی تسبیح کرتے ہوئے اور اس کی حمد کرتے ہوئے اپنی زندگیاں گزارنی ہوں گی۔
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ مؤرخہ یکم؍دسمبر 2006ء (یکم؍فتح 1385ہجری شمسی)بمقام مسجد بیت الفتوح،لندن۔ برطانیہ

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
قُلْ اِنِّیْ نُہِیْتُ اَنْ اَعْبُدَ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ لَمَّا جَآء نِیَ الْبَیِّنٰتُ مِنْ رَّبِّیْ وَاُمِرْتُ اَنْ اُسْلِمَ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْن (المومن:67)

گزشتہ خطبے میں صفت ربّ کا ذکر کرتے ہوئے مَیں نے بعض آیات پیش کی تھیں جن میں اللہ تعالیٰ کے ان حکموں پر توجہ دلائی گئی تھی جن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے میرے بندو اگر اپنی بقا چاہتے ہو تو میری عبادت کی طرف توجہ کروورنہ یاد رکھو کہ اپنے انجام کے تم خود ذمہ دار ہو گے۔ اللہ فرماتا ہے کہ دیکھو مَیں تمہیں واضح طور پر بتا چکا ہوں کہ تمہارا خدا ایک واحدو یگانہ خدا ہے جو تمہارا رب ہے اور جو رَبَّنَا کی آواز پر دل کی گہرائیوں سے نکلی ہوئی تمہاری دعاؤں کوسنتا ہے۔ پھر صرف ضرورت کے وقت لگائی ہوئی تمہاری صداؤں اور دعاؤں کا ہی کیا ذکر ہے، تمہارے مانگے بغیر ہی تمہارے دنیاوی آرام و آسائش کے لئے، تمہارے سکون کے لئے رات اور دن بنا کر ہر ایک انسان پر اللہ تعالیٰ نے احسان کیا ہے، اور ایک بہت بڑا احسان ہے۔اس احسان کے بدلے میں ایک مومن بندے سے سوائے شکر کے جذبات کے کسی اور اظہار کا سوال ہی پیدا نہیں ہونا چاہئے ایک مومن سے کسی دوسرے اظہار کی توقع ہی نہیں کی جا سکتی۔ پس اس شکر گزاری کے جذبات کے نتیجہ میں ہمیشہ اللہ تعالیٰ جو تمہارا رب ہے اس کی عبادت کی طرف توجہ رہے اور کبھی کوئی ایسا موقع نہ آئے جب تم شیطان کے بہکاوے میں آ جاؤ۔ اس لئے ہوش کرو اور ہمیشہ اُن نعمتوں کو یاد کرتے رہو جن میں زمین و آسمان اور اس کے اندر اور درمیان کی کائنات کی ہر چیز شامل ہے اور جس میں اس نے تمہاری بقا کے سامان مہیا کئے ہوئے ہیں۔
پھر تمہاری جسمانی ساخت ہے، تمہارے قویٰ ہیں، تمہارے اعضاء ہیں، تمہاری اچھی شکلیں ہیں، تمہارے کھانے پینے اور اوڑھنے پہننے کے لئے بے شمار رزق اور نعمتوں کی قسمیں تمہیں مہیا کی ہیں۔ دیکھیں فصلوں میں سے ہی اللہ تعالیٰ نے جو ہمارا ربّ ہے، ہمارے لئے مختلف قسم کی چیزیں مہیا فرمائی ہیں، کھانے کے لئے خوراک کا بھی انتظام ہے جس کی بے شمار قسمیں ہیں، پینے کے سامان بھی اللہ تعالیٰ کی نباتات میں سے ہی مہیا ہو جاتے ہیں، تن ڈھانپنے کے لئے کپڑوں کا انتظام ہے وہ بھی فصل میں سے مہیا ہو جاتا ہے۔
پھر خشکی اور تری کے پرندے اور جانور ہیں، اُن میں بھی اللہ تعالیٰ نے کھانے کے سامان مہیا فرمائے ہیں۔ سمندر کے پانی کے اندر رہنے والی چیزوں میں بھی، سمندرکے اوپر بھی، پانی کے اوپر رہنے والے پرندوں میں سے بھی اور خشکی میں رہنے والے پرندوں اور جانوروں میں سے بھی۔ پھران میں سے کھانے کے سامان کے ساتھ ساتھ ہماری زندگیوں کے لئے پینے کے سامان بھی مہیا فرمائے ہیں۔ سردی گرمی سے بچانے کے لئے بھی جانوروں میں سے سامان مہیا فرمایا اور سواری کے سامان بھی مہیا فرمائے ہیں۔ خوبصورت لباس مہیا کرنے کے لئے ہمارے ربّ نے ایک کیڑے کو اس کام پر لگایا ہوا ہے جو محنت کرتا ہے اور ہمارے لئے اچھا ریشم مہیا کرتا ہے،جس کو پہن کر اکثر لوگ بجائے شکر گزاری کے جذبات کے اس کو اپنے لئے بڑائی اور تفاخر کا ذریعہ بنا لیتے ہیں۔
پھر اس زمانے میں اگرجانوروں کو سواری کے استعمال کے لئے متروک کیا یاکم استعمال میں آئے تو زمین سے ایک ایسی توانائی مہیا کردی جس کی مدد سے زمین کے سفر بھی آسان ہو گئے ہیں، سمندر کے سفر بھی آسان ہو گئے ہیں، فضاؤں کو بھی اس کی مدد سے انسان نے مسخّرکر لیا ہے۔ غرض اللہ تعالیٰ نے ہمیں زمین و آسمان کی جو نعمتیں مہیا فرمائی ہیں، زمین و آسمان کی جو چیزیں ہمارے ربّ نے ہماری خدمت کے لئے لگائی ہوئی ہیں یہ بے شمار ہیں جن کے نام لیتے چلے جائیں تو ایک لمبی فہرست بن جائے گی۔
افسوس ہے کہ انسانوں کی اکثریت اس با ت پر اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہونے کی بجائے کہ کن کن انعامات سے اس نے انسان کو نوازا ہے، اللہ تعالیٰ سے جو ربُّ العالمین ہے منہ موڑ رہی ہے۔ لیکن یہ چیز ایک احمدی سے اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ اُس کا شکر گزار بنتے ہوئے اس کے بتائے ہوئے طریق پر اس کی عبادت کی جائے۔ نظر دوڑا کر دیکھ لیں، غور کرکے دیکھ لیں، ہمیں صرف اور صرف وہی ایک ربّ نظر آئے گا جو قرآن کریم نے ہمیں دکھایا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جس کی طرف رہنمائی فرمائی ہے یہی وہ ربّ ہے جو ہمیں یہ ساری نعمتیں مہیا فرما رہا ہے جو ربُّ العالمین ہے۔
پس وہی ہے جو یہ سب نعمتیں دینے کی وجہ سے تعریف کا حقدار ہے اور عبادت کے لائق ہے نہ کہ چھوٹے چھوٹے ربّ جو انسان نے بنائے ہوئے ہیں کہ ان کی طرف توجہ کی جائے جو کچھ بھی دینے کی طاقت نہیں رکھتے اور جن کو اپنے آپ کو بچانے اور سنبھالنے کے لئے دوسروں کی مدد کی ضرورت ہے۔ پس ان سب باتوں کی طرف توجہ دلانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر تعلیم اتار کر یہ اعلان کروا دیا،جیسا کہ مَیں نے پہلے تلاوت میں کہا تھا

قُلْ اِنِّیْ نُہِیْتُ اَنْ اَعْبُدَ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ

کہ مجھے منع کیا گیا ہے کہ مَیں اُن کی عبادت کروں جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو، کسی اور کے آگے جھکنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ سیدھا راستہ دکھائے جانے کے بعد یہ سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا کہ مَیں نافرمانوں میں شامل ہو جاؤں۔مَیں اللہ تعالیٰ کے نشان دیکھ چکا ہوں جو میر ے ایمان کو مضبوطی بخشتے ہیں۔ پس مَیں اللہ کے حکم سے یہ اعلان کرتا ہوں کہ

وَاُمِرْتُ اَنْ اُسْلِمَ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْن

کہ مجھے یہ حکم دیا گیاہے کہ مَیں تمام جہانوں کے ربّ کا کامل فرمانبردار ہوجاؤں۔ مَیں ناشکرگزار لوگوں کی طرح،ربّ کی پہچان نہ کرنے والے لوگوں کی طرح، غیراللہ کی طرف نہیں جھک سکتا۔ اتنے روشن نشانوں اور اپنے ربّ کے اتنے احسانوں کے بعد سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ مَیں کسی اور کی عبادت کروں۔
پس اب ہمارے قدم اسی ربُّ العالمین کی عبادت کی طرف بڑھیں گے جس کے لئے انسان پیدا کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی عبادت کا حکم دینے کے بعد بے یارو مددگااور بغیر کسی راہنما کے نہیں چھوڑ دیا۔ بلکہ اس زمانے میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی اور اپنے وعدے کے مطابق ہماری حالت زار کو دیکھتے ہوئے ایک منادی کو اتار دیا ہے۔ جہاں اللہ تعالیٰ ہماری مادی اور ظاہری ضروریات کو پورا کرنے کے لئے اپنی ربوبیت کے جلوے دکھا رہا ہے وہاں مسیح و مہدی ٔ موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھیج کر اللہ تعالیٰ نے ہماری روحانی غذا کا بھی انتظام فرما دیا۔ ہمیں اپنی طرف آنے والے راستوں کی نشاندہی بھی کر دی ہے اور رہنمائی کرنے کے لئے ایک رہنما بھی عطا فرما دیا ہے۔ ہم اُس رہنما کو ماننے والے ہیں اور یہ اعلان کرتے ہیں کہ

رَبَّنَآ اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِیًا یُّنَادِیْ لِلْاِیْمَان

کہ اے ہمارے ربّ یقینا ہم نے ایک منادی کرنے والے کو سنا ہے جو ایمان کی طرف منادی کر رہا تھا، جو تیری طرف سے بھیجا ہوا تھا اور ہم اس کی آواز پر لبیک کہہ رہے ہیں، تیرے اس انعام کی ہم قدر کر رہے ہیں اور تجھ سے ہی دعا مانگتے ہیں کہ اب ایمان میں بھی ہمیں کامل رکھنا۔ ایک ذی شعو ر انسان، ایک عقل مند انسان، ایک مومن جو اللہ تعالیٰ کے نشانات کو دیکھ کر ایمان لایاہے، جس کی رہنمائی فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے اپنے بھیجے ہوئے کو قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے، وہ یہ سب کچھ دیکھ کراس بات کا نہیں سوچ سکتا کہ اپنے ربّ کا کامل فرمانبردار نہ بنے۔
پس احمدی کا یہ اعلان ہے اور ہونا چاہئے کہ ہم تو اپنے ربّ کے حکم کے مطابق جو ربُّ العالمین ہے اس کے تمام حکموں پر عمل کرتے ہوئے کامل فرمانبرداری سے اس کے آگے جھکتے ہیں اور اس کے حضور یہ عرض کرتے ہیں کہ

رَبَّنَا فَاغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا وَکَفِّرْعَنَّا سَیِّاٰ تِنَا وَ تَوَفَّنَا مَعَ الْاَبْرَار(آل عمران:194)

کہ اے ہمارے ربّ ہمارے گناہ بخش دے اور ہم سے ہماری تمام برائیاں دور کر دے اور ہمیں نیکوں کے ساتھ موت دے۔ ہم عاجزی سے یہ عرض کرتے ہیں کہ اب جبکہ ہم نے اس امام کو مان لیا ہے، تیرے حکموں پر عمل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، ہماری یہ دعا قبول فرما کہ ہم اب کبھی کسی قسم کی برائیوں میں نہ پڑیں، کسی بھی قسم کی غلطیوں کا ارتکاب ہم سے نہ ہو، ہمیشہ گناہوں سے بچتے رہیں، پس اے ہمارے خد ا تو ہمارے گناہ بخش دے اور ہمیں ہر قسم کی برائیوں سے بچائے رکھ، جب ہمارا واپسی کا وقت آئے، اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہونے کا وقت آئے تو ہم میں سے ہر ایک کا شمار ان لوگوں میں سے ہو جو نیک لوگ ہیں، ہمارا شمار ان لوگوں میں سے ہو جنہوں نے حضرت مسیح موعود
علیہ الصلوٰۃوالسلام کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنے ایمانوں کو درست اور قوی کیا، اپنے ایمانوں کو ہمیشہ دنیا کے گند اور گرد و غبار سے بچائے رکھا۔لیکن یہ بات ہمیں ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے کہ اگر ہماری دعاؤں کے ساتھ ہمارے عمل مطابقت نہیں رکھتے ہوں گے تو پھر ہماری فرمانبرداری کبھی کامل فرمانبرداری نہیں کہلا سکتی اور جب کامل فرمانبرداری نہ ہو تو پھر دعا بھی نہیں رہتی بلکہ ہمارے منہ سے نکلے ہوئے کھوکھلے الفاظ ہوتے ہیں۔ پس ہمیں ہمیشہ اپنے جائزے لینے چاہئیں کہ منادی کی آواز سن کر ہم جو اعلان کرتے ہیں کہ اے ہمارے ربّ ہم تجھے گواہ بنا رہے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے، کیا ہمارا یہ اعلان حقیقت پر مبنی ہے؟ کیا یہ کامل فرمانبرداری والا ایمان ہے؟ کیا ہم نے سچائی کو سمجھتے ہوئے اپنے ربّ کو گواہ بنا کر اس کو پکارا ہے؟ یا ماحول کے زیر اثر یہ آواز لگائی ہے، یہ صدا دی ہے اور ہمیں صفت رب کا صحیح طرح فہم و ادراک نہیں ہے اور یہ پکار صرف زبانی جمع خرچ ہے، کھوکھلا دعویٰ ہے، یہ کھوکھلا نعرہ ہمارے کسی کام نہیں آئے گا۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو حقیقی طورپر اس روح کو سمجھنے کی توفیق دے جو اس دعا کے پیچھے ہونی چاہئے، اپنے ربّ کو پکارتے ہوئے ہمیں اپنے اندر ایک درد کی کیفیت محسوس ہو، ہم اپنے ربّ کو درد سے پکار کر اپنے آپ کو نیکوں میں شامل کرنے کی درخواست کر رہے ہوں، اللہ سے یہ دعا مانگ رہے ہوں کہ ہمیں حقیقی نیک بنا دے۔ پھر یہ بھی جائزے لینے ہوں گے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہم سے کیا چاہتے ہیں اور ہم کس حد تک آپ کی خواہشات پر آپ کی تعلیم پر عمل کر رہے ہیں۔
جب ہم اپنے ربّ سے نیکیوں پر چلنے اور اس پر قائم رہنے کے لئے دعا مانگتے ہیں تو اس نظر سے کہ وہ ربُّ العالمین ہے اور ہمارے ربّ کے احکامات تمام زمین و آسمان پر لاگو ہیں۔ ہمارے ربّ کی تعلیم یورپ کے لئے بھی ہے اور امریکہ کے لئے بھی ہے، ایشیا کے لئے بھی ہے اور جزائر کے لئے بھی ہے۔ اسی طرح افریقہ کے لئے بھی ہے۔ اس کرّہ ارض کے لئے بھی ہے اور تمام زمین و آسمان اور کائنات کے لئے بھی، تمام کائنات اس کے تصرف میں ہے۔ جہاں بھی انسان موجود ہے یا آئندہ جب کبھی وہاں پہنچے گا تو ہمارے ربّ کے تمام حکم اس پر لاگو ہوں گے۔
اتنی وضاحت مَیں اس لئے کر رہاہوں کہ مَیں جب خطبے یا تقریر میں کوئی بات کرتا ہوں تو بعض احمدی سمجھتے ہیں کہ یہ ہدایت صرف اس جگہ کے لئے ہے جہاں خطاب ہو رہا ہے۔ ایک احمدی کا یہ رویّہ نہیں ہونا چاہئے بلکہ کسی بھی احمدی کو یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ مَیں جس ملک میں خطبہ یا تقریر میں کوئی بات کروں جو خداتعالیٰ کی تعلیم کے حوالے سے ہے تووہ صرف اسی ملک کے لئے ہے۔بلکہ جہاں جہاں بھی احمدی موجود ہیں وہ سب اس کے مخاطب ہوتے ہیں۔ جب ہم یہ سمجھیں گے تو تبھی ہم میں یکرنگی پیدا ہو گی اور تبھی ہم ایک ربُّ العالمین کے ماننے والے کہلا سکیں گے۔
گزشتہ دنوں میں ایک خطبہ مَیں نے عائلی تعلقات، گھریلو، میاں بیوی کے تعلقات اور ساس بہو کے تعلقا ت پر دیا تھا، پھر لجنہ اماء اللہ U.K. کے اجتماع پر پردے کے بارے میں عورتوں کو توجہ دلائی تھی اور اس پر زور دیا تھا تو سنا ہے کہ بعض ملکوں میں بعض عورتیں اور مردیہ پوچھتے ہیں یا آپس میں باتیں کر رہے ہیں کہ کیا یہ باتیں جن پر توجہ دلائی گئی ہے صرف U.K.کے لئے ہیں یا ہم سب اس کے مخاطب ہیں۔
پہلے وقتوں میں تو شاید بعض خاص جگہوں کے لئے بعض باتیں کہی جاتی ہوں لیکن اب تو دنیا ہر جگہ قریبی رابطے ہونے کی وجہ سے ایک ہو گئی ہے اس لئے برائیاں بھی تقریباً مشترک ہو چکی ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے اس زمانے کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے ہمیں MTA کی نعمت سے نوازا ہے تاکہ اس ربّ، جو ربُّ العالمین ہے کی تعلیم سے ہٹنے والوں کو فوری طور پر توجہ دلائی جا سکے۔ اگر ایک جگہ برائی پھیل رہی ہے تو نیکی بھی فوری طور پر اس جگہ پہنچ جانی چاہئے۔ پس ہر احمدی جہاں کہیں بھی ہو، اگر تو یہ سمجھتا ہے کہ وہ

وَاُمِرْتُ اَنْ اُسْلِمَ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْن

یعنی مجھے حکم دیا گیاہے کہ میں تمام جہانوں کے ربّ کا کامل فرمانبردار ہو جاؤں، کا مخاطب ہے تو پھر وہ باتیں جو ہمارے ربّ نے ہمیں بتائی ہیں ،جو میں نے اپنے خطبے اور تقریر میں بیان کی ہیں اور جو مختلف وقتوں میں بیان کرتا ہوں وہ دنیا میں ہر جگہ کے احمدی کے لئے ہیں۔ اس لئے عمل نہ کرنے کے بہانے تلاش نہیں کرنے چاہئیں بلکہ ہر ایک کو اس کا مخاطب سمجھنا چاہئے۔جب کامل اطاعت اور فرمانبرداری اور اللہ کے حکموں پر عمل کرنے اور اس کی عبادت کی طرف توجہ رہے گی تو تبھی ہم اپنے ربّ کو مخاطب کرکے نیکوں کے ساتھ وفات کے وقت شامل ہونے کی دعا کر رہے ہوں گے، یہ دعا کر رہے ہوں گے کہ اے اللہ ہمیں اپنے تمام احکاما ت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرما تا کہ ہمارا شمار بھی ان لوگوں میں ہوجو کامل فرمانبردار ہوں اور صرف تیری عبادت کرنے والے ہوں اور جو

فَادْخُلِیْ فِیْ عِبَادِیْ وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ(الفجر:31-30)

کے انعام کے حاصل کرنے والے ہوں۔ ایک مومن کا کام تو یہ ہے کہ یہ مقام حاصل کرنے کے لئے ایمان لانے کے بعد،یہ اعلان کرنے کے بعد کہ مَیں ایمان لے آیا،

رَبِّ اَوْزِعْنِیْ اَنْ اَشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِیٓ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ(النمل:20)

(کہ اے میرے رب تو مجھے توفیق بخش کہ مَیں تیری نعمت کا شکر ادا کروں جو توُ نے مجھ پر کی ہے) کی دعامانگتے ہوئے اس اللہ کے شکر گزار ہوں، اپنے ربّ کے شکر گزار ہوں جس نے ہم پر یہ فضل فرمایا ہے کہ ایمان کی توفیق بخشی۔ اور پھر اس کے ساتھ ہماری توجہ اس طرف ہونی چاہئے اور ہمیں یہ دعا کرنے والے ہونا چاہئے کہ

وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰہُ وَاَدْخِلْنِیْ بِرَحْمَتِکَ فِیْ عِبَادِکَ الصّٰلِحِیْنَ(النمل:20)

کہ اے میرے ربّ ان نیک اعمال بجا لانے کی مجھے توفیق دے جو تجھے پسند ہوں اور پھر اس کے نتیجہ میں تو ہمیں اپنی رحمت میں سمیٹتے ہوئے اپنے نیک بندوں میں شامل کر لے۔
پس نیک نیتی سے یہ دعا کرنے والے اور اعمال صالحہ بجالانے والے اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے فَادْخُلِیْ فِیْ عِبَادِیْ وَادْخُلِیْ جَنَّتِی کا انعام حاصل کرنے والے ہوتے ہیں۔ پس جب ہم اپنے ربّ سے دعائیں مانگتے ہیں جو ہمارے ربّ نے ہمیں سکھائی ہیں تو ضروری ہے کہ اس کے لوازمات بھی پورے کئے جائیں اور یہ لوازمات جیسا کہ ہم نے دیکھا ہے اعمال صالحہ ہیں۔ پس یہ کہنا کہ یہ خطبہ فلاں کے لئے ہے اور یہ تقریر فلاں کے لئے ہے، اپنے آپ کو اپنی دعاؤں سے محروم کرنے والی بات ہے۔ ایک طرف تو ہم کہیں کہ ہم اپنے ربّ سے دعا مانگتے ہیں کہ ہمیں اپناقریب ترین مقام عطا فرما لیکن دوسری طرف ہم کہیں کہ دعا تو یہی ہے لیکن یہ دعا ہم اپنی شرائط پر مانگنا چاہتے ہیں۔ دنیا میں بھی کہیں یہ طریق نہیں کہ مانگنے والے کہیں کہ مجھے دو بھی اور دو بھی میری شرطوں کے مطابق۔ ایسے شخص کو دنیا پاگل کے علاوہ اور کیا کہے گی؟ ایسے شخص کوبیوقوف سمجھا جائے گا۔ لیکن دنیاوی معاملات میں بعض اوقات ہو بھی جاتا ہے۔
گزشتہ دنوں کسی نے مجھے لکھا کہ میرا رشتہ نہیں ہوتا، نظارت رشتہ ناطہ پاکستان تعاون نہیں کرتا۔ جب مَیں نے رپورٹ لی تو پتہ لگا کہ رشتے تو کئی تجویز کئے ہیں لیکن پسند نہیں آئے او ر وجہ یہ تھی کہ لڑکے نے کہا کہ رشتہ میری شرط کے مطابق ہونا چاہئے۔ خود یہ صاحب میٹرک پاس ہیں، تعلیم معمولی ہے اور شرط یہ تھی کہ لڑکی پڑھی لکھی ہو، ایم اے ہو اور کام کرتی ہو، کماکے لانے والی ہو، شادی پر مجھے مکان بھی ملے، دس بیس لاکھ روپیہ نقد بھی ملے، میرا خرچ بھی اٹھائے اور پھر یہ کہ صرف خرچ ہی نہ اٹھائے بلکہ مجھے کام کرنے کے لئے نہ سسرال والے اور نہ ہی لڑکی کچھ کہے، جب مرضی ہو کام کروں یا نہ کروں۔تو ایسے شخص کو ذہنی مریض کے علاوہ اور کیا کہا جا سکتا ہے۔ ایسے رشتوں اور ایسے لڑکوں پر تورشتہ ناطہ کو توجہ ہی نہیں دینی چاہئے تھی(پتہ نہیں کیوں وہ تجویز کرتے رہے)، کیونکہ اگر ایسے لوگوں سے ہی واسطہ رہا تو رشتے ناطے کا عملہ بھی کہیں ذہنی مریض نہ بن جائے۔افسوس ہے کہ خیر کامطالبہ تو ہوتاہے لیکن ایسا کوئی بھی نہیں کرتا۔ لیکن عملی صورت بعض جگہ اس طرح نظر آجاتی ہے کہ شادی کے وقت تو کچھ نہیں کہتے اور کوئی شرط نہیں لگاتے لیکن شادی کے بعد عملی رویّہ یہی ہو جاتا ہے، بعضوں کی شکایات آتی ہیں۔ لڑکی والوں سے غلط قسم کے مطالبے کر رہے ہوتے ہیں۔ اگر مرضی کا جواب نہ ملے اور مطالبات پورے نہ ہوں تو پھر لڑائی جھگڑے اور فساد اور لڑکیوں کو طعنے وغیرہ ملتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو بھی عقل دے اور رحم کرے۔ پس ایک بے وقوف اور ظالم کے علاوہ جس نے اپنی جان پر ظلم کیا ہوتا ہے،(کیونکہ انسانوں کی طرح اللہ تعالیٰ پر ظلم تو کوئی نہیں کر سکتا) ایسا شخص کوئی ایسی بات کرتا ہے تو اپنی جان پر ظلم کر رہا ہوتا ہے۔ ایسے شخص کے علاوہ جس کو اپنے ربّ کی صفت ربوبیت کا کوئی فہم و ادراک نہیں ہے جس کو پتہ ہی نہیں ہے کہ ہمارے ربّ نے ہم پر کیا کیا احسان کئے ہوئے ہیں اور ہم پر احسان کرتے ہوئے جو احکامات دئیے ہیں ان پر عمل کرکے ہم ان دعاؤں سے فیض پا سکتے ہیں جو ہمارے ربّ نے ہمیں سکھائی ہیں، اس کے بغیرنہیں۔
توایک دعا جو سورۃالشعراء کی تین آیات ہیں اس میں یہ سکھائی ہے کہ

رَبِّ ھَبْ لِیْ حُکْمًا وَّاَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَ وَاجْعَلْ لِّیْ لِسَانَ صِدْقٍ فِی الْاٰخِرِیْن وَاجْعَلْنِیْ مِنْ وَّرَثَۃِ جَنَّۃِ النَّعِیْم (الشعراء:84تا 86)

کہ اے میرے ربّ مجھے حکمت عطا کر اور مجھے نیک لوگوں میں شامل کر اور میرے لئے بعد میں آنے والے لوگوں میں سچ کہنے والی زبان مقدر کر دے اور مجھے نعمتوں والی جنت کے وارثوں میں سے بنا۔
پس ایسے لوگ جو اپنے ربّ کی پہچان نہیں رکھتے اور عقل سے عاری ہیں ان کی باتیں سن کر یہی دعا ہے جوہمارے لئے حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کی تھی۔ پس ہمیں ہمیشہ اپنے ربّ سے عقل کی اور حکمت کی اور صحیح باتوں کو اختیار کرنے کی اور ان پر قائم رہنے کی دعا مانگنی چاہئے اور پھر اس کے ساتھ اعمال صالحہ بجا لانے کی طرف توجہ رہنی چاہئے جس کی اللہ تعالیٰ نے بار ہا ہمیں تلقین فرمائی ہے، بار ہا ہمیں توجہ دلائی ہے اور بار بار اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اس کے علاوہ نیک لوگوں میں شامل ہونے کا کوئی اور راستہ نہیں ہے، ان لوگوں میں شامل ہونے کا جو سچائی پر ہمیشہ قائم رہے، جنہوں نے سچ بات کہی، شرک اور جھوٹ کے خلاف جہاد کرکے حقوق اللہ بھی قائم کئے اور حقوق العباد بھی قائم کئے اور اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرتے ہوئے نیکیاں پھیلانے والے اور سچ کہنے والے بنے، جن کو ہمیشہ اُن کی نیکیوں کی وجہ سے یاد کیا جاتا ہے اور پیچھے رہنے والے لوگوں میں بھی ان کی نیکیوں کی وجہ سے ان لوگوں کے تذکرے ہوتے ہیں اور ایسے لوگوں کی دعا قبول کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ انہیں جنت کی نعمتوں کا وارث بناتا ہے۔ پس سچائی کو قائم رکھنے اور سچوں میں شمار ہونے کے لئے ضروری ہے کہ صحیح تعلیم اور حکمت پر قائم رہنے کی دعا کرتے رہیں۔ انبیاء کا دائرہ وسیع ہوتا ہے وہ اس دائرے میں اپنے ربّ سے مانگتے ہیں اور ہر مومن کا دائرہ ہر ایک کی اپنی استطاعت کے مطابق ہوتا ہے،اُن صلاحیتوں کے مطابق ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کو عطا کی ہیں۔ لیکن سچائی کا بنیادی سبب ہمیشہ ہر ایک کو پیش نظر رہنا چاہئے تاکہ زندگی میں بھی اور بعد میں بھی سچوں میں ہی ذکر ہو اور ان کا سچوں میں ہی شمار ہو۔ پس اس پہلو سے بھی ہر ایک کو اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ کوئی ایسا فعل سرزد نہ ہو،کوئی ایسا کلمہ نہ نکلے جو سچائی کے خلاف ہو۔ اس کے لئے ہر احمد ی کو کوشش کرنی چاہئے تاکہ اپنے ربّ کے احسانوں کا شکر ادا کر سکے اور اس کے انعاموں کا وارث بن سکے۔ ملازمت کرنے والا ہے یا کوئی بھی کام کرنے والا ہے تو محنت اور ایمانداری سے کام کرے، لوگوں سے معاملات ہیں تو ان کے حقوق کا خیال رکھے۔ جماعتی ذمہ داریاں ہیں، چاہے اعزازی خدمت کی صورت میں ہے یا وقف زندگی کارکن کی صورت میں ہے ان میں کبھی کسی قسم کی سُستی یا سچائی سے ہٹی ہوئی بات سامنے نہ لائے۔ ہر ایک شام کو اپنا جائزہ لے تاکہ پتہ لگے کہ کس حد تک صدق پر قائم ہے، ضمیر گواہی دے کہ ڈرتے ڈرتے دن بسر کیا اور راتیں بھی اس بات کی گواہی دیں کہ تقویٰ سے رات بسر کی۔ اگر دن اور رات میں ہماری سچائی اور تقویٰ کے معیار رہے تو کامیابی ہے لیکن اگر معیار گر رہے ہیں تو اس دعا کے حوالے سے کہ ہم نے آنے والے منادی کو سنا، منادی کو مانا یہ بات غلط ہو جائے گی، یہ جھوٹ ہے، اپنے نفس سے بھی دھوکہ ہے اور خدا تعالیٰ جو ہمارا ربّ ہے اس سے بھی دھوکہ ہے۔ پس رَبَّنَا کی صدا تب قبولیت کا درجہ رکھتی ہے جب سچے دل کے ساتھ تمام احکامات اور عہد بیعت پر قائم رہنے کی کوشش ہو۔ انسان کمزور ہے، غلطیاں کرتا ہے لیکن ان کو دُور کرنے کی کوشش کرنا اور اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنا بھی ضروری ہے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا تھا (شاید گزشتہ خطبے میں یااس سے پہلے) کہ ہمارا ربّ اتنا مہربان ہے کہ اُس نے ہمیں بخشنے کے لئے ہمیں استغفار کے طریقے بھی سکھائے ہیں تاکہ ہم خالص ہو کر اس کے حضور جھکیں۔اور اس کے حضور خالص ہو کر کی گئی استغفار کو اللہ تعالیٰ قبولیت کا درجہ دیتا ہے اور اسے قبول فرماتا ہے۔
فرماتا ہے

قَالَ رَبِّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ فَاغْفِرْلِیْ فَغَفَرَلَہٗ اِنَّہ ھُوَالْغَفُوْرُالرَّحِیْم (القصص:17)

اس نے کہا اے میرے رب یقینا مَیں نے اپنی جان پر ظلم کیا، پس مجھے بخش، تو اس نے اسے بخش دیا یقینا وہی ہے جو بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔ تو یہ جو دُعا یہاں بیان کی گئی ہے یہ قصّہ کہانی کے طور پر نہیں لکھی گئی۔ بلکہ اس لئے بتائی ہے کہ اگر تم خالص ہو کر اپنے ربّ سے مانگو تو وہ تمہارے ساتھ بھی یہی سلوک کرے گا۔ پس جب دل سے دعا نکلے تو اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے مطابق بخشش کا سلوک فرماتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہر احمدی سے ایسا سلوک فرمائے اور ہر احمدی اپنے ربّ کی مغفرت کی چادر میں لپٹنے کے بعد ہمیشہ اس حکم کا مصداق بن جائے اور اس پر عمل کرنے والا ہو کہ

فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَکُنْ مِّنَ السّٰجِدِیْنَ (الحجر:99)

یعنی اپنے ربّ کی حمد کے ساتھ تسبیح کر اور سجدہ کرنے والوں میں سے ہو جا۔
پس یاد رکھیں جب اس زمانے کے پکارنے والے اور مسیح و مہدی کی آواز کو سنا ہے تو تمام دوسرے ربّوں سے نجات حاصل کرتے ہوئے صرف اور صرف ربِّ محمد صلی اللہ علیہ وسلم، جو ربُّ العالمین ہے کے سامنے جھکنا ہو گا اور اس کی تسبیح کرتے ہوئے اور اس کی حمد کرتے ہوئے اپنی زندگیاں گزارنی ہوں گی۔ ہمیں وہ سجدہ کرنا ہو گا جس کی اس زمانے کے امام نے ہمیں پہچان کروائی ہے۔ وہ سجدہ جو صرف اور صرف ربُّ العالمین کے دَر پر کیا جاتا ہے کیونکہ وہی ایک ربّ ہے اور اس کے علاوہ کوئی ربّ نہیں جو کسی مومن کے دل میں بستا ہو یا کسی احمدی کے دل میں بس سکتا ہو۔ پس ایک احمدی کی توجہ ہر وقت اُس ربّ کے آگے جھکے رہنے کی طرف ہونی چاہئے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس سلسلے میں فرماتے ہیں کہ:
’’ دیکھو دراصل رَبَّنَا کے لفظ میں توبہ ہی کی طرف ایک باریک اشارہ ہے کیونکہ رَبَّنَا کا لفظ چاہتا ہے کہ وہ بعض اور ربّوں کو جو اس نے پہلے بنائے ہوئے تھے ان سے بیزار ہوکر اُس ربّ کی طرف آیا ہے اور یہ لفظ حقیقی درد اور گدازکے سوا انسان کے دل سے نکل ہی نہیں سکتا۔ ربّ کہتے ہیں بتدریج کمال کو پہنچانے والے اور پرورش کرنے والے کو۔اصل میں انسان نے بہت سے ارباب بنائے ہوئے ہیں ‘‘۔ بہت سے رب ّبنائے ہوئے ہیں۔یہ ربّ کی جمع ہے۔ ’’اپنے حیلوں اور دغابازیوں پر اسے پورا بھروسہ ہوتا ہے تو وہی اس کے ربّ ہوتے ہیں۔ اگر اسے اپنے علم کا یاقوت بازو کا گھمنڈ ہے تو وہی اس کے ربّ ہیں۔ اگر اسے اپنے حُسن یا مال یا دولت پر فخر ہے تو وہی اس کا ربّ ہے۔ غرض اس طرح کے ہزاروں اسباب اس کے ساتھ لگے ہوئے ہیں۔ جب تک ان سب کو ترک کرکے ان سے بیزار ہو کر اس واحد لاشریک سچے اور حقیقی ربّ کے آگے سر نیاز نہ جھکائے اوررَبَّنَا کی پُردرد اور دل کو پگھلانے والی آوازوں سے اس کے آستانہ پر نہ گرے، تب تک وہ حقیقی ربّ کو نہیں سمجھا۔پس جب ایسی دل سوزی اور جاں گدازی سے اس کے حضور اپنے گناہوں کا اقرار کرکے توبہ کرتا اور اسے مخاطب کرتا ہے کہ رَبَّنَا یعنی اصلی اور حقیقی ربّ تو توُ ہی تھا مگر ہم اپنی غلطی سے دوسری جگہ بہکتے پھرتے رہے۔ اب مَیں نے ان جھوٹے بتوں اور باطل معبودوں کو ترک کر دیا ہے اور صدقِ دل سے تیری ربوبیت کا اقرار کرتا ہوں، تیرے آستانہ پر آتا ہوں۔
غرض بجز اس کے خد اکو اپنا ربّ بنانا مشکل ہے جب تک انسان کے دل سے دوسرے ربّ اور ان کی قدر و منزلت و عظمت و وقار نکل نہ جاوے تب تک حقیقی ربّ اور اس کی ربوبیت کا ٹھیکہ نہیں اٹھاتا۔
بعض لوگوں نے جھوٹ ہی کو اپنا ربّ بنایا ہواہوتا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ ہمارا جھوٹ کے بدوں گزارا ہی مشکل ہے‘‘۔ اس کے بغیر گزارا نہیں۔’’ بعض چوری و راہزنی اور فریب دہی ہو کو اپنا ربّ بنائے ہوئے ہیں۔ ان کا اعتقاد ہے کہ اس راہ کے سوا ان کے واسطے کوئی رزق کاراہ ہی نہیں ہے۔ سو ان کے ارباب وہ چیزیں ہیں۔ دیکھو ایک چور جس کے پاس سارے نقب زنی کے ہتھیار موجود ہیں اور رات کا موقعہ بھی اس کے مفید مطلب ہے اور کوئی چوکیدار وغیرہ بھی نہیں جاگتا ہے تو ایسی حالت میں وہ چوری کے سوا کسی اور راہ کو بھی جانتا ہے جس سے اس کا رزق آ سکتا ہے؟ وہ اپنے ہتھیاروں کو ہی اپنا معبود جانتا ہے۔ غرض ایسے لوگ جن کو اپنی ہی حیلہ بازیوں پر اعتماد اور بھروسہ ہوتا ہے ان کو خدا سے استعانت اور دعا کرنے کی کیا حاجت؟ دعا کی حاجت تو اسی کو ہوتی ہے جس کے سارے راہ بند ہوں اور کوئی راہ سوائے اس دَر کے نہ ہو۔ اسی کے دل سے دعا نکلتی ہے۔ غرض

رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَاحَسَنَۃ…الخ

ایسی دعا کرنا صرف انہیں لوگوں کا کام ہے جو خدا ہی کو اپنا ربّ جان چکے ہیں اور ان کو یقین ہے کہ ان کے ربّ کے سامنے اور سارے ارباب باطلہ، ہیچ ہیں ‘‘۔
(الحکم جلد 7نمبر11مورخہ24؍مارچ 1903ء صفحہ 10-9۔ ملفوظات جلد سوم صفحہ 145-144جدید ایڈیشن)
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے رب کی پہچان کروائے اور صرف اور صرف وہی ذات ہو جس کے آگے ہم سب سجدہ کرنے والے ہوں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں