خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ 9؍فروری 2007ء

قرآن شریف کی اصطلاح کے رو سے خداتعالیٰ رحیم اس حالت میں کہلاتا ہے جبکہ لوگوں کی دعا اور تضرّع اور اعما ل صالحہ کو قبول فرما کر آفات اور بلاؤں اور تضییع اعمال سے ان کو محفوظ رکھتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی صفت رحیم سے اگر فیض اٹھانا ہے تو ہر انسان جو عقل اور شعور رکھتا ہے اسے چاہئے کہ اپنی عاجزی اور انکساری کوبڑھائے، دعا اور تضرّع اور اعمال صالحہ کی طرف توجہ کرے۔
اگر انسان صفت رحیمیت سے فیض نہیں اٹھا رہا تو پھر ایسا انسان حیوانات بلکہ جمادات کے برابر ہے
(حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کی پرمعارف تحریرات وارشادات کے حوالہ سے صفت رحیمیت کی نہایت لطیف تفسیر کا روح پرور بیان)
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ مورخہ 09؍فروری 2007ء(09؍تبلیغ 1386ہجری شمسی )

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ لَا تُحْصُوْھَا۔اِنَّ اللّٰہَ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ (النحل:19)

گزشتہ چند خطبوں سے مَیں اللہ تعالیٰ کی صفت رحمن کا ذکر کر رہا تھا، آج مَیں صفت رَحِیْم کے تحت کچھ بیان کروں گا۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ سورۃ فاتحہ جو قرآن کریم کی پہلی سورۃ ہے اور جسے ہم ہر نماز کی ہر رکعت میں پڑھتے ہیں، اس میں اللہ تعالیٰ کی جو تیسری صفت بیان ہوئی ہے وہ اَلرَّحِیْم ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’تیسری خوبی خداتعالیٰ کی جو تیسرے درجہ کا احسان ہے رحیمیت ہے۔ جس کو سورۃ فاتحہ میں اَلرَّحِیْم کے فقرہ میں بیان کیا گیا ہے۔ اور قرآن شریف ک، اصطلاح کی رو سے خداتعالیٰ رحیم اس حالت میں کہلاتا ہے جبکہ لوگوں کی دُعا اور تضرع اور اعمال صالحہ کو قبول فرما کر آفات اور بلاؤں اور تضییع اعمال سے ان کو محفوظ رکھتاہے‘‘۔
(ایام الصلح۔ روحانی خزائن جلد 14صفحہ249)
اس لفظ اور صفت کی وضاحت میں بعض علماء اور مفسرین نے جو معنے کئے ہیں وہ مَیں مختصراً بیان کرتا ہوں۔ اس کے بعد پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الفاظ میں ان کو بیان کروں گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشاد کے بعد یا آپ کی کسی وضاحت کے بعد کسی اور سند کی ضرورت تو نہیں ہوتی لیکن اس بیان کرنے سے یہ بھی اندازہ ہو جاتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نگاہ جس کو براہ راست اللہ تعالیٰ کی طرف سے بصیرت اور بصارت عطا کی گئی تھی، وہ آپ ہی کا حصہ ہے کیونکہ آپ ہی وہ مسیح و مہدی ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق آئے۔ بہرحال مختصراً پہلے مفسرین اور علماء کی تفسیر پیش کرتا ہوں جس سے اس لفظ کے معانی پر روشنی پڑتی ہے۔
مفردات امام راغب میں لکھا ہے کہ اَلرَّحِیْم اُسے کہتے ہیں جس کی رحمت بہت زیادہ ہو۔اقرب الموارد کہتی ہے کہ اَلرَّحِیْم رحم کرنے والا۔ نیز یہ اللہ تعالیٰ کے اسماء حُسنیٰ میں سے ہے۔ بہرحال لغوی بحث جو بھی ہے اس میں اس طرح کے ملتے جلتے معانی ملتے ہیں۔ اس لئے ان کو چھوڑتا ہوں اور بعض مفسرین کی اس لفظ کے تحت جو تفسیر بیان ہوئی ہے وہ بیان کرتا ہوں۔ اس کے بعد جیسا کہ مَیں نے کہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حوالے سے اس صفت کے بارے میں بیان کروں گا۔
تفسیرالجامع لاحکام القرآن۔ یہ ہے ابو عبداللہ محمد بن احمد الانصاری القرطبی کی۔ یہ کہتے ہیں کہ الرحمن کے ساتھ ہی الرحیم کی صفت لانے کی حکمت بیان کرتے ہوئے محمد بن یزید کہتے ہیں کہ یہ فضل کی عطا کے بعد دوسری عطا ہے۔ اور ایک انعام کے بعد دوسرا انعام ہے۔ خدا کی رحمت کی امید رکھنے والوں کی امیدوں کوتقویت بخشنے کے لئے ہے۔ اور ایک ایسا وعدہ ہے جس کے وفا ہونے کی امید رکھنے والا کبھی نامراد نہیں رہتا۔
پھر کہتے ہیں کہ جمہور علماء کا قول ہے کہ اَلرَّحِیْم نام کے اعتبار سے عام ہے اور اپنے اظہار کے لحاظ سے خاص و مختص ہے۔
پھر اسی میں لکھتے ہیں کہ ابو علی فارسی رحمن کی صفت بیان کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ جبکہ اَلرَّحِیْم کی صفت صرف مومنین کے حوالے سے آتی ہے جیسا کہ فرماتا ہے

وَکَانَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَحِیْمًا (الاحزاب:44)

عبدالمالک العرزمی کہتے ہیں کہ صفت رحیم مومنوں کو ہدایت عطا کرنے اور ان پر لطف و کرم کرنے کے لئے آتی ہے۔
ابن المبارک کہتے ہیں کہ

اَلرَّحْمٰن

وہ ہے کہ جس سے جب بھی مانگا جائے وہ عطا کرتا ہے اور اَلرَّحِیْم وہ ہے کہ جس سے اگر نہ مانگا جائے تو وہ ناراض ہوتا ہے۔ چنانچہ ترمذی میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ حدیث مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

مَنْ لَّمْ یَدْعُ اللّٰہَ سُبْحَانَہٗ غَضِبَ عَلَیْہِ

یعنی جو شخص اللہ تعالیٰ سے دعا نہیں کرتا اور اس سے مانگتا نہیں اللہ اس پر غضبناک ہوتا ہے۔
ایک شاعر نے اس مضمون کو اپنے الفاظ میں یوں ڈھالا ہے۔

اَللّٰہُ یَغْضَبُ اِنْ تَرَکْتَ سُؤَالَہٗ
وَبُنَیُّ اٰدَمَ حِیْنَ یُسْئَلُ یَغْضَبٗ

یعنی اللہ وہ ہے کہ اگرتُو اس سے سوال کرنا اور مانگنا چھوڑ دے تو وہ ناراض ہو جاتا ہے۔ جبکہ اس کے مقابل بعض انسانوں کا حال یہ ہے کہ اگر کوئی ان سے مانگ بیٹھے تو اس پر ناراض ہو جاتے ہیں۔
تو دیکھ لیں یہی چیز ہوتی ہے۔ کوئی پیچھے پڑ جائے کوئی چیز مانگنے کے تو آخر تنگ آکر دے تو دیتے ہیں۔ لیکن آگے سے پھر جھڑک بھی دیتے ہیں کہ آئندہ ایسی حرکت نہ کرنا۔
پھر انہی کے بیان میں حوالہ ہے مہدوی کا۔ کہتے ہیں کہ مہدوی کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ میں رحیم لا کر یہ بتایا ہے کہ تم رحیم یعنی محمدﷺ کے وسیلے سے ہی مجھ تک پہنچ سکتے ہو۔
حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ان کے پوچھنے پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اَلرَّحْمٰن اس اعتبار سے ہے کہ وہ مخلوق میں سے ہر نیک وبدپر مہربانی کرنے والا ہے۔ اور

اَلرَّحِیْم

کی صفت خاص مومنوں پر رفق کرنے کے اعتبار سے ہے۔
بعض جگہ صفت رحمن کا بھی ذکر آجائے گا۔ تو یہ اس لئے ضروری ہے کہ رحمن اور رحیم کے جو الفاظ ہیں ان کا مادہ ایک ہے۔ تو اس لحاظ سے مقابلہ کرنے کے لئے بعض جگہ دوبارہ دوہرایا جائے گا۔ جو ہو سکتا ہے پہلے بھی ہوچکا ہے۔

اَلرَّحْمٰن

علامہ رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ

اَلرَّحْمٰن

کا نام اللہ تعالیٰ کے خاص ہے۔ جبکہ

اَلرَّحِیْمِ

اللہ تعالیٰ کے لئے بھی اور اس کے سوا بھی بولا جاتا ہے۔ اور اگر یہ کہا جائے کہ پھر اس طرح

اَلرَّحْمٰن

برتر اور اعلیٰ ہے۔ تو پھر ادنیٰ کا ذکر اعلیٰ کے بعد کیوں کیا گیا۔ یعنی پہلے رحمن اور پھر رحیم۔ تو کہتے ہیں کہ اس کا جواب یہ ہے کہ سب سے بڑا عظیم جو ہوتا ہے اس سے معمولی اور سہل الحصول چیز طلب نہیں کی جاتی۔ حکایت ہے کہ کوئی شخص کسی بڑے آدمی کے پاس گیا اور کہا کہ میں ایک معمولی سے کام کے لئے حاضر ہوا ہوں۔ جس پر اس بڑے آدمی نے کہا کہ معمولی کام کے لئے کسی معمولی شخص کے پاس جاؤ۔ تو گویا اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ اگر تم رحمن کے ذکر پر رک جاؤ تو مجھ سے مانگنے سے جھجھکتے اور شرماتے رہو گے۔اور معمولی معمولی ضروریات مجھ سے مانگنے سے رک جاؤ گے لیکن جیسا کہ تم مجھے جانتے ہو کہ مَیں رحمن ہوں اور اس حوالے سے تم مجھ سے بڑی بڑی چیزیں طلب کرتے ہو۔ ویسا ہی مَیں رحیم بھی ہوں۔ پس تم مجھ سے جوتے کا تسمہ بھی طلب کرو اور اپنی ہنڈیا کا نمک بھی مانگو۔
(تفسیر کبیر از علامہ فخرالدین رازی تفسیر سورۃ الفاتحہ الفضل الثالث فی تفسیرقولہ الرحمن الرحیم جزء اول صفحہ234۔ناشر دارالکتب العلمیہ طہران ایڈیشن دوم )
پھر علاّمہ رازیؒ فرماتے ہیں کہ وہ رحمان ہے اس نسبت سے کہ وہ ایسی تخلیق کرتا ہے کہ جس کی طاقت بندہ نہیں رکھتا اور وہ رحیم ہے اس نسبت سے کہ وہ ایسے افعال کرتا ہے کہ جیسے افعال کر ہی نہیں سکتا۔ گویا وہ فرماتا ہے کہ مَیں رحمن ہوں کیونکہ تم ایک حقیر سے نطفہ کا ذرہ میرے سپرد کرتے ہو تو مَیں تمہیں بہترین شکل و صورت عطا کرتا ہوں۔ نیز مَیں رحیم ہوں کیونکہ تم ناقص اطاعت مجھے دیتے ہو مگر مَیں تمہیں اپنی خالص جنت تمہیں عطا کرتا ہوں۔
(تفسیر کبیر از علامہ فخرالدین رازی تفسیر سورۃ الفاتحہ الفضل الثالث فی تفسیرقولہ الرحمن الرحیم جزء اول صفحہ235۔ناشر دارالکتب العلمیہ طہران ایڈیشن دوم )
تو یہ چند بڑے بڑے مفسرین کا مختصر بیان مَیں نے کیا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’رحیمیت اپنے فیضان کے لئے موجود ذوالعقل کے منہ سے نیستی اور عدم کا اقرار چاہتی ہے۔ اور صرف نوع انسان کے ساتھ تعلق رکھتی ہے‘‘۔
(ایام الصلح روحانی خزائن جلد 14صفحہ243)
یعنی اس صفت سے اگر فیض اٹھانا ہے توہر انسان جو عقل اور شعور رکھتا ہے اپنی عاجزی اور انکساری کو بڑھائے اور دعا اور تضرع کی طرف توجہ کرے اور تبھی پھر فیض حاصل ہو گا۔ تکبر اور غرور اپنے اندر سے نکالو گے تبھی صفت رحیمیت سے فیض پاؤ گے۔ یعنی نیک اعمال ہوں گے تو فیض سے حصہ ملے گاکیونکہ اگر کسی بھی قسم کی بڑائی ہو تو اللہ تعالیٰ کے حضور اُس عاجزی سے انسان حاضر ہو ہی نہیں سکتا جو اس کے ایک عبد بننے کے لئے ضروری ہے۔ تو اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہونے کا تقاضا ہے کہ اپنی ہستی کو کچھ نہ سمجھے،اپنے وجود کو کچھ نہ سمجھے، اپنی ذات کو کوئی حقیقت نہ دے۔
پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس بارے میں مزید فرماتے ہیں ‘’اَلرَّحِیْمیعنی وہ خدا نیک عملوں کی نیک تر جزا دیتا ہے( اور) کسی کی محنت کو ضائع نہیں کرتا اور اس کام کے لحاظ سے رحیم کہلاتا ہے اور یہ صفت رحیمیت کے نام سے موسوم ہے۔‘‘
(رپورٹ جلسہ اعظم مذاہب صفحہ123بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام جلد اول صفحہ66مطبوعہ ربوہ)
یہ پہلے دو حوالے مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پڑھے ہیں ان کی مزید وضاحت اس حوالے سے ہوتی ہے۔ فرماتے ہیں :
’’رحیمیت وہ فیض الٰہی ہے جو صفت رحمانیت کے فیوض سے خاص تر ہے۔ یہ فیضان نوع انسانی کی تکمیل اور انسانی فطرت کو کمال تک پہنچانے کے لئے مخصوص ہے۔ لیکن اس کے حاصل کرنے کے لئے کوشش کرنا،عمل صالح بجا لانا اور جذبات نفسانیہ کو ترک کرنا شرط ہے۔ یہ رحمت پورے طور پر نازل نہیں ہوتی جب تک اعمال بجا لانے میں پوری کوشش نہ کی جائے۔ اور جب تک تزکیہ نفس نہ ہو اور رِیا کو کلی طور پر ترک کرکے خلوص کامل اور طہارتِ قلب حاصل نہ ہو اور جب تک خدائے ذوالجلال کی خوشنودی حاصل کرنے کی خاطر موت کو قبول نہ کر لیا جائے۔ پس مبارک ہیں وہ لوگ جنہیں ان نعمتوں سے حصہ ملا بلکہ وہی اصل انسان ہیں اور باقی لوگ تو چارپایوں کی مانند ہیں۔ (یعنی جانوروں کی طرح ہیں)
(اردو ترجمہ عربی عبارت از’ اعجازالمسیح ‘۔روحانی خزائن جلد 18 صفحہ96-95۔تفسیر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام جلد اول صفحہ 44مطبوعہ ربوہ )
یہ جو بیان ہے اس سے پتہ لگا کہ یہ صفت جو ہے یہ انسانی فطرت کو کمال تک پہنچانے والی صفت ہے اور یہ کمال تک پہنچنے والے کون لوگ تھے۔ اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں سورۃ فاتحہ میں دعا سکھائی ہے کہ یہ دعا کروکہ ہمیں ان کمال حاصل کرنے والے لوگوں میں شامل فرمااور وہ کون لوگ تھے۔ وہ لوگ تھے جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایا۔ یعنی منعم علیہ گروہ۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس بارے میں فرماتے ہیں کہ:
’’چوتھا سمندر صفت

اَلرَّحِیْم

ہے اس سے

صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ (الفاتحۃ:7)

کا جملہ مستفیض ہوتا ہے تابندہ خاص انعام یافتہ لوگوں میں شامل ہو جائے کیونکہ رحیمیت ایسی صفت ہے جو انعامات خاصّہ تک پہنچا دیتی ہے۔ جن میں فرمانبردار لوگوں کا کوئی شریک نہیں ہوتا۔گو( اللہ تعالیٰ کا )عام انعام انسانوں سے لے کر سانپوں اژدھاؤں تک کو اپنے احاطہ میں لئے ہوئے ہے۔‘‘
(کرامات الصادقین۔ روحانی خزائن جلد 7صفحہ118۔اردو ترجمہ عربی عبارت بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام جلد اول صفحہ 116)
صفت رحیم کی وجہ سے یہ انعام ملتا ہے۔ تو ان انعام یافتہ لوگوں کی تعریف اللہ تعالیٰ نے یوں فرمائی ہے کہ

وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُوْلٰئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مِّنَ النَّبِیِّیْنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّہَدَآء وَالصّٰلِحِیْنَ وَحَسُنَ اُوْلٰئِکَ رَفِیْقًا(النساء:70)

اور جو لوگ بھی اللہ اور رسول کی اطاعت کریں گے وہ ان لوگوں میں شامل ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا ہے۔ یعنی انبیاء اور صدیقین اور شہداء اور صالحین۔ اور یہ لوگ بہت ہی اچھے رفیق ہیں۔ تو رحیمیت سے فیض حاصل کرنا بعض عمل چاہتا ہے اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا اس میں سے جو بنیادی چیز ہے وہ اللہ اور رسول کی کامل اور مکمل اطاعت ہے تبھی انعام یافتہ ٹھہریں گے۔ عبادتوں کے معیار بھی بلند کرنے کی ضرورت ہے اور دوسرے نیک اعمال بجا لانے بھی انتہائی ضروری ہیں۔ جن کی وضاحت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمائی ہے جس میں نفسانی جذبات کو مکمل طور پر ترک کرنا ہے، ہر عمل وہ ہو جو اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہو، جس میں قطعاً اپنا نفس شامل نہ ہو اور یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔ بڑا مشکل کام ہے جب نفس کی قربانی دینی پڑتی ہے۔ لیکن جذبات کو کچلے بغیر اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مکمل حصہ نہیں ملتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں پھر یہ پورے طور پر نازل نہیں ہوتی۔ پس دعاؤں کی قبولیت کے لئے اور اللہ تعالیٰ کی رحیمیت سے حصہ پانے کے لئے اپنے نفسوں کو ٹٹولنے کی ضرورت ہے کہ کس حد تک ہمارے اعمال نیک ہیں، حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرنے والے ہیں اور اس کی خاطر اپنی خواہشات اور اپنے نفسوں کو کچلنے والے ہیں۔ اگر یہ نہیں تو ہمارا یہ کہنا بھی غلط ہے کہ ہم صرف اپنے اللہ کے آگے جھکنے والے ہیں۔ اس سے مانگنے والے ہیں۔ پس اس کے لئے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ پوری کوشش اور محنت کی ضرورت ہے۔ ایک جہاد کی ضرورت ہے تبھی نفس مکمل طور پر پاک ہو گا۔ ریا سے کامل طور پر ہمارے دل تبھی صاف ہوں گے۔ ہمارے دل خدائے ذوالجلال کی خوشنودی حاصل کرنے والے تبھی ہوں گے اور پھر جب ایسی صورت پیدا ہو جائے گی تو پھر اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے مطابق اس گروہ میں شامل کرے گا جس کے بارہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ نبیوں، صدیقوں، شہیدوں اور صالحین کا گروہ ہے اور پھر اس بات کو اپنی زندگیوں میں ہم عملی طور پر دیکھنے والے ہوں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ بھی جو فرمایا ہے کہ

وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ لَا تُحْصُوْھَا

تو پھر اللہ کی اتنی نعمتیں ہوں گی کہ تم ان کا شمار بھی نہیں کر سکو گے۔ پس اس چیز کو حاصل کرنے کے لئے اس کی رحیمیت سے حصہ پانے کے لئے ہمیں استغفار کرتے ہوئے اپنے اعمال بھی درست کرنے ہوں گے تبھی اس صفت سے فیضیاب ہو سکیں گے۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتیں تو ویسے توہر چیز پر ہیں۔ اور کوئی ان سے باہر نہیں لیکن وہ رحمانیت کی صفت کے تحت ہیں۔ لیکن رحیمیت کی صفت سے حصہ لے کر ایک اللہ کا بندہ اللہ تعالیٰ کے انعاموں پر شکر گزاری کا اظہار کرنے والا بن جاتا ہے اور اس زمانے میں یہ بھی اللہ تعالیٰ کا کتنا بڑا احسان ہے کہ اس نے مسیح و مہدی کو ماننے کی توفیق ہمیں عطا فرمائی ہے۔ اور دوسرے اس بات کے انکاری ہیں جو کہ عملاً اللہ تعالیٰ کی صفت رحیمیت سے ملنے والوں انعاموں سے ہی انکار ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کی روشنی سے حصہ پا کر اس زمانے میں جو ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صورت میں وہ چاند بھیجا جو روشنی پھیلا رہا ہے اس کی بجائے دوسرے جو مسلمان ہیں،پیروں فقیروں کے گھروں پہ جا کر ان دیوں کو روشنی سمجھ رہے ہیں حصہ پا رہے ہیں اور اسی وجہ سے پھر بدعتوں اور برائیوں میں پڑتے چلے جا رہے ہیں۔ کیونکہ وہ تو روشنیاں بجھتی چلی جا رہی ہیں۔
پس اس زمانے میں ایک احمدی کو اس رحیم خدا کی رحیمیت سے حصہ لینے کے لئے اس طرح بھی سوچنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی رحمانیت کے صدقے احمدی گھرانوں میں پیدا کیا یا نئے شامل ہونے والے جولوگ ہیں ان کو،ان کی دعاؤں کو قبول کرتے ہوئے اپنی رحیمیت کے صدقے احمدیت قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننے کی توفیق دی۔تو ان فضلوں اور نعمتوں کا تقاضا یہ ہے کہ ہم شکر گزاری کریں۔ اللہ اور اس کے رسول کی کامل اور مکمل اطاعت کریں۔ اعمال صالحہ بجا لائیں۔ اس کی بخشش کے ہر وقت طلبگار رہیں۔ تمام دنیاوی اور دینی نعمتوں کو اپنے سامنے رکھیں۔ اور دیکھیں کہ کونسا فضل ہے جو اُس نے ہم پر نہیں کیا۔ ہر طرح کے انعامات سے ہمیں نوازا ہے اور پھر ہمیں یہ بھی راستہ دکھا دیا کہ میری بخشش مانگتے رہو کیونکہ ان چیزوں پر یعنی نیکیوں پر قائم رہنے کے لئے اور ان کے معیار بلند کرنے کے لئے استغفار بہت ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ کے انعام کی وجہ سے علم و عرفان میں یا نیکیوں میں یا روحانیت میں ترقی کے لئے عاجزی کا اظہار اور استغفار بہت ضروری ہے۔ورنہ تکبر کا خنّاس جو ہے اچھے بھلے لوگوں کو تباہی کی طرف لے جاتا ہے اوپر جاتے جاتے نیچے کی طرف چلنا شروع ہو جاتے ہیں اور اس وقت وہ نیکی اور علم کچھ کام نہیں آرہا ہوتا۔ پس رحیم خدا کی رحیمیت کے ساتھ استغفار بہت ضروری ہے۔ اور اسی لئے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے رحیم کا لفظ جب استعمال کیا ہے وہاں اکثر جگہ پر صفت غفور کے ساتھ رحیم کو استعمال کیا گیا ہے۔ پس صفت رحیمیت سے فیض پانے کے لئے اعمال صالحہ اور استغفار انتہائی بنیادیں چیزیں ہیں۔
پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’رحیمیت میں ایک خاصہ پردہ پوشی کا بھی ہے مگر اس پردہ پوشی سے پہلے یہ بھی ضروری ہے کہ کوئی عمل ہو اور اس عمل کے متعلق کوئی کمی یا نقص رہ جائے تو اللہ تعالیٰ اپنی رحیمیت سے اس کی پردہ پوشی فرماتا ہے۔ رحمانیت اور رحیمیت میں فرق یہ ہے کہ رحمانیت میں فعل اور عمل کو کوئی دخل نہیں ہوتا۔مگر رحیمیت میں فعل و عمل کو دخل ہے۔ لیکن کمزوری بھی ساتھ ہی ہے۔خدا کا رحم چاہتا ہے کہ پردہ پوشی کرے‘‘۔
(ملفوظات جلد اول صفحہ 127-126جدید ایڈیشن )
پس اس سے یہ بات مزید کھل گئی کہ رحیمیت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اپنی صفت غَفُوْر کو کیوں رکھا ہوا ہے۔ اس لئے تاکہ بندوں کے لئے جو رحم اللہ تعالیٰ رکھتا ہے اس کی وجہ سے ان کو مغفرت کی چادر سے ڈھانپ لے اور ڈھانپتے ہوئے ان کی پردہ پوشی فرماتا رہے۔ لیکن جیسا کہ حضرت مسیح موعود ؑ نے فرمایا کہ کوئی عمل ہونا چاہئے۔ یہ نہیں کہ عمل کوئی نہ ہو اور توقع ہو اللہ تعالیٰ سے پردہ پوشی کی۔اور پھر بدیوں پہ اصرار نہیں ہونا چاہئے۔ اگر کوئی برائی ہو گئی تو پھر استغفار کرے تاکہ اللہ تعالیٰ کی مغفرت شامل حال ہواور اس کی پردہ پوشی ہو جائے۔ توبہ کی طرف توجہ ہونی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

کَتَبَ رَبُّکُمْ عَلٰی نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ اَنَّہٗ مَنْ عَمِلَ مِنْکُمْ سُوْٓئًا بِجَہَالَۃٍ ثُمَّ تَابَ مِنْ بَعْدِہٖ وَاَصْلَحَ فَاَنَّہٗ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(الانعام:55)

یعنی تمہارے ربّ نے اپنے اوپر رحمت فرض کر دی ہے اور یہ کہ تم میں سے جو کوئی جہالت سے بدی کا ارتکاب کرے پھر اس کے بعد توبہ کر لے اور اصلاح کر لے تو یاد رکھے کہ وہ یعنی اللہ یقینا بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔ تو یہاں بھی وہی ایک مثال مَیں نے پہلے دی تھی کہ اللہ تعالیٰ بخشتا تو ہے لیکن یہ ہے کہ انسان توبہ کی طرف متوجہ ہو۔ اُس قاتل کی جس نے99قتل کئے تھے اور 100پورے کر دئیے تھے لیکن کیونکہ توبہ کا خیال آگیا نیکی کی طرف بڑھ رہا تھا اللہ تعالیٰ نے اس کی بخشش کے سامان کردئیے۔ پس صفت رحیم سے زیادہ سے زیادہ فیض پانے کے لئے توبہ کرتے ہوئے اس آگے جھکنا اور اعمال صالحہ بجا لانا انتہائی ضروری ہے۔
ایک جگہ فلسفہ دعا اور رحیمیت کے تعلق کو بیان کرتے ہوئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’دوسری رحمت رحیمیت کی ہے۔ یعنی جب ہم دعا کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ دیتا ہے۔ غور کیا جاوے تو معلوم ہو گا کہ قانون قدرت کا تعلق ہمیشہ سے دعا کا تعلق ہے۔ بعض لوگ آج کل اس کو بدعت سمجھتے ہیں۔ ہماری دعا کا جو تعلق خداتعالیٰ سے ہے مَیں چاہتا ہوں کہ اسے بھی بیان کروں ‘‘۔
فرماتے ہیں کہ: ‘’ایک بچہ جب بھوک سے بیتاب ہو کر دودھ کے لئے چلاّتا اور چیختا ہے تو ماں کے پستان میں دودھ جوش مار کر آجاتا ہے۔ بچہ دعا کا نام بھی نہیں جانتا۔ لیکن اس کی چیخیں دودھ کو کیونکر کھینچ کر لاتی ہیں۔ اس کا ہر ایک کو تجربہ ہے۔ بعض اوقات دیکھا گیا ہے کہ مائیں دودھ کو محسوس بھی نہیں کرتیں۔ مگر بچے کی چلاّہٹ ہے کہ دودھ کو کھینچے لاتی ہے۔ تو کیا جب ہماری چیخیں اللہ تعالیٰ کے حضور ہوں تو کچھ بھی نہیں کھینچ کر لاسکتیں؟ آتا ہے اور سب کچھ آتا ہے مگر آنکھوں کے اندھے جو فاضل اور فلاسفر بنے بیٹھے ہیں وہ دیکھ نہیں سکتے۔ بچے کو جو مناسبت ماں سے ہے۔ اس تعلق اور رشتے کو انسان اپنے ذہن میں رکھ کر دعا کی فلاسفی پر غور کرے تو وہ بہت آسان اور سہل معلوم ہوتی ہے۔ دوسری قسم کا رحم یہ تعلیم دیتا ہے کہ ایک رحم مانگنے کے بعد پیدا ہوتا ہے مانگتے جاؤگے ملتا جائے گا۔

اُدْعُوْ نِیٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ (المومن :61)

کوئی لفاظی نہیں بلکہ یہ انسانی سرشت کا ایک لازمہ ہے۔ مانگنا انسان کا خاصہ ہے۔ اور استجابت اللہ تعالیٰ کا۔ جو نہیں سمجھتااور نہیں مانتا وہ جھوٹا ہے۔ بچے کی مثال جو مَیں نے بیان کی ہے وہ دعا کی فلاسفی خوب حل کرکے دکھاتی ہے۔ رحمانیت اور رحیمیت دو نہیں ہیں۔ پس جو ایک کو چھوڑ کر دوسری کو چاہتا ہے اسے مل نہیں سکتا۔ رحمانیت کا تقاضا یہی ہے کہ وہ ہم میں رحیمیت کے فیض اٹھانے کی سکت پیدا کرے جو ایسا نہیں کرتا وہ کافر نعمت ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد اول صفحہ82-81 جدید ایڈیشن )
یعنی اللہ تعالیٰ نے جو سامان اپنی صفت رحمانیت کے تحت عطا فرمائے ہوئے ہیں، جو انتظامات فرمائے ہوئے ہیں زندگی گزارنے کے،یہ جو مادی سامان ہیں یہ بھی اور جو روحانی سامان ہمیں مہیا فرمایا ہے اس کے لئے بھی جیسا کہ مَیں پہلے بھی بیان کر آیا ہوں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم میری نعمتوں کے شکر گزار ہو کیونکہ تم نعمتوں کا شمار تو کر نہیں سکتے۔ اتنی زیادہ ہیں۔ پس ان نعمتوں کا جو صفت رحمانیت کے تحت اللہ تعالیٰ نے ہمیں دی ہیں تقاضا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفت رحیمیت کے تحت ان سے مزید حصہ لینے اور ان کو جاری رکھنے کے لئے بھی اس کے حضور دعائیں کریں اور اس کے حقوق ادا کریں، عبادت اور اعمال صالحہ بجا لائیں۔
پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام صفت اَلرَّحِیْم کے بارے میں فرماتے ہیں کہ:
’’یہ احسان دوسرے لفظوں میں فیض خاص سے موسوم ہے اور صر ف انسان کی نوع سے مخصوص ہے۔ دوسری چیزوں کو خدا نے دعا اور تضرع اور اعمال صالحہ کا ملکہ نہیں دیا مگر انسان کودیا ہے۔ انسان حیوان ناطق ہے اور اپنی نُطق کے ساتھ بھی خداتعالیٰ کا فیض پا سکتا ہے‘‘۔ بولنے کی طاقت اللہ تعالیٰ نے دی ہے اور اپنے بولنے سے دعائیں مانگنے سے اللہ تعالیٰ کا فیض پا سکتا ہے۔ ’’دوسری چیزوں کو نُطق عطا نہیں ہوا۔ پس اس جگہ سے ظاہر ہے کہ انسان کا دعا کرنا اس کی انسانیت کا ایک خاصہ ہے جو اس کی فطرت میں رکھا گیا ہے۔ اور جس طرح خداتعالیٰ کی صفات ربوبیت اور رحمانیت سے فیض حاصل ہوتا ہے اسی طرح صفت رحیمیت سے بھی ایک فیض حاصل ہوتا ہے۔ صرف فرق یہ ہے کہ ربوبیت اور رحمانیت کی صفتیں دعا کو نہیں چاہتیں کیونکہ وہ دونوں صفات انسان سے خصوصیت نہیں رکھتیں اور تمام پرند چرند کو اپنے فیض سے مستفیض کر رہی ہیں۔ بلکہ صفت ربوبیت تو تمام حیوانات اور نباتات اور جمادات اور اجرام ارضی اور سماوی کو فیض رسان ہے‘‘۔ جو حیوان ہیں جاندار ہیں ان کو بھی،پودوں کو بھی،دوسری غیر جاندار چیزیں ہیں ان کو بھی بلکہ تمام کائنات میں جتنے بھی ستارے، سیارے ہیں اور جو کچھ بھی ہے وہ سب اس سے فیض پا رہا ہے’’اور کوئی چیز اس کے فیض سے باہر نہیں۔بر خلاف صفت رحیمیت کے کہ وہ انسان کے لئے ایک خلعت خاصہ ہے۔ انسان کے لئے ایک ایسی چیز ہے، ایک ایسا لباس ہے، ایک ایسا انعام ہے۔ جو صرف انسان کے لئے خاص ہے اور اگر انسان ہو کر اس صفت سے فائدہ نہ اٹھاوے تو گویا ایسا انسان حیوانات بلکہ جمادات کے برابر ہے‘‘۔ اگر انسان صفت رحیمیت سے فیض نہیں اٹھا رہا تو پھر وہ انسان نہیں ہے بلکہ وہ جانور کی طرح ہے یا بلکہ بے جان چیزوں کی طرح ہے۔ پتھر اینٹ روڑے کی طرح ہے بلکہ جمادات کے برابر ہے۔’’جبکہ خداتعالیٰ نے فیض رسانی کی چار صفت اپنی ذات میں رکھی ہیں اور رحیمیت کو جو انسان کی دُعا کو چاہتی ہے خاص انسان کے لئے مقرر فرمایا ہے۔ پس اس سے ظاہر ہے کہ خداتعالیٰ میں ایک قسم کا وہ فیض ہے جو دعا کرنے سے وابستہ ہے اور بغیر دعا کے کسی طرح مل نہیں سکتا۔ یہ سنت اللہ اور قانون الٰہی ہے کہ جس میں تخلّف جائز نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام اپنی اپنی اُمّتوں کے لئے ہمیشہ دعا مانگتے رہے……۔ حقیقت یہ ہے کہ دعا پر ضرور فیض نازل ہوتا ہے جو ہمیں نجات بخشتا ہے۔ اسی کا نام فیض رحیمیت ہے جس سے انسان ترقی کرتا جاتا ہے۔ اسی فیض سے انسان ولایت کے مقامات تک پہنچتا ہے اور خداتعالیٰ پر ایسا یقین لاتا ہے کہ گویا آنکھوں سے دیکھ لیتا ہے‘‘۔
(ایام الصلح روحانی خزائن جلد 14صفحہ250-249)
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی صفت رحیمیت کا صحیح فہم و ادراک عطا فرمائے اور ہم اسے اس کے فضل سے ہم اسے اپنی زندگیوں میں لاگو کرتے ہوئے، اس پر مکمل عمل کرنے والے بنیں تاکہ اللہ تعالیٰ کے انعامات اور احسانات سے مزید حصہ پانے والے ہوں اور منعم علیہ گروہ میں شامل ہونے والے ہوں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں